قانون کے سلسلہ میں نظریات میں فرق
غیبت امام (ء) کے زمانے میں ان کو معین کرنے کا اختیار ان افراد کو دیا گیا ھے کہ جو دینی معلومات، پرھیزگاری اور عدالت اور معاشرہ کی مصلحتوں سے آگاھی کے اعتبار سے امام معصوم علیہ السلام سے بھت قریب ھوتے ھیں- اور نفاذ قانون کے سلسلے میں بھی ھم نے یہ عرض کیا کہ خود خداوندعالم اس کے نفاذ کا ذمہ دارنھیں ھے بلکہ یہ کام اس شخص کے ذریعہ انجام پانا چاھئے جو نفاذ قانون کا ذمہ دار ھو، اور وہ پھلے مرتبہ میں خود پیغمبر اسلام پھر ائمہ معصومین علیھم السلام اورپھر وہ افراد ھیں جو پیغمبر یا امام علیہ السلام کی جانب سے خاص یا عام طور پر معین کئے گئے ھوں-جیسا کہ ھم نے اس سے پھلے جلسہ میں عرض کیا کہ مذکورہ نظریہ کی بنیاد ایک طرح کے بنائے ھوئے اصول پر ھے کہ جس میں سے پھلی اصل یہ ھے کہ معاشرہ کو قانون کی ضرورت ھے، اور دوسری اصل یہ ھے کہ قانون کو خدا کی جانب سے ھونا چاھئے، ان دو مرحلوں کے بعد نفاذ قانون کے مرحلوں کو بیان کیا جاتا ھے، جو حضرات ان اصولوں کے قائل ھیں مثلاً مسلمان ھیں یا اسلام کے اصولوں کے معتقد ھیں ان سب کے لئے بحث میں داخلی نظم کا لحاظ کرتے ھوئے اس نظریہ کا ثابت کرنا کوئی مشکل کام نھیں ھے، لیکن جو افراد اسلام کے اصولوں کے معتقد نھیں ھیں یا جو ان مسائل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاھتے ھیں تاکہ دشمنوں کے اعتراضات کا جواب دے سکیں ان کے لئے ھر ایک اصول کو بھت تفصیل سے بیان ھونا ضروری ھے-
2-دور حاضر میں قانون سے بحث کرنے کی ضرورتاس دور میں سیاسی مسائل کے بارے میں مختلف طرح کے نظریات ھمارے سامنے ھیں ،لھٰذا حکومت وسیاست کی فکری بحثوں کے بارے میں اسلام کی روسے زیادہ توجہ ھونا چاھئے تاکہ ھم مخالف نظریوں کے مقابلہ میںاسلامی نظریہ کو مستحکم ویقینی شکل میں پیش کرسکیں، خاص طور سے اس بات کا لحاظ کریں کہ عالمی استعمار اسلامی حکومت کے نظریہ کو پامال کرنے کی مسلسل کوشش کررھا ھے، اس وقت ھم انقلابی دو رمیں اور ایسے زمانے میں زندگی بسر کررھے ھیں کہ نظام ِ حکومت کو ثابت کیا جاچکا ھے، اور اسلام کے نظریات کو پیش کرنے کے لئے علمی اور منطقی وسائل سے فائدہ اٹھانا چاھئے-اور اس بات کے پیش نظرکہ ملک کے راھنماؤں کی طرف سے قانون مندی اور نفاذِ قانون کا نعرہ لگایا جاتا ھے ، لھٰذا عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ قانون کے مسئلہ کے اصول، حدوداور اھمیت پر توجہ رکھنی چاھئےے،او ر اس بات سے آگاہ ھوں کہ ھم کیوں؟ اور کس حد تک قانون کی پیروی کریں؟ یہ وہ اسباب ھیں جو اس زمانہ میں،اسلام کے سیاسی اور حکومتی مسائل کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت کو دوگناہ کردیتے ھیں، لھٰذ ھمیں ایک حد تک ان تمام بحثوں کو علمی اور تحقیقی شکل میں پیش کرنا چاھئے-
3-قوانین کے حدود کو معین کرنے میں دو مختلف نظریےآج کا انسانی معاشرہ مختلف طرح کے بے شمار وقوانین سے دوچار ھے، اور اگر ھم ان کتابوں پر نظر ڈالیں جو پچاس ساس قبل ھمارے لئے لکھی گئی ھیں تو ھم یہ سمجہ جائیں گے کہ ان کتابوں کی زخامت میں اضافہ تقریباً قاعدہ عددی کی ارتقائی شکل میں ھے اور جو قوانین اس زمانے میں پائے جاتے تھے ان کی تعداد آج کے قوانین کی تعداد کی نسبت بھت کم ھیں، پھر خاص طور سے آج کل کے شعبہ جات، آئین ناموں، دفتری اور قوانین منتظمہ کی تعدا میں روز بروز اضافہ ھورھا ھے، اور معاشرے کو نئے قوانین کی ضرورت کا زیادہ سے زیادہ احساس ھورھا ھے، اور ذمہ دار حضرات بھی ان قوانین کے بنانے اورنافذکرنے میں اپنی پوری کوشش ومحنت لگادے رھے ھیں-یھاں پر سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا قانون کی تعداد میں اضافہ کرنا معاشرہ کے لئے ضروری ھے؟ یہ سوال پھلی نظر میں سادہ اور عمومی معلوم ھوتا اھے اور کوئی خاص سوال معلوم نھیں پڑتا اس لئے کہ یہ بات واضح ھے کہ معاشرہ کو ھر روز جدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رھا ھے، اور یہ معاشرہ جدید قوانین کا بھت زیادہ نیاز مند ھے جو کہ بنائے اورنافذ کئے جانے چاھئےے،، لیکن دنیا کے علمی حلقہ میں یہ سوال اھمیت کے ساتھ ذکرھوتا ھے کہ کیا سماجی قوانین کے بنانے میں صرف ضروری اور کم سے کم پر اکتفاء کی جائے یا معاشرے کے قوانین جامع اور ھمہ گیر ھوں اور عوام کی زندگی کے تمام امور کو شامل ھوں؟ یہ مسئلہ فلسفہ سیاست اورفلسفہ حقوق کے عملی حلقوں میں اعلیٰ پیمانہ پرمورد بحث واقع ھوتا ھے، اور اس سلسلہ میں دو مختلف اور متضاد نظریہ پائے جاتے ھیں-ایک گروہ کا اعتقاد یہ ھے کہ عوام الناس کو اپنے امور اور سرگرمیوں میں آزاد ھونا چاھئے اور محکمہ ٴ قانون سازی کو چاھئے کہ کم سے کم قانون بنائے اور ضرورت سے زیادہ عوام الناس کی فعالیت اور امور کو محدود نہ کرے، یہ وھی خودمختاری اور آزاد خیالی نظریہ ھے اور اس کا حقیقی مطلب یہ ھے کہ معاشرہ کا ھر فرد جس طرح بھی چاھے اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے میں آزاد ھو، اور صرف پیش آنے والی ضرورتوں کے وقت کے لئے قانون بنائے، تاکہ لوگوں کی کارکردگی ضرورت کے تحت محدود ھو ، نہ کہ اس سے زیادھ، اور قانون سازی محکمہ اور حکومت کو مسلسل عوام الناس کے امور اور طرزِ زندگی میں دخالت نھیں کرنا چاھئے اور قدم قدم کے لئے قانون نھیں بنانا چاھئے، مذکورہ نظریہ کے مقابلہ میں قانون کے سلسلہ میں تمامیت گرائی (ھر چیز قانونی) کا نظریہ پایا جاتا ھے کہ تمام چیزیں قانونی ھونا چاھئے اور انسان کے تمام امورخواہ وہ سماجی ھوں یا سیاسی اور اقتصادی یا دوسرے امور ،یہ سب کے سب دقیق اور معین قوانین کے تحت ھونے چاھئے، اور حکومت کو بھی ان قوانین کو ھر ممکن طریقہ سے نافذ کرنا چاھئے-تو معلوم یہ ھوا کہ مذکورہ سوال سادہ اور عوامی نھیں ھے بلکہ ایسا سوال ھے جو قانون کے حدود کے بارے میں دقیق اور مستحکم ھے اور وہ یہ کہ قانون گذاری کا محکمہ کس طرح کے قوانین اور کتنے قوانین او رعوام الناس کی زندگی کے کن حدود تک اثر انداز بنے؟
4-جمھوری حکومت میں قانون کی ضرورتبنیادی طور پر یہ سوال قوانین کے حدود سے کے بارے میں ھوتا ھے جو کہ قانون سازی کے فلسفہ کے سلسلہ میں مختلف طرح کے نظریات پائے جاتے ھیں کہ جن میں قانون گذاری او ران کے معیار کے بارے میں نظریات بیان کئے جاتے ھیں-اس سلسلہ میں پائے جانے والے نظریات کے درمیان کہ کس کو قانون گذاری کا حق ھے اور اس کے معیار کیا ھےں، ایک مشھور نظریہ ھے کہ جس کو آج کل کی دنیا میں قبول کیا گیاھے وہ یہ ھے کہ (صرف) وہ لوگ قانون بنانے کا حق رکھتے ھیں جو عوام الناس کی طرف سے منتخب ھوئے ھوں، لھٰذا در حقیقت قانون بنانے کا حق خود عوام الناس کو ھے اور وہ خود عوام الناس ھے جو اپنے لئے قوانین بناتی ھے جو نظام سیاسی اس نظریہ کی بناپر وجود میں آتا ھے اس کو “ڈیموکراسی”یا “جمھوریت” کھتے ھیں -جمھوریت کو قبول کرنے کے بعد اور اس بات کو قبول کرنے کے بعد کہ قانون سازی کا حق عوام الناس کے منتخب ممبران کی ذمہ داری ھے، یھاں پر یہ سوال ھوتا ھے کہ جو بھی اکثریت (یعنی 51 فی صد ) نمائندوں کے موافق ھو وہ قانون معتبر سمجھا جاتا ھے یا قانون سازی کے لئے دوسرے قوانین بھی ھونے چاھئے، اور پھلے سے ایسے قوانین بنائے جائیں جوقانون سازی کے میدان میں ممبران کے دائرہ عمل کو معین کریں، تو جواب یہ ھے کہ قانون ساز حضرات کے حدود اور حق کو قانون اساسی معین کرتا ھے یعنی قانون اساسی عام قوانین اور وضع شدہ قوانین پر حاکم اور نگراں ھوتا ھے اور قانون سازی کے حدود کے بارے میں فیصلہ کرتا ھے-یھاں ایک دوسرا سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ مختلف ممالک میں قانون اساسی مختلف ھوتے ھیں اور کم وبیش اس میں تبدیلی ھوتی رھتی ھے اور کبھی کبھی حکومت کے بدلنے سے قانون اساسی بدل جاتا ھے اور کبھی مجلس ادارات تشکیل پاتی ھے جو قانون اساسی کو مکمل اور اس کے نقائص کو دور کرتی ھے، بھرحال جو تبدیلیاں قانون اساسی میں انجام پاتی ھیں ان کے اعتبار سے کوئی ایسا محکمہ پایا جاتا ھے جو قانون اساسی سے بالاتر ھو اور جو قانون اساسی کے حدود کو معین کرے؟ تو اس کا جواب یہ ھے کہ قانون اساسی سے بالاتر محکمھٴ حقوق بشر ھے جس کو کبھی قوانینِ فطری اور حقوق طبیعی سے یاد کیا جاتا ھے کہ جو قانون اساسی پر حاکم ھوتا ھے اور اس کے حدود کو معین کرتا ھے اس لئے کہ مجلس ادارات ھر چیز کو اپنی مرضی کے مطابق قانون میں داخل نھیں کرسکتی-
5- حقوق بشر کے اعتبار کا معیاراب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ یہ قوانین جو قانون اساسی پر بھی حاکم ھوتا ھے اور قانو ن اساسی کے دائرہ کو محدود ومعین کرتا ھے اور اسکی بناپر قانون اساسی میں تبدیلی واقع ھوتی ھے اس کو کس نے بنایا ھے؟ اور انسانوں کے حقوق جو کہ حقوق بشر کے اشتھارات میں یا فلسفھٴ حقوق کی کتابوں میں ذکر ھوئے ھیں کس شخص کے ذریعہ معین ھوئے ھیں اور ان کے اعتبار کی وجہ کیا ھے؟ تو جواب ملتا ھے کہ بین الاقوامی عرف میں اس کا اعتبار ان لوگوں کی تائید سے ھوتا ھے جنھوں نے اس اشتھار پر دستخط کئے ھیں اور چونکہ اس اشتھار کو دنیا کی تمام حکومتوں کے دستخط (تائید) حاصل ھوتی ھے لھٰذا یہ معتبر ھوجاتے ھیں-دوسراسوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ جس نے اس اشتھار پر دستخط نھیں کئے ھیں ان کے لئے یہ قوانین قابل اعتبار ھیں یا نھیں؟ اور اگر اعتبار نھیں رکھتے تو کوئی یہ حق نھیں رکھتا ھے کہ ان کی مذمت کرے کہ جن لوگوں نے اس اشتھار پر دستخط نھیں کئے ھیں اور اس پر عمل نھیں کرتے ھیں ان کے بارے میں یہ کھا جائے کہ یہ حقوق بشر کا لحاظ نھیں کرتے ھیں-دوسرا جواب یہ ھے کہ حقوق بشر کے اشتھارات میں پیش کئے گئے قوانین اور حقوق وضعی قوانین نھیں ھیں کہ جو بنائے جانے کے بعد دوسروں کے دستخط کے ذریعہ قابلِ اعتبار بن جاتے ھیں بلکہ وہ ایسی حقیقی قوانین ھیں جن کو انسان کی عقل معلوم کرتی ھے اورچاھے عوام الناس قبول کرے یا نہ کرے ،وہ قوانین معتبر ھوتے ھیں، البتہ اس زمانے میں کچھ افراد اس طرح کا نظر رکھتے ھیں اور حقوق بشر کو حقیقی امور اور غیر عادی جانتے ھیں، قطعی طور پر زیادہ تر حقوق وسیاست کے فلاسفہ اس طرح کا نظریہ نھیں رکھتے بلکہ اس بات کے قائل ھیں ،کہ یہ قوانین کنوانسیون (Convention) ،اشتھارات اور اعلانات کا اعتبار حکومتوں کے ممبران کے دستخط سے ھوتا ھے اور چونکہ حکومتوں کے ممبروں نے اس پر دستخط کئے ھیں لھٰذا پوری دنیا میں اعتبار رکھتے ھیں-آخرکار ایک سوال اور اعتراض جو بڑی آب وتاب کے ساتھ ھوتا ھے وہ یہ ھے کہ کیا ضروری ھے کہ تمام حکومتیں ان قوانین کو قبول ھی کریں؟ اور جن لوگوں نے ان قوانین پر دستخط نھیں کئے ھیں ان پر کس طرح یہ قوانین نافذ ھوسکتے ھیں؟ بھرحال اس طرح کے سوال واعتراض کا سلسلہ ختم نھیں ھوگا، اور اس اعتبار سے فلسفھٴ حقوق میں یہ بحث ھوتی ھے کہ قوانین کے اعتبار کا ریشہ اور جڑ کھاں پر ختم ھوتی ھے؟ لیکن ھمارے پاس آسان اور سادہ ساجواب ھے اس لئے کہ ھم دین، اسلام، خدا اور قرآن پر اعتقاد رکھتے ھیں کیونکہ جب ھم یہ کھتے ھیں کہ قوانین حکم خدا کے مطابق ھونے چاھئے ،تو پھر یہ بات ختم ھوجاتی ھے اور کسی سوال کی گنجائش باقی نھیں رھتی-لیکن جو لوگ اس راہ کو نھیں طے کرتے اور چاھتے ھیں کہ تمام چیزوں کو قرارداد کے ذریعہ بیان کریں ،آخر میں وہ ایک جگہ پھنس جاتے ھیں چونکہ ھر قانون کے اعتبار کی اصل حقوقِ بشر کو سمجھتے ھیں کہ اس کے اعتبار کی دلیل کو بھی تلاش کرنا چاھئے اس کے علاوہ یہ سوال بھی پیدا ھوتا ھے حقوق بشرکا اشتھار تقریباً 3۰ بند پر کیوں تدوین ھوا ھے اور اس کے بند کیوں کم زیاد نھیں ھیں؟یہ وہ اھم سوال ھے جو دنیا کے حقوق کے ماھرین فلاسفہ قبول کرتے ھیں اور ابھی تک ان کی طرف سے کوئی اطمینان بخش جواب نھیں ملا ھے، جو چیز ذکر ھوئی ھے وہ دنیا کے ماھر اور برجستہ دانشوروں کی سطح پر مھارتی اور فنی بحثوں کے دائرہ میں بیان ھوتی ھے اور اگر ھمارا معاشرہ چاھے کہ اپنے عمومی تھذیب وثقافت کو ترقی دے تو اسے چاھئے کہ کم وبیش ان مطالب اور مفاھیم سے آشنا ھو، جس وقت ھم یہ کھتے ھیں کہ ھم قانون پر عمل کرتے ھیں اور قانون کے پیرو ھیں، تو ھم کو یہ جاننا چاھئے کہ قانونکا اعتبار کھاں سے ھے اورھمیں کیوں اور کس حد تک قانون کا پابند ھونا چاھئے؟آج کل بھت ساری بحثیں اس سلسلے میں تقریروں، مجلّوں ا ور اخباروں میں شایع ھوتی رھتی ھے ، اور ھمارا تعلیم یافتہ طبقہ خصوصاً دنیاوی علوم رکھنے والا طبقہ اور جو لوگ انسانی علوم کے تعلیم یافتہ ھیں اور خاص طور سے جو لوگ فلسفھٴ حقوق اور فلسفہ سیاست میں صاحب نظر ھیں ان سوالات سے سامنا کرتے ھیں، لھٰذا ھم اپنے سماج کی تھذیب وثقافت کو بلند کرنے کے لئے مجبور ھیں کہ اپنے ا مکان بھر ان تحقیقات کے نتیجہ کو آسان اور سلیس انداز میںبیان کریں، اس لئے کہ اگر ھم ان بحثوں کو دقیق انداز سے اور تفصیل کے ساتھ بیان کریں تو کم سے کم علوم انسانی کے چار قسموں میں یا فلسفہ کی چار قسموں کا سھارا لیں جو اس طرح ھیں: فلسفہ جامعہ شناسی، فلسفھٴ حقوق ، فلسفھٴ اخلاق اور فلسفھٴ سیاست،اور اگر ھم چاھیں کہ اس موضوع پر بحث کریں تو ھمیں دوسرے فلسفوں پر بھی بحث کرنا ھوگی ،یھاں تک کہ معرفت شناسی کہ جو ان تمام فلسفوں کی بنیاد اور اصل ھے اس کے بارے میں بھی بحث کریں، اور یہ بات واضح ھے کہ ان علوم کے نتائج اور ان بحثوں کے درمیان جو رابطہ پائے جاتے ھیں ان کی طرف اشارہ کرنا،تعلیم یافتہ طبقہ اور سمجہ دار عوام کے لئے جو کہ انقلاب اور اس کی تھذیب وثقافت کے دامن میں پلے ھیں،بھت مفید ھے-
