اسلامى بيداري

254

1) عرب دنيا ميں اسلامى بيدارى :ايرانيوں كى مانند عرب بھى جب سے يورپى حكومتوں سے آشنا ہوئے تھے كى اسى زمانہ سے اپنى پس ماندگى اور يورپ كى ترقى سے آگاہ ہوگئے تھے _اب تك اس پسماندگى كے خلاء كو پر كرنے كيلئے بہت سے راہ حل سامنے آئے ہيں ان ميں سے ايك اسلام (بحيثيت ايك دين اور تمدن كے ) كى طرف لوٹنا ہے _ (1) اس پسماندگى كى وجوہات كے بارے ميں جو جوابات دے گئے ہيں انہيں ہم چار اقسام ميں تقسيم كريں گے_ البتہ يہاں يہ نكتہ قابل غور ہونا چاہيے كہ يہ تقسيم ان جوابات كے بارے ميںہے كہ جو اسلامى بيدارى كى بحث ميں عرب دانشوروں كى طرف سے سامنے آئے ہيں_ لہذا ان كا نيشنلزم، سوشلزم اور آئيڈلزم سے كوئي ربط نہيں ہے يہ رحجانات مندرجہ ذيل ہيں : 1_ عرب تمدن پسند 2_ مسلمان تمدن پسند 3_ اسلامى روايت پسندى 4_ اسلامى اصول پسندي_مندرجہ بالا تقسيم كى بناء پر پہلے رحجان كے بڑے مفكرين ميں سے طہطاوى اور خيرالدين تيونسي(2) ہيں دوسرے رحجان كے سب سے بڑے مفكر سيد جمال الدين اسد آبادى اور كچھ حد تك محمد عبدہ ہيں جبكہ تيرى رحجان كے اصلى سخن گو رشيد رضا ہيں اور چوتھے رحجان كے فعال مفكرين ميں سے حسن البنا سيد قطب اور اخوان المسلمين ہيں_تاريخى لحاظ سے ہم جوں جوں موجودہ زمانہ كے نزديك ہوتے جاتے ہيںاسلامى اصول گرائي كا رحجان——————–1) محمد عمارة ‘ الاسلام و القوميہ العربيہ و العلمانية ‘ قضايا عربية السنة 7 ،1980 العدد 5 ،ص 69_2) بنقل فرہنگ رجايي، انديشہ سياسى معاصر در جہان عرب ،تہران 1381، ص 168_310ديگر فكرى رحجانات پر غلبہ پاجاتا ہے اور ديگر فكرى رحجانات كو پس منظر ميں لے جاتاہے_اس رحجان ميں اہل مغرب سے مخالفت كا عنصر بڑھ جاتا ہے اور جنگجويانہ صفات واضح ہونے لگتى ہيں اور يہ رجحان اسلامى ممالك كى حكومتوں سے دورى اختيار كرنے لگتاہے ،اسميں سلفى نظريات مستحكم ہونا شروع ہوجاتے ہيں يہ ايك فكرى تحريك سے بڑھ كر ايك عوامى اور سياسى تحريك ميں تبديل ہوجاتا ہے _ اس قسم كے انقلابات ميں ايك اہم مسئلہ گذشتہ نظريات كى شكست ہے كہ جسكى بناء پر اصول پسند رحجان كى تشكيل ہوتى ہے_الف) عرب تمدن پسند رحجان: نئے سرے سے اسلامى بيدارى كى لہر مصر ميں طہطاوى اور تيونس ميں خيرالدين پاشا تيونسى كے ذريعے شروع ہوئي _ طہطاوى كے افكار كا محور يہ تھا كہ مسلمان يورپى علوم كو حاصل كيے بغير ترقى نہيں كرسكتے _ (1)طہطاوى يورپ كا بہت تعريف سے ذكر كرتے ہيں اور انكے سياسى شعبوں كو تحسين كى نگاہ سے ديكھتے ہيں يہ مفكر اصل ميں مغرب كى استعمارى حيثيت كہ جو اسلامى معاشروں كى تنزلى كا باعث قرار پائي اس سے غافل ہيں ،اس سوال كا جواب كہ انكے رحجان كو’ عرب تمدن پسند ‘_رحجان كا نام كيوں ديا گيا ؟يہ ہے كہ طہطاوى فقط عربوں كى فكرى ترقى پر مصر ہے_خيرالدين تيونسي، طہطاوى سے بھى زيادہ آگے بڑھ جاتے ہيں اگر چہ انكے افكار كى اساس وہى يعنى طہطاوى كى مانند تھى _ انكى فكر دو بنيادوں پر استوار تھى پہلى يہ كہ اسلامى فقہ اقتصادى اور ثقافتى سطح پر زندگى كى ترقى اور بہبود كيلئے جارى ہونے والى اصلاحات كو منع نہيں كرتي،دوسرا يہ كہ يورپى تہذيب كى اساس چونكہ زيادہ تر ان چيزوں پرقائم ہے كہ جو ماضى ميںاسلام نے انہيں عطا كيں اس ليے اب يہ مسلمانوں كى ذمہ دارى ہے كہ انہيں لوٹا ئيں_ (2)————————1) حميد عنايت، سيرى در انديشہ سياسى در اسلام، ترجمہ بہاء الدين خرمشاہي، تہران، خوارزمى ص 34_2) حشام شرابي، سابقہ حوالہ ،ص 55_311مجموعى طور پر كہا جاسكتا ہے كہ عرب تمدن پسند رحجان كى مندرجہ ذيل خصوصيات ہيں :(1)1: مغربى تہذيب و تمدن كے اصل ہونے اور اسكى بڑائي كوقبول كيا گيا ہے اور مسلمان يہ توانائي اور استعداد ركھتے ہيں كہ وہ مغربى فنون اور تمدن كو حاصل كرنے ميں كامياب ہوں كيونكہ مغربى علوم وہى اسلامى علوم ہى ہيں_2: اس رحجان كے يہ دونوں برجستہ مفكر حكومتى عہدہ دار تھے مغربى تہذيب اور تكنيك كے حصول اور مسلمانوں كى ترقى كو حكومت كى ذمہ دارى شمار كرتے تھے ،اسى ليے انكى تحريك كو لوگوں كى سياسى تحريك شمار نہيں كيا جاسكتا اور نہ ہى عوام انكے سب سے پہلے مخاطب تھے _3: انكى روش اور انداز مصلحانہ ہے وہ يورپى اداروں اور شعبہ جات كے تجربوں كى بنياد پر اپنے معاشرے كے سياسى اور معاشرتى اداروں اور شعبہ جات كى اصلاح كرنا چاہتے تھے_4: يہ گروہ اسلام اور يورپى تمدن ميں بنيادى طور پر تضاد كے امكان كے بارے ميں غور نہيں كر رہا تھا، كيونكہ وہ اس بات پر يقين ركھتے تھے كہ بنيادى طور پر مغربى تہذيب كا سرچشمہ اسلام ہے اور يہ يورپى علوم وہى گذشتہ ادوار ميں اسلامى علوم كا ترجمہ ہيں ،لہذا انكا مقصد يہ تھا كہ يورپى تہذيب كو اپنے ہاں لانے كيلئے كوئي معيار بنايا جائے انكى نظر كے مطابق فقط غير دينى شعبہ ہائے زندگى كى بہترى كى ہى ضرورت ہے_5: يہ لوگ اسلامى امت كى وحدت كے افكار كے حامل نہ تھے انكى نگاہ مكمل طور پر اپنے وطن كى حد تك محدود ہے _ يہاںتك كہ جب بھى عربى وطن كے بارے ميں گفتگو كرتے ہيں تو انكى مراد تمام عرب زبان ممالك نہيں ہيں بلكہ اصل ميں انكامقصود ايك ملك ہے مثلا طہطاوى كى عربى وطن سے مراد مصرہے _ب) مسلمان تمدن پسند رحجان: اس رحجان اور پہلے رحجان ميں كچھ مشتركہ امور ہيں حقيقت ميں اسلامى بيدارى كى آواز اٹھانے والوں كى دوسرى نسل كو مسلمان تمدن پسند كا نام ديا جاسكتا ہے كہ اس گروہ كى مشہور و——————————-1) حسن حنفى ، الاصولية الاسلامية ، قاہرہ، مكتبہ مدبولي، ص 20_312ممتاز شخصيات سيد جمال الدين افغانى اسد آبادى اور شيخ محمد عبدہ ہيں البتہ اس فرق كے ساتھ كہ سيد جمال پہلى نسل كے زيادہ قريب ہيں جبكہ شيخ عبدہ اپنے بعد والى نسل اسلامى روايت پسندوںكے زيادہ قريب ہيں، سيد جمال كى اصلاحى تحريك كے مختلف پہلو ہيں ليكن انكى اس اصلاحى تحريك كى اصلى روح عالم اسلام ميں ‘جديديت ‘ پيدا كرنا ہے _ سيد جمال كا ہدف يہ ہے كہ عالم اسلام اور مسلمان عصر جديد _ اسكى خصوصيات اور اسكى تشكيل كے بنيادى اسباب سے آشنا ہوں اور ايسے اسباب فراہم كيے جائيں تاكہ مسلمان بھى اس جديد دنيا اور نئي تہذيب ميں كوئي كردار ادا كريں_اور وہ علم و عقل جيسے بنيادى عناصر اور ديگر عناصر مثلا جمہورى سياسى شعبہ جات كى مدد سے اپنى طاقت كو بڑھائيں_شايد اسى ليے كہا جاسكتا ہے كہ سيد جمال كى توجہ كا بنيادى محور تشخص كا حصول نہ تھا بلكہ يہ تھا كہ كيسے عالم اسلام كو طاقت و توانائي دى جاسكتى ہے ،سيد جمال كے نظريہ كے مطابق مغرب كى جديد اور ماڈرن تہذيب اسلامى اصولوں كى اساس پر سامنے آئي ہے، يہاں سيد جمال عرب تمدن پسند رحجان ركھنے والوں كے برعكس دو بنيادى چيزوںپر تاكيد كرتے ہيں پہلى يہ كہ اقوام كى زندگى ميں دين كا كردار ناگزير ہے ،دوسرا يہ كہ جديد زندگى كے تقاضوں كے مطابق جديد شعبہ ہائے زندگى اور نئي فنى مہارتوں كى ضرورت ہے _ (1)سيد جمال كے دو اصلى مقاصد يعنى اتحاد بين المسلمين اور مغربى تسلط كے خلاف جنگ انكى فكر