حکومت کے ڈھانچے کی وضاحت
اس قسم کی تعریف ووضاحت ؛ یعنی اس طرح کی سادہ اور مصداقی تعریف عوام الناس کو سمجھانے کے لئے بھت بھترھے، کیونکہ انتزاعی اور فلسفی چیزیں عوام الناس کو سمجھانے کے لئے مشکل ودشوار ھوتی ھے، کہ جس میں خارجی مصداق سے سروکار ھوتا ھے، لھٰذا خارجی نمونہ پیش کرکے کسی کو سمجھانے میں آسانی ھوتی ھے، مثال کے طور پر اگر کوئی یہ سوال کرے کہ بجلی یعنی کیا؟ تو روشن بلب کی طرف اشارہ کرکے یا دوسرے الیکٹرینک سامان کی طرف اشارہ کرکے اس کو سمجھایا جاسکتا ھے، کہ یہ سامان بجلی سے چلتے ھیں تو اس کی سمجہ میں بجلی کا مفھوم آجائے گا-ظاھر ھے کہ اس طرح کسی چیز کی تعریف کرنا جس میں اس کی ذاتیات اور عوراض اور اس کی اصلی خصوصیت سے اجتناب کیا جاتا ھے، لیکن عملی اور اکیڈمیک اصطلاح میں اگر کسی چیز کی تعریف کی جاتی ھے تو اس کی ذاتی یا عرضی خصوصیات کو بیان کیا جاتا ھے کہ جن میں سے منطق کی مشھور تعریف ھے کہ جس میں جنس وفصل ذکر کی جاتی ھے، اس طرح کی تعریف میں پھلے ایک عام او روسیع مفھوم کو تصور کیا جاتا ھے اور اس کے بعد ایک خاص مفھوم کو ذکر کیا جاتا ھے تاکہ دوسری چیزیں اس میں شامل نہ ھو-کسی چیز کی پھچان او رتعریف کا ایک اور طریقہ یہ بھی ھے کہ اس کے عناصر کو شمار کیا جاتا ھے؛ یعنی کسی ایک ماھیت کے لوازم اور خصوصیات کی تحقیق کی جاتی ھے اور ان سب کو ملاکر اس چیز کی تعریف قرار دیدی جاتی ھے، اور کوئی بھی شخص اس کی خصوصیات کو دیکہ کر فیصلہ کرلیتا ھے کہ جو چیز بھی وہ خاص خصوصیات رکھتی ھوگی وھی فلاں چیز ھوگی-
2-اسلام اور تینوں قوتوں کے جداجدا ھونے کا نظریہحکومت کے وسیع پیمانے پر تعریف کرنا اور اس کی ان خصوصیات کو بیان کرنا جن کو اسلام نے بیان کیا ھے ، یا سیاست کے بارے میں اسلام کے نظریہ کو ایک جملہ میں اس طرح کھا جاسکتا ھے:کہ سیاست کے بارے میں اسلام کا نظر یہ ھے کہ سیاست اور حکومت کے تمام امور الھٰی اور وحی سے الھام گرفتہ ھیں، اوریھی چیز یں حکومت اور نظام اسلامی بن جانے کی ضمانت ھوتی ھےں-مزید وضاحت اور اسلامی حکومت کو ایک جامع شکل پیش کرنے کے لئے ضروری ھے کہ (حکومتی) قوتوں کے جداجدا ھونے کے نظریہ کو بیان کیا جائے کہ جو “حقوقی فلسفہ” میں بیان ھوتی ھیں، ان آخری چند صدیوں میں مغربی حقوق داں فلسفی حضرات کے درمیان کافی کشمشک ھوتی آئی ھے کہ (حکومتی) قوتوں کو ایک جگہ ھونا چاھئے یا الگ الگ کہ ھر شخص یا ھر گروہ صرف ایک طاقت کا مالک ھو، اور آخر کار “رنسانس”کے زمانے کے بعد بالخصوص “منٹسکیو” کے زمانے کے بعد(منٹسکیو نے اس سلسلہ میں ایک زخیم کتاب بنام “روح القوانین” لکھی کہ جس میںطاقتوں کے جدا ھونے پر بھت زیادہ تاکید او راصرار کیا ھے)، حقوقی فلاسفہ نے اس بات پر اجماع واتفاق کرلیا کہ حکومتی طاقتوں کو جدا جدا ھونا چاھئے اور یہ نظریہ پیش کیا کہ حکومت کی تینوں طاقتیں :1-“قوہ مقننہ”(قانون گذار طاقت یعنی پارلیمینٹ)2-“قوہ مجریہ ” (یعنی صدر مملکت یا وزیر اعظم اور”قوہ قضائیہ”(عدالتی طاقت) ڈیموکراٹک اور جمھوریت حکومتوں کی اصلی (1) ستون سمجھے جاتے ھیں، اور ان تینوں طاقتوں کے لئے الگ الگ دائرہ اور مستقل میدان تصور کیا جاتا ھے، اس طرح کہ ایک طاقت کو دوسری طاقت میں دخالت کرنے کا کوئی حق نھیں،اور ھر ایک ان میں سے مستقل ھوتی ھیں ، اس نظریہ میں ھر قوت کو الگ الگ کرنے کے بعد اس کی تعریف بھی کی گئی ھے، کہ جن کو ھم یھاں پر مختصر طور پر بیان کرتے ھیں:
الف- قوہٴ مقننہ:حکومت کا ایک اھم رکن قوہ مقننہ ھے کیونکہ انسان کی اجتماعی زندگی میں ھر وقت تغیر وتبدیلیاں پائی جاتی ھیں اور ھر زمانہ کے شرائط مختلف ھوتے ھیں لھٰذا ضروری ھے کچھ لوگ ان پر تبادلہ خیال اور غور وفکر کرکے مناسب قانون وضع کرتے ھیں، اور قوہ مقننہ کی اھمیت کے پیش نظر اس کے بنائے گئے قوانین معتبر اور واجب الاجراء ھیں-
ب- قوہ قضائیہ:قوانین کو معتبر اور رسمی ھونے کے بعد اس بات کی ضرورت ھے کہ ان کلی قوانین کو خاص موقع ومحل پر مطابقت اور لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو روشن کیا جائے-(1) عام اصطلاح میں کبھی کبھی “حکومت” تینوں طاقتوں پر استعمال ھوتا ھے ، اور کبھی کبھی حکومت صرف” قوة مجریہ” پر اطلاق ھوتا ھے ، البتہ یہ معنی خاص مواقع پر استعمال ھوتے ھیں اور اکثر اقات حکومت سے مراد وھی عام معنی ھیں جو تینوں طاقتوں پر استعمال ھوتا ھے-نیز اختلافات اور جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے قوہ قضائیہ کا ھونا ضروری ھے، یعنی قانون کے بننے کے بعد شھریوں کے اختلاف کی صورت میں یا گروھوں کے درمیان اختلاف یا عوام الناس اور حکومت کے درمیان اختلاف کو حل کرنے اور لوگوں کے حقوق کو پامال ھونے سے بچانے کے لئے اور قوانین کو مذکورہ موقع ومحل پر مطابقت، قضاوت او رفیصلہ کرنے کے لئے قوہ قضائیہ کا ھونا ضروری ھے، کیونکہ صرف پارلمینٹ میں قوانین پاس ھونے سے مشکل حل نھیں ھوتی، کیونکہ اختلافی صورت میں ھر ایک شخص اپنے کو حق سمجھتا ھے اور اپنے حق میں قانون کی تفسیر کرتا ھے-
ج-قوہ مجریہ:اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ معاشرہ اپنے اھداف ومقاصد تک پھونے کے لئے قانون کا محتاج ھے، لیکن ایسا بھی نھیں ھے کہ تمام عوام الناس تمام قوانین کی رعایت کریں؛ کیونکہ مختلف وجھوں سے قانون کی مخالفت ھوسکتی ھے،قانون کے لئے ضرورت ھے کہ اس کے جاری ھونے کی ضمانت بھی ھو،اور یہ ضمانت اجرائی قوہ مجریہ کے ذریعہ ممکن ھے ،( کہ جس کے پاس قوانین کو جاری کرنے کے لئے باندازہ کافی وسائل ھوتے ھیں)، لھٰذا قوہ مجریہ کی ذمہ داری یہ ھے کہ بنائے ھوئے قوانین پر عمل کرائے اور خلاف ورزی سے روکے، اور اسی طرح قوہ قضائیہ کے احکامات (سزا وکیفر) کو بھی جاری کرے، اور اس سلسلہ میں قوانین کو جاری کرنے اور خلاف ورزی کرنے والوں اور مجرموں کو سزا دینے کے لئے پولیس وغیرہ کا بھی سھارا لیا جاسکتا ھے-ھم نے مختصر طور پرجمھوریتی نظام میں تینوں طاقتوں کے جدا ھونے کے نظریہ کو بیان کیا،اگرچہ ھم اس سلسلہ میں اسلام کے نظریہ کو بیان کرنے کے درپے نھیں ھیں، لیکن اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ھیں کہ اسلامی جمھوری ایران کے اساسی اور بنیادی قانون میں ان طاقتوں کو جدا ھونے کے نظریہ کو قبول کیا گیاھے،لیکن یہ تینوں طاقتیں ولایت فقیہ کی زیر نظرھوتی ھیں جس کی وجہ سے نظام اسلامی ھوجاتا ھے، چاھے اسلامی نظام میں تینوں طاقتوں کی مشروعیت اس چیز کی وجہ سے ھے کہ یہ سب کے سب الھٰی اور اسلامی ڈھانچہ رکھتے ھوں اور ان کا رابطہ خداوندعالم سے ھوں اور ولایت فقیہ کی وجہ سے ھی نظام الھٰی ھوجاتا ھے اور نظام کی مشروعیت کا ملاک ومعیاربھی یھی ولایت فقیہ ھے-جس وقت ھم اسلام کے قوانین کی وضع اور ان کو جاری کرنے کی باتیں کرتے ھیں اور ھم یہ دعوی کرتے ھیں کہ تمام قوانین اور مقررات الھٰی اور اسلامی ھونا چاھئے، تو ھم اس بات کو مسلم اور طے شدہ مان لیتے ھیں کہ اسلام کا خلاصہ نماز وروزہ او ردوسری عبادتوں میں نھیں ھوتا؛ بلکہ اسلام ایک کامل مجموعہ کا نام ھے کہ جس میں اجتماعی قوانین بھی شامل ھوتے ھیں-یعنی اجتماعی قوانین کے تمام شعبے اسلام میں شامل ھوتے ھیں، جیسے مالی مسائل، حقوق مدنی، تجارتی حقوق اور بین الاقوامی حقوق وغیرہ کہ جن کی معاشرہ کو ضرورت ھوتی ھے، لھٰذاھم یہ نظریہ رکھتے ھیں کہ اسلام کے قوانین اجتماعی قوانین ھیں اوراسلام حکومت کو بھی ذمہ دار بناتا ھے کہ اس کے قوانین کو معتبر جانے اور ان کو عملی جامہ پھنائے، اور اگر کوئی حکومت اسلام کے قوانین کو معتبر نہ جانے اور ان کو جاری کرانے کی فکر میں نہ رھے ، تو اسلام کی نظر میں اس حکومت کا کوئی اعتبار ا ور مشروعیت نھیں ھے-
3- اسلام معاشرہ کو ادارہ نھیں کرسکتا (ایک شبہ)یھاں پر ایک شبہ یہ ھوتا ھے کہ آج کل انسان کی زندگی ترقی یافتہ دور میں بڑے پیمانے پرنئے نئے قوانین کا نیاز مند ھے اور ان سب کا جواب قرآن کریم یا سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم او رکلام ائمہ معصومین علیھم السلام میں نھیں پایا جاتا، آج انسان کو اس طرح کے قوانین کی ضرورت ھے کہ جو صدر اسلام میں بالکل بھی موجود نھیں تھے تو ان کا حکم ھی کھاں سے بیان ھوا ھوگا،مثال کے طور پر فضائی اور ھوائی لائن کے مسائل کو پیش نظر رکھیں کہ کیا کوئی ھوائی جھاز کسی دوسرے ملک کی فضا میں بغیر اس ملک کی اجازت کے گذرسکتا ھے ؟ ظاھر ھے کہ اس طرح کے قوانین قرآن یا حدیث رسول یا کلام ائمہ معصومین علیھم السلام میں نھیں ھیں کیونکہ اس زمانے میں ھوائی جھاز کا تصور ھی نھیں تھا تاکہ یہ مسئلہ پیش آتا کہ ھوائی جھاز دوسرے ملک کی فضا سے گذر سکتا ھے یا نھیں-اسی طرح ٹرافک اور ڈرائیورنگ کے مسائل ، اس وقت میں بس یاگاڑی کا وجود ھی نھیں تھا کہ اس کے قوانین بیان ھوتے ، اسی طرح دوسرے قوانین کہ جن کی انسان کو اس وقت ضرورت ھے مثلاً دریا اور سواحل کے قوانین، اور اس طرح کے دوسرے قوانین کہ جن کے بارے میں ابھی تک خاص قوانین نھیں بنائے گئے اورضرورت ھے اس بات کی کہ حقوق داں اور قانون گذار حضرات اس سلسلہ میں بڑے غور وفکر سے ان کے لئے قوانین بنائیں-لھٰذا ان چیزوں کے پیش نظر قرآن اور حدیث میں ذکرکئے گئے قوانین انسان کی ضرورتوں کو پورا نھیںکرسکتے،تو پھر کس طرح یہ کھا جاسکتا ھے کہ معاشرہ میں اسلامی قوانین نافذ ھونا چاھئے جبکہ بعض چیزوں کے بارے میں اسلام کوئی قانون ھی نھیں رکھتا،!لھٰذا انسان کے لئے ایسے قوانین کی واضح ضرورت ایک طرف،اور اسلام میں ایسے قوانین موجود نہ ھونا دوسری طرف، تو اس موقع پر کیا کیا جائے؟ او رایسے موقع پر ھم کس طرح اسلامی قوانین پر پابند ھوں؟اب تک جو ذکر ھوا یہ ان لوگوں کا نظریہ تھا جو اسلام کو نھیں مانتے اور یہ اعتراض کرتے ھیں کہ اسلامی قوانین معاشرہ کو چلانے کےلئے کافی نھیں ھیں؛ اور ان کی جگہ بشریت کے بنائے ھوئے قوانین کی طرف رجوع کیا جائے، اعتراض کرنے والوں نے موضوع مشکل اور پیچیدہ کرنے کے لئے اس اعتراض کو مختلف طریقوں سے پیش کیا ھے او رلوگوں نے اپنے مختلف خواھشات کی بنا پر اس سلسلہ میں مختلف بیان دیا ھے-لیکن ان سب کا ھدف او رمقصد اسلامی حکومت کو کمزور اور متزلزل کرنے کے لئے ھے کہ اسلام معاشر ہ کو ادارہ نھیں کرسکتا، لھٰذا اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کی باتیں کرنا اور ان پر اصرار اور تاکید کرنا بے فائدہ ھے، لھٰذا حکومت کو اسلامی ھونے کے نظریہ کو اپنے ذھن سے نکال دینا چاھئے کیونکہ یہ کام ھونے والا نھیں ھے،افسوس کی بات تو یہ ھے کہ بعض اسلامی انقلاب کے طرفدار اور اسلام کے معتقد افراد بھی اس شبہ کے تحت تاثیر واقع ھوتے جارھے ھیں، لھٰذا ضروری ھے کہ اس اعتراض کا مناسب اور محکم جواب دیا جائے تاکہ اسلام کے قوانین پر پابند رھیں اور جن مسائل میں معاشرہ کی ضرورت کے تحت اسلام میں قوانین کو نہ پائےں تو اس کے راہ حل کو پھچان لیں-
4-قوانین کی مختلف اقسام اور متغیر قوانین ھونے کی ضرورتمذکورہ اعتراض کے جواب میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے کہ “قانون”کے ایک وسیع اور عام معنی ھیں اور “تکوینی” قوانین بھی اس میں شامل ھوتے ھیں؛ مثلاً فیزیک اور شیمی کے قوانین اور قانون لاوازہ ، جاذبہ نیوٹن اور نسبیت انیشٹین، اس طرح کے قوانین (کہ جو تکویناً موجود ھیں اور واقعیت بھی رکھتے ھیں) دانشمندوں کے ذریعہ کشف ھوتے ھیں اور بنائے جانے والے نھیں ھیں، اور یہ قوانین ثابت اور طبیعی و واقعی چیزوں سے مربوط ھیں، اور حقوقی اور سیاسی مسائل سے ان کا کوئی ربط نھیں ھے، اسی طرح عقلی قوانین؛ مثلاً منطقی اور فلسفی قوانین اور میتہ میٹھک کے مسائل سے ھماری بحث نھیں ھے، بلکہ ھماری بحث ان قوانین سے ھے کہ جو قابل وضع ھیں جن کو اصطلاح میں “اعتباری قوانین” کھا جاتا ھے، ان قوانین کا اعتبار اور ان کا جاری کرنا اس صورت میں صحیح ھے کہ کوئی معتبر مرکز ان کو وضع کرے، اور قوانین کی تین قسمیں ھیں:
الف- قانون اساسیقانون اساسی (بنیادی قوانین) ان قوانین کو کھتے ھیں کہ معمولاً ثابت اور ھر ملک کی ثقافت کے اعتبار سے بنائے جاتے ھیں، یہ قوانین نسبتاً ثابت (غیر قابل تبدیل) ھوتے ھیں اور ایک طولانی مدت تک جاری رھتے ھیں، یہ روز مرہ والے قوانین نھیں ھوتے او رانھیں کو معاشرہ کو ادارہ کرنے کی اصل سمجھا جاتا ھے،یہ قوانین ثابت ھونے اورپیھم تبدیلی نہ ھونے کی وجہ سے کلّی اور محدود ھوتے ھیں؛ اسی وجہ سے ھر ملک کے اساسی اور بنیادی قوانین چند اھم اور بنیادی اصولوں کو شامل ھوتے ھیں-لھٰذا جزئی اور وہ وقتی قوانین کہ جن کی ضرورت بھی زیادہ ھے لیکن زمان ومکان کے لحاظ سے بدلتے رھتے ھیں، ان کو قانون اساسی میں رکھا جائے،اور قانون اساسی میں کلّی قوانین او رثابت قوانین پر ھی اکتفاء کی جائے اور اس میں جزئی قوانین کو بیان کرنے سے پرھیز کیا جائے، مگر وہ جزئی اور محدود قوانین کہ جو اھم ھیں او ران کا ذکر ھونا ضروری ھو-
ب- پارلیمینٹ کے بنائے گئے قوانینقوانین کی دوسری قسم وھھے کہ جن کو پارلیمینٹ میں بنایا جاتا ھے ، اگرچہ بعض مملکوں میں پارلیمینٹ کے علاوہ “مجلس سنا”بھی بنائی جاتی ھے یا اس کو کوئی دوسرا عنوان دیدیا جاتا ھے، اور اس کے قوانین بھی پارلیمینٹ کے قوانین کی طرح معتبر مانے جاتے ھیں،ھمارے ملک میں بھی پارلیمینٹ کے علاوہ ایک “مجلس شورای نگھبان” ھوتی ھے کہ جو دوسرے ممالک میں مجلس سنا یا قانون اساسی کورٹ کی طرح ھے جس میں کچھ فقھاء اور حقوق داں حضرات شامل ھیں ، مجلس شورای نگھبان اسلامی پارلیمینٹ کے بنائے گئےقوانین کو قانون اساسی اور قوانین شرعی سے تطبیق کرتے ھیں، اور اگر وہ قوانین قانون اساسی اور قانون شرعی سے موافق نہ ھوں تو ان کو لوٹا دیتے ھیں تاکہ ان پر نظرثانی کی جاسکے-
ج- انجمنِ حکومت کے بنائے گئے قوانینھر ملک میںپارلیمینٹ کے بنائے گئے قوانین کے علاوہ دوسرے مرکزوں کے ذریعہ بھی قوانین بنائے جاتے ھیں اور وہ بھی لازم الاجراء ھوتے ھیں،جس کا نمونہ انجمن حکومت ( ھیئت دولت) کے بناکے ھوئے قوانین ھیں ،قانون اساسی نے اس بات کی اجازت دی ھے کہ حکومتی انجمن خاص موقعوں پر قانون بنائے، اسی طرح صدر مملکت بھی خاص موقعوں پر اپنے مرضی کے مطابق تصمیم گیری کرے، اور یہ حکومتی انجمن اور صدر مملکت کے بنائے ھوئے قوانین پارلیمینٹ میں نھیں جاتے بلکہ خود ھی قانونی اور لازم الاجراء ھوتے ھیں،اور اسی طرح وہ قانون دستاویز اور بخش نامے جو کسی وزیر کے ذریعہ بعض اداروں اور دوسرے مرکزوں کو دئے جاتے ھیں،اور ان کو بھی ایک طرح کا قانون کھا جاتا ھے اور حکومت ان کو بھی جاری کرنے کی ضامن ھوتی ھے،لھٰذا ھمارے ملک اور اسی طرح دوسرے بعض ملکوں میں تین طریقہ کے قانون ھوتے ھیں:1-قانون اساسی-2-پارلیمینٹ کے بنائے ھوئے قوانین-3-حکومتی انجمن یا صدر مملکت کے بنائے ھوئے قانون او راسی طرح ان مرکزوں کے قوانین جن کو قانون نے ھی اجازت دی ھو-اور ظاھر ھے کہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں کسی بھی زمانہ میں ممکن نھیں ھے کہ تمام قوانین ومقررات کو ایک جگہ اور ایک ھی زمانہ میں بنالیا جائے، چونکہ وضع شدہ قوانین اور اجرائی آئین نامے زمان ومکان کے بدلنے کے لحاظ سے ضرورت ھے کہ قانون تبدیل ھوں یا ان پر تجدید نظر ھو، مثلا پارلیمینٹ آج کوئی قانون بناتا ھے لیکن ھوسکتا ھے کہ کل حالات بدل جائیں اور اس قانون کو بدلنے اور ان میں تجدید نظر کرنے کی ضرورت پیش آجائے، اسی طرح اجرائی مقررات اور قوانین بھی حالات کے لحاظ سے قابل تبدیل ھیں اوران پر نظر ثانی ھوتی رھتی ھے-اسی طرح جب کوئی حکومت بدلتی ھے تو ایک محدود دائرے میں رہ کر کچھ قوانین کو بدل سکتی ھے، البتہ وہ لوگ جو معاشرہ کی بھبودی چاھتے ھیں ان کی ھمیشہ کوشش یھی ھوتی ھے کہ قوانین کو اس طرح دقت اور غور وفکر کرنے کے بعد بنایا جائے کہ معاشرہ کے لئے بھت مناسب ھوں او راس میں کم سے کم خامیاں ھوں، ظاھر ھے کہ جب ھم یہ کھتے ھیں کہ قوانین کو اسلامی ھونا چاھئے تو اس سے ھماری مراد یہ نھیں ھوتی کہ تمام قوانین چاھے قانون اساسی ھوں یا پارلیمینٹ کے بنائے ھوئے قوانین، سب کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ھے-
5-قوانین کا اسلامی ھونے کا مطلبقوانین اور مقررات کے اسلامی ھونے اور ان کے معنی کی وضاحت کے بارے میں ، عمومی قوانین کے اوپر نظر کرنا مفید ھے ،نمونہ کے طور پر قوہ مجریہ یا ھیئت حکومت اسی دائرے میں رہ کر قوانین کو بناسکتی ھے کہ جن میں پارلیمینٹ نے اجازت دی ھو، یعنی ان کے دائرہ وسیع نھیں ھے، دوسرے الفاظ یوں عرض کیا جائے کہ ان کے اختیارات کی حد، قانون اساسی اور قانون پارلیمینٹ معین ومحدود کرتے ھیں، او راجرائی قوانین بھی اسی کے تحت ھونا چاھئے، یعنی یہ قانون ان کلّی احکامات کے مصادیق ھیں کہ جو قانون اساسی اور پارلیمینٹ کے قانون میں پاس ھوچکے ھیں، لھٰذا یہ قانون پھلے قانون اساسی اور قانون پارلیمینٹ میں بیان ھوتے ھیں،اس کے بعد ھیئت حکومت یا دوسرے صاحب منصب حضرات خاص موارد میں ان کلیات کے مصادیق کو قانون کی شکل میں تنظیم کرتے ھیں -خلاصہ یہ کہ یہ قانون صرف ان کے دل خواہ نھیں ھوتے بلکہ قانون اساسی اور قانون پارلیمینٹ کے موافق ھوتے ھیں،اور پارلیمینٹ کے قانون بھی شورای نگھبان کے تائید شدہ ھونے چاھئے اور اسی صورت میں یہ قانون معتبر ھوتے ھیںاور ان کے جاری ھونے کی ضمانت ھوتی ھے، لھٰذا ان قوانین کا معتبر ھونا اور لازم الاجراء ھونا اس چیز پر موقوف ھے کہ وہ پارلیمینٹ کے قوانین کے موافق ھوں ، اور پارلیمینٹ کے قوانین کے معتبر ھونے کا معیار یہ ھے کہ وہ قانون اساسی کے موافق ھوں،اور قانون اساسی کے معتبر ھونے کا معیار یہ ھے کہ وہ خداوندعالم کے تشریعی ارادہ کے تابع ھوں، اس ترتیب کے لحاظ سے یہ قوانین ایک دوسرے کے تابع ھوتے ھیں او ران کے معتبر ھونے میں اس طرح کا لحاظ ضروری ھے کہ یہ تمام قوانین، اسلام اور خداوندعالم کے تشریعی ارادہ پر ختم ھوتے ھوں؛ نہ یہ کہ تمام قوانین اور مقررات اور آئین نامے اور پارلیمینٹ کے قوانین سب کے سب قرآن مجید اور احادیث شریف میں موجود ھوں-اگر خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم (ص) کو اتنا اختیار عنایت کیا کہ خاص موارد میں خاص قانون بناسکتے ھیں، اور چونکہ اس قانون میں خداوندعالم کی اجازت اور اس کا ارادہ شامل ھے ،معتبر اور لازم الاجراء ھے، رسول اکرم (ص)کی اطاعت او ران کی پیروی خدا وندعالم کے حکم سے واجب ھے اور اسی حکم خدا کے زیر سایہ پیغمبر اکرم کا بنایا ھوا قانون بھی معتبر ھے، اور ھم مسلمانوں پر ان کی اطاعت او رپیروی واجب ھے؛ ورنہ اگر ھم خدا کے حکم سے صرف نظر کرلیں تو پیغمبر کے دستورات خودبخود واجب نھیں رہ جاتے-لھٰذا وہ قوانین جو براہ راست خداوندعالم کی طرف سے ھوںاور قرآن مجید میں صاف صاف بیان ھوے ھوں پھلا درجہ رکھتے ھیںاور خود بخود معتبر ھیں، اس کے بعد خدا کے حکم سے رسول اکرم کے بنائے ھوئے قوانین دوسرے درجہ میں قرار پاتے ھیں، او رآپ کے بنائے ھوئے قوانین خدا کے حکم کی وجہ سے معتبر ھیں، اسی طرح ائمہ معصومین علیھم السلام کے بنائے ھوئے قوانین او راحکامات خدا کے حکم کی وجہ سے معتبر ھیں؛کیونکہ خدا او رپیغمبر نے ائمہ (ء) کی اطاعت کو واجب کیا ھے -اب اگر ھم اپنے کو حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زمانہ میںکسی اسلامی منطقہ میں فرض کریں بے شک آپ کی اطاعت کو اپنے اوپر واجب جانتے،مثلاً آپ مالک اشتر کو اس شھر کا والی بناکر بھیجتے او ریہ فرماتے کہ ان کے احکامات اور دستورات کے اوپر عمل کریں اور ان کی نافرمانی نہ کریں اور جس نے ان کی اطاعت کی میری اطاعت کی ؛ اگرچہ مالک اشتر کے احکامات کا بذات خود کوئی اعتبار نھیں ھے اور وہ بھی دوسروں کی طرح ھوتے، لیکن چونکہ امام کا حکم ھواھے لھٰذا اس صورت میں ان کی طاعت واجب اور ان کے احکامات لازم الاجراء ھیں، کیونکہ یہ امام معصوم کی طرف سے مقام ولایت پر فائزھیں اور خدا اور پیغمبر کی طرف سے منصوب ھوئے ھیں لھٰذا ان کی اطاعت واجب مانی جاتی ھے، جب کہ امام معصوم کی طرف سے منصوب شدہ والی اور حاکم کے دستور او رفرمان تیسرے درجہ میں حساب ھوتے ھیں ، مثال کے طور پر اگر اسلامی پارلیمینٹ نے کسی صاحب منصب کو یہ اختیار دیدے کہ وہ کسی چیز کے بارے میں کوئی دستور العمل بنائے ،اورچونکہ اس کے اس کام کا اختیار دیا گیا ھے لھٰذا اس کے بنائے ھوئے قوانین لازم الاجراء ھیں،اسی طرح قوانین پارلیمینٹ بھی قانون اساسی کی وجہ سے معتبر ھے اور اس کے بنائے ھوئے قوانین قانون اساسی کی وجہ سے معتبر ھوتے ھیں-لیکن دوسرے ممالک میں قانون اساسی کا اعتبار لوگوں کے ووٹ اور رائے گیری پر ھوتا ھے، لیکن ھم قانون اساسی کا مقام اس سے بڑہ کر بلند مانتے ھیں اور یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ قانون اساسی کا اعتبار خدا کی اجازت پرمنحصر ھوتا ھو کہ پیغمبر یا امام معصوم یا کوئی شخص مالک اشتر کی طرح اس قانون اساسی کی تائید کرے، اس وجہ سے قانون کا اعتبار خدا ، رسول اور ائمہ علیھم السلام کے کلام کی وجہ سے ھے اور اس کے بعد اس شخص کی وجہ سے ھوتا ھے کہ جو امام معصوم کی طرف سے معین ھو،اور یھی اسلام کا فلسفہ اور تھیوری ھے، امام معصوم (ء) کی غیبت کے زمانہ میں چونکہ ولی فقیہ عمومی اعتبار سے امام علیہ السلام کی طرف سے منصوب ھے تو اس کی ولایت امام معصوم (ء) کی طرف سے تائید شدہ اور معتبر ھے، اور ولی فقیہ کی تائید سے قانون اساسی معتبر ھوتا ھے، اور اس کے علاوہ قانون اساسی بذات خود معتبر نہ ھوگا، اور اس پر سوالیہ نشان باقی ھے کہ اس کا اعتبار کھاں سے ھے اور کس حد تک یہ معتبر ھے، اور کن لوگوں کو حق ھے کہ وہ قانون اساسی کو بدل سکیں،وہ قومیں جو اقلیت میں ھےں اور انھوں نے قانون اساسی کے بارے میں ووٹ نھیں دیا ھے کس وجہ سے یہ لوگ اس قانون اساسی کی پیروی کریں اور اسی طرح کے دوسرے بھت سے سوالات، لیکن اگرھمارا نظریہ یہ ھو کہ قانون اس صورت میں معتبر ھوگا جب امام معصوم کی طرف سے معین شدہ شخص اس کی تائید کردے ، تو پھر کسی سوال کی کوئی گنجائش باقی نھیں رھتی-
6-اسلامی حکومت میں قانون گذاری کا مسئلہاب تک یہ بات واضح ھوچکی ھے کہ قانون گذاری کے سلسلہ میں اسلامی حکومت کی تھیوری ، یہ ھے کہ قانون کا اعتبار خداوندعالم کی طرف سے ھے اور اس کے بعد جس کو خداوندعالم یہ اجازت دیدے، مثلاً پیغمبر اسلام تو پھر ان کا کلام بھی معتبر ھے اور اسی طرح پیغمبر جس کو منصوب کردیں ھمارے لئے معتبر ھیں جیسے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کو منصوب فرمایا لھٰذا ان کا کلام ھمارے لئے معتبر ھوا، اور اسی طرح اگر امام معصوم کسی کو عمومی یا خصوصی طور پر منصوب کردیں تو اس کا کلام بھی ھمارے لئے معتبر ھے،وہ فرمان اور احکامات کہ جودرجات عالیہ سے صادر ھوتے ھیں الھٰی اور اسلامی ھیںکیونکہ خداوندعالم کی طرف سے تائید شدہ ھیں، البتہ جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ اسلامی حکومت میں کبھی کبھی یہ تائید چندواسطوں کے ذریعہ انجام پاتی ھے ، ولی فقیہ کے لئے امام معصوم کی تائید ھوتی ھے اور امام معصوم علیہ السلام کے وارادہ واختیار کی تائید پیغمبر اکرم کی تائید سے ھوتی ھے اور آخر میں پیغمبر اکرم ھیں کہ جن کا اعتبار قرآن کریم کے صاف صاف بیان سے ھوتا ھے، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:(یَا اٴَیُّھا الَّذِیْنَ اٴَطِیْعُوا اللّٰہ وَاٴَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَ اٴُوْلِی الاٴمْرِ مِنْکُمْ (1)”اے ایماندارو خدا کی اطاعت کرواور رسول کی اور جو تم میں سے اولی الامر ھو ان کی اطاعت کرو”اسی طرح یہ آیت بھی:(اَلنَّبِیُّ اٴُوْلیٰ بِالْمُوٴمِنِیْنَ مِنْ اٴَنْفُسِھمْ)(2)”نبی تو مومنین سے خود ان کی جانوں سے بھی بڑہ کر حق رکھتے ھیں”بے شک مذکورہ رابطہ اسلام کے وضع شدہ اصول کے اعتبار سے ان لوگوں کے لئے مکمل طورپر قابل قبول ھے کہ جو خدا، پیغمبر اور امام معصوم کا اعتقاد رکھتے ھوں، اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا ھم اس مسئلہ کو سادہ زبان میں ان لوگوں کے لئے بیان کریں کہ جو نہ خدا کو مانتے ھیں اور نہ ھی رسول خدا کو،اور امام معصوم کی حقانیت میں شک کرتے ھوں، ان کے لئے ایک دوسرے طریقہ سے بحث ھونا چاھئے: سب سے پھلے اسلام کے بنیادی اصول کو بیان کریںاور اس کے بعد دوسرے مسائل کے بارے میں بحث کریں جیسے حکومت وسیاست کے مسائل، البتہ ممکن ھے کہ اس بحث کو آزاد طریقہ سے بھی بیان کیا جاسکتا ھے کہ اس طرح کی قانون گذاری بھتر اور معاشرہ کے لئے مفید تر ھوسکتی ھے یا قانون گذاری کے دوسرے طریقے کہ جو رائج ھیں-
7-اسلامی حکومت میں قانون کے جاری کرنے والوں کو منصوب کرنااسلام کی سیاسی تھیوری میں قانون کو خدا کی طرف سے ھونے کے ساتھ ساتھ ، ولایت کے زیر نظر قوانین اور مقررات اگر خدا، رسول خدا، امام معصوم اور ن کے خاص یا عام جانشینوںکی تائید حاصل ھو تو وہ قوانین معتبر ھوجاتے ھیں،اس کے ساتھ ساتھ قوانین کا اجراء کرنے والا بھی خدا وندعالم کی طرف سے معین ھو، (البتہ قوہ قضائی بھی قوہ مجریہ سے مربوط ھوتی ھے ، لیکن اس کی خاص اھمیت کی خاطراور اس وجہ سے کہ اختلاف وغیرہ کو حل کرنے کا ایک بھترین مرکز شمار ھو ،اور قوانین کو جاری کرنے سے پھلے ان کے مصادیق پر منطبق کرے، اس کے لئے مستقل مقام اور خاص شرائط معین کئے گئے ھیں)جس وقت پیغمبر یا امام معصوم حاضر ھوں تو وہ خود قانون کے جاری کرنے کے ذمہ دار ھیں یا یہ حضرات کسی کو اپنی طرف سے منصوب کریںکہ قانون کو جاری کرنے کا ذمہ دار ھو؛ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے جناب مالک اشتر کومصر کا والی وحاکم منصوب کیاتاکہ وھاں جاکر قوانین کا نفاذ کرے، لیکن امام علیہ السلام کی غیبت میں کہ جب عوام الناس امام تک نھیں پھونچ سکتی،قانون کے نفاذ کی ذمہ داری اس شخص کی ھے کہ جس کو امام نے بطور عام منصوب کیا ھو، اور یہ وھی ولایت فقیہ ھے کہ ھم جس کے بارے میں بعد میں گفتگو کریں گے ،(انشاء اللہ)یہ بات واضح ھوچکی ھے کہ اسلام کی سیاسی تھیوری اور اسلام کے حکومتی ڈھانچے میں جس طرح قانون کو خدا کی طرف سے ھونا چاھئے(یعنی قانون یا قرآن مجید میں موجود ھو یا احادیث پیغمبر میں موجود ھو کہ جس کا اعتبار بھی خدا کی طرف سے ھے یا امام معصوم کی طرف سے کہ جن کا اعتبار پیغمبر اکرم کی وجہ سے ھے، یا اس شخص کی طرف سے ھو کہ جس کو خدا یارسول یا امام نے قانون گذاری کی اجازت دی ھو، ) یعنی اسی طرح قانون کا نافذ کرنے والا بھی خدا وندعالم کی طرف منسوب ھو ، اور وہ خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طور پر معین کیا گیا ھو-اسی طرح قوہ قضائیہ بھی خداوند عالم کی طرف منسوب ھو یعنی قاضی یا تو براہ راست خدا وندعالم کی طرف سے معین ھو یا غیر مستقیم طور پر معین ھو ،اور اگر قاضی کسی بھی طرح خداوندعالم سے نسبت نہ رکھتا ھو تو اس کا کوئی اعتبار نھیں ھے -قرآن مجید میں حضرت داؤد علیہ السلام کو براہ راست قضاوت کے لئے منسوب کرنے کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے :(یَا دَاوُدُ إنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً فِیْ الاٴرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحِقِّ،) (3)”(ھم نے فرمایا) اے داؤد ھم نے تم کو زمین پر (اپنا)نائب قرار دیا تو تم لوگوں کے درمیان بالکل ٹھیک فیصلہ کیا کرو”پیغمبر اکرم کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:( …لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا اٴَرَاکَ اللّٰہ،) (4)”جس طرح خدا نے تمھاری ھدایت کی ھے اسی طرح لوگوںکے درمیان فیصلہ کرو”اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے:(فلََا وَرَبِّکَ لَایُوٴمِنُونَ حَتیّٰ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھمْ…)(5)”پس (اے رسول) تمھارے پروردگار کی قسم اس وقت تک یہ لوگ سچے مومن نھیں ھوں گے جب تک اپنے باھمی جھگڑوںمیں تم کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں”نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کی سیاسی تھیوری ،حکومت ،سیاست اور معاشرہ کی مدیریت اورتمام کے تمام امور خداوند عالم کے تشریعی ارادہ پر ختم ھوتے ھوں-
حوالہ1 سورہ نساء آیت 59-.2 سورہ احزاب آیت6.3 سورہ ص آیت 26.4 سورہ نساء آیت 1055۔ سورہ نساء آیت 65