6-حقیقی اور تکوینی قوانین اور انسان کے اختیارات کی اھمیتیھاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ھے کہ لفظ قانون کی دو مختلف اصطلاح ھیں،پھلی اصطلاح علوم تجربیات میں علوم دقیق اور حساب مشھور ھے اور قانون سے مراد اس علوم میں اشیاء کے درمیان واقعی رابطہ ھے مثال کے طور پر اشیاء کے درمیان حقیقی قوانین پائے جاتے ھیں کہ پانی کس وقت بخار میں تبدیل ھوتا ھے، اور کتنے درجھٴ حرارت پر پانی اُبلتا ھے او رکتنی سردی میں برف بن جاتا ھے، اور لوھا کب پگھلتا ھے؟لھٰذا اس طرح کی باتیں کہ جب پانی کی حرارت صفر درجہ پر پھونچ جاتی ھے تو پانی برف بن جاتا ھے اور جب سو درجہ پھونچ جاتی ھے تو پانی اُبلنے لگتا ھے ،یہ ایسی حقیقت ھے جو طبیعی اشیاء میں پائی جاتی ھے اور انسان کو کوشش کرنا چاھئے کہ ان حقیقتوں اور قوانین کو جو فیزیکس اور دوسرے سائنسی علوم میں موجود ھیں پھنچانے، ظاھر ھے کہ یہ قوانین پائیدار ھیں اور لامتناھی اور بے شمار ھیں،اورانسان کی علمی ترقی کے ساتھ بھت سارے قوانین معلوم ھونگے، اور ھر علم میں نئے معلومات کے ساتھ سیکڑوں سوال پیدا ھوں گے-لھٰذا اتنی تعداد میں نئے قانون بھی معلوم ھوں تاکہ ان سوالوں کے جوابات قرار پائیں، اس بنا پر ھر روز سوالوں میں اضافہ ھوتا ھے، اور بشر ان سوالوں کے حل کرنے کےلئے زیادہ سے زیادہ قانون معلوم کرنے میں لگا ھوا ھے، دوسرے لفظوں میں، ھم دنیا کے بے شمار قوانین کے مجموعہ کے حدود میں رھتے ھیں ، عناصر سے مربوط زندہ موجودات اور شیمیائی سے مربوط قوانین اور دوسری چیزیں ھیں جو ابھی تک ھماری عقل سمجھنے سے قاصر ھے-اب یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ اگر ھم اس دنیا میں بے شمار قوانین کے محدود وتنگ دائرہ میں رھتے ھیں تو پھر ھمارے انتخاب اور اختیار کی کیا اھمیت باقی رہ جاتی ھے؟ یہ سوال بھت زور وشور کے ساتھ اٹھتا ھے اور اس وجہ سے انسان شناسی کے فلسفہ میں یہ بات ذکر ھے کہ انسان کی حقیقت کیا ھے؟ کیا وہ سوفی صد مجبور ھے یا مکمل طور پرمختار ھے یا محدود اور مشروط اختیارات رکھتا ھے، اور اگر اس کے اختیارات محدود اور مشروط ھیں تو ان کی حدود کیا ھیں،اسی طرح دور حاضر میں دنیا کے فلسفی مجلسوں میں قضا وقدر ، جبر وتفویض اور اس طرح کے مسائل بڑی اھمیت کے ساتھ ذکر ھوتے ھیں، اور ان کے بارے میں حسب سابق بحث جاری ھے، ان کے درمیان میں ایک گروہ فلسفھٴ وجودی کا نظریہ رکھتا ھے جو اس بات کا معتقد ھے کہ انسان لامحدود آزادی رکھتا ھے اور اپنی مرضی کے مطابق ھر کام کرسکتا ھے-جیسا کہ” جان پل سارٹر” کھتا ھے کہ اگر میں ارادہ کرلوں تو جنگ ویٹنام کی جنگ تمام ھوجائے ! یعنی بشر ایسی طاقت کا مالک ھے کہ اگر ایک شخص ارادہ کرلے تو بھڑکتی ھوئی جنگ جس نے لاکھوں انسانوں کو نابود کردیا ھو روک دے، البتہ یہ بات تعجب خیز ھے، لیکن ایسا نظریہ اُس انسان کے لئے جو ارادہ ونامحدود قدرت کا قائل ھے پایا جاتا ھے-مذکورہ نظریہ کے مقابلہ میں ایک گروہ انسان کی آزادی کو خیال خام جانتا ھے اور معتقد ھے کہ انسان جبری قوانین کے دائرہ میں زندگی بسر کررھا ھے اور خیال کرتا ھے کہ آزاد ھے آخر کارمذھبی تفکر بھی موجود ھے جو ان دونوں نظریات کے درمیان واسطہ ھے اور انسان کے لئے آزادی کا قائل ھے جو مختلف طرح کے قوانین سے محدود ھے، جوکہ دنیا میں پائے جاتے ھیں یعنی اگر ھم ان قوانین کو جو اس کائنات میں موجود ھیں ان کے لئے دائرہ اور حدود تصور کریں ، تو انسانوں کی آزادی، اس کے حدود کے اندر قابلِ اجرا ھے نہ کا اس سے بڑہ کر-پس اب جب کہ یہ بات واضح وروشن ھوچکی ھے کہ ھم لوگ تکوینی لحاظ سے قوانین کے مجموعہ کے تحت واقع ھیں، تو یھاں پر یہ سوال ابھرتا ھے کہ کیا ھم ان قوانین کو توڑنے اور ان کی نافرمانی کرنے کی طاقت رکھتے ھیں ، اور کیا ھم طبیعت کو تسخیر کرسکتے ھیں اور اس کے حدود ودائرے کو توڑسکتے ھیں، اور اس طرح زندگی کریں کہ ھمارے اوپر طبیعی قوانین کی حکومت نہ ھو؟تو اس کا جواب یہ ھے کہ گذشتہ تصور ایک خیال خام ھے اور سوچا سمجھا نھیں ھے،کیونکہ طبیعت کا تسخیر کرنے کا ملازمہ یہ ھے کہ طبیعت کا کوکئی دوسرا قانون کشف ھو، مثلاً اگر ماھرین ڈاکٹر کسی بیماری پر کنٹرول کرلیتے ھیں یا اس بیماری کو بالکل ختم کردیتے ھیں، طبیعت کے دوسرے قانون کے کشف کرنے کی وجہ سے اور ان سب سے استفادہ کرتے ھوئے اس طرح کی کامیابی ملی ھے، درحقیقت ھم نے طبیعت کو تسخیر نھیں کیا ھے بلکہ اس سے ایک دوسرا قانون کشف کرکے اس سے کامیابی حاصل کی ھے- پس نتیجہ یہ نکلا کہ تکوینی قوانین کے دائرے سے نکلنا محال ھے، لیکن ھم نے جو نئے تکوینی قوانین کو کشف کرکے اس سے استفادہ کیا ھے یہ وھی قوانین الھٰی ھیں جن کو خداوندعالم نے طبیعت میں قرار دیا ھے، اور ان سے خارج ھونا گویا انسان کا خدا کی تکوینی عبادت سے خارج ھونا ھے- بلکہ جیسا کہ ھم نے عرض کیا ھے کہ انسان اپنی محدود دائرے میں رھکر تکوینی قوانین کے مجموعہ میں آمد ورفت کرسکتا ھے، اور مختلف علوم کے قوانین اور تکوینی قوانین جو انسان کے دائرہ اختیار میں ھیں ان سے استفادہ کرے اور ایک قانون کے مقابلہ میں دوسرے قانون سے استفادہ کرے، یعنی یہ محدود دائرہ انسانی اختیار کی حدود کو معین کرتا ھے-