كو عرب تمدن پسند رحجان والوں سے مختلف شمار كرتے تھے_ سيد جمال كى نظر ميں عالم اسلام ايك متحد مجموعہ كى شكل ميں ہے_ كہ جسكے اتحاد اور منظم ہونے كى صورت ميں مسلمان يورپى تسلط كے مقابلے ميںدفاع كرسكتے ہيں _ لہذا سيد جمال كى يورپ اور انكے كردار و رفتار پر نگاہ پہلے گروہ كى نسبت بہت زيادہ گہرائي پر مبنى تھي_————————–1) سيد جمال نے عروة الوثقى كے اكثر مقالات اور بعض فارسى مقالات ميںاس مسئلہ پر تاكيد كى ہے بعنوان مثال رجوع كريں _ سيد جمال الدين اسد آبادى ، مجموعہ رسائل و مقالات، با سعى سيد ہادى خسروشاہى ،انتشارات كلبہ شروق ص 134_ 132_313اگر چہ سيد جمال علم و صنعت ميں يورپ كى ترقى كو قبول كرتے تھے مگر يورپ كے عالم اسلام پر تسلط پر بہت زيادہ حساسيت ركھتے تھے لہذا انہوں نے اپنى صلاحيتوں كا بيشتر حصہ اس تسلط كے خلاف جہاد ميں صرف كيا ،اس جہاد ميں كبھى وہ اسلامى حكومتوں سے مخاطب ہوتے تھے اور كبھى اسلامى اقوام كو خطاب كرتے تھے _ يہى چيزباعث بنى كہ انكى سياسى تحريك لوگوں كى طرف سے ايك عوامى تحريك كى شكل ميں سامنے آئي انكى فعاليت پہلے گروہ كے مصلحانہ افكار سے كہيں زيادہ بڑھ گئي _يہانتك كہ يہ تحريك ايران ميں انقلابى رنگ اختيار كرگئي_ اور اس نے ناصر الدين شاہ كے آمرانہ نظام كے مقابلے ميں علماء اور عوام كو انقلاب كيلئے ابھارا اورسلطنت عثمانيہ ميں يہ سياسى تحريك عثمانى سلطان كى مخالفت كى شكل ميں سامنے آئي اور شايد ‘باب عالي’ كے ہاتھوں اسكى موت كا باعث بھى قرار پائي _سيد جمال كے جدت پسندانہ افكار كا ايك اور بنيادى نكتہ يہ تھا كہ جس وقت دہ واضح طور يہ مسلمانوں كو اسلامى سرزمينوں پر يورپ كے تسلط كے خلاف ابھار رہے تھے تو ساتھ ساتھ مغرب كى علمى اور صنعتى ثمرات سے سيكھنے اور استعمال ميں لانے پر تاكيد كرتے ہوئے مغرب كى تقليد كو مسترد بھى كر رہے تھے ،اسى ليے وہ اسلامى معاشروں كى موجودہ صورت پر بھى تنقيد كرتے رہے تھے_(1)مجموعى طور پر مسلمان تمدن پسند گروہ كے بنيادى محور يہ تھے :1_ مسلمانوں كى تہذيب كى تشكيل اور انكے اقتدار كى وسعت كيلئے عقل ، علم اور اسلامى توانائي و استعداد كى بنيادى اہميت پر تاكيد 2_ اسلامى امم ميں اتحاد اور يكجہتى اور يورپى تسلط كے خلاف جہاد ; يہ محور مختلف ادوار ميں تشكيل پائے اور پھر تغير و تبديلى كا شكار بھى ہوئے_ج ) اسلامى روايت پسند رجحان: اگر مسلمان تمدن پسند رجحان والے اسلامى معاشروں ميں علمى احياء اورجديد افكار كو جذب كرنے اور يورپ كى جديد فنى ايجادات كے استعمال كو اسلامى احياء سے تعبير كرتے تھے تو اسلام روايت پسند رجحان والے بالخصوص انكے برجستہ مفكر رشيد رضا كہ جو سلفى روش كے عالم تھے،————————–1) سابقہ حوالہ ص 121_314اسلامى احياء كو ‘ اسلامى بزرگان’ كى سيرت و روش كى طرف لوٹ جانے سے تعبير كرتے تھے_ كہاجاسكتا ہے كہ اسلامى حكومتوں كى عصر جديد كى علمى و سياسى ترقى كو جذب كرتے ہوئے گذشتہ گروہوں كے افكار كو لباس حقيقت پہنانے ميں ناكامى اور اسكے بجائے نام نہاد ‘ تہذيب و ترقى ‘ كے جال ميں پھنسنے نے اسلامى روايت پسند رحجان والے لوگوں كو مغربى ثقافت اور اسلامى تشخص كے پامال ہونے كے خطرات پر بہت زيادہ پريشان كرديا تھا اور يہ اسلامى روايت پسند رجحان ان پريشانيوں كا جواب تھا_ہراير دكمجيان سيد جمال، عبدہ اور رشيد رضا كو سلفى رحجان كے حوالے سے مورد مطالعہ قرار ديتا ہے (1) حالانكہ يہ تركيب واضح خطاء ہے كيونكہ اسلامى روايت