اسلامى تہذيب و تمدن كے جمود اور زوال كے آخرى اسباب
استعمار كا مفہوم اور تاريخ
لفظ استعمار كا لغوى معنى آباد كرنا ہے_ ليكن سياسى اصطلاح ميں اس سے مراد كسى گروہ كى دوسرے لوگوں يا كسى اور سرزمين پر حاكميت ہے _ ايك اور تعريف كے مطابق يہ ايك سياسى اور اقتصادى مسئلہ ہے جو سنہ 1500ء سے شروع ہوا ، اسى زمانہ سے بعض يورپى ممالك كے استعمار گر لوگوں نے دنيا ميں وسيع علاقوں كو دريافت كيا ، وہاں سكونت اختيار كى اور وہاں سے فوائد حاصل كيے_ جبكہ بعض اہل نظر كے نزديك استعمار كا مفہوم ان قديم ادوارسے متعلق ہے كہ جب قديم حكومتوں نے كچھ ايسے اقدامات كيے مثلاً مصرى ، يونانى اور پھر رومى حكومتوں نے اپنى سرزمين سے باہر چھاؤنياں يا مراكز قائم كيے كہ جنكا مقصد جنگ ، تجارت اور اپنى تہذيب كا پھلنا پھولنا تھا اور يہ اقدامات استعمار كہلائے_كيمونسٹوں نے لفظ استعمار كى جگہ اسكے مشابہ لفظ ‘امپريالزم ‘ كو عنوان بحث قرار ديا _ كلمہ امپريالزم در اصل اس حكومتى نظام كو كہا جاتا تھا جس ميں ايك باشكوہ حاكم دور و نزديك كى بہت سارى سرزمينوں پر حكومت
272كرے يا بالفاظ ديگر بادشاہت قائم كرے ليكن بعد ميں طاقتور ممالك كى ديگر ممالك پر ہر قسم كى بلا واسطہ يا بالواسطہ حكومت كو امپرياليزم سے تعبير كياجانے لگا_(1)جب دنيا كے نقشے پر بعض طاقتور يورپى ممالك مثلاً انگلينڈ ، فرانس ، پرتگال اوراسپين ظاہر ہوئے اسى زمانہ ميں استعمار بھى وجود ميں آيا ، سنہ 1488 ء ميں جنوبى افريقا كے اردگرد نئے دريائي راستے دريافت ہوئے اور سال 1492 ء ميں براعظم امريكا دريافت ہوا تو استعمارى مقاصد اور نئي سرزمينوں كى دريافت كيلئے دريائي سفر شروع ہوئے ،انہوں نے ابتداء ميں تو سونے ، ہاتھى كے دانتوں اور ديگر قيمتى اشياء كى تلاش ميں سفر كيے ليكن آہستہ آہستہ انكے اقتصادى مقاصد بڑھتے گئے _ مثلاً تجارت ، دريافت شدہ سرزمينوں كى خام معدنيات اور زرعى پيداوار كو يورپى سرزمينوں كى طرف منتقل كرنا اور يورپى مصنوعات كو ان سرزمينوں ميں پہنچاناان سب چيزوں نے انكى استعمارى فعاليت كو بڑھايا _استعمارگر ممالك بہت جلد اس نكتہ كو سمجھ گئے تھے كہ دراز مدت تك فوائد حاصل كرنے كيلئے ضرورى ہے كہ ان مستعمرہ ممالك يا سرزمينوں كى سياست اور حتى كہ كلچر كو بھى كنٹرول كياجائے اور انہوں نے يہ تجربہ بعض سرزمينوں يا اقوام پر كيا _ مثلاً براعظم امريكا، افريقا اور بحرالكاہل كے جزائر كى اقوام اور اصلى ساكنين ان استعمارى مقاصد كى زد ميں آئے وہ لوگ معاشرتى طور پر استعمارى طاقتوںكى ابتدائي يلغار اور حملوں سے ڈھير ہوگئے _ لہذا يہ تجربہ يہاں بہت آسان ثابت ہوا _ان سرزمينوں ميں ايسے طاقتور مراكز بنائے گئے كہ جو استعمارى طاقتوں كے كنٹرول ميں تھے_ استعمارى طاقتوں نے ان ممالك ميں علاقائي اداروں اور مراكز كے ساتھ ساتھ ايسے مراكز اور ادارے قائم كيے كہ جنہوں نے تجارتي، معاشرتى اور تہذيبى امور و روابط ميں ايسى جدت پيدا كى كہ جو دراصل استعمارى طاقتوںكے مفادات اور ضروريات كو پورا كرنے كيلئے تھى نہ كہ ان سرزمينوں كے ساكنين كيلئے سودمند تھي_ (2)———————-1) ولفگانگ ج ، مومسن ، نظريہ ہائے امپرياليسم ، ترجمہ سالمى ، تہران ، ص 12_7_2) احمد ساعى ، مسائل سياسى _ اقتصادى جہان سوم ، تہران ص 7، 46_273وہ ممالك جو كچھ حد تك اندرونى طور پر استحكام ركھتے تھے اور استعمارى طاقتيںان پر مكمل كنٹرول نہيں پاسكتى تھيں، مثلاً ايران اور چين وغيرہ يہاں انكى سياست يہ تھى كہ ان ممالك ميں اپنے مفادات كے تحفظ كيلئے كچھ تبديلياں لائي جائيں مثلاً انكى اقتصادى صورت حال كو ايسے تبديل كياجائے كہ وہ فقط عالمى منڈيوں كى ضروريات پورى كريں نہ كہ اپنے اندرونى منڈيوں كى ضروريات كو ملحوظ خاطر ركھيں _(1)
استعمار كے وجود ميں آنے كے اسباباہل فكر ونظر نے استعمار كے وجود ميں آنے اورپيشرفت كرنے كے اسباب كے حوالے سے متعدد نظريات پيش كيے ہيں_ اور اس مسئلے كا مختلف زاويوںسے تجزيہ كيا ہے:اہل نظر كے ايك گروہ نے استعمار كو سياسى پہلو سے تحقيق وتجزيہ كا محور قرار ديا اور بتايا كہ سولہويں صدى اور اس كے بعد كے ادوار ميں يورپ كے بڑے طاقتور ممالك ميں سياسى اور فوجى رقابت استعمار كے وجود ميں آنے اور اس كى وسعت كا باعث قرار پائي_ اس نظريے كا محور حكومتيں اور انكے سياسى مقاصد ہيں اوراس نظرى كے حامى بڑى حكومتوں كى ديگر رقيبوں كے مد مقابل اپنى طاقت اور حيثيت كو بڑھانے كى طلب كو استعمار كے پھلنے پھولنے كا اصلى سبب قرار ديتے ہيں _جبكہ اہل نظر كے ايك اور گروہ كا نظريہ ہے كہ استعمار كے وجود ميں آنے اورپھلنے پھولنے كا بنيادى سبب يہ ہے كہ طاقتور اقوام اور حكومتيں اپنے قومى جذبات اور سياسى اور فوجى صلاحيتوں كو مستحكم كرنے اور محفوظ ركھنے كيلئے وسيع پيمانے پر سرزمينوں پرقابض ہوتى تھيں اور بڑى بڑى بادشاہتوں كو تشكيل ديتى تھيں _ كچھ اہل نظر كے مطابق استعمار دراصل ايك نسلى امتياز كا نتيجہ ہے _ انكے خيال كے مطابق گورے لوگ (يورپي) ذاتى طور پر ديگر اقوام سے برتر ہيں ، انكے كندھوں پر يہ ذمہ دارى ہے كہ دنيا كى ديگر اقوام كے امور كى اصلاح اور انكو مہذب كرنے كيلئے ان پر حكومت كريں _(2)———————1) تيلمان اورس، ماہيت دوست درجہان سوم ، ترجمہ بھروز توانمند ، تہران ،ص 51_20_2) دلفگانگ ج ، سوسن ، سابقہ حوالہ ، ص 12_ 7_ 900 _ 59 _274بعض ديگر دانشوروں كے خيال كے مطابق استعمار ايك اقتصادى مسئلہ ہے كہ جو نئے سرمايہ دارى نظام كے پھلنے پھولنے سے سامنے آيا ہے_ انكے نظريہ كے مطابق چونكہ يورپى ممالك كے اپنے وسائل (خريد و فروش كے بازار، خام مال اور سرمايہ كارى كے مواقع) انكى روزبروز بڑھتى ہوئي ضرورتوں كيلئے ناكافى ہوچكے تھے جسكى بناء پر وہ ديگر ممالك كے امور ميں مداخلت كرنے لگے ،نيز انكا نظريہ يہ ہے كہ استعمار در حقيت ايك كوشش ہے جس ميں مغرب كے بڑے ترقى يافتہ ممالك ديگر ممالك ميں سود پر مبنى تجارتى وصنعتى نظام كو پيش كرتے ہيں جس سے انكا مقصد يہ ہوتا ہے كہ اپنے سرمايہ دارى نظام كى روز بروز بڑھتى ہوئي ضروريات كو ان ممالك كے ذرائع اور وسائل سے پورا كريں _ يہ نظريہ ليبرل اقتصاد والے سرمايہ دارى نظام كے اہل نظر اور ماركسزم كے پيروكاروں ميں ديكھا جاسكتا ہے_(1)
ايشيا ميں استعماراستعمارى طاقتوںميں سے ايشيا ميں داخل ہونے والا پہلا گروہ پرتگاليوں كا تھا_ سن 1498 ء ميں پرتگالى جہازران واسكوڈ ے گاما ، بحيرہ ہند كے ذريعے ہندوستان كے شمال مشرقى ساحلوں تك پہنچا اسطرح ايشيا اور يورپ كے روابط ميں ايك نيا دور شروع ہوا _ اس زمانہ ميں ايشيا كے بڑے ممالك مثلاً ايران ، سلطنت عثمانيہ اور چين مختلف علوم ، زراعت اور تجارت ميں ترقى كے پيش نظر ايك بلند سطح كے حامل تھے_واسكوڈ ے گاما تو تجارتى اہداف كے پيش نظر ان سرزمينوں تك پہنچا تھا ليكن آٹھ سال كے بعد پرتگال كا فوجى سردار ايلبوكرك (2) جديد سرزمينوں كو فتح كرنے اور پرتگالى سلطنت كى توسيع كيلئے ان علاقوں ميں داخل ہوا _ مجموعى طور پر پرتگالى لوگوں كے تجارتي، سياسى ، فوجى اور مذہبى مقاصد تھے ، ليكن بہرحال وہ دنيا———————-1) سابقہ حوالہ ، ص 55_ 25_2- Albauquerque275 كے اس منطقہ ميں اپنى حيثيت برقرار ركھنے ميں زيادہ كامياب نہ رہے_ فقط تجارت اس سے متعلقہ مسائل كى حد تك رہے _يہ نكتہ قابل غور ہونا چاہئے كہ يورپ ميں پرتگالى لوگ ايشيا اور شمالى يورپ كے درميان تجارتى ايجنٹوں كے طور پر كام كرتے تھے_ انہوں نے سولھويں صدى كے آخر تك ہالينڈ كو اپنى تجارتى نظام كے تحت ركھا_ ليكن سترہويں صدى كے اوائل ميں اہل ہالينڈ نے بذات خود ايشيا سے براہ راست تجارت كيلئے كوششيں شروع كيں _اہل ہالينڈ كے بعد انگريز اور پھر فرانسيسى لوگ ايشيا ميں داخل ہوئے_ايشيا ميں اہل يورپ كے استعمارى روابط دو مرحلوں ميں تقسيم ہوتے ہيں: پہلا دور يا مرحلہ سنہ 1498 ء ميں شروع ہوتا ہے اور 1757 ء ميں ہندوستان پر انگريزوں كى فوجى فتح پر ختم ہوتا ہے _ اس دور ميں اہل يورپ كى يہ كوشش تھى كہ وہ اپنى بحرى اور بارودى اسلحہ كى طاقت كے بل بوتے پر ان سرزمينوں سے تجارتى روابط بڑھائيں اور ان علاقوں كى مرغوب پيداوار مثلاً مصالحوں ، كپڑوں اور آرائشے كے لوازمات تك پہنچيں اسى دور ميں بہت سى تجارتى كمپنياں تشكيل پائيں وہ سب تجارتى سہوليات اور اختيارات كے درپے تھيں ان كمپنيوں ميں سے بعنوان مثال ہالينڈ كى فارلينڈ كمپنى (سال 594 1ئ) ، ايسٹ انڈيا كمپنى ہالينڈ، ايسٹ انڈيا كمپنى انگلينڈ (سال 1600 ئ) اور فرانسيسى كمپنى كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے_ يہ سب كمپنياں اپنے ممالك كى طرف سے سياسى اور فوجى پشت پناہى كى حامل تھيں_ اور ايشيا كے مختلف علاقوں پر قابض ہونے كيلئے باہمى سخت رقابت كا شكار تھيں _دوسرا دور سال 1757 ع سے 1858 تك ہے كہ اس دور ميں يورپينز كى اس سرزمين كے امور ميں بالواسطہ مداخلت تھى اور يہ مداخلت بظاہر فوجى صورت ميں نہ تھى مثلا ہندوستان سنہ 1757ء سے ليكر 1858 ء تك ايسٹ انڈيا كمپنى كے تحت تھا اور انگلستان كى حكومت اس كمپنى كى پشت پناہى كرتى تھي_ ليكن اس كے بعد انگلستان كى حكومت نے سرے سے ہى ہندوستان كى حكومت كى باگ دوڑ سنبھال لى اور ہندوستان كى حيثيت برطانيہ كى ايك رياست كى ہوگئي اوروہ اور انگلستان كى پارليمنٹ كے تابع سرزمين كے طورپر جانى گئي _(1)—————————-1) ك ، م پانيكار ، آسيا واستيلاى باخر ، ترجمہ محمد على مہميد ، تہران ،ص 45_ 12_276ايسٹ انڈيا كمپنى اور انگلستان گورنمنٹ كى پاليسى باعث بنى كہ ہندوستان جوكہ خودكپڑے بنانے اور برآمد كرنے والا ملك تھا اب كپڑا درآمد كرنے والا ملك بن گيا اس كى برآمدات صرف روئي تك محدود رہ گئيں _ ايشيا كے جنوب مشرقى اور جنوبى ممالك بھى اس مشكل سے بچ نہ سكے _ اہل ہالينڈ نے انڈونيشيا كو اپنے قبضہ ميں كيا ہوا تھا اور انہوں نے اس سرزمين پر كافى اور چينى كى كاشت كو بڑھايا اور انگريزوں كى ہندوستانى طرز كى اقتصادى تبديلياں يہاں بھى وجود ميں لائے_فرانسيسى لوگ بھى انڈيا اور چين ميں داخل ہوئے اور انہى كى طرز كى استعمارى سياست كو لاگو كيا اسطرح كہ سن 1747 ء سے 1850 ء تك انڈيا اور چين كے تمام علاقے سوائے تھائي لينڈ كے انكے كنٹرول ميں آگئے_ تھائي لينڈ ميں انہوں نے بالواسطہ مداخلت كى _ اپنے استعمارى مفادات كو پورا كرنے كيلئے انہوں نے اس ملك ميں بہت سے امور ميں سہوليات حاصل كيں مثلاً جہاز راني، تجارتى فعاليت اور كسٹم ڈيوٹى سے چھوٹ جيسے امور ميں رعايتيں حاصل كيں يہاں تك كہ انہوں نے كيپيٹلائزيشن كا حق بھى حاصل كيا_اسى طرح چين بھى انكے استعمارى حملات كى زد ميں آيا _ كيونكہ اس بہت بڑى آبادى والے ملك نے استعمارى طاقتوںكى ماركيٹ كو اپنى طرف متوجہ كرليا تھا_ مثلاً يورپى لوگوں بالخصوص انگريزوں نے چين ميں افيون (منشيات كى ايك قسم )درآمد كرتے تھے ، چين كى حكومت نے اس تجارت كو محدود كرنے كيلئے اقدامات كئے جس كے نتيجہ ميں سنہ 1842 ء ميں جنگ افيون واقع ہوئي اور چين كو شكست ہوئي اس جنگ كے ايك سال بعد فرانس اور انگلستان نے چين پر مشتركہ حملہ كيا اور اس ملك كو شكست ہوئي اس كے نتيجہ ميں انہوں نے چين كو مجبور كيا كہ وہ انہيں مختلف امور مثلاً جہاز رانى ، كسٹم اور تجارت وغيرہ ميں بہت سے امتيازى حقوق دے_ يوں چين كا اقتصاد بھى استعمارى كنڑول ميں آگيا اور نابود ہوگيا_ جس كى وجہ سے كئي ميلين چينى لوگوں نے روزگار كى تلاش ميں اپنے وطن كو ترك كيا اور يورپى ممالك اور امريكا ميں سخت كام كرنے پر مجبور ہوئے _(2)———————1) سابقہ حوالہ ، ص171 _ 146_2) سابقہ حوالہ ، ص ص 249 _ 231 _ 143_ 121 _277مشرقى وسطى اور خليج فارس ميں استعماراہل يورپ كى يہ كوشش تھى كہ بحرى راستوں سے نئي نئي جگہوں كو دريافت كرتے ہوئے اپنى طاقت اور تسلط كو بڑھائيں _ اور سب سے زيادہ ثروت ومال كے ذخائر كو جمع كريں _ سولہويں صدى كے ابتدائي سالوں ميں پرتگالى لوگ خليج فارس ميں داخل ہوئے اور پرتگالى بحرى سردارايلبو كرك نے سن 1514 ء ميں جزيرہ ہرمز پر قبضہ كرليا _ انہوں نے 512 1 ء سے گمبرون (بندرعباس ) جو كہ ايك عمدہ تجارتى مركز تھا ، پر بھى قبضہ كيا ہوا تھا_(1)انكا تقريباً ايك صدى تك خليج فارس كے علاقوں پر كنٹرول رہا _ يہاں تك كہ صفوى بادشاہ ، شاہ عباس نے انگريزوں سے ايك قرار داد طے كى اور انكى بحرى طاقت كى مدد سے اس قابل ہوا كہ پرتگاليوں كوہميشہ كے ليے خليج فارس سے نكال دے _ ليكن انگريزوں نے اپنے اثر نفوذ كو بڑھانا جارى ركھا جس كى بڑى وجہ خليج فارس كى تزويرى (اسٹرٹيجك) اہميت تھى _ انہوں نے عرب شيوخ سے بھى قرار داد باندھي، ان شيوخ نے انگريزوں كو بعنوان قاضى ، مصالحت كروانے والے اور ثالث مانتے ہوئے يہ عہد كيا كہ درياى قزاقى ، اسلحہ اور غلاموں كى سمگلنگ سے پرہيز كريں گے _سنہ 1800 عيسوى (فتحعلى شاہ قاجاركے دور ميں) ايران كى طرف سے انگلستان كو بہت سے تجارتى حقوق ديے گئے ، انہوںنے سال 1856 ء ميں بوشہرميں فوج كو لاكر اس پر قبضہ كرليا ليكن آخر كار ايران كے تمام شہروں كو ترك كرديا _(2)مشرق وسطى ميں تيل كے ذخيروں نے دنيا كى ديگر قوتوں مثلاً امريكا اور جرمنى كو دلچسپى لينے پر مجبور كيا_ بيسوى صدى كے اوائل ميں اس علاقے كا تيل انگريزى اور امريكى كمپنيوں ميں تقسيم ہوا _ انگريزوں نے قطر ، كويت ، عراق ، عمان اور ايران كے تيل پر كنٹرول حاصل كرليا جبكہ امريكى نے بھى سعودى عرب اور بحرين—————————1) وادلا، خليج فارس در عصر استعمار، ترجمہ شفيع جوادى ، تہران ،ص 77_ 39_2)سابقہ حوالہ _278كے تيل پر اپنا تسلط جماليا_ البتہ يہ بات نہيں بھولنى چاہئے كہ ايران نے اس استعمارى دور ميں سب سے زيادہ ضرراٹھايا كيونكہ ايران كى جغرافيائي حيثيت ايسى تھى كہ بڑى قوتوں كے ميدان جنگ ميں بدل گيا مثلاً انگلستان اور فرانس ، ہندوستان پر قبضہ جمانے كيلئے باہمى رقابت كا شكار تھے يہ جھگڑا ايران تك بڑھتا گيا اور اس ملك كى سياسى اور اقتصادى خود مختارى پر بہت زيادہ ضربيں لگيں_انيسويں صدى ميں روس اور انگلستان كے مدمقابل ايران كى بار بار عسكرى شكست سے قاجارى حكومت نے اپنے استحكام كو باقى ركھنے كيلئے مجبوراً بہت سے اقتصادى اور تجارتى حقوق ان ممالك كو عطا كيے _ يوں يہ ملك نصف حد تك استعمارى طاقتوںكى زد ميں آگيا _(1)ايران كا اپنا اقتصاد بھى روس و انگلينڈ كى طرف سے سيلاب كى طرح وارد ہونے والى اجناس كے مدمقابل تاب نہ لاسكا اور ايران بھى ہندوستان كى مانند خام زراعتى پيداوار مثلاً روئي اور تمباكو كى حدتك رہ گيا _ استعمارى طاقتوں كے بينكوں (انگلينڈ كے شاہى بينك اور روس كے بينك نے) ايران كے مالى معاملات پر كنٹرول كر ليا اور قاجارى بادشاہوں اور سرداروں كو بار بار قرض ديكر ايران كى سياست اوراقتصاد پر روز بروز اپنا قبضہ وكنٹرول بڑھانا شروع كرديا_انيسويں اور بيسويں صدى كے درميان مشرق وسطى كے تمام ممالك يورپى استعمار گروں كے كنٹرول ميں آگئے _ استعمار گر لوگوں كى كوشش تھى كہ مشرق وسطى كے اقتصاد اور سياست كو مكمل طور پر اپنے قبضہ ميںكرليں اور اسكے علاوہ ان ممالك كى سياسى جغرافيائي سرحدوں كو اپنے مفادات كى روسے خود ترتيب ديں _ ان سرزمينوں كى تقسيم اس انداز سے ہوئي كہ بہت سے قومى ، مذہبى اور سياسى جھگڑوں نے جنم ليا_ مثلاً استعمار نے كردوں كو ايران ، تركي، شام اور عراق ميں تقسيم كرديا_ لبنان ميں بھى مختلف اقوام اور مذاہب پر مشتمل ناہموار تركيب سامنے آئي كہ مختلف مذاہب اور اقوام كے درميان سياسى قوت عدم استحكام كا شكار رہى اور قومى و مذہبي————————-1) فيروز كاظم زادہ ، روس و انگليس در ايران ، ترجمہ منوچھر اميري، تہران ،ص 25_ 15_279جھگڑوں نے جنم ليا_پورى دنيا سے يہودى لوگوں نے استعمار ى طاقتوں كى پشت پناہى كى وجہ سے فلسطين كى طرف ہجرت كى _ اور ايك يہودى حكومت تشكيل ديكر مشرق وسطى اور دنيا ميں ايك بڑى پيچيدگى كو وجود ميں لائے(1) _ مجموعى طور پر مشرق وسطى كے ممالك ميں استعمار ى طاقتوںكے اقدامات نے دنيا كے اس خطہ كو فتنوں اور جھگڑوں كا مركز بناديا كہ اب بھى مشرق وسطى كانام سنتے ہى ذہن ميںلڑائي اور ناآرامى كى ايك تصوير نقش ہوجاتى ہے_مختصر يہ كہ استعمار نے دنيا كے مختلف ممالك ميں داخل ہو كر انكے معاشرتى ، سياسى اور اقتصادى حالات اور كلچر كو بلاواسطہ يا بالواسطہ ايسے متاثر كيا كہ اب بھى ان ممالك ميں استعمار كى موجودگى كے بہت سے اثرات اور نتائج مشاہدہ كيے جاسكتے ہيں ،اسلامى ممالك ان مسائل سے جدا نہ تھے جيسا كہ ہم نے كہا ہے كہ استعمار كى موجودگى سے ان ممالك كے اقتصادى حالات تبديل ہوئے ،قدرتى اور انسانى ذخائر سے ان ممالك كو خالى كيا گيا اور يہ سب ذخائر استعمار ى ممالك ميں درآمد كيے گئے جسكے نتيجے ميں ان ممالك كے اجتماعى ڈھانچے اور طبقات ميں تبديلى واقع ہوئي اور ان سے بڑھ كر ان ممالك كى تہذيب و تمدن پر منفى اثرات پڑے ان سب امور پر نئے استعمار كے عنوان كے تحت بحث كى جائے گي_
استعمار جديدجيسا كہ اشارہ ہوا ہے كہ استعمار كى پہلى صورت ايسى تھى كہ استعمارى طاقتوں نے اپنے رقيبوں كى قوت و طاقت سے موازنہ كرتے ہوئے اپنے عسكرى تحفظ اور اقتصادى مفادات كو بڑھانے كيلئے يہ اقدامات كيے _ يورپى استعمار نے عسكرى فتوحات يا ہجرت كے ذريعے ديگر ممالك پر قبضہ جماليا اور تجارتى كمپنياں قائم كرتے ہوئے ان ممالك كے اقتصاد كو اپنى تجارتى پالسيوں كے سخت كنٹرول ميں لے آئے_————————1) احمد ساعى ،سابقہ حوالہ ، ص 73_280سنہ 1763 ء سے 1870 ء تك استعمار كى پيش رفت ميںسستى آگئي كيونكہ اس عرصہ ميں يورپى ممالك اپنے اندرونى مسائل، آزادى پسند انقلابات اور صنعتى انقلابات سے نمٹ رہے تھے_سنہ 1870 ء سے پہلى جنگ عظےم تك استعمار كى پيشرفت و تحرك بہت وسيع پيمانے پر تھا سارا افريقہ اور مشرق بعيد انكى لپيٹ ميں آگيا ليكن دوسرى جنگ عظےم اور اقوام متحدہ كے وجود ميں آنے كے بعد بالخصوص دو عشروں 1950 اور 1960 ء ميں ہم استعمار كے خلاف (سياسى خودمختارى كے حصول كيلئے)تحريكوں كا مشاہدہ كرتے ہيں _ اس طرح كہ اقوام متحدہ كے ممبر ممالك كى تعداد دوگنى ہوگئي _ان ممالك نے جنرل اسمبلى ميں اپنى كثير تعداد كے باعث اپنے اقتصادي، سياسى اوراجتماعى مسائل كو اقوام متحدہ كى توجہ كا مركز قرار دلوايا_ ان ممالك پرقديم استعمار كے شديد اثرات كے باعث استعمار سے چھٹكارے كى تحريك نہ صرف يہ كہ انكى مشكلات حل نہ كرسكى بلكہ اس نے ان ممالك كو دو راہے پر لاكھڑا كيا _ يہ ممالك ايك طرف تو ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمارى ممالك) سے اقتصادى امداد چاہتے ہيں اور دوسرى طرف اپنے اندرونى مسائل ميں كوئي مداخلت بھى پسند نہيں كرتے جبكہ ترقى يافتہ ممالك اب بھى ان ممالك اور بالخصوص انكے بازاروں اور ابتدائي خام پيداوار كے محتاج ہيں اور چاہتے ہيں ان اہداف تك پہنچيں (1)_مجموعى طور پر ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمار ) كے آزاد شدہ ممالك (سابقہ مستعمرہ ممالك ) سے روابط ايسى صورت اختيار كرگئے ہيں كہ اسے جديد استعمار كا نام ديا گياہے _ اس نئي صورت ميں سابقہ استعمار گر ممالك انہيں اپنے ہاتھوں بنائي ہوئي بظاہر خود مختار حكومتوں اور بين الاقوامى كمپنيوں كے قوانين اور روابط كے ذريعے بغير كسى براہ راست سياسى اور عسكرى كنٹرول كى ضرورت كے ، اپنى اغراض اور مفادات كو پہلے سے بہتر صورت ميں پورا كررہے ہيں _بہت سے اہل نظر كى رائے كے مطابق ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمار )ملٹى نيشنل كمپنيوں اورعالمى اداروں مثلاً عالمى بينك، آئي ايم ايف اور ورلڈ ٹريڈ آرگنائزيشن WTO كے ذريعے مختلف بين الاقوامي————————1) جك پلنو وآلٹون روى ،سابقہ حوالہ ، ص 30_281حالات اور روز بروز بڑھتے ہوئے پيچيدہ معاملات اور روابط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسى كوشش ميں ہيں كہ محروم ممالك يا ترقى پذير ممالك پر تسلط جماليں _ لہذا ہم ان تنظيموں اور عالمگيريت كا تجزيہ كرتے ہوئے كوشش كريں گے كہ جديد استعمار اور اسكے دنيا كے ممالك بالخصوص اسلامى ممالك پر اثرات كا تجزيہ كريں _
ملٹى نيشنل ( كثير القومى ) كمپنياںچند اقوام پر مشتمل كمپنياں بنانے كا نام بنيادى طور پر امريكہ سے شروع ہوا ،ان كمپنيوں كا ہيڈكوارٹر بھى كسى ايك ہى ملك ميں ہے انكے امورآزاد كمپنيوں يا وابستہ كمپنيوں كے ذريعے تمام ممالك ميں انجام پاتے ہيں _ يہ كثير القومى كمپنياں جديد ٹيكنالوجى اور وسيع پيمانے پر پيداوار كى بناء پر ديگر ممالك تك اپنے كام كا دائرہ بڑھانے پر مجبور ہيں_ اس كے بعد كا مرحلہ انہيںديگر ممالك ميں بيچنے كے ليے اداروں كے قيام كا ہے_ يہيں سے چند اقوام پر مشتمل ہونے كى طرف رجحان بڑھتا ہے اور وہ عام طور پر اپنے كام كا دائرہ كار بڑھاتے ہيں تاكہ اسباب اور شرائط قيمت ميں بچت كرتے ہوئے زيادہ سے زيادہ منافع حاصل كريںيعنى چيز كى پيداوار كو بڑھاكر پيداوار پراٹھنے والے اخراجات كى اوسط مقدار كو كم كرديتے ہيں _مثلاً كوكا كولا كمپنى ، جنرل اليكٹرك اورويسٹنگ ہاؤس كمپنياںآزاد كمپنيوں سے قرار داد باندھتى ہيں اور منافع كى شرح ميں سے كچھ فيصد وصول كرتے ہوئے انہيں اجازت ديتى ہيں كہ وہ انكى پيداوار يا خدمات كو اصلى كمپى كے نام سے بنائيں اور فروخت كريں_(1)بعض اہل نظر كے مطابق يہ كمپنياں اپنے سرمايہ كے ساتھ تيسرى دنيا كى اقتصادى ركاوٹوں كو ختم كرسكتى ہيں اور اپنى فعاليت سے ان ممالك ميں جديد طرز كے صنعتى نظام كو منتقل كرسكتى ہيں _ ان سے رقابت كرتے ہوئے ان تيسرى دنيا كے ممالك كى اندرونى كمپنياں اور ادارے بھى فعال ہوجائيں گے جسكے نتيجہ ميں ثمر آور——————1) سابقہ حوالہ ، ص 31_282اقتصاديات، منظم بازار اور آسايش فراہم ہونگيں _جبكہ انكے مد مقابل بہت سے اہل نظر كے مطابق سرمايہ كى وہ مقدار جو ان كمپنيوں كے ذريعہ تيسرى دنيا ميں داخل ہو رہى ہيں اس تعداد سے انتہائي كم ہے كہ جو منافع كى شكل ميں وہ ان ممالك سے نكال رہى ہيں _ يہ كمپنياں مختلف صورتوں ميں ابتدائي معمولى سا سرمايہ لگاتى ہيں مثلاً ميزبان ملك سے حاصل شدہ قرض (كريڈٹ) اور سہوليات سے فائدہ اٹھاتے ہيں پھر اپنے ذيلى اداروں اور كمپنيوں ميں دوبارہ سرمايہ گزارى كرتے ہوئے ڈائريكٹ خالص منافع ان ممالك سے نكال ليتے ہيں _(1)ان اہل نظر افراد كے مطابق ان كمپنيوں كا سرمايہ عام طور پر كام كے ان مراحل پر لگتا ہے كہ جنكا ميزبان ملك كے مقامى اقتصاد كى ضروريات سے كوئي ربط نہيں ہوتا _ استعمار كے دور ميں يہ سرمايہ اور يہ كمپنياں عام طور پر معدنيات اور زراعت كے امور كے متعلق ہوتى تھيں اور ميزبان ممالك كے طبيعى ذخائر سے بہرہ مند ہوتى تھيں_ اور آج يہ ميزبان ممالك ميں صنعتى پيداوار كے كام كرتى ہيں يعنى يہ كثير القومى كمپنياں تيسرى دنيا كے ممالك ميں كسى چيز كے فقط پارٹس تيار كرتى ہيں پھر انہيں باہم جوڑنے كيلئے ديگر ذيلى كمپنيوں يا اصلى ملك كى طرف منتقل كرتى ہيں _اس كے علاوہ ان كمپنيوں كے بلند سطح كى سرمايہ كارى ، جديد ٹيكنالوجى اور پروگرام كے ذريعے فعاليت اس ملك كى اندرونى كمپنيوں سے رقابت كا موقع چھين ليتى ہيں اور انہيں بند كروا ديتى ہيں انہى اہل نظر لوگوں كے مطابق ايسى كثير القومى كمپنياں اقتصادى تسلط كے ساتھ ساتھ اپنے ميزبان ممالك كے سياسى امور ميں بھى دخل اندازى كرتى ہيں تاكہ سياسى صورت حال انكے مفادات كے مطابق ہوجائے اسى طرح ان كمپنيوں كے كام كى وجہ سے ان ممالك ميں معاشرتى يا ثقافتى سطح پر بعض پيچيدگياں پيدا ہوتى ہيں كيونكہ وہ ايسى اقدار اور عادات اپنے ہمراہ لاتى ہيں جو اس ملك كى مقامى تہذيب كے ساتھ سازگار نہيں ہوتي_(2)————————–1) احمد ساعى ، سابقہ حوالہ ، ص 150_ 139_2)سابقہ حوالہ _283بين الاقوامى مالياتى ادارےاقوام متحدہ سے وابستہ بعض ادارے كہ جن ميں سے عالمى بينك اور آئي ايم ايف كى طرف اشارہ كياجاسكتا ہے يہ سب دوسرى جنگ عظےم كے بعد بين الاقوامى سطح پر مالى امور كو منظم كرنے اور مالى بحرانوں كو روكنے كيلئے بنائے گئے تھے ،مثلاً 1930 ء كے عشرے كا مالى بحران قابل ذكر ہے كہ جسميں عالمى سطح پر نرخوں كى تبديلى اور رقابت ميںكرنسى كى تقابلى قيمت گھٹنے سے عالمى اقتصاد كو شديد جھٹكے لگے_اگر چہ يہ ادارے دنيا كے اكثر ممالك سے تعلق ركھتے ہيں ليكن طاقتور اور سابق استعمارى ممالك كا ان اداروں كے بنيادى فيصلوں پر غلبہ مكمل طور پر واضح ہے _ مثلاً آئي _ ايم_ ايف ميں امريكاكا پانچواں حصہ ہے كيونكہ ہر ملك كى رائے كى اہميت اس كے حصہ كى مقدار سے ربط ركھتى ہے _ لہذا امريكا كى رائے كسى فيصلہ ميں بنيادى كردار اد ا كرتى ہے_ (1)چونكہ ترقى پذير ممالك اپنى مشكلات محض براہ راست غير ملكى سرمايہ كارى اور ان كثير القومى كمپنيوں كى فعاليت كى مدد سے حل نہيں كرسكتے اس لئے وہ ديگر ممالك سے قرضہ كے طالب ہوتے ہيں_قرضہ حاصل كرنے كے مختلف طريقوں ميں سے ايك طريقہ يہى ہے كہ ان بين الاقوامى مالى اداروں مثلاً آئي _ ايم _ ايف اور عالمى بينك كى مدد حاصل كى جائے_ ليكن اس قسم كے قرضہ جات حاصل كرنے سے ضرورى نہيںہے كہ قرضہ لينے والے ملك كے اقتصاد پر مثبت اثر پڑے بلكہ اس كے برعكس يہ قرضے مختلف اقتصادى بحرانوں كے موجب بھى بنتے ہيں جيسا كہ ستر كى دھائي ميں تيسرى دنيا كے ممالك كا مقروض ہونے كا بحران ہے_اسى طرح يہ قرضہ جات كا حصول ان بين الاقوامى اداروں كى پاليسيوں كو قبول كرنے سے مشروط ہے اور يہ پاليسياں ان ترقى يافتہ (سابقہ استعمار ى ) ممالك كے مفادات كو پورا كرتى ہيں_————————1) جك يلنووآلٹون روى ،سابقہ حوالہ ، ص 219_284بعض دانشوروں كى رائے كے مطابق آئي ، ايم ، ايف اور عالمى بينك اپنے تسلط كے تحت ممالك كى اقتصادى ترقى كى يہ تعبير كرتے ہيں كہ يہ ترقى پذير ممالك صنعتى ممالك كيلئے اپنے دروازے كھول ديں _ اسى قسم كى ترقى تك پہنچنے كےلئے ضرورى ہے كہ جہاں تك ممكن ہے قرض لياجائے، كسٹم ٹيكس لينے سے ليكر اشياء اور اجناس پرعوام كے ليے ٹيكس كى معافى جيسى شرائط كہ جو تجارتى معاملات كو بہت ضرر پہنچاتى ہيں سے بچنا چاہيے اور بيرونى سرمايہ كارى كو آسان بنانا چاہيے_بالفاظ ديگر تيسرى دنيا كيلئے ضرورى ہوتا ہے كہ وہ ترقى يافتہ ممالك كى اقتصادى حالت سے خود كو مطابقت ديں _ا س ترقى كے سفر پر ہميشہ خسارے ميں رہتے ہوئے اپنى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے غير ملكى قرضوں كے حصول كى خاطر آئي ، ايم ، ايف كے اقدامات پر انحصار كريں_ عالمى بينك اور آئي ، ايم ، ايف كے پسنديدہ قوانين اور تدبير جن ممالك ميں جارى ہوتى ہيں وہاں يہ انكى آمدنى كے تناسب ميں بہت زيادہ خلل كا باعث بنتى ہيں_ بہرحال آئي ، ايم ، ايف كے پروگرامز بين الاقوامى اقتصادى معاملات اور مغربى ممالك كے مفادات كيلئے سود مند ثابت ہوتے ہيں بالفاظ ديگرترقى پذير ممالك كو اس وقت مالى تعاون حاصل ہوگا كہ جب وہ آئي ، ايم ، ايف كى شرائط اور سياسى اقتصادى تدابير كو اپنے ہاں جارى كريں گے _(1)
عالمگير يت (2) اور اسكے نتائجايك اورمسئلہ كہ جسكا آج دنيا تجربہ كر رہى ہے وہ عالمگيريت ہے _خلاصةً يہ بھى كہاجاسكتا ہے كہ عالمگيريت كى ايك تعريف عمل (پراسس) كى صورت ميں اور ايك ‘منصوبے ‘ كى صورت ميں كى جاسكتى ہے_ يعنى بعض اہل نظر كے خيال كے مطابق ذرائع ابلاغ ميں ترقى اور وسعت كى بناء پر انسانى معاملات———————–1) على رضا ثقفى خراسانى ، سير تحولات استعمار در ايران ، مشہد ص 212_ 206_2) Globalization285انتہائي سرعت اور آسانى سے انجام پا رہے ہيں ايسے لگ رہا ہے كہ روز بروز ممالك كى حد بندياں اور سرحديں غير اہم ہو رہى ہيں اور ان ممالك كى حكومتيں غير ملكى ہاتھوں ميں كھيلنے پر مجبور ہيں _مجموعاً كہاجاسكتا ہے كہ دنيا ايك چھوٹى سى كالونى ميں بدل رہى ہے _ دنيا كے كسى گوشہ ميں ايك معمولى سا مسئلہ فورا سارى دنيا كے مختلف نقاط ميں نشر ہوجا تا اہے اس دنيا ميں ممالك اب مكڑى كے جالے كى طرح باہم متصل اور پيوست ہيں كہ انٹر نيٹ كے چينل نے بھى دنيا كو اس شكل ميں لانے ميں بہت زيادہ تعاون كيا ہے تاكہ پورى دنيا ميں ايك ہى تہذيب تشكيل پاياجائے _(1)انكے مد مقابل ديگر اہل نظر لوگوں كے خيال كے مطابق عالمگيريت ايك سازش اور منصوبہ ہے كہ جسے ترقى يافتہ ممالك نے لاگو كيا ہے تاكہ زيادہ سے زيادہ ترقى پذير ممالك يا پس ماندہ ممالك كو لوٹ ليں _انكے نظريہ كے مطابق عالمگيريت فقط تيسرى دنيا كے نقصان ميں ہے _ كيونكہ جب حكومتوں كى حد بندياں اور حكومتوں كا كسٹم كے قوانين اورقيمتوں پر كنٹرول ختم ہوجائے تو ان ممالك كا اقتصاد بھى تباہ ہوجائے گااور وہ ترقى يافتہ ممالك كے احكام وقوانين كے غلام بن كر رہ جائيں گے_انہى اہل نظر كے ايك اور گروہ كے مطابق عالمگيريت كے منفى اثرات صرف ممالك كى اقتصاديات تك محدود نہيںہوتے بلكہ ان استعمارى ممالك كى كوشش بھى ہے كہ اپنى تہذيب وكلچر كو ديگر ممالك پر لاگو كريں مثلاً امريكہ ہالى ووڈ كى فلموں كى صورت ميں كوشش كر رہا ہے كہ امريكى كلچر اور طرز زندگى كو عالمى سطح تك پھيلائے اسى لئے بعض عالمگيريت كو امريكى ہونے كے مترادف سمجھتے ہيں _ ڈيموكريسى اور ليبرل اقدار كے پرچم تلے ايك سياسى اور ماڈل حكومتى نظام كى ترويج ايك اور مشكل ہے كہ جو تيسرى دنيا كے ممالك كى خودمختارى كو كمزور كرنے ميں اپنا كردار ادا كر رہى ہے_ مغربى ممالك اس قسم كے نظام حكومت كى ترويج سے اس كوشش ميں ہيں كہ پورى دنيا كے ممالك (بالخصوص مشرق وسطى كے ممالك) كى حكومتوں كو اپنے پسنديدہ طرز حكومت سے—————————1) اس كے بارے ميں زيادہ مطالعہ كيلئے رجوع كريں ، احمد گل محمدى ، جہانى شدن ہويت ، تہران_286مطابقت ديں _ا س مقصد كے پيش نظر وہ ہر قسم كے اقدام سے دريغ نہيں كر رہے ہيں لہذا عالمگيريت كمزور ممالك كى حكومتوں كے حالات اور سسٹم كو روز بروز تيزى سے تباہ كر رہى ہے او ريہ چيز فقط ترقى يافتہ ممالك كےلئے سود مند ہے _(1)مجموعى طور پر كہاجاسكتا ہے كہ اگرچہ قديم استعمار كا دور ختم ہوچكا ہے اور تحت تسلط ممالك خودمختار ہوچكے ہيں ليكن جو صورت اب سامنے آرہى ہے وہ قديم استعمار سے كئي درجے زيادہ پيچيدہ اور مستحكم انداز سے اپنا كام كر رہى ہے _ جديد استعمار مختلف زاويوںسے اس كوشش ميں ہے كہ ديگر ممالك پر اپنا نفوذ بڑھا كر ان ممالك سے فكرى اور مادى ثروت كو نكالنے كے راستے بنائے كہ جو گذشتہ ادوار سے كہيں زيادہ خطرناك اور تباہ كن ہے _
2_مشرق شناسيعہد حاضر ميں مطالعہ كيلئے ايك اہم سبجيكٹSubject مشرق شناسى ہے _ اس حوالے سے كام كرنے والے مغربى دانشوروں كا دعوى ہے كہ مشرق كے بارے ميں واقعيت پر مبنى تحقيقات كے ساتھ انہوںنے اہل مشرق كو بہت سے مخفى نكات اور زاويوںسے آگاہ كيا ہے جن سے اہل مشرق بذات خود آگاہ ہونے كى استعداد نہيں ركھتے تھے_ ماركسس بھى سمجھتا تھا كہ اہل مشرق ميں اپنے آپ كو اور اپنى صلاحيتوں كو كھولنے اور نماياں كرنے كى استعداد نہيں ہے _ لہذا اس بارے ميں ان سے تعاون كياجانا چاہئے _آيا واقعاً يہ موضوع ايك علمى اور حقيقت پر مبنى موضوع ہے جيسا كہ بہت سے مستشرقين كا دعوى بھى ہے يا جيسا كہ مغرب پر تنقيد كرنے والے اہل نقد ونظر كا نظريہ ہے كہ يہ مسئلہ محض طاقت اور طاقت كو دوسروں پر مسلط كرنے كا بہانہ ہے _ يعنى استعمار گر اہل مغرب كى قوت و طاقت اورتسلط كى توجيہ كا ايك وسيلہ ہے_ مشرق صرف يورپ سے متصل ايك ہمسايہ نہيں ہے بلكہ قدرتى دولت سے مالامال يورپ كے سب سے بڑے مستعمرات ميں سے ہے اور يورپ كى تہذيب كا سرچشمہ بھى ہے نيز تہذيب و تمدن ميں يورپ كا رقيب بھي————————–1) سابقہ حوالہ ص 112_ 105_287ہے_ مشرق شناسى كا مضمون بھى اسى موضوع كى ثقافتى اور نظرياتى تعريف كو بيان كرتا ہے _ اس طرح مشرق شناسى گفتگو كا ايك غالب مغربى موضوع ہے كہ جو خاص اداروں ، نصاب ، يا مطالعات اور استعمارى بيوركريسى پر مشتمل ہے (1)مشرق شناسى كى معروف ترين تعريف اسكى علمى تعريف ہے _ اس كے مطابق جو بھى اپنى تدريس ، تصنيف اور تحقيق كا موضوع مشرق كو قرار دے خواہ اسكا تعلق نفسيات، معاشرت ، تاريخ ، زبان كسى بھى مضمون سے تعلق ہو وہ مشرق شناس ہے جو كچھ بھى انجام دے يہى مشرق شناسى ہے ليكن يہ كالجوں اور يونيورسٹيوں كا مضمون ، مشرق شناسى كے ايك عام معنى سے بھى وابستہ ہے وہ يہ كہ مشرق شناسى دراصل فكر ونظر كى ايك روش ہے كہ جو مشرق اور مغرب كى وجود شناسى اور علم شناسى كے فرق كى بنياد پر استوار ہے _(2)بطور اختصار مشرق شناسى كو بھى مشرق پر قبضہ اور اسے اپنا مستعمرہ بنانے كيلئے مغرب كى ايجاد شدہ ايك روش كے طور پر محور تجزيہ قرار دياجاسكتا ہے چونكہ جب تك مشرق شناسى ايك غالب سياسى موضوع كى مانندمورد تجزيہ قرار نہ پائے گى كبھى بھى اسكى منظم اور مرتب خصوصيات درك نہيں كى جاسكتيں كہ جن كے ذريعے مغرب اور مغربى كلچرنے مشرق كى سياسى ، معاشرتى ، فكرى اور علمى محافل اور ميدانوں سے آگاہى حاصل كى بلكہ اسے تشكيل ديا اور اسے نئے سرے سے ايك ايسا موضوع بنايا جس پر تحقيق كى جاسكتى ہو_ (3)مشرق شناسى پر مطالعہ كب شروع ہواا س موضوع پر محققين باہم اختلاف نظر ركھتے ہيں _ بعض دانشور حضرات مشرق شناسى كے مطالعات كى تاريخ كو بہت قديم سمجھتے ہيںانكے نظر كے مطابق اسكو شرو ع كرنے والا ہيروڈٹ تھا وہ مشرقى اقوام كے بارے ميں مطالعہ كيا كرتا تھا_(4)————————–1) ايڈورڈ سعيد ، الاسشراق ، ترجمہ كمال ابواديب ، بيروت 1981 ، ص 37_2) سابقہ حوالہ ص 38_3) سابقہ حوالہ ص 39_4) احمد سمايلو ، فتش،فلسفہ الاستشراق داثر ھا فى الادب العربى المعاصر ، قاہرہ ، ص 71 _70_288جبكہ بعض ديگر كہ جن ميں سے ايڈورڈ سعيد قابل ذكر ہيں جس نے متعلقہ اداروں پر تحقيق كے بعد شرق شناسى كا آغاز 1312 ء ميں وين كے كليسا كى كو نسل كے پروگرام كے تحت پيرس ، آكسفورڈ، اوينين اور سلامانكا كى يونيورسٹيوں ميں عربي، يونانى ، عبرى اور سريانى زبانوں كے ذريعے مشرق شناسى كے مطالعہ پر كام كے شروع ہونے كو قرار ديا _(1)بعض ديگر دانشور كلمہ ‘مشرق شناسى ‘ اور اسكے مشتقات كا علمى محافل ميں ظہور كے زمانہ كو اس علم كى تحقيقات كے شروع كا زمانہ سمجھتے ہيں ،كيونكہ انگلستان ميں لفظ ‘مستشرق’ سنہ 1779 ء اور فرانس ميں 1799ء ميں رائج ہوا اور 1838ء ميں پہلى بار فرانس كى يونيورسٹى ڈكشنرى ميں مشرق شناسى كا مفہوم ومعنى داخل ہوا_(2)ليكن درحقيقت يورپ ميں مشرق شناسى كے بارے ميں مطالعات كے عروج كا دور انيسويں صدى اور بيسويں صدى كے اوائل كا زمانہ ہے _ اگرچہ خود مشرق شناسى كى تاريخ اس سے كہيں طولانى ہے ، مجموعى طور پر مشرق شناسى كے مطالعات كا دومراحل ميں تجزيہ كيا جاسكتا ہے اور ان دو مراحل ميں سے ہر مرحلہ ميں مشرق شناسى ايك خاص صورت ميں سامنے آتى ہے:1) _ مشرق شناسى كے موضوعات پر مطالعات كا نقطہ آغاز يورپى كليسا كے ساتھ تعلق ركھتا ہے اور اس موضوع پر مطالعات كا مقصد يہ تھا كہ اسلامى نظريہ اور اسكى برترى سے پيدا ہونے والے خطرات سے عيسائي عقائد كا دفاع كرنا تھا اس لحاظ سے اس دور ميں مشرق شناسى ايك دفاعى صورت ميں تھى اور اپنے اندرونى مسائل پر توجہ ركھے ہوئے تھى اس سے انكا يہ ہدف تھا كہ وہ اسلام اور نظريہ اسلام كا حقيقى چہرہ بگاڑ كر اور اسے غير مناسب اور ناپسنديدہ صورت ميں پيش كريں تاكہ وہ يورپى شخص كو اسلامى عقائد سے دور كرسكيں اور اس دور پر غالب عيسائي عقائد ونظريات كا دفاع كرسكيں _(3)————————1) ايڈوڈ سعيد ،سابقہ حوالہ ،ص80_2) نصر محمد عارف ،التنمية السياسية المعاصرة ، ہيرندن فير جينسا ، امريكہ ، ص115_3) نصر محمد عارف ، سابقہ حوالہ ،ص 117_289بعض محققين مثلاً فواد زكريا كے بقول مشرق شناسى كے مطالعہ كا يہى ہدف تھا بلكہ اس علم كى مكمل تاريخ ميں يہى ملتا ہے كہ وہ مشرق شناسى كے ذريعے دراصل اپنے تشخص كا دفاع كرنا چاہتے تھے_(1)بہرحال كم از كم اس حوالے سے قطعى طور پر يہى كہاجاسكتا ہے كہ پہلے دور ميں مشرق شناسى كے مقصد كو عيسائيت سے وابستہ سمجھتا جاتا تھا اور وہ يہ تھا كہ اس دور ميں يورپى ماحول ومعاشرہ پر حاكم عيسائي تہذيب اور نظريات كا دفاع اور كليسا كے اقتدار كى نگہبانى كى جائے_ بالفاظ ديگر اس قسم كے تجزيے اور تحقيقات يورپى دانشوروں اور وشن خيال حضرات كيلئے كى جاتى تھيں_ وہ بھى ايك معين دور ميں ، ايك معين ہدف و مقصد اور خاص روش سے كہ جسكى غرض پس پردہ پنہاں تھى _يہاں مقصد يہ نہيں تھا كہ محض حقيقت تك پہنچا جائے اور يہ ايك خالص علمى تحقيق ہو بلكہ يورپى دانشوروں كى آراء اور دانائي كے ثبوت كيلئے ايك مضبوط ڈھال بنائي جائے اور اس ميں انقلاب پيدا كرنے والے آراء و افكار بالخصوص اسلامى آراء كے مد مقابل دفاع كياجائے اور عيسائيت كى مخالفت ميں جانے والا ہر راستہ بند كرديا جائے_(2)2) پہلے مرحلہ ميں مشرق شناسى كے مطالعات كا محور يورپ اور عيسائي دنيا كے اندرونى مسائل تھے _ اس مرحلہ كے بعد ايسے دور كا آغاز ہوا كہ جس ميں مشرق شناسى استعمار سے وابستہ ہوگئي يہاں بيرونى مسائل اور معاملات محور قرار پاگئے اب اس ميں عيسائي نظريات اور رجحانات كے ساتھ ساتھ مشرقى اقوام پر تسلط كا رنگ ڈھنگ بھى پيدا ہوگيا _ اسى دور كے آغاز سے ہى محققين نے اپنے موضوع مطالعہ سرزمينوں كے بارے ميں حقائق پر مبنى دقيق تصوير اپنى حكومتوں كو پيش كى _ تاكہ وہ حكومتيں ان تحقيقات اور تجزيات كى بناء پر ان مشرقى معاشروں اور تہذيب سے ٹكرائيں اور ان پر تسلط پاتے ہوئے انكے زرخيز منابع اور سرچشمے لوٹ ليں_(3)—————————–1) سابقہ حوالہ ص 131_ فواد زكريا ، نقد الاستشراق وازمة الثقافة العربيہ المعاصرة ، دراسة فى المنہج ، مجلہ فكر للدراسات والابحاث ، ش 10 ، 1986 ، ص 47_ 35_2) نصر محمد عارف ،سابقہ حوالہ ،ص 131 ، محمود شاكر ، المتنبى رسالة فى الطريق الى ثقافتنا ، قاہرة ، كتاب الھلال ، اكتوبر ، 1978، ص 92_3) نصر محمد عارف ،سابقہ حوالہ ص 119_290انيسويں صدى كے فرانسيسى ، جرمن اور انگلستانى نظريات كى تاريخ كا تجزيہ كريں تو مغرب كے اقتصادى اور جغرافيائي توسيع پسندى پر مشتمل رجحانات كا آغاز اور معاشرہ شناسى ميں جديد نظريات كے ظہور كے درميان واضح وابستگى نماياں محسوس ہوتى ہے_ اسطرح سماجيات كى جديد شاخيں محض ايسے استعمارى علوم كى صورت ميں سامنے آتى ہيں كہ جو محكوم اور ماتحت اقوام كے مفادات سے قطع نظر محض استعمار ى حكومتوں كى خدمت كرتى ہيں_(1)بيسويںصدى ميں بھى مشرق شناسى دو صورتوں كے ذريعے مغرب كے دنيا پر تسلط ميں اپنا كردا ادا كرتى تھى :الف _ علم ودانش كے حصول اوراسكے پھيلاؤ كے ليے جديد ذرائع اور وسائل سے فائدہ اٹھانا مثلاً اسكول، يونيورسٹياں اور ذرائع ابلاغ وغيرہ _ تاكہ اہل مشرق كے افكار اورعقليت كو نئے سرے سے تيار كياجائے اور انہيں اس انداز سے مغربى تہذيب ميں مخلوط كياجائے تاكہ مشرق والے اپنے آپ كو فكر و تدبير ميں اہل مغرب كى مانند سمجھيں اور انكى اقدار كو اپناليں_ب)_ بعض مشرق شناس لوگوں كا علمى محدوديت اور تھيورى كى حدود سے نكلنا اور عملى ميدان ميں داخل ہونا تاكہ يورپى حكومتوں كے ديگر ممالك پر تسلط كے اہداف كو عملى جامہ پہنايا جائے_(2)اسطرح جديد مطالعات سياسى اہداف كے پيش نظر انجام پائے ہيں اور غير علمى سرگرميوں سے بھى فائدہ اٹھايا گيا ہے اگرچہ اس مشرق شناسى كے بعض نتائج مفيد بھى تھے ، انہوں نے اس ذريعے سے مشرقى سرزمينوں كے بہت زيادہ حد تك اہم حقائق كو دريافت كرليا تھا ليكن ان حقائق كا رخ كبھى بھى خالص علمى مقاصد كے حصول كيلئے نہ رہا _(3)————————–1) سابقہ حوالہ ص 132_2) احمد ابوزيد ‘لااستشراق والمستشرقون’ در مجلہ عالم الكفر،كويت ص 86 _ 85_3) محمد محمد امزيان ، منہج البحث الاجتماعى ، بين الوضيعة والمعيارية ،حيرندن ، فير جنيا، امريكہ ص 150_291لہذا مشرق شناسى كو مشرق و مغرب كے عمومى تصادم كے تناظر ميں محورتجزيہ قرار دينا چاہئے كيونكہ كہ يہ مشرق شناسى ايسى گفتگو ہے كہ جو اہل مغرب نے مشرقيوں بالخصوص مسلمانوں كو محور قرار ديتے ہوئے شروع كى _(1)اسى لئے يہ ايك قدرتى بات ہے كہ اس موضوع پر بعض مشرقى دانشور حصرات تنقيد كريں البتہ انكى سخت تنقيد صرف مغربى مشرق شناس لوگوں كيلئے نہيں ہے بلكہ اس تنقيد كے دائرہ ميں وہ مشرقى لوگ بھى ہيں كہ جو مغرب كى طرف رجحان ركھتے ہيں اور انكے نظريات پر عمل كرنے كيلئے انہيں اپنے مطالعات سے مطابقت ديتے ہيں (2)بعض معترضين اور اہل تنقيد نے واضح طور پر كہاہے كہ يہ مشرق شناس اسلام كے بارے ميں بات كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتے كيونكہ انكى نظر كے مطابق يہ مشرق شناس ايك علمى تجزيہ كيلئے ضرورى غير جانبدارى كا كوئي بھى معيار نہيں ركھتے _ انكى مسلمانوں كے خلاف صليبى جنگوں ، پيغمبر اسلام (ص) پر تہمتوں ، معنويت اور وحى كے انكار سے بھرى ہوئي تاريخ ، عربى زبان سے ناآگاہى اور مسلمانوں كے مخالف يہوديوں كى حمايت كرنا يہ سب انكى غير جانبدارى كو مشكوك اور مخدوش كررہاہے_(3)البتہ ان لوگوں كى مشرق شناسى پر تنقيد ، انكے نقائص اور خاص جہات كى طرف انكى جانبدارى كا اعتراض صرف مشرقى دانشوروں كى حد تك منحصر نہيں رہا بلكہ خود مغربى دانشوروں اور مشرق شناسوں نے بھى يہى راستہ اختيار كيا اور تنقيد كى _———————1) محمد اركون وآخرون ، الاستشراق بين دعاتہ ومعارضيہ ،ترجمہ ہاشم صالح ، دارالساقى ، بيروت ص 7_2) آركون وآخرون،سابقہ حوالہ ص 189_3)سابقہ حوالہ ص 190_ بانقل از جريدة النور ، 10/10/1984 ، ص 10_292ايونزبريچرڈ كى رائے ہے كہ مشرق شناسى استعمار ى حكومتوں كى خادم رہى ہے ،وہ اس نكتہ كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ اگر استعمار ى حكومتوں كى پاليسى يہ ہے كہ سرداروں اور حكام طبقہ كے ذريعہ اپنے استعمار شدہ علاقوں پر حكومت جارى ركھيں تو اس مقصد كے پيش نظر بہتر يہى تھا كہ ان مشرقى معاشروں ميں انكے سرداروں اور مخصوص فعال افراد سے آگاہ ہوں اور معاشرہ ميں انكى طاقت كى مقدار اور ان اختيارات كو پہچانا جائے كہ جس سے وہ بہرہ مند ہيں كيونكہ اگر ہمارا مقصد يہ ہے كہ ہم ايك سرزمين پر انكے علاقائي قوانين اور رسم و رواج كے مطابق حكومت كريں تو ضرورى ہے كہ پہلے ان قوانين كى نوعيت جاننى چاہئے _(1)ميكسم روڈنسن (2) جو كہ بذات خود مشرق شناسى كے حوالے سے ايك معروف شخصيت ہيں ، وہ اسلامى اصولوں كے بارے ميں ہارٹ مين اور ليون كيٹين كے طرز عمل اور تحرير كى طرف اشارہ كرتے ہيں اور بتاتے ہيں كہ ان دو افراد نے اسلام اور اس كى تاريخ كا تجزيہ كرتے ہوئے محض اقتصادى مسئلہ كو محور قرار ديا ہے اور اسى پر اپنى آراء ديں_ روڈ نسن، ان دونوں كے نظريات پر تنقيد كرتے ہوئے ان نظريات اور آراء كو اس زمانہ ميں موجود اور حالات سے متاثر شدہ قرار ديتے ہيں _ نيز وہ اس بارے ميں ديگر دانشوروں كى تحقيقات ، فعاليت كى طرف اشارہ كرتے ہوئے انكے نتائج كو تباہ كن سے توصيف كرتے ہيں _(3)روڈنسن يورپ ميں مشرق شناسوںكے موضوع اور محور پر تنقيد كرتے ہوئے اس نتيجہ پر پہنچتے ہيں كہ انيسويں صدى اور بيسويں صدى كے اوائل ميں كلاسيك مشرق شناسى اس دور كے افكار ونظريات كى پيروى كررہى تھى كہ جو يورپ كے حالات چھائے ہوئے تھے اور انكى اساس مركزى يورپ اورآئيڈيالزم تھا_(4)—————————-1) ايفانزبريتشارد ، الانثروپولو جيا الاجتماعية ، ترجمہ احمد ابوزيد ، قاہرہ ، ص 162 با نقل از امزيان ص 149_2- Maxime Rodinson3) ماكسيم روڈنسون ، الدراسات العربية والاسلامية فى اوروبا ، دراكون وديگران، ص 48_4) سابقہ حوالہ ص ص 50_ 49_293البتہ روڈنسن ان تمام نقائص كو شمار كرنے كے ساتھ ساتھ يہ نظريہ بھى ركھتے ہيں كہ اس ذريعے سے جو بہت سى معلومات ملى ہيں انكى اہميت كو نظر انداز نہيں كياجاسكتا اور ان بہت سى مفيد معلومات كے ذخيرے كا انكار نہيں كياجاسكتا _ روڈنسن كے بقول آج ہم انكى معلومات كے ذريعے ايسے مطالب تك پہنچ گئے ہيں كہ اس دور كے محققين ان سے بے خبر تھے_(1)اسلامى دنيا ميں مشرق شناسى پر تنقيد كے حوالے سے دو بنيادى اوركليدى نكات پائے جاتے ہيں ;ايك كا تعلق مصرى مصنف انور عبدالملك كے مقالہ ‘مشرق شناسى بحران ميں’ سے ہے يہ مقالہ 1963 ء ميں فرانس ميں نشر ہوا اور دوسراايڈورڈ سعيد كى كتاب ‘مشرق شناسي’ سے تعلق ركھتا ہے كہ جو 1987ء ميں نشر ہوئي _(2)انور عبدالملك كى نگاہ ميں يورپى سياحوں اور عيسائي مبلغين كى اسلام كے بارے ميں آراء جو مشرق شناسى كے اہم ماخذات ميں شمار ہوتى ہيں ،وہ اسلامى عقائد ونظريات كے خلاف ہيں اور سخت كينہ توز، جھوٹى ، جعلى اور تحريف شدہ ہيں _(3)انور عبدالملك نے مشرق شناسى كے مطالعات پر اپنى تنقيد ميں انتہائي دقت كے ساتھ اس مسئلہ پر گفتگو كى ہے كہ مشرق شناسوں نے قابل اطمينان حد تك اپنى ہم عصر مشرقى اقوام كے بارے ميں كام نہيں كيا _ عبدالملك كى نگاہ ميں اسكى وجہ مشرق شناسوں كا مشرق كى جديد تاريخ ميں تحقيق سے فرار تھا_ كيونكہ اس دور ميں استعماريت كى بناء پر وہ ہميشہ ان اقوام ميں مغرب اور اہل مغرب سے دشمنى جيسے حقائق كا سامنا كر رہے تھے_ (4)—————————-1)سابقہ حوالہ ص 5_2)سابقہ حوالہ ص 7_ انورعبدالملك ،الاستشراق فى ازمة، الفكر العربى ، 1983_ ش 31 ص 106 _ 70، ايڈورڈسعيد ،الاستشراق ، ترجمہ كمال ابوديہب بيروت ،1981_3)انور عبدالملك ،سابقہ حوالہ ص 77_76_4) سابقہ حوالہ ، مختلف جگہ سے ہے ، محمد اركون وآخرون ، سابقہ حوالہ،ص 36_294بہت زيادہ اہميت كا حامل ايك اور نكتہ يہ ہے كہ اٹھارہويں ، نويں اور بيسويں صدى ميں اكثر مشرق شناس اپنى حكومت كى وزارت خارجہ كے ملازمين كى حيثيت سے استعمار شدہ ، سرزمينوں پر كام كر رہے تھے_ اس حوالے سے فرانس كے معروف مشرق شناس ارنسٹ رينن كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے جو فرانسيسى استعمار كيلئے پروگرام بنانے والوں ميں سے شمار ہوتا تھا_(1)مشرق شناسى پر اعتراض وتنقيد كے حوالے سے ان بنيادوںكى طرف اشارہ كياجاسكتا ہے كہ جن پر مشرق شناسى قائم ہوتى ہے ان ستونوں ميں سے چند يہ ہيں _:1) يورپى عيسائيت كو ديگر اديان كيلئے ايك معيار سمجھنا اور وہ اسطرح كہ اگر ديگر اديان دين عيسائيت كے اساسى مسائل كے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہ ركھتے ہوں تو انہيں رد كرديا جائے گا_ان اديان كى قبوليت كا معيار صرف يہ ہے كہ يہ يورپ ميں رائج عيسائيت كے ساتھ مطابقت كريں_2)_ مشرقى معاشروں كا تجزيہ وتحليل ان متضاد معياروں اور نكات كى رو سے كہ جو خود يورپيوں كے تجربات كى بناء پر جمع ہوئے ہيں _3)_ نسلى اور قومى تعصب كے ساتھ نگاہ ، يعنى عالم بشر كو دو گروہوں ‘ہم ‘ اور ‘دوسرے’ ميں تقسيم كرنا اور دنيا كى اقوام كو بلند اقوام اور حقير اقوام كے معيار سے تقسيم كرنا _اس ترتيب سے مشرق شناس لوگ يورپيوں كى خصوصيات ميں انہيں تمدن ساز اور صاحبان ايجادات سے ياد كرتے ہيں ،جبكہ سامى اور عرب انكى نگاہ و تحقيق ميں فكر و آراء كے اعتبار سے سطحى ذہن ركھنے والے ہيں _4)_ يورپى تجربہ كو عالم بشريت ميں انقلاب كيلئے قابل عمل معيار سمجھنا اور پورى دنيا كى تاريخ كو يورپ كى تاريخ كى اساس اور يورپ كے دريچہ سے ديكھنا_————————–1) احمد سمايلو فتش ،سابقہ حوالہ ص 124_2955) مشرق كے بارے ميں تجزيہ كرتے ہوئے انتہائي سادگى اور متضاد رويے كا مظاہرہ كرنا كہ جو كچھ بھى يورپ كے علاوہ تھا اسے مشرق سے ربط دينا اور يورپ سے مشابہ قرار دينا اور ان خيالات كے گوناگون مجموعات پر مشرق كے نام كا اطلاق كرنا_(1)مجموعى طور پر مشرق شناسوں اور استعمار ميں وابستگى اور مشرق شناسوں كے استعمار گر حكومتوں كى خدمت كرنے كو ‘ايلن رشين ‘ كے نظر كے مطابق مندرجہ ذيل صورت ميں واضح كيا جاسكتا ہے _بعض مشرق شناس مشرقى ممالك اور اقوام كے بارے ميں مطالعہ كرتے ہيں اور انكى ايك تصوير پيش كرتے ہيں پھر اس تصوير كو ديكھتے ہوئے استعمار گر حكومتوں كو راہنمائي اور نصيحت كرتے ہيں تاكہ وہ مشرقى ممالك پر اپنے تسلط اور حكومت كو جارى ركھيں_عہد حاضر كا مشرق شناس بھى اگر كوشش كرے كہ مشرقى ممالك اور اقوام كے بارے ميں ايك حقيقى تصوير كشى كرے پھر بھى وہ اس قسم كى تصوير كو پيش كركے استعمار ى ممالك كى خدمت كر ے گا _——————————1) نصر محمد عارف ،سابقہ حوالہ ،ص 125_121_296آج بھى مشرق شناسى ايسا مقام ركھتى ہے كہ اگر محقق مشرق كے بارے ميں فكر كرنا اور تاليف كرنا چاہے تو وہ اس راہ ميں مشكلات كى ديواروں كو عبور نہيں كرسكتا كہ جو مشرق كو سمجھنے ميں ركاوٹ كى صورت ميں ركھ دى گئي ہيں ، بالفاظ ديگر مشرق آج بھى مشرق شناسى كى وجہ سے حقائق كے تشنہ اور غير جانبدار محققين كيلئے ايك آزاد موضوع نہيں بن سكتا ،اسكا مطلب يہ نہيں ہے كہ فقط مشرق شناسى كى شكل ميں يا مشرق شناس وغيرہ مشرق كے بارے ميں تحقيقات ميں مشغول ہيں بلكہ اسكا مطلب يہ ہے كہ مشرق شناسى ايك عمومى اور مجموعى مفادات پر مشتمل ايك گينگ كى صورت ميں سامنے آچكا ہے كہ جب بھى يہ غير معمولى اور عجيب و غريب شے يعنى مشرق كے بارے ميں تجزيہ كيا جائے گا يہ گينگ وہاں حاضر وموجود ہوگا اورا پنے اثرات ڈالے گا_(1)
صہيونيزم:لفظ ‘صہيونيزم ‘ باہم مخالف فريقين ميں مختلف اور متضاد معانى او رمفاہيم كے ساتھ استعمال ہوتا ہے_حالانكہ خود صيہونى لوگ اسے ايك مثبت صفت سمجھتے ہيں جو كہ انكے تشخص اور مقاصد كو بيان كرنے كے لئے استعمال كيا جاتا ہے _ جبكہ انكے مخالفين اسے مكمل طور پر ايك منفى صفت سمجھتے ہيں كہ جو انكے منفى تشخص اور مقاصد كو بيان كرنے كے ساتھ ساتھ عالم اسلام پر انكے ظلم وستم سے بھرى ہوئي تاريخ بالخصوص مظلوم ملت فلسطين پر انكے وحشتانك مظالم كى ياد دلاتاہے_(2)مقالہ ‘يہوديت وصہيونزم'(3) كا مصنف جوكہ خود بھى متعصب صہيونى ہے لفظ ‘صہيونيزم’ كے بارے ميں لكھتا ہے كہ ‘ہرٹزل’ (4) نے 1887 ء ميں اپنى كتاب ‘حكومت يہود ‘كى اشاعت اور ہفت————————-1) ايڈورڈسعيد ،سابقہ حوالہ ص 39_2) محمد كريمى ، پشت نقاب صلح ، تہران ص 7_3) Haiko Haumann، Judasimand Zionism، The first Zionist Congress in ، 1897Basel، 1997 PP 11-124)تھيوڈر ہرٹزل ہنگرى ميں پيدا ہوا بعد ميں وين كى طرف نقل مكانى كى ، كچھ عرصہ بھاگ دوڑ كركے اپنا نام صہيونيزم تحريك كے ايك حقيقى بانى كى حيثيت سے تاريخ كے اوراق پر ثبت كروايا _ اس نے سال 1896 ء ميں كتاب حكومت يہود لكھى كہ جسميں اسكے مخاطب مختلف ممالك كے سربراہ تھے ،اس كتاب ميں اس نے صہيونيزم تحريك كى مكمل تھيورى پيش كى _297روزہ ‘دنيا ‘ كو نشر كرنے كے بعد ) اپنى تمام تر كوشش اور گروہى صلاحيتوں كو بروئے كار لاتے ہوئے اس ہدف كو سامنے ركھا كہ صہيونى گروہوں كى ايك مٹينگ بلائي جائے_ ناثان بربناؤوم (1)نے اس تحريك كا نام ‘صہيونيزم’ ركھا اور 1890 ء ميں اس نے پہلى بار اپنے اخبار ميں’خود رہائي'(اپنے آپ كو آزاد كرنا) كے عنوان سے اس كلمہ كو استعمال كيا _ليكن 1897 ء ميں سوئيزرلينڈ كے شہر بال ميں صہيونيزم كا پہلا سمينار منعقد ہوا جس ميں صہيونيزم كى يہ تعريف كى گئي كہ اس سے مراد’وہ دعوت ہے كہ جو صہيونيزم فاؤنڈيشن كى طرف سے دى جارہى ہے اور وہ كوششيں مراد ہيں كہ جو اس حوالے سے فاؤنڈيشن كى طرف سے ہورہى ہيں _ اس تعريف كے مطابق صہيونى وہ ہے كہ جو ‘بال’ كے سمينار پر عقيدہ ركھے اور اسے قبول كرے_عبدالوہاب المسيرى نے صہيونيزم كے بارے ميں كتاب ميں صہيونيزم كى وضاحت ميں لكھتے ہيں كہ سولہويں صدى كے اواخر سے ليكر اٹھاريوں صدى كے آغاز تك صہيونيزم عيسائيت پر استوار ايك غير يہودى دينى مكتب اور اٹھاريوں صدى كے اوائل سے ليكر انيسويں صدى كے اوائل تك صہيونيزم ايك غير يہودى تہذيب تھى جو غير دينى ،خيالى اور صاحب اجزا اساس پر مبنى تھي_(2)صہيونيزم كى تشريح كے حوالے سے مجموعى طور پر تين نظريات ہيں :1_ عالم اسلام كے جغرافيايى اور سياسى قلب ومركز يعنى فلسطين ميں صہيونزم اور اسلام دشمنى كا شگاف ڈالنا حالانكہ فلسطين اسلامى تاريخ كى ابتداء سے اب تك تين براعظموں كے ايشياء ، افريقا اور يورپ كے باہمى ملاپ كے مقام پر ہميشہ اسلامى سرزمينوں سے جغرافيائي اور سياسى طور پر وابستہ رہا ہے _2_ دنيا سے عيسائيت و يہوديت كے ما بين تاريخى بحران (كہ جو بہت سے يہوديوں كى قتل وغارت اور نسلى تعصبات ، وغيرہ كے ہمراہ تھا ) كو عالم اسلام ميں منتقل كرنا اور اسے فلسطين ميں اسلام و يہودى بحران ميں————————-1) Nathan Birnbaum ( 1937-1964 ) 2) عبدالوہاب محمد المسيرى ، صہيونزم ، ترجمہ لواء رودبارى ، تہران ،ص 17_1_298تبديل كرنا ، يہ نقشہ انتہائي زيركى سے دائرہ عمل ميں لايا گيا اور يہ اس اعتبار سے قابل اہميت ہے كہ ايك جملہ ميں اسكى تعبير كريں تو يہ ايك تاريخى سودا ہے كہ جس ميں طے شدہ ايك امر يہ تھا كہ يہوديوں كا حضرت عيسى (ع) كے قتل كے جرم سے برى الذمہ ہونا تھا_3_ نسلى تعصبات اور انتہا پسندى ميں پڑے ہوئے يہوديوں كى ديرينہ آروز يعنى فلسطين ميں ايك يہودى حكومت كا قيام دائرہ عمل ميں لانا _(1)مغربى استعمار گر طاقتوں نے ايك طرف اپنى جديد ترقى يافتہ ٹيكنالوجى كے بناء پر سارے عالم اسلام پر اپنا تسلط جمايا اور دوسرى طرف سے ثقافتى سطح پر حملوں كے ذريعے مسلمانوں كى روحانى شخصيت كو تبديل ، نظرياتى سطح پر كمزور اور انكے وجود ميں دينى عقائد كى جڑوں كوكمزور كيا اور آخر كار صہيونزم كو وجود ميں لاكر مسلمانوں پر تباہ كن جنگ مسلط كردى كہ جو ممكن ہے سالہا سال كى طولانى مدت تك جارى رہے_ اس جنگ نے آدھى صدى سے زيادہ عرصہ تك جارى رہنے كى وجہ سے مسلمانوں كے عظيم سرمايوں كو نگل ليا ہے_مجموعى طور پر پاپائے اعظم كے قديم وجديد مخالفين اگر مقام عمل ميں اسكے اورويٹيكن كے پيروكاروں كے ساتھ كسى بات پر اتفاق نظر ركھتے ہيں تووہ صہيونيوں كے ذريعے فلسطين پر قبضہ ہے_ البتہ مشرق، مشرق وسطى اور عرب ممالك كے عيسائي اس كليہ وقاعدہ سے جدا نہيںہيں_ اسى بناء پر كہا جاسكتا ہے كہ خود دين عيسائيت كہ تجويز يہ نہ تھى بلكہ اس صليبى نظريہ كا بنيادى سبب مغربى صليبى روش ہے كہ جورومى تہذيب سے متاثر ہے _ اور يہى لوگ تھے كہ جنہوں نے قيصر روم كى نيابت ميں گيارہويں سے تيرہويں صدى عيسوى تك دہشتناك جنگيں كيں_ اور يہ نسطورى عيسائي ، فلسطينى اور شامى عيسائي نہيںتھے _آج اہل مغرب جو كچھ بھى عيسائيت كے عنوان سے پيش كر رہے ہيں وہ قديم روم كى آمرانہ تہذيب ہے جس پرعيسائيت كى قلعى چڑھى ہوئي ہے وہ رومى لوگ جو ايك زمانہ ميں حضرت عيسى (ع) كو صليب پر قتل (2)اور——————————1) على اكبر ولايتى ، ايران ومسئلہ فلسطين برا ساس اسناد وزارت امور خارجہ(1937_1897 ء _1317_ 1315 قمرى )تہران ، دفتر نشر فرہنگ اسلامى ، 1376، ص 4_2) جيسا كہ قرآن كريم كى تعبير ہے … وما قتلوہ وماصلبوہ ولكن شبة لہم … (نساء 157)299انہيں صليب پر آويزاں كرنے كيلئے صليب كندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے _انہوں نے صليبى جنگوں ميں اسى عظيم المرتبت شخصيت كے قصاص خون كى خاطر اسى صليب كے نشان كے ہمراہ مسلمانوں كے خلاف تلواريں چلائيں _ اور يہ دونوں اقدام ايك ہى سمت ميں تھے وہى مجموعى تاريخ اور مغرب كے مشرق كے مقابل آنے كى سمت ميں ، وہى مشرق جس پروحى كا سورج طلوع ہوتا رہا ہے اور مغرب پر چمكتا رہا ہے _(1)مشرق وسطى ميں صہيونيوں كى حكومت درست اس زمانہ ميں تشكيل پائي كہ جب مسلمان حكومتيں ضعف وناتوانى كا شكار تھيں بالخصوص عثمانى بادشاہت كہ جو اٹھارہ ويں صدى سے زوال كى طرف بڑھ رہى تھى ، فلسطين پر قبضہ دراصل عالم اسلام كے پہلو پر خنجر مارنا تھا_ ان علاقوں كے باشندوں كو نكالنے كيلئے تين جنگيں ان پر مسلط كى گئيں كہ جنكى بناء كئي ميلين فلسطينى تباہ و برباد ہوئے اور ان علاقوں پرصہيونيوںكا منحوس سايہ مستحكم ہوگيا_ اردن ، شام اور لبنان كے بعض آباد علاقے بن گوريوں كے وارثوں كے قبضہ ميں آگئے اور فلسطين كے ہمسايوں كے بہت سے علاقے بيت المقدس پر قابض حكومت كے تسلط ميں آگئے _ا گر مسلمان ان اسلامى سرزمينوں كو آزاد كروانے كى كوشش كريں تو اہل مغرب كے سياست دان اور پروپيگنڈا كرنے والے ادارے ان پر دہشت گردى كى حمايت كا الزام لگاتے ہيں ليكن دير ياسين ، كفر قاسم ، حرم حضرت ابراہيم (ع) ، گھانا وغيرہ ميں قتل عام كرنے والوں كى كبھى مذمت نہيں ہوئي بلكہ وہ جمہوريت اور انسانى حقوق كے حامى كے عنوان سے ہميشہ تعريف كے لائق قرار پائے اور فلسطينيوں كى دلخراش فرياد كو اقوام متحدہ ميں بھى صہيونزم كى حامى طاقتوں كے ويٹو كا سامنا رہا _(2)مجموعى طور پر صہيونزم كے اصول ميں فقط ايك مذہب كى ايجاد نہيں ہے بلكہ وہ يہوديوں ميں سے ايك قوم اور ايك مملكت بھى بنانا چاہتے ہيں اور كوشش كر رہے ہيں كہ دنيا كے تمام يہوديوں كو توسيع پسندانہ جنگوں كے————————1) على اكبر ولايتى ، سابقہ حوالہ ،ص 7_5_2) امريكى حكومت نے اقوام متحدہ كى تشكيل سے ليكر اب تك سلامتى كونسل كى اسرائيل كے خلاف سے بہت سى قرار داوں كو ويٹو كيا ہے _ رجوع كيجئے على اكبر ولايتى ، سابقہ حوالہ، ص 7_300بہانے سے سرزمين موعود يعنى عظيم اسرائيل ميں جمع كيا جائے : تھاريڈل ہرٹزل كا ايك دوست اور ڈيوڈٹرچ(1) 29 اكتوبر 1899 ميں اسے ايك خط ميں لكھتا ہے كہ ‘ اس سے پہلے كہ بہت زيادہ دير ہوجاے ميں آپ كو نصيحت كرتا ہوں كبھى كبھى ‘ عظيم فلسطين’ ( عظيم اسرائيل ) كا تذكرہ كرتے رہيں، شہربال كى كانفرنس كے پروگرام ميں لفظ’ عظيم فلسطين’ ( عظيم اسرائيل) يا لفظ ‘فلسطين اور اسكے اردگرد كى سرزمين’ ضرور شامل ہوں و گرنہ يہ سب كچھ بے معنى ہوگا كيونكہ آپ پچيس ہزار كلوميٹر مربع سرزمين پر دس ميلين يہوديوں كو خوش آمديد نہيں كہہ سكتے _ (2)موشے دايان نے 1967 ميں كہا تھا: اگر تورات ہمارى كتاب ہے اور اگر ہم اپنے آپ كو قوم تورات سمجھتے ہيںتو ضرورى ہے كہ تورات كى سرزمين ،منصفين اور سفيد ريش لوگوں كى سرزمينيں ہمارے پاس ہوں يقينا اس قسم كے اصولوں كے پس پردہ سرحديں مزيد بڑھنے كے قابل ہوجائيں گي_بن گورين نے ايك اور مقام پر واضح انداز سے كہا:ہمارا مسئلہ يہ نہيں ہے كہ موجود صورت حال كو برقرار ركھا جائے بلكہ ہمارا فرض ہے كہزيادہ سے زيادہ توسيع پسندى كو مد نظر ركھتے ہوئے ايك فعال حكومت تشكيل ديں (3)اسى بناء پر صہيونيزم كے قائدين كى نظر ميں يہ ہدف دو عناصر كے فراہم ہونے كى صورت ميں دائرہ وجود ميں آسكتا تھا: 1)_ امپريالسٹ ممالك بالخصوص آمريكا سے سياسي، اقتصادى اور فوجى امداد كے حصول كا تسلسل 2)_ تمام عرب اور اسلامى ممالك كے مد مقابل اسرائيل كااپنے مفادات كے ليے قابل ذكر ٹيكنالوجيكل برترى كا حامل ہونا (عربوں كى عددى برترى كے مقابل ميں اسرائيل كى فنى برتري) اور وہ ايك ايسى فوجى اور اقتصادى طاقت كا حامل ہو جو عربوں كو جھكنے پر مجبور كرسكے _ اور انہيں يہ باور كرادے كہ اسرائيل————————-1) David Triestsch2) نقل از : اسكار_ ك، آ_ داينيوويچ ، طرح يہوديان قبرس ، نيويارك ، ہرٹزل پبلشر 1962، ص 17ص_3) روہ گارودي، پروندہ اسرائيل و صہيونيزم، سياسى ترجمہ نسرين حكمى ، تہران وزارت فرہنگ و ارشاد ايران ، 1369، ص 133_301كے ساتھ ہر قسم كى جنگ عربوں كى شكست پر ختم ہوگى (1)1995 ميں صہيونى حكومت كا دفاعى بجٹ 3/8 ارب ڈالرز تھا اس وقت امريكہ كى فوجى امداد 81 ارب ڈالرز اور اقتصادى امداد21 ارب ڈالرز تھى اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ايك حدود اربعہ كے اعتبار سے چھوٹا سا ملك كہ جو 25 ميليں آبادى ( 82 فيصد يہودي) پر مشتمل ہے كسقدر اعلى فوجى استعداد كا حامل ہے _ اس حكومت كى ايٹمى پاور كے حوالے سے بھى اختلاف نظر ہے كہ بعض رپورٹس كے مطابق اسرائيل كے پاس بيس سے دو سو تك كے درميان ايٹم بم موجود ہيں يہ حكومت 1967 سے اين پى ٹى پر دستخط كرنے سے ٹال مٹول كر رہى ہے اور اس نے اپنے ايٹمى رى ايكٹرزكو آج تك بين الاقوامى تحقيقاتى ٹيموں كيلئے نہيں كھولا _ (2)عربوں ميں فرقہ پرستى اورتعصبات كو ہوا دے كر انہيں تقسيم كرنے كى سازش سے صہيونيزم كو اپنے توسيع پسندى پر مبنى مقاصد پورے كرنے كا موقع ملتا ہے، صہيونزم عالمى استعمار كے آلہ كار كى حيثيت سے كوشش كررہا ہے كہ عالم اسلامى ميں ‘ تفرقہ ڈالو اور حكومت كرو’ كى سياست كو مد نظر ركھتے ہوئے اسلامى اور عربى تحريكوں كو تباہ كردے_ يہى چيز صہيونى اہل نظر اور مولفين كى تاليفات ميں واضح نظر آتى ہے مثلااورنسٹاين (3) كہتا ہے كہ :ميرا نظريہ يہ ہے كہ عربوں كے عرب اتحاد نعروں كے برعكس ان ميں تفرقہ اور پھر اس كے كچھ عرصہ بعد ہم قومى اور جغرافيائي گروہوں كے ظہور كا مشاہدہ كريں گے مثلا عيسائي لبنان، عراق كے شمال ميں كردوں كا علاقہ ،دروزيوںكا پہاڑى علاقہ اور مملكت اسرائيل يہ سب آخر كار ہلال خصيب (پر بركت چاند )كے مجموعہ ميں اسرائيل كى قيادت ميں اكھٹے ہوجائيں گے_ (4)—————————1) موسسہ الارض ( صرف فلسطين كے حوالے سے مطالعہ كيلئے)، استراتزى صہيونيزم در منطقہ ،انتشارات بين الملل اسلامى ، ص277_ 275_2) محمد زہير دياب ‘ سازمان نظامى ‘ سياست و حكومت ريم صہيونستى ، مركز مطالعات و تحقيقات انديشہ سازان نور ، تہران ، انتشارات مركز اسناد انقلاب اسلامى ، 1377، ص 241، 244_3) Areh ornichtain4) موسسة الارض (فلسطين كے بارے ميں مطالعہ كيلئے مخصوص ) سابقہ حوالہ، ص 182_ 181_302ڈيويڈ كاما جو كہ صہيونى مصنف ہے اپنى كتاب ‘كشمكش كيوں ؟ اور كب تك؟ ‘ميں لكھتا ہے كہ : مشرق وسطى كى پيچيدگى كے بارے ميں راہ حل كى اساس اس پر ہے كہ اسرائيل كے شرق ميں موجود عربى مملكت كو دو حصول ميں تقسيم كيا جائے: شمال ميں شام اور لبنان اور جنوب ميں عراق ، اردن، سعودى عرب ، فلسطين ( اگر تشكيل پاجائے ) اور ديگر عربى ممالك ان دو حصوں كے درميان ايك وسيع زمينى پٹى بنائي جائے كہ جسميں غير عرب طاقتيںہوں اور يہ غير عرب ممالك كى مغرب سے مشرق تك كى ترتيب اسرائيل ، دروزى اور كرد وں پرمشتمل ہو اور اسرائيل شام كے جنوب ميں جبل الدروز كو اپنى حدود ميں ليتے ہوئے موجود ہو جبكہ كرد مملكت ايك جدا آشورى رياست كى حيثيت اسكے ساتھ ضم ہوجائے گي_يہ كرد رياست شام كے مشرق اور عراق كے شمال ميں تشكيل پائے گى كہ يہيں سے لبنان كو بھى امداد فراہم كى جاسكتى ہے كہ جو شام كے عيسائيوں كو ملاتے ہوئے عيسائي اكثريت كى بناء پر عيسائي مملكت ہوگى ،پھر اسرائيل ان ممالك سے قرار داد باندھے گا تا كہ عربوں كے استعمار سے نجات پاليں يوں يہ ممالك عرب ممالك كى حكومتوں كيلئے خطرہ كى تلوار بن جائيں گے _ (1)فلسطين كى تقسيم كے اس غير منصفانہ پروگرام كے بعد 1948 ميں رسمى طور پر مملكت اسرائيل تشكيل پائي كہ عربوں اور اسرائيل كے درميان دشمنى بڑھنے كى وجہ سے 1973، 1967، 1956، 1948 ميں ان ميں چار جنگيں ہوئيں كہ 1967 كى جنگ كا اہم نتيجہ فلسطين اور اسرائيل كے مسئلہ كا اسلامى مسئلہ بن جانے كى صورت ميں نكلا_ كيونكہ اس جنگ ميں اسرائيل نے اپنے ہمسايہ ممالك (اردن، شام اور مصر) كے بعض سر حدى علاقوں پر قبضہ كرليا_ اس دوركے بعد سے تمام اسلامى ممالك اس مسئلہ ميں اكھٹے ہوئے اس مشتركہ مفاد كے حصول كى خاطر1973 ميں جنگ ہوئي اور 1973 ميںتوانا ئي كى بحران كے بناء پر دنيا كے سب سے زيادہ————————-1) سابقہ حوالہ ص 190، 188 نيز ، روكاج ، لبوبا، تروريسم مقدس اسرائيل ، ترجمہ مرتضى اسعدى ، تہران ، كيہان، 1365، ص 76، 68_303توجہ عرب و اسرائيل كے مسئلہ كو حل كرنے كيلئے مبذول ہوگئي اوربہت سى قرار داديں اور مصالحتى كانفرسيں تشكيل پائيں ليكن يہ سب اقدامات اسرائيل كى ہٹ دھرمى اور سركشى كى بناء پر ملت فلسطين كيلئے سودمند ثابت نہ ہوئے ،مثلا 1967 ميں ايگل آلن كا راہ حل ، 1972 ميں شيمون پيرز كا حل، 1978 ميں كمپ ڈيوڈ كى قرارداد، 1981 ميں فہد كى مصالحتى قرار داد _ 1982 ميں ريگن كى مصالحتى قرار داد ، 1989 ميں اسحاق شامير كاراہ حل، 1991 ميں ميڈرڈكى مصالحتى كانفرنس اور اسى طرح ديگر چند قرار داديں سب نا كام ہوئيں_(1)اسرائيلى مملكت اپنى خاص ماہيت ( سياسى صہيونيزم) اور تشخص( جنگوں اور غاصبانہ تسلط كاتسلسل) كى بناء ہميشہ توسيع پسندى ميںپڑى ہوئي ہے ہر تجاوز اور لوٹ مار كے بعد ايك اور زندگى كے قابل قدرتى ذرايع سے مالا مال سرزمين پر طمع كى آنكھ گاڑ ليتا ہے لہذا يہ پھيلنے اور بڑھنے والى سرحديں اور قرار داديںكبھى بھى باضابطہ طور پر قابل اعتماد نہيں ہيں _در حقيقت طاقت كى تكون كہ جو آج اسرائيلى صہيونى سياست كو چلاتى ہے وہ جنگى مجرموں كى تكون ہے _ ان ميں سب سے پہلے بيگن ہے كہ جسے بن گورين نے حقيقى ہٹلر كا لقب ديا ہے ،دوسرا جنرل آريل شيرون جيسے اپنے جلادانہ صفات كى وجہ سے قصاب لبنان كا لقب ملا ہے اور تيسرا اسحاق شامير ہے جسكا ماضى نسل پرستى سے بھر پور ہے _ (2)مشرق وسطى كے حساس علاقے ميں صہيونى حكومت كى ہوس و طمع باعث بنى كہ اسلامى ممالك اپنا بے پناہ بجٹ اسلحہ اور فوجى مقاصد كيلئے قرار ديں ،عسكرى امور ميں ہر روز بڑھتى ہوتى رقم سے علاقہ ميں باہمى جنگ كا خطرہ بھى بڑھتا ہوا محسوس ہو رہاہے _ صہيونى حكومت كے تباہ كن اسلحہ كے كارخانوں نے اس علاقہ كو بحرانى كيفيت ميں ڈال ديا ہے اسى وجہ سے مشرق وسطى كى بعض حكومتيں دنيا ميں اسلحہ كى سب سے بڑى خريدار شمار—————————-1) سيامك كاكالى ، تا ثير طرح نظم نويں جہانى بر صلح اعراب و اسرائيل ، سلسلہ مقالات خاورميانہ شناسى ،مركز پوہشہاى علمى و مطالعات استراتيك خاورميانہ ، فروردين 1375، ص 20_ 14_2) روہ گارودى ، سابقہ حوالہ، ص 170_ 157_304ہوتى ہيں ،مثلا 1995 ميں سعودى عرب نے 1/8 ارب ڈالر، مصر نے 9/1 ارب ڈالر اور كويت نے ايك ارب ڈالر اسلحہ كے حصول كيلئے خرچ كرتے ہوئے اسلحہ كے خريداروں كى فہرست ميں سب سے پہلے آگئے ،گيارہ ستمبر كے حادثے اور مشرق وسطى ميں اغيار كى فوج كى موجودگى كہ جو دہشت گردى سے مقابلے كے بہانہ كى بناء پر آئي ہے اورماضى قريب ميں صہيونى حكومت كى حركات كى وجہ سے مشرق وسطى كا علاقہ دوبارہ بحران زدہ اور فوجى نقل و حركت كا مركز بن گياہے_(1)صہيونى حكومت ذرائع ابلاغ پر تسلط كى اپنى وسيع كوشش ميں يہانتك كامياب ہوگئي ہے كہ اس نے دنيا كى معروف خبرايجنسيوں اور مشہور بين الاقوامى ٹيلى وين چينلوں كو اپنے كنٹرول ميں لے ليا ہے اور يہ چيز اس دور ميں بہت اہم محسوس ہوتى ہے كہ جسے (communication)(روابط كے دور )سے تعبير كيا گيا ہے اور دنيا ايك چھوٹے سے قصبے كى شكل ميں آگئي ہے ،ذرائع ابلاغ پر تسلط كى بنيادى وجہ لوگوں كے اذہان اور انكے ماحول كو اپنے مقاصد كيلئے ہموار كرنا ہے اور مجموعى طور پر يہ سب كچھ اسلام اور مسلمانوں پر ثقافتى حملے كيلئے انجام پايا ہے (2) _ان سب كے باوجود اسلامى بيدارى اسلامى ممالك كى سياسى طاقت كى صورت ميں تشكيل پارہى ہے_مسلمان اپنے اسلامى تشخص اور كلچر كے سہارے سے اپنے ابدى و تابندہ مشن كو زندہ كرنا چاہتے ہيں ، بہت سى اسلامى تحريكوں كا وجود مثلا حزب اللہ كى انقلابى تحريك ، حماس، اسلامى جہاد اور انتفاضا (صہيونى دشمن كے مقابلے ميں مزاحمت كى تحريك )اور عالم اسلام كى ديگر تحريكيں اسى حقيقت كو روشن كر رہى ہيں ،عالمى كلچر كي————————-1) جہانگير معينى علمداري،’ ملاحظاتى دربارہ طرح نظم امنيتى جديد در خاورميانہ ‘ فصلنامہ مطالعات خاورميانہ ش ، ش4، زمستان1380، ص 63، 68، 67 ،نيز رجوع كريں، بين اسدى ، حادثہ 11سيپتامبر و آثار آن بر موقعيت سياسى خليج فارس ، فصلنامہ مطالعات خاورميانہ ، س 9، ش 3 ، پائيز 1381 ص 52 _ 46_2) محمد على ابطحى ، ‘ بررسى ابعاد تہاجم فرہنگى صہيونستى بہ جہان اسلام وعرب’ ، راہبرد ، ش 5، زمستان 1372 ، ص 60، فواد بن سيد عبدالرحمان رخاعي، نفوذ صہيونيسم بر رسانہ ہاى خبرى و سازمانہاى بين المللى ‘ ترجمہ حسين سر و قامت ،تہران ،ص 76_ 75_305تشكيل ميں مسلمانوں كى تہذيب اور ماضى واضح ہے اس تمدن كى يورپ، ايشيا اور شمالى افريقا ميں تاريخ اس حد تك مكمل اور وسيع ہے كہ كوئي بھى تہذيب يا ثقافت تاريخ ميں اس حدتك استوار نہيں رہا _ اس ثقافت اور تہذيب پر تكيہ كرنابلا شبہ ايك عظيم سرمايہ ہے كہ جو عالم اسلام ميں دينى اور قومى سطح پر اعتماد كى فضا كو مستحكم كرتا ہے اور اسے صہيونزم كے پست كلچر كے مقالے ميںمحفوظ ركھتاہے (1)دوسرى طرف سے اسرائيلى حكومت ايك سرگردان اور آوارہ معاشرہ كى حيثت اختيار كرچكى ہے اس معاشرہ ميں عدم استحكام كامركز انكے قومى تشخيص ميں كسى ايك نمونہ پر متفق نہ ہونا ہے ،يہ معاشرہ بے پناہ تضادات كے ساتھ محض اقتصادى سسٹم اور بيرونى سياسى حمايت كے كى بناء پر اپنے وجود كو بحال ركھے ہوئے ہے حالانكہ اندرونى طور پر معاشرہ تزلزل كى كيفيت سے دو چار ہے_ يہودى معاشرے ميں نسل پرستى كى پيچيدہ مشكل اپنى جگہ باقى ہے كہ جسكى بناء يہ قوم واضح طور پر تفريق اور امتيازى سلوك كے مختلف رويوںسے دوچار ہے يہى چيز اسكى بنيادوں كو كمزور كر رہى ہے (2)اسلامى ممالك پر اہل مغرب كے استعمار كى بنيادى وجہ وہاں كے لوگوں كے دينى اور نظر ياتى اصول فراہم كرتے ہيں انكے مد مقابل عالم اسلام كو بھى چاہيے كہ وہ اسلام ، اسلامى تہذيب اور اسلامى تشخص كى طرف لوٹ جائے اور صہيونزم كے ساتھ جنگ كو عربى جنگ كى بجائے اسلامى جنگ كے عنوان سے لے اور پھر صہيونزم اور عالمى استعمار كا مقابلہ كرے_ (3)————————1) محمد على ابطحي، سابقہ حوالہ، ص 72_ 69_2) اصغر افتخارى ، ابعاد اجتماعى برنامہ امنيتى اسرائيل، دستور كارى براى قرن بيست و يكم ،فصلنامہ مطالعات س 4_ ش 4، پائيز 1382، ص 8_ 6 نيز جامعہ شناسى سياسى اسرائيل ، تہران، مركز پوہشہاى علمى و مطالعات استراتيك خاورميانہ، 1280، ص 138_ 117 _3) ‘ بيانات رہبر معظم انقلاب اسلامى ديدار شركت كنندگان در ھمايش جہان اسلام ‘ گفت گو ، س 17، ض 177، بہمن 1382، ص 18_ 14_