7- الٰھی اور تشریعنی قوانین، انسان کے کمال اور سعادت کی ضامن ھےانسان جس قدر بھی انتخاب کی قدرت رکھتا ھے تو کیا جس طرح سے چاھے اس طرح انجام دے سکتا ھے، یا اس کے لئے کوئی ایک حد معین ھے؟ اور کیا اس حد میں بھی کچھ خاص قوانین ھیں کہ جن کو انجام دینا ضروری ھو؟ جواب یہ ھے کہ اس حد میں بھی قوانین معین ھیں البتہ یہ قوانین تکوینی قسم سے نھیں ھیں بلکہ یہ قوانین تشریعی اور اعتباری یا قوانین ارزشی ھیں کہ جن کو قدیم علماء کرام عقل عملی کے دائرہ میں بتا تے ھیں، (ان قوانین کے مقابلے میں کہ جن کا دائرہ عقل نظری ھے) یعنی ھر وہ چیز کہ جو انسان کے اختیار میں ھے اور عقل عملی اس میں فیصلہ دیتی ھے- بے شک تشریعی قوانین پر عمل کرنے سے انسان اپنے آخری مقصد اور کمال نھائی تک پھونچ جاتا ھے ، اور ان کی مخالفت کرنا انسان کو انسانیت کے گرادیتا ھے بلکہ جانور سے بھی بدتر بنادیتا ھے، قرآن مجید اس چیز کی طرف اشارہ کرتا ھے:(لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِیْ اٴَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ -ثُمَّ رَدَدْنَاہ اٴَسْفَلَ سَافِلیِْنَ- إلاّٰ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَھمْ اٴَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنَ-) (1)”ھم نے انسان کو بھت اچھے کینڈے کا پیدا کیا ھے پھر ھم نے اسے پست سے پست حالت کی طرف پھیر دیا مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے (اچھے) کام کرتے رھے ان کے لئے تو بے انتھا اجر وثواب ھے”جی ھاںانسان میں اتنی صلاحیت ھے اور وہ خدا داد صلاحیتوں کے ذریعہ خدا سے بھت قریب ھوسکتا ھے ، اور خدا کی نافرمانی کرکے انسانیت سے بھی پست تر بلکہ جانور اور حیوان سے بدتر بن سکتا ھے- لھٰذا قوانین تشریعی اور قوانین اعتباری یعنی خدا کی اطاعت یا خدا کی نافرمانی انسان کے اختیار میں ھے، اگر ان قوانین کو قبول کیاتو گویا انسان نے خدا کی اطاعت کی، اورانسان بلند درجات پر پھونچ جائے گا،اور اس کو چین وسکون اور روحی ومعنوی سلامتی مل جائے گی اور اگر اس نے خدا کے نافرمانی کی تو انسانیت سے گرجائے گا، آج کل کے بھداشت اور صفائی کے قوانین کے طرح، کہ اگر ھم نے ان کی رعایت کی تو ھم صحت وسلامتی کی نعمت سے مالا مال رھیں گے اور اگر ھم نے ان قوانین کی رعایت نہ کی تو بیماریوں میں مبتلا ھوجائیں گے-انسان کے مختار ھونے کے پیش نظر اگر انسان ڈاکٹری قوانین کی رعایت کرتا ھے یا نھیں کرتا ، اگر اپنی صحت وسلامتی کی فکر ھے اور چاھتا ھے کہ صحیح وسالم رھے تو اس کو ڈاکٹری دستورات کی پابندی کرنی ھوگی، او راگر اس کو صحت وسلامتی نھیں چاھئے تو پھر ان قوانین پر عمل کرنا کوئی ضروری نھیں ھے، لھٰذا حقیقت یہ ھے کہ انسان کی صحت وسلامتی کے لئے ڈاکٹری قوانین کی رعایت کرنا ھوگی اور بغیر اس کے صحت وسلامتی ممکن نھیں ھے، البتہ یہ باتیں کوئی زبردستی والی نھیں ھےں؛ کیونکہ ان قوانین کی رعایت کرنا یا نہ کرنا سب کچھ انسان کے اختیار میں ھے، اور اپنے اختیار سے ان قوانین کی رعایت کرکے صحیح وسالم رھتا ھے اور ان کی رعایت نہ کرکے بیمار پڑجاتا ھے اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ھے-اب تک جو کچھ جسم اور بدن کے بارے میں کھا گیا یہ سب کچھ انسان کی روح کے بارے میں بھی ھے، اور جس طرح انسان کا بدن بیمار ھوتا ھے اسی طرح انسان کی روح بھی بیمار ھوجاتی ھے، روح کی صحت وسلامتی بھی روح سے متعلق قوانین کی رعایت پر موقوف ھے کہ اگر انسان ان قوانین پر عمل کرتا ھے تو معنوی کمال اور سکون وسلامتی اس کو نصیب ھوتی ھے اور اس کے علاوہ انسان کی روح بیمار ھوجاتی ھے،خداوندعالم اس بارے میں ارشاد فرماتا ھے:(فِیْ قُلُوْبِھمْ مَرَضٌ فَزَادَھمُ اللّٰہ مَرَضاً…) ( 2)”ان کے دلوں میں مرض تھا ھی ، اب خدا نے ان کے مرض کو اور بڑھا دیا”وہ انسان جو کسی نشیب میں ھو او روھاں سے تیز دوڑنا چاھے اور اپنے کو کنٹرول نہ کرسکے اور گرپڑے اور اپنی جان کھوبیٹھے، لیکن اگر وہ خود کو صحیح وسالم چاھتا ھے تو اس کو احتیاط کے ساتھ دوڑنا ھوگا، اور اپنے کو اس طرح کنٹرول کرے کہ اگر کسی بلندی سے نیچے کی طرف آبھی رھا ھے اور کوئی خطرناک جگہ آگئی ھے تو وھاں پر رک جائے