پسند رحجان يقينا جدت پسند رحجان سے دور ہوكر حتى قدامت پسندى كى طرف مائل ہوجاتاہے_جدت پسند لوگ عصر جديد كے تقاضوں كو مد نظر ركھتے ہوئے اسلامى مفاہيم كى اصلاح اور ان تقاضوں سے ہم آہنگى كے درپے تھے جبكہ روايتى اسلام پسند سختى سے اسلامى روايات كے پابند تھے اور مغربى تہذيب كى ثقافتى اور سياسى پيشقدمى كے خلاف حساسيت ركھتے تھے_ مجيد خدوّرى بالكل صحيح انداز سے رشيد رضا كو روايت پسند رحجان كى حدود ميں جن كو جديديت كى چمك دمك دى گئي ہے ،محور تجزيہ قرار ديتے ہيں اگر چہ رشيد رضا بظاہر جدت پسند ہيں ليكن اندورنى طور پر انكا روايت پسند رجحان سے تعلق واضح تھا_رشيد رضا كى سلفى روش نے انہيں احاديث پر توجہ ميں افراط كى حد تك بڑھاديا جس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ روايت پسند رجحان ركھتے تھے جس نے انہيں وسيع النظر نہ ہونے ديا ،اسى ليے وہ سيد جمال كے اتحاد و وحدت پر مبنى نظريا ت سے بھى دور ہوگئے اور انكى شيعہ مسلك كے بارے ميں معاندانہ روش شيعوں كے بارے ميںسلفى دشمنى كى ياد دلاتى ہے_—————————1)ہراير دكمجيان ، جنبش ہاى اسلامى معاصر، ترجمہ حميد احمدي، كيہان 1370 ص 33_315بہرحال رشيد رضا كے روايت پسند سياسى نظريات ميں قانون كى حكومت ،آزادى اوران شرائط پر تاكيد نہ تھى كہ جن پر طہطاوى اور سيد جمال نے اپنے جدت پسندرحجان كى بناپربہت زيادہ زور ديا تھا بلكہ وہ اس اسلامى نظام كو دائرہ عمل ميں لانے كے درپے تھے كہ جو صدر اسلام كے تخيل پسند عناصر پر استوار تھا جو ہر قسم كے دنياوى رحجانات، قومى اور مسلكى تعصب سے پاك تھے ( 1)رشيد رضا كے نظريہ كے مطابق مغرب والوں نے ترقى كے مراحل كو طے كرنے كيلئے اسلامى اصولوں پر عمل كيا جبكہ خود مسلمانوں نے ان اصولوں كو چھوڑديا ہے_ اگر چہ رشيد رضا نے اپنے روايت پسند رحجان كى طرف بڑھنے ميںمغرب والوں كو موردبحث قرار نہيں ديا بلكہ انكے افكار كى روش سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اہل مغرب كى نسبت معاندانہ انداز ركھتے تھے اور ان ميں مسلمان تمدن پسند اور عرب تمدن پسند رحجان والوں كى طرح كى روشن بينى كا فقدان تھا(2)_حسن حنفى رشيد رضا كى فعاليت كا خلاصہ يوںبيان كرتے ہيںكہ رشيد رضا نے اصلاح پسند ، جدت پسند اور ترقى طلب افكار ميں ايك عمر گذارنے كے بعد طہطاوي، سيد جمال اور عبدہ جيسے رہنماؤں كى تاثير سے رہائي پاتے ہوئے محمد بن عبدالوہاب كے دامن ميں پناہ لي_ جس نے انہيں ابن قيم جو زيہ اور ابن تيميہ اور پھر احمد بن حنبل تك پہنچايا_ جسكى بناء پر رشيدرضا نے بجائے اسكے كہ جديد دور كے ماڈرن اصولوں كى طرف رحجان اور عصر حاضر كى تبديليوں كے ساتھ مطابقت كى بجائے كے مغرب سے جنگ و يلغار كو ترجيح دى _(3)د) اسلامى اصول پسند رحجان:جاك برك جو اسلامى اصول پسند رحجان كے بارے ميں جو تجزيہ و تحليل كرتے ہيں اس ميںوہ بيسويں صدى ميں اسلامى ممالك كى طرف سے سائنسى ترقى كے حامل موجودہ——————————–1) مجيد خدورى ، سابقہ حوالہ ،ص 30، 9_ 78،محمد رشيد رضا، السنة و الشيعة ، قاہرة ، ص 59_54 و 79، حميد عنايت، سابقہ حوالہ ،ص 97_2) Albert Hourani ، Arabic Thoagh in the Liberal Ages Oxford University Press، in 1962، p 2393) حسن الحنفي، سابقہ حوالہ ،ص 42_316زمانے اورتمدن كے تقاضوں كے مطابق مناسب ماڈلز پيش كرنے ميں ناكامى كو انكے شدت پسند ہونے كى وجہ بتاتے ہيں ،وہ اسلامى معاشروں كے اندر اس رجحان كى اہم ترين علت