اسلامى تہذيب كے جمود كے اندرونى اور بيرونى اسباب

265

الف : بيرونى اسباب1_ صليبى جنگيںبلا شبہ صليبى جنگوں كے برپاہونے كا ايك مضبوط ترين سبب دينى اور مذہبى انگيزہ تھا اور اس بات كو مسلمان اورعيسائي لوگ دونوں قبول كرتے ہيں البتہ ان جنگوں كے بر پا ہونے كے ديگر اسباب بھى بيان ہوئے مثلا عيسائي معاشروں ميں پادريوں كے اثر و رسوخ كا بڑھنا، ايشيا ء صغير ميں سلجوقى تركوں كو پيش قدمى سے روكنا ، قسطنطنيہ كا مسلمانوں كے ہاتھوں سے نكل جانا ، عيسائيوں كا بالكان كے علاقہ ميں داخل ہونا ، عيسائيوں ميں شواليہ (1)سپاہيوں ميں اپنى شجاعت دكھانے اور يروشلم كى بادشاہت پر قبضہ كرنے كيلئے جوش و خروش پيدا ہونا اور ان سب سے اہم يورپى ممالك كى معاشرتى اور سياسى صورت حال(2)_يورپ كى معاشرتى اور سياسى صورت حال كا تجزيہ كريں تو معلوم ہوگا كہ دنيا كے اس حصہ ميں بادشاہتوں كا ايك درخشان تريں دور فرانس كے بادشاہ چارلمين كا زمانہ (800 عيسوي) تھا ٹھيك اسى كے زمانہ ميں مسلمانوں كى پيش قدمى اپنے عروج كو پہنچ چكى تھى اور وہ عيسائيوں كيلئے بہت بڑا رقيب شمار ہوتے تھے_ كچھ عرصہ گزرنے كے بعد چارل مين كے جانشين بادشاہوں كى نالائقى ، برے اقتصادى حالات ، تہذيب كا فقدان اور انسانى آبادى ميں كمى كے باعث يہ بادشاہت علاقے كے جاگير داروں ميں تقسيم ہوگئي ، ہر كوئي——————-1) شواليہ: قرون وسطى كے عيسائي گھڑ سوار سپاہى (مصحح)_2) رنہ گروسہ ، تاريخ جنگہاى صليب ، ترجہ ولى اختر شادان ، تہران ص 9،1_190اپنے اپنے علاقہ ميں تمام تر اختيارات كے ساتھ حكمرانى كرتا تھا اگر چہ نئے بادشاہ سے وفادارى كا حلف اسكى تاجيوشى كى تقريب ميں اٹھاياجاتا تھا ليكن يہ سب كچھ فقط برائے نام تھا فوج بھى ان گھڑ سواروں پر مشتمل ہوتى تھى جن كى باگ ڈور بادشاہ اور ان جاگير داروں كے ہاتھ ميں تھي_دسويں صدى عيسوى سے مغربى يورپ بالخصوص فرانس ميں اقتصادى اور صنعتى ترقى كے ساتھ ساتھ آبادى ميں بھى اضافہ ہونے لگا انہى حالات كے ساتھ ساتھ مصر بھى ہندوستان اور يورپ كے مابين پُل كى حيثيت اختيار كر گيا_ مصرى ملاح ‘وينس’ اور ‘رن’ اور كسى حد تك مارسى جہازرانوں كے توسط سے ہندوستان سے مصالحہ جات اور ديگر اشياء لاتے تھے اور يہ تجارت قرون وسطى ميں يورپ كى سب سے بڑى بندرگاہ يعنى شہر وينس كى ترقى ميںاہم كردار ادا كرتى تھى _ (1)

2_ منگولوں كى آمدساتويں صليبى جنگ(652_646قمرى /1254_1248عيسوى كے زمانہ ميں منگولوں نے ايشيا كے مشرق سے اسلامى ممالك پرحملہ كرديا اور ايران كے بادشاہ سلطان محمد خوارزم شاہ كو شكست دى اور فرار پر مجبور كرديا حقيقت ميں تيرھويں صدى عيسوى كو’وحشت و خوف كى صدي’كا نام دينا چاہيے كيونكہ اس صدى ميں وحشيوں كا تحرك اور تمدنوں كا زوال ايك ساتھ تھا_سرزميں شام اس زمانہ ميں ايوبى امراء كے ہاتھوں ميں تھى جس كے ہر منطقہ ميں ايك حاكم حكومت كرتا تھا _ مصر بھى خاندان غلاماں كے قبضہ ميں تھا اور وہ ايوبيوں كے دشمن تھے_ ہلاكو خان نے اس موقع سے فائدہ اٹھايا اور اپنے سپاہوں كو شام كى طرف حركت دى ، ليكن مصرى خاندان غلاماں كے اميرقدوز نے سال 658 قمرى ميں منگولوں كو عين جالوت كے علاقے ميں شكست دى _————————1) سات صليبى جنگوں كے اسلامى تہذيب و تمدن پر اثرات كے بارے ميں مزيد جاننے كيلئے رجوع فرمائيں عبداللہ ناصرى طاہرى ، علل و آثار جنگہاى صليبي، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامى 1373، ص 47_37_191منگولوں كے زمانہ ظہور سے ہى عيسائي انكے حليف بننے كے خواہشمند تھے _ انہوں نے بہت سے سفراء منگول دربار بھيجے تھے _ ايك طرف منگولوں كى مغرب كى طرف تيزى سے حركت نے انہيں منگولوں كى طاقت سے آگاہ كيا دوسرى طرف سے مسلمانوں كى جنگ عين جالوت ميں فتح سے وہ اس انديشہ ميں پڑے كہ خاندان مماليك(غلاماں) عيسائيوں كيلئے بہت بڑا خطرہ ہيں اسى لئے انہوں نے منگولوں كے ساتھ اتحاد كا ارادہ كيا پايائے اعظم اوربن چہارم نے ہلاكو خان كى طرف خط بھيجا _ اس ميں اس نے ہلا كوخان كے عيسائيوں كے ساتھ طرز عمل كى تعريف كرنے كے ساتھ ساتھ اسے عيسائيت قبول كرنے كى دعوت دى _ہلاكوخان خط پہچنے سے پہلے ہى 663/1264 عيسوى ميں مرگيا اور اسكا بيٹا اباقاخان اسكا جانشين مقرر ہو ا نئے خان نے بادشان بيزانس (قسطنطنيہ)كى بيٹى سے شادى كى ہوئي تھى اور دين مسيحيت قبول كر چكا تھا وہ عين جالوت كى شكست سے سخت رنجيدہ تھا اپنے اسلاف سے بڑھ كرعيسائي دنيا سے روابط كا خواہشمند تھا _ بہت سے سفرا جو منگولوں كے خان سے مغرب كى طرف جاتے تھے عيسائي تھے اور كوشش كررہے تھے كہ عيسائيوں كو يروشليم اور بيت المقدس پر حملہ ميں اپنا حليف بنائيں_ليكن ابا قاخان كو 680 قمرى /1282 ميں حمص كے مقام پر سلطان قلاوون كى طرف سے شديد شكست كا سامنا كرنا پڑا_ جب احمد كلودار نے اسلام قبول كيا اور مسند حكومت پر متمكن ہوا تو مماليك اور منگولوں ميں دوستانہ روابط پيدا ہوئے تو سلطان قلاوون نے موقع سے فائدہ اٹھايا اور اپنى پورى طاقت كو صليبيوں كے خلاف استعمال كيا اسكے بعد اسكے فرزندملك اشرف شرف نے بھى باپ كى روش كو جارى ركھا اور 0 69 قمرى 1291 عيسوى ميں صليبوں كے آخرى گروہ كو شام سے نكالا_ منگولوں اور مماليك كے درميان دوستانہ روابط زيادہ عرصہ نہ چل سكے _ نتيجہ يہ ہوا كہ دونوں ميں جنگ ہوئي غازان خان نے مصر اور شام پر قبضہ كيا ليكن مماليك كى فوج نے بالآخرہ منگولوں كو 702 /1303 عيسوى ميں ہميشہ كيلئے شام سے نكال ديا _(1)———————1) عبداللہ ناصرى طاہر ، سابقہ حوالہ، ص 93 _ 92_192منگولوں كا حملہ اور اسكے نتائجاسلامى دنيا كو تاريخ ميں اگر چہ اغيار كے حملوں كے تجربات ہوئے ليكن كم كہہ سكتے ہيں كہ ان ميں سے كوئي تجربہ بھى منگولوں كے حملہ كى مانند شديد اور تلخ تھا ہم اس مختصر سے تبصرے ميں كوشش كريں گے كہ اسلامى تہذيب و تمدن كے جمود ميں وحشى منگولوں كے ہولناك طوفانى حملوں كے كرداد كا جائزہ ليں_
اسلامى دنيا پر منگولوں كا حملہمنگولوں كے قبائل كے مقتدر سر براہ چنگيز خان نے اپنے ماتحت قبايل كى ضروريات پورى كرنے كيلئے ہمسايہ ممالك يعنى چين اور ايران كو غارت كرنے كا پروگرام بنايا _ چين اس زمانہ ميں اختلاف اور تفرقہ كا مركز بناہوا تھا_ اس نے سب سے پہلے اس ملك پر حملہ كى تيار كى _ دوسال تك اسكے چين پر حملات جارى رہے ان دو سالوں ميں اس نے اس نعمات سے مالامال ملك كو تباہ و برباد كرديا _ ان حملات كے بعد ابھى اسكا دنيائے اسلام پر تجاوز كرنے كا ارادہ نہ تھا_ كيونكہ اسے ايران كے بادشاہ سلطان محمد خوارزم شاہ كى قوت و طاقت كے حوالے سے بہت سى خبريں مل رہى تھيں_ اس نے كوشش كى كہ سب سے پہلے اس ملك كے حوالے سے دقيق معلومات حاصل كرے اور ساتھ ساتھ كسى بھى عنوان سے اسے حملہ شروع كرنے كا بہانہ بھى مل جائے _(1) اسى زمانہ ميں خلافت عباسيہ روز بروز اپنى طاقت كھورہى تھى سلطان محمد خوارزم شاہ خراسان ميں اپنى پے درپے كاميابيوں كے بعد اور ہندوستان سے بغداد تك اور آرال كے دريا سے خليج فارس تك ايك متحدہ حكومت تشكيل ديتے ہوئے اس كا ارادہ تھا كہ عباسى خليفہ كوہٹا كر اپنا من پسند خليفہ لائے اور يہ اقدام سلطان محمد خوارزم شاہ كى بہت بڑى غلطى تھى اسكى بناء عباسى خليفہ مجبور ہوا كہ محمد خوارزم شاہ كى حكومت تباہ كرنے كيلئے چنگيز خان سے مدد مانگے_————————–1) شيرين بيانى ، مغولان و حكومت ايلخانى در ايران ، تہران _ ص 17 _10_193اگر چہ يہ موضوع چنگيزخان كيلئے مناسب بہانہ بن سكتا تھا ليكن ايران پر 615 /1218 عيسوى ميں حملہ كى اصلى وجہ منگولوں كا وہ تجارتى قافلہ بنا جو كہ خوارزم شاہ كى مملكت كے مشرقى سرحدى علاقہ ميں شہر اترا ر كے حاكم كے ہاتھوںتباہ و برباد ہوا اور اس قافلہ ميں سوائے ايك شخص كے تمام افراد قتل ہوگئے يہ وہى وقت تھا كہ چنگيز خان نے ايران پر حملے كا حكم صادر كيا _(1)
منگولوں كى پيش قدميمنگولوں كا ايك لشكر چنگيز كے بيٹے تولى كى كمانڈ ميں جنوب كى طرف بڑھا جبكہ دوسرے منگول لشكر چنگيزكے بيٹوں اكتاى اور جغتاى كى كمانڈ ميں اترار كى طرف روانہ ہوئے اور خود چنگيز بھى 616 قمري/ 1220 عيسوى ميں كاشمر اور بلا ساقوں شہروں سے ہوتا ہوا كہ جو پہلے سے منگولوں كے قبضہ ميں آچكے تھے بخارا كى طرف بڑھا_سلطان محمد خوارزم شاہ كہ جسے ابھى تك منگولوں كا سامنا نہيں ہوا تھا سمرقند سے بخارا اوربخارا سے سيحون كى طرف لشكر كے ساتھ بڑھا اس دوران اس نے تمام صوبوں سے فوج كو جمع كرنے كا حكم ديا _ منگولوں كے ساتھ جنگ ميں سلطان محمد خوارزم شاہ كى فوج پر ايسى سخت ضرب لگى كہ اگر اسكے شجاع بيٹے جلال الدين كى جانفشانى نہ ہوتى تو ہ خود بھى اس لڑائي ميںمارا جاتا بہر حال شكست نے سلطان محمد كے دل ميں ايسا خوف ڈالا كر وہ مازندران كى طرف فرار ہوا اور وہاں سے كسى جزيرہ ميں پناہ لى اور وہيں غم سے جان دي_(2)منگولوں كا پہلا نشانہ شہر اترار تھا كہ وہاں انكا تجارتى قافلہ لوٹا گيا تھا لہذا سب سے پہلے انہوں نے اسى شہر كا محاصرہ كيا پانچ مہينے كى مزاحمت كے بعد شہر والوں نے ہتھيار ڈال ديے حملہ آور منگولوں نے كسى پر رحم نہ كيا سب كو خاك و خون ميں غلطاں كرديا منگولوں نے يہاں سے مملكت ايران كو ويران كرنا شروع كيا اور پھر جو————————–1) عباس اقبال آشتيانى ، تاريخ مغول و اوايل تيمور در ايران ، تہران_2) شيرين بيانى ، دين و دولت در ايران عہد مغول ، تہران ص 19_14_194بھى شہر انكے راستے ميں آيا سب شہر والوں كا قتل عام كيا اور پھر اس شہر ميں سوائے خاكستر كے كوئي چيز باقى نہ رہنے ديتے _انہوں نے سمرقند ، بخارا ، خوارزم ، بلخ ، مرو ، ہرات اور ديگر تمام شہروں اور قصبات كو تباہ و برباد كيا اور بعض ديہاتوں ميں تو پالتو جانوروں پر بھى رحم نہ كيا بالخصوص وہ شہر كہ جہاں كچھ مزاحمت ہوئي وہاں كسى چيز كو نہ چھوڑا گيا _ مثلا جب چنگيز كو دس ماہ تك طالقان كے لوگوں كى مزاحمت كا سامنا كرنا پڑا تو اس نے اپنے بيٹوں(جغتاى ، اوكتاى ، تولي) كو مدد كيلئے بلايا تو ان لوگوں كى مزاحمت اور جغتاى كے قتل ہونے كى سزا كا انتقام ايسے ليا كہ اس شہر ميں كسى كتے اور بلى كو بھى زندہ نہ چھوڑا _(1)
چنگيز كے جانشين اور عالم اسلام پر حملوں كا تسلسل10 رمضان 624 قمر ى اور 1227 عيسوى ميں چنگيز خان مرگيا اس نے اپنى موت سے قبل مشرقى ممالك كى سلطنت تولى كے حوالے كى اور مغربى ممالك كى پادشاہى اكتاى كو بخشى 5 66 قمرى 1253 عيسوى ميں چنگيز كے پوتے ہلاكو خان كو ايشيا كے معاملات كى ذمہ دارى ملى تا كہ ايران كى تمام مقامى حكومتوں كوختم كرتے ہوئے ايك واحد منگولى حكومت كو تشكيل دے _ اس نے فرقہ اسماعيليہ كى 170 سالہ حكومت كو بھى ختم كيا اور ايران كے تمام قبايل اور گروہوں كو اپنے مقابل سر تسليم ختم كرنے پر مجبور كيا _ليكن ہلاكوخان كى سب سے بڑى كاميابى بغداد يعنى اسلامى خلافت كے مركز كو فتح كرنا تھى اس نے بغداد پر چارو ںطرف سے حملہ كرنے كا حكم ديا چھ دن مزاحمت كے بعد 4 صفر 655 يا 1257 عيسوى ميں اہل بغداد نے ہتھيار ڈال ديے كچھ افراد كے علاوہ باقى تمام شہر والوں كو قتل كرديا گيا اسكے بعد ايك ايك كركے عراق كے تمام شہروں پر منگولوں كا قبضہ ہوتا چلا گيا ہلاكوخان بغداد كو فتح كرنے كے بعد آذربايجان كى طرف روانہ ہوا————————-1) ج ، ج ساندوز ، تاريخ فتوحات مغول ، ترجمہ ابوالقاسم حالت ، تہران ، امير كبير ، ج 2 ص 114_195اس نے پہلے مراغہ اور بعدميں تبريز ميں سكونت اختيار كى اسكے بعد عراق مكمل طور پر اور خاص طور پر افسانوى شہر بغداد يعنى اسلامى خلافت كے مركز كى سياسى اہميت ختم ہوگئي اور منگول اپنى حاكميت كے اختتام تك يعنى 734 قمرى 1335 عيسوى تك اس سرزمين پر قابض رہے(1)_
منگولوں كى پيش قدمى كا اختتام او ر ايلخانى حكومت كى تشكيلہلاكوخان كى مسلسل يہى كوشش تھى كہ ماوراء النہر ميں دريائے جيحوں سے بحيرہ روم كے مشرق اور مغرب ميں مصر تك اسكى بادشاہت كى حدود پر اسكا تسلط برقرار رہے _ اسى ليے اس نے شام و سوريہ پر حملہ كيا انہى سالوں ميں مصر اور قاہرہ خاندان مماليك (غلاماں)كے ہاتھوں ميں تھا اور وہ دنيائے اسلام كے دفاع كى ذمہ دارى اپنے كندھوں پر محسوس كرتے تھے انہوں نے منگولوں سے كوئي سمجھوتہ نہ كيا اور فلسطين ميں عين جالوت كے مقام پر منگولوں كو سخت شكست فاش سے دوچار كيا اسطرح منگولوں كا ناقابل شكست والا طلسم ہميشہ كيلئے ٹوٹ گيا اسكے بعد شام ميں منگولوں كے ما تحت علاقے انكے ہاتھوں سے نكل گئے اور دوبارہ مصر كے مماليك ان علاقوں پر حكومت كرنے لگے اسكے بعد ديگر جنگى معركوں ميں منگولوں كو شكست ديتے ہوئے انہوں نے دريائے فرات كو اپنے اور منگولوں كے درميان سرحدى پٹى قرار ديا _جنگى معركوں ميں كئي دفعہ ہارنے كے باوجود ہلاكو خان نے اپنى بادشاہى اور فوجى قوت كو مستحكم كرتے ہوئے ‘ ايلخان’ كے نام سے اپنى حكومت كا اعلان كيا اسكى حكومت كى حدود شرق ميں دريائے جيحون اور مغرب ميں مصر تك اور شمال ميں قفقاز اور جنوب ميں خليج فارس تك پھيلى ہوئي تھيں_ہلاكو خان 663 قمرى اور 1265 عيسوى ميں 48 سال كى عمر ميں دنيا سے رخصت ہو ا اسكے بعد 654 سے 736 تك آٹھ ايل خانوں نے حكومت كى _ آخرى ايلخان منگول بادشان جو كہ لا ولد تھا بہت زيادہ عيش و عشرت كى بناء پر 736 قمرى اور 1336 عيسوى ميں فوت ہوا اسكے بعد حكومت كے دعويدار اختلافات كا شكار————————1) رشيد دو ، لى _ شن ، سقوط بغداد، ترجمہ اسداللہ آزداد ، مشہد ، انتشارات آستان قدس رضوى ، ص 2_ 141_196ہوئے جسكى بناء پر ايل خان مختلف ٹكڑوں ميں بٹ گئے _(1)
منگولوں كے دور ميں اسلامى دنيا كى تہذيبى صورت حال كا جائزہدوسو سال پر محيط منگولوں كى حكومت كا دور اسلامى ممالك كى تاريخ ميں ايك انتہائي تكليف وہ دور شمار ہوتا ہے _ كہ اس دور ميں منگولوں كى وحشيانہ حركات كى بناء پر اسلامى تہذيب و تمدن كو ناقابل تلافى نقصانات پہنچے _ منگولوں كى وحشيانہ تباہى سے پہنچنے والا ايك ناقابل تلافى نقصان بغداد پر قبضہ كے وقت كتابخانوں كو تباہ كرنا اور چند ہزار جلد كتاب كو آگ كى نذر كرنا تھا _ابن خلدون كے بقول منگولوں نے اسقدر زيادہ اور بے شمار كتابوں كو دريائے دجلہ ميں پھينكا كہ ان كتابوں سے دريا ميں گويا ايك پل بن گيا كہ ديہاتوں كے لوگ اور گھوڑ سوار اس پل كے ذريعہ ايك كنارے سے دوسرے كنارے تك جاتے تھے_ بغداد كى تباہى كے ساتھ اسلامى خلافت كا مركز اور دنيائے اسلامى كا سياسى اقتدار بھى ختم ہو گيا اور اسلامى مقدس مقامات مثلا مساجد ، مدارس اور علمى حوزات ويران ہو گئے يا يہ كہ علمى تحقيقات اور ترقى سے محروم ہو گئے_(2)ليكن اسى راكھ سے اسلامى تہذيب و تمدن نے دوبارہ جنم ليا اوراس طرح نشو و نماپائي كہ كافر منگول بھى متاثر ہوئے بلكہ اسلامى تہذيب كے عاشق ہو گئے_ اور اسى دور ميں اسلام كے بہت سے عظيم اديب اور دانشور ظاہر ہوئے جن ميں سے ہر ايك نے اپنے مقام پر اسلامى تہذيب و تمدن كے احياء كيلئے بہترين كردار ادا كيا ان عظيم لوگوں ميں مثلا مولوى ، سعدى ، حافظ ، عطا ملك جوينى اور خواجہ نصير الدين طوسى قابل ذكرہيں _ مثلا خواجہ نصير الدين طوسى كے حوالے سے كہا جاتا ہے كہ ہلاكو خان ان سے اس قدر متاثر تھا كہ جو وقت خواجہ معين فرماتے وہ اس وقت سفر پر روانہ ہوتا يا كوئي كام كرتا شايد يہى مسلمان دانشوروں كا دانشمندانہ اور شايستہ طرز عمل تھا كہ اسلامى تہذيب دوبارہ ثمر آور ہوئي اور وہ قوم منگول كہ جس نے اسلام كو تباہ كرنے كيلئے كمر————————–1) شيرين بيانى ، مغولان و حكومت ايلخانى در ايران _ ص 76_2) اشپولر ، سابقہ حوالہ ، ص 4 _170_197باندھ ركھى تھى وہ اب اسلام كہ حامى اور مروّج بن چكى تھى اسى زمانہ ميں اسلامى اور ايرانى تہذيب و تمدن چين كى طرف منتقل ہوا اوراد ہر سے چينى علوم بھى سرزميں ايران ميں پھيل گئے بالخصوص چينى ماہرين فلكيات كا ايران ميں گر مجوشى سے استقبال ہوا اور انكے تجربات سے خوب فائدہ اٹھايا گيا _الغرض ہم كہہ سكتے ہيں كہ منگولوں كے حملہ نے مسلمانوں كى مادى اور معنوى زندگى كو بہت زيادہ حد تك ويران كرديايہاں تك كہ اس دور كا علمى زوال اور معاشرتى سطح پر فقر و نادانى تاريخ كے كسى دور سے قابل موازنہ نہيں ہے _ حقيقى بات يہى ہے كہ اگر وحشى منگول ايران اور تمام اسلامى ممالك پر حملہ آور نہ ہوتے اور يہ سب ضرر و نقصان نہ پہنچتا تو آج اسلامى ممالك بالخصوص ايران كے حالات كچھ اور طرح ہوتے_

3: سقوط اندلسبلاشبہ اسلامى تہذيب و تمدن كے تاريخى سفر ميں سقوط اندلس اور دنيا كے اس خطہ ميں مسلمانوں كى حكومت كا زوال ايك تلخ ترين واقعہ ہے_ اندلس كا وہ اسلامى معاشرہ كہ جو آٹھويں صدى سے پندرھويں صدى تك مسلسل علمى ، معمارى ، ثقافتى اور فنى شاہكار كو وجود ميں لاتا رہا آخر كيوں ضعف اور پس ماندگى كا شكار ہو كر تاريخ كا حصہ بن گيا اور دنيا كے سياسى نقشہ سے اس اسلامى تمدن كا وجود مٹ گيا ؟
اندلسمسلمانوں كى فتح سے پہلےجزيرہ ايبرے كے وہ حصے بحيرہ روم جو انہ كے ساتھ ساتھ اسپين كے جنوب اور پرتگال كے جنوب مشرق ميں موجود ہيں انہيں يا پورے جزيرہ ايبرے كو مسلمانوں نے اندلس كا نام ديا _ ‘ كلمہ اندلس’ جرمنوں كے ايك قبيلہ واندال كے نام سے ليا گيا تھا كہ جو پانچويں صدى كے آغاز ميں مغربى روم كى بادشاہت كے مختلف حصوں ميں بٹ جانے كے بعد اسپين كے جنوب ميں آباد ہوئے _ظہور اسلام سے قبل اندلس پرواندالوں اورويزگوٹوں نے حملہ كيا يہ قبائل پير نيز كى پہاڑيوں كو عبور كرنے
198كے بعد اندلس ميں داخل ہوئے كئي سالوں كى جنگ اور خونريزى كے بعد واندال قبيلہ مغرب پر جبكہ ويزيگوٹ قبيلہ اندلس پر قابض ہو گيا ويزيگوٹ لوگ آغاز ميں كيتھو لك نہ تھے جبكہ اندلس كے مقامى لوگوںكى اكثريت كيتھولك عيسائيوں پر مشمل تھى _ بہر حال 589 عيسوى ميں وہاں بڑى تبديلياں ہوئيں بادشاہ اور ويزيگوٹوں كے روساء مذہب كيتھولك ميں داخل ہوئے _آٹھويں صدى كے آغاز ميں ويزيگوٹوں كے طبقہ اشراف اوررومى لوگوں كے ثروت مند لوگ آپس ميں گھل مل گئے يوں ايك اميراور ثروت مند لوگوں كا طبقہ تشكيل پايا كہ جنہوں نے تمام تجارتى اور اجتماعى امتيازات خودحاصل كرليے اور باقى لوگوں كو اقتصادى حوالے سے اپنا محتاج بنا ديا جسكى بناء پر عام لوگ ان سے ناراض ہوئے _ ويزگوٹوں كى حكومت كى كمزورى كے اسباب كو چار اقسام ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے 1_ امراء كے طبقات ميں جانشينى كے معاملہ پر اختلافات 2_ معاشرے كے ديگر لوگوں كا امراء طبقہ كے امتيازات پر ناراضگى اختيار كرنا اور سپاہيوں كا غير قابل اعتماد ہونا 3_ عقائد كى جانچ پڑتال اور يہوديوں كا تعاقب اور انہيں گرفتار كركے اذيتيں دينا 4_ اقتصادى حوالے سے برے حالات (1)
مسلمانوں كے ہاتھوں اندلس كى فتحاس زمانہ ميں افريقا اور مغرب كا حاكم موسى بن نصير تھا جب وہ ويزيگوٹوں كى حكومت كے زوال سے مطلع ہوا اسے اندلس كى تسخير كا اشتياق ہوا تو اس نے اپنے غلام طارق بن زياد كو حكم ديا كہ سال 92 قمرى /711 عيسوى ميں تنگ دروں كو عبور كرتے ہوئے كہ جنہيں بعد ميں جبل الطارق كا نام ديا گيا ايك ہزار سپاہيوں كے ساتھ اسپين كى سرزمين پر اترے اور اس جگہ كو فتح كرے _ طارق بن زياد نے اسپين ميں داخل ہوتے ہيں ويزيگوٹوں كے بادشاہ كو شكست دى اور اسپين كے مركز تك پيش قدمى كى اور اس نے ايك سال ميںہى اندلس كو جنوب سے شمال تك فتح كر ليا دوسرى طرف سے موسى بن نصير نے 93 رمضان ميں ايك عظيم سپاہ كے—————————1) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج 10 ، ص 323 ، ذيل ، انڈلس_199ساتھ جبل الطارق سے گزتے ہوئے اندلس كے اہم شہروں كو فتح كيا اور طارق سے جاملا _البتہ بعض مورخين كا خيال ہے كہ ابتداء ميں عرب لوگ انڈلس كى مكمل فتح اور وہاں رہنے كے موڈميں نہ تھے وہ محض كچھ مال غنيمت ليكر واپس افريقا جانے كے خيال ميں تھے ليكن طارق كى غير متوقع وسيع پيمانے پر كاميابى نے انكى سوچ بدل دي_(1)
اسلامى حكومت كے دور ميں اندلس كى سياسى تاريخمسلمانوں كى حكومت كے دوراں اندلس كى سياسى تاريخ مجموعى طور پرتيں ادوار ميں تقسيم ہوتى ہے_
الف) اندلس دمشق كى مركزى اموى حكومت كا ايك حصہ (132_98 قمرى / 755_716 )عيسوياس زمانہ ميں دمشق كى خلافت كى سرحدوں ميں اندلس افريقہ كى حكومت (آج كا تيونس)كا ايك حصہ شمار ہوتا تھا انڈلس كے حاكموں كا تقرر افريقہ كے والى كرتے تھے جو قيروان ميں سكونت پذير تھے_ ان سالوں ميں تقريبا بيس افراد اندلس كے حاكم ہوئے كہ ان ميں صرف دو شخص پانچ يا پانچ سے زيادہ سالوں تك حكومت كر سكے اسى زمانہ ميں اندلس كے حكمران مزيد اسلامى فتوحات كے پروگرام ميں رہا كرتے تھے_
ب) اندلس پر اموى حاكموں كا جداگانہ سلسلہ (422_ 138 قمري) / (1031 _ 755عيسوي)اموى حكام نے تين صديوں تك اندلس پر حكومت كى اس سلسلہ ميں سولہ بادشاہ گذرے سب سے پہلے بادشاہ كا نام عبدالرحمن بن معاويہ بن ہشام تھا( 172_138 قمرى /788_ 755عيسوي)اور اس سلسلہ كے آخرى بادشاہ كا نام حسان بن محمد تھا (422_ 418قمري/1031_1527 عيسوي) اموى حكومت كے دوران——————–1) حسين مونس ، سپيدہ دم انڈلس ، ترجمہ حميد رضا شيخى ، مشہد ، آستان قدس رضوى ، ص 36_25_200اندلس كى شمالى سر حديں كئي بار تبديل ہوئيں جزيرہ ايبرے كے شمال ميں اسلامى حكومت كى حدود بالخصوص شمالى سر حديں كئي بار تبديلى ہوتى رہيں اندلس پر عظمت اور نعمات كى فراوانى كا دور تھا ليكن آہستہ آہستہ اموى حكومتى خاندان ميں اندرونى اختلافات اور ان اختلافات كاعواى سطح تك پھيل جانے سے اندلس كى تاريخ ميں ايك غمگين دور شروع ہوا ور اس خطہ كا عروج ، ثروت اور ترقى اندرونى جنگوں كى نذر ہوگئي_
ج) اندلس ميں جاگير دارانہ دور 898_ 422 قمري/ 1492_1031عيسويامويوں كے زوال كے بعد سرزمين اندلس كا شيرازہ بكھر گيا _ بنى حمود وادى الكبير كے اكثر شہروں اور تقريبا دريائے شنيل تك كے علاقے پر حكومت كرنے لگے اسى زمانہ ميں عرب كے متعدد خاندان اور جاگير داروں كے متعدد سلسلوں نے مختلف شہروں كو اپنے قبضہ ميں لے ليا 478 قمري/1085 ميں طليطلہ كے سقوط كے بعد مرابطوں نے تقريبا آدھى صدى تك اندلس پرحكومت كى اس حكومت كى حدود ميں نہ صرف يہ كہ مكمل مراكش اور موريطانيہ تھا بلكہ جنوب ميں دريائے اور رسٹگال تك اور شمال ميں مراكش كے مغربى حصہ تك انكى حكومت تھى اندلس ميں مرابطوں كى حكومت زيادہ عرصہ تك نہ چل سكى بلكہ بربروں كے موحدون نامى ايك اور گروہ نے 541 قمرى /1145 عيسوى ميں مرابطوں كے بربرى سلسلہ كو ختم كرديا_ مرابطوں كے زوال كے حوالے سے مختلف اسباب ميں سے ايك يہ تھا كہ اس سلسلہ كے رؤساء ، افسر لوگ اور ديگر بلند پايہ حكام زرق و برق تہذيب اور اخلاقى بدعمليوں ميں غرق ہو چكے تھے_(1)موحدوں كے زمانہ ميں اندلس عيسائيوں كے پے درپے حملوں كى زدميں تھا اندلس كے مشرق و مغرب كے علاقے ايك ايك كركے عيسائيوں كے ہاتھوں ميں آگئے يہانتك كہ ساتويں صدى كے وسط ميں اندلس كے شمال ، مغرب اور مشرق كے تمام اسلامى شہروں پر عيسائيوں كا قبضہ ہو گيا اور اندلس كى اس عظيم مملكت ميں صرف جنوبى شہر عزناطہ اور چند چھوٹے شہر مسلمانوں كے پاس رہ گئے موحدوں كى حكومت كے آخرى ايام ميں——————————-1)محمد ابراہيم آيتى ، انڈلس يا تاريخ حكومت مسلمين در اروپا ، انتشارات دانشگاہ تہران_201انكے مخالف محمد بن يوسف نصرى كہ جو ابن احمد كے نام سے معروف تھا اس نے سال 635 قمري/ 1238 عيسوى ميں غرناطہ كے عليحدہ ہونے كا اعلان كيا عيسائي اندلس كے بڑے شہروں پر قبضہ كے بعد كئي بار ابن احمد كى مملكت پر حملہ آور ہوئے ليكن غرناطہ كے سپاہيوں نے سختى كے ساتھ انكے حملے كو پسپا كرديا بنى احمد با بنى نصر نے ڈھائي صديوں سے زيادہ مدت تك اندلس كے جنوب پر حكومت كى بالاخر 898قمري/ 1492 عيسوى ميں اسلامى شہر غرناطہ فرنانڈو پنجم كے ہاتھوں سقوط كر گيا اور بنى نصر كے اخرى امير ابو عبداللہ كے فرار كے ساتھ اندلس مكمل طور پر مسلمانوں كے ہاتھوں سے نكل گيا_(1)
اندلس كے علمى اور ثقافتى حالات كا جائزہانڈلس اپنى جغرافيائي حيثيت كى بنا پر ہميشہ سے عالم اسلام اور مغرب كا مركز توجہ رہاتھا با لفاظ ديگر دنيا كے اس خطہ نے مسلمان حكومت كى بركت سے چند صديوں تك مشرق و مغرب كے درميان رابطہ كے پل كا كردار ادا كيا _ علمى اور ثقافتى پہلوں سے كئي ميدانوں ميں واضح ترقى كى مثلاً اندلس ميں ديگر اسلامى ممالك كے اثرات كى بناء پر علوم قرآنى كے دائرہ ميں علوم حديث اور فقہ ( فقہ مالكي) نے وسعت اختيار كى _جہاں تك تجرباتى علوم كا تعلق ہے اندرونى اختلافات كى بناء پرحكم دوم كى حكومت(366،350قمري) كے زمانہ تك واضح ترقى نہ كر سكا البتہ اسكے زمانہ حكومت ميں علم كى مختلف اقسام ميںكافى ترقى ہوئي يہانتك كہ قرطبہ كى لائبريرى ميں تقريباً چار لاكھ تك كتابوں كى تعداد موجود تھى _علم طب ميں اندلس نے بہت زيادہ ترقى كى اس سرزمين پر بہت سے حاذق اطبا ظاہر ہوئے _ فلسفہ ، كلام شعر اور ادبيات كے حوالے سے بھى اسلامى اور يورپى سرزمينوں كى سرحد پر واقع ہونے كى وجہ سے ثقافتى تبادلہ كے دروازہ كا كام ديتا رہا اور معروف و مشہور شخصيات كى پرورش كى _ ہنر و فنون كے اعتبار سے بھى اندلس—————————1) دايرة المعارف بزرگ اسلامى ج 1 ذيل اندلس (عنايت اللہ خاكى ناد)_202نے بہت ترقى كى اس دور كے بعض آثار ہنر و فن ہميشہ اسلامى تہذيب و تمدن كا فخر شمار ہوتے رہے مثلا معمارى كے حوالے سے مسجد قرطبہ ، شہر الزہرا اور مدينة الحمراء كى طرف اشارہ كيا جا سكتا ہے كہ ہر مقام اپنى جگہ پراس دور كے يورپ ميں اسلامى فن معمارى كا عجوبہ شمار ہوتا تھا_اس طرح ديگر فنون مثلاًخطاطى اور مٹى كے ظروف بنانے كے حوالے سے انتہائي اہميت كے حامل آثار وجود ميں لائے گئے جو آج بھى اندلس ميں اسلامى تمدن كے درخشان دور كى تصوير ہيں _(1)
عيسائيوں كے ہاتھوں اندلس كے سقوط كے اسباباندلس ميں مسلمانوں كے زوال پر مختلف نظريات پيش ہوئے ہيںكہ ان نظريات كو تين اقسام اندرونى اسباب ، بيرونى اسباب اور جيوپوليٹيكل اسباب ميںتقسيم كياجا سكتا ہے:
الف: اندلس ميں مسلمانوں كے زوال ميں موثر اندرونى اسبابجب بنى اميہ كے زمانہ ميںمسلمانوں نے اندلس كو فتح كيا اس زمانہ ميں اسلامى نظام ميں بہت سى بدعات اورانحرافات پيدا ہو چكے تھے كہ ان ميں چند مندرجہ ذيل ہيں:1_ وہ اسلامى حكومت كہ جو اہل سنت كے عقيدہ كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) كے بعد لوگوں كى خليفہ سے بيعت پر تشكيل پاتى ہے اب ايك خاندان كى وراثتى اور آمريت پر مبنى حكومت ميںتبديل ہوچكى تھى حاكم بجائے اسكے كہ الہى احكام كا اجراء كرتاصرف اپنى ذاتى خواہشات كى پيروى كرتا تھا _2_ مساوات جو كہ اسلامى نظام كا ايك اہم ركن شمار ہوتى تھى ختم ہو چكى تھى حالانكہ قرآن اور سنت پيغمبر (ص) نے فضول برترى كے امتيازات كو باطل قرار ديا تھا اور فضيلت كے معيار كو صرف تقوى اور پرہيزكارى قرار ديا تھا ليكن اموى عربى نسل كو سب سے برتر نسل شمار كرتے تھے اور قريش كو عرب ميںديگر قبائل پر برتر سمجھتے تھے_———————1) سابقہ حوالہ ص 326_2033_ حكومت كى درآمدت جوكہ لوگوں كے عمومى امور پر صرف ہونى چاہے تھيں حكومت كى آسايش اور عيش و عشرت پر خرج ہورہى تھيں جسكى وجہ سے عام لوگوں ميںحكومت سے ناپسنديدگى كے جذبات بڑھ رہے تھے_4_ لوگوں كو گرفتار كرنا، قيد كرنا،تشدد كرنااور قتل عام كرنا بنى اميہ كے حكام كے روزمرّہ كے معمول تھے وہ حكومتى سپاہيوں سے اپنے مخالفين كو تباہ و برباد كرنے كا كام ليتے تھے_5_ زندگى كے معمول ميں ، خوراك ، لباس گھر بار ميں … دنياوى عيش و عشرت سے وابستگى بنى اميہ كى حكومت ميں رواج پاگئي تھي_6_ شراب پينا ،عورتوں سے شعف ، گانے والى كنيزوں كى خريد و فروخت ، اور زمانہ جاہليت والے اشعار پڑھنا بنى اميہ كے زمانہ كے رواج تھے ،يہ غير اسلامى حركات اسلامى فاتحين كے ساتھ مفتوحہ علاقوںميں بھى سرايت كر گئيں_ان تمام اسباب كا مجموعہ بتاتا ہے كہ كسطرح بنى اميہ كى حكومت كے ذريعے مسلمانوں كا انحراف اندلس ميں بھى داخل ہو گيا _ اسلامى اقتدار كے ساتھ ساتھ خاندان بنى اميہ كے انحرافات اور بدعات اور بہت سى بلند پايہ اسلامى تعليمات كا مسنح ہونا ،ايك بڑا سبب تھا كہ جو اندلس كے مسلمانوں كو بتدريج كمزور كرنے كى بنيادى وجہ قرار پايا كہ جسكى بناء پر بيرونى اسباب اور دشمنان اسلام كو پيش قدمى كرنے كا كافى موقع ملا _(1)
ب: سقوط اندلس كے بيرونى اسباببہت سى جنگوں ميں مسلمانوں كى مسلسل كاميابى ، يورپ كے وسيع علاقہ كا فتح ہونا اور عيسائيوں كى صليبى جنگوں ميں ناكامى سے يورپ والوں كو سخت خفت كا سامنا كرنا پڑا ،انہوں نے مسلمانوں كو خاص طور پر اندلس سے پيچھے دھكيلنے كيلئے ايك طويل الميعاد منصوبہ بنايا اس پروگرام كے دو مرحلے تھے 1_ فوجى حملہ اور اسپين كى سرزمين واپس لينا 2_ ثقافتى يلغار————————1_ سيد محمد طہطاوى ، غروب آفتاب در انڈلس ، علل انحطاط حكومت مسلمانان در اسپانيا ،تہران ، دار الصادقين ، ص 17_16_2041_ فوجى حملات اور بتدريج اسپين كى سرزمين واپس لينا: اسپين كى سرزمين كو واپس لينا يا دوبارہ فتح كرنا پاپ اعظم كى طرف سے عيسائيوں كيلئے شرعى ذمہ دارى كے عنوان سے القاء ہوا انہوں نے ابتداء ميں كوشش كى كہ چھوٹے چھوٹے علاقوں كو محفوظ كرليں پھر انہيں وسيع كرنے كى كوششوں ميں مصروف ہوئے جن چيزوں نے عيسائيوں كى پيش قدمى ميں مدد كى ان ميں سے ايك عربوں كى بربروں سے جنگ تھى _اس زمانہ ميں ايك شخص ‘آلفونسوپڈرو ‘المعروف آلفونسوى اول ،گاليسيا كے علاقہ ميں حاكم تھا جو ايك تجركار ، فہميدہ اور فعال شخص تھا اس نے اس موقعہ سے بہت فائدہ اٹھايااور اسطرح اپنى مملكت كو وسعت دى كہ اسكے بعد مسلمان اسكى حكومت ختم نہ كرسكے اسى وجہ اسپينى لوگ آلفونسوى اوّل (757_ 739 عيسوي) كى حكومت كو عيسائي اسپين كى حقيقى ولادت قرار ديتے ہيں_ آلفونسوى نے شمالى اندلس كے عيسائيوں كومسلمانوں كے خلاف بغاوت پرابھارا اور كچھ عرصہ بعد يہ علاقے مسلمانوں كے ہاتھوں سے نكل گئے _ اندلس كى حفاظت كيلئے مسلمانوں كى آخرى اميد غرناطہ ميں بنى احمد يا بنى نصر كى حكومت كا ظہور تھا _سلسلہ بنى نصر كى طويل عرصے تك حكومت بحال رہنے كى دو وجوہات تھيں :ايك يہ كہ غرناطہ كى كوہستانى حيثيت اور دوسرا اسكا افريقا كے نزديك ہونا _ يعنى وہ خطرہ كى صورت ميں شمالى افريقا كے مسلمانوں سے مدد كى درخواست كر سكتے تھے_بہر حال اندرونى مشكلات اور باشكوہ عمارتوںكے بنانے ميں فضول نمود و نمايش اور اسراف سے كام لينے كى وجہ سے يہ حكومت مالى حوالے سے كمزور ہوگئي اسى طرح تخت و تاج پر قبضہ پانے كيلئے اندرونى اختلافات اور مختلف مفادات باعث بنے كہ فرنانڈودوم كے لشكر نے چند مراحل كے بعد مكمل طور پر غرناط كا محاصر ہ كر ليا _آخر كار مسلمان سمجھ گئے كہ اب اس شہر كا دفاع ممكن نہيں رہا اور انہوں نے ہتھيار ڈال ديے، بنى نصر كا آخرى سلطان اور اسپين كے آخرى مسلمان بادشاہ ابوعبداللہ كے وہاں سے الوداع كے بعد اس علاقے سے اسلامى پرچم ہميشہ كيلئے اتر گيا_(1)————————-1)سابقہ حوالہ ص 18_17_2052_ يورپى عيسائي اور سقوط اندلس كے لئے ثقافتى يلغار كے ذريعے ثقافتى سطح پر اسباب فراہم كرنا:اندلس كے مسلمانوں كے زوال ميں ايك اہم تريں سبب پروپيگنڈا يا دوسرے لفظوں ميں يورپى لوگوں كى اسلام كے خلاف ثقافتى يلغار تھى _ انہوں نے ايك طولانى مدت كے پروگرام كے تحت اسلامى معاشرہ ميں سستى ، لادينيت اور بے پروائي كے بيج بوديے اور مسلمانوں سے سخت انتقام ليا اندلس ميں مسلمانوں كى ابتدائي فتوحات كى ضربات اس قدر سخت تھيں كہ خود پاپ ميدان عمل ميں آگيا اور اس نے اندلس كے مسلمانوں كو تباہ كرنے كيلئے اپنا دينى اثر و رسوخ استعمال كيا اور اس حوالے سے مسلمان سرداروں اور حكام ميں اختلافات سے بھر پور فائدہ اٹھايا _ايك مسلمان عرب سردار كہ جس نے عيسائيوں كى بہت مدد كى براق بن عمار تھا اس نے عيسائي سرداروں اور كليسا كے عہديداروں كے ساتھ مختلف مباحث اور گفتگو ميں انہيں نصيحت كى كہ مسلمانوں سے براہ راست جنگ كرنے سے پرہيز كريں اور پيمان صلح باندھنے وقت كوشش كريں تا كہ مسلمان معاشرہ اندر سے كھوكھلا ہوجائے اس نے ان سے كہا كہ مسلمانوں كے ساتھ تين چيزوں ميں پيمان صلح باندھيں:دينى تبليغ ميں آزادي، مسلمانوں كو تعليم دينے ميں آزادى اور مسلمانوں كے ساتھ تجارت ميں آزادى _اسكى نظر كے مطابق پہلى دو چيزوںسے مسلمان لوگ بالخصوص نوجوان ،مسلمان استاد كے حوالے سے اپنى طبيعى احترام كى بنا پر ، يورپى اور عيسائي لوگوں كيلئے ايك طرح كى برترى اور احترام كے قائل ہوجائيں گے اور انہيں مقام كے حوالے سے اپنے سے قوى اور بلند سمھيں گے جسكے نتيجہ ميں مسلمان اپنے عقائد ميں سست اور لاپروا ہوجائيں گے جبكہ تيسرى چيز مسلمانوں ميں خوراك ، پوشاك اور حرام كھانے پينے والى چيزوں كے حوالے سے موثر ہوگى اور انہيں آہستہ آہستہ غير ذمہ دار اور لاپرواہ بنادے گي_اندلس كے مسلمان حاكموں نے اسى پيمان سے دھوكہ كھايا اور صلح پر راضى ہو گئے _ عيسائيوں كے ساتھ صلح كرنے كے بعد اندلس كے مسلمان اخلاق اور كردار كے حوالے سے فاسد اور تباہ ہوگئے _ عيسائي مبلغين اور
206راہبوں نے خوبصورت اور شاندار تفريح گاہيں بنائيںجن ميں وہ عيسائيت كى تبليغ كيا كرتے تھے مسلمانوں كى شخصيات اتوار والے دن ان تفريح گاہوں ميں جاتى تھيں تا كہ سير و تفريح كے علاوہ عيسائي جوان لڑكيوں كے حسن و جمال كا بھى نظارہ كريں _ اسى زمانہ ميں براق بن عمار كى نصيحت كے مطابق يورپ كى شراب اندلس ميںبہت زيادہ مقدار ميں آنے لگى تا كہ مسلمان جوان ديواليہ ہوں جس كا نتيجہ يہ نكلا كہ شراب خورى مسلمان جوانوں ميں رواج پاگئي _ جو بھى شراب سے انكار كرتا اسے قدامت پسند يا متعصب كا خطاب ملتا _اب مسلمان نوجوان اپنى دينى اور معاشرتى اقدار كى اہميت كے قائل نہ رہے مساجد صرف بوڑھے لوگوںكے ليے مخصوص ہوگئي جبكہ عشرت كدے اور عيش و شراب كے مراكز نوجوانوں سے بھر گئے جو عيسائي لڑكيوں سے لذت لينے كيلئے وہاں جمع ہوتے تھے_ عيش و عشرت اور تجملات پسندى اسقدر بڑھ گئي كہ ان خواہشات كى تكميل حلال كمائي سے ممكن نہ تھى لہذا اداروں ميں فساد ، رشوت اور لوٹ مار عام ہوگئي _ اشياء كى توليد كرنے والے طبقات مثلا كسان ، كاريگر اور صنعت كار لوگ عدم توجہ كا شكار ہوگئے اور ہر روز غريب ہونے كے ساتھ ساتھ موجودحالات سے ناراض بھى تھے _(1)اسكے بعد عيسائيوں نے بعض مسلمان سرداروں كى خيانت كے ذريعے شہر والانس پر قبضہ كر ليا اور اس شہر ميں فجيع جرائم كے مرتكب ہوئے، انہوں نے نہ صرف يہ كہ ہزاروں مسلمانوں كو قتل كيا بلكہ مسلمان خواتين كے ناموس كو ان كے شوہروں كى آنكھوں كے سامنے لوٹا_ انہوں نے اس شہر پر اتنى تيزى سے قبضہ كيا كہ ديگر شہروں كے حكام اپنى فوج كو تيار ہى نہ كرسكے_بہرحال اس طرح عيسائيوں نے اپنے مكارانہ ہتھكنڈوں سے اسلامى معاشرہ كو آلودہ كرتے ہوئے بتدريج اسپين كے ديگر شہروں پر بھى ايك ايك كركے قبضہ كرليا_—————————-1)سابقہ حوالہ ص22_8_207ج: اسلامى اندلس كے سقوط كے سياسى جغرافيائي geopolitical اسباب:اندلس ميں مسلمانوں كى فتوحات كے حوالے سے جغرافيائي سياسى gepolitical اہم نكتہ يہ ہے كہ جزيرہ ايبري(اندلس) مكمل طور پر فتح نہيں ہوا تھا اور مسلمانوں كے مكمل قبضہ ميں نہيں آيا تھا_ بالخصوص اندلس كا شمالمغربى بڑا علاقہ مسلمانوں كى دستبرد سے محفوظ رہا تھا_ اسى طرح اندلس كے ديگر حصوں ميں ايسے علاقے بھى رہے ہيں جہاں مسلمانوں كا مؤثر قبضہ نہ تھا_ اگرچہ اسپين مكمل طور پر عيسائيوں كے ہاتھوں سے نكل چكا تھا _ مگر عيسائيوں نے اسپين كے شمالى سواحل اور خليج بيسكے(Biscay) كے قريب پٹى اپنے لئے محفوظ ركھى ہوئي تھى تاكہ كسى دور ميں مسلمانوں كے اندرونى اختلافات اور لا ابالى سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسى جگہ سے جنوبى علاقوں پربتدريج قدم بڑھائيں اور آہستہ آہستہ اسپين كو دوبارہ عيسائيت كے دامن ميں لوٹا ديں _ (1)
نتيجہ بحثعالم اسلام كى اندرونى تبديليوںكا تجزيہ كريں تو معلوم ہوگا مادى اور غير مادى قدرت و طاقت كے حوالے سے مسلمانوں كا زوال صديوں پہلے شروع ہوچكا تھا _ نظام خلافت ميں ضعف ، منگولوں كے حملے اور ان كے كبھى نہ بھرنے والے گھائو مسلمانوں كے زوال كى سرعت كا باعث بنے، اسى زمانے ميں اہل يورپ عالم اسلام سے تجارت اور صليبى جنگوں كے ذريعے پيدا ہونے والے نزديكى تعلقات كى بدولت اپنى ثقافتى اور علمى تحريك و بيدارى كا آغاز كرچكے تھے _قابل توجہ بات يہ ہے كہ يورپ كى فكرى اور ثقافتى سطح پر نشاط كا آغاز سال 1453 عيسوى يعنى قسطنطنيہ ميںمشرقى روم كى شكست سے ہوا (2) حالانكہ مسلمانوں كے زوال كا اہم ترين موڑكچھ عرصہ بعد يعنى 1492 عيسوى ميں اندلس كى آخرى اسلامى حكومت كى شكست پر رونما ہوا البتہ دو صديوں كے گزرنے كے بعد يہ تبديلى مكمل طور پر اور موثر انداز ميں اہل يورپ كے حق ميں انجام پذير ہوئي_———————–1)سابقہ حوالہ ص22_8_2) مونتگمرى وات، اسپانياى اسلامى ، ترجمہ محمد على طالقانى ، تہران ، بنگاہ ترجمہ ونشر كتاب ص 32 _ 10 _208ب:اندرونى اسباب1_ استبداد( آمريت)بشرى تہذيب و تمدن كى تاريخ كے ہر عصر ميںہم ايسے ادوار كا مشاہدہ كرتے ہيں كہ جنہيں ‘آمريت’ كے دور كے عنوان سے ذكر كيا جاتا ہے بعض محققين كى نظرميںآمريت فقط مشرقى سماج كے ساتھ مختص ہے جبكہ ديگر بعض كے رائے كے مطابق تمام بشرى معاشروں اور سماج ميں ايسے مظاہر رہے ہيں_ انپى نظر ميںہر ملك اپنى تاريخ كے بعض ادوار ميں آمر بادشاہوں كے شكنجہ ميں رہا ہے _اس گفتگو ميں ہمارے پيش نظر يہ ہے كہ اسلامى تہذيب و تمدن پر آمريت كے اثرات كا تجزيہ كريں اور يہ ديكھيں كہ كيسے اسلامى تہذيب وتمدن كے زوال كے اسباب ميں ايك سبب آمريت بتايا گيا ہے اور يہ كہ خود آمريت يعنى كيا ؟ كيسے پيدا ہوتى ہے ؟ وہ اسلامى معاشرے جو آمريت ميں گرفتار رہے ان كى كيا صفات ہيں ؟
آمريت يا استبداد (Dictatorship)كى تعريف:لغت ميں آمريت سے مراد’يكہ و تنہا’ اور ‘خود اپنے طور پر ہى كام كرنا ‘ اور ‘اپنى رائے كو مقدم كرنا’ ہے عرب دانشور عبدالرحمان كواكبى كے بقول : ‘لغت ميں آمريت سے مراد يہ ہے كہ ايك شخص ايسا كام جو مشورہ سے انجام دينا چاہيے فقط اپنى رائے سے انجام دے ‘، كواكبى كى رائے ميں سياسى لحاظ سے آمريت يعنى كسى ملت كے حقوق پر ايك فرد ياگروہ كا بغير كسى مواخذہ كے ڈر كے تسلط پيدا كرناہے _ (1)اس بناء پر آمريت اپنى رائے اور اپنى پسند كو فوقيت دينے پر مشتمل ايسا نظام ہے كہ جسميں ايك حكومت يا دقت سے ديكھيں تو ايك شخص جو حكومت ميں بعنوان حاكم ہے ،عوام و ملت كے سامنے كوئي عہد اور ذمہ داري——————————-1) عبدالرحمان كواكبى ، طبايع الاستبداد، ترجمہ عبدالحسنين قاجار، ترتيب و تدوين صادق سجادى تہران ، ص 16 _209محسوس نہيںكرتا _ يعنى ايسا نظام كہ جسميں حكومت لا قانونيت پر قائم ہے يعنى موجودہ قوانين اس وقت تك نافذ رہيں گے جب تك آمر انہيں اپنے مفاد ميں پائے گا ،اسى لئے آمرانہ نظام ميں قوانين ميں بہترى كيلئے ترميمات بے معنى اور خالى ہوتى ہيں _(1)
اسلامى ممالك ميں آمريت كا سرچشمہيہ كہ آمريت كا سبب و سرچشمہ كيا ہے مختلف نظريات پيش كئے گئے ہيں_ مشرقى اسلامى معاشروں كے اقتصادى پہلو كے تجزيہ و تحليل سے معلوم ہوتا ہے كہ آمريت كا تسلط ان ممالك ميں ميں اتفاقى نہ تھا ان لوگوں كے طريقہ پيداوار ، سماجى معاملات اور ان معاشروں سے بننے والے مختلف شعبہ جات اس كيلئے راہ ہموار كرتے تھے مثلاً ايرانى معاشرہ كے جائزے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس معاشرہ ميں لا محدود آمرانہ قوانين تين اسباب كى بناء پر وجود ميں آتے رہے :

1_ اقتصاد اور آبپاشى كا طريقہ كار:ايرانى كسانوں كى گذشتہ ادوار سے اب تك اہم مشكلات ميں سے ايك پانى اورآبپاشى كا مسئلہ تھا_ ايران كے بيشتر زرعى علاقے دنيا كے خشك علاقوں ميں سے شمار ہوتے ہيں اور يہى وجہ بہت عرصہ سے ہمارے ملك كے اقتصادى زوال كا سبب بنى ہوئي ہے (2)_ اسى موضوع كى بناء پر وقت كى طاقتور حكومتوں نے ايك طرف تو بند باندھے اور نہريں جارى كرتے ہوئے زرعى كاموں كو وسعت دى اورديہاتى لوگوں كى مدد كى تاكہ زراعت كى بھارى ذمہ دارى سے بہتر طريقے سے عہدہ براء ہو سكيں دوسرى طرف اس سہولت سے مكمل فايدہ اٹھايا اور اپنى حكومت اور تسلط كو مستحكم اور پائيدار كيا _—————————-1) محمد على كا توزيان، استبداد در دموكراسى ونہضت ملي، تہران ص 12_2) مرتضى راوندى _ تاريخ اجتماعى ايران _ تہران _ ج 2 ص 288 _2102 _ عمومى مالكيتجيسا كہ ذكر ہوچكا ہے كہ پانى كے مسئلہ كى بناء پر مركزى حكومت نے كسانوں كو اپنے تابع كرليا تھا زرعى زمين كى وسعت اور پھر اسكى سيرابى كے ليے پانى كے بہت بڑے منصوبے اور ان رزعى زمينوں كے استعمال كے ليے ان منصوبوں كو چلانا ناقابل اجتناب كام تھا_ اسى طرح آبپاشى كے مصنوعى طريقوں كى انتہائي ضرورت بڑے بڑے اداروں كى تشكيل اور ايك فرد كى مطلق حكومت كو بھى اپنے ہمراہ لے آتي_آمر حكمران سماج كى نمائندگى ميں ان تمام سرزمينوں كا فرضى مالك اور انكے چلانے كا عہدہ دار ہوتا تھا_ اسكے علاوہ حكومت آبپاشى كے وسيع قومى كے اداروں اور پانى كے تمام منابع كى بھى مالك شمار ہوتى تھى _ اسطرح سے ملك كا وسيع حصہ زمين اور پانى كى صورت ميں يعنى پيداوار كے حقيقى وسائل كى صورت ميں حكومت كى ملكيت تھے_ (1)

3_بيوركريسى (ديوان سالاري)عمومى مالكيت نے خصوصى حق ملكيت كو تباہ كرديا_ آفيسرز اور كاركنوں كى صور ت ميں حكام كا ايسا طبقہ ظاہر ہوا كہ جو حاكم مطلق كے ماتحت ان تمام زمينوں اور پانى كے ہر منصوبے كى نگرانى كرتا تھا اور انہيں اپنے زير اختيار ركھتا تھا_اسى شعبہ كے تحت ايك بہت بڑا ادارہ وجود ميں آيا كہ جو پورے ملك ميں پھيلا ہوا تھا _ اسطرح ايران كى تاريخ كے ايك مخصوص مرحلہ ميں زمين، آبيارى اور رفاہ عامہ كے امور كے حوالے سے بيوركريسى آگے بڑھتى چلى گئي اور اقتصادى و اجتماعى بنيادوں پر چھا گئي،اس طرح آمر حاكم تمام حكومتى شعبوں اور فوج ، مختصر يہ كہ بيوركريسى كا حاكم شمار ہوتا تھا اور اسكى طاقت مطلق اورلامحدود تھي_(2)————————–1)مصطفى وطن خواہ_ موانع تاريخى توسعہ نيافتگى درايران _ ص 9 _ 1382) سابقہ حوالہ ص 156_211البتہ يہاں واضح كرنا چاہئے كہ يہ آمر بادشاہ اپنے لامحدود اختيارات كى صحيح توجيہ كےلئے آئيڈيالوجى كى مدد ليتے تھے وہ اس تاريخى دور ميں اپنى طاقت كے الہى ہونے كا نظريہ پيش كرتے رہے كہ يہ ايك آسمانى مقدس حكم ہے كہ حكومت انكى نسل ميں منتقل ہوتى رہے اور يہ پرچار كرتے رہے كہ بادشاہ كى خدمت خدا كى خدمت ہے نيز بادشاہ كا حكم بھى خدا كا حكم ہے (1)_ يقينا اس كام سے انكا مقصود يہ تھا كہ عوام كے دلوں ميں بادشاہ كا مافوق الفطرت رعب و وحشت طارى رہے اور وہ كبھى بھى بادشاہ كے خلاف بغاوت كا خيال بھى ذہن ميں نہ لائيں بلكہ ہميشہ بادشاہ كے تابع اور فرمانبردار رہيں _

آمريت كے نتائججيسا كہ پہلے بھى كہا جا چكا ہے كہ ايك آمرانہ سماج ميں تمام مسائل ايك خاص فرد كى پسند اور سليقہ كى بناء پر تشكيل پاتے ہيں شايد كہا جاسكے كہ آمريت كا سب سے معمولى نقصان انفرادى حقوق كا ضائع ہونا ہے _ آمرانہ سماج ميں آمريت كى شكل مخروطى ہوتى ہے يعنى ايك درجہ كے كسى ايك عنصر يا عناصر كے لامحدود و حقوق نچلے درجے كے عناصر كے حقوق سے مطلق بے بہرہ ہونے كے ساتھ جڑے ہوتے ہيں ايك طرف سے حقوق سے كلى محرومى اور دوسرى طرف طاقت و قدرت كى يہ تركيب لوگوں كے اذہان كو تباہى كى طرف ليجاتى ہے اس غلط صورت حال كو برداشت كرنا بالخصوص آزاد ذہنوں كے لئے بہت مشكل ہے _كيونكہ كسى فرد كى فرديت اس وقت تشكيل پائے گى جب وہ ہميشہ حقوق سے بہرہ مند ہو جبكہ آمرانہ سماج ميں اكثر لوگوں كيلئے حقوق موجود ہى نہيںہوتے جب تك آمرانہ سماج بنياد سے ہى ختم نہ ہو حقوق ركھنے والا فرض كبھى بھى حقيقت نہيں پاسكتا اور اس صورت حال كا بالآخر نتيجہ حقوق سے مطلق محروميت ہے نہ كہ اكثريت كى طاقت كى قدر اور حفاظت اسى لئے ايسے معاشروں ميں فرديت وجود ميں نہيں آسكتى (2)_——————————–1)فرہنگ رجائي ، تحول انديشہ سياسى در شرق باستان، ص 88_2) احمد سيف ، پيش درآمدى بر استبداد سالارى در ايران _ ص 27_212لہذا جب آمريت پر مشتمل مختلف اسباب كے تحت بالفاظ ديگرجب تمام چيزيں ايك آمر حاكم كے ارادہ كے تحت وجود ميں آئيں تو ايسے معاشروں كے سماجى معاملات مثلاً اقتصادى ، معاشرتي، سياسى اور بطور كلى اس معاشرہ كى تہذيبى ترقى كى ہم كيسے توقع كرسكتے ہيں _ايك سماج كلچر و ثقافت كے حوالے سے اسى وقت ترقى كرسكتا ہے كہ جب ترقى كيلئے ضرورى شرائط اور ماحول ميسر ہو _ پس آمريت زدہ معاشروں كے حوالے سے يہ توقع نہيں كى جاسكتى كہ اس معاشرہ كى تہذيب و ثقافت ترقى كرے اور وسعت اختيار كرے يا اگر كسى مسئلہ ميں كوئي ترقى بھى ہوتى ہو تو اس كے ثمرات كى حفاظت ہوسكے _
اسلامى معاشروں ميں آمريتدين اسلام كے ظہور سے فكر بشريت ميں ايك عظيم انقلاب پيدا ہوا اس الہى دين كا مقصد انسانوں كو ان تمام قسم كى قيد و بند سے نجات دينا تھا جو طول تاريخ ميں اسكو جكڑے ہوئے تھيں_ اسلام حكومتى معاملات ميں فرد واحد كى رائے كو محور بنانے كا مخالف ہے بلكہ مشورہ كو حكومت كى بنياد قرار ديتا ہے _ رسول اكرم (ص) اكثر مسائل ميں اپنے اصحاب سے مشورہ كيا كرتے تھے اور آنحضرت (ص) كے بعد خلفاء راشدين بھى ايسا رويہ اپناتے تھے كہ لوگ اندرونى رغبت و رضا سے انكى اطاعت كيا كرتے تھے اگر كسى كيلئے كوئي سزا مقرر ہوتى تو وہ اطاعت كرتے اور تعميل كرتے تھے_ليكن جب بنى اميہ مقام اقتدار پر پہنچے تو بہت سے مسائل تبديل ہوگئے روادارى اور تحمل پر مبنى حكومت كا دور ختم ہوچكا تھا معاويہ كے والى اور حكام كو يہ خوف تھا كہ اگر لوگوں كو آزادى دى گئي تو وہ بغاوت برپا كريں گے لہذا تشدد كى پاليسى شروع ہوئي_ سب سے پہلے معاويہ كا ہى دور تھا كہ جب رسمى طور پر تشدد كا كام شروع ہوا وہ لوگ جو معاويہ كے مخالف سمجھے جاتے تھے اور انہيں گرفتار كركے سزائيں دى جاتى تھيں (1)_
213عباسى خلفاء كے ادوار بھى اسى طرح تھے بلكہ بعض تو اموى دور سے بھى بدتر تھے _ ان ادوار ميں خلفاء اپنے مخالفين كو قتل كرنے سے بھى نہ چوكتے تھے اس قسم كى سياست سے وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ لوگ متنفر ہونے لگے_آمريت و استبداد كوئي ايسا مظہر نہيں ہے كہ جسے ہم تاريخ كے كسى خاص دور ميں محدود كرديںبلكہ آج بھى بہت سى اقوام آمريت كا شكار ہيں ليكن بعض ادوار تاريخى ميں آمريت ايسى خاص شكل وصورت ميں سامنے آئي كہ مورخين اور دانشوروں كى توجہ كا مركز قرار پائي مثلاً عثمانى بادشاہت كا تجزيہ كريں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس بہت بڑى بادشاہت كے سقوط كا ايك اہم سبب عثمانى بادشاہوں كى آمريت اور عوام كى ناراضگى تھا_ اسى طرح ايران كى تاريخ كا تجزيہ و تحليل كريں بالخصوص مشروطيت كے دور كا مطالعہ كريں تو معلوم ہوتاہے كہ لوگوں كا قيام اور انقلاب مشروطيت مكمل طور پر ظلم اور آمريت كو ختم كرنے اور قانون پر مبنى عادل حكومت كى تشكيل كيلئے تھا_عصر حاضر ميں بھى مشرق وسطى كے تيل كى دولت سے مالا مال بہت سے ممالك آمرانہ نظام و حكومت كے حامل ہيں _ دانشوروں كے نظريہ كے مطابق ان ممالك كى حكومت كا ہم ستون تيل كى دولت سے تشكيل پانے والا اقتصاد اور دوسرا يہ كہ عمومى درآمدات سے بے نيازى ہے گويا كہ تيل نے انہيں عوام سے بے نياز كرديا ہے بہرحال آمريت كى كوئي بھى وجہ ہو اور كسى زمانہ ميں بھى ظاہر ہو يہى كہيں گے كہ يہ تہذيب و تمدن كے زوال كا اہم سبب ہے اوراسلامى تہذيب و تمدن بھى اسى قانون و قاعدہ سے مستثنى نہيں ہے اسلامى تہذيب كى تاريخ بتاتى ہے كہ جس قدر بادشاہوں كى آمريت و استبداد كم ہوا اسى قدر اسلامى تہذيب كى ترقى اور وسعت كيلئے اسباب و امكانات حاصل ہوئے _

2_ دنيا پرستى ،قدامت پسندى اور حقيقى اسلام سے دوري:آنحضرت (ص) اسلام كے پيغمبر ہونے كى حيثيت اپنى سيرت طيبہ اور روش زندگى كو ايسے سامنے لائے جو ہر—————————–1)_ جرجى زيدان ، تاريخ تمدن اسلام، ترجمہ على جواہر كلام، ص 724 _ 723_214قسم كے اسراف و نمود و نمايش سے دور تھي_ آپ كى غذا ، رہائشے اور لباس معاشرہ كے معمولى ترين افراد كى مانند سادہ اور چمك دمك سے دور تھا_ آپكى وفات عظمى كے بعد خلفاء راشدين كى سيرت بھى آپ (ص) سے مشابہت ركھتى تھى وہ بھى سعى كرتے تھے كہ اسلام حقيقى اور رسول اكرم (ص) كى سيرت طيبہ كى پيروى ميں مادى نمود و نمايش سے دور رہيں اور تمام مسلمانوں كيلئے نمونہ عمل كى حيثيت سے رہيں جبكہ اموى خلافت كے آغاز سے ہى دنيا پرستى اور تجملات مسلمانوں كے حقيقى اسلام سے دورى كا باعث بنے اسى طرح فكرو نظر اور روشن خيالى كى راہ ميں قدامت پسندى كى ركاوٹ بھى اسلامى تہذيب وتمدن كے زوال كا سبب قرار پائي_
الف: دنيا پرستيابن خلدون كا نظريہ تھا كہ حكومتيں انسانى زندگى كى مانند ايك عمر اور اسكے مختلف مراحل جيسے پيدائشے ، رشد و جوانى اور ضعف و بڑھاپا ركھتى ہيں _ انكے خيال كے مطابق حكومتيں پيدائشے سے زوال تك پانچ مراحل سے گزرتى ہيں :پہلا مرحلہ كہ جسكا نام كاميابى كا مرحلہ ہے فرد حاكم قوم كے اندرونى روابط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار حاصل كرتا ہے يہ قومى روابط ايك طرح سے مختلف امور اور فيصلوں كو اسكى ذات ميں منحصر ہونے سے مانع ہوتے ہيں _دوسرے مرحلہ ميں وہ كوشش كرتا ہے اپنى حاكميت كو مستحكم كرتے ہوئے اقتدار كو اپنى ذات ميں منحصر كرلے_تيسرے مرحلہ ميں اپنے اقتدار پر بھروسہ ركھتے ہوئے آسودگى اور آسايش كى نعمات سے بہرہ مند ہوتا ہے _ دوسرے الفاظ ميں وہ طاقت واقتدار كے پھل چنتا ہے اس مرحلہ ميں نمود و نمائشے اور آسودگى كا اظہار ہوتا ہے وہ ديگر مشہور حكومتوں كى مانند بے پناہ رقم شہروں كو خوبصورت بنانے اورعوامى عمارات كى تعمير پر لگاتا ہے_ اسى طريقہ كار پر چلتے ہوئے اس كے ماتحت، حوارى اور حكومتى كارندے دونوں ہاتھوں سے مال و ثروت جمع كرتے ہيں اور پر تعيش زندگى اختيار كرتے ہيں پھر اقتصادى ترقى كا زمانہ آتا ہے حاكم طبقہ كى توجہ اور حوصلہ
215افزائي كى وجہ سے مصنوعات ، خوبصورت فنون اور علوم ترقى كرتے ہيں اسى دوران آرام وسہولت كا زمانہ آپہنچتا ہے اس زمانہ ميں انسان دنياوى لذتوں اور آسائشے سے بہرہ مند ہوتے ہيں يہاں حكومت كے ارتقا كا پہلا مرحلہ مكمل ہوجاتا ہے_چوتھے مرحلہ ميں حاكم طبقہ اور رعايا كى مسرتوں كا عروج كا دور ہے يہ لوگ پچھلى نسلوں كى مانند زندگى كى لذتوں سے فائدہ اٹھاتے ہيں ليكن اس امر سے غافل ہيں كہ پچھلى نسل نے ان لذتوں تك پہنچنے كيلئے كتنى جدو جہد كى تھيں وہ اسى خيال ميں رہتے ہيں كہ تعيش اور زرق وبرق سے بھرپور زندگى اور معاشرتى تہذيب كى ديگر سہوليات ہميشہ سے موجود تھيں اور موجود رہيں گى _تجملات، آسائشے اور خواہشات نفسانى كو پور اكرنا گويا انكے لئے ايك عام سى بات ہوجاتى ہے وہ اس دور ميں گذشتہ لوگوں كى محصولات اور ايجادات پر مكمل طور پر اكتفاء كيئے ہوئے ہوتے ہيں ايسے مصائب اور اسباب جو ممكن ہے كہ انكى كاميابيوں ميں خلل ڈال ديں ، ان كے مقابلے ميں كمزور پڑجا تے ہيں پانچوےں مرحلہ ميں حكومت زوال كى كى راہوں پر قدم ركھتى ہے اس دور ميں فضول خرچى اور اسراف كا آخرى مرحلہ شروع ہوتا ہے_ تن آساني، تجملات، جسمانى ضعف اور اخلاقى تباہى كا حملہ يا اندرونى اضمحلال يا دونوں اسباب كى بناء پر يہ حكومت تباہ ہوجاتى ہے _ (1)
سلسلہ بنى اميہ كا آغاز اورعيش و عشرت كى ابتدائاكثر اسلامى فتوحات بنى اميہ كے دور ميں مكمل ہوئيں يہ چيز ايك طرح سے حقيقى اسلام كى صورت بگاڑنے ميںاہم كردار ركھتى ہے كيونكہ اسلام ايسے خاندان اور ان كے وابستہ لوگوں كے ذريعہ ترويج ہورہا تھا كہ جو خود اسلام كے زيادہ معتقد نہ تھے_ بنى اميہ نے دين ميں مختلف بدعتيں ايجاد كيں اور ان بدعات كو دين كے نام سے پھيلايا _ انہوں نے اسلام كے زريں قانون مساوات كو پائوں تلے روندڈالا اور عرب كى عجم پر برترى كے نظريہ كا پروپيگنڈا كيا _—————————1) عبدالرحمان ابن خلدون ، مقدمہ ابن خلدون، ترجمہ محمد پروين گنابادى تہران_216اموى حكمرانوں نے اسلامى حكومت كى بہت سى درآمدات كو اپنى عيش وعشرت اور خوبصورت محلات بنانے پر صرف كيا اسى بناء پر عوامى طبقات ميں ناراضگى كى لہر دوڑى اور يہ چيز اموى حكمرانوں كے سلسلہ كو ختم كرنے كا باعث بني_ انكے بعد بنى عباس نے بھى اسى طرز عمل كو جارى ركھا اور انہيں بھى بنى اميہ كى مانند انجام كا سامنا كرنا پڑا_
خلفاء اورا مراء كى بے پناہ ثروت اور اسكے نتائجخليفہ اسلامى ممالك كى حكومت ميں مكمل اختيارات كا مالك تھا_ تمام درآمدات سب سے پہلے اس كے ہاتھوں ميں پہنچتى تھيں _ لہذا قدرتى طور پر وہ تمام لوگوں سے زيادہ مال و دولت كا مالك تھا_ خلفاء كے بعد علاقوں كے والى اور امراء بھى بے پناہ دولت كے مالك تھے_ كيونكہ وہ ماليات اور ٹيكس جمع كرتے تھے جتنا چاہتے تھے لوگوں سے چھين ليتے تھے _يہ ايك طبعى بات ہے كہ انسان جسقدر زيادہ ثروت و دولت كا مالك ہو تو اس كى زندگى كا معيار اتنا ہى وسيع اور بلند ہوتا ہے وہ خوراك، لباس اور نمود و نمايش ميں بہت زيادہ افراط كرتا ہے_ تعيش كى طرف رجحان نے عرب بدووں كو صحرا نشينى والى خصلتوں سے دور كركے يوں شہرى زندگى كى آسائشےوں كا عادى كرديا كہ وہ تعيش اور تفنن ميں روم اور ايران كے بادشاہوں سے بھى سبقت لے گئے _ سب سے پہلے حضرت عمر نے معاويہ كے فاخرہ لباس پر اعتراض كيا اور كہا اے معاويہ تم نے ايران كے بادشاہ كسرى كى مانند لباس پہنا ہے؟(1)_بنى اميہ كے خلفاء پھولوں كے نقش ونگار والا ريشمى لباس پسند كرتے تھے جيسا كہ ہشام بن عبدالملك كے نقش و نگار سے بھرے ہوئے بارہ ہزار ريشمى لباس مشہور ہيں_ اسطرح كے نمود و نمايش اور آسائشے پسندى نے مسلمانوں كو رام كرليا تھا اور يہ چيز مسلمانوں پر پڑنے والى مہلك ترين ضرب تھي(سقوط اندلس كا مطالعہ كريں) (2)———————–1)سابقہ حوالہ_2) زين العابدين قرباني، علل پيشرفت اسلام و انحطاط مسلمين _ تہران _ ص 89 _ 382 _217ب: قدامت پرستياسلامى تہذيب و تمدن كے زوال ميں ايك سبب قدامت پرستى ہے كہ اس سے پہلے كے ہم اسلامى تہذيب پر اس كے اثرات كا مطالعہ كريں سب سے پہلے اسكى دقيق تعريف و تشريح كريںگے _ قدامت پرستى كے مختلف معانى ہيں مثلاً توقف، تبديلى قبول نہ كرنا، جمود اور تہذيب اور حقيقى و بلند اقدار كا ترقى نہ كرنا ہے_قدامت پسندى فكر و نظر كے ميدانوں ميں وجود پاتى ہے اور اگر كردار و رجحانات سے ظاہرہو تو جمود كہلاتا ہے _ قرآنى مفاہيم ميں بھى (قدامت پسندي) كو معرفت و شناخت كيلئے مانع و ركاوٹ كے عنوان سے ذكر كيا گيا ہے ؟ (ثم قست قلوبكم من بعد ذلك فہى كالحجارة اور اشدّ قسوة …)(بقرہ 74)قرآنى نگاہ ميں يہ وہ لوگ ہيں كہ جنہوں نے فكر و تدبر سے دورى اختيار كرلى ہے اور ناقابل ہدايت ہوچكے ہيں پس قدامت پسندى حق كو قبول كرنے اور حقيقى كمال و سعادت تك پہنچنے ميں ركاوٹ ہے اسكے ساتھ ساتھ يہ دينى افكار كى ترقى ميں بھى مانع ہے _قدامت پسندى كے ہوتے ہوئے حقيقت، معرفت، حكمت، حكومت ، انتظام ، سياست اور معيشت كے ساتھ فكرى اور عملى طور پر پروان نہيں چڑھا جاسكتا _قدامت پرست لوگ اسلام سے فقط خشك و جمود يافتہ تعليمات ليتے ہيں كہ زمان و مكان كے تقاضوں كے مد مقابل كسى قسم كى لچك، تحقيق اور نمو سے خالى ہيں _ اور كبھى بھى اپنے اسلامى افكار و نظريات اور عمل ميں غلطى اور نظرثانى كے قائل نہيں بلكہ ہميشہ ٹھراؤ اور خواہ مخواہ كے توقف كے شكار ہيں _(1)ايك قدامت پرست انسان اپنى فكر و نظر كا ايك مضبوط جال اپنے ارد گرد تن ليتا ہے اور كبھى بھى اپنے افكار اور عقائد كو تبديل كرنے پر تيار نہيں ہوتا_ استاد مطہرى اس مسئلہ كے حوالے سے فرماتے ہيں كہ ‘اسلامى دنيا ميں كچھ فكرى تحريكيں سامنے آتى ہيں كہ انكا نام افراط يا جہالت ركھنا چاہئے ان تحريكيوں كے ذريعہ دينى امور اور بے جا دخل ميں افراط سے كام ليا گيا جبكہ ان كے مد مقابل كچھ ايسے فكرى رويے سامنے آئے كہ جو تفريط——————————1) محمد جواد رودگر، تحجر و تجدد از منظر استاد مطہرى كتاب نقد سال ہفتم شمارہ 2_3 ص 50_ 49_218اور جمود كے حامل تھے_ ليكن يہ سب گذشتہ دور ميں تھا مسلمانوں كو چاہيے كہ قرانى تعليمات پرعقيدہ ركھيں اور معتدل انداز سے فكرى حركت كرےں_ (1)استاد مطہري منحرف فكرى تحريكوں كا تجزيہ و تحليل كرتے ہوئے تين ايسے كلى مكاتبكے بارے ميں بتاتے ہيں كہ جو شديد انداز سے جمود فكرى كا شكار تھے اور قدامت پرستى كى تبليغ و ترويج ميں اہم كردار ادا كرتے تھے :1)_وہ عناصركہ جنہوں نے سياسى مقاصد كى خاطر ‘حسبنا كتاب اللہ’ كا نظريہ پيش كيا _ اور فكرى انحراف پيدا كرنے كے ساتھ ساتھ اہلبيت رسول سے لوگوں كو دور كرنے ميں مؤثر كردار اداكيا_2)_ايك اورگروہ نے پہلى تحريك كے مدمقابل ‘حسبنا احاديثنا واخبارنا’ كا نعرہ بلند كيا اور قرآن كريم كو مہجور قرار دينے ميں اہم كردار ادا كيا اور لوگوں كو بنيادى اور زندگى بخش معارف و تعليمات سے دور كيا_3)_وہ عناصر كہ جنہوں نے تقدس كے رنگ ميں قرانى تعليمات كے ناقابل فہم و درك ہونے كا نظريہ پيش كيا اور ‘اين التراب ورب الارباب’ كا نعرہ بلند كيا جسكا نتيجہ فكرى تعطيل كى صورت ميں سامنے آيا اور يہ گروہ ‘معطلہ’ كہلايا _(2)اگر ہم اسلام كے مختلف سماجى ادوار ميں اسلامى نظريہ اور فكرى وثقافتى تحريكوں كى تاريخ ميں تحقيق كريں تو يہ مشاہدہ كريں گے كہ ان مندرجہ بالا تين كلى تحريكوں كى بناء پر ‘اخباريت اور ظاہر پرستى ‘ اور انكے مد مقابل ‘باطنيت اور تاؤيل’ كى شكل ميں حنبليوں اور اسماعيليوں كے دو غلط فكرى نظام سامنے آتے ہيں كہ ان دو فكرى نظاموں اور اخباريت كى تحريك نے اسلامى تہذيب و تمدن كے پيكر پر شديد اور خطرناك ضربيں لگائيں كہ استاد مطہري كے بقول ‘اسلام نے اخباريوں اور حديث مسلك لوگوںكے ہاتھوں جو ضرب كھائي وہ كسى اور تحريك سے نہيں كھائي تھي’_ (3)——————————1) مجموعہ آثار ج 21 ص 129 _ 128_2) سابقہ حوالہ ج 6 ص 900 _ 878 _3) رودگر، سابقہ حوالہ ص 53_ 219ج ) اسلامى دنيا ميں عقل اور عقل دشمن تحريكيںبہرحال تمام تہذيبوں بالخصوص اسلامى تہذيب و تمدن كا عروج و زوال مختلف فكرى تحريكوں كا مديون منت ہے_ بعض اہل فكر وتحقيق اسلامى افكار و ثقافت كے زوال كا سبب متوكل عباسى (247_ 232 قمري) كا دور خلافت سمجھتے ہيں اس خليفہ سے پہلے كے خلفاء مكتب معتزلى يعنى عقل گرائي كى طرف رجحان ركھتے تھے اور اہل نظر ، حكماء ، فلاسفہ اور دانشوروں كے حامى سمجھے جاتے تھے ليكن يہ خليفہ مكتب اہل حديث سے وابستہ ہوا ، عقائد معتزلہ كى مخالفت كى اور عقائد وافكار ميں جدل و مناظرہ كو ممنوع كيا_ يہاں تك كہ كوئي بھى علمى مباحث اور مناظرہ كا اہتمام كرتا اسے سزا ديتا تھا_ان اقدامات كا يہ نتيجہ نكلا كہ احمد بن حنبل كے پرچم تلے اہل حديث كے گروہ نے ترقى كى جو فقط سنت و حديث كى تقليد كرتے تھے اور جو كچھ نقل ہوا صرف اسى كے سامنے سر تسليم خم كرتے تھے اور اپنے مخالفين يعنى اہل عقل و نظر بالخصوص معتزلہ پر كفر كا الزام لگاتے تھے _ يہ تحريك امام محمد غزالى كے ظہور اور انكى مشہور كتاب ‘احياء علوم الدين’ كے سامنے آنے سے شديد تر ہوگئي_ صرف تعقل كو ممنوع كرنے اور معتزلہ كو كافر قرار دينے پر اكتفاء نہ كيا گيا بلكہ شيعہ اثنى عشرى جيسے مكاتب پر بھى كفر، رافضيت اور باطنيت كى تہمت لگائي گئي_اسلامى تفكر ميں جمود پيدا كرنے والے ان اسباب كے ساتھ ساتھ قرن ششم وہفتم ميں تصوف كى وسيع پيمانے پر ترويج كو بھى شامل كياجاسكتا ہے _ بعض محققين كى نظر كے مطابق يہ تصوف علوم عقلى مثلاً فلسفہ اور استدلال كے مدمقابل بہت بڑى مصيبت شمار ہوتا ہے كيونكہ اہل تصوف شريعت اور عقل كے پيروكاروں كے مد مقابل كشف و شہود كو حقائق كے درك كا وسيلہ پيش كرتے تھے، حقيقت تك پہنچنے كيلئے عقل و استدلال كو ناكافى سمجھتے تھے اور كبھى تو عقل كو اللہ تعالى كى معرفت و شناخت كيلئے حجاب كا عنوان ديتے تھے_مجموعى طور پر مندرجہ بالا اسباب كو اسلامى تفكر و نظريہ كى ترقى ميں اہم موانع سمجھا جاسكتا ہے جب بھى فكر و استدلال كے راستے بند كيے جائيں تو خودبخود قدامت پرستى اور جمود پروان چڑھيں گے اخر ميں ہم اسلامى نظريہ كى تاريخ كا تجزيہ كرتے ہوئے جمود اور قدامت پرستى كوفكر و استدلال ميں توقف سے تعبير كرسكتے ہيں _
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.