اور سنبھال کر قدم اٹھائے- معنوی مسائل میں بھی خاص روابط وضبوابط ھیں اور خداکے احکام پر پابندی کرنے سے روح کی سلامتی اور اخروی سعادت ابدی مل جاتی ھے ، اور یہ بات ظاھر ھے کہ ان قوانین پر عمل نہ کرنے سے اس سعادت پر نھیں پھونچ سکتا- البتہ انسان آزاد اور مختار ھے اور یہ کھہ سکتا ھے کہ میں سعادت اور کامیابی نھیں چاھتااور میں جھنم میں جانا چاھتا ھوں ؛تو کسی انسان بھی اس سے کوئی مطلب واسطہ نھیں رکھتا، اور تکوینی انتخاب کا راستہ اس کے لئے ھموار ھے- لیکن اگر خدا کا قرب اور اخروی سعادت چاھتا ھے تو پھر اس کو خدا کے حکم کی پیروی کرنی ھوگی، اور اپنی مرضی نھیں چلے گی، کیونکہ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے یا ھوائے نفس کی پیروی گمراھی اور حق وحقیقت سے منحرف ھونے کا سبب ھے:(اٴَفَرَاٴَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إلٰھہ وَاٴَضَلَّہ اللّٰہ عَلیٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہ وَقَلْبِہ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہ غِشَاوَةً فَمَنْ یَھدِیْہ مِنْ بَعْدِ اللّٰہ اٴَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ-)(3)”بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواھش کو معبود بنارکھا ھو اور (اس کی حالت) سمجہ بوجہ کر خدا نے اسے گمراھی میں چھوڑ دیا ھو اور اس کے کان اور دل پر علامت مقرر کردی ھے( کہ یہ ایمان نہ لائے گا)اوراس کی آنکہ پر پردہ ڈال دیا ھے ، پھر خدا کے بعد اس کی ھدایت کون کرسکتا ھے تو کیا تم لوگ (اتنا بھی) غور نھیں کرتے”جو کوئی شخص اگر اپنے نفس اور دل کا تابع ھوگیا ھے تو گونگا اور بھرا ھوجاتا ھے اور حقیقت وواقعیت کو نھیں سمجہ سکتا، اگرچہ بھت زیادہ علم بھی رکھتا ھو، اس کی آنکھوں پر پردہ پڑجاتا ھے جس کی وجہ سے حقیقتیں چھپ جاتی ھیں- اس سلسلہ میں “بلعم باعورا” (4)کا واقعہ ھمارے لئے باعث عبرت ھے کہ اتنے علم کے باوجود کہ اپنے زمانہ کے بڑے دانشمندوں میں شمار ھوتا تھا لیکن کس طرح سے پستی کی طرف گرا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے:(وَاتْلُ عَلَیْھمْ نَبَاٴَ الَّذِیْ ءَ اتَیْنَاہ ءَ ایَاتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھا فَاٴَتْبَعَہ الشَّیْطَانُ فَکَانَ مِنَ الْغَاوِیْنَ …فَمَثَلُہ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إنْ تَحْمِلْ عَلَیْہ یَلْھثْ اٴَوْ تَتْرُکُہ یَلْھثْ-)(5)”)اے رسول) تم ان لوگوں کو ا س شخص کا حال پڑہ کر سنادو جسے ھم نے اپنی آیتیں عطا کی تھیں پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا پکڑا اور آخر کار وہ گمراہ ھو گیا اور اگر ھم چاھتے تو ھم اسے انھیں آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے مگر وہ تو خود ھی پستی کی طرف جھک پڑا اور اپنی نفسانی خواھش کا تابعدار بن بیٹھا، تو اس کی مثل اس کتے کی مثل ھے کہ اگر اس کو دھتکارا دو تو بھی زبان نکالے رھے اور اس کو چھوڑ دو تو بھی زبان نکالے رھے”جی ھاں خدا کی عطا کردہ آزادی سے انسان اتنا بھی گرسکتا ھے ، لیکن اگر انسان سعادت وکامیابی چاھتا ھے تو پھر اس کو مربوط قوانین کی رعایت کرنی ھوگی، اوریہ قوانین ایک طرح کے نھیں ھےں بلکہ مختلف قسمیں ھیں – لھٰذا ضرورت ھے کہ اسلامی احکامات کے چاھنے والے حضرات کو معلوم ھوجائے کہ ھماری زندگی میں کس طرح کے قوانین کی ضروت ھے-
8-حقوقی قوانین اور اخلاقی قوانین میں فرققانون کے نام سے جو چیز ھمارے درمیان مشھور ھے وہ “حقوقی قانون” ھے ان قوانین سے مراد ایک طرح کے دستور ھیں جو معتبر مرکز یا اداروں کی طرف سے بنتے ھیں اور وہ ایک طاقت ھے جس کا نام قوہ مجریہ (حکومت) ھے جو ان قوانین کے نفاذ کی ضامن ھوتی ھے اور ضرورت کے وقت پولیس یا فوج کے ذریعہ قوانین کا نفاذ کراتی ھے، اور جرائم کی روک تھام کرتی ھے، حقوقی قوانین عام معنی میں سزاؤں کے قوانین کو بھی شامل ھیں جوکہ علم حقوق میں بیان کئے جاتے ھیں،ایسے موقع پر اگر کوئی یہ کھے کہ حکومت کی ذمہ داری صرف یہ ھے کہ عوام کو بتائے ان سے کھے کہ چوری نہ کریں، کسی کی عزت پر حملہ نہ کریں، تو قطعی طور پر کوئی بھی حکومت اس بات کو تسلیم نھیں کرے گی، اس بات کا مطلب (کہ چونکہ انسان آزاد ھے لھٰذا اگر وہ قوانین حقوقی کی خلاف ورزی کرے تو کوئی اسے سزا نہ دے) یہ ھے کہ حقوقی قوانین کا ھونا یا نہ ھونا برابر ھے، جبکہ قوانین ھونے کا فلسفہ یہ ھے کہ اس کا نفاذ کا کوئی ذمہ دار بھی ھو اور قوانین حقوقی اور قوانین اخلاقی کے درمیان بنیادی فرق یھی ھے -اگرچہ دوسرے فرق بھی پائے جاتے ھیں مثلاً اخلاقی قوانین میں یہ ذکر ھوتا ھے کہ امانت کا خیال رکھیں اور اس میں کبھی خیانت نہ کریں، یہ ایک اخلاقی حکم ھے ، اب اگر کوئی امانت میں خیانت کرے تو اخلاقی خلاف ورزی کی وجہ سے سزا یا قید میں نھیں ڈالا جائے گا بلکہ دھوکہ دھڑی کرنے پر قانون سزا کے مطابق اسے خاص سزا دی جائے گی، لھٰذا کوئی ایسا محکمہ ھونا چاھئے کہ جو قانون شکنی کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کرسکے اور طاقت کے ذریعہ ان پر قانون کو لاگو کرسکے، اس لئے قوانین کا لازمہ یہ ھے کہ طاقت کا استعمال کیا جائے کہ جس کے بغیر قوانین حقوقی بے معنی اور بے کار ھیں، لیکن قوانین اخلاقی ایسے نھیں ھیں، اور نہ ھی کسی محکمہ کی ضرورت ھے، مگر یہ کہ حقوقی پھلو رکھتے ھوں، بے شک دین میں ایسے احکام پائے جاتے ھیں جو انسان اور خدا کے درمیان رابطہ کو برقرار کرتے ھیں جیسے نماز، روزہ اور حج وغیرہ یہ احکام فقط ادیان (الھٰی) میں موجود ھیں-یھاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ کیا دین میںقوانین حقوقی بھی پائے جانے چاھئے یادین صرف خدا اور بندے کے درمیان رابطہ کو قائم کرنے کے لئے ھے، یہ ایسا شبہ اور سوال ھے جو آج کل وسیع پیمانہ پر یونیورسٹیوں اور ان کی نشریات میں ذکر ھوتا رھتا ھے اور تمام حضرات چاھے وہ یونیورسٹیوں میں رھنے والے ھوں کہ جن سے بلاواسطہ تعلق ھوتا ھے یا ان کے والدین اور رشتہ داورں سے متعلق ھو، ان اعتراضات اور سوالوں کی طرف توجہ کرنا چاھئے ، چاھے یہ باتیں آخر کار طالب علموں اور دانشوروں کے ذریعہ تمام افراد تک پھونچتی ھوںاور ھمارے عمومی تھدیب وثقافت پر اثر انداز ھوتی ھےں، ایک دن یھی جوان طالب علم اپنے ماں باپ کی جگہ لیتے ھیں اور ایک موثر اورنمایاں شخصیت بن کر معاشرہ کے بنیادی افراد میں قرار پاتے ھیں، اب اگر اس وسیع طبقہ کی تھذیب وکلچر بدل جائے تو ایک نسل کے بعد معاشرے کا کلچر پورے طور سے بدل جائے گا، لھٰذا ھمیں ھمیشہ اس بات کی طرف توجہ کرنا ھوگی کہ کون سی تھذیب اس وقت ھمارے معاشرے پر اثر انداز ھے اور رواج پارھی ھے-
9-اسلامی اور خودمختاری کے نظریات میں فرقدور حاضر میں جو مسائل ذکر ھوتے ھیں ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ھے کہ قانون کو کم سے کم ھونا چاھئے ، یہ ایک خودمختاری نظریہ ھے جو دور حاضر کی دنیا میں پایا جاتا ھے ،اس سلسلہ میں بھت سی بحثیں ھوئی ھیں اور بے شمار کتابیں لکھی گئی ھیں، اسی نظریہ کی بناپر کچھ افراد اس بات کے قائل ھیں کہ حکومت اور قانون ساز حضرات کو انسان کی زندگی اور اس کے امور میں وسیع پیمانے پر دخالت نھیںکرنا چاھئے، کیونکہ جس قدر حکومت کی دخالت کم ھوگی معاشرہ اتناھی زیادہ ترقی کرے گا، البتہ اس نظریہ کے کچھ لوازمات بھی ھیں، جو معاشرے کے دوسرے حالات میں بھی سرایت کرتی ھیں-مذکورہ نظریہ کا تعلق سماجی آگھی سے ھے اور جامعہ شناسی کے بارے میں پائے جانے والے دو نظریوں میں سے ایک نظریہ پر موقوف ھے:پھلے نظریہ میں: معاشرہ کو اصل قراردیا گیا ھے، اس بناپر قوانین کو جامع او رھمہ گیر ھونا چاھئے، جو انسانی زندگی کے تمام حالات پر مشتمل ھو، اور شخصی آزادی کم سے کم ھونا چاھئے-دوسرے نظریہ میں: شخصی زندگی کو اصل قرار دیا گیا ھے اس بناپر انسان کو مکمل آزاد ھوناچاھئے اور سماجی قوانین بھت کم ھونے چاھئیں تاکہ انسان کو کم پابند بناسکے-آج کل جو بات مغربی معاشرے میں پائی جاتی ھے یھی انفرادی اور شخصی زندگی بسر کرنے کا نظریہ ھے کہ جس سے خود مختاری اور آزاد خیالی کا نظریہ پیدا ھوتا ھے، جونظریہ اس بات کا قائل ھے کہ قوانین کو کم سے کم ھونا چاھئے اور عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ آزادی ھونی چاھئے تاکہ عوام الناس جس چیز پر چاھے عمل کرے-اسلام کے نظریہ کو پیش کرنے سے پھلے اس نکتہ کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ھوں کہ قانون سے دل چسپی کا موضوع (کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ )علوم انسانی کے چند شعبوں سے مربوط ھے جیسے جامعہ شناسی فلسفھ(یعنی معاشرہ اصل ھے یا شخص اصل ھے) اور فلسفہ اخلاق، اس بات کو سمجھنے کے لئے قدر وقیمت کا معیار کیا ھے؟ کیا اخلاق، قانون پر حاکم ھے یا اخلاق کو، قانون معین کرتا ھے، اسی طرح فلسفہ حقوق اور پھر فلسفہ سیاست میں بھی یھی بحثیں جاری ھیں،اسی نقطہ نظرسے انسان کی زندگی کے تمام پھلو اس کے عاقبت اور انجام سے مربوط ھیں یعنی ھر طرح کی سعی وکوشش اس زندگی میں ھماری ابدی خوش بختی یا بدبختی پر اثر انداز ھوگی-اسلامی تفکر سے مراد یہ ھے کہ” الدنیا مزرعة الآخرة” یعنی جو کچھ انسان دنیامیں بوئے گا یا جو رفتار وکردار اپنائے گا ،آخرت میں اس کا نتیجہ ویسا ھی ظاھر ھوگا، اس کی سعادت کا سبب بنے گا یا اس کی شقاوت وبدبختی کا باعث بنے گا، اگر ھم اس نظریہ کو اصل قرار دیں توپھر کیا انسان کی زندگی میں کوئی چیز باقی رھے گی جو قانون کی محتاج نہ ھو؟ یھاں پر قانون کا محتاج ھونا یعنی قانون ھماری راھنمائی کرے کہ انسان کس راستہ کو انتخاب کرے اور کس راہ و روش کو اپنائے تاکہ اپنے مقصودتک پھونچ جائے یعنی اگر معاشرہ امن وسلامتی چاھتا ھے ، تو انسان کسی کی عزت اور مال ودولت پر دست دازی نہ کرے ورنہ اس کی عزت اور مال پر بھی حملہ ھوگا، اور بقول شاعر :
ببری مال مسلمان وچون مالت ببرندداد وفریاد برآری کہ مسلمان نیست
“تم مسلمان کے مال کو اٹھالے جاوٴکیونکہ وہ تمھارے مال کو اٹھالے گئے اور پھر آہ وفریاد کرو کہ وہ مسلمان نھیں ھو”انسان کی طبیعت منفعت طلب ھے اور انسان صرف اپنے فائدہ کے بارے میں سوچتا ھے، اور اس راستہ میں کسی بھی طرح کی سعی وکوشش سے دریغ نھیں کرتا لیکن جس وقت اس کے بارے میں منافع کو خطرہ لاحق ھوتا ھے تو قانون کا سھارا لیتا ھے، لھٰذا مزاحمتوں اور اختلافات کی برطرف کرنے کے لئے اور معاشرے میں امن وتعاون قائم کرنے کے لئے قانون کا ھونا ضروری ھے، جو دوسروں پر ظلم ونا انصافی کرنے سے روکے، اور ھر شخص کے حقوق کو بیان کرے اور عدل وانصاف کے حدود معین ھوں تاکہ عوام الناس کو یہ پتہ چل سکے کہ کون سا فعل ظلم اور برُا ھے اور کونسا کام عدل وانصاف کے مطابق ھے – ورنہ ھر شخص دوسرے کے حقوق پر تجاوز کرتا ھے اور دوسرے بھی اس کے حقوق کو پامال کرتے ھیں کہ جس کے نتیجہ میں ناامنی پیدا ھوتی ھے، اور نہ ھی آرام وسکون ملتا ھے اور نہ ھی سعادت اخروی حاصل ھوتی ھے اور نہ ھی کوئی شخص اپنی فطری خواھشوں کو حاصل کرسکتا ھے-اسی بنا پر اسلامی نظریہ کے تحت ھماری ساری حرکات وسکنات، چاھے وہ انفرادی وشخصی زندگی سے مربوط ھو خواہ سماجی ومعاشرتی زندگی کے بارے میں ھو، سب کے لئے احکام وقوانین موجود ھیں ، حد ھے کہ بین الاقوامی روابط کے لئے بھی قوانین پائے جاتے ھیں، اور اسلام انسانی زندگی کے تمام پھلووٴں کے لئے قانون رکھتا ھے انھیں میں سے حقوقی اور سماجی قوانین بھی ھیں ، حدھے کہ اسلام میں انسانوں کے ذھنی خطورات کے لئے بھی قانون موجود ھے اور اسلام کا کھنا یہ ھے کہ تمھیں یہ حق نھیں ھے کہ جو چاھواپنے دل میں سوچو،اور ھر طرح کا خیال کو اپنے دماغ میں لاؤ، اور دوسروں کے بارے میں بدگمانی کرو اس لئے کہ :”إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْم ٌ” (6)بعض گمان گناہ ھیںجس طرح صفائی اور نظافت کا خیال نہ کرنے سے بیماریاں پیدا ھوجاتی ھےں،اور انسان اور معاشرہ کی سلامتی خطرہ میں پڑجاتی ھے،اسی طرح قوانینِ اسلام کا لحاظ نہ کرنے سے سماج ومعاشرہ کو نقصان پھونچتا ھے-اور جو بات کھی گئی ھے کہ انسان زندگی کہ انسانی زندگی کا کوئی پھلو اسلامی قوانین کے دائرے سے خالی نھیں ھے، یھاں تک کہ انسان کو اپنے دل، خیال اور فکر پر بھی کنٹرول رکھنا ضروری ھے، اور اس کا یہ مطلب ھرگز نھیں ھے کہ انسان کی آزادی کو چھین لیا جائے بلکہ آزادی سے صحیح فائدہ اٹھانے کا سلیقہ اسے بتایا گیا ھے ا ور اس کے راستہ کا چراغ ھے، تاکہ وہ آزادی سے صحیح طریقے سے فائدہ اٹھاسکے، البتہ یہ قوانین اس اعتبار سے کہ انسان کی سماجی زندگی سے مربوط نھیں ھیں اور صرف اخروی سزا رکھتے ھیں؟ جو شخص اپنے مومن بھائی کے بارے میں سوءِ ظن رکھتا ھے اسے دنیا میں سزا نھیں ملتی بلکہ آخرت میں سزائیں ملتی ھیں ۔اگر سماجی قوانین واحکام کی مخالفت ھو اور معاشرتی مصلحتوں کو پائمال کیا جائے تو دنیا کی سزائیں رکھی گئی ھیں اور در اصل دنیاوی سزائیں تمام حقوقی قوانین کا لازمہ ھیں، اور اسلام حقوقی قوانین پر منحصر نھیں ھے، اورجو شعبہ سماجی نظام کے نظم وضبط کے لئے قانون بنانا چاھئے وہ مجبور ھے کہ خلاف ورزیوں اور قانون شکنیوں کے بارے میں بھی سزا کو معین کرے-خلاصہٴ کلام یہ کہ سماجی زندگی بغیر ایسے قوانین کے جو انسانی آزادی کو محدود کردیں،قائم نھیں رہ سکتی ھے اور جس قدر سماجی روابط زیادہ وسیع ھوں گے اتنا ھی زیادہ سماجی قوانین کی ضرورت اور اس کے نفاذ کی ذمہ داری بڑھتی چلی جائے گی-
حوالے(1)سورہ والتین آیت 4-۶(2)سورہ بقرہ) آیت 1۰(3)سورہٴ جاثیہ آیت23(4) بلعم باعور کا واقعہ علامہ فرمان علی صاحب اعلی اللہ مقامہ نے اپنے ترجمہ میں درج ذیل آیت کے ضمن میں بیان کیا ھے،(مترجم)(5)سورہ اعراف آیت 175، 17۶(6) سورہ حجرات آیت 12