دروازہ اجتہاد كا بند ہونا اور بدعت سے جنگ كے بہانے اصلاحات كى تحريكوںكو كچلنا سمجھتے ہيں (1)حقيقت ميں ان شكستوں كے ساتھ ساتھ اصلاحات كو عملى جامہ پہنانے ميں ناكامى نے ايك اندوہناك ٹريجڈى كى شكل ميں عربوں كى روح كو آرزدہ كرديا اور انہيں ايك ہٹ دھرم اور معاندانہ رويے كے حامل طبقے اورشدت پسند سياسى گروہوں كے درميان سرگردان كرديا_اخوان ا لمسلمين كے بانى حسن البناء اسلامى اصلاح پسند مفكرين كے بارے ميں يوں اظہار خيال كرتے ہيں كہ: جمال الدين افغانى اسد آبادى مسلمانوں كى موجودہ مشكلات كيلئے ايك پكار اور تنبيہ تھے ،شيخ محمد عبدہ فقط ايك معلم اور فلسفى تھے اور رشيد رضا ايك مورخ اور وقايع نگار تھے جبكہ اخوان المسلمين جہاد، تلاش اور كام كا نام ہے نہ كہ محض ايك پيغامبر ہے_ (1)اخوان المسلمين ايك سياسى اور مذہبى تحريك ہے كہ جو اسلامى معاشروں ميں اساسى تبديلى كى خواہاں ہے_ اخوان المسلمين كا ايك اساسى عقيدہ يہ ہے كہ مسلمانوں كے معاشرتى اور سياسى مسائل كے حل ميں اسلام سے بڑھ كر كوئي اور طاقت موجود نہيں ہے(3) يہ عقيدہ حقيقت ميں اسلامى اصول پسند رحجان كا محور اور روح ہے_اگر حسن النباء اخوان المسلمين كے سياسى رہبر تھے تو سيد قطب اور محمد غزالى جيسے افراد اخوان المسلمين كے فكرى پہلوكے برجستہ نمايندے تھے_—————————1) سارا شريعتي، بنياد گرائي و روايتى معقول از چپ اسلامي، روزنامہ ايران شنبہ 26/5/81، ص 8_2) بہمن آقاى و خسرو صفوي، اخوان المسلمين، تہران، نشر رسام، 1365 ،ص 21_3) حميد عنايت ، سابقہ حوالہ ، ص 107_317كہنا يہ چاہيے اسلامى بيدارى كى تحريك ميں اوّل سے اب تك تغير و تبدل كے اس دورانيے ميں طہطاوى ، خيرالدين پاشا تيونسي، سيد جمال، محمد عبدہ، رشيد رضا اور سيد قطب بنيادى اور واضح فرق ركھتے ہيں اور ہم جوں جوں آگے بڑھيں تومبارزہ اور جہاد كى خصلت شدت اختيار كرتى ہوئي محسوس ہوتى ہے اور غربى ثقافت سے اقتباس كے رحجان سے جدا ہوجاتى ہے ،سيد قطب كے نظريات اسى اصول پسند اور جہادى رحجان كو بيان كرتے ہيں:سيد قطب عصر حاضر ميں موجود تمام معاشروں كو جاہليت سے تعبير كرتے ہيں اور يورپى معاشروں كو ماڈرن جاہليت كے عروج سے تعبير كرتے ہيں يہيں سے ا نكے افكار كا گذشتہ اسلام پسند مفكريں كے نظريات سے اساسى فرق سامنے آتا ہے كہ جو يورپ كى برتر ى اور ترقى يافتہ تہذيب كو قبول كرتے تھے_ سيد قطب نے كلمات’ ترقي’ اور ‘پسماندگى ‘ كى از سر نوتعريف كى اور ترقى كيلئے جديد معيار اور ضابطوں سے آگاہ كيا_سيد قطب اس بات پر تاكيد كرتے تھے كہ ترقى يافتہ معاشرہ و ہ معاشرہ نہيں ہے كہ جو مادى ايجادات ميں سب سے بلند ہو بلكہ وہ معاشرہ ترقى يافتہ ہے كہ جو اخلاقى برترى كو آشكار كرے ،وہ معاشرہ جو علم و فن ميں عروج پر ہے ليكن اخلاقيات ميں پست ہے وہ ايك پسماندہ معاشرہ ہے جبكہ وہ معاشرہ جو كہ اخلاقيات ميں سب سے بلند ہے اگر چہ علم اور مادى ايجادات ميں پيچھے ہے وہ ترقى يافتہ معاشرہ ہے_(1)امام خمينى (رہ) كى تحريك اسلامى اصول پسند رحجان كا عروج شمار ہوتى ہے كہ اسلامى جمہوريہ ايران كى تشكيل كى صورت ميں امام كى كاميابى سے متاثر ہو كرپورى دنيا ميں اسلامى تحريكوں نے قوت پكڑلي_ امام خمينى كا تفكراورنظريہ در حقيقت جداگانہ تشخص اور جديديت كا امتزاج تھا جبكہ اسلامى بيدارى كى تحريك كے گذشتہ قائدين مثلا سيد جمال ترقى اور جدت كے در پے تھے اور بعض جداگانہ اسلامى تشخص پر زور ديتے تھے ،امام————————–1) سيد قطب، معالم فى الطريق، دارالمشرق، بيروت ، قاہرہ ، 198، ص 116، 117، 61_ 60 دو رہيافت متفاوت، درجريان بازگشت بہ اسلام در جہان عرب _ ترجمہ دكتر سيد احمد موثقى ، فصلنامہ علوم سياسى ش 12، ص 274_318خمينى (رہ) جسطرح كہ جداگانہ اسلامى تشخص كو زندہ كرنے كے در پے تھے جديديت اور ترقى بھى انكى بحث و گفتگو ميں ايك خاص مقام كى حامل تھي_ ايسى ترقى كہ جو اسلامى تشخص كى حد بندى ميں تعريف ہوتى ہو_ امام كا سياسى نظريہ صرف اسلامى قالب اور صورت ميں پيش كيا گيا تھا اسى وجہ سے عالم اسلام ميں اسلام پسند تنظيموں اور تحريكوں ميںامام خمينى نے ايك خاص مقام اور ممتاز حيثيت پائي_ (1)ايران ميں امام خمينى كى رہبرى ميں اسلامى انقلاب عالم اسلام ميں بہت سى اسلامى تحريكوں كے وجود ميں آنے اور بعض كى تقويت كا باعث بنا_قوم پرستي، نيشنلزم اور لائيسزم كے زوال سے دنيائے اسلام ميں اسلام پسندوں كو قوت بڑھانے كا موقع ملا_ اسلامى انقلاب اور امام خمينى (رہ) كے افكار نے بھى انہيں بہت متاثر كيا ،عرب دنيا ميں اسلامى بيدارى كى تحريك كے قائدين ميں سيدقطب كے افكار كسى حد تك امام (رہ) كے نظريات كے قريب تھے_ آيت اللہ خمينى (رہ) اور سيدقطب دونوں كى نظر ميںتمام مسائل كا حل اسلام كى فہم اور سمجھ بوجھ ميں تھا_ اور دونوں دنيا كو تقابل كى صورت ميں يعنى ‘ہم ‘اور ‘وہ ‘كى صورت ميں ملاحظہ كرتے تھے_ آيت اللہ خميني(رہ) نے اس تقابل كے دونوں كناروں كو ‘مستكبر ‘اور ‘ مستضعف’ سے تعبير كيا جبكہ سيد قطب نے انہيں جاہليت اور اسلام سے تعبير كيا_ دونوں نے دنيا كے وہ مقامات جہاں اسلامى نظام حكومت موجود نہيں ہے ( ہم يہاں يہ بھى اضافہ كريںگے كہ وہ جگہ جہاں دينى طور و اطوار رائج نہيں ہے) وہ جاہليت اور استكبار كا مقام ہے_(2)امام اور سيد قطب جيسے مفكرين كى نظر ميں اسلام دين بھى ہے اور حكومت بھى ،لہذا مغرب كى اقدار اور رويّے اسلامى اقدار سے ہم آہنگ نہيں ہوسكتے_———————-1) بابى سعيد، ہراس بنيادين، ص 105، 109 نيز:JohnL. Esposito، The Iranian Revolution: Its Global، Miami: Florida، International University Press، pp. 12-13.2) فرہنگ رجالي، پديدہ جہانى شدن وضعيت بشرى و تمدن اطلاعاتي، ترجمہ عبدالحسين آذرنگ نشر آگاہ ، 1380، ص 69_3192_ ايران ميں اسلامى بيداريتاريخ ايران ميں آخرى دوصدياں سياسي، اقتصادي، معاشرتى اور دينى سطح پر مختلف تغيرات اور تبديليوں كى بناپر_اہم ادوار ميں سے شمار ہوتى ہيں يہ دور كہ جسے ‘ تاريخ معاصر ايران’ كے عنوان سے شہرت حاصل ہوئي ايران ميں قاجاريہ سلسلہ حكومت كے آغاز سے شروع ہوا_ايسى حالت ميں جبكہ قاجار خاندان مملكت ايران پر پرانے رسم و رواج كے تحت بغير لوگوں كى رائے اور شراكت كے اپنى آخرى قبايلى حكومت كو مستحكم كرنے ميں لگے ہوئے تھے دنيا كے ايك اوركو نے ميں فرانس كا عظيم انقلاب آچكا تھاااور وہ لوگ نئے افكار اور نظام سے لوگوں كو متعارف كروا رہے تھے ،جسكى سب سے اہم خصوصيت سياسى طاقت كى مركزيت ايك فرد كى آمرانہ حكومت كے نظام سے ہٹاتے ہوئے جمہوريت اور ڈيموكريسى كى صورت ميںلانا تھا_اس حساس دور ميں قاجارى ايك دھائي تك تخت و تاج پر قبضہ كرنے كى كشمكش كے بعد بھى كوئي نيا نظام سامنے نہ لاسكے بلكہ انہوں نے اسى انداز سے اپنى مرضى اور ارادہ كو ان حالات پر مسلط كيا اور حكومتى عہدوں كو اپنے افراد ميں تقسيم كرديا اور حكومت اسى طرح بادشاہى نظام ميں آمرانہ بنيادوں پر جارى رہي_ (1) اقتصادى حوالے سے حكومت سابقہ ادوار كى مانند سب سے بڑى حيثيت كى مالك تھى ،لوگوں كى اقتصادى اور معاشرتى زندگى كى باگ دوڑ حكومت كے پاس تھى اوردر آمدات كے ذخائر ميں بادشاہ لا محدود حقوق كامالك تھا اسى طرح اسكے زير حكومت سرزمين كے افراد كى جان و مال سب عملى طور پر اسكى مرضى اور منشاكے تحت تھے_(2)ايران يورپ سے اگر چہ دور تھا جو طاقتور ممالك كى رقابتوں كا مركز تھا ليكن انگريزوں كے ما تحت ہندوستان كى ہمسايگى كى وجہ سے اور يہ كہ ايران ہندوستان پر تسلط كيلئے بہترين تزويرى محل وقوع كا حامل———————-1) ويلم فلور، جستارہايى از تاريخ اجتماعى ايران در عصر قاجار، ترجمہ ابوالقاسم سرى تہران، توس، ج 2 ، ص 20_2) احمد سيف، اقتصاد ايران در قرن نوزدہم ، تہران ، نشر چشمہ 1373، ص 49_320تھا (وہ ہندوستان جودنيا ميں انگلستان كى سياست ، اقتصاد اور طاقت كا سرچشمہ تھا) فتح على شاہ قاجار كے زمانہ سے ايكدم استعمارى ممالك كى توجہ كا مركزبن گيا_ ديگر ممالك سے ايران كے خارجہ تعلقات كے سلسلے ميںنہ چاہتے ہوئے بھى كسى طرح سے روس، فرانس اور انگلستان بھى داخل ہوگئے اورايرانى حكومت اور معاشرتى نظام ميں كمزوريوں كے باعث ان ممالك سے روابط غير متوازن ہوگئے كہ جسكا نتيجہ استعمارى معاہدوںكو مسلط كرنا اور مملكت ايران كے شمال اور مشرق ميں اہم علاقوں كا اس سے جدا ہونے كى صورت ميں نكلا_بڑى طاقتوں بالخصوص روس اور انگلينڈ كے مقابلے ميںايران كى شكست سے بتدريج سب سے پہلے مروجہ سياسى نظام اور پھر معاشرتى سطح پر غير رسمى نظام ميں اہم تبديلياں پيدا ہوئيں ،يہ اہم تبديلياں مندرجہ ذيل ہيں :اصلاحات كا حتمى طور پر عسكرى اور صنعتى شعبوں ميں جارى ہونا اور پھر ديگر شعبوںبالخصوص سياسى سطح پر جارى ہونا ،اسى طرح اسلام اور دين كى اساس كى حفاظت كيلئے اسلامى بيدارى كے احساسات كا ظاہر ہونا اور اندرونى آمريت كامقابلہ كيا جانا اور غير ملكى استعمارگروں سے سامنا كى صورت ميں قاعدہ ‘نفى سبيل ‘كا استعمال ميں لانا … ہمارا اس تحرير ميںہدف يہ ہے كہ تاريخ معاصر ايران ميں اسلامى بيدارى اور اسكے نشيب و فراز كا تجزيہ كيا جائے_قاجارى حكومت كے اوائل ميں ايرانى معاشرہ ميں مذہبى قوتوں بالخصوص مراجع تقليد كا ہميشہ كيلئے مذہبى قائدين كے عنوان سے سامنے آنے كے اسباب فراہم ہوچكے تھے نيز شيعہ علمى و دينى مراكزميں اہم تبديلى رونما ہوچكى تھى ، يہ تبديلى مجتہدين كى محدثين پر فتح با الفاظ ديگر اجتہادى اور اصولى روش كا حديثى اور اخبارى روش پر غلبہ تھا(1) اجتہادى مكتب كو زندہ كرنے كے ليے وحيد بہبہانى كى كوششوں كى اہميت يہ تھى كہ انہوں نے ايسے شاگردوں كى تربيت كى كہ جنہوں نے ا سلامى بيدارى كى تحريك ميں اہم كردار ادا كيا_ مثلا كاشف الغطاء ملا مہدى اور ملا احمد نراقي_ (2)——————–1) آقا احمد كرمانشاہي، مرآت الاحوال جہانما، بہ تصحيح و اہتمام على دوانى ، تہران ، مركز اسناد انقلاب اسلامى ، 1375، ص 110_2) روح اللہ حسنيان ، چہاردہ قرن تلاش شيعہ براى ماندن و توسعہ، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامي، ج دوم 1382، ص 195_ 194_321 متعدد تاليفات اور بنيادى امور جنہيں اسلامى بيدارى اور اصولى مكتب كے فكرى مقدمات كى حيثيت حاصل تھى _ طے كرنے كے بعد عملى مرحلہ شروع ہوا اس زمانہ ميں شيعہ علماء كو ‘ بيرونى استعمار ‘ كے عنصر كا سامنا كرنا پڑا_ علماء نے ان بيرونى تسلط پسندوں كے مد مقابل فقہى قانون’ نفى سبيل’ كا سہارا ليتے ہوئے محاذقائم كيا_ اس فقہى قانوں كى اساس يہ قرآنى آيت ہے’ لن يجعل اللہ للكافرين على المومنين سبيلاً’ (1) يہ آيت مسلمانوں پر كفار كے تسلط كى نفى كر رہى ہے_ جديد شيعہ انقلابى نظريہ ميں ايسى تعابيركہ جو آرام و سكون اور تسليم و پسپائي كى طرف دعوت ديتى تھيں انہيں ترك كرديا گيا اور انكى جگہ مبارزانہ اور انقلاب پسند جذبات نے لے لي_ (2)فتحعلى شاہ قاجار كے زمانہ ميں ايران اور روس كے درميان جنگوں ميں ايران كى شكست كے بعد روس كا ايران كے ايك وسيع علاقہ پر قابض ہونے پر اصول پسند علماء كى طرف رد عمل كا اظہار تاريخ معاصر ايران ميں اصولى علماء كى طرف سے پہلى عملى مد اخلت شمار ہوتى ہے_علماء نے روس كے ساتھ جنگ كوجہاد كا عنوان ديا_ كہا جاتا ہے كہ ايران و روس كے درميان جنگوں سے قبل بھى جہاد كے افكار ايرانى معاشرہ ميں موجود تھے ايران كے ساتھ دفاعى قرار دادوں كے باوجود انگريزوں اور فرانسيسيوں كا ايران پر روس كے حملے كے دوران ايران كى حمايت نہ كرنا اور روس سے ايران كى شكست كے بعد حكومت قاجاريہ اس نتيجہ پر پہنچى كہ مسلمانوں كى سرزمين سے روسى افواج كو دھكيلنے كے ليے علماء شيعہ كى مدد ليے بغير چارہ نہيں ہے ،ميزرا عيسى فراہانى كہ جسے قائم مقام اول كا لقب دياگيا تھا نے اس مسئلہ ميں فتوى حاصل كرنے كيلئے علماء كى حمايت اور تعاون حاصل كرنے كى ذمہ دارى اپنے كندھوں پر لى ،كچھ مدت كے بعد مقدس مقامات ا ور ايران كے دوسرے شہروں سے بہت سے فتاوى اور جہادى رسالے سامنے آنے لگے جو———————-1) نساء ،آيت 141_2) يداللہ ہنرى لطيف پور ، فرہنگ سياسى شيعہ و انقلاب اسلامي، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامى ،ج 2، ص 107_322سب روسى كفار كے مقابلے ميں جہاد كے وجوب پر تاكيد كرتے تھے ميرزا عيسى قائم مقام نے ان سب كو جمع كرنے كے بعد ‘جہاديہ ‘كے عنوان سے انكى اشاعت كي_(1)علماء شيعہ كى طرف سے فورى رد عمل بتارہا تھا كہ اصولى مكتب كے علماء كا اسلامى بيدارى كے احساسات كو زندہ كرنے ميں ميلان اور سياست ميں انكى مداخلت ہر روز بڑھ رہى تھى ،كم از كم ايران و روس ميں جنگوں كے دوسرے دور تك فتحعلى شاہ كى مذہبى سياست يعنى علماء حضرات كى حمايت و تعاون كا حصول اور انہيں ايرانى معاشرے ميں كردار اداكرنے كى دعوت اس طبقے (علما) كے معاشرے ميں بھر پور مقام كا باعث بني_(2)ايران و روس ميں جنگوں كے پہلے دور ميںمذہبى قوتوں سے زيادہ تعاون حاصل نہيں كيا گيا تھا ليكن يہ بات واضح ہوگئي تھى كہ يہ مذہبى طبقہ مسلمان مملكت كے دفاع ميں اہم موثر كردار ادا كرسكتا ہے_ البتہ فقط علماء كا كردار و عمل مكمل كاميابى كى ضمانت نہيں تھا بلكہ اس طبقہ كى سعى اس وقت نتيجہ خيز تھى كہ جب جنگ كے حوالے سے تمام متعلقہ ادارے اور شعبے اپنى ذمہ داريوں پر درست عمل كرتے _ ايران و روس كى پہلى اور دوسرى جنگ كے درميانى فاصلہ ميں كئي ايسے مسائل پيدا ہوئے كہ جنكى بناء پر اصولى علماء دوبارہ ميدان جنگ ميں روسيوں كے مد مقابل آگئے_گريبايدوف كا قتل جو كہ بظاہر لوگوں كے مذہبى رد عمل كا نتيجہ تھا اورروس كے زير تسلط سرزمينوں ميں شيعہ و سنى علماء كے زير قيادت اسى قيام كا تسلسل مثلا قاضى ملا محمد كا شيعہ و سنى اتحاد كے نعرے كے ساتھ 1248 قمرى تك قيام اور شيخ شامل داغستانى كا 1292 قمرى تك كا قيام و غيرہ يہ سب در حقيقت وہى اسلامى بيدارى كاہى تسلسل تھا(3)——————–1) ميرزا عيسى قائم مقام فراہانى ، احكام الