اسلامى تمدن ميں علوم كى پيش رفت
علوم كى درجہ بندي:كلى طور پر ديكھا جائے تو اسلامى دانشوروں كى آغاز ميں عالم طبيعت بالخصوص انسان كے حوالے سے علم طب ميں انہى حدود كے اندر نگاہ تھى كہ جو يونانى علماء نے متعين كى تھيں اسى طرح علم فلكيات كے حوالے سے وہى بطلميوس كا زمين كو مركز قرار دينے والا نظريہ ركھتے تھے، ليكن اسلامى دانشوروں كى تحقيق و مطالعہ نے انہيں ان نظريات سے مختلف حقائق سے آشنا كيا، لہذا طب، علم فلكيات ، رياضى ، فزكس كے حوالے سے عالم اسلام ميںايسے نكات اور قواعد سامنے آئے كہ جنكے بارے ميں كہا جاسكتا ہے كہ وہ كسى بھى طرح سے يونان سے نہيں ليے گئے بلكہ وہ اساسا اسلامى مفكرين كى كاوشوں كا نتيجہ ہيں ، اس حوالے سے مزيد تجزيہ و تحليل كيلئے ضرورى ہے كہ سب سے پہلے ہم اسلامى تمدن ميں علوم كى درجہ بندى پر نگاہ ڈاليں ،يو ںان تمام علوم كى اقسام ميں اسلامى دانشوروں اور انكى تحقيقات سے آشنا ہونے كے ساتھ ساتھ ان حقيقى نكات اور مسائل كا تجزيہ كريں كہ جو يونانى علوم كى حدود اور معيار سے ہٹ كر سامنے آئے _اسلام ميں علوم كى درجہ بندى كے حوالے سے مختلف روشيں موجود ہيں اوريہ روشيں عام طور پر اپنے بانيوں كى اپنے ارد گرد كے جہان پر انكى خاص نگاہ سے وجود ميں آتى رہيں ، پہلى درجہ بندى ميں علوم كود و اقسام نظرى اور عملى ميں تقسيم كيا گيا ، البتہ يہاں ابھى ان علوم عملى كى كيفيت اور انجام كے طريقہ كار كو مد نظر نہيں ركھا گيا، علوم نظرى كہ جنہيں حكمت نظرى سے بھى تعبير كيا گياہے ان ميں اصول شناخت و معرفت زير بحث ہيں اور بحث كا موضوع وجود اور اسكا مادے سے تعلق كى حالت ہے ،يہ علوم پھر تين اقسام ميں تقسيم ہوئے ہيں علم الہى (علم اعلي) وہ امور جو مادہ سے جدا ہيں ،علم حساب و رياضى (علم اوسط) ان علوم كى بحث مكمل طور پر ذہنى اور مادہ
46سے ہٹ كرہے اور علم طبيعى (علم ادني) جو مادہ كے بارے ميں بحث كرتا ہے خواہ وہ ذہنى صورت ميں ہو ں يا ذہن سے باہر كى دنيا ميں _اسى طرح علوم عملى بھى تين اقسام ميں تقسيم ہوتے ہيں :’علم اخلاق ‘كہ جو انسان كى انفرادى و ذاتى زندگى سے مربوط ہے ،علم’ تدبير منزل’ كہ جوگھرانے سے متعلق ہے اور علم سياست كہ جو معاشرہ كے مسائل سے متعلق ہے ،يہ درجہ بندى يونانى فلسفہ بالخصوص ارسطو كے فلسفہ كے زير اثر تشكيل پائي_دوسرى درجہ بندى علوم كے اپنے حقيقى ہدف كے ساتھ بلاواسطہ تعلق كى بنا پر ہے يعنى ان مختلف علوم سے ايك معين ہدف تك پہنچے كيلئے فائدہ اٹھا يا جا تا ہے ، مثلا حكمت نظرى يا شرعى علوم ميںشناخت و معرفت كومركزيت حاصل ہے جبكہ ديگر علوم مثلا صرف ونحو(گرائمر كے قواعد) ان كو سمجھنے ميں مدد ديتے ہيں_تيسرى درجہ بندى ميں علوم دو قسموں اسلامى اور غير اسلامى ميں تقسيم ہوتے ہيں ، علوم اسلامى وہ علوم ہيں كہ جنكا سرچشمہ مكمل طور پر مسلمانوں كى فكر و نظر ہے ، جبكہ علوم غير اسلامى وہ علوم ميں كہ جنكے اصول ديگر تہذيبوںں سے اسلام ميں پہنچے اور مسلمانوں نے اپنى تحقيقات ميں انہيں وسعت دى اور مختلف شاخوں ميں تقسيم كيا_چوتھى درجہ بندى ميں علوم دو قسموں شرعى اور غير شرعى ميں تقسيم ہوتے ہيں علوم شرعى سے مراد وہ چيزيں ہيں كہ جو پيغمبر اكرم(ص) اور ائمہ اطہار سے ہم تك پہنچيںكہ جن ميں اصول و فروع دين مقدمات اورمتممات دين شامل ہيں جبكہ علوم غير شرعى سے مراد فقط علوم عقلى ہيں مثلا رياضيات و غيرہ _پانچويں درجہ بندى ميں علوم دو قسموں عقلى اور نقلى (منقول )ميں تقسيم ہوتے ہيں يہاں علوم عقلى سے مراد حكمت ، كلام اور فلسفہ و غيرہ ہے جبكہ علوم نقلى سے مراد شرعى اور وہ معلومات كہ جو مختلف علوم مثلا علم فلكيات اور طب و غيرہ سے حكايت ہوئي ہيں_
47وہ اسلامى دانشور حضرات كہ جنہوں نے علوم كى درجہ بندى كے موضوع پر تحقيق كى ان ميں دو افراد كى رائے بہت اہميت كى حامل ہے ، ابونصر فارابى (متوفي329 قمري)اور محمد بن يوسف خوارزمى (متوفى 387 قمري)جناب فارابى وہ پہلے اسلامى دانشور ہيں جنہوں نے علوم كى درجہ بندى پر خصوصى توجہ كى انہوں نے اپنے خاص فلسفى ذوق كے ساتھ اپنى اہم كتاب ‘ احصاء العلوم’ ميں علوم كى درجہ بندى كو كلى طور پر’ آگاہي’ يا انكى اپنى تعبير ميں’ معرفت ‘كو انہوں نے پانچ ابواب ميں تقسيم كيا ہے : علم زبان ، منطق ، رياضيات ، علوم طبيعى و الہى اور حكمت عملى يااخلاق ، فارابى نے علوم طبيعى اور الہى كو چوتھے باب ميں اس ليے پيش كيا كيونكہ دونوں علم طبيعى موجودات كے بارے ميں گفتگو كرتے ہيں فقط اس فرق كے ساتھ كہ ايك ميں موجودات وجود مطلق يا واجب الوجود كے ساتھ متصل ہوتے ہيں جبكہ دوسرے ميں خود ‘واجب الوجود’ مورد توجہ قرار پاتاہے_اگر چہ جناب خوارزمى نے فارابى كى مانند علوم كو منطقى اور فلسفى نظم كے ساتھ مرتب نہيں كيا ليكن ہر علم كے دوسرے علوم كى نسبت موضوع اور ہدف كى بنياد پر فرق كو مد نظر ركھا ہے ، خوارزمى كى نگاہ ميں بعض علوم بذات خودہدف ہيں جبكہ بعض ديگر علوم مقصدتك پہنچے كا وسيلہ ہيں لہذا پہلے والے علوم ديگر علوم كى نسبت برترى كا مقام ركھتے ہيں انہوں نے اپنى كتاب’ مفاتيح العلوم ميں علوم كى ايك جديد درجہ بندى پيش كرنے كى كوشش كى يعنى علوم كو دو اقسام ميں تقسيم كيا پہلى قسم ‘ علوم شرعى ‘ اور دوسرى قسم اغيار كے علوم يا علوم عجمى ہيں ،انہوں نے اپنى كتاب كے پہلے حصہ ميں ان علوم اسلامى كے بارے ميں بحث كى كہ جنہوں نے اسلامى تہذيب و تمدن كى حدود ميںجنم ليا اور ارتقاء پايا جبكہ دوسرے حصہ ميں ان مختلف علوم پر بحث كى كہ جنہوں نے ايران ، يونان يا ہند ميں جنم ليا اور مسلمانوں نے انكى پيش رفت اور ارتقاء ميں موثر كردار كيا(1)———————–1) بواوسل ‘ دائرة المعارفہاى فارسى ‘ تہران ، ص 40 ، 20_48الف) غير اسلامى علوم:1) رياضيات:ترجمہ كى تحريك كے دور ميں يونانى رياضى دانوں كى بہت سى كتابوں كو عربى ميں ترجمہ كيا گيا اوربہت جلد ہى اسلامى رياضى دانوں نے يونانى رياضى دانوں كى سطح علمى پرسبقت حاصل كرلى ،انكى كتابوں كى بہت سى شروحات لكھى گئيںاور انہوں نے علوم رياضى كو بہت وسعت بخشى اس دور ميں رياضى كى اہم ترين يونانى كتاب كہ جسكا عربى ميں ترجمہ ہوا اور اس كى بہت سى شروحات لكھى گئيں اقليدس كى كتاب ‘اصول’ تھي، ليكن مسلمان رياضى دانوں كا اہم ترين كردار علم رياضى كے فقط ارتقاء ميں ہى نہ تھا بلكہ يہ كردار مشرق و مغرب يعنى يونان و ہند كى رياضيات كے بہترين امتزاج يعنى اسلامى رياضيات كى شكل ميں سامنے آيا اور بنى نوع انسان كيلئے اسلامى رياضيات ايك قيمتى ترين دريافت كى حيثيت ركھنے لگى _يہ اسلامى رياضيات كا ہى كارنامہ تھا كہ اس نے ہندسى رياضيات كى معلومات كو جس ميں اہم ترين يعنى اعشارى عدد نويسى كى روش كو رياضى كے ديگر يونانى قواعد كے ساتھ مخلوط كر كے ايك وحدانى شكل وصورت ميں ممكن كرتے ہوئے اہل مغرب كے سامنے پيش كيا، اگر چہ يونانى رياضيات اپنى چند ديگر شاخوں ميں مثلا مثلثات اوركروى علوم (spherical Seiences) ميں كافى ترقى كر چكى تھيں ليكن ايك سادہ عددنويسى كى روش نہ ہونے كى بناء پر يونان ميں علم اعداد ترقى نہ كرسكا تھا_كلى طور پر اسلامى رياضى دانوں كے علم رياضى كى مختلف اقسام ميں ثمرات كو يوں بيان كيا جا سكتا ہے: اعشارى نظام كى تكميل كے ذريعہ ہندى عدد نويسى كے نظام كى اصلاح مثلاً اعشارى كسور كى اختراع ،اعداد كى تھيورى ميں جديد مفاہيم لانا،علم الجبرا كى ايجاد، علم مثلثات اور علوم كروي(spherical Sciences) ميں اہم اور جديد انكشافات كرنا، درجہ 2 اور 3 كے عددى معادلات اور مسائل كا جواب پانے كيلئے مختلف روشوں كى تخليق_
49مسلمان ، مسلم رياضى دان رياضى دان محمد بن موسى خوارزمى كى كتاب’ الجمع و التفريق بالحساب الہند’ كے ذريعے ہند كى عددنويسى كى روش سے آشنا ہوئے ،خوارزمى كى يہ كتاب عالم اسلام ميں علم حساب پر لكھى جانے والى كتابوں ميںسے قديم ترين كتاب ہے اب صرف اسكا لاطينى زبان ميں ترجمہ باقى رہ گيا ہے ،خوارزمى كى اہميت كو اس لحاظ سے بھى جانچا جا سكتا ہے كہ يہ حساب كى پہلى كتاب ہے كہ جو عربى سے لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئي ، آج كے اہل مغرب رياضيات اور كمپيوٹر كے حوالے سے اشياء كے حساب و كتاب ميں معين روش بتانے كے ليے خوارزمى كا نام تحريف شدہ شكل ميں يعنى ‘ لاگر تھم (legarithms)’ كى صورت ميں ان پر اطلاق كرتے ہيں_جناب خوارزمى نے علم الجبرا كو وجود ميں لانے ميں اہم كردار ادا كيا ، اگرچہ اسلامى دانشوروں سے پہلے يونان ميں علم الجبرا موجودتھا اور يونانى دانشورمثلا فيثاغورث ، ارشميدس اور ڈائفنٹس اپنى كتب ميں مسائل الجبرا كے حل كے قريب پہنچ چكے تھے مگر مسلمان علماء اور دانشور حضرات اپنى منطقى روش اور يونانى رياضى دانوں كى تنقيدى اصلاح كے سبب اس علم كے بانيوں ميں شمار ہوئے لہذا ، اسلامى دانشور حضرات كے نزديك علم الجبرا علم حساب كے فارمولوں كا دائرہ كار اعداد تك بڑھانے اور اعداد كى جگہ حروف كے استعمال كے ذريعے اعداد كے مابين تعلقات كى تحقيق شمار ہوتاہے ، بعض مقداروں كو متوازن كركے مجہول مقادير كو معلوم كرنا اور پھر انكو حل كرنا علم الجبرا كى اہم ترين دريافت شمار ہوتى ہے_بلا شبہ علم الجبرا كى پہلى اور اسلامى دانشوروں كى اہم ترين كتاب ‘الجبر والمقابلہ’ جسے جناب محمد بن موسى خوارزمى نے تحرير كيا ، اس نام سے معنون كرنا بلا سبب نہيں ہے كيونكہ اس نام ميں علم الجبرا پر چھائي ہوئي كيفيت پنہا ن ہے يہاں ‘ جبر’ سے مراد ايك مسئلہ اور سوال كو منفى جملے كى صورت ميں استعمال كرنااور’ مقابلہ’ يعنى سوالات كو حل كرنے كيلئے مثبت جملات كو استعمال كرناہے ، اسلامى دانشوروں نے الجبراكو ايك علم كى شكل دى اور اسے ايك علم كى صورت ميں اور ايك علمى روش كے لحاظ سے مورد تحقيق قرار ديا ، مسلمان رياضى دانوں كا يہ
50گروہ كہ جسكا جناب خوارزمى سے آغاز ہوا تھا، خيام ، ماہانى ، ابوكامل شجاع بن اسلم ، ابوالوفاى بوزجانى ، خجندي، ابوسہل كوہى … و غيرہ ، كى كوششوں اور فعاليت سے اس كا م كو آگے بڑھا تا رہا_الجبرا كے قواعد اور سوالات كى درجہ بندى بالخصوص درجہ اول ، دوم اور سوم كے كى مساواتوںكى تنظيم اسلامى دانشوروں كا علم الجبرا كو منظم كرنے اور اسے سائنس كا نام عطا كرنے ميں اہم قدم تھا، بالخصوص جناب خيام كہ جنہوں نے تيسرے درجہ كى مساواتوں كو حل كرنے ميں اہم كردار ادا كيا اور چونكہ اس حوالے سے پہلى بار انہوں يہ قدم اٹھا يا لہذا انكا كام كافى مركز توجہ قرار پايا، اسى طرح اسلامى رياضى دان وہ پہلے افراد ہيں كہ جنہوں نے الجبرا كو جيوميٹرى ميں داخل كيا اور الجبرا كى مساواتوںكے ذريعے جيوميٹرى كے مسائل كو حل كيا اس علم كى آشنائي اور تشريح كے حوالے سے اسلامى رياضيات كے مغرب ميں گہرے اثرات ہيں اور سب سے اہم يہ كہ الجبرا (algebra) كا لفظ مغرب ميں پايا جاتاہے جو كہ عربى كے كلمہ كى لاطينى شكل ہے (1)خوارزمى كے كچھ عرصہ كے بعد ابوالحسن احمد بن ابراہيم اقليدسى جو كہ دمشق كے رياضى دان تھے وہ اپنى ہندسى رياضيات (geometric math) كے حوالے سے كتاب ‘ الفصول فى الحساب الہندسي’ ميں اعشارى نظام كو وجود ميں لائے، علم اعداد كى دنيا ميں ايك اور بہت اہم قدم عالم اسلام ميں پہلى دفعہ ابوالوفا بوزجانى نے اپنى بہت اہم كتاب ‘ كتاب فى مايحتاج اليہ الكتاب و العمال’ كے دوسرے حصہ ميں منفى اعداد كو وضع كرتے ہوئے اٹھايا،انہوں نے اس قسم كے كلمات كو ‘ دين ‘ كے نام سے استعمال كيا_علم رياضى كے ديگر ابواب مثلا مثلثات اور ہندسہ (geometry) و غيرہ ميں بھى اسلامى دانشوروں نے انتہائي قيمتى آراء يادگار كے طور پر چھوڑيں ، ان ابواب ميں اسلامى دانشوروں نے مثلثات پر يونانى سليقہ سے بڑھ كہ جديد حقائق كو دريافت كيا كہ ان ميں سے كچھ انكشافات خواجہ نصير الدين طوسى كى كتاب’ شكل القطاع’ ميں موجود ہيں ، اس كتاب ميں جناب طوسى نے اپنى ذہانت سے علم مثلثات كے دونوں حصوں كے تقابل سے صحيح فائدہ اٹھايا ہے _————————1) ابوالقاسم قربانى ، زندگينامہ رياضيدانان دورہ اسلامى ، تہران ، ص 246 ، 238_51علم مثلثات كے دونوں حصوں ميں سے ايك تومثلثاتى جدولوں كا زاويوں كى تبديلى اور ہندسى اشكال كے سائز ميں كردار سے اور دوسرا ان مفروضوں ہے جو كہ يونانى مثلثات سے ہے ماخوذ تھے، ان ہندسى اشكالshapes geometricalكى وضاحت كے حوالے سے خواجہ نے ‘ شكل القطاع’ ميں اپنے پيش رو رياضى دانوں كى كوششوں اور كام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندسى اشكال ميں زاويوں كے با ہمى روابط پر قوانين كى دقيق وضاحت كرتے ہوئے، ان مثلثات كے جدولوں كو ترقى دي_مثلثات كى پيش رفت كا بہترين نمونہ ، بالخصوص علوم كروى spherical Seiences ميںجنكے بارے ميں خواجہ نصير نے بھى اپنى كتاب’ شكل القطاع’ كا كچھ حصہ خاص كياہے، سہ بعدى جيوميٹرى كے اوصاف كو دوبعدى جيوميٹرى ميں تبديل كرنے ميں نظرآتاہے اور يہ كام بالخصوص مختلف اقسام كے اصطرلاب asterlabe كے بنانے ميں بہت اہميت كا حامل ہے_(1)رياضياتى اسلامى تاريخ (دوسرى صدى ہجرى سے اب تك)نے بہت سے رياضى دانوں كو كائنات كى علمى تاريخ كو ہديہ ميںديے ہيں ان افراد كے ناموں كى ايك بڑى فہرست پيش كى جاسكتى ہے مثلاً:احمد بن عبداللہ مروزى جنكا لقب ‘ حبش حاسب ‘تھا صاحب كتاب فى معرفة الكرة و العمل ، ابوالعباس فضل بن حاتم نيريزى معروف كتاب’ شرح اصول اقليدس ‘ كے مضف ، موسى بن شاكر ان تين بھائيوں ميں سے ايك كہ جو ‘ بنو موسى ‘ كے نام سے مشہور ہيں كتاب’ معرفہ مساحة الاشكال البسيطة والكروية كے مصنف ، ابوالحسن ثابت بن قوة حرانى كہ جنكى رياضيات ميں بہت سى تاليفات ہيں مثلا كتاب ‘فى الاعداد المتحابة’، ابوالفتح محمدبن قاسم اصفہانى كى كتاب ‘تلخيص المخروطات ، ابوجعفر محمد بن حسين صاغانى خراسانى صاحب تفسير’ صدر المقالہ العاشرة من كتاب اقليدس’، ابوسعيد احمد بن محمد بن عبدالجليل سجزى صاحب كتاب فى مساحة الاكر بالاكر ، ابوالحسن على بن احمد نسوى صاحب كتاب ‘ الاشباع فى شرح الشكل القطاع،————————-1) زندگينامہ رياضيدانان دورہ اسلامى ، ص 508 ، 486_52ابوحاتم مظفر بن اسماعيل اسفزارى صاحب كتاب اختصار فى اصول اقليدس ، غياث الدين جمشيد كاشانى بہت بڑے محقق اور بہت سى تصنيفات كے مالك مثلا مفتاح الحساب و رسالہ محيطيہ ، علاء الدين على بن محمد سمرقندى كہ جو ملا على قوشجى كے نام سے مشہور تھے رسالہ محمديہ كے مصنف ہيں … اور بہت سے افراد ہيں كہ جنكا نام اختصار كے پيش نظر ذكرنہيں كيا گيا_
2) نجوماسلامى علم نجوم كے حوالے سے اسلامى دانشوروں كى معلومات كا آغاز يونانى علم نجوم كى كتب كے ترجمہ بالخصوص بطليموس كى تاليفات كے ترجمہ سے ہوا، اسكى تاليفات كى شروحات لكھنے سے يہ معلومات بڑھتى رہيں پھر اسكے نظريات پر تنقيد شروع ہوئي اور آخر كار اسكے نظريے اور رائے كے خلاف كئي نظريات پيش ہوئے_ ان اسلامى دانشوروں كے يہ نظريات بعد ميں پيش كوپرينك كے نظريات كى شكل ميں شہرت پاگئے كيونكہ اس پولينڈ كے دانشور كوپرينك كى بطليموس كى تھيورى پر تنقيد سے كئي صديوں قبل يہ تمام اعتراضات اسلامى دانشور پيش كرچكے تھے_اسلامى نجوم ميں ابتدائي اہم ترين معلومات چاہے نظرى ہوں يا رصد گاہوں كے ذريعہ حاصل شدہ بطليموس كى كتاب ‘ مجسطى ‘كے ترجمہ سے حاصل ہوئيں عالم اسلام ميں اس كتاب كے كم از كم تين تراجم اور متعدد شروحات سے ہم واقف ہيں كتاب مجسطى كا عالم اسلام ميں مطالعہ ايسے مكتب كو وجود ميں لانے كا باعث بنا كہ جسكا كام ستاروں كا جائزہ لينے كيلئے رصد گاہوں ميں فعاليت كرنا اور علم نجوم كے مخصوص جدول (فلكياتى جنتري) كہ جنہيںعربى ميں ‘زيج’ كہا جاتاہے تيار كرنا تھا، عالم اسلام ميں دوسرى صدى سے بارہويں صدى ہجرى تك لكھى جانے والى فلكياتى جنتريوںكى تعداد 220 تك ہے، علم نجوم كے ان تمام اسلامى ماہرين نے ان جنتريوںميں كوشش كى ہے كہ دقيق انداز سے ستاروں كى خصوصيات اور انكے متعلقہ حقائق كو دريافت كريں ان كى كوششوں كى بدولت فلكى اجرام كے متعلق دقيق و عميق معلومات سامنے آئيں ،ان ميں ايك اہم
53ترين فعاليت شمسى سال كى مدت كو معين كرنا تھا _شمسى سال كى مدت كے تعين كے ليے اسلامى ماہرين فلكيات كے بہت زيادہ فلكياتى مشاہدات كے باعث ‘كبيسہ’ يعنى سال كے آخرى ماہ ميں ايك دن كے اضافے سے متعلق مختلف محققانہ طريقے اور روشيں سامنے آئيں ، جو كہ عالم اسلامى ميں بنائي جانے والى انواع و اقسام كى تقاويم اور جنتريوں ميں استعمال كے ليے تجويز كى گئيں_اسلامى ماہرين كے فلكياتى تقاويم كى تيارى كے ليے مسلسل فلكياتى مشاہدات كى بدولت ‘ تقديم اعتدالين’ كے مفہوم تك رسائي ممكن ہوئي تقديم اعتدالين يعنى كئي سالوں ميں زمين كى محورى حركت كى بدولت ہر سال دائرة البروج كے طول ميں 50 سيكنڈ قوسى كا اضافہ ، اسلامى ماہرين فلكيات نے بتدريج اپنے مشاہدات كے دوران ستاروں كے دائرة البروج كى خصوصيات كے بارے ميں اپنى حاصل كردہ معلومات اور بطليموس كى فراہم كردہ معلومات ميں فرق كو محسوس كرليا اور تقريبا سبھى نے اپنى اپنى فلكياتى تقويم ميں تقديم اعتدالين كے فرق كو تحرير كيا ہے ، ان سے سے ايك اہم ترين كوشش جابر بن عبداللہ بتّانى نے انجام دى انہوں نے تقديم اعتدالين كى مقدار2/50 سكينڈ قوسى تك دريافت كى _ (1)بطليموس كى زمين كو محور او ر مركز عالم قرار دينے والى تھيورى كہ جسے اسلامى ماہرين فلكيات كى پہلى نسل نے بھى قبول كيا تھا اسكى اساس يہ ہے كہ زمين جہان كے مركز ميں ہے اور سورج و چاند اور ديگر چارسيارے زمين كے گرد دائروں ميں چكر لگارہے ہيں ليكن اس تھيورى كے مطابق زمين كے نزديك دو سيارے يعنى عطارد اور زہرہ قدماء كے مشاہدات فلكى كے مطابق سورج سے كچھ معين مراتب دور ہوچكے ہيں اور 360 درجہ كا راستہ ‘ دايرة البروج’ كے خطوط پر طے نہيں كرتے ، بطليموس كى زمين كو مركز قرار دينے والى تھيورى كے مطابق يہ دونوں سيارے ان خاص خطوط پر رواں ہيں كہ جو سورج كے مركز سے خارج ہوكر ان سياروں كے مركز كو اپني————————-1) كرلو آلفونسو ناليف، تاريخ نجو م اسلامي، ترجمہ احمد آرام، تہران 1349 ص 220_200_54لپيٹ ميں لے ليتے ہيں اور سورج كے ساتھ زمين كے گرد حركت كرتے ہيں، اس روش سے بظاہر يہ ہوا كہ آسمان ميں ان دو سياروں كى حركت نظام شمسى كے حقائق سے مطابقت كر جائے ليكن اسلامى ماہرين فلكيات كے دقيق مشاہدات نے اس تھيورى ميں شك و ترديد كا بيچ بوديا ، ان مشاہدات فلكى كا اہم ترين ثمرہ ابن سينا كى ‘مجسطي’ پر شرح ہے_ساتويں صدى ہجرى ميں خواجہ نصيرالدين طوسى نے كتاب ‘مجسطي’ پر نئے سرے سے تجزيرو تحليل ميں ذكر كياہے كہ :ابن سينا نے تحرير كيا ہے كہ ‘سيارہ زہرہ سورج كى سطح پر تل كى مانند ديكھا گيا ہے’ ابن سينا كى اس تحرير نے بطليموس كے زمين كو مركز قرار ديے نظريہ ميں بہت زيادہ شكوك و شبہات پيدا كيے، كيونكہ اس نظريہ كے مطابق زہرہ سيارے كا سورج كى سطح پر ديكھا جانا يعنى گويا اسكا سورج كى سطح سے عبور كا ممكن نہ ہونا ہے، يہيں سے خواجہ نصيرالدين طوسى نے بعنوان شارح كتاب مجسطى بطليموس كے زمين كو مركز قرار دينے والے نظريہ پر بہت اہم اعتراضات كيے، انكى نگاہ ميں گويا بطليموس كى نظر كے مطابق ستاروں كازمين كے گرد گھومنا حقائق سے مطابقت نہيں ركھتا تھا جب جناب طوسى عالم اسلام كے مشرقى علاقے ميں ان شبہات كا اظہار كر رہے تھے تو اسى زمانہ ميں جناب بطروحى اشبيلى اندلس كے مسلمان ماہر فلكيات ، عالم اسلام كے مغربى علاقے يعنى ہسپانيہ كى اسلامى مملكت ميں ايسے ہى اعتراضات اور ترديد كا اظہار فرما رہے تھے _اس كے علاوہ ديگر بہت سے اسے موارد ہيں كہ جن ميں ہم ديكھتے ہيں كہ اسلامى ماہرين فلكيات نے بطليموس كے نظريات پر ترديد اور شك و شبہہ كا اظہار كيا _فلكيات اور فزكس كے مشہور اسلامى د انشور جناب ابن ہيثم نے اپنى كتاب ‘ الشكوك على بطليموس’ ميں بطليموس كى زمين كے گرد سيارات كى حركت كو ثابت كرنے كى رياضياتى روش اور اسكے ان حركات كى وضاحت كيلئے بنائے گئے پيچيدہ سيسٹم پر حقائق كو ديكھتے ہوئے تفصيلى اعتراضات اور تنقيد كى ہے_ابوريحان بيرونى نے كتاب قانون مسعودى ميں ‘ مجسطي’ كے پيش كردہ فلكى قواعد اور قوانين پر تتفيد كى ،
55اور بطروحى اشبيلى نے سرے سے زمين كے گرد سيارات كى گردش كے نظم و ترتيب كے حوالے سے بطليموس كى رائے كى مخالفت كى _ زمين كو مركز قرار دينے والے نظريہ بطليموس پر تنقيدات اور اعتراضات خواجہ نصير كے زمانہ ميں عروج پر پہنچ گئے ، جناب طوسى نے اپنى شہرہ آفاق كتاب’ التذكرة فى الہيئة ‘ ميں بطليموس كى رائے پر دقيق انداز سے اپنے اساسى ترين اعتراضات بيان كيے ہيں_يہ اعتراضات زمين كے گرد سيارات كى گردش كى ترتيب كے علاوہ سيارات كى گردش كى رياضياتى كيفيت كے اثبات كے طريقے پر بھى كيے گئے ہيں،جناب طوسى بطليموس كے زمين كو مركز قرار دينے والے نظريہ كى بناء پر سيارات كى حركت كے بارے ميں ديے جانے دلائل كى كمزورى سے آگاہ تھے، لہذا انہوںنے تہہ در تہہ كرات كى صورت ميں سياروں كى حركت كے مختلف ماڈلز پيش كر كے كہ جو علم نجوم كى تاريخ ميں ‘ جفت طوسي’ كے نام سے معروف ہوئے ، بطليموس كى رائے پر قوى ترين اعتراضات اٹھائے ، طوسى كے كچھ مدت بعد ابن شاطر نے بھى طوسى كى مانند بطليموس كے نظريہ ميں سيارات كى رياضياتى حركت كو ثابت كرنے كے طريقہ پر تنقيد كى ، انكے بعد مويد الدين عرضى دمشقى نے بھى بطليموس پر نقادانہ نگاہ ڈالي_آج تقريباً ثابت ہوچكا ہے كہ كپلر اور كوپرنيك كہ جنہوں نے علم فلكيات كے اہم ترين انكشاف يعنى سورج كو نظام شمسى كا محور قرار دينے كے نظريہ كى بنياد ركھى وہ اسلامى دانشوروں كى آراء بالخصوص خواجہ نصير كے نظريات سے بہت زيادہ متاثرتھے، يہ چند افراد كہ جنكا نام ليا گيا ہے ان كے علاوہ بھى اسلامى علم فلكيات نے بہت سے ماہرين عالم بشريت كو عطا كيے ہيں، مثلا محمدبن موسى خوارزمى كہ جنكى تاليف زيج السند ہے ، بنو صباح تين ماہرين فلكيات كہ جنكا نام ابراہيم ، محمد اور حسن ہے انہوں نے كتاب’ رسالة فى عمل الساعات المبسوطة بالہندسة فى ايّ اقليم اردت’ تحرير كى ، ابن يونس كہ جو’ زيج كبير حاكمى ‘كے مصنف ہيں الغ بيگ كہ جو مشہور دانشور اور سياست دان تھے اور كتاب زيج الغ بيگ كے مصنف ہيں اور نظام الدين عبدالعلى بيرجندى كہ جو فاضل بير جندى كے عنوان سے معروف ہيں اور كتاب ابعاد و اجرام كے مصنف ہيں_
563_ فزكس اور ميكانيات:ميكانيات كا علم مسلمانوں كے ہاں ‘ علم الحيل’ كہلاتا تھا ‘ علم حيل’ قديم علماء كے نزديك آلات كا علم ہے اور ان تمام آلات كا تعارف كرواتا ہے جو كہ جو مختلف كام انجام ديتے ہيںاگر چہ بعض نظريات جو كہ علم الحيل سے متعلقہ كتب ميں ملتے ہيں ان كى جڑيں مشرق بعيد (چين جاپان و غيرہ ) اور ايران كے خطے ميں پائي جاتى ہيں_يہ بات قطعى طور پر كہى جاسكتى ہے كہ اسلامى انجي نرنگ مشرق وسطي( عرب ممالك ، ايران، و افغانستان …) اور بحيرہ روم كے خطے كے نقش قدم پر رواں دواں تھى ، مصرى اور روميوں نے ميكانيات ميں بہت ترقى كى تھى ليكن اس حوالے سے يونانى لوگوں كا كردار سب سے زيادہ تھا ، بغداد ميں بنى عباس كے بڑے خلفاء كے دور ميں بہت سى يونانى اور كچھ سريانى كتب كا عربى ميں ترجمہ ہوا تھاكہ جن ميں فيلون بيزانسى (بوزنطى ) كى كتاب پيونميٹك، ہرون اسكندرانى كى كتاب مكينكس اور پانى والى گھڑيوں كے بارے ميں ارشميدس كے رسالے كا نام ليا جاسكتا ہے _مسلمان انجينئروں كى استعداد و لياقت كا تجزيہ كرنا سادہ كام نہيں ہے، مسطحہ ہندسہ plane geometry ميںآلات كو بنانے اور انكى تنصيب كے ليے ، حساب اور پيمائشے ميں مہارت ضرورى تھي، اگر چہ آلات كو جوڑنے اور انكى تنصيب كے ليے كوئي منظم معيار موجود نہيں تھا، مگر اسكے باوجود مسلمان انجينرز كا جديد آلات ( جيسے خودكار مجسمہ اور مكينكل فوارہ) كو بنانے ميں كاميابى كى وجہ يہ تھى كہ وہ ان آلات كو بنانے كے ليے statics كے علم سے استفادہ كرتے تھے اور اسى وجہ سے مطلوبہ پارٹس كو كاٹ بھى سكتے تھے اور انكى ڈھلائي كے بعد انكى تنصيب بھى كرليتے تھے(1)عالم اسلام كے سب سے پہلے انجنيرحضرات تين بھائي بنام احمد، محمد اور حسن كہ جو موسى بن شاكر كے———————–1) ڈونالڈر ہيل، ملينك انجيڑنگ مسلمانوں كے درميان ص 5،4_57بيٹے تھے اور بنو موسى كے عنوان سے مشہور تھے ،بنو موسى كى كتاب الحيل سب سے پہلى تدوين شدہ كتاب تھى كہ جو عالم اسلام ميں مكينك كے حوالے سے جانى پہچانى تھى ، اس كتاب ميں سوكے قريب مشينوں كى تفصيل بيان ہوئي ہے كہ جن ميں سے اكثر خودكار سيسٹم اور سيال مكينكى خواص كے ساتھ كام كرتى تھيں، ان مشينوں ميں مختلف انواع كے خودكار فوارے ، پانى والى گھڑياں ، مختلف انواع كے پانى كو اوپرلانے وا لے وسائل، كنويں كے رہٹ اور خودكار لوٹے و غيرہ شامل ہيں ، ان تين بھائيوں كى تحقيقات كے حوالے سے قابل توجہ نكتہ يہ ہے كہ ان لوگوں نے يورپ سے پانچ سو سال پہلے اور فنى علوم كى تاريخ ميں پہلى بار crank shaft پہيے كے دھرے (كا وہ پرزہ جو اسكو عمودى اور دورى دونوں حركتيں دے سكتاہے) كو استعمال كيا (1)دوسرے مشہور اسلامى انجنيئركہ جو ميكانيات ميں شہرہ آفاق تھے جناب ‘جزرى ‘تھے وہ چھٹى صدى ہجرى كے دوسرے اواخر يا ساتويں صدى كے آغاز ميں شہر’ آمد’ جسے آج كل ‘ ديار بكر’ كہا جاتاہے، ميں رہا كرتے تھے انكى ميكانيات كے بارے ميں مشہور كتاب كا نام ‘كتاب فى معرفة الحيل الہندسية يا الجامع بين العلم و العمل النافع فى ضاعة الحيل’ ہے كہ جسے انہوں نے دياربكر كے امير كى درخواست پر لكھا، جزرى كى كتاب علم و عمل كا مجموعہ ہے يعنى يہ كتاب نظرى ہونے كے ساتھ ساتھ عملى ہونے كے ناطے سے بھى پہچانى جاتى ہے _جناب جزرى ‘ رئيس الاعمال’ يعنى انجنيرؤں كے سر براہ كے مقام پر بھى فائز تھے اوررسم فنى ( مختلف اشياء كے قطعات اور تصاوير كے ذريعے رياضياتى قواعد كى روشنى ميں خوبصورتى اور آرائشے كا فن ) كے ہنر ميں مہارت ركھتے تھے اسى طرح وہ اپنے ذہن ميں آنے والے تمام موضوعات كى تشريح اور آسان يا پيچيدہ ہر قسم كے آلات كى توصيف كرنے ميں استاد تھے، انكى كتاب مكينيكل اورہائيڈرولك (Hydroallque) وسائل و آلات كے حوالے سے قرون وسطى كى بہترين تاليف ہے ،اس ميں انہوں نے واقعا علم و عمل كے مابين نظرى مباحث اور عملى طريقوں كو بيان كيا ہے يہ كتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے :————————–1) دانشنامہ جہان اسلام ،ج 4 ذيل بنى موسي_58(1) آبى اور شمعى گھڑياں (2) تفريحى آلات (3) ہاتھ پاؤں دھونے اور وضو كرنے كے وسائل (4) دائمى چلنے والے فوارے (5) پانى كو اوپر كى طرف كھينچے والى مشينيں(6) ديگر مختلف اقسام كے وسائل اور آلات جو روزمرہ كے معمولى كاموں ميں استعمال ہوتے ہيں ،اس كتاب كى قدرو قيمت صرف اس ميں بيان شدہ مختلف روشوں اور طريقوں كى اہميت كے پيش نظر نہيں ہے بلكہ ہر آلے كى ايجاد كا طريقہ تمام تفصيلات كے ساتھ اور ايك ماہر شخص كى زبان سے بيان ہوا ہے(1)ابوالفتح عبدالرحمان خازى ايك اور اسلامى ماہر ميكانيات اور طبيعيات ہيں وہ شہر ‘مرو ‘ميں پيدا ہوئے سلجوقى حكمرانوں كے اداروں ميں امور علمى ميں مشغول تھے، انكى مشہورترين تاليف’ ميزان الحكمة ‘ ( 515 ہجرى قمرى ميں لكھى گئي) ہے كہ جو علم الحيل كى اہم ترين كتابوں ميں سے ہے ہايڈورلك ، ہايڈروسٹيٹك بالخصوص مركز ثقل كے بارے ميں انكے نظريات، اجسام كا توازن اور مخصوص كثافت پيمائي (كسى چيز كے گاڑھے پن كى پيمائشے) اوپر اٹھانے كے آلات ، ترازو، وقت كى پيما ئشے كے آلات ، چيزوں كے بنانے اور ان سے بہتر استفادہ كرنے كے تمام فنون ميں انكى آراء و نظريات انكى مكانيات ميں بے پناہ مہارت و استعداد كو ظاہر كرتے ہيں _اس حوالے سے ديگر دانشوروں ميں سے ابن ہيثم بصري، جيانى قرطبى اور ابوريحان بيرونى كا نام ليا جاسكتا ہے كہ ابوريحان كى پانچ مواد اور معدنيات كى مخصوص كثافت سمجھنے كيلئے تحقيقات اس قدر بيسويں صدى كے قواعد و معيار كے قريب ہے كہ سب حيرت زدہ رہ گئے ہيں _جب بھى ہم اسلامى انجنيروں كى اختراعات پر ايك محققانہ نگاہ ڈاليں توكھيل، شعبدہ بازى اور پانى كو اوپر لانے والے انواع و اقسام كے آلات كے علاوہ علم حيل كے ميدان ميں مسلمانوں كا اہم ترين كارنامہ يورپ والوں كو بارود اور آتشى اسلحہ سے آشنا كرواناہے، آتشى اسلحہ كے استعمال كا ذكر چھٹى صدى ہجرى ميں خصوصاً———————–1) ابوالعز جزرى ، الجامع بين العلم و العمل ، النافع فى ضاعة الحيل، ترجمہ محمد جواد ناطق ،ص 43،41_59شہروں كے محاصرہ كے دوران ملتاہے، ابن خلدون نے كتاب ‘ العبر’ ميں آتشى اسلحہ كى مختلف اقسام كے استعمال اور وہ بھى تو پوں اور ابتدائي دستى توپوں يا بندوقوں كے استعمال كى حد تك نہيں بلكہ افريقا كے مسلمان بادشاہوں كے دور ميں مختلف انواع كى پھينكنے والى مشينوں كا بھى ذكر كيا ہے_اس قسم كے مشينوں كے حوالے سے بعض اسلامى دانشوروں كى تحقيقى آراء مثلاً ، شہاب الدين بن فضل اللہ العمرى ، ابن ارنبخاء اور حسن الرماح كى تاليفات ہميں آتشى اسلحہ كى عجيب و غريب دنيا سے آشنا كرواتى ہيں(1)
4 ) طبعلم طب ان سب سے پہلے علوم ميں سے ہے كہ جو مسلمانوں ميں رائج ہوئے اس علم كى اہميت اس حد تك تھى كہ ابدان كے علم كو اديان كے علم كے ہم پلہ شمار كيا جاتا تھا، اسلامى تمدن ميں طبى علوم كے تجزيہ و تحليل ميں ايك اہم نكتہ علم طب كا بہت جلد علاقائي رنگ اختيار كرنا ہے ، اسميں شك نہيں كہ ميڈيكل اور طب كے حوالے سے كلى حيثيت كى نظرى معلومات مسلمانوں تك يونانى تاليفات كے ترجمہ بالخصوص بقراط اور جالينوس كى تاليفات كے ترجمہ سے پہنچيں، ليكن بہت سے ايسے مسائل كہ جنكا مسلمان اطباء كو اپنے مريضوں كے حوالے سے سامنا كرنا پڑتا تھا وہ اسلامى مناطق اور انكى خاص آب و ہوا سے متعلق تھے كہ ان مسائل كا ذكر يونانى كتابوں ميں موجود نہيں تھا اور يہ واضح سى بات ہے كہ گذشتہ لوگوں كى كتابوں ميں انكے ذكر كى عدم موجودگى كى بنا پر اسلامى اطباء ہاتھ پر ہاتھ ركھ كر نہيں بيٹھ سكتے تھے، لہذا ان مسائل كے حوالے سے نئي آراء اور روشيں سامنے آئيں_رازى كى كتاب ‘الحاوي’ ميں جن بيماريوں كا تجزيہ كيا گيا ہے ان بيماريوں كى تعداد كى نسبت كہيں زيادہ ہے كہ جنكا تذكرہ جالينوس اور بقراط اور ديگر يونانى دانشوروں كى تاليفات ميں موجود ہے اسلامى طبى تاريخ ميں ايك اور اہم اور برجستہ سنگ ميل ابن سينا كى كتاب ‘قانون ‘ہے_————————1)دانشنامہ جہان اسلام ج 1 بارود كے ذيل ميں_60اہل مغرب كى تمام طبى تاريخ ميں اسطرح طب كے تمام موضوعات پر مشتمل جامع اور انسائيكلوپيڈيا طرز كى كتاب ابھى تك وجود ميں نہيں آئي تھى بلادليل نہيں ہے كہ كتاب قانون لاطينى زبان ميں ترجمہ كے بعد بہت ہى سرعت سے اہل غرب كے دانشوروں اور ڈاكٹروں كى مورد توجہ قرار پائي اور انكے ميڈيكل كالجوں ميں ايك درسى مضمون كے عنوان سے تدريس ہونے لگي_ (1)ليكن اسلامى طب ميں ترقى اور نئي اختراعات صرف يہيں نہيں رك گئيں اسلامى طب ميں اہم ترين نتائج اسوقت سامنے آئے كہ جب كچھ اسلامى اطباء نے جالينوس كے آراء اور اپنے تجربات كے نتائج ميں اختلاف كا مشاہدہ كرنے كے بعد اسے بيان كيا لہذا اسلامى دانشوروں ميں سب سے پہلے ابونصر فارابى نے جالينوس پر تنقيد كي، انہوں نے اپنے رسالہ بہ عنوان ‘الرد على الجالينوس فيما نقض على ارسطا طالين لاعضاء الانسان’ ميں كلى طور پر انسانى بدن كے اعضاء كى تشكيل و ترتيب كے حوالے سے جالينوس اور ارسطو كى آراء ميں موازنہ كيا اور اپنى رائے كو ارسطو كے حق ميں ديا ، احتمال ہے كہ فارابى كى يہ طرز فكر ان تمام اعتراضات كا سرچشمہ بنى كہ جنہيں انكے بعد بوعلى سينا نے جالينوس پر تنقيد كرتے ہوئے پيش كيے _اسى طرح جناب رازى كہ جو طب ميں عظيم مقام كے حامل تھے اور طب ميں جامع نظر ركھتے ہوئے صاحب رائے تھے انہوں نے بھى طب ميں جالينوس كے نظريات پر اہم تنقيد كى ہے ،رازى كے جالينوس كى آراء پر اہم ترين اعتراضات ديكھنے ، سننے اور نورانى سايوں اور لہروں كا جسم سے آنكھ تك پہنچے كے حوالے سے سامنے آئے جناب رازى ديكھنے كے عمل كو جالينوس كى رائے كے بالكل برعكس سمجھتے تھے كہ نورانى سايے آنكھ تك پہنچتے ہيں نہ يہ كہ آنكھ سے نور پھوٹتاہے جيسا كہ جالينوس نے كہا اسى تنقيد و اعتراض كے سلسلے ميں بو على سينا نے جالينوس كى طبى آراء كو واضح طور پر مہمل اور بے معنى كہا _ليكن جالينوس كى طبى آراء پر سب سے اہم اعتراضات كہ جو مشہور ہونے كہ ساتھ ساتھ اسلامى طب ميں قابل فخر مقام ركھتے ہيںوہ ابن نفيس دمشقى نے چھٹى صدى ہجرى ميں پيش كيے جناب ابن نفيس اہل تجربہ اور
61صاحب نظر تھے اور اسلامى طب ميں ايك عظيم ترين انكشاف كا باعث بنے اسى ليے گذشتہ صديوں ميں انہيں اسلامى مصنفين كے درميان جالينوس عرب (اسلامي)كا لقب ملاكر جو مختلف جگہوں پر رازى كو بھى ديا گيا ہے ، انہوں نے اپنى دو كتابوں (1) ‘شرح تشريح قانون ‘كہ جوكہ كتاب قانون كے پہلے سے تيسرے باب كى كى شرح كے عنوان سے لكھى گئي (2) شرح قانون كہ جو قانون ميں پيش كيے گئے تمام موضوعات كى شرح ہے ان دو كتابوں ميں اپنے اہم ترين انكشاف يا دريافت :بہ عنوان ‘گردش ريوى خون ‘Pupmonary blood circupationكى تشريح كى ہے، انيسوں صدى ميں آكرجديد سائنس ابن نفيس كى اس اہم دريافت سے آشنا ہوئي ، جالينوس كى رائے كے مطابق خون كى گردش كى صورت يہ ہے كہ خون شريان كے ذريعے دل كى دائيں حصے ميں داخل ہوتاہے اور دل كى دائيں اور بائيں سائيڈوں كے درميان پائے جانے والے سوراخوں سے خون دل كے بائيں حصے ميں داخل ہوكر پھر بدن ميں گردش كرتاہے ليكن ابن نفيس نے يہ لكھاكر خون دل كے دائيں حصے سے اور وريدكے ذريعے پھيپھڑوں ميںجاتاہے كہ اور جب وہ پھيپھڑوں ميں ہوا كے ساتھ مخلوط ہوتاہے پھر ايك اور وريدكے ذريعے دل كے بائيں حصے ميں جاتاہے اور وہاں سے پورے بدن ميں پہنچتاہے، بلا شبہ ابن نفيس نے يہ معلومات انسانى بدن كى چيرپھاڑ كے بعد سے حاصل كيں ،قبل اسكے كہ اٹلى كے طبيب ‘ ميگل سروٹو’ اسى بات كى وضاحت كرتے وہ تين صدياں قبل ہى سب كچھ روشن كرچكے تھے لہذا ضرورى ہے كہ اس انكشاف كو سروٹوسے منسوب كرنے ميں شك و ترديد كى جائے _سروٹونے اسلامى طب كى تاليفات كے لاطينى زبان ميں ترجمہ كے ذريعے ابن نفيس كى آراء سے آگاہى حاصل كى يا پہلے سے اس كشف سے بے خبر خود وہ اس راز تك پہنچے اس حوالے سے دنيا كى طبى تاريخ ميں بہت سى مباحث ہوئيں ابن نفيس، فارابي، ابن سينا اور چند ديگر اسلامى دانشوروں كے نظريات كو اكٹھا كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ اسلامى طب ، طب كے غير جالينوسى ماڈل كو بنانے ميں بہت سنجيدہ تھى (1)———————-1)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 4 ابن نفيس كے ذيل ميں_62طب سے وابستہ علوم كى اقسام ميںبنيادى اور تخليقى ترين تحقيقات آنكھ كى طبى حيثيت كے متعلق ہے آنكھ كے مسلمان اطباء نے آنكھ كى بيماريوں اور انكے علاج كے حوالے سے يونانى ڈاكٹروں اور آنكھ كے يونانى طبيبوں كى آراء ميں اضافے كےساتھ ساتھ خود بھى بہت سى بيماريوں كى تشخيص اور انكے علاج كى مختلف صورتيں پيش كيں ، آنكھ كے مختلف اقسام كے آپريشن، موتيا نكالنا يا آنكھ كے قرينہ ميں اكھٹا ہونے والا اضافى پانى نكالنا اسى طرح آنكھ كيلئے مختلف قسم كى نباتاتى ، معدنياتى اور حيواناتى ادويات و غيرہ انہى تخليقات كا حصہ ہيں_آنكھ كے علاج كے حوالے سے تمام مسلمان اطباء ميں دو افراد كا كردار سب سے زيادہ اور واضح ہے ان ميں سے ايك حنين بن اسحاق كہ جو كتاب ‘ العشر مقالات فى العين’ كے مصنف ہيں اور دوسرے على بن عيسى جو كتاب ‘ تذكرة الكحالين ‘ كے مصنف ہيں_ان دونوں ميں سے ہر ايك كتاب آنكھ كے علاج ميں بہت سى اختراعات اور جدت كا باعث بنى اور ان كتابوں كے مصنفين آنكھ كے علاج كے سب سے پہلے مسلمان اطباء ميں سے كہلائے ،اس بات كو مان لينا چاہيئے كہ اسلامى دنيا ميں آنكھ كے علاج رائج ہونے كے سات صديوں كے بعد يورپ اس قابل ہوا كہ آنكھ كے مسلمان اطباء كى تمام اختراعات كو كراس كرسكے_جڑى بوٹيوں كى تشخيص اور نباتاتى ادويات كے ميدان ميں بھى كم و بيشى يہى كيفيت ہے كہ يونان كى اس حوالے سے اہم ترين كتاب كہ جو جڑى بوٹيوں كے اسلامى ماہرين كے ہاتھوں پہنچى وہ كتاب ‘الحشائشے’ تھى كہ جيسے وسطى ايشاء كے ايك مصنف ڈيوسكوريڈس نے پہلے صدى عيسوى ميں تحرير كيا يہ كتاب حنين بن اسحاق اور تحريك ترجمہ كے كچھ دوسرے مترجمين كے قلم سے عربى ميں ترجمہ ہوئي اس سارى كتاب ميں تقريبا پانچ سو جڑى بوٹيوں كے ادوياتى خواص بيان ہوئے تھے، حالانكہ رازى كى كتاب ‘ الحاوي’ ميںنباتاتى دوائيوں كے باب ميں تقريباًسات سوكے قريب جڑى بوٹيوں ادوياتى خواص بيان ہوئے ہيں يہ تعداد ايك اور اہم ترين طبى كتاب كہ جو اسلامى اطباء كى دواشناسى كا واضح ثبوت ہے ،يعنى ابن بيطار كى كتاب ‘ الجامع لمفردات
63الادوية والاغذية’ ميں يہ تعداد چودہ سو تك جا پہنچى ہے، گويا ڈپو سكوريڈس كى كتاب سے تين گنا زيادہ جڑى بوٹيوں كااسميں تذكرہ ہوا ، جڑى بوٹيوں كى تعداد كے حوالے سےبے مثال ترقى اور سرعت كيساتھ تحقيق بتاتى ہے كہ اطباء اور اسلامى ماہرين نباتات بجائے اسكے كہ وہ ڈپوسكو ريدس كى پيروى تك محدود رہتے بذات خود نئي دريافتوں اور نباتات كے ادوياتى خواص كو جاننے ميں مصروف عمل تھے(1)
5_ كيمياكيميا كا مقولہ علم، فن اور جادو پر اطلاق ہوتا تھا كہ بتدريج كميسٹرى پر اطلاق ہونے لگا كيميا كا موضوع ايك روحانى قوت كے جسے غالباً ‘ حجر الفلاسفہ’ كا نام ديا گيا ہے كى موجودگى ميں مواد كو تبديل كرنے سے متعلق تھا، كيميا ان پنہان علوم كى ايك قسم ہے كہ جنہيں اصطلاحاً ‘كلُّہ سر ‘كہا جاتاہے يہ اصطلاح پانچ علوم كے پہلے حروف سے بنائي گئي ہے وہ پانچ پنہانى علوم يہ ہيں كيميا ، ليميا، ہيميا، سيميا، ريميا _كيميا ميں اس مادہ كے بارے ميں گفتگو كى جاتى تھى كہجسے استعمال كرنے سے معمولى دھاتيں جيسے لوہا و پيتل و غيرہ كا سونا چاندى ميں تبديل ہوجانا ممكن ہوجاتاہے، اس مادہ كو كيميا گر ‘ اكسير ‘ كہتے تھے، اسلامى علم كيميا ميںجو ظہور اسلام كے بعد پہلى صدى ہجرى ميں بہت سرعت سے پيدا ہوا اور آج روايتى طور طريقے كا حامل ہے ان بارہ صديوں ميں بہت سى كتابيں اس حوالے سے تاليف ہوئي ہيں كہ جن ميں اس ہنر پر بحث ہوتى رہى ہے ان ميں سے سب سے اہم ترين مجموعہ جابر بن حيان سے متعلق ہے كہ جو نہ صرف يہ كہ عالم اسلام بلكہ مغربى دنيا ميں بھى علم كيميا كے سب سے بڑے عالم شمار ہوتے ميں انكى ہى وجہ سے مسلمانوں ميں علم كيميا توہماتى ہنر سے تجرباتى سائنس كى صورت ميں سامنے آيا _جناب جابر خالص مايعات مثلا پانى ، شيرہ ،گھى اور خون و غيرہ كى تقطير (1) كيا كرتے تھے اور وہ يہ سمجھتے تھے———————–1)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 4 ابن نفيس كے ذيل ميں_64كہ ہر بارجب بھى پانى كى تقطير كريں تو سابقہ خالص مادہ پر تازہ مادے كا اضافہ ہوجاتاہے يہانتك كہ يہ عمل تقطير سات سو بارتك جاپہنچے، انكى نظر ميں سونے كو حرارت دينے اور عمل تقطير كے ايك ہزار مراحل سے گزارنے كے بعد اكسير تك پہنچا جاسكتاتھا_جناب جابر سے منسوب كتابوں كى تعداد اسقدر زيادہ ہے كہ ان ميں بعض كى انكى طرف نسبت مشكوك ہے بعض اہل مغرب كے دانشوروں اور محققين كے نزديك ايسى كتابيں اسماعيلى فرقہ كے پيروكاروں نے چوتھى صدى ہجرى ميں تاليف كيں_جابر كے بعد مشہور اسلامى كيمياگر بلاشبہ محمد بن زكريا رازى ہيں جناب رازى علم طب سيكھنے سے قبل كيمياگر تھے منقول ہے كہ حد سے زيادہ كميكل تجربات كى بناء پر انكى نظر كمزور ہوگئي تھى اسى ليے مايوس ہوكر انہوں نے كيمياگرى چھوڑ دى ، جناب رازى اپنے آپ كو جابر كے شاگرد شمار كرتے تھے انہوں نے اپنى بيشتر كتب جو كيميا كے حوالے سے تحرير كيںانكے نام بھى جابر كى كتب كى مانند ركھے ہوئے تھے ، ليكن جابر كا علم كيميا فطرت كو بعنوان كتاب تكوين جانتے ہوئے اسكى باطنى تفسير و تاويل پر مبنى تھا كہ يہ چيز شيعہ اور صوفى مذہب ميں عقيدے كا ايك ركن ہے _جابر كے نزديك ہر علم بالخصوص كيميا كے تمام اشياء كے باطنى معنى كى تاويل كى روش كا استعمال اسكى ظاہرى نمود سے بھى ربط ركھتاہے اور اسكے رمزى و باطنى پہلو سے بھى مربوط ہے ، رازى نے روحانى تاويل كا انكار كرتے ہوئے كيميا كے رمزى پہلو سے چشم پوشى كى اور اسے كميسٹرى كى صورت ميں پيش كيا ، رازى كى كيميا ميں اہم ترين كتاب ‘ سرّ الاسرار’ اصل ميں ايك كيمسٹرى كى كتاب ہے كہ جو كيميا كى اصطلاحات كے ساتھ بيان ہوئي ہے(2) اس كتاب ميں كيمسٹرى كے طريقہ كار اور تجربات كا ذكر ہوا ہے كہ——————————1)كيميا بمعنى سونا بنانے كا علم اور كميسٹرى بمعنى اشياء كے اجزا اور انكى بناوٹ كا علم _2)تقطير ايك كيميائي عمل ہے كہ جسميں حرارت كے ذريعے قطرہ قطرہ نكالا جاتاہے_65جسے خود رازى نے انجام ديا ہے ان كو كيميكل كى جديد صورتوں مثلا تقطير،تكليس (ہوا كے ساتھ گرم كرنے كا عمل (calcination) تبلور (كسى مايع يا گيس ميں شيشہ بنانے كا عمل (crystalization)كے مطابق سمجھا جاسكتاہے رازى نے اس كتاب اور اپنى ديگر كتب ميں بہت سے آلات مثلا قرع (Retort) بڑے پيٹ والا شيشے كا ظرف تقطير جيسے اعمال كے ليے(1) ، انبيق (مايعات كى تقطير اور عرق نكالنے كا آلہ يا ظرف) (2) ديگ اور تيل سے چلنے والے چراغ كے بارے ميں تشريح كى ان ميں سے بعض چيز يں ابھى تك استعمال ہورہى ہيں_چوتھى صدى ہجرى ميں بوعلى سينا اور فارابى نے اكسيرات اور كيميا سے مربوط بعض موضوعات پر لكھا، ليكن ان دونوں ميں سے كسى نے كيميا كے حوالے سے جدا كوئي رسالہ يا كتاب نہيں لكھى ، اس دور اور اسكے بعد كے ادوار ميں ديگر كيمياگران ميں سے جناب ابوالحكيم محمد بن عبدالمالك صالحى خوارزمى كہ جنكى كتاب كا نام ‘ رسالہ عين الصنعة و عون الصناع’ ہے انكے بعد ابوالقاسم عراقى كہ جو ساتويں صدى ہجرى ميں موجود تھے انہوں نے كتاب ‘ المكتب فى زراعة الذہب ‘ كو تحرير كيا اسى طرح ساتويں صدى ہجرى اور آٹھويں صدى ہجرى كے آغاز كے كيميا دان جناب عبداللہ بن على كاشانى بھى معروف ہيں _اسلامى ادوار ميں آسمان كيميا پر آخرى درخشندہ ستارہ جناب عز الدين جلد كى ہيں كہ انكى تاليفات انكے زمانہ اور بعد ميں درسى مضمون اور معلومات كا منبع شمار ہوتى تھيں كتاب ‘ المصباح فى اسرار علم المفتاح اور البدر المنيرفى اسرار الاكسير ‘ انكے كيميا كے حوالے سے كتابوں كے چند نمونے ہيں(3)—————————-1)كسى چيز كو 950 درجہ پر حرارت دينا _2)كوٹ كوٹ كر زرہ زرہ كرنے والا آلہ_3)عرق نكالنے والا آلہ_4)سيد حسين نصر، علم و تمدن در اسلام ،ترجمہ احمد آرام ، ج2 ص 234 تہران ،على اصغر حلبى ،تاريخ تمدن اسلام ،ج 1، ص 213 ، 323، 233_666_ فلسفہ :عالم اسلام ميں ابويوسف يعقوب بن اسحاق كندى (260 ، 185 ق ) سب سے پہلے فلسفى مسلمان شمار ہوتے ہيں وہ پہلے فرد تھے كہ جنہوں نے سائنس و فلسفہ ميں مطالعہ او رتحقيق شروع كى ، اسى ليے انہيں ‘فيلسوف العرب’ كا نام ديا گيا ، دوسرى اور تيسرى صدى ہجرى ميں كوفہ علوم عقلى كى تعليم و تحقيق كا مركز تھا كندى نے ايسى فضا ميں علم فلسفہ پڑھا، يونانى اور سريانى زبان سيكھى اور بہت سى اہم كتابوں كا عربى ميں ترجمہ كيا _ كندى كى كتابيں كہ جنكى تعداد 270 تك شمار كى گئي ہے سات اقسام ميں تقسيم ہوتى ہيں جن ميں سے فلسفہ ، منطق ، رياضى ، فلكيات ، موسيقى ، نجوم اور ہندسہ ہيں كندى پہلا شخص تھا كہ جن نے دين اور فلسفہ ميں مصالحت پيدا كى اور فارابى ، ابوعلى سينا اور ابن رشد كيلئے راستہ ہموار كيا انہوں نے ايك طرف سے اپنے پہلے نظريہ كے مطابق منطقيوں كى روش كو طے كيا اور دين كو فلسفہ كى حد تك تنزل ديا اور دوسرے نظريہ ميں دين كو ايك الہى علم جانتے ہوئے فلسفہ كى حد سے بڑھا ديا گويا كہ يہ علم پيغمبرانہ طاقت سے ہى پہچانا جا سكتا تھا،اسطرح دين كى فلسفى تفسير كرتے ہوئے دين كى فلسفہ سے صلح كروائي(1)عالم اسلام ميں قرون اولى كے دوسرے عظيم فلسفى محمد بن ذكريا رازى ہيں كہ ابن نديم كى تاليف كے مطابق وہ فلسفہ اور سائنس كو اچھى طرح جانتے تھے انكى تاليفات 47 تك شمار كى گئي ہيں كہ آج كم از كم انكے چھ فلسفى مقالے باقى رہ گئے ہيں جناب رازى اگرچہ فلسفہ ميں مرتب نظام نہيں ركھتے تھے ليكن اپنے دور كى صورت حال كو ديكھتے ہوئے عالم بشريت كى نظرياتى تاريخ ميں ايك مضبوط ترين اسلامى دانشور اور مفكر جانے گئے، وہ عقل كى اصالت كے قائل تھے ، او ر عقلى قوت پر بے پناہ اعتماد ركھتے تھے اور اللہ تعالى كى طرف حركت ميں ايمان ركھتے تھے ، ليكن اصالت عقل كا شدت سے پرچار كرنے ، نظر و قياس كے پيروكاروں اور تجميع دين و فلسفہ كے معتقدين پر شديد حملے كرنے كے سبب ،بعض ايرانى فلسفى اصول اور اارسطو سے پہلے والے فلاسفہ—————————1) ذبيح اللہ صفا، تاريخ علوم عقلى در تمدن اسلامى تا اواسط سدہ پنجم ج 1 ، ص 5،162_67بالخصوص ذيمقراطيس كے نظريات پر توجہ كرنے كے باعث اور بعض خاص عقايد كى بناء پر علماء اسلام كا ايك بہت بڑا گروہ انكا شديد مخالف ہوا بعض نے انہيں صرف ايك طبى شخص جانا اور انہيں فلسفى ابحاث ميں داخل ہونے كا حق نہ ديا بہت سے اسلامى محققين اور دانشوروں نے انہيں ملحد ، نادان ، غافل اور جاہل جيسے خطاب ديے اور بہت سے ديگر اسلامى مفكرين مثلا ابونصر فارابى ، ابن حزم اندلسى ، ابن رضوان ، ناصر خسرو اور فخرالدين رازى نے انكى كتابوں پر تنقيد لكھي(1)رازى كے بعد افلاطون اور ارسطو كے فلسفہ كى تائيد اور ان دونوںكى آراء كو آپس ميں قريب لانے ، جديد افلاطونى حضرات كى پيروى كرنے اور حكمت كے قواعد كو اسلام ميں مطابقت دينے ميں عظيم مقام ركھنے والے جناب ابونصر فارابى ہيں كہ جنہيں ‘معلم ثانى ‘ كا لقب صحيح طور پر ملا(2)فارابى كا فلسفہ پچھلى تحقيقات سے مختلف تھا اس ليے كہ انہوں نے گذشتہ فلاسفہ كى آراء كے مطالعہ كرتے ہوئے انہيں انكے اس خاص كلچر پرمبنى ماحول ( جسميں وہ زندگى گزار رہے تھے ) كے تناظر ميں ديكھا ہے ،انكا يہ ايمان تھا كہ فلسفہ بنيادى طور پر ايك مفہوم واحد ہے كہ جسكا مقصد حقيقت كى جستجو ہے اسى ليے انكى نظر ميں فلسفى حقيقت اور دينى حقيقت آپس ميں ہماہنگى اور مطابقت ركھتى ہيں لہذا ان دونوں كى تركيب سے ايك نئے فلسفہ كو وجود ميں لايا جائے_اس دور كے ديگرعظيم فلسفى جناب ابن مسكويہ ہيں كہ حداقل ان سے اس موضوع ميں چودہ رسالے باقى رہ گئے ہيں ، ابن مسكويہ نے اپنے ايك اہم ترين رسالہ بنام ‘ الفوز الاصغر’ ميں انسان كى خلقت كے حوالے سے اپنا ايك جديد نظريہ پيش كيا اس نظريہ ميں انہوں نے يہ ثابت كرنے كى كوشش كى كہ يہ خلقت عدم سے حقيقت ميں آئي ہے اور صورتيں بتدريج تبديل ہوجاتى ہيں ليكن مادہ اصلى شكل ميں باقى رہتا ہے پہلى صورت—————————–1) محمد بن زكريا رازى ، سيرت فلسفى ترجمہ عباس اقبال_2)ابن خلكان ، وفيات الاعيان ، قاہرہ ، 1275 ،ج 2، ص114_112_68مكمل طور پر ختم ہوجاتى ہے جبكہ بعد والى صورتيں عدم سے وجود ميں تبديل ہوتى رہتى ہيں لہذا تمام مخلوقات عدم سے تخليق ہوئي ہيں انسان كے حوالے سے انكا عقيدہ ہے كہ انسان كى خلقت اور كمال تك پہچنے كا سفر چار مراحل ‘ جمادى ، نباتى ، حيوانى اور انسانى ‘ پر مشتمل ہے اور انسان ميں روح كے نام كى ايك چيز ہے كہ جو حاضر ، غائب ، محسوس اور معقول امور كودرك كرتى ہے نيز پيچيدہ مادى امور كو بھى درك كر سكتى ہے_(1)اسى دور ميں بو على سينا بھى ايك عظيم ترين فلسفى كے عنوان سے موجود ہيں كہ جو ايك اہم شخصيت ہونے كے ساتھ ساتھ محكم اور درخشندہ فلسفى نظام كے بھى حامل ہيں انكى اہم اور برجستہ خصوصيت كہ جس كى بناء پر نہ صرف عالم اسلام بلكہ اہل مغرب كے قرون وسطى ميں يگانہ شخصيت بن كر ابھرے يہ تھى كہ فلسفہ كے بعض بنيادى مفاہيم كى دليل كے ساتھ خاص ايسى تعريف پيش كى جو صرف انكى ذات كے ساتھ خاص تھي، بو على سينا نے شناخت ، نبوت ، خدا ، جہان ، انسان اور حيات ، نفس كا بدن سے رابط اور انكى مانند ہر ايك نظريات كے حوالے سے تفصيلى اور جداگانہ معلومات فراہم كيں_انكے يہ نظريات قرون وسطى كے ادوار ميں شدت كے ساتھ مشرق اور مغرب ميں چھاگئے اور يورپ كے اہم سكولوں اور يونيورسيٹوں ميں پڑھائے جانے لگے انہوںنے ايك لحاظ سے دو دنياؤں يعنى عقلى اور دينى پر كہ جو يونان كے فلسفہ اور مذہب اسلام كو تشكيل ديتے تھے پر تكيہ كيا، عقلى لحاظ سے انہوں نے وحى كى ضرورت اور لازمى ہونے كو دليل سے ثابت كيا كہ عقلى اور روحى بصيرت ايك بلندترين عنايت ہے كہ جو پيغمبر (ص) كو عطا ہوئي ہے اور پيغمبر (ص) كى روح اسقدر قوى اور قدرت كى مالك ہوتى ہے كہ عقلى مفاہيم كو زندہ اور متحرك صورتوں ميں لے آتى ہے جسے ايمان كے طور پرلوگوں كے سامنے پيش كيا جاتا ہے_چوتھى صدى ہجرى كے دوران ايك مخفى گروپ نے فلسفى ، دينى اور اجتماعى اہداف كے پيش نظر ‘ اخوان الصفا’ تنظيم تشكيل دى ، اس گروہ كے بڑے اور معروف لوگوں ميں ‘ زيد بن رفاعہ، ابوالعلاء معري، ابن—————————1) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 6 ، ذيل ابو على مسكويہ_69راوندى اور ابو حيّان توحيدى كا نام ليا جاسكتا ہے ‘ اخوان الصفا’ ايسے اہل فكر حضرات كا گروہ تھا كہ جو افلاطون ،فيثاغورث اسكے پيروكار وںتصوف كے معتقدين ، مشائي فلسفيوں كے عرفانى افكار اور شيعہ اصولوں پر عقيدہ ركھتے تھے ، يہ گروہ چار دستوں مبتدي، صالح دانا بھائي ، فاضل كريم بھائي اور حكماء ميں تقسيم تھے كوئي بھى ممبران مراحل كو طے كر سكتا تھا انكى محفليں اور ليكچرز مكمل طور پر مخفى تھے اورانكے رسالے مصنف كے نام كے بغير بلكہ ‘اخوان الصفا’ كے كلى نام كے ساتھ شائع ہوتے تھے _اخوان الصفا نے مجموعى طور پر 51 رسالے لكھے، انكى نگاہ ميں الہى علوم پانچ مندرجہ ذيل اقسام ميں تقسيم ہوتے ہيں (1) اللہ تعالى كى معرفت اور اسكى صفات (2)علم روحانيت (3) علم نفسانيات (4)علم معاد يا قيامت شناسي(5)علم سياسيات اور يہ (سياسيات كا علم )بذات خود پانچ دستوں سياست نبوى ، سياست ملوكى ، سياست عامہ ، سياست خاصہ اور سياست ذات ميں تقسيم ہوتا ہے(1)اس دور كے بعد ہم اسى طرح متعدد فلاسفہ كے عالم اسلام ميں ظہور اور ارتقاء كا مشاہدہ كرتے ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك نے اپنا خاص نظريہ دنيا ميں پيش كيا يہاں ہم بعض شہرہ آفاق افراد كا اختصار سے تعارف كرواتے ہيں:ابوحامد محمد غزالى طوسى كہ جنكى اہم ترين كتاب ‘ احياء علوم الدين ‘ كو جو عربى زبان ميں لكھى گئي ہے اور اسميں فلاسفہ كى ديگر آراء كے مقابل دينى عقائد كا دفاع كيا گيا ہے يہ كتاب چار اقسام عبادات ، عادات ،مھلكات( ہلاك كرنے والى اشياء )اور منجيات (نجات دينے والى اشيائ) ميں تقسيم ہوئي ہے_عمر خيام ان لوگوں ميں سے تھے كہ جو يونانى علوم كى تحصيل ميں بہت سر گرم تھے خيام كے افكار ‘ اخوان الصفائ’ كے نظريات كے قريب اور انكا طرز بيان بھى انہى كى مانند ہے خيام ايسے خدا كے وجود پر عقيدہ ركھتے تھے كہ جو مطلق خير ہے اور اس سے عقاب اور عذاب صادر نہيں ہوتا_—————————-1) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج 7 ، ذيل ‘ اخوان الصفا’ _70اسى طرح ابن باجہ ، ابن ميمون قرطبى ، ابن طفيل اور ابن رشد مكتب ہسپانيہ ( اندلس )سے تعلق ركھنے والے بڑے فلاسفہ ميں سے ہيں(1)جس دور ميں ہسپانيہ ميں يہ فلاسفہ پيدا ہوئے اور ترقى كر رہے تھے اسى دور ميں ايران ميں بھى بہت سے افراد كے عروج كا مشاہدہ كرتے ہيں كہ ان ميں سے ايك شہاب الدين سہروردى ہيں كہ جو شيخ اشراق كے نام سے مشہور ہوئے انہوں نے فارسى اور عربى ميں مختلف كتابيں تصنيف كيں سہروردى كى اہم ترين تاليفات ميں سے حكمة الاشراق ، التلويحات اور ہياكل النور عربى زبان ميں جبكہ پر تو نامہ اور عقل سرخ فارسى زبان ميں ہيں_انكے علاوہ فخر الدين رازى كہ جو تقريبا سہروردى كے معاصر تھے انكا نام بھى ليناچاہيے،فخرالدين رازى ان فلاسفہ كے گروہ ميں سے ہيں كہ جو آسان نويسى ميں بہت ماہر تھے انہيں حكمت اور كلام ميںبہت مہارت حاصل تھى اسے انہوں نے اپنے شاعرانہ ذوق سے ملا ديا انكا دليل دينے كا انداز بھى مضبوط اور روان تھا_اس باب ميں وہ جو بطور فلسفى ، دانشور ، سياست دان اور مفكر كے بہت زيادہ توجہ كے مستحق ہيں وہ جناب خواجہ نصير الدين طوسى ہيں كہ جو ايران كى انتہائي سخت سياسى اور اجتماعى صورت حال ميں يعنى جب منگولوں نے حملہ كيا ظہور پذير ہوئے ، جناب طوسى مكمل طور پر فلسفہ ميںبو على سينا كے پيروكار تھے ليكن اپنى خاص نظر و آراء بھى ركھتے تھے_(2)طوسى كے بعد اہم ترين فلسفى ميرداماد استر آبادى ہيں كہ جو تقريباً صفوى دور ميں تھے انكى مشہور تصنيفات ميں سے ايك ‘ القبسات ‘ ہے كہ جس ميں انہوں جہان كے حدوث اور قديمى ہونے كے حوالے سے بحث كى اور اسكے ضمن ميں انہوں نے معقولات مجرد كے جہان كو حادث دہرى ( زمانى ) گردا نا ہے_————————–1) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج 3 ذيل ابن رشد_2) محمد تقى مدرس رضوى ، احوال و آثار خواجہ نصير الدين طوسى ، 71_4071اس دور ميں دوسرے مشہور فلسفى ميرفندرسكى ہيں انكى ظاہرى بود و باش سادہ اور درويشوں كے ہم محفل تھے ميرفندرسكى كے افكار و نظريات بو على سينا اور فلسفہ مشاء كے كلمات اور آراء كى حدود كے اندر ہيںميرفندرسكى نے ان تمام موارد ميں كہ جہاں فلسفہ مشاء اور سہروردى كے حاميوں ميں اختلاف نظر تھا وہاں فلسفہ مشاء كا دفاع كيا ، ميرفندرسكى گذشتہ ادوار كے تمام اسلامى فلاسفہ ميں تنہا وہ شخصيت ہيں كہ جو زبان سنسكريت كو جانتے تھے اسى ليے انہوں نے ہند كے فلاسفہ كى ايك اہم ترين فلسفى او ر نظرياتى كتاب يعنى ‘ مہا بہارات’ كى شرح لكھي_گيارھويں صدى ہجرى ميں ميرفندرسكى كے فورا بعد ملا صدراى شيرازى كہ جو صدر المتا لہين كے نام سے معروف ہوئے پيدا ہوئے وہ اس صدى كے بالخصوص اشراق كے حوالے سے سب سے بڑے فلسفى ہيں ملا صدرا نے اپنى تعليم كے آغاز سے نظريات كے پختہ ہونے كے زمانہ تك تين :مراحل شاگردى كادور، عبادت اور گوشہ نشينى كا زمانہ اور تاليف اور افكار و آراء بيان كرنے كا دورانيہ گزارے ، ملا صدرا كى اہم ترين فلسفى تاليفات ميں سے الاسفار الاربعہ اور المبداء و المعاد ہيں_عالم اسلام ميں فلسفہ كے تجزيہ و تحليل كے حوالے سے ايك اہم ترين پہلو اس علم كا مختلف زمانوں ميں تحرك، زندگى او ر بقا ہے، جيسا كہ ملاحظہ ہوا كہ صدرا اسلام بالخصوص كندى كے زمانہ زندگى سے ملاصدرا كے دور تك اسلامى فكرى تحرّك عروج كے مدارج طے كرتا رہا اور كبھى بھى كوئي دور ايك بڑے فلسفى سے خالى نہ تھا يہ ارتقاء ملاصدرا كے بعد بھى جارى رہا ملاصدرا نے اپنى آراء ايك عظيم اور مكمل فلسفى تحريك ‘ مكتب فلسفى تہران ‘ كى صورت ميں يادگار كے طور پر چھوڑيں انكے بعد يہ مكتب زنديہ خاندان كے دور اور قاجار حكومت كے دور ميں جارى رہا اور اس مكتب نے بڑى تعداد ميں عظيم فلاسفہ يادگار كے طور پر چھوڑے مكتب فلسفى تہران اب بھى جارى ہے_(1)—————————-1) اكبر دانا سرشت ، سہروردى و ملا صدرا_727) منطقمسلمان اوائل سے ہى اپنى خاص منطق ركھتے تھے يہ منطقى روش واضح طور پر علم كلام او ر اصولى فقہ ميں ديكھى جا سكتى ہے اس قسم كى منطق ميں اگرچہ مسلمان ارسطو كى منطق سے الہام ليتے تھے ليكن بہت ہى كم اس سے متاثر ہوتے تھے، بطور خاص علم اصول الفقہ فقہاء كى منطق شمار ہوتا آيا ہے كہ جو مكمل طور پر مسلمانوں سے ہى تشكيل پايا، اور اہل كلام حضرات بھى پانچويں صدى تك ارسطو كى منطق سے كم ہى مدد ليتے تھے بلكہ اپنى خاص منطقى روش ركھتے تھے _عالم اسلام ميں پہلى بار ايرانى دانشور ابن مقفع نے مقولات ، عبارات اور قياس كے عربى ترجمہ ميں سبقت كى اور ديگر مترجمين نے بھى منطقى رسائل كا ترجمہ كيا اس حوالے سے كندى ، فارابى ، ابن سينا ، بھمنياربن مرزبان اور حكيم لوكرى نے كوشش كيں، ليكن بو على سينا نے كتاب شفا ميں اگرچہ منطق ارسطو كے نصاب كو اصلى حالت ميں رہنے ديا اور مكمل طور پر اسكى شرح لكھى ليكن اپنى ديگر كتابوں ميں اس منطقى روش ( ارسطو كى روش) ميں بہت زيادہ كمى بيشى كى ، انہوں نے كتاب منطق المشرقين كے ديباچہ ميں يہ تاكيد كے ساتھ بتايا كہ وہ اسى طرح مشائين كى روش پر وفادار رہے ہيں _خواہ نصير الدين طوسى نے بھى منطق ميں بہت تحقيق كى اور متعدد كتابيں كہ جن ميں سے اساس الاقتباس،شرح منطق اشارات ، تعديل المعيار اور التجريد فى المنطق تحرير كيں، وہ منطق كو علم كے ساتھ ساتھ وسيلہ بھى سمجھتے تھے ان كے خيال ميں منظق ايك ايسا علم ہے جو معنى اور انكى كيفيت كى شناخت كے ساتھ ديگر علوم كى فہم و ادراك كى كليد بھى ہے_ابن تيميہ ( متوفى 661) بھى اسلام كے بڑے منطقيوں ميں سے ہيں انكى اس حوالے سے اہم ترين كتابوں ميں سے كتاب الرد على المنطقيين اور نقض المنطق ہيں_ابن تيميہ كے بعد ارسطو كى منطق كے بڑے ناقد ابن خلدون ہيں انہوں نے اپنى اہم كتاب ‘ العبرو ديوان المبتداء والخبر’ كے مختلف ابواب ميں منطق كے حوالے سے گفتگو كى انہوں نے تاريخى نگاہ سے منطق
73كا تجزيہ كيا اور واضح كيا كہ كيسے اس علم نے جنم ليا اور عالم اسلام ميں كس طرح داخل ہوا ، انہوں نے مختصر سے انداز ميں ماہيت منطق كى تعريف كى اسكے بعد اسكے مبادى اور اساس پر بحث كى _گيارھويں صدى ہجرى ميں صدرالدين شيرازى ( ملا صدرا) كے ظہور كے ساتھ اسلامى تمدن ميں فكرى اور عقلى فعاليت اپنے عروج كو پہنچ گئي تھى ملا صدرا نے اپنى كتاب الاسفار كى مقدماتى فصول ميں مشائيوں كى پيروى ميں علوم كى تقسيم بندى اور منطق كے حوالے سے بھى گفتگو كى انكى روش منطق بہت زيادہ ابن سينا كى روش منطق سے مشابہت ركھتى ہے(1)
تاريخ اور تاريخ نگاريزمانہ جاہليت ميں عرب كى ثقافت حفظ پر قائم تھى اور اسى طريقے سے ايك نسل سے دوسرى نسل ميں منتقل ہو رہى تھى ظہور اسلام سے پہلے اور قران كى گذشتہ اقوام كى داستانوں سے عبرت لينے كى تعليمات تك _ زمانہ جاہليت كے عرب لوگ وقت كے تسلسل كو ايك تہذيبى مفہوم كے طور پر نہيں سمجھتے تھے _ ليكن سب سے اہم چيز جس نے مسلمانوں كو تا ريخ نگارى اور تاريخ سے عبرت لينے كى طرف ترغيب دلائي وہ قران و حديث كى تعليمات تھيں لہذا عربوں ميں تاريخ اور تاريخ نگارى كا علم ظہور اسلام كے اوائل ميں ہى وجود ميں آيا_ مسلمان اپنے تاريخى مطالعات ميں قران و حديث سے متاثر ہوتے ہوئے سب سے پہلے پيغمبر اكرم (ص) كى سيرت اور جنگوں كى طرف متوجہ ہوئے اسكے بعد تاريخ نگارى كے ديگر موضوعات كى طرف بڑھے_ سب سے پہلے مسلمان مورخين ميں ‘ ابو مخنف’ ( متوفى 175 م ) كا نام ليا جاسكتا ہے وہ كسى ايك موضوع پر مبنى متعدد تواريخ كے مصنف تھے جنكے كچھ حصوں كاذكر تاريخ طبرى ميں موجود ہے_ ابن اسحاق ( متوفى 150 ق) بھى وہ پہلى شخصيت ہيں كہ جنہوں نے سيرہ نبوى پر كتاب لكھي_(2)—————————–1) محمد خوانسارى ، قوانين مطنق صورى ( مختلف جگہ سے) ابو نصر فارابى ، احصاء العلوم ، ص 53 _دانش پوہ ، محمد تقى ، ‘ از منطق ارسطو روش شناسى نوين ‘ مجلہ جلوہ ،س 1، ش1، ص 24_2) عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب ، ترجمہ آذر تاش آذر نوش ، ص 153_74اس كتاب كے كچھ حصے تاريخ طبرى ميں نقل ہوئے ہيں اگرچہ يہ كتاب بذات خود ہمارے ہاتھ تك نہيں پہنچى ليكن يہ مكمل طور پر سيرہ ابن ہشام ميں آچكى ہے، واقدى ( متوفى 209 قمري) نے پيغمبر اكرم(ص) كى جنگوں كے حوالے سے مشہور كتاب ‘ المغازى ‘ لكھي_ واقدى كے شاگر د ابن سعد نے بھى پيغمبراكرم (ص) ، صحابہ اور تابعين كى زندگى كے حالات پر كتاب ‘ الطبقات’ لكھى ، تيسرى صدى ہجرى ميں بلاذرى ( متوفى 279 قمري) نے دو قيمتى تاريخى كتابيں ‘ فتوح البلدان ‘ اور ‘ انساب الاشراف’ اپنے بعد يادگار چھوڑيں_ اس صدى كے دوسرے نصف حصہ ميں اس دور كے اسلام كے بہت بڑے مورخ طبرى نے عظيم كتاب ‘ تاريخ الامم و الرسل و الملوك’ تصنيف كى _پانچويں صدى ہجرى ميںچند بڑے مورخ گزرے ہيں_ كتاب تجارب الامم كے مصنف ابن مسكويہ ، سلاطين غزنوى كے ليے لكھى جانے والى كتاب تاريخ يمينى كے مصنف عتبى ، تاريخ بغداد كے مصنف خطيب بغدادى _ چھٹى صدى ہجرى ميں حالات زندگى پر لكھى جانے والى كتاب ‘ الاعتبار ‘ كے مصنف اسامہ بن منقذ (متوفي584 قمرى )اور سلجوقيوں كى تاريخ پر لكھى جانے والى كتاب ‘ نصرة الفترہ’ كے مصنف عماد الدين اصفہانى (متوفى 589 قمرى ) اس دور كے بڑے مورخ شمار ہوتے تھے_ساتويں صدى ہجرى ميں ہم بہت بڑے مورخين كا سامنا كرر ہے ہيں ابن اثير جو كہ عرب زبان مورخين ميں سب سے مشہور ہيںاور انہوں نے كتاب ‘ الكامل فى التاريخ’ اور ‘اسد الغابة’ تحرير كيں _ اس صدى كے دوسرے برے مورخين ابن خلكان ہيں كہ جنہوں نے اہم رسالہ ‘وفيات الاعيان ‘تحرير كيا كہ جو شخصيات كے تذكرہ اور تاريخ ادب پر فہرست كى روش پرہے_آٹھويں صدى ہجرى ميں ابن ابى زرع ( متوفى 727قمرى )نے مغرب كى تاريخ كے حوالے سے اپنى اہم كتاب ‘ روض القرطاس’ اور ابوالفداء نے كتاب’ المختصر فى اخبار البشر’ تحرير كى نويں صدى ہجرى ميں تقى الدين فاسى نے تاريخ مكہ تحرير كى اسى صدى ميں مقريزى نے مصر كى تاريخ اور جغرافيہ پر اپنى اہم ترين
75كتاب’ الخطط والآثار’ تحرير كى _ گيارہويں صدى ہجرى ميں مقرّى نے ہسپانيہ كى تاريخ پر كتاب’ نفح الطيب’ لكھى _ (1)عربى زبان ميں تاريخ نگارى كے ادوار كى مانند فارسى زبان ميں بھى تاريخ نگارى نے اسى طرح سفر كيا اور مراحل ارتقاء طے كيے _ عربى زبان كے مورخين كى مانند ايرانى مؤلفين نے بھى بہت سے ادوار ميں تاريخى كتب تحرير كيں يا عربى سے فارسى ميں ترجمہ كيں _ فارسى زبان ميں قديمى ترين عمومى تاريخى كتابوں ميں سے جو باقى رہ گئي ہيں ان ميں سے تاريخ بلعمى كہ جو ابوعلى بلعمى نے 352قمرى ميں تحرير كى _اسكے بعد كتاب’ زين الاخبار گرديزي’ ( پانچويں صدى كے پہلے نصف حصہ كى تأليف) كا نام بھى ليا جاسكتا ہے ليكن ايران ميں فارسى زبان كى تاريخ نگارى كا سب سے اہم ترين دور منگولوں كا دور يعنى ساتويں صدى كے بعد كا ہے_ اس دور ميں ہم فارسى تاريخى كتاب نويسى ميں انقلابى اٹھان كا مشاہدہ كرتے ہيں اس دور كى اہم ترين تاريخى كتابيں ‘ تاريخ جہانگشاى جوينى ‘ ہے كہ جو عطاملك جوينى كى تحرير ہے ، عثمان بن محمد جو زجانى كى تصنيف طبقات ناصرى جو 658 ق ميں تاليف ہوئي، عبداللہ بن عمر بيضاوى كى نظام التواريخ ، رشيد الدين فضل اللہ ہمدانى كى جامع التواريخ ، فخر الدين داؤد بناكتى كى تاريخ بناكتى ، حمداللہ مستوفى كى تاريخ گزيدہ، شرف الدين عبداللہ وصاف شيرازى كى تجزية الادصار يا تاريخ وصاف اور محمد بن على شبانكارہ كى مجمع الانساب ہيں _ فارسى زبان ميں تاريخ نگارى كى عظمت و بلندى تيمورى اور تركمانى ادوار ميں بھى جارى رہى ، ان ادوار كى يادگار كتب ميں سے حافظ ابرو كى مجمع التواريخ السلطانيہ’ ، شرف الدين على يزدى كى ظفرنامہ ، مير خواند كى روضة الصفا اور خواند مير كى تاريخ حبيب السير كا نام ليا جاسكتا ہے_ (2)تركمانى دور كے بعد صفوى حكومت قائم ہونے كے ساتھ ہى فارسى زبان ميں تاريخ نگارى ميں اہم انقلاب————————1) دانشنامہ جہان اسلام ، ج 6 ذيل تاريخ و تاريخ نگار ى _2)دانشامہ جہان اسلام ، ج 6 ذيل تاريخ و تاريخ نگارى _76پيدا ہوا يہ انقلاب شيعى نظريات كى اساس پر تاريخ نگارى كى جديد شكل تھا_ اس طرز كى اہم ترين تاريخى كتابوں ميں سے ابن بزاز كى تحرير صفوة الصفا ، اسكند بيك منشى تركمان كى ‘ تاريخ عالم آراى عباسي’ يحيى بن عبداللطيف قزوينى كى ‘لب التواريخ ‘اور قاضى احمد غفارى كى ‘تاريخ جہان آرا ‘قابل ذكر ہيں _اس دور كے مورخين كى ايك بڑى تعدا دصفوى بادشاہوں كى حكومت كى تاريخ كو تاريخ نگارى كا بنيادى موضوع قرار ديے ہوئے تھى _ اس حوالے سے بہت سى كتابيں تاليف ہوئيں ان ميں سے بوداق منشى قزوينى كى ‘جواہر الاخبار ‘قابل تذكرہ ہے _افشاريہ اور زنديہ سلسلہ حكومت كے ادوار ميں صفوى تاريخ نگارى شيعى رحجان كے ساتھ جارى رہى اس دوران كے اہم ترين مورخين ميں سے نادر شاہ كے مخصوص منشى ميرزا مہدى خان استر آبادى تھے كہ جنہوں نے بہت سے تاريخى آثار چھوڑے ان ميں سے ‘درّہ نادرہ’ اور’ جہانگشاى نادري’ قابل ذكر ہيں _ زنديہ سلسلہ حكومت كے دور ميں بھى ہم ‘محمل التواريخ ‘كے مصنف ابوالحسن گلستانہ ‘روزنامہ ميرزا محمد كلانتر ‘كے مصنف ميرزا محمد كلانتر اور ‘تاريخ گيتى گشا ‘كے مصنف ميرزا صادق موسوى اصفہانى جسے مورخين سے آشنا ہوتے ہيں_قاجاريہ سلسلہ حكومت كے دور ميں فارسى زبان ميں ايرانى تاريخ نويسى ايك اہم تبديلى سے دوچار ہوئي جسكى بناپر اس دور كى تاريخ نگارى كودو اقسام ميں تقسيم كرنا چاہيے : ايرانيوں كى جديد علوم سے آشنائي سے پہلے او ر اسكے بعد ، قارجايہ حكومت كے پہلے دور ميں تاريخ نگارى صفويہ اور زنديہ ادوار كى مانند اسى سبك و سياق اور ادبى نثر پر جارى رہى جبكہ دوسرے دور ميں ايرانيوں كى يورپ كى جديد تاريخ نگارى روش سے آشنائي كے بعد تاريخ نگارى كا آغاز ہوا ، ايران كى روس سے شكست اور اس شكست كے اسباب اور ايرانيوں كا يورپى زبانوں سے ترجمہ كے كام كى طرف توجہ قاجار يہ دور ميں تاريخ نگارى كے دوسرے مرحلہ كا آغاز ہے _قاجاريہ دور كے پہلے مرحلہ ميں تاريخ نگارى كے اہم آثار ميں سے ميرزا فضل اللہ خاورى شيرازى كى
77تاريخ محمدى اور تاريخ ذوالقرنين، عبدالرزاق مفتون دنبلى كى ‘مآثر سلطاني’، عضدالدولہ سلطان احمد ميرزا كى ‘تاريخ عضدى ‘، اور محمد تقى سپہر كى ‘ناسخ التواريخ ‘كا نام ليا جاسكتا ہے ،قاجاريہ كے دوسرے دور ميں يورپ كى زبانوں سے ترجمہ كى بناء پر يورپ كى تاريخ كے متعلق چند كتابوں ميںسے ايڈورڈگيبن كى كتاب’ تاريخ انحطاط و زوال امپراتورى روم’ كہ جو فارسى ميں ترجمہ ہوئي اسى طرح سرجان ملكم كى كتاب’ تاريخ ايران’ كہ جوانگريزى ميں تصنيف ہوئي اور بعد ميں فارسى ميں ترجمہ ہوئي_(1)يہ تاريخ نگارى كے متعلق كچھ نكات تھے كہ جنكى طرف ہم نے اشارہ كيا ، اسلامى ادوار ميں تاريخ نگارى كے حوالے سے ايك اور قابل توجہ بحث يہ ہے كہ مورخين نے تاريخ نگارى كى مقبوليت كى بناء پر كتب كى تصنيف و تاليف ميں مختلف اقسام كے سبك و سياق كى پيروى كى اسى ليے ہم انكے تاريخى آثار كو چند اقسام ميںتقسيم كر سكتے ہيں جوكہ مندرجہ ذيل ہيں :الف) روائي تاريخ نويسي: يہ مختلف موضوعات مثلا حديث ، قصہ ، مقتل ، سيرت اور جنگوں كے احوال ميں تقسيم ہوتى ہے _ب) وقايع نويسى : واقعات اور رودادوںكوتاريخى نظم كے ساتھ تسلسل كى شكل ميں ايك جگہ پيش كرنا _ج) ذيل نويسى اور مختصر نويسي: گذشتہ لوگوں كى تاريخى كتب پر ذيل و حاشيہ اور تكميلى نوٹ لكھنا_د)عمومى تاريخ نويسي: تقويم اور سالوں كى ترتيب كے ساتھ اسلامى ممالك كے واقعات كو قومى و جغرافيائي عناصر كى مداخلت كے بغير لكھنا _ہ) انساب كى روسے تاريخ نويسي: انساب كے سلسلہ اور شجرہ نسب كى آشنائي كے ساتھ تاريخى حوادث كا ذكر اور انكا ايسے قبائل اور طوائف سے ربط بيان كرنا جن كا پس منظر زمانہ جاہليت سے جا ملتا ہے _و) طبقات كے اعتبار سے تاريخ نويسي: يہ تاريخ نگارى ميں اسلامى مورخين كى قديم ترين روش ہے————————-1) دانشنامہ جہان اسلام ج 6 ذيل تاريخ و تاريخ نگارى _78طبقات كے نام كى تاريخى كتب ميں ہر زمانہ ياہر نسل كى ديني، علمى اور سياسى شخصيات كے حالات زندگى زمانى ترتيب كے ساتھ ہر ايك طبقہ كو ديگر طبقات اور ادوار سے جدا كرتے ہوئے لكھے جاتے ہيں _ز) سرگذشت نامے: يہ روش بہت سى تاريخى كتب ميں پائي جاتى ہے يعنى خلفاء ، حاكموں اور علماء كے حالات زندگى كے بارے ميں كتب تحرير كرنا ، تاريخ نويسى كى يہ روش پيغمبر اكرم (ص) كے حوالے سے تحرير شدہ سيرتوں كے زير اثر وجود ميں آئي _ح) صدى نامہ : تاريخ نويسى كى يہ روش ساتويں صدى سے رائج ہوئي اس روش ميں ايك معين صدى كى شخصيات كى سرگذشت الف ب كى ترتيب سے لائي جاتى ہے _ط) مقامى تاريخ نويسى :سال بہ سال تاريخ نويسى كى روش كے مطابق ايك منطقہ ، سرزمين يا شہر كے تاريخى حالات و واقعات كا ذكر _ى ) خاندانى تاريخ نويسي: خلفا اور سلاطين كے دور فرمانروائي كى بنياد پر لكھى جانے والى كتب اور رسالات اس قسم كى تاريخ نويسى ميں جو كہ قبل از اسلام كے ايرانى لكھاريوں كے اسلوب كا اقتباس ہے بادشاہوںكى تاريخ كو مرتب كيا جاتا ہے_درج بالا ہر ايك قسم كے تحت مختلف كتب اور رسالے فارسى اور عربى ميں تدوين كئے گئے ہيں كہ جنہيں مفصل تاريخى ما خذاور كتابيات ميں تلاش كيا جاسكتا ہے_(1)
9 ) جغرافيامسلمانوںنے علم جغرافيہ ميں بھى ديگر قديم علوم مثلا رياضي، طب اور نجوم كى مانند گذشتہ تہذيبوں خصوصاً يونان، ايران اور ہند كا سہارا ليا انہوں نے ان تہذيبوںكے آثار كا مطالعہ اور ترجمہ كرتے ہوئے ان علوم كو وسعت بخشي_ ايران ، مصر اور سندھ كى فتح سے مسلمانوں كو موقع ملا كہ ان تين تہذيبوں كے لوگوں كى علمى و—————————1) رسول جعفريان ، منابع تاريخ اسلام ، قم ص 51 ، فرانتس روزنتال ، تاريخ و تاريخ نگارى در اسلام ، ترجمہ اسداللہ آزاد ص 84، 81 ، عبدالعزيز دورى ، بحث فى نشان علم التاريخ عندالعرب ص 86 _ 81_79ثقافتى ترقى سے ابتدائي معلومات حاصل كريں _ ہندى جغرافيہ كے حوالے سے مسلمانوں كے پاس اہم ترين منبع كتاب ‘ سوريا سدھانتہ’ تھى كہ جو منصور عباسى كے دور خلافت ميں سنسكرت سے عربى ميں ترجمہ ہوئي _ يونان سے جغرافيہ اور نجوم كى معلومات بھى بطليموس اور ديگر يونانى دانشوروں كے آثار كے ترجمہ سے مسلمانوں ميں منتقل ہوئيں بطليموس كى جغرافيہ كے بارے ميں كتاب عباسى دور ميں چند بار ترجمہ ہوئي ليكن آج جو كچھ ہمارے پاس اس كتاب كے حوالے سے ہے وہ محمد بن موسى خوارزمى كا اس كتاب سے اقتباس ہے كہ جو مسلمانوں كى اپنى معلومات سے مخلوط ہوگيا ہے (1)اسلامى تہذيب ميں علم جغرافيہ كا آغاز منصور عباسى كى خلافت كے زمانہ ميں ہو ا اور بالخصوص مامون كى خلافت كے زمانہ ميں اس علم كى طرف سركارى توجہ بڑھى مامون كى خلافت كے زمانہ ميں جغرافيہ نے بہت ترقى كى _ كرہ زمين كى قوس سے ايك درجہ كى پيمائشے ، نجومى جدول اور مختلف جغرافيائي نقشہ جات كا تيار ہونا و غيرہ اس ترقى كے ثمرات تھے_تيسرى صدى ہجرى سے قبل جغرافيہ كے حوالے سے جداگانہ تصنيفات موجود نہ تھيں بلكہ كہيں كہيں ہميں اس زمانے كى كچھ جغرافيائي معلومات منتشر صورت ميںملتى ہيں ليكن تيسرى صدى ہجرى اسلامى تہذيب ميں علم جغرافيہ ميں اختراعات اور ترقى كا زمانہ ہے كيونكہ اس صدى ميں ايك طرف بطليموس كے آثار سے آشنائي حاصل ہوئي اور اسكے بعد ايسے تراجم ظاہر ہوئے كہ جنكى بناء پر سائينٹيفك جغرافيہ كا آغاز ہوا دوسرى طرف توصيفى جغرافيہ كى تشريح كيلئے گوناگون نمونہ جات بنائے گئے اور اسى صدى كے آخر ميں كئي جغرافيائي كتب تحرير ہوئيں اور مختلف قسم كے سفرنامے دائرہ تحرير ميں آئے_چوتھى صدى ہجرى ميں اسلامى جغرافيہ ميں مختلف مكتب پيدا ہونے سے جو’ مسالك و ممالك ‘ كوخاص اہميت ديتے تھے اور اسلامى اطلس يعنى جغرافيائي اشكال كے بہترين نمونوں سے بہت نزديكى تعلق ركھتے تھے————————–1)فرانتس تشنر و مقبول احمد ، تاريخچہ جغرافيا در تمدن اسلامي، ترجمہ محمد حسن گنجى و عبدالحسين آذرنگ ص 10 و 9_80جغرافيہ كى تاليفات اپنے عروج كو چھونے لگيں(1)_اسلامى تمدن ميں علم جغرافيہ كے تاريخى اتار چڑھاؤ كو مختلف ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتاہے:
پہلا دور (تيسرى اور چوتھى صدي)اس دور ميں علم جغرافيہ عروج كى طرف قدم بڑھا رہا تھا اس دور كى جغرافيائي تاليفات كو دومكتبوں ميں تقسيم كيا جاتاہے كہ ان دونوں كے ذيل ميںبھى اقسام ہيں : ايسے متون كہ جومجموعاً كائنات كے بارے ميں تحرير ہوئے ہيں ليكن اسلامى خلافت كى بعنوان مركز عالم اسلام زيادہ تفصيلات بتائي گئيں ہيں _وہ تحريريں جو واضح طور پر ابو زيد بلخى كے نظريات سے متاثر ہيںاور فقط اسلامى سرزمينوں كى روداد بيان كررہى ہيں اور اسلامى مملكت كے ہر گوشے يا رياست كو جدا سلطنت سمجھا گيا ہے اور سوائے سرحدى علاقوں كے بہت كم غير مسلم سرزمينوں كے بارے ميں بحث كى گئي ہے_(2)
دوسرا دور (پانچويں صدي)يہ اسلامى جغرافيہ كے عروج كى صدى ہے اس دور ميں مسلمانوں كا علم جغرافيہ خواہ انہوں نے يونانيوں اور ديگر تہذيبوںسے اقتباس كيا ہو خواہ انہوں نے يہ معلومات تحقيق، مشاہدہ اور سياحت كے ذريعے حاصل كى ہوں ترقى كى بلندترين سطح كو چھورہا تھا_
تيسرا دور(چھٹى صدى سے دسويں صدى تك )يہ اسلامى جغرافيائي معلومات كى پيوستگى اور ترتيب دينے كا زمانہ ہے _ اس دور ميں ادريسى جيسے حضرات كے سوا متقدمين كى كتب كے مقابلہ ميں كوئي خاص ترقى نہيں ہوئي اور جغرافيہ كے موضوع پر علمى اور ناقدانہ————————–1)سيد حسين نصر، علم و تمدن در اسلام، ترجمہ احمد آرام، ص88، تشنر و احمد ، تاريخچہ جغرافيا در تمدن اسلامى ص 12_2)ايگناتى يوليا نويچ كراچكو منكى ، تاريخ نوشتہ ہاى جغرافيائي در جہان اسلامى ترجمہ ابوالقاسم پايندہ ص 7،6_81مزاج اور معلومات كے درست اور مستند ہونے كے بارے ميں حساسيت _ جو كہ متقدمين كى اہم خصوصيات تھيں _ ان خصوصيات نے اپنى جگہ تلخيص اور گذشتہ لوگوں كے روائي اور نظرى اقوال كو نقل كرنے كو دے دي(1)_
چوتھا دور (گيارہويں سے تيرہويں صدى تك)اس دور ميں ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ اسلامى جغرافيہ ميں جديد تحقيقات شاذو نادر ہيں كلى طور پر اس دور كا نام ‘زمانہ جمود ‘ ركھا جاسكتاہے ليكن اس دور كے آخر ميں اسلامى جغرافيہ ميں اہم واقعہ رونما ہوا وہ يہ كہ مسلمان يورپى جغرافيہ سے آشناہوئے انكى يہ آشنائي مغربى جغرافيايى آثار كے ترجمہ كے ذريعے عمل ميں آئي(2)پہلے دور كے مصنفين يعنى تيسرى اور چوتھى صدى كے جغرافيہ دانوں ميں سے ‘ابن خردادبہ’ كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جنہوں نے جغرافيہ اورديگر علوم ميں دس عناوين سے زيادہ كتب تاليف كيںالمسالك و الممالك انكى جغرافيہ كى تاليفات ميں سے ايك ہے اس گروہ كے ديگر نمايندے ‘ البلدان’ كے مولف يعقوبى اور اخبار البلدان كے مصنف ابن فقيہ ہمدانى ہيں اس گروہ كے مشہورركن جو كہ چوتھى صدى كے مشہورترين جغرافيہ دان شمار ہوئے ہيں وہ ابوالحسن على بن حسين بن على مسعودى ہيں ، جناب مسعودى جغرافيہ كو علم تاريخ كا جزو سمجھتے تھے_ اسى ليے انہوں نے اپنى جغرافيہ كے حوالے سے معلومات كو اپنى تاريخ ميں اہم كتاب ‘مروج الذہب و معادن الجوہر ‘ميں تحرير كيا_اسى طرح اس دور كے ديگر قابل ذكر جغرافيہ دانوں ميں سے كتاب’ المسالك و الممالك كے مصنف اصطخري’ ، كتاب ‘ صورة الارض يا المسالك والممالك’ كے مصنف ابن حوقل اور ‘ كتاب احسن التقاسيم فى معرفة الاقاليم’ كے مصنف مقدسى ہيں _—————————1) تشنر و احمد ، پيشين ص 48 ، 38_2) آندرہ ميكل اور انكے معاون حائرى لوران، اسلام و تمدن اسلامي، ترجمہ حسن فروغى ص 482، 481_82دوسرے دور يعنى پانچويں صدى ميں بڑے اور عظيم جغرافيہ دانوں كے ظہور كا ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ ان ميں سے اہم ترين ابوريحان بيرونى ہيں جناب بيرونى علم جغرافيہ كى ايك انتہائي فنى اور پيچيدہ ترين شاخ يعنى رياضياتى جغرافيہ كے مؤسس ہيں اس حوالے سے انكى كتاب كا نام ‘ تحديد نہايات الاماكن’ ہے علاوہ ازيں علم جغرافيا ميں البيرونى كے ہم عصر اور ہم رتبہ دانشور ابوعبداللہ بن عبدالعزيز بكرى قرطبى ہيںجو ہسپانيہ كے دانشور تھے انكى جغرافيہ كے حوالے سے كتاب كا نام ‘ معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع’ ہے_تيسرے دور يعنى چھٹى سے دسويں صدى تك جس كا نام ہم نے اسلامى جغرافيہ ميں ‘زمانہ تلفيق ‘ركھا ہے كى كتب كو بطور كلى آٹھ اقسام ميں تقسيم كيا جاسكتاہے : 1_ كائنات كى توصيف 2_(cosmology) علم كائنات كے متون 3_ جغرافيائي تہذيبيں 4_ زيارت ناموں كى كتب 5_ سفرنامے 6_ جہاز رانى سے متعلق متون 7_ فلكياتى آثار 8_ مقامى جغرافيا ئي متون (1)ان بہت سے آثار ميں سے كچھ جو مندرجہ بالا اقسام كے حوالے سے تاليف ہوئي مندرجہ ذيل ہيں : محمد بن احمد فرقى كى كائنات كى توصيف كے حوالے سے كتاب’ منتھى الادراك فى تقسيم الافلاك’، ياقوت حموى كى تہذيبوں كے حوالے سے ‘معجم البلدان ‘ سفرناموں كے حوالے سے ‘رحلہ ابن جير ‘اور اس دور ميں اہم ترين جغرافيہ دان ابن بطوطہ ہيں كہ جو مشہور سفرنامہ كے مصنف ہيں يہ كتاب انكے مختلف اسلامى سرزمينوں ميں 25 سالہ سفر كا ثمرہ ہے_اس دور كے آخر تك مقامى جغرافيہ پر عربى اور فارسى ميں بہت سى كتابيں لكھى گئيں كہ ان ميں فارسى كتب ميں سے ابن بلخى كى فارس نامہ ، حمد اللہ مستوفى كى ‘نزھة القلوب’، محمد بن نجيب بكران كى ‘جہان نامہ’، عبدالرزاق سمرقندى كى ‘مطلع السعد’ اور امين احمد رازى كي’ ہفت اقليم ‘قابل ذكر ہيں_————————–1)تشنر و احمد، سابقہ ماخذ_83ادب:الف) عربى ادباسلام كى پيش رفت كے آغاز سے ہى عربى ادب خصوصاً شاعرى خاص توجہ كا مركز بن گئي اسلامى فتوحات عربى اشعار ميں اپنا جلوہ دكھانے لگيں اور عبداللہ بن رواحہ، كعب بن مالك، حسان بن ثابت و غيرہ جيسے برجستہ شعرا كے آنے سے آہستہ آہستہ قرآنى كلمات اور مضامين بھى عربى شاعرى ميں سمونے لگے حسان بن ثابت نے پيغمبر اكرم(ص) اور ان كے صحابہ كى دس سال تك مدح و ستائشے ميں قصايد كہے اورانہوں نے رسول اكرم(ص) كى وفات پر مرثيہ سرائي بھى كي_قرآن مجيد كے بعد اولين اسلامى منثور آثار احاديث نبوى (ص) ہيں جن كى نثر روان اور سادہ ہے،خطبات ميں ‘حجة الوداع’ سے امير المؤمنين (ع) كے گہر بار اقوال تك مسجع و مقفع اور خوبصورت لفاظى سے بھر پور نثر ملتى ہے_ خطوط اور عہدنامے و غيرہ جن ميں سياسى اور اجتماعى موضوعات پائے جاتے ہيں كو دينى متون كى حيثيت حاصل ہے _پہلى صدى ہجرى ميں عربى نثر مذكورہ موضوعات تك ہى محدود رہى ہے_كميت ( 126_ 60 قمري) كے عموماً شيعى اور خاص طور پر اشعار ہاشميات ايك پايدار مكتب كى شكل ميں آگئے اور روز بروز روحانى رنگ ان پر بڑھنے لگا _ اسكے اہم ترين دينى اشعار چار قصيدے ہيں كہ جو ہاشميات كے نام سے شہرت پاگئے _ (1)زمانہ كے گذرنے كے ساتھ ساتھ عربى ادبيات نے زيادہ سے زيادہ اسلامى تہذيب كو اپنے اندر جذب كيا اسطرح كہ بہت كم ہى كوئي خطبہ يا تحرير مل سكے گى كہ جسكا آغاز قرانى مناجات اور پيامبر اكرم (ص) كى مدح سے نہ ہو اسى طرح اخلاقى اقدار كے متعلق زمانہ جاہليت كے بہت سے كلمات نے بتدريج اپنے مفاہيم بدل لئے اور كلمات مثلا شجاعت، وفا، صداقت، صبر اور سخاوت و غيرہ قيمتى اور معنوى كلمات ميں تبديل ہوگئے_ (2)————————-1) زكى مبارك، الملائح النبوية فى الادب العربى ص 23_6_2) توشى ہيكو ايزدتسو ، ساختمان معناى مفاہمى اخلاقي، دينى در قرآن ، ترجمہ فريدون بدرہ اى ص 50 كے بعد _84بنى اميہ كے زمانہ ميں سياسى وجوبات كى بناء پر شعر اور شاعرى توجہ كا مركز قرار پائي انہوں نے كوشش كى كہ اشعاركے ذريعے لوگوں كو اپنى طرف جذب كريں يابزعم خويش انعام اور صلہ دے كر لوگوں كى زبان تنقيد بند كريں _ لہذا اس دور ميں شاعرى حاكموں كى توجہ كا مركز بنى اس سے انكا ہدف اپنے مخالف اور رقيبوں(اہل بيت پيغمبر(ص) ) سے مقابلہ كرناتھا بنى اميہ اچھى طرح جانتے تھے كہ لوگ خلافت كو اہل بيت كا حق سمجھتے ہيں اور انہيں غاصب شمار كرتے ہيں اسى ليے كہ اموى حكمرانوں كى شعرا حضرات كے سامنے بہت زيادہ مال و دولت لٹا نے كے باوجود يہ لوگ اكثر و بيشتر حق ہى بيان كرتے تھے _ (1)اموى دور كے برجستہ شاعروں ميں سے فرزدق ، اخطلى اور جرير قابل ذكر ہيں ، عباسيوں كے خلافت پر قابض ہونے سے شاعروں كوكچھ معمولى سى آزادى حاصل ہوئي تو شيعہ شعراء اپنے عقائد و نظريات اہل بيت كى مدح كے ساتھ بيان كرنے لگے ان افراد ميں سے سعيد حميرى اور دعبل كا نام قابل ذكر ہے اسى طرح عباسى مشہور شاعر ابوالعتاہيہ تھے _دينى اشعار كا موضوع كہ جسے شريف رضى نے عروج پر پہنچايا مھيار ديلمى كے ذريعے جارى رہا _ مہيار ديلمى ايك زرتشتى شخص تھے انہوں نے اسلام قبول كيا اور كوشش كى كہ ايرانى قوميت كى طرف اپنے واضح رحجانات كو اہل بيت كى دوستى كے ساتھ مخلوط كرے كلى طورپر ہم كہيں گے كہ عربى اشعار اگرچہ اسلامى ادوار ميںمختلف نشيب و فراز ميں گزرتے رہے اور برجستہ شعراء كى تربيت ہوئي ليكن يہ گمان نہيں كرنا چاہے كہ ان تمام اشعار كے مضامين فقط دينى تھے بلكہ عربى شعراء نے مختلف ميدانوں ميں طبع آزمائي كى جيسے ابونواس نے طربيہ شاعرى ميں ، ابوالعتاہيہ نے زہدد و حكمت، بشار بن بردنے ہجو اور بحترى نے مدح سرائي ميں اشعار كہے_اسى طرح نثر بھى شعر كى مانند مختلف ادوار سے گزرى بعض ادوار ميں گوناگون وجوہات كى بناء پر عظيم مصنفين نے پرورش پائي جبكہ بعض ديگرادوار ميں ايسى ترقى ديكھنے ميں نہ آئي_عرب كے مصنفين ميں ابن مقفح ( متوفى 142 قمري) ادبيات عرب كا درخشان ترين چہرہ ہيں يہانتك كہ————————-1) جرحى زيدان ، تاريخ تمدن اسلام ، ترجمہ على جواہر كلام ، ص 515_514_2) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج4 ذيل ابن مقفع_85انہيں نثر تازى (عربي)كا خالق كہا جانے لگا اگر چہ انكے آثار ياكم از كم موجود آثار فقط وہى كتابيں ہيں كہ جو پہلوى زبان سے ترجمہ ہوئيں_(2)عربى ادب ميں ديگر اہم اور معروف شخصيات ميں سے ابن قتيبہ دينورى ( متوفى 322 قمرى ) ابوعثمان عمروبن بحر جاحظ( متوفى 255 قمري) ابوالعباس محمد بن يزيد مبرد( متوفي285قمري) قدامة بن جعفر (متوفى 337 قمري) ، ابوالفرج اصفہانى ( متوفى 362 قمرى ) اور ابومنصور ثعالبى ( متوفى 429 قمري) قابل ذكر ہيں_ ادب عربى كادرخشان اور پر رونق زمانہ ضياء الدين ابوالفتح ابن اثير جو كہ كتاب’ المثل السائر فى ادب الكاتب و الشاعر’ كے مصنف ہيںكے نام پر ختم ہوا كيونكہ انكے بعد طويل زمانہ تك عربى ادب كى تاريخ ميں درخشان چہرہ شخصيت ظاہر نہ ہوئي اس جمود كے دور ميں بيشتر ادبى آثار گذشتہ لوگوں كے آثار كى شرح، حاشيہ، تلخيص يا تكرار كى حد تك تھے عربى ادب اوركلچر ميں يہ جمود كا دور منگولوں كے قبضہ كے بعد شروع ہوا اورعثمانيوں كے دور حكومت ميں يہ جمود اپنى آخرى حدوں كو چھونے لگا كيونكہ تركوں كى سلطنت اور خلافت كے زمانہ ميں عربى زبان اور ادب كى ترويج اور قدر كرنے والا كوئي نہ رہا _
ب) فارسى ادب :1) فارسى شعرچوتھى صدى ہجرى كى ابتداء سے پانچويں صدى ہجرى كے نصف دور تك كا زمانہ فارسى ادب كے ظہور اور عروج كا زمانہ ہے _ اس دور ميں اشعار كے رواج اور روزبروز بڑھتى مقبوليت كى بنيادى وجہ سلاطين كى جانب سے شعراء اور مصنفين كى بہت زيادہ حوصلہ افزائي كرنا تھا _سامانى سلاطين بالخصوص پارسى ميں نثر اور نظم كا بہت اہتمام كيا كرتے تھے اور فارسى شعر كو عزت و تكريم كى نگاہ سے ديكھتے تھے_ انكے ذريعے پارسى نظم ونثر كى ترويج كى ايك وجہ يہ تھى كہ ايرانى لوگ اپنے جداگانہ ادب كے بارے ميں سوچيں اور اپنے دارالحكومت بخارا كى بغداد يعنى مركز خلافت كے مد مقابل عظمت كى طرف متوجہ ہوں _ بخارا جو كہ چوتھى صدى ہجرى ميں ايرانى ادب كا مركز تھا كے علاوہ اور بھى مراكز پانچويں صدى
86ہجرى كے پہلے نصف دوران تك فارسى ادب كى ترقى كيلئے موجود تھے مثلاً زرنج سيستان، غزنين، نيشابور ، رى اور سمرقند(1)چوتھى صدى كے آخر تك درى فارسى كے اشعار فقط خراسان اور فرارود(ماوراء النہر ) كے شاعروں تك محدود تھى كيونكہ فارسى انكى مادرى زبان شمار ہوتى تھي_ چھٹى صدى كے آخر ميں اصفہان بھى فارسى ادب كا ايك بڑامركز بنا_ اور شعرا اور ادبى خطباء كے مراكز فرارود(ماوراء النہر) اور سندھ سے ليكر ايران كے مغربى اور جنوبى علاقوں تك پھيلے ہوئے تھے چھٹى صدى كے وسط اور خصوصاً اسكے اواخر تك فارسى شعر كے اسلوب ميں ايك بڑا انقلاب پيدا ہوا جسكى بنيادى وجہ فارسى شعر كا ايران كے مشرق سے عراق عجم(موجودہ اراك)، آذربايجان اور فارس كے شعراء كى طرف منتقل ہونا تھا_اس تبديلى كى اساسى وجہ فكرى و نظرياتى اسلوب اور عقائد كى بنياد پر بعض تغييرات تھے_ساتويں اور آٹھويں صدى كے اشعار ميں بتدريج قصيدہ ختم ہوگيا اور اسكى جگہ عاشقانہ اور عارفانہ لطيف غزلوں نے لے لى اس دور ميں اشعار كا سبك چھٹى صدى كے دوسرے حصہ كے دور كا اسلوب تھا كہ جسے آجكل سبك عراقى كا نام ديا گيا ہے كيونكہ ان دو صديوں ميں اشعار كا مركز ايران كے مركزى اور جنوبى مناطق تھے _نويں صدى ہجرى ميں سياسى اور اجتماعى صورت حال كے متزلزل ہونے اور علم و ادب كے بازاروں كے ماند پڑنے اور شاعر پسند امراء اورحاكموں كے كم ہونے كى بنا پر فارسى شعر كى مقبوليت ختم ہوگئي اور بعض تيمورى سلاطين اور شاہزادوں مثلا بايسنقر ميرزا جيسے اہل سخن كى حوصلہ افزائي بھى كفايت نہ كرسكى _صفويوں كے دور اور انكے بعد كى صديوں ميں ہندوستان ميں فارسى زبان كى ترقى نسبتاً زيادہ زور وشور سے تھي_ ہندوستان ميں مغليہ ادوار ميں مسلمان بادشاہ فارسى زبان كى طرف كافى توجہ اوردلچسپى كا ثبوت ديتے تھے اسى ليے بہت سے ايرانى لوگ بھى اس سرزمين كى طرف ہجرت كر گئے تھے بہت سے شاعر اس سرزمين پر ظاہر ہوئے اور زبان فارسى كو وہاں عظيم مقام حاصل ہوا اسى ليئے وہاں ايك جديد اسلوب تخليق ہوا كہ جسے سبك ہندى يا بہتر الفاظ ميں سبك اصفہانى كہاگيا _———————-1) اس دور كے فارسى اشعار كى مزيد خصوصيات جاننے كيلئے رجوع كريں : ذبيح اللہ صفا، تاريخ ادبيات در ايران ، ج 2 ص 200_190_87بارھويں صدى كے دوسرے نصف دور سے چودھويں صدى كے دوسرے نصف دور تك ايران پر افشاريہ، زنديہ اور قاجاريہ خاندانوں نے حكومت كى اس دور ميں فارسى شاعرى نے اس دور كے شعراء بالخصوص اصفہان كى ادبى انجمن كے ممبروں كى صفويہ دور كے شعراء كى روش سے ناراضگى كى بناء پر جنم ليا اس گروہ كا يہ نظريہ تھا كہ ‘ كليم كاشاني’ اور صائب تبريزى جيسے شاعر فصاحت سے دور ہوگئے ہيں لہذا اس نئي تحريك كے پيروكاروں نے كہ جو پہلے اصفہان پھر شيراز اور تہران ميں تشكيل پائي يہ نظريہ اختيار كيا كہ خراسان اور عراق ميں پانچويں صدى سے آٹھويں صدى ہجرى تك كے عظيم اساتذہ كى روش پر شعر كہنے چاہيے اسى ليے اس دور كے شعراء كى شاعرى كے دور كو ‘ دورہ بازگشت ‘ ( واپسى كا زمانہ ) كا نام ديا گيا _ (1)
2) فارسى نثرتيسرى صدى ہجرى ميں فارسى شعر كے ساتھ ساتھ فارسى نثر نے بھى مختلف وجوہات كى بناء پر ظہور كيا اور چوتھى صدى ميں عروج تك جاپہنچى اسكى مقبوليت كى پہلى وجہ وہ رونق تھى جو ايرانيوں كى اجتماعى اور قومى يكجہتى كے زير سايہ آزادى كے حصول كى وجہ سے پيدا ہوئي اور ادبى آزادى پر منتج ہوئي _ دوسرى اہم وجہ عربى ادب كے مد مقابل ايرانيوں كااپنے ادب كى ضرورت كا احساس تھا اوريہ كہ اسلام كى ابتدائي صديوں ميں وہ لوگ جو ايران ميں عربى زبان سے آشنا ہوئے بہت كم تھے جبكہ ايرانيوں كى فارسى كتب كى ضرورت زيادہ تھى اسى طرح اس دور كے بعض بزرگان مثلا جيحانى اور بلعمى خاندانوں نے مختلف موضوعات ميں (فارسي) كتابوں كى تاليف و تحرير اور عربى و ديگر زبانوں سے ترجمہ كے حوالے سے مصنفين كى بہت حوصلہ افزائي كى _پانچويں اور چھٹى صدى ہجرى ميں ہى فارسى نثرنے مناسب انداز سے كمال كے مراحل طے كيے اس دورميں بہت سے بزرگ مولفين نے مختلف موضوعا ت ميں معروف آثار چھوڑے تاريخ ، سياست معاشرت ، ادب ، حكمت، طب، طبيعيات، رياضيات ، نجوم ، فقہ ، تفسير، كلام ، جغرافيہ، حالات زندگى اور بالخصوص تصوف جيسے موضوعات پر مختلف كتابيں لكھى گئيں _اور فارسى زبان بھى پختہ ہونے كے ساتھ ساتھ جاذب و روان ہوگئي_ ليكن 616 قمرى ميں چنگيز خان منگول———————-1)سابقہ حوالہ خلاصہ ج 1،2_88كے حملہ سے تمام معاشرتى ، عملى ، ادبى اور علمى امور حتى كہ فارسى زبان بھى انحطاط كا شكار ہوگئي_ ايرانيوں كى ساتويں صدى ہجرى ميں اپنى ثقافت كى حفاظت كيلئے سعى و كوشش كرنے كے باوجود آٹھويں صدى كے بعد اس جمود كے آثار واضح ہوگئے (1)اگر چہ صفويہ دور ميں بھى فارسى نثر جارى رہى ليكن ادبى معيار كے پيش نظرمناسب حالت ميں نہ تھى _ دوسرے الفاظ ميں اگر چہ اس دور ميں گوناگوں موضوعات ميں كتابيں تحرير ہوئيں ليكن چونكہ لغوي، ادبى اور بلاغت كے ميزان و معياركا خيال نہ ركھا گيالہذا فارسى نثر ميں اس دور كو ممتاز دور نہيں كيا جاسكتا _مجموعى طور پر ہم كہہ سكتے ہيں كہ صفوى دور كى نثر تيمورى دور كى نثر سے بھى كہيں پست اور حقير ہے حتى كہ نثر مصنوع كے شعبہ ميں تيمورى دور كے دربارى كاركنوں كى ‘ نثر مصنوع’كے بھى قريب نہيں ہے اس دور ميں جس فارسى نثر كا ہند ميں رواج تھا وہ بھى اسى قسم كى تھى _افشاريہ ، زنديہ اور قاجاريہ دور ميں فارسى نثر بتدريج پستى سے بلندى كى طرف سفر كرنے لگى قاجارى دور ميں گذشتہ لوگوں كى مانند كچھ حد تك مناسب روش اختيار كر گئي شعر كى مانند نثر ميں بھى گذشتہ مصنفين كى فصاحت و بلاغت معيار اور نمونہ تھى ليكن اس حوالے سے زيادہ تر چھٹى اور ساتويں صدى كے مولفين اور مصنفين كى روش كى تقليد ہوتى رہى _
ج) تركى ادب:تركى ادب كا شروع سے ہى واضح طور پر دينى امور كى طرف رجحان ہے قديم تركى ادب كا ايك اہم حصہ كہ جو مركزى ايشيا سے تعلق ركھتا ہے دو بڑے دين ‘ مانوي’ اور ‘بدھ مت’ كى تحريرات پر مشتمل ہے اور بہت سے دينى مفاہيم اورتعليمات كا حامل ہے _ ابتدائي چارصديوں ميں جبكہ دين اسلام مغرب سے مشرق كى طرف بڑھ ريا تھا ترك لوگ اسلام سے آشناہوئے اسطرح ترك اقوام كى تہذيب ميں مفاہيم اسلام كے نفوذ كا راستہ كھل گيا_ ايك تقابلى اور عمومى نظرے كے مطابق ہميں ماننا پڑے گا كہ مركزى ايشيا يعنى اناطولى ، قفقاز اور ولگا ميں تركى اشعار مختلف پہلوؤں سے فارسى اور عربى ادب سے بہت متاثر ہوئے_ اور آلٹائي اور—————————–1) ملك الشعراء بہار ، سبك شناسى ، ح 1 ص 90_35_89مشرقى و مغربى سابئير يا جو اسلامى تہذيب سے دور رہ گئے تھے اور آلٹا اقوام كى مقامى ثقافت ميں مدغم تھے وہاںبھى اس شاعرى نے اپنى شكل اور قالب كو قائم ركھا ہے_پانچويں اور چھٹى صدى ہجرى ميں قراخانيان كے تركستان كے مغرب ميں’ سيرد ريا ‘اور’ آمودريا’ كے مناطق پر مكمل تسلط كے ساتھ ساتھ تركى اسلامى ادب نے جنم ليا _ نويں سے گيارہويں صدى ہجرى تك تركستان كے مشرق ميں اغوز ان سالار كے درميان واضح طور پر ايك محدود سا ادبى ماحول بنا اور ان كے بہت سے آثار ميں سے بعض كتابيں كہ جو ‘ عبادت’ اور قصہ قربان ‘ نام ركھتى تھيں مكمل طور پر دينى مفاہيم سے متاثر تھيں _آخرى صديوں ميں مختلف زبانوں يعنى تركى ، آذربايجانى ، عثمانى اور تركمنى سے تعلق ركھنے والے شعراء اور نثر نويس حضرات جو اسلامى كلچر ميں سے زيادہ تر صوفيت اور عرفان سے متاثر تھے اسلامى اقوام كے مشترك ادب ميں ان كى درجہ بندى اسى حوالے سے كى جاتى ہے_ تركى ادب ميں عظيم شعراء ميں سے امير على شيرنوائي ( متوفى 906 قمري) نجاتى ( متوفى 915 قمري) باقى (متوفى 1009 قمري) فضولى (متوفى 964 قمري) اور شيخ غالب (متوفى 1213) قابل ذكر ہيں _
ب ) اسلامى علوم1) قرائت :قرائت كا علم اسلامى علوم ميں قديم ترين علم ہے كہ جسكے بانى پيامبر اكرم(ص) ہيں انكے بعد على بن ابى طاب (ع) ، عبداللہ بن مسعود اور پھر آئمہ اطہار كا اس علم كى تدوين ميں اہم كردار ہے پہلى صدى ہجرى ميں پہلا شخص كہ جس نے قرآن كى رائج الحان كے ساتھ قرائت كى اسكا نام عبيداللہ بن ابى بكر ثقفى تھا_پيغمبر اكرم(ص) سے اصحاب كى قرآن كريم كے بعض الفاظ اور انكے حروف كى ادائيگى كے حوالے سے مختلف ذرائع سے روايات نقل ہونے كى بناء پر قرائت ميں اختلاف پيدا ہوگيا اور پھر يہ اختلاف قاريوں كے ذريعہ نقل ہوا اور جارى رہا _ اسلامى فتوحات كے دوران اسلامى ممالك كے ہر شہر كے مسلمانوں نے مشہور قاريوں————————-1)بہاء الدين خرمشاہى ، دانشنامہ قرآن و قرآن پوہى ج 1 ص 742_174_90ميں سے كسى ايك قارى كى قرائت كو اختيار كيا كہ جسكے نتيجہ ميں پچاس طرح كى قرائتيں كہ جن ميں سب سے زيادہ مشہور ‘ قراء سبعہ’ (سات قرائتيں )ظہور پذير ہوئيں (1)پہلے شخص جنہوںنے تمام قرائتوں كو ايك كتاب ميں جمع كيا ابوعبيد قاسم بن سلام (متوفى 224 قمري) تھے كہ انہوں نے تمام قرائتوں كو ان سات قرائتوں سميت پچيس قرائتوں ميں خلاصہ كيا انكے بعد احمد بن جبير كوفى نے پانچ قرائتوں كے بارے كتاب تحرير كى كہ اس كام كيلئے انہوں نے تمام مشہور شہروں ميں سے ايك قارى كو انتخاب كيا _ انكے بعد قاضى اسماعيل بن اسحاق مكى (متوفى 282 قمري) نے ايك كتاب ميں بيس علمائے قرائت سے جن ميں يہ سات معروف قارى بھى تھے قرائتيں جمع كيں _ انكے بعد محمد بن جرير طبرى ( متوفى 310 قمري) نے ايك كتاب ‘ الجامع’ تاليف كى اور بيس سے زيادہ قرائتيں اسميں ذكركيں_سات معروف قارى كہ جو ‘ قراء سبعہ ‘ كے عنوان سے معروف تھے وہ مندرجہ ذيل ہيں نافع بن عبدالرحمان (متوفى 169 قمري) عبداللہ بن كثير (متوفى 120 قمري) ابو عمرو بن العلاء ( متوفى 154 قمري) عبداللہ بن عامر ( متوفى 115 قمري) عاصم بن ابى بخود ( متوفى 129 قمري) حمزہ بن حبيب (متوفى 154 قمري) اور كسائي ابوالحسن على بن حمزہ ( متوفى 198 قمري)_چوتھى صدى ہجرى كے اوائل ميں قرائت قرآن كے حوالے سے ايسا گروہ ظاہر ہوا كہ جو شاذ و نادراقوال كو بيان كرنے لگے اور يہ كمياب اقوال اختلاف قرائت كا سبب بنے ليكن عباسى خلفاء كا ان كے بارے ميں سخت اقدام باعث بنا كہ يہ اختلاف قرائت مستقل نہ رہ سكا اور سات قاريوں كى قرائت پر اعتماد مستحكم ہوگيا_پانچويں صدى ہجرى ميں قرائت قرآن كے علم نے اپنى اہميت كو قائم ركھا اسطرح كہ تمام اسلامى ممالك ميں يعنى اندلس سے ماوراء النہر تك بزرگ علماء قرائت قرآن كى تحقيق ميں مشغول تھے اور اس سلسلے ميں بہت سى كتابيں تحرير كى گئيں اندلس ميں مثلا ابو عمرو عثمان بن سعيد دانى (متوفى 444 قمري) اور ابو محمد قاسم بن فيرة بن خلف شاطبى اندلسى (متوفى 590 قمري) نے قرائت كے حوالے سے متعدد كتابيں تحرير كيں_چھٹى صدى ہجرى ميں ايران ميں قرائت كے بزرگ عالم ابوالفضل محمد بن طيفور سجاوندى غزنوى ظاہرہوئے انكى كتاب كا نام ‘ كتاب الموجز و عين المعانى فى تفسير سبع المثاني’ ہے (1)————————-1)بہاء الدين خرمشاہى ،سابقہ حوالہ ، ص 1190_91مجموعى طور پر علم قرائت نے چوتھى صدى سے چھٹى صدى تك ترقى كى كيونكہ ايسے قارى پيدا ہونے سے كہجنہوں قرآن كى قرائت ميں كمياب اقوال نقل كيے تھے كہ يہ چيز باعث بنى كہ علم قرائت قرآن ميں جديد مباحث سامنے آئيں اور اسكى مزيد شاخيں وجود ميں آئيں_ دوسرى طرف اسلامى تہذيب كى روز بروز وسعت سے قرائت كا علم اندلس اور جديد اسلامى سرزمينوں كے مدارس تك پھيل گيا ليكن ساتويں ، آٹھويں اور نويں صدى ہجرى ميں علم قرائت نے چھٹى صدى كى مانند ارتقاء كے مراحل طے نہيں كيے _ہم اس دور ميں دو بڑے قاريوں كو جانتے ہيں ايك منتخب الدين بن ابى الغزالى يوسف ہمدانى (متوفى 643 قمري) اور دوسرے شمس الدين ابوالخير محمد بن محمد بن يوسف جزرى (متوفى 833 قمري) ہيں _جناب جزرى ايسے زمانے ميں ظاہر ہوئے كہ جب يہ علم زوال كى طرف رواں تھا انہوں نے قرائت كى منسوخ كتب كے تعارف كے ساتھ ساتھ انكے مواد كو اپنى دو كتابوں ‘ النشر اور غاية النہاية’ ميں قرائت كے موضوعات كو ايك جديد اسلوب كے ساتھ پيش كيا اور يہ دو كتابيں حقيقت ميں علم قرائت كا ايك انسائيكلوپيڈيا ہيں كہ جنكى بدولت آج تك اس علم كى نشر و اشاعت جارى ہے وہ خصوصيات جنہوں نے ان دو كتابوں قرائت كا ‘ دائرة المعارف’ بنايا وہ پچھلى كتب ميں نہيں ديكھى گئيں_دسويں سے بارھويں صدى تك ايران مين دين و سياست كے ہم قدم ہونے اور صفوى خاندان كے حاكم ہونے كے ساتھ ہى اسلامى علوم ميں جديد باب كھل گيا اور علم قرائت بھى اس جديد فضا سے بہرہ مند ہوا اور ترقى كى راہ ميں اس علم نے نئے اور مثبت قدم اٹھائے اگر چہ اين تين صديوں ميں علم قرائت كے حوالے سے جو كتب تاليف ہوئيں وہ گذشتہ كتب كى مانند قدر و قيمت كى حامل نہ تھيں _ اس دور كى بعض كتابيں مندرجہ ذيل ہيں _ الكشف عن القراآت السبع كہ جو قاضى سعيد قمى (متوفى 113 قمري) كى تاليف ہے _ تحفة القراء كہ جو ملا مصطفى قارى تبريزى كى فارسى ميں تحرير ہے اور رسالہ تجويد كہ جو محمد بن محسن بن سميع قارى كى فارسى ميں تاليف ہے ان آخرى صديوں ميں بھى قرائت لغات قرآن كى تشريح اور كشف آيات كے حوالے سے بہت سے كتابيں وجود ميں آئيں (1)—————————1)عند الحليم بن محمد الہادى قابة، القراة القرانية، تاريخہا ، ثبوتہا، حجتيہا و احكامہا ص 73_70 ، 75 _ 74_922 _ تفسيرتفسير كى تدوين كا مرحلہ بنى اميہ كى حكمرانى كے آخرى اور بنى عباس كى حكومت كے ابتدائي زمانہ ميں حديث كى تدوين كے ساتھ ہى شروع ہوا كيونكہ سب سے پہلے روايات ہى قرآن كريم كى تفسير تھيںبعد ميں علماء كرام اور بزرگان اسلامى كى كوششوں سے تفسيرى روايات كو احاديث كے عمومى مجموعہ سے جدا كركے مستقل طور پر تدوين كيا گيا بہت سے اہل سنت اورشيعہ حضرات كى نظر ميں سب سے پہلے تفسير كو تدوين كرنے والے سعيد بن جبير ہيں وہ عبداللہ بن عباس كے شاگرد ہونے كے ساتھ ساتھ تابعين ميں سے بڑے اديب شمار ہوتے تھے اور شيعہ ہونے اور حضرت على (ع) كے ساتھ وفا دارى كے جرم ميں حجاج بن يوسف (ع) كے ہاتھوں شہيد ہوئے _اگر ہم تحقيق اور دقت كے ساتھ اس سوال كا جواب دينا چاہيں كہ اسلام ميں سب سے پہلے مفسر قرآن كون تھے تو بلا شبہ حضرت محمد (ص) اور على بن ابى طالب (ع) كا نام ہى ہمارے سامنے جلوہ گر ہوگا حضرت على (ع) كى تفسير كوحقيقت ميں قرآن كريم كى تفسير عقلى كا آغاز جاننا چاہيے تفسير عقلى سے مراد قرآنى آيات كى وضاحت اور تفسير فكرى اور عقلى روش پر كرنا اور يہ روش در حقيقت وہى راستہ ہے كہ جسكى طرف كتاب خدا مؤمنين كى راہنمائي كرتى ہے_ قرآن كى تفسير كا يہ مكتب امام محمد باقر (ع) اور انكے فرند امام جعفر صادق (ع) كے دور ميں اپنے عروج كو پہنچا _ تفسير عقلى كہ جو تقريبا دوسرى صدى سے شروع ہوئي چھٹى صدى ميں اپنے كمال كى آخرى حدوں كو چھور ہى تھي_عباسى دور ميں مختلف بلكہ متضاد كلامى مكاتب كى طرز فكر پر يہ تفسيرى مباحث عام ہوگئيں مسلمان دانشوروں كا ايك گروہ اپنے علمى تخصص اور مذہب كى اساس پر قرآن كريم كى تفسير ميں مشغول ہوا مثلا علم نحو كے علماء ادب اورعلوم بلاغت كى رو سے آيات قرآن كى تفسير اور وضاحت ميں مشغول ہوئے اور علوم عقلى كے ماہرين قرآن مجيد كى فلسفى قواعد اور قوانين اور اسلامى حكماء اور فلاسفہ كى آراء كى روشنى ميں تفسير كرنے لگے(1)————————–1)دانشنامہ جہان اسلام ، ج 7 ، ذيل تفسير_93جسكے نتيجہ ميں متعدد قسم كى روشيں اور مكاتب تفسيرى وجود ميں آئے ہم ان ميں چند اہم ترين روشوں كى وضاحت كرتے ہيں :1) تفسير قرآن بہ قرآن : يعنى قرآن كريم كى بعض آيات كى وضاحت اور تفسير كيلئے دوسرى بعض آيات سے مدد لينا(1)2)تفسير موضوعي: اس تفسيرى روش ميںمفسر ايك موضوع اور مسئلہ كى وضاحت كيلئے اس موضوع كے متعلق تمام آيات ايك جگہ ترتيب اور باہمى ربط كے ساتھ پيش كرتاہے_3)تفسير اجتہادى : آيات كى تفسير و تشريح كيلئے آيات كے معانى سے منطق ، اصول اور اجتہادى روشوں كى بناء پر بہرہ مند ہونا_4)تفسير تطبيقي: مفسر كوشش كرتاہے كہ قرآن كے كلى احكام اور تعليمات كو عہد حاضر كے انسان كى زندگى پر مطابقت دے_5 ) تفسير عصري: مفسر تفسير كے حوالے سے گذشتہ علماء كى آراء كا تجزيہ كرتاہے اور گذشتہ مفسرين كے ناقابل دفاع نظريات كو ترك كرديتاہے(2)6)تفسير تاريخي: مفسر قرآن كے تاريخى واقعات بالخصوص انبياء (ع) كے قصوں كى وضاحت كرتاہے اور ان ميں عبرت آموز نكات كو نكال كر تشريح كرتاہے_7) تفسير فلسفي: مفسر اسلامى فلسفہ كى معلومات سے قرآنى آيات كے معانى اور اہداف كو درك كرنے كيلئے مدد ليتاہے_——————————-1)بہاء الدين خرمشاہى ، سابقہ حوالہ ص 652 _ 634_2)شادى نفيسى ، عقل گرائي در تفاسير قرن چہاردہم_948)تفسير ادبي:مفسر قرآن كے معانى كو كشف كرنے اور صحيح معنوں ميں درك كرنے كيلئے ادبى علوم سے بہرہ مند ہوتاہے_9)تفسير نقلى يا ماثور: مفسر پيغمبر (ص) اور آئمہ معصومين (ع) كے اقوال اور احاديث كى رو سے آيات كى تفسير كرتاہے_10)تفسير ہدايتى و تربيتي: قرآنى آيات سے اخلاق اور تربيت كے حوالے سے نكات كو پيش كرنا اور ان آيات الہى سے قرآنى دعوت كے مضمون كى تہہ تك پہچنا_11)تفسير فقہي: عبادات ، معاملات، حدود اور تصرف كے حوالے سے قرآن كے عملى احكام كا تجزيہ كرنا اور اس نظر سے قرآنى آيات كى تشريح كرنا_12_ تفسير كلامى : مفسر قرآنى آيات كى مدد سے اپنے عقائد اور مذہب كا دفاع كرتاہے اور اس حوالے سے آيات كے شبہات كو دور كرتاہے_13_ تفسير رمزي: مفسر واضح كرتاہے كہ قرآنى آيات رمز اور اشارہ ہيں لہذا ان آيات كے الفاظ كے معانى اور اسرار تك پہنچنے كيلئے مروجہ ادبى و معانى قواعد سے بڑھ كر ان كے علاوہ ديگر روشوں سے حقائق تك پہنچنے كى كوشش كرتا ہے_14 _ تفسير عرفاني: مفسر كى نظر ميں قرآن صرف ظاہرى اور لفظى پيغام كى حد تك بيان نہيں كررہا بلكہ ان آيات كے باطن ميں عرفانى تعليمات اور سير و سلوك كے اسرار بھى پنہان ہيں كہ جو كشف و شہود كى روش سے ظاہر ہونگے (1)ہم ان چودہ اقسام كى تفاسير كو تاريخى نگاہ سے ديكھتے ہوئے اہم ترين تفاسير كا تعارف كرديتے ہيں :——————————1)دانشنامہ جہان اسلام، سابقہ حوالہ_95تيسرى صدى ہجرى كے پہلے نصف زمانہ ميں بخارى نے اپنى كتاب صحيح كا كچھ حصہ گذشتہ تفاسير كے تجزيہ و تحليل كے حوالے سے خاص كيا _ ‘جامع البيان فى تفسير القرآن ‘محمد بن جرير طبرى كى تيسرى صدى كى مشہور تفاسير ميں سے شمار ہوتى ہے چوتھى صدى ہجرى ميں محمد بن ابراہيم بن جعفر نعمانى كى تفسير نعمانى قابل توجہ ہے پانچويں صدى ہجرى ميں تفسير التبيان فى تفسير القرآن جو كہ محمد بن حسن طوسى كى تاليف ہے جو سب سے پہلى شيعى تفسير شمار ہوتى ہے اور عقلى اور اجتہادى روش كے ساتھ دائرہ تحرير ميں آئي _ اسى صدى ميں عتيق بن محمد سور آبادى نيشابورى كى تفسير سور ابادى يا تفسير التفاسير بھى وجود ميں آئي_چھٹى صدى ہجرى ميں شيخ طبرسى كى مجمع البيان فى تفسير القرآن ‘ تاليف ہوئي انہوں نے اس تفسير كے علاوہ اور دو تفاسير ‘ الكافى الشافي’ اور ‘ جوامع الجامع’ بھى تحرير كيں_ اسى صدى ميں ابوالفتوح رازى كى روض الجنان فى تفسير القرآن’ بھى تاليف ہوئي_ساتويں صدى ميں ابو عبداللہ محمد بن محمد انصارى خزرجى قرطبى كى تفسير ‘ الجامع لاحكام القرآن’ لكھى گئي آپ معروف مذہب مالكى كے علماء ميں سے تھے آٹھويں صدى ميں عبداللہ بن عمر بن محمد نے ‘ انوار التنزيل و اسرار التاويل ‘ تحرير كى _ دسويں صدى ہجرى ميں جلال الدين سيوطى نے ‘ الدر المنثور فى تفسير الماثور’ تاليف كى اور گيارہويں صدى ميں ملا محسن فيض كاشانى نے تفسير صافى تحرير كي_تفسير كى تدوين كے آغاز سے چودھويں صدى تك تفسيرى آثار كے تاليف ميں اسلوب كے لحاظ سے واضح تبديلى مشاہدہ ميں نہيں آتى ليكن چودھويں صدى ميں تفسير الميزان كے مصنف جناب محمد حسين طباطبائي كے ذريعے تفسيرى اسلوب ميں انقلاب پيدا ہوا اس كتاب كا گذشتہ تفاسير پر امتياز يہ ہے كہ گذشتہ تفاسير ميں روش يہ تھى كہ كسى آيت كے دو يا تين معانى بيان ہوتے اور مختلف احتمالات نقل ہوتے ليكن آخر ميں حقيقى قول واضح اور روشن نہ ہوتا جبكہ تفسير الميزان جو كہ قرآن كى تفسيرقرآن سے كى تفسيرى روش پر لكھى گئي اسميں ديگر آيات كى مدد سے ايك آيت كے مختلف معانى ميں سے ايك معنى كو ترجيح دى گئي ہے _ عہد حاضر ميں تفسير
96الميزان تمام شيعہ تفاسير ميں سے اہم ترين اور جامع ترين تفسير ہونے كے ساتھ اماميہ كے ہاںمطلقاً اس صدى كى مشہور ترين تفسير بھى ہے(1)
3_ حديثاسلامى فرقوں ميں شروع سے ہى حديث كى تدوين كے بارے ميں اختلاف نظر موجود تھا جبكہ شيعوںنے اسى زمانہ ميں حديث كى اہميت كو درك كرتے ہوئے كتابت كے ذريعے اس تاريخى ورثہ كو محفوظ كرنے كے ليے قدم اٹھايا _ جبكہ اہل سنت دوسرى صدى كے دوسرے نصف حصہ تك احاديث كا كوئي تدوين شدہ مجموعہ نہيں ركھتے تھے كيونكہ دوسرے خليفہ نے كتابت حديث سے منع كرديا تھا(2)سب سے پہلى كتاب حديث حضرت على بن ابيطالب نے تدوين كى كہ جو در حقيقت پيغمبر اكرم(ص) نے املا كروائي تھى _ بعض محققين كى تحقيق كے مطابق يہ كتاب امام باقر (ع) كے پاس موجود تھى اور آپ(ع) نے يہ ‘ حكم بن عتيبہ ‘ كو دكھائي تھى (3) شيخ مفيد ، محقق حلى اور شہيد اول كے بقول امير المؤمنين (ع) كے دور سے امام حسن عسكرى (ع) كے زمانہ تك يعنى تيسرى صدى كے دوسرے نصف حصہ تك شيعوں نے حديث ميں چار سوكتب (اصول اربعہ مائة) تحرير كيں_چوتھى صدى ہجرى سے شيعہ علماء نے حديث ميں چار اہم ترين كتب كى تدوين اور تاليف سے علم حديث كے ارتقا ميں انتہائي عظيم اور يادگار قدم اٹھايا جناب محمد بن يعقوب كلينى (متوفى 329 قمري) نے ‘ الكافي’ تاليف كى _ محمد بن على بن بابويہ قمى جو كہ شيخ صدوق كے نام سے معروف ہيں انہوں نے كتاب ‘ من لا يحضرہ الفقيہ’ تحرير كى _ اور پانچويں صدى ہجرى ميں محمد بن حسن طوسى (متوفى 460 قمري) نے دو كتابيں ‘تہذيب———————1)سابقہ حوالہ _2)على بن حسام الدين متقى ، كنز العمال فى سنن الاقوال والافعال، بيروت ج1 ص174_3)سيد حسن صدر ، تاسيس الشيعة الكرام ، لفنون الالسلام ص 279_97اور استبصار ‘ تاليف كيں _چھٹى صدى سے گيارہويں صدى تك علم حديث تقريبا جمود كا شكار رہا اسى ليے اس طويل دور ميں كچھ زيادہ احاديث كى تدوين شدہ كتب كا ہم مشاہدہ نہيں كرتے ليكن صفوى حكومت كے قيام سے دوبارہ اس علم كى طرف توجہ بڑھ گئي _ اس دور ميں ملا محسن فيض كاشانى نے ‘الوافي’ محمد بن حسن حر عاملى نے ‘ وسائل الشيعہ’ اور علامہ مجلسى نے بحار الانوار كو تحرير كيا اور چودھويں صدى ميں بھى سيد حسين طباطبائي بروجردى نے ايك اہم كتب جامع الاحاديث الشيعہ فى احكام الشريعہ كو تاليف كيا_دوسرى صدى سے چودھويں صدى تك علماء اہلسنت نے بھى علم حديث كے حوالے سے بہت سى كتابيں تاليف كيں كہ جن ميں سب سے زيادہ مشہور مندرجہ ديل ہيں : صحيح بخارى ، صحيح مسلم سنن ابن ماجہ، سنن ابو داؤد، سنن نسائي اور جامع ترمذى كہ يہ كتب ‘ صحاح ستہ’كے عنوان سے معروف ہيں يہ سب كتب تيسرى صدى ہجرى ميں تحرير و تاليف ہوئيں اسى طرح اہل سنت كے ديگر حديثى آثار ميں سے ‘ جامع الاساتيد تاليف ابو الفرج ابن جوزى (متوفى 597 قمري) اور كتاب المنتقى فى اخبار مصطفى تاليف ابن تيميہ (متوفى 652 قمري) قابل ذكر ہيں(1)
4 _ فقہالف) شيعہ فقہ :مكتب شيعہ كا فقہى نظام گوناگوں ادوار سے گزرا، يہاں ہم اختصار سے ان ادوار اور ہر دو ر كے مشہورترين فقہا كا تعارف كرواتے ہيں :1_ آئمہ (ع) كا دور:اس دور ميں احكام شرع، فقہ اور اجتہاد كا اصلى محور آئمہ (ع) تھےانكا كا ايك اہم ترين كام امور شرعى ميں فكر اور استدلال كرنے كيلئے ميدان ہموار كرنا ہے اسى ليے بہت سے مقامات پر انہوں نے———————–1)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث ، مشہد ص 68 ، 70 اور قيس آل قيس الايرانيون و الادب العربى ج2 _98واضح طور پر اپنى ذمہ دارى اصول اور كلى قواعد بيان كرنا قرار دى اور ان قواعد كى مدد سے فرعى اور جزئي احكام نكالنے كى ذمہ دارى دوسرے لوگوں كے كندھوں پر چھوڑى (1)آئمہ كے پيروكاروں اور اصحاب ميں علمى اور بالخصوص كلامى مسائل ميں مختلف رجحانات ميں متكلمين ، محدثين كے رجحانات، عصمت يا علم غيب كا انكار يا اثبات اور امام كے علم كے حوالے سے مباحث اس دور كى خصوصيات ميں سے ہيں، آئمہ كے بہت سے رفقاء جو ان كے نہايت قابل بھروسہ اصحاب ميں سے تھے متضاد عقائد ركھتے تھے (2)2_ فقہ كى تدوين كا آغاز: اس دور ميں شيعہ مكتب كے پيروكاروں ميں فقہى حوالے سے تين بنيادى رجحانات ديكھنے ميں آتے ہيں : اہل حديث كا فكرى ميلان، كہ جو شدت كے ساتھ اجتہاد كے مخالف تھے اور فقہى احكام كو احاديث اور انكے نقل كرنے ميں محدود كرتے تھے مثلا جناب كلينى اور ابن بابويہ قمى (3)فقہ ميں اجتہاد كى طرف ميلان كہ اس گروہ كى رہبرى دو بزرگ علماء جناب ابن ابى عقيل عمانى (4) اور جناب ابن جنيد اسكافى (5) كررہے تھے ان دونوں كے فقہى نظريات ميں اساسى اختلاف (6) كے باوجود—————————–1)محمد حسن حر عاملى ، وسائل الشيعہ قم ، آل البيت ج 18 ص 41_2)اس قسم كے فكرى اور نظرياتى اختلاف كى تشريح شيعہ رجالى كتب ميں موجود ہے مثلا محمد كشى كى ايك كتاب معرفة الرجال ، جو حسن مصطفوى كى كوشش سے نشر ہوئي ص 80، 279 ، 483 ، 488 ، 9_498، 506_3)محدثين كے اس گروہ كى فقہ محض احاديث كے مجموعہ كى شكل ميں ہوتى تھا كہ جنہيں موضوع كے اعتبار سے ترتيب ديا جاتا تھا كبھى تو انكے مجموعے ميں احاديث كى سند بھى حذف كردى جاتى تھى مثلا جناب كلينى كى ‘ الكافى فى الفروع’ _4)انكى كتاب ‘ المستمسك حبل آل الرسول’ كہ جو چوتھى اور پانچويں صدى ميں مشہورترين فقہى منبع اور مرجع تھى رجوع كيجئے ‘ آقا بزرگ طہرانى _ الذريعہ’ ج 19 ص 69_5)جناب ابو على محمد بن احمد بن جنيہ الكاتب الاسكافى چوتھى صدى كے وسطى زمانہ كے عالم تھے انكى دو كتابوں كے نام ‘ تھذيب الشيعہ لاحكام الشريعہ اور والاحمدى فى الفقہ المحمدى ‘ ہيں_6)ابن عقيل متكلمين كى مانند خبر واحد كو حجت نہيں سمجھتے تھے _ جبكہ ابن جنيد اصحاب الحديث كى مانند ان احاديث كى حجيت كے قائل تھے رجوع كيجئے ‘ سيد حسين مدرسى طباطبائي ، مقدمہ اى بر فقہ شيعہ ، مترجم ص 2 41 _99ان دو بزرگوں كے فقہ پر عميق اثرات مرتب ہوئے _ تيسرا علمى رجحان متكلمين كى فقہ كى شكل ميں ہے جناب شيخ مفيد اس گروہ كى ممتاز شخصيات ميں سے ہيں (1)3 _ تلفيق (آپس ميں ملانے ) كا دور: شيخ الطانفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى (2) نے فقہ ميں اہل حديث اور متكلمين كے رجحانات كو تلفيق كيا اور كوشش كى فقہ كے عقل سے مربوط پہلوؤںكو محفوظ ركھتے ہوئے احاديث كى حجيت ثابت كريں انہوں نے اپنے وسيع آثار و كتابوں كے ساتھ شيعہ فقہ ميں بہت سے نئے افق روشن كئے_ شيخ الطائفہ كى اہم فقہى آراء كا كے ان كے آثار ميں مطالعہ كيا جاسكتاہے (1) النہاية فى مجرد الفقہ و الفتاوى (2) المبسوط (3) الاستبصار (4) تہذيب الاحكام_ فقہ تفريعى اور فقہ تطبيقى كى تقسيم انكے ہى كارناموں ميں سے ہے _ يہ فقہى مكتب تين صديوں تك شيعہ دنيا پر حكمرانى كرتا رہا شيخ طوسى كے علاوہ اس دور كى اہم ترين شخصيات جناب قطب الدين راوندى (3) اور ابن شہر آشوب ہيں (4)4_مكتب تلفيقى پرتنقيد كا دور: شيخ طوسى كے سوسال بعد فقہاء كے ايك گروہ نے كوشش كى كہ متكلمين كے فقہى مكتب كو زندہ كيا جائے اس ليے انہوں شيخ طوسى كے مكتب تلفيق پر تنقيد كى اس دور كى مركزى شخصيت ابن ادريس حلى (5) ہيں_5_مكتب تلفيق كى اصلاح اورارتقا كا دور: شيخ طوسى كى فقہ بے پناہ جدت كے باوجود نظم، ترتيب اور اصلاح كى محتاج تھى بالخصوص انكے مكتب كے ناقدين نے بہت زيادہ ان پر اعتراضات كيے تھے ،اسى بناء پر—————————-1) انہوں بہت شدت كے ساتھ ابن جنيد كى فقہى روش كا مقابلہ كيا رجوع كيجئے مثلا ‘ مفيد ، المسائل الصاغانيہ والمسائل السروية’_2)رجوع كيجئے محمد بن حسن طوسى ‘ الخلاف’ تہران _3)فقہ القرآن كى تصنيف كے علاوہ نہاية پر چند شروح بھى تحرير كيں _4)متشابہہ القرآن و مختلفہ كے مصنف _5)ابن ادريس كے حوالے سے رجوع كيجئے ‘ دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 2 ذيل ابن ادريس ‘ ص 718_100محقق حلى (1) اور انكے عظيم شاگرد علامہ حلى (2) نے اس حوالے سے وسيع پيمانے پر كوشش كيں _ ان دو بزرگوں كے فقہى آثار سے آج تك فقہى محققين بہرہ مند ہوتے ہيں سچى بات يہ ہے كہ اگر ان دو بلند مرتبہ فقہى شخصيات كى كوششيں نہ ہوتيں تو مكتب تلفيق گذشتہ دور ( مكتب تلفيق پر تنفيد كا دور ) ميں ہى فراموشى كے غبار كى نذر ہوجاتا _6_ شہيد اول كا دور: شہيد اول (3)نے فقہى تفكر كو مرحلہ كمال تك پہچانے كيلئے كوشش كى اور فقہ شيعہ كيلئے ايسے اساسى اصول و قواعد تلاش كيے كہ جنكى بناء پر شيعہ فقہ نے اہل سنت كے فقہى مكاتب كى مدد كے بغير اپنى مستقل حيثيت كو تشكيل ديا _ اسى خصوصيت كى بناء پر انكے آثار اور تصنيفات گذشتہ فقہاء كے آثار سے ممتاز ہوئے انكے بعدكے علماء ڈيڑھ صدى سے زيادہ عرصہ تك ان كے پيروكار رہے_ اور اپنى فعاليت انكے آثار پر شرح تحرير كرنے تك محدود ركھى تھي_ اس مكتب كے معروف ترين فقيہ شہيد ثانى (4) ہيں_7_ صفوى دور كى فقہ : يہ دور جو دسويں صدى سے بارھويں صدى تك جارى رہا اسميں تين رجحان سامنے آئے:الف) محقق ثانى كى فقہ : محقق ثانى (5) كى اہم فعاليت دو نكتوں ميں خلاصہ ہوتى ہے: فقہ كے قوى دلائل كومزيد مستحكم اور پائدار بنانا اور فقہ ميں حكومتى مسائل كى طرف توجہ مثلا فقيہ كے اختيارات كى حدود نماز جمعہ اور خراج كے متعلقہ مسائل و غيرہ ، محقق ثانى كے اپنے بعد والے فقہاء پر اثرات مكمل طور پر واضح ہيں_————————1)محسن امين حبل عاملى سابقہ ما خذج 4 ص 89_2)سابقہ ما خذج 5 ص ص 396 _3)سابقہ ما خذج 10 ص 59_4) سابقہ ماخذ ، ج7، ص 143_5) عباس قمى ، ہدية الاحباب ، تہران، ص 254_6) احمد بن محمد اردبيلي، زبدة البيان، مقدمہ_1012) مقدس اردبيلى كى فقہ : مقدس اردبيلى (6)نے اگر چہ فقہ ميں كوئي اساسى تبديل نہيں كى ليكن وہ دوسروں سے قطع نظر مخصوص روش كے حامل تھے انكى تحقيقات كى اہم خصوصيت يہ تھى كہ وہ گذشتہ فقہاء كے نظريات و آراء سے قطع نظر فقط اپنى اجتہادى روش اور اپنى نظر پر اعتماد كرتے تھے علمى مباحث ميں انكى شجاعت اور جدت باعث بنى كہ انكے بعد چند فقہاء نے انكى روش كو اختيار كيا _ج)اخباريوں كى فقہ : اخباريوں كى تحريك كہ جو پانچويں صدى كے آغاز ميںمتكلمين كى علمى كوششوں سے تقريباً ختم ہوچكى تھى گيارھويں صدى ميں محمد امين استر آبادى كے ذريعے دوبارہ زندگى ہوگئي (1) اگر چہ اخبارى فقہاء نے چند دہائيوں تك ايران و عراق كے فقہى اور علمى مراكز پر قبضہ جماليا ليكن اس روش كے حامل مشہور فقہاء كى تعداد زياہ نہيں ہے_8 _ اصول كى اساس پر اجتہاد كى تجديد حيات : وحيد بہبہانى (2)جو كہ بارھويں صدى ہجرى ميں فقہ كے نابغہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے اپنى وسيع علمى تحقيقات سے اخباريوں كے اساسى قواعد سے مقابلہ كرتے ہوئے دوبارہ عقلى روش پر اجتہاد كو زندہ كيا _ انہوں نے فقہ، اصول فقہ كى اصلاح اور دقيق علمى تحقيقات كےساتھ كوشش كى كہ شيعہ فقہ كو ايك ترقى يافتہ ، پائدار ، منظم ،قانونى اور فقہى مكتب كى شكل ميں لے آئيں(3) جناب وحيد كى اس كوشش اور فعاليت سے بڑھ كر انكى كاميابى يہ تھى كہ انہوں نے عظيم المنزلت فقہاء كى تربيت كى كہ جنہوں نے فقہى و اصولى اساس پر قيمتى آثار عرصہ وجود ميں لاكر انكى كوششوں اور ثمرات كو عظيم استحكام بخشا_————————1)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 10 ذيل امين استر آبادي_2) محمد باقر بن محمد اكمل كہ انكے آثار ميں سے ہے ‘ الفوائد الحايرية، شرح مفاتيح الشرائع_3)سيد حسين مدرسى طباطبائي ، سابقہ ما خذص 60_102ان ميں سے مشہورترين فقہاء مندرجہ ذيل ہيں :بحر العلوم (1) شيخ جعفر كاشف الغطاء (2) ، ملااحمد نراقي(3) اور حسن ابن جعفر كاشف الغطاء (4)9_ شيخ انصارى كا دور: شيخ مرتضى انصارى (5) تيرھويں صدى كے سب سے بڑے نابغہ اور فقہ و اصول الفقہ ميں دقيق روشوں كو ايجاد كرنے والے تھے انكے دقيق و عميق روشوں نے فقہ ميں انقلاب بر پا كرديا _ انكے آثار ميں موجود فقہى مجموعہ ايسا دقيق و ظريف ہے كہ كلى طورپر ناسخ ماسبق ( گذشتہ فقہا كے استنباط كو منسوخ كرتا) ہے (-6) انكا فقہى مكتب انكے زمانہ سے آج تك علمى اور فقہى مراكز پر غالب ہے كہ آج تك بڑى شخصيتوں كے پيدا ہونے كے باوجود انكے مكتب ميں بنيادى تبديلى نہ آسكى _ اس دور كے اہم ترين فقہاء مندرجہ ذيل ہيں :ميرزاى شيرازى (7) محمد كاظم خراسانى (8)———————————–1)محمد مہدى بن مرتضى طباطبائي (متوفى 1212 قمري) صاحب تصنيف، المصابيح والدورة النجفية_2)كتاب ‘ كشف الغطاء عن مبھمات الشريعة الغراء كے مصنف انكى زندگى كے حوالے سے رجوع كيجئے ‘ محسن امين جبل عاملى ، سابقہ ما خذج 4 ص 99_3) كتاب ‘ مستند الشيعة ومناہج الاحكام’ كے مصنف انكى زندگى كے حوالے سے رجوع كيجئے : محسن امين جبل عاملي، سابقہ ماخذ ، ج2، ص 183_4)كتاب انوار الفقاھة كے مصنف رجوع كيجئے ‘ : محسن امين جبل عاملى ، سابقہ ما خذج 3 ص 35 ‘_5)بہت سے فقہى آثار كے مصنف مثلا متاجر ، طہارة ، صلاة ، خمس … اور بہت فقہى قواعد ، انكے بارے ميں رجوع كيجئے: محسن امين جبل عاملى ، سابقہ ما خذج 10 ص 117_6)سيد حسين مدرسى طباطبائي ، سابقہ ما خذص 61_7)انكے درس فقہ كى تفصيل حسين بن اسماعيل رضوى كے واسطہ سے بنام ‘ القواعد الحسنية’ موجود ہے ، رجوع كريں ، آقا بزرگ طہرانى ،الذريعہ ج 17 ص 182_8)كتب ‘ تكملة التبصرة ، اللمعات النيرہ ، كتاب القضاء ( انكے دروس كى تفصيل انكے فرزند محمد المعروف آقا زادہ كے ذريعے معلوم ہوئي ) حاشيہ المكاسب كے مصنف ، جہاں بھى شيخ انصارى نے كوئي نظر دى ہے وہاں انہوں نے ان كى تنقيد كى ہے رجوع كيجئے محسن امين ، جبل عاملي، اصلى سابقہ ما خذج 9 ص 5_103سيد محمد كاظم يزدى (1) ، محمد حسين نائينى (2) ، عبدالكريم حائرى يزدي(3) سيد ابوالحسن اصفہانى (4) سيد حسين طباطبائي بروجردى (5) سيد محسن حكيم (6) سيد ابوالقاسم موسوى خوئي (7) اور امام خمينى (8)اين تمام بزرگوں نے دسيوں بلكہ سينكڑوں شاگردوں كى تربيت كى كہ پھر ان ميں سے ہر ايك نے موجود ہ دور ميں فقہ و فقاہت كے حوزہ ميں اہم خدمات انجام ديں ليكن قابل ذكر نكتہ يہ ہے كہ اگر چہ علماء و فقہاء كے نزديك مشہورنظريہ يہى ہے كہ مكتب شيعہ ميں باب اجتہاد كھلا ہوا ہے ليكن بہت كم ديكھا گياہے كہ يہ باب معاشرہ اور اسپر حاكم نظام پر باضابطہ صورت ميں كھلا ہو ورنہ بے ضابطہ صورت ميں اس كا كھلا ہونا قابل انكار نہيں ہے_———————————-1)مشہور كتاب ‘ العروة الوثقي’ كے مصنف رجوع كيجئے ، محسن امين جبل عاملى ، سابقہ ما خذج 10 ص 943_2)انكے آثار ميں سے ‘ قاعدہ لا ضرر اوررسالة فى اللباس الشكوك ہيں ‘ نيز انكے نماز كے متعلق فقہى درس كى تفصيل انكے د و برجستہ شاگردوں ميں محمد تقى آملى اور محمد على كاظمينى كے ذريعہ جبكہ انكے مكاسب كے حوالے انكے درس كى تفصيل محمد تقى آملى اور موسى خوانسارى كے ذريعے نشر ہوئي_3)انكے آثار ميں سے الصلاةہے نيز انكے نكاح كے حوالے سے فقہى درس كى تفصيل محمود آشتيانى كے ذريعے نشر ہوئي_4)مشہور كتاب ‘وسيلةالنجاة’ كے مصنف ہيں امام خمينى كى كتاب تحرير الوسيلہ اسى كتاب پر نظر ثانى اور امام كى اپنى آراء كے مطابق تكميل ہے _5)انكے تمام آثار انكے فقہى دروس ہيں جو ہم تك پہنچے نہاية التقرير محمد موحدى لنكرانى كى ہمت سے ، البدر الزاہر فى صلاةالجمعة و المسافر حسين على منتظرى كے ذريعے اور زبدة المقال فى خمس النبى و الال عباس ابوترابى كى ہمت كے ساتھ نشر ہوئي_6)عروة الوثقى پر سب سے پہلى استدلالى شرح بنام مستمسك العروة الوثقى نيز نہج الفقاھة اور دليل الناسك كے مصنف ہيں_7)ان:كے درسوں كى مختلف افراد كے ذريعے تفصيل ہم تك پہنچى ہے ‘ التنقيح فى شرح العروة الوثقى ‘ على غروى تبريز ى كى كوشش كےساتھ ، دروس فى فقہ الشيعة مہدى خلخالى كى ہمت سے الدر الغوالى فى فروع العلم الاجمالى رضا لطفى كى كوشش كے ساتھ مستند العروة الوثقى مرتضى البروجردى كى كوشش كے ساتھ مصباح الفقاھة محمد على توحيد كى كوشش سے اور محاضرات فى الفقہ الجعفرى سيد على شاہرودى كى كوشش سے نشر ہوئيں_8)متعدد فقہى آثار كے مصنف ہيں مثلا كتاب الطہارة كہ جو تين جلدوں ميں ہے كتاب البيع كہ جو پانچ جلدوں ميں ہے المكاسب المحرمة جو كہ دو جلدوں ميں ہے _ تحرير الوسيلة دو جلد ہيں رسالة فى قاعدہ لا ضرر، رسالة فى التقية اوركتاب الخلل فى الصلاة_104عہد حاضر كے معروف اصوليوں اور فقہاء ميں سے اور صاحب مكتب كہ جنہيں ايسا پہلا شيعى عالم كہا جاسكتاہو جنہوں نے علم اور اجتہاد كى قديم روايتى روش سے بہرہ مند ہوتے ہوئے بنيادى حقوق كے مفاہيم كے تعارف اورانہيں انكے صحيح مقام پر لانے كى كوشش كرنے كے ساتھ ساتھ’ فقہ حكومت ‘پر بھى بحث كى ہو وہ مرحوم ميرزا محمد حسين نائينى ہيں انكى آرا ء ميں ‘وجوب مقدمہ واجب ‘كے نظريہ كے تحت مشروطيت كے قيام كو واجب قرار دينا ، علاوہ ازيں ايك اور فتوى ميں ٹيكس لينے والے يعنى حكومت كو ٹيكس دينے والے يعنى عوام كے مد مقابل جواب دہ ہونا شامل ہے_ (1)عہد حاضر كے ديگر فقہاء ميں سے كہ جنہوں قديم روش كے مطابق فقہ كى حدود ميں رہتے ہوئے فقہ حكومت پر بہت زيادہ توجہ دى وہ امام خمينى ہيں انہوں نے اپنى كتاب ‘ ولايت فقيہ ‘ يا ‘حكومت اسلامى ‘ميں ولايت فقيہ كے نظريہ كو عظمت اور ترقى دى اور آخركار اس نظريہ كو عملى طور پر اجراء كيا _اسى طرح ديگر مجتہدين ہيں ہے كہ جنہوں نے روايتى فقہ (قديمى روش اور قواعد پرمشتمل) كى حدود ميں رہتے ہوئے ‘فقہ حكومت ‘كو موضوع بحث بنايا شہيد سيد محمد باقر الصدر تھے كہ انكى حكومت سے متعلقہ مسائل ميں فقہ كے حوالے سے تخليقى اجتہادى آراء قابل توجہ ہيں (2)اسى بحث كے حوالے سے استاد شہيد مرتضى مطہرى جيسے بزرگان كى فعاليت سے غافل نہيں ہونا چاہيے كہ انہوں نے اسى روايتى روش اجتہاد كى روشنى ميں اپنے ہم عصروں سے بڑھ كر معاشرتى مسائل كى پيچيدگيوں اور الجھنوں كو حل كرنے كے طريقے بيان كيے اسى حوالے ان كا نظريہ تھا كہ كوئي شخص بھى اس وقت تك مقام اجتہاد پر فائز نہيں ہوسكتا جب تك وہ يہ اچھى طرح نہ جان لے كہ اسلام كى كائنات ، انسان ، معاشرے ، تاريخ————————————1)مزيد معلومات كيلئے رجوع كريں ، ميرزا حسين نائني، تنبيہ الامة و تنزيہ الملة ، جعفر عبد الرزاق ، الدستور والبرلمان فى الفكر السياسى الشيعى ص 48 ، 47 _2)مزيد معلومات كيلئے رجوع كريں ، سيد محمد باقر الصدور الاسلام يقود الحياة_105، اقتصاد ، سياست اور … كے بارے ميں كيانظر ہے (1)ايسے فقہاء ميں مرحوم شيخ محمد مہدى شمس الدين بھى قابل ذكر ہيں كہ جنہوں نے اجمالى طور پر فقہ حكومت پر قابل توجہ بحث كى اور اس حوالے سے اپنى آراء ديں (2)
ب) اہل سنت كى فقہ اور تغير و تبدل كے ادوار:اہل سنت كى فقہ اور اسميں تبديلى كے چھ مراحل ہيں:1)پيغمبر (ص) كا زمانہ: شرعى نصوص تك براہ راست رسائي (اسلام كے آغاز سے گيارہ ہجرى تك )2)صحابہ كا دور: چونكہ براہ راست پيغمبر اكرم(ص) سے رابطہ رہا تھا لہذا آسانى سے ان سے قول نقل كيا كرتے تھے (گيارھويں ہجرى سے چاليسويں ہجرى تك)3)تابعين كا دور: انكا ايك واسطہ كے ذريعے پيغمبر اكرم(ص) سے رابطہ تھا لہذا ان سے قول نقل كيا كرتے تھے (چاليسويں ہجرى سے پہلى صدى كے تمام ہونے تك)4)چار اماموں كا دور يا فقہى مذاہب كى تشكيل كا دور( دوسرى صدى سے چوتھى صدى تك) _5)چار آئمہ كى تقليد كا دور (تيسرى صدى سے چودھويں صدى تك)6)جديد فقہى اورقانونى بيدارى اور اجتہادات كے دروازے كے كھلنے كادور(3)دراصل اہل سنت كى فقہ چار آئمہ كے ظہور اور فقہى مذاہب كى تشكيل سے مرحلہ كمال تك جاپہنچى اور گذشتہ ادوار اس دور كو وجود ميں لانے كا سبب بنے لہذا ان مذاہب كى تشكيل كيلئے راستہ ہموار ہوگيا _ تيسرے خليفہ——————————1)رجوع كيجئے انكى كتابيں : نہضت ہاى صد سالہ اخير ، انتشارات صدرا ص 75 _71 دہ گفتار ، انتشارات صدرا 120 _121 ، تعليم و تربيت در اسلام ، انتشارات صدرا ص 24 ، اسلام اور مقتضيات زمان ص 232_2)انكى اس حوالے سے دو كتابيں مندرجہ ذيل ہيں نظام الحكم والادارة فى الاسلام، اور فى الاجتماع السياسى الاسلامى ، دار الثقافة للطباعة والنشر قم_3)محمد خضرى بيك ، تاريخ الشريع الاسلامى ، بنارس ص 5_106كے دور ہيں قرآن كريم كى جمع آورى ، دوسرى صدى سے احاديث كى جمع آورى كا آغاز، گوناگوں عقائد اور نظريات كا ظہور، مسلمانوں كى ديگر تہذيبوں سے آشنا ہونا كلام كے مكاتب كا وجود ميں آنا، حكومت كى توسيع اور اسكے اثرات اورقانون كى ضرورت ميں اضافہ و غيرہ يہ سب ان فقہى مذاہب كو وجود ميں لانے كا سبب بنيں(1)اہل سنت كے سب سے پہلے فقہى مكتب كو ابوحنيفہ (150 _80 قمري) نے تشكيل ديا (2)يہ مكتب كہ جو بعد ميں حنفى كے عنوان سے مشہورہوا ، حكومت كے اسے سركارى طور پر قبول كرنے اور حنفى قاضيوں كے تمام اسلامى مناطق ميں بھيجنے سے يہ مكتب بہت سرعت كے ساتھ پھيلا (3) عباسى خلفاء ، مھدى ، ہادى اور ہارون الرشيد نے قضاوت كے متعلق امور قاضى ابو يوسف كے سپرد كيے كہ جو ابوحنيفہ كے شاگرد اور حوارى تھے تو يہ شخص فقط ان لوگوں كو بہ عنوان قاضى كسى جگہ پر بھيجتا تھا جو حنفى فقہ كو قبول كرتے اور اسے لوگوں ميں پھيلاتے ، اسى ليے حنفى فقہ سب سے پہلے عراق، پھر مصر ، ماوراء النہر ، ايشائے كوچك اور ہند يہاںتك كہ چين تك پھيل گئي (4)مكتب ابوحنيفہ كے شاگرد اور تربيت يافتہ لوگوں نے حنفى فقہ كو وسعت دى ليكن بلا شبہ اس حوالے سے قاضى ابويوسف (5) اور محمد بن حسن شيبانى (6) كا سب سے زيادہ كردار ہے خود ابوحنيفہ كے علاوہ اس مكتب كے سب پروردہ لوگ در اصل فقہ حنفى كے فقط مروج اور شارح تھے اور انہوں نے ابوحنيفہ كے فقہى نظريات كے مد مقابل كوئي جدت لانے كى كوشش نہ كى _اہل سنت كا دوسرا فقہى مذہب مالك بن انس (7) (179 _ 93 قمري) كے ذريعے تشكيل پايا اور فقہ مالكي—————————-1)ابوالفضل عزتى ،پيدائشے و گسترش و ادوار حقوق اسلامى ، ص 51_2)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 5 ذيل ‘ابوحنيفہ’ ص 379_3)بوجينا غيانہ ، تاريخ الدولة الاسلامية و تشريعہا ، بيروت ص 173 ، قيس آل قيس ، الايرانيون و الادب العربي، تہران ج 5 ص 4_4)قيس آل قيس ، سابقہ ما خذص 5_4_5)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 6 ، ذيل ابويوسف_6)بوجينا غيانة، سابقہ ما خذص 166_7)محمد ابوزھرة ، مالك ، حياتہ و عصرہ ، آرا وہ وفقھہ، قاہرة_107كے عنوان سے معروف ہوا _ وہ ابوحنيفہ كى آراء بالخصوص احكام شرعى كى تشخيص كے سلسلے ميں ابوحنيفہ كے فقہى قياس اور نظريات كے مد مقابل اپنے مخصوص نظريات ركھتے تھے انہوں نے سعى كى كہ فقہى روش پر حديث كى كتاب لكھ كر اپنى آراء پيش كريں اس كتاب ميں جس كا نام مؤطا ہے مالك سب سے پہلے حديث نقل كرتے ہيں پھر مدينہ كے فقہاء كا فتوى ذكر كرتے ہيں اسكے بعد اپنى فقہى نظر پيش كرتے ہيں انكا نظريہ يہ تھا كہ احكام شرعى كيلئے روايات جيسى مستند دليل كے ہوتے ہوئے قياس يا اپنى رائے كى طرف نہيں آنا چاہيے_ مالكى مذہب بتدريج شمالى آفريقا ، مصر اور اندلس ميں رواج پاگيا (1)اہل سنت كے تيسرے فقہى مكتب كو ابوعبداللہ محمد بن ادريس شافعى (2) (204 _ 150 قمرى ) نے تشكيل ديا وہ چونكہ دونوں حنفى اور مالكى مذاہب كے بارے ميں معلومات ركھتے تھے اسى ليے انہوں نے كوشش كہ ان دو مذاہب ميں اساسى امتزاج پيدا كيا جائے اور اس امتزاج اور وحدت پر جديد فقہ كو تشكيل ديا جائے (3) ليكن اسكے ساتھ ساتھ انہوں نے حنفى مكتب كے استحسان اور مالكى مكتب كى استصلاح كى بھى مخالفت كي_ انہوں نے اپنى فقہى آراء كے اساسى قواعد كو اصول الفقہ كے متعلق ايك رسالہ ميں تحرير كيا _ مصر ميں صلاح الدين ايوبى كے ذريعے فقہ شافى رائج ہوئي (4) اور اس فقہ كے عراق اور مكہ ميں بھى حامى موجودہيں (5)اہل سنت كا چوتھا فقہى مكتب احمد بن حنبل (6) (241 _ 164 قمري) كى طرف منسوب ہے جو فقہ حنبلى كے عنوان سے مشہور ہے _ احمد بن حنبل علماء حديث كے بڑے مفكرين ميں سے شمار ہوتے ہيں انہوں نے شافعى————————-1)كاظم مدير شانہ چى ، علم الحديث، مشہد ص 36_2)محمد ابوزہرہ ، امام شافعى حياتہ و عصرہ و آرا و فقہہ ، قاہرہ_3) ج م عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب، ترجمہ آذر تاش آذرنوش ، تہران ص 175_4)قيس آل متين ، سابقہ ما خذ ، ج 5 ص 5_5) بوجينا غيانة ، سابقہ ما خذص 174_6)ذائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 6 ، ذيل احمد بن حنبل_108كے ہاں درس پڑھا (1) تيس ہزار احاديث پر مشتمل حديث كى مسند لكھ كر دوسروں كو اپنى طرف متوجہ كرليا(2)انكى فقہ كى بنياديں كتاب ، سنت ، صحابہ كے فتاوى ، قياس، استحسان ، مصالح او رذرايع سے تشكيل پائيں انكے مذہب كے سب سے زيادہ پيروكار حجاز ميں ہيں (3)فقہ حنبلى كے حوالے سے ايك نكتہ يہ ہے كہ چونكہ احمد بن حنبل آراء او رنظريات كے مكتوب شكل ميں جمع كرنے كے مخالف تھے اسى ليے انكے شاگردوں اور بعد ميں آنے والے حنبلى مسلك افراد كى آراء ميں جو احمد بن حنبل سے نقل كى گئي ہيں خاص فرق حتى كہ تضاد بھى نظر آتا ہے اور كبھى تو كسى ايك مسئلہ ہيں انكا نام ليكر نقل ہونے والے متضاد اقوال چار يا پانچ كى تعداد تك بھى ہيں (4)اہل سنت كے ان چار اماموں كے بعد سنى فقہ نے اپنى جدت اور تحرك كو كھوديا_ چوتھى صدى سے تيرھويں صدى تك ان آئمہ كے آثار پرصرف حاشيہ يا انكى شرح و تفسير كى حد تك كام ہوا ان مذاہب كے فقہاء نے انكى آراء كے ساتھ تقريبا كوئي نئے نكتے كا اضافہ نہ كيا اسى ليے اہل سنت كى فقہ ميں اجتہاد ان چار اشخاص كى تقليد ميں تبديل ہوكر رہ گيا اگر چہ ان چار آئمہ ميں اجتہاد كو منحصر كرنے پر كوئي بھى عقلى اور نقلى دليل موجود نہ تھى ليكن بتدريج اور حاكموں كے سياسى مقاصد اور كاموں كى بناء پر اس مسئلہ ميں اجماع كى كيفيت پيدا ہوگى كہ اب اسكے خلاف آواز بلند كرنا آسان كام نہ تھا(5) ليكن تيرھويں صدى ہجرى سے عالم اسلام ميںواضح تبديلياں پيدا ہوئيں_ عصرى تقاضوں ، زندگى اور معاشرتى روابط ميں گہرى اور وسيع تبديليوں كے پيش نظر اہل سنت كے بعض فقہاء فقط ان چار آئمہ كى تقليد ميںمنحصر ہونے كے مسئلہ ميں شك و ترديد كا شكار ہوگئے_————————1)وحينا غيانة ، سابقہ ما خذص 177 _2)كاظم مدير شانہ چي، سابقہ ما خذص 55_3)دائرة المعارف بزرگ اسلامي، سابقہ ما خذ_4)رجوع كريں ، ابن حبيرہ الافصاح عن معافى الصحاح، حلب ج 1 ص 54_5) ابوالفضل عزتى ، سابقہ ما خذص 83 _ 71 _109بتدريج اہل سنت كے فقہاء يہ بات سمجھ گئے كہ ان آئمہ كى تقليد پر كوئي عقلى و نقلى حكم اور معتبر دليل موجود نہيں ہے وہ بھى ان چار فقہاء كى مانند شرعى مسائل ميں اجتہاد كرسكتے ہيں اس حوالے سے مصر كے عظيم مفتى شيخ محمود شلتوت نے شيعہ فقہاء كى آراء پر توجہ كرتے ہوئے شيعہ فقہا كى آرا كى پيروى كے جواز كا اعلان كر كے ايك اہم ترين قدم اٹھايا _ (يہ بات قابل ذكر ہے كہ ان مندرجہ بالا چارمسالك كے علاوہ ديگر مسلك اور مكاتب بھى دائرہ وجود ميں آئے جن ميں سے بعض مسالك مثلا زيديہ اور اسماعيليہ شيعہ مسالك ميں شمارہوتے ہيں اور اپنى فقہ اور پيروكاروں كے ساتھ عہد حاضر ميں موجود ہيں اور بعض مسالك جو كسى سے وابستہ نہيں ہيں مثلا اباضى مسلك كہ جو خوارج كے مسلك ميں سے ابھى تك اپنا وجود برقرار ركھے ہوئے ہے(1) يا ديگر مسالك مثلا مسلك اوزاعى (متوفى 150 قمري) اور مسلك سفيان ثورى (متوفى 161 قمري) اور مسلك داود بن على ظاہرى (متوفى 270 قمري) كہ يہ سب سنى مسالك ميں سے شمار ہوتے ہيں ليكن بہت كم پيروكاروں كى بناء پر زيادہ عرصہ تك نہ چل سكے (2)ليكن ان تمام مسالك ميں ايك معمولى ساموازنہ كرتے ہوئے ہم ديكھتے ہيں كہ زيدى مسلك بہت زيادہ پيروكاروں اور بے شمار علما، محدثين ، معروف فقہاء اور مؤلفين كى بناء ايك ممتاز مقام كا حامل ہے اس مذہب كى بعض كتب مندرج ذيل ہيں :زيد بن على بن الحسين (ع) سے منسوب ‘ المجموع’ (3) يحيى بن حسين (98_ 245قمري) كى جامع الاحكام فى الحلال و الحرام احمد بن يحيى المرتضى (840 _ 775قمري) كى البحر الزخار، ابراہيم بن محمد كى الروض فى الحامل شرح الكافل حسن بن احمد (متوفى 1048) كى ضوء النہار فى شرح الازہار اور محمد بن على الشوكانى (متوفى 1221)———————————1)رجوع كيجئے : موسوعة الفقہ الاسلامى ج 1 ص 32 ، صبحى الصالح ، انظم الاسلامية ، نشا تہا و تطورہا ص 207 ، صبحى رجب محمصانى ، فلسفة التشريع فى الاسلام ج 5 ص 69 _70_2)عبدالكريم زيدان، المدخل لدراسة الشريعة الاسلامية ، بيروت ج 11 ص 148_3) سابقہ ما خذ_110كى الدرر البھية والسيل الجرار و نيل الاوطار (1) (زيدى مذہب سے كافى عرصہ كے بعد ہم داود بن على الظاہرى سے منسوب ظاہرى مذہب كا نام لے سكتے ہيں كيونكہ اسكے پيروكار بہت ہى كم تھے اور آج تقريباً موجود نہيں ہيں اس مذہب كى بنيادى فقہى كتا ب’ المحلى ‘ ہے كہ جسے ابن حزم ظاہرى نے تحرير كيا اس مذہب كے استحكام اور بقاء كا باعث تھى اسى شخص كى خدمات جانى گئيں (2)
5_ اصولاسلامى علوم ميں وہ علم كہ جو اصلى منابع اور مصادر سے اسلامى احكام اور قوانين كے استنباط كيلئے تدوين ہوا علم اصول ہے يہ علم وجود ميں آنے كے بعد سے اب تك نو مراحل سے گزرا:_1)وجود ميں آنے كا دور: اس دور ميں اس علم كى تدوين اور اسكے مقدمات بيان كرنے كيلئے سب سے پہلى كوششيں ہوئيں_ شيعہ محققين كى رائے كے مطابق اس علم كے خالق امام باقر (ع) اور امام صادق (عليہما السلام ) ہيں _ اگر چہ عصر حاضر كے كچھ محققين كا خيال ہے كہ اصلى قواعد كا سادہ انداز ميں استعمال صدر اسلام سے ہى رائج تھا(3)2) تصنيف كے دور كا آغاز: اس دور ميں علم اصول جس كا ذكر فقہى مسائل كے درميان ہوتا تھا جداگانہ شكل ميں سامنے آيا_ ميرے خيال ميں علم اصول كى سب سے پہلى تصنيف جناب حشام بن حكم كى ہے كہ جواماميہ متكلمين كے سربراہ شمار ہوتے ہيں انہوں نے كتاب ‘ الفاظ و مباحثہا’ تحرير كى (4)———————————-1) موسوعة الفقہ الاسلام ، سابقہ ما خذ، الحليمي، الروض النضير ، مقدمہ ، دائرة المعارف بزرگ اسلام ج 2 ص 59 _164 ، على بن عبدالكريم شرف الدين ، الزيدية نظريہ و تطبيق ، العصر الحديث ج 2 ص 1_3 اور اسكے بعد ، فواد سزگين ، تاريخ التراث العربى ج 1 ، جزء 3 عربى ، ص 353_2)مصطفى الزلمى ، اسباب اختلاف الفقہاء فى احكام الشريعة ص 56_3)حسن شفايي، ملاك اصول استنباط، ص 9 ، حسن ہادى الصدر، تاسيس الشيعہ لعلوم الاسلام بغداد ، ابولاقاسم گرجى ، مقالات حقوقى ،ج2 ص 117، 113_4) ابوالقاسم گرجي، سابقہ ما خذص 119 _ 118_1113)علم اصول كے علم كلام كے ساتھ ملاپ كا دور: يہ دور جو كہ زيادہ تر اہل سنت كے حوالے سے ہے ، اہل سنت كے متكلمين بالخصوص معتزلہ علم اصول ميں داخل ہوئے اور اسے اسكے اصلى راہ ‘ فرعى و فقہى احكام كے استنباط’ سے ہٹا ديا_ اس دور ميں اہل سنت كے مولفين ميں سے ‘كتاب آراء اصولى ابوعلي’ كے مصنف محمد بن عبدالوہاب بن سلام جبائي ( متوفى 303 قمرى )كتاب التحصيل كے مصنف ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر تميمى اسفراينى (متوفى 429 قمري) اور كتاب ‘ المستصفى ‘كے مصنف ابوحامد غزالى (متوفى 505 قمرى ) قابل ذكر ہيں_4)علم اصول كے كمال اور دوبارہ جدا ہونے كا دور : يہ دور جو كہ مكتب شيعہ كے حوالے سے ہے علم اصول بتدريج پختگى كى منازل طے كر گيا اور كافى حد تك علم كلام كے مسائل سے جدا ہوگيااس دور كے اہم ترين آثار كے جنہوں نے علم اصول كو ترقى كى انتہائي بلنديوں تك پہنچا ديا وہ ابن ابى عقيل ، شيخ مفيد اور شيخ طوسى كى تصنيفات و تاليفات ہيں _5)استنباط كے جمود اور علم اصول ميں ٹھہراؤ كا دور: شيخ طوسى كے علمى نبوغ اور عظمت كى بناء پر تقريباً ايك صدى تك مختلف علوم بالخصوص اصول فقہ ميں انكى آرا، اور نظريات بغير كسى علمى تنقيد كے باقى رہے اور اس دور كے مولفين كى كتب پر انكے آثار كى تقليد كى چھاپ باقى رہى _ مثلا سديد الدين حمصى رازى كى كتاب مصادر اور حمزہ بن عبدالعزيز المعروف سلار كى كتاب ‘ التقريب’ ميں يہ تقليد ديكھى جاسكتى ہے مجموعى طور پر اس دور كے تمام فقہى استنباط اور نتائج شدت كے ساتھ شيخ طوسى كى آراء سے متاثر تھے_6) تجديد حيات كى تحريك: اس دور كى خصوصيات ميں سے يہ ہيں كہ ايك طرف روح اجتہاد دوبارہ زندہ ہوئي اور دوسرى طرف گذشتہ بزرگان دين كى كتب كى شرح ، حاشيہ اور تلخيص كى گئي اور فن منطق كے بعض مسائل علم اصول ميں داخل ہوئے اس دور كے علما اور بزرگ محققين ميں سے محمد بن ادريس حلى (متوفى 598 قمرى )محقق حلى ، علامہ حلي، فاضل مقداد اور شيخ بہائي قابل ذكر ہيں (1)—————————–1)سابقہ ما خذ ص 121 ، 130 ، 135_1127)علم اصول ميں ضعف كا دور : تشيع كى علمى محافل اور حوزات ميں اخبارى مكتب فكر كى طرف ميلان بڑھنے سے علم اصول كى گذشتہ ادوار كى مانند رونق ختم ہوگئي اس دور ميں اخباريوں اور اصوليوںميں شديد نزاع رہا، اس دور كى اخبارى مكتب فكر ميں اہم ترين تاليف ‘ كتاب فوائد المدنيہ’ ہے كہ جو محمد امين استر آبادى (متوفى 1033) نے تاليف كي_8)علم اصول كا جديدد ور: جناب وحيد بہبہانى كے علمى حوزات ميں ظاہر ہونے سے علم اصول بتدريج دوبارہ ترقى كے زينوںكى طرف بڑھنے لگا، آپ اور آپكے شاگردوں نے اپنى حيرت انگيز صلاحيتوں سے مالامال علمى طاقت سے اخبارى مكتب فكروالوں كے تمام شبہات اور تہمتوں كا جواب ديا اور يہ ثابت كرنے كيلئے بہت زيادہ كوشش كى كہ فقہى مسائل تك پہنچنے كيلئے ہم سب فقط اصولى قواعد كے محتاج ہيں اس دور ميں علامہ وحيد بہبہانى كے علاوہ عظيم علمى شخصيات ميں سے سيد مہدى بحر العلوم (متوفى 1212 قمري) كاشف الغطاء (متوفى 1227قمري) اور سيد على طباطبائي (متوفى 1221 قمري) قابل ذكر ہيں (1)9)عصر حاضر : يہ دور جو كہ حقيقت ميں علم اصول كى معراج كا دور شمار ہوتاہے شيخ مرتضى انصارى (متوفى 128) كے ظہور سے شروع ہوا اور انكے بعد انكے شاگردوں كى كوششوں سے جارى رہا _ واقعى بات تو يہى ہے كہ اس دور ميں علم اصول كى ترقى كاگذشتہ ادوار ميں كسى دور سے موازنہ نہيں كياجاسكتا اس دور ميں علم اصول ميں تحقيقات كيفيت اور كميت كے اعتبار سے وسيع ہونے كے ساتھ ساتھ انتہائي عميق بھى ہيں (2)
6_ كلاماسلامى تمدن كے زير سايہ علم كلام كى پيدائشے كى كچھ وجوہات تھيں ان ميں سے ايك مسلمانوں كا غير مسلم اقوام مثلا ايرانيوں ، روميوں اورمصريوں سے تعلقات تھے ان روابط اور تعلقات كى بناء پر عقائد و نظريات—————————–1)سابقہ ما خذ ص 138_2)مرتضى مطہري، آشنائي با علوم اسلامى ، بخش اصول فقہ ص 263_113ميں اختلاف آشكار ہوا _ مسلمانوں نے دين اسلام كے دفاع كيلئے نئي فكرى اور استدلالى روشوں كو سيكھا_ اسى طرح اس علم كے وجود ميں آنے كى دوسرى وجہ ايسى اقوام كا اسلام قبول كرنا قرار پائي كہ جو اپنے مذاہب ميں اللہ تعالى كى صفات، توحيد ، قضا و قدر اور جزا و سزا و غيرہ كے مسائل ميں مخصوص عقائد و نظريات كے حامل تھے_ اسى بناء پہ نئے مسلمان لوگ اسى كوشش ميں رہتے تھے كہ اپنے سابقہ دينى عقائد كو دين اسلام كے سانچے ميں ڈھال كر پيش كريں اسى ليے مسلمانوں نے بھر پور كوشش كى كہ عقلى دلائل سے بہرہ مند ہوكر اسلام كے بنياد ى عقايد كو مستحكم اور پائيدار بنائيں(1)علم كلام اپنے آغاز ميں فقط عقائدى مسائل بالخصوص توحيد و غيرہ پر بحث كرتا تھا اور جو شخص عقائد كے امور ميں دليل سے بات كرتا اسے متكلم كہا جاتاتھا اور خود دينى عقائد اور اصول ميں بحث اور جدل كرنے كو علم كلام كا نام دياگيا _ اسلام كے بڑے متكلمين ميں سے جنہوں نے كلامى نظريات اور مسالك كى تشكيل ميں اہم كردار ادا كيا حسن بصرى (110 _ 21 قمري) كى طرف اشارہ كيا جاسكتاہے كہ جو گناہوں كے حوالے سے بہت سخت موقف ركھتے تھے _ انكا عقيدہ تھا كہ تمام افعال فقط انسانى مرضى كى بناء پر انجام پاتے ہيںدوسرى صدى ہجرى ہيں ابو محرز جھم بن صفوان نے مسلك جھميہ كو تشكيل ديا _ اس مسلك كے ماننے والوں كا نظريہ يہ ہے كہ اللہ تعالى كى شناخت كيلئے فقط ايمان كافى ہے ديگر عبادات سے اس كا كوئي ربط نہيں ہے اور كوئي بھى اللہ تعالى كے ارادے كے سوا فعل انجام نہيں ديتا_ پس انسان اپنے افعال ميں مجبور ہے (2)تيسرى صدى ہجرى ميں ابو سہل بشر بن معتمر ہلالى كوفى بغدادى (متوفى 210قمري) نے مسلك بشرية كو تشكيل ديا _ اسكا نظريہ يہ تھا كہ اللہ تعالى قادر ہے اور اس نے اپنے بندوں كو اپنے كام كرنے پر قادر كيا ہے ليكن يہ مناسب نہ سمجھا كہ حيات، موت اور قدرت جيسے امور بھى انسانوں كے سپرد كرے (3)—————————–1) علامہ شبلى نعماني، تاريخ علم كلام، ترجمہ داعى گيلاني، ص 8_2)خير الدين زركلى ، الاعلام ، ج 2 ص 226_3) محمد شہرستاني، الملل و النحل، محمد جواد شكور كى سعى سے ، ج1، ص 72_114چوتھى صدى ميں ہم چند مشہور و معروف متكلمين كا عرصہ وجود ميں ظہور كا مشاہدہ كرتے ہيں ان ميں سے ايك شيخ مفيد ہيں انكى تقريباً دو سو كے قريب تاليفات تھيں كہ جن ميں سے اكثر مختلف كلامى مسالك كے عقائد كى رد پر لكھى گئيں_ اسى صدى كے دوسرے مشہور متكلم شيخ الطايفہ ابوجعفر محمد بن حسن طوسى ہيں وہ سب سے پہلے شخص تھے كہ جنہوں نے نجف كو شيعہ مكتب كے علمى اور دينى مركز ميں تبديل كيا انكى كلام ميں مشہور كتابوں كے نام مندرجہ ذيل ہيں:الشافي، الاقتصادالہادى الى الرشاد اورتمھيد الاصول_پانچويں صدى ميں مشہور متكلم ابوحامد محمد غزالى پيدا ہوئے_ غزالى كا عقيدہ تھا كہ متكلمين نے اس زمانہ ميں دين كى نصرت كيلئے قيام كيا كہ جب دينى فرقوں ميں اختلاف بڑھ گيا تھا اور لوگوں كے دلوں ميں ايمان متزلزل ہوچكا تھا انہوں نے عقلى اور منطقى دلائل كے ساتھ شبہات پيدا كرنے كا راستہ بند كرديا تھا نيز انكا عقيدہ تھا كہ عوام كو علم كلام سے دور كرنا چاہيے كہ اگر ان ميں سے كوئي ‘يد’ ، ‘ فوق’ اور عرش پر استوار’ كا معنى پوچھيں تو بھى انہيں نہ بتائيں خواہ انہيں تازيانے مارنا پڑيں (1) جس طرح كہ خليفہ دوم حضرت عمرہر اس شخص سے ايسا سلوك كيا كرتے تھے كہ جو تشابہ آيات كے بارے ميں سوال كرتا پانچويں صدى كے ايك اور معروف متكلم ابوالفتح محمد بن عبدالكريم بن احمد شہرستانى ہيں انكى علم كلام ميں معتبرترين كتاب كا نام نہاية الاقدام فى علم الكلام ہے جو علم كلام كے بيس قواعد اور اس علم كے مسائل كى فروع پر تشريح كى حامل ہے (2)چھٹى صدى ہجرى كے مشہورترين متكلم امام فخر رازى ياامام المشككين ہيں وہ علم اصول و كلام ميں مكتب اشعرى پر اور فروع دين ميں شافعى مسلك پر تھے انكے بيشتر اعتراضات اورتشكيكات فلسفي، كلامى اور علمى مسائل ميں تھے_ وہ اسلامى عقايد كى تشريح اشعرى مكتب كے اصولوں كى بناء پر كيا كرتے تھے اور فقہ اہل سنت پر عمل پيرا تھے_————————-1)ابوحامد محمد غزالي، المنقد من اللال والمفصح عن الاحوال، محمدحابر كى كوشش سے _ دہر، عبدالكريم گيلانى حاشيہ الانسان الكامل ، قاہرہ_2)ابراہيم مذكور، فى الفلسفة الاسلامية، قاہرہ_115ساتويں صدى ہجرى كے عظيم ترين متكلم خواجہ نصير الدين طوسى ہيں چونكہ خواجہ شيعہ ہونے كے ساتھ ساتھ منگولوں كے بادشاہ ہلاكوخان كى نگاہ ميں اہم مقام كے حامل تھے لہذا اہل سنت كے بہت سے علماء ان سے حسد كيا كرتے تھے اور انہيںسب و شتم كيا كرتے تھے انكى علم كلام ميں اہم ترين كتاب ‘ تجريد الاعتقاد’ ہے(1)ساتويں صدى ميں ابن تيميہ پيدا ہوئے وہ قرآنى علوم، حديث، فقہ، كلام ، فلسفہ اور ہندسہ ميں مہارت ركھتے تھے، وہ مسلمانوں كى سنت كا دفاع كيا كرتے تھے كہ جسكى وجہ سے اہل سنت كے ديگر مسالك كے بہت سے پيروكاروں نے انكى مخالفت كى _ اگر چہ انكا حنبلى مسلك سے تعلق تھا ليكن اس مسلك كے اصول كو اجتہاد كے ذريعہ قبول كرتے تھے اور بدعات كى مخالفت كرتے تھے اور اولياء خدا سے تمسك كرنے اور انبياء كى قبور كى زيارت پر تنقيد كيا كرتے تھے _ علماء اسلام كے ايك گروہ نے انكى مذمت كى جبكہ ايك گروہ نے انكى تعريف كي(2)ان تمام گذشتہ صديوں ميں علماء اسلام ميںسے فقط علامہ حلى ہيں كہ جنہيں آيت اللہ كے لقب سے نوازا گيا آپ ساتويں صدى ميں پيدا ہوئے، آپكى چار سو سے زيادہ تاليفات ہيں انہوں نے اپنى علم كلام كے بارے ميں تاليفات ميںسياست كى بحث بھى كي_ وہ سياست كوعين دين سمجھتے تھے انكى علم كلام كى مباحث ميں شيعہ سياسى افكار جلوہ گر ہيں_ انكى علم كلام ميں اہم ترين كتا ب الباب الحادى عشر ہے اسكے ابواب ميں مذہب شيعہ كے مختلف كلامى موضوعات مثلا نبوت، عصمت پيغمبر(ص) كا ضرورى ہونا، پيغمبر (ص) كى افضليت ، پيغمبر(ص) كا نقص سے دور ہونا، امامت ، امام كا معصوم ہونا اور حضرت على (ع) كى امامت كے حوالے سے بحث اور تجزيہ و تحليل كياگيا ہے_(3)——————————–1)ميان محمد شريف، تاريخ فلسفہ در اسلام تہران_2)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 3 ، ذيل ابن تيميہ_3)خوانسارى ، روضات الجنات، لقرآن ص 421 _419_1167_ تصوف، عرفان اورفتوتتصوف كا لغت ميںمعنى ‘ صوفى بننا’ ہے ، بظاہر سب سے قديمى كتاب كہ جسميں كلمہ صوفى اور صوفيہ استعمال ہوا وہ جاحظ (متوفى 255 قمرى ) كى البيان و التبين ہے (1) ابن خلدون نے اپنے مقدمہ ميں تصوف كو صحابہ ، تابعين اور انكے بزرگان كى روش كے طور پر ذكر كيا (2) بعض نے لفظ صوفى كو صفا سے ليا كہ جسكا معنى روشنى اور پاكيزگى ہے اور صفوت سے مرادمنتخب ہے ليكن شہرت يہى ہے كہ صوفى صوف سے ليا گيا ہے كہ جسكا معنى پشم ہے اور صوفى يعنى پشم پوش (پشم پہننے والا) (3)عرفان كو يورپى زبانوں ميں ‘ مَيسٹك’Mystics(4) كا نام ديا گيا ہے كہ جو يونانى لفظ ميسٹيكوس(Mistikos) سے ليا گياتھا (5) اور اسكا مفہوم و معنى ايك مرموز ، پنہان اور مخفى امر ہے_اور اصطلاح ميں ايسے خاص دينى پہلو پر دلالت كرتاہے كہ جس ميں كسى انسانى فرد كا كائنات كے رب كے ساتھ بلاواسطہ رابطہ اور اتصال پيدا ہونا ممكن ہے اور يہ علم انسان كو خالق كائنات كےساتھ كشف و شہود اور باطنى تجربات كے ذريعے متصل كرتا ہے دوسرے الفاظ ميں عرفان سے مراد وہ روش اور طريقہ كہ جو نظرياتى طورپر علم حضورى كہلاتاہے اور عملى حوالے سے عبادت، كوشش اور زہد و رياضت سے لولگانے كو كہتے ہيں(6)دوسرى صدى ہجرى ميں وہ خاص لوگ كہ جو دينى مسائل كى طرف بہت زيادہ توجہ ديتے تھے زاہد، عابد اورمتصوف كہلاتے تھے_ اس دور ميں ہميشہ ميں عبادت ميں مصروف ہونا ، اللہ تعالى كے ليے ترك دنيا،——————————1)عمرو بن بحر حاحظ، البيان و التبين چاپ حسن سندولى قاہرہ ، ج1 ص 283_2)ابن خلدون، مقدمہ ، ج1 ص 611_3)منصور بن اردشير عبادي، مناقب الصوفيہ ص 3، 31_4) mystic5)mistikos6)نورالدين كيائي ناد، سير عرفان در اسلام، ص 7_65_117دنياوى لذتوں سے دورى اختيار كرنا ، زہد اور ہر وہ چيز كہ جسے لوگ برا سمجھتے ہيں مثلا ثروت جمع كرنے اور جاہ طلبى و غيرہ سے پرہيز كرنا تصوف كہلا تا تھا(1)جاحظ اور ابن جوزى نے تقريباً ابتدا كے صوفيوں ميں سے چاليس افر اد كا تعارف كرواياہے جن ميں ابوذر، حذيفہ بن يمان، خباب بن ارث و بلال حبشي، سلمان فارسي، عمار ياسر ، مقداد اور ديگر وہ لوگ كہ جو عبادت اور زہد ميں معروف تھے انكا ذكر ہوا، اسى طرح وہ اشخاص كہ جو صدر اسلام كے شيعوں ميں سے شمار ہوتے ہيں (2)تيسرى صدى كے وسط سے صوفى حضرات گروہى اعتبار سے بتدريج منظم ہوگئے_ انكا اہم ترين گروہ بغداد ميں تھا_معروف صوفى مثلا ابوسعيد خرّاز (متوفى 277 قمري) جنيد بغدادى (متوفى 298قمري) اور ابوبكر شبلى (متوفى 334 قمرى ) وہاں زندگى گذارتے تھے (3)كلامى اوراعتقاد كے اعتبار سے صوفيوں ميں پائے جانے والے مختلف نظريات انكے فكرى اور باطنى مكتبوں اور فرقوں ميں اختلاف كا باعث تھے _ مثلا خواجہ عبداللہ انصارى اور ابوسعيد ابو الخير آپس ميں اختلاف رائے ركھتے تھے (4)تيسرى صدى ہجرى سے دوسرے علاقوں كے صوفيوں كا مركز سے رابطہ اور نظم بڑھ گيا يہانتك كہ بغداد ميں – 309 قمرى ميں حلاج قتل ہوا _ يہ چيز باعث بنى كہ بغداد بتدريج صوفيوں كا محور اور مركزنہ رہا_ اسى صدى كے وسط سے ہى بغداد كے بڑے صوفى حضرات نے تاليف كا آغاز كيا اس دور كى اہم ترين كتابيں مندرجہ ذيل ہيں: خرگوشى نيشابورى (متوفى 406 قمري) كى تہذيب الاسرار، ابوبكر كلا بازى كى————————–1)عبداللہ بن محمد ارضاري، طبقات الصوفيہ ج 12 ، ص 5 _194_2)رينولد’ نيكلسون’ پيدائشے و سير تصوف ترجمہ محمد باقر معين، ص 14_11، مانرى كورين ، تاريخ فلسفہ اسلامى ، ترجمہ جواد طباطبائي ص 73_265_3)ابوبكر محمد بن ابراہيم كلاباذي، التعرف لمذہب اہل التصوف ، دمشق ص 30 _ 28_4)احمد جامى ، مقامات شيخ الاسلام حضرت خواجہ عبداللہ انصارى طروى ، چاپ فكرى سلجوقى تہران ص 34_ 31_118تصنيف ‘التعرف لمذھب اہل التصوف ‘اور ابونصر سراج طوسى كى تاليف’ كتاب اللمع فى التصوف’ چوتھى صدى ميں اور اس كے بعد بھى تاليف كى يہ روايت جارى رہي_ كتاب ‘التعرف كلا بازى ‘كو ابواسماعيل مستملى نے فارسى زبان ميں ترجمہ كيا_ ابو حامد غزالى (متوفى 505 قمري) نے كتاب ‘كيمياى سعادت ‘كو عربى زبان ميں تحرير كيا اسى طرح شہاب الدين عمر سہروردى نے ساتويں صدى ہجرى ميں تصوف كے حوالے عربى ميں كتاب’ عوارف المعارف ‘تاليف كى _چوتھى صدى كے دوسرے نصف حصہ سے صوفيوں كى تاريخ خاص اہميت كى حامل ہے ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى نے كتاب طبقات الصوفيہ ميں 103 معروف صوفيوں كا پہلى بار اپنى كتاب ميں تعارف كروايا نيز انكى كچھ باتوں كو بھى ذكر كيا_ اسى كتاب طبقات الصوفيہ كى مانند ابونعيم اصفہانى نے بھى كتاب حلية الاولياء تاليف كى جو ‘طبقات الصوفيہ ‘كا تقريباً چربہ تھى (1)چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے صوفيوں ميں گوناگوں سلسلے تشكيل پائے ہر سلسلے كا نام اس طريقت كے بانى كے نام پر ہوتا مثلا سلسلہ سہرورديہ ، شہاب الدين عمر سہروردى كے ساتھ منسوب ہے اور سلسلہ مولويہ مولانا جلال الدين بلخى كے ساتھ منسوب ہے ان سلسلوں كو مختلف واسطوں كے ساتھ صدر اسلام اور حضرت رسول اكرم(ص) سے ملايا جاتا تھا كہ اس قسم كى نسبت مستحكم دليل و بنياد سے خالى ہوتى ہے (2)مجموعى طور پر پانچويں، چھٹى اور ساتويں صدى ہجرى ميں شيعہ اور سنى ميں اختلاف نظر ، سنى مذاہب بالخصوص حنفيوں اور شافعيوں ميں مذہبى مجادلے ، فقہاء اور فلاسفہ ميں نظرياتى اختلاف اور مختلف جنگيں مثلا منگولوں كے حملے باعث بنے كہ تصوف لوگوں كيلئے بہت زيادہ پر كشش بن جائے، اس دور ميں بزرگ ، صوفى ظاہر ہوئے مثلا ابوالحسن فرقاني، ابوسعيد ابو الخير (3) بابا طاہر عريان، ابوالقاسم قشيري، حجت الاسلام—————————-1)نصر اللہ پور جوادي، ابو منصور اصفہانى كى سير السلف و نصحات الانس كے حوالے سے معلومات ، معارف دورہ 14 ش 3 _2)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ماخذج 10 ص 3 _420_3)فريش ماير، ابوسعيد ابو الخير ، حقيقت و افسانہ، ترجمہ مہر آفاق بايبوردي_119غزالى (1) ابونعيم اصفہانى (2) ، احمد غزالى ، عين القضات ہمدانى (3) احمد جامى (4) عبدالقادر گيلاني، سہروردى (5) ، نجم الدين كبري، فريد الدين عطار نيشابورى (6) شمس تبريزي، جلال الدين مولوي(7) اور بالخصوص محى الدين ابن عربي_پانچويں اور چھٹى صدى ميں تصوف ادب ميںسرايت كرگيا _اكثرشعراء حضرات عرفان اور تصوف كى طرف مائل ہوگئے مثلا مولوى نے عرفانى اشعار كو معراج پر پہنچا ديا_ اس سے بڑھ كر غزالى اور سہروردى كى مانند افراد كے ظاہر ہونے سے تصوف كا فلسفى پہلو بھى ترقى كرگيا_ اس پہلو اور نظريہ كے سربراہ محى الدين ابن عربى ہيں انكے معروف ترين آثار’ فتوحات مكيہ اورفصوص الحكم ہيں انہوں نے تصوف ، عرفان اور حكمت اشراق كو اپنى كتب ميں استدلالى اور برہانى روش كے ساتھ پيش كيا اور وہ اسلام ميں وحدت وجود كے مكتب كے حقيقى بانى بھى ہيں (8)چھٹى صدى ہجرى ميں عين القضات ہمدانى (متوفى 525 قمري) جو ايك عظيم عارف اورفقيہ تھے ، پيدا ہوئے انہوں نے اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات كے مقابلے ميں اللہ تعالى پراپنے ايمان اورنبوت و آخرت پر ايمان كا مناسب انداز سے دفاع كيا ليكن ان پر كفر اور زندقہ كى تہمت لگاتے ہوئے انہيں تينتيس——————-1)محمد بن محمد غزالي، احياء علوم الدين ، بيروت_2)احمد بن عبداللہ ابونعيم اصفہاني، سابقہ ما خذ_3)عبداللہ بن محمد عين القضاة ، دفاعيات عين القضاة ہمداني، ترجمہ رسالہ شكورى الغريب ، ترجمہ و حاشيہ قاسم انصاري، تہران_4) عبدالرحمان بن احمد جامي،نفحات الانس، محمود عابدى كى كوشش كے ساتھ _تہران_5)يحيى بن جبش سہروردى ، مجموعہ مصنفات شيخ اشراق ، كوربن كى كوشش كے ساتھ، تہران ، محمد بن مسعود قطب الدين شيرازى شرح كلمة الاشراق سہروردى عبداللہ نورانى و مہدى محقق كى كوشش كے ساتھ تہران_6)محمد بن ابراہيم عطا، تذكرة الاولياء ،محمد استعلامى كى كوشش كے ساتھ ، تہران_7)جلال الدين محمد بن محمد مولوى ، مثنوى معنوي، تصحيح و ترجمہ رينو الاولين ينكلسون، تہران_8)رينو اور نيكلسون، سابقہ ما خذص 4 _ 32_120 33 سال كى عمر ميں قتل كرديا گيا يہ واقعہ حسين بن منصور حلاج كے قتل كے بعد اسلامى تصوف كى تاريخ ميں انتہائي جانگداز واقعہ شمار ہوتاہے(1)اسى صدى ميں اس قسم كے خشك تعصب كا ايك اور مظاہرہ ايران كے مشہور فلسفى شہاب الدين سہروردى كے قتل كى شكل ميں سامنے آيا وہ 549 قمرى ميں سہرورد زنجان ميں پيدا ہوئے اور 587 قمرى ميں صلاح الدين ايوبى كے حكم اور حلب شہر كے متعصب لوگوں كے بھڑكانے پر اٹھتيس سال كى عمر ميں قتل ہوئے ساتويں صدى ہجرى ميں سہروردى كا مكتب تشكيل پايا اسى صدى ميں تصوف وجد اور حال كے مرحلہ سے ‘ قال’ كے مرحلہ تك پہنچا اور علمى فلسفى صورت ميں سامنے آنے لگا (2)آٹھويں صدى ميں سہروردى ، ابن عربى اور ابن فارض كا عرفانى مكتب شہرت پانے لگا اور تصوف اور عرفان آپس مخلوط ہوگئے_ عرفانى علوم اور خانقاہوں كى راہ و رسم كو ايك جگہ پڑھايا جانے لگا اسى صدى ميں ايران كے عظيم ترين عارف اور سخن سرا حافظ شيرازى پيدا ہوئے اسى طرح شيخ صفى الدين اردبيلى (735 _ 650 قمري) ، ابوالوفاء (متوفى 835 قمري) زين الدين ابوبكر تايبادى (متوفى 791) اور زين الدين ابوبكر محمود خوافى (متوفى 838 قمري) كہ جو ايران كے آٹھويں صدى اور نويں صدى كے آغاز ميں بزرگ عرفا ميںشمار ہوتے تھے ظاہر ہوئے يہ سب سہرورديہ طريقت كے پيروكار اور شيخ نور الدين عبدالرحمان قريشى مصرى كے مريد تھے _ اس دور كے اور اسكے كچھ عرصہ بعد كے بڑے عرفاء ميں سے جامع الاسرار كے مصنف سيد حيدر آملي، علاء الدين سمنانى ( 736 _659 قمري) گلشن راز كے مصنف شيخ محمود شبسترى (متوفى 720 قمري) نعمت اللہى سلسلہ كے بانى شاہ نعمت اللہ ماہانى كرمانى المعروف شاہ نعمت اللہ ولى اور مختلف كتب اور عرفانى نظموں كے خالق نور الدين عبدالرحمان جامى (متوفى 912 قمري) قابل ذكر ہيں تصوف نے در حققت آٹھويں صدى ہجرى ميں اپنے كمال كے تمام مراحل طے كرليے تھے كيونكہ اس تاريخ كے بعد يہ زوال كاشكار ہوا (3)——————————1)زين الدين كيائي ناد ، سابقہ ما خذص 42 _131_2)قمر گيلانى ، فى التصوف الاسلامي، مفہومہ و نظورہ و اعلامہ ، بيروت_3)زين الدين كيانى ناد ، سابقہ ما خذص 2 ، 231_121صفوى دورميں تصوف ايك نئے مرحلہ ميں داخل ہوا گذشتہ قرون ميں صوفى راہنماؤں كى ذمہ دارى يہ تھى كہ اپنے مريدوں كى راہنمائي اور تہذيب نفس كريں اسى ليے وہ دنيا كى كوئي پرواہ نہ كرتے تھے اور حق تك وصل اور كمال انسانى ميں سعادت حاصل كرنے كى كوشش ميں رہتے تھے_ نويں صدى ہجرى ميں صوفى مشايخ ميں سے ايك شيخ يعنى شيخ جنيد جو كہ شاہ اسماعيل كے جد تھے انہوں نے طاقت و قدرت اپنے ہاتھوں ميں لينے كيلئے صوفى گروہ اور اپنے مريدوں كو تيار كيا اور اسى ہدف كے پيش نظر صوفيوں كو كفار سے جہاد كيلئے مجبور كيا اور اپنے آپ كو سلطان جنيد كہلايا اس تاريخ كے بعد صوفى لوگ جنگى لباس ميں آگئے_شاہ اسماعيل كے ابتدائي زمانہ حكومت ميں اسكے مريد اور پيروكار ايك مدت تك اسے صوفى كہتے رہے پھر صوفى اور قزلباش كا عنوان ايك دوسرے كيلئے لازم و ملزم ہوگيا _ شاہ تہماسب كے زمانہ ميں شيعوں اور قديم صوفى مريدوں كى اولاد كا ايك گروہ ديار بكر اور ايشيا ئے كوچك كے كچھ علاقوں سے ايران ميں داخل ہوا اور صوفى گروہ ميں شامل ہوگئے شاہ تہماسب كى وفات كے وقت قزوين ميں صوفيوں كى تعداد دس ہزار تك پہنچ گئي صوفى لوگ قزلباشوں كے ديگر گروہوں كى نسبت بادشاہ كے زيادہ قريب ہوتے تھے صوفيوں كے ہرگروہ كے سربراہ كو خليفہ كا نام ديا جاتا تھا اور تمام صوفيوں كے سربراہ كوخليفةالخلفاء كہا جاتا تھا (1)شاہ عباس نے صوفيوں كو نظرانداز كرديا اوروہ تمام اہم امور جو انكے ہاتھوں ميں تھے ان سے لے ليے_ جو كچھ بھى صفويہ دور ميں صوفيوں كے حوالے سے لكھا گيا وہ فقط شيخ صفى الدين اور انكے جانشينوں كے پيروكاروں كے بارے ميں ہے صفوى حكومت كے وسطى زمانہ سے علماء شريعت كى قوت بڑھنے لگى اور اسى نسبت كے ساتھ صوفى لوگ زوال كا شكار ہونے لگے اور انكى مخالفت بڑھنے لگى يہانتك كہ انكے حوالے سے مرتد كافراور زنديق ہونے كى باتيں ہونے لگيں ، قاجارى دورميں اگر چہ صوفيوں كے كام كچھ زيادہ لوگوں كى توجہ كا مركز قرار نہ پائے ليكن حكومت كے استحكام سے معمولى آسايش حاصل ہونے كے ساتھ ساتھ حملہ اور—————————-1)نور الدين مدرسى چہاردہي، سلسلہ ہاى صوفيہ ايران ، تہران_122اذيت سے محفوظ ہوگئے ليكن خانقاہيں پھر منظم اور پرجوش نہ رہيں(1)فتوت، عربى زبان ميں ايسى صفت ہے كہ جو كلمہ ‘ فتي’ سے مشتق ہوئي ہے اور اس شخص كى صفت ہے كہ جس نے جوانى اور شباب ميں قدم ركھا ہويہ كتاب منتھى الارب ميںجوانمردى اور عوامى كے معنى ميں ذكر ہوئي ہے زمانہ جاہليت ميںيہ كلمہ دو مجازى معانى ‘ شجاعت اور سخاوت’ ميں استعمال ہوا كلمہ فتوت كے مشتقات قرآن مجيد كى سورتوں كہف،يوسف، نساء اورنور ميں ذكر ہوئے ہيں كہ دو يا تين مقامات سے ہٹ كر باقى تمام جگہوں پر جوانمرد يا جوانمردى كے علاوہ معانى ميں انكى تفسير ذكر ہوئي ہے (2) جنگ احد ميں پيغمبر اكرم نے حضرت على (ع) كو كفار سے دليرى كے ساتھ جنگ كرنے كى بناپر فتى كا لقب ديا اور فرمايا : لا فتى الا علي_ (3) اموى دور ميں فتوت كے معنى ميںوسعت پيدا ہوئي اور مردانگى اور مروت كے مختلف موضوعات اس كے معنى ميں داخل ہوئے ليكن اسكا اساسى ركن ايثار كہلايا كہ جو صوفيانہ فتوت كى سب سے پہلى خصوصيت تھى _صدر اسلام ميں زاہدين اور سچے مسلمان جہاد اور راہ اسلام ميں جنگ كى مانند اس چيز كواپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے _ اس دور كے بعد صوفى حضرات خانقاہوں ميں بسيرا كرنے لگے اور جہاد اصغر سے جہاد اكبر يعنى نفس سے جنگ كى تعليم ميں مشغول ہوئے اسى ليے فتوت كہ جو شجاعت اور كرامت كے مترادف تھا اخلاق حسنہ اور ايثار كے معنى ميں تبديل ہوگيا اور صاحب فتوت كى تين علامات قرار پائيں: (1_) ايسى وفا كہ جسميں بد عہدى نہ ہو (2_) بغير توقع كے تعريف كرنا (3_) بغير مانگے دينا_ (4)فتوت كى بھى تصوف كى مانند كوئي جامع تعريف موجود نہيں ہے_(5)—————————1)زين الدين كيانى ناد، سابقہ ما خذص 232_2)يوسف 30 ، 36 ، 61، 62 ، كہف 10 ، 13، 59 ، 61 ، نساء 29 ، نور 33 ، نيز رجوع كريں محمد جعفر محجوب ‘ مقدمہ فتوت نامہ سلطانى ، نوشتہ مولانا حسين واعظ كاشفى سبزوارى ص 9_7_3)سابقہ ما خذمقدمہ ص 9 _4)سابقہ ما خذص 11 _ 9_5) سابقہ ماخذ، ص 11123فتوت كے حوالے سے ابن عمار حنبلى بغدادى جو اس موضوع پر قديمى ترين كتاب ‘ كتاب الفتوة’ كے مصنف ہيں اس ميںلكھتے ہيں كہ سنت ميں فتوت كے حوالے سے احاديث بيان ہوئيں ہيں كہ جن ميں سے بہترين احاديث امام جعفر صادق (ع) سے نقل ہوئيں جو انہوں نے اپنے والد اورجد مبارك سے روايت كى ہيں كہ رسول اكرم(ص) نے فرمايا: كہ ميرى امت كے جوانمردوںكى دس علامات ہيں : سچائي ، تعہد سے وفا، امانت ادا كرنا ، كذب سے پرہيز، يتيم پر سخاوت ، سائل كى مدد كرنا ، جو مال پہنچے اللہ كى راہ ميں دينا، بہت زيادہ احسان كرنا، مہمان بلانا اور ان سب سے بڑھ كر حيا ركھنا(1)مختلف كتابوں سے تصوف اور فتوت كے حوالے سے بہت سى تعريفيں ملتى ہيں كہ ان كتابوں ميںسے اہم ترين كتابيں ‘ الفتوة الصوفية اور طبقات الصوفيہ’ مصنف ابو عبدالرحمان سلمى نيشابورى اور سالہ قشيريہ كہ جسكے مصنف ابوالقاسم قشيرى ہيں_(2)مسلم بات يہ ہے كہ ان تمام كتب كے مطالعہ سے يہ استنباط ہوتاہے كہ فتوت شروع ميں تصوف كے مسالك ميں سے ايك مسلك كے طور جانا گيا ، عام طورپر يہ جوانمرد لوگ اپنے ‘سراويل يا كسوت’ نامى لباس يا حليے كے حامل تھے جس كا عملى سرچشمہ حضرت على كى سيرت اوركردار كو جانتے تھے (3)تيسرى صدى كے بعد فتوت صوفيوں كى مذہبى و دينى كتابوں كے علاوہ فتوت ناموں، عوامى داستانوں ، اشعار اور فارسى ادب كى صورت ميں شاعروں اور اہل سخن و كلام كى تعريف و ستائشے كا محور قرار پايا(4)——————–1)ابن عمار حنبلى بغدادي، الفتة ص 233_ 132 صالح بن جناح ، كتاب الادب و المروة ، ترجمہ و تصحيح سيد محمد دامادى ، پوہشگاہ علوم انسانى و مطالعات فرہنگى تہران ص 8_2)فتوت نامہ سلطنى ، سابقہ ما خذص 12 مقدمہ _3)محمد جعفر محجوب ، سابقہ ما خذص 13 _ 12_4)فتوت نامہ سلطانى ص 13 تا 15 ، على اكبر دہخدا ، امثال و حكم ج 2_124فتوت كے حوالے سے قديمى اور معتبر مصادر ميں سے عنصر المعانى كيكاووس بن اسكندر بن قابوس كى كتاب قابو سنامہ ہے كہ جس كے آخرى باب (چواليسواں باب ) ميں جوانمرد ہونے كيلئے قانون كاذكر ہے _ قابوسنامہ كى تفضيلات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس زمانہ ميں اور اس سے قبل فتوت معاشرہ كے تمام طبقات ميں عملى اور اخلاقى احكام كى شكل ميں رائج تھا ہر كوئي اپنے كاموں ميں جوانمرد ہو اور فتوت كے قوانين كى پابندى كرتا تھا_دوسرى صدى سے فتوت كا مكتب عياري(1) كے ساتھ مخلوط ہوا اور اسكے خاص آداب اور رسوم تشكيل پائيں اسى ليے پہلوان لوگ ، ورزش كرنےوالے ، طاقتور لوگ، سپاہى اورعيار لوگ اپنے آپ كو جوانمرد كہنے لگے اور دوسرى طرف سے پيشہ ور اورسوداگر و تاجر لوگ اپنى جوانمردى كيلئے مخصوص آداب اور رسوم ركھنے لگے صوفى اور خانقاہ نشين لوگ بھى اپنے مكتب ميں جوانمردى كى رسوم و آداب كا خيال ركھنے لگے اور جو اس راہ ميں دوسروںسے بڑھ كر كوشش كرتا وہ فتوت ميںبرتر سمجھا جاتا تھا (2)بلا شبہ فتوت كى گروہى صورت ميں فعاليت ايران كے علاوہ ديگر تمام اسلامى علاقوں مثلا شام اور مصر و غيرہ ميں بھى موجود تھى _ اس سے بڑھ كر تمام صليبى جنگوں كے دوران بيت المقدس سے شواليہ نام كے سواروں كا گروہ فرانس اور ديگر يورپى ممالك ميں ان مسلمانوں جوانمردوں ، سواروں كى تقليد كرتے ہوئے يورپ ميں داخل ہوئے كہ جو كرد، لر، فارس، ترك اور عرب قوميتوںسے مخلوط تھے_ بعض مورخين كا عقيدہ ہے كہ يورپ ميں اخلاقى بالخصوص فرانس ميں اخلاقى تربيت اور اصلاح شواليوں كے ان ممالك ميں جانے سے ہوئي كہ انہوں نے ان ممالك ميں جوانمردى ، اصيل زادگى ( ذات كے حوالے سے نجيب ) اور شجاعت كے قانون كو رائج كيا(3)———————–1) عيارى (پہلوانى كى طرح) قديم زمانے ميں ٹريننگ اور رياضت كى بعض انواع ميں سے ايك تھى جو دوسرى صدى ہجرى كے اواخر سے اسلامى معاشرے ميں پائي جاتى ہے_ عيار اپنى زندگى ميں كچھ خاص طريقوں اور اصولوں كے پابند ہوتے تھے_ بعد ميں عيارى تصوف سے مخلوط ہوگئي_(مصحح)2)فتوت نامہ سلطانى ، ص 17 ، 18 ، مقدمہ_3) ہانرى كربن ، سابقہ ما خذص 119_125ملك الشعرا بہار نے سيستان كى تاريخ پر حاشيہ ميں لكھا عرب لوگ اپنے جنگجو ، زيرك اور ہوشيار اشخاص كہ جو ہنگاموں ،شورشوں يا جنگوں ميں شجاعت اور ذھانت دكھاتے انہيںعيار كا نام ديتے تھے _ بنى عباس كے دور ميں خراسان اور بغداد ميں عيار لوگ تعداد ميں بڑھ گئے تھے_ سيستان اور نيشابور ميں خاصہ (بادشاہوں يا امراء كے اصحاب و مقربين) اور يعقوب ليث صفار اس طايفہ كے سرداروں ميں سے تھے ہر شہر ميں عياروں كے سر براہ ہوتے تھے كہ جنہيں وہ ‘سرہنگ ‘كہا كرتے تھے اور كبھى تو ايك شہر ميں كئي سرہنگ اور چند ہزار عيار موجود ہوتے تھے (1)غزنوى اور سلجوى ادوار ميں عيار لوگ شہرى معاشرے كا ايك مخصوص طبقہ ہوتے تھے كہ يہ لوگ شہروں ميں عام لوگوں كى مانند يا مشرقى مصادر كى اصطلاح ميں ‘اوباش’ كى صورت ميں ہوتے تھے يہ لوگ كفار كے ساتھ جہاد كيلئے مسلح گروہ تشكيل ديتے تھے جنہيں عيار كہا جاتا تھا (2)عباسى خليفہ ‘ الناصر لدين اللہ كا جوانمردوں كے گروہ ميں شامل ہونا اور فتوت كى ‘سراويل ‘پہننا چھٹى صدى ہجرى كے آخرى سالوں ميں ايك بڑا واقعہ تھا كہ جو فتوت كى تاريخ كے بہت بڑے واقعات ميں شمار ہوتا تھا_ چونكہ وہ جوانمردى كے مكتب كا اسلامى معاشرے ميں نفوذسے باخبر ہوچكا تھا اس ليے اس نے اسے عباسى حكومت كے ستونوں كو مستحكم كرنے كے ليے بہت مفيد جانا تا كہ اس كے ذريعے عباسى حكومت كو زوال سے بچالے اور عباسى حكومت كى عہد رفتہ كى شان و شوكت كودوبارہ زندہ كرے (3) 656 قمرى ميں منگولوں كے حاكم ہلاكو خان كے بغداد پر قابض ہونے اور بغداد ميں عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ فتوت كى فعاليت ميں جمود پيدا ہوگيا چند سال كے بعد حكومت مماليك (سفيد فام غلام جو گردونواح كے مختلف علاقوں پر فرمانروائي كرتے تھے) كى حمايت كے ساتھ مصر ميں برائے نام عباسى خلافت ظاہر ہوئي كہ جن كے ساتھ————————–1)تاريخ سيستان ص 6_ 175_2)مجلہ دانشكدہ ادبيات تہران ، س 4 ، ش 2 دى 1325 ص 82_3)كاظم كاظمينى ، عياران ص 14_ 13 ، حائرى كوربن ، آئين جوانمردى ص 180 ، 175_126فتوت بھى ظاہر ہوئے اور انكا مكتب مصر اور شام ميں رائج ہونے لگا اور يہ رواج بعد كے ادوار ميں بھى جارى رہا ليكن عراق ميں عباسى حكومت كے خاتمہ سے يہ مكتب زوال پذير ہوگيا اگر چہ اسكى جڑيںباقى رہيں (1)ناصر نے فتوت ناصرى كے طريقہ كو سلجوقيان كى رومى مملكت ميں رواج ديا _ عثمانيوں نے بھى طاقت اور حكومت تك پہنچے كيلئے ‘اَخي’ اور اناطولى كے اہل فتوت كو پل كے طور پر استعمال كيا_اہل فتوت كے ‘اخيوں ‘كا شيخ صفى الدين اردبيلى كے گرد موجود ہونا اور شاہ اسماعيل صفوى كا اپنے تركى اشعار كے ديوان ميں اپنے مددگاروں اور تابعين كيلئے عنوان ‘اخى ‘كا استعمال فتيان، قزلباشوں اور شيعوں كے درميان رابطے سے بڑھ كر ان لوگوں كے حكومتى انتظامى امور ميں ناقابل انكار سياسى اور معاشرتى كردار كو ظاہر كرتاہے _ خصوصاً يہ كہ وہ كسوت (صوفيا كا خاص لباس ) پوش اور پاكيزہ صوفيوں يعنى شاہ كے فدائيوں ميں سے شمار ہوتے تھے(2)ايرانى خاندانوں كے ايران پر حكومت كے دوران عيار لوگ كشتى كرنے والے پہلوانوں كے بھيس ميں سلاطين كے دربار ميں موجود ہوتے تھے يافوج ميں جنگجو كى صورت ميں اپنے وطن كى خدمت ميں مشغول تھے_ اور جب غير ايران پر قابض ہوئے تو يہ عيارى شكل و شمائل ميں انكے ساتھ جہاد كرتے جيسا كہ منگولوں كے تسلط كے آخرى دور ميں عياروں كى جماعت نے عبد الرزاق بن خواجہ شہاب الدين بيہقى كى سربراہى ميں قيام كيا اور سربداران كى تحريك كو وجودميں لائے_ يہ لوگ اپنے آپ كو شيعوں اور حضرت على (ع) كے جانثاروں ميں شمار كرتے تھے اور فتيان كے مكتب پر عياروں كى ماند عمل پيرا ہوكر لڑتے تھے_مشہور ہے كہ چنگيز خان نے كسى كو سلسلہ كبرويہ كے چھٹى اور ساتويں صدى كے مشہور عارف اور بزرگ صوفى شيخ نجم الدين كبرى كے پاس (اس پيغام كے ساتھ) بھيجا كہ : ‘ ميں نے حكم دياہے كہ خوارزم ميں قتل———————————1)جواد مصطفي، مقدمة الفتوة ، تاليف ، ابن عمار حنفى بغدادي، ہانرى كوربن، سابقہ ما خذص 183_2)عباس اقبال آشتياني،فتوت و خلافت عباسي، محلہ شرق، دورہ يكم ، ش خرداد 1310 ص 105 ،101_3)صالح بن جناح، كتاب الاب والمروة ص 9 _ 79_127عام كيا جائے آپ وہاں سے باہر آجائيں تا كہ قتل نہ ہوں ، تو شيخ نے جواب ديا ‘ميں خوشحالى كے اسى سالوں ميں خوارزميوں كے ساتھ تھا اور سخت حالات ميں ان سے دور ہونا بے مروتى ہے ‘وہ 618 قمرى ميں خوارزم ميں شہيد ہوئے اپنے زمانہ كے بڑے عياروں اور صوفيوں ميں سے تھے اور انكا منگولوں كے ساتھ مقابلہ بہت معروف ہوا (1)ساتويں سے نويں صدى تك چنگيز اور تيمور كى اولاد ايران پر قابض تھى تو عيارى كى عربوں كے تسلط كے دور كى مانند شہرت اور طاقت تھى ہر جگہ عياروں كى غير ايرانى حاكموں كے ساتھ جنگ كا تذكرہ تھا (2)بلا شبہ ايران ميں اسلامى تصوف كے رواج كے بعد ورزش اور پہلوانى بھى تصوف كے ساتھ مخلوط ہوگئي چونكہ اكھاڑوں كى صوفيوں كى خانقاہوں سے بہت زيادہ مشابہت ہے لہذا اہل ورزش كے بہت سے آداب اور القاب بھى صوفى مسلك لوگوں كے آداب و سلوك كى مانند ہيں مثلا صوفيوں كے رقص سماع ميں ‘قول’ نامى اشعار پڑھا جانا يااكھاڑوںميں كشتى كرنا اور اپنے گرد گھومنا كہ اس وقت ‘گل كشتى ‘يا ‘گل چراغ ‘ اشعار پڑھے جاتے ہيں پٹھے يا شاگرد كا اپنے استاد پہلوان سے اور پير و مريد كا باہمى تعلق اكھاڑوںميں اخوت كى بناء پر رائج ہے اسى طرح ساتويں صدى اور آٹھويں صدى ميں پہلوانوں كا ايك گروہ جو كہ اپنے زمانہ ميں بزرگ عرفاء اور صوفيوں ميں سے تھے اور ان ميں سب سے بڑے ‘پوريا ولى ‘ہيں بقول كسى كے اكھاڑوں كى خاك كو چومنا انہى كى سنت چلى آرہى ہے (3)پہلوان محمود خوارزمى المعروف پوريا ولى ايران كے مشہورترين پہلوان ہونے كے ساتھ ساتھ بڑے شاعر اور پاكيزہ قلب والے عارف بھى تھے امكان ہے كہ وہ 653 قمرى ميںگنج خوارزم ميں پيدا ہوئے پوريا—————————1)حمد اللہ مستوفي، تاريخ گزيدہ ص 789 _2)كاظم كاظميني، سابقہ ما خذص 14، 13_3)پرتو بيضائي كاشاني، تاثير آيين جوانمردى در ورزش ہاى باستانى ، تاريخ ورزش باستانى ايران (زورخانہ) تہران ص 352_142_128نے 703 قمرى ميں كنز الحقائق مثنوى لكھى كہ جو اپنى جگہ بے نظير ہے _يقينى بات يہى ہے كہ ساتويں صدى كے دوسرے نصف سے عباسى حكومت كے ختم ہونے كے ساتھ ہى فتوت بھى ايك سياسى اور معاشرتى انجمن كى حالت سے باہر آگئي اور يہ مسلك ايك پيشہ ورانہ مكتب كى شكل ميں ظاہر ہوا (1) بہت سے بزرگان اسلام كہ جنہوں نے تصوف ميں فارسى اور عربى نظم و نثر كے حوالے سے كتابيں لكھيں انہوں نے فتوت ميں نثر لكھنے كےساتھ نظم بھى كہى كہ غالباً ان كتابوں كو ‘ فتوت نامہ’ كہا جاتا تھا_ آٹھويں صدى كے بعد بالخصوص عصر حاضر تك جوانمردى اورفتوت كى رسم تصوف كے ساتھ ساتھ سرزمين ايران ميں رائج تھى اور عوامى طبقات ميں باہمى روابط كو باقى ركھنے كے ساتھ انكے ظالموں اور اغيار كے مدمقابل قيام ميں اہم ترين ذريعہ رہى (2)_——————————–1) ہانرى كوربن، سابقہ حوالہ ، باب دوم ، محمد جعفر محبوب ، سيرى در تاريخ فتوت ، ص 184_2) عباس اقبال آشتيانى ، سابقہ ما خذحوالہ ص 352 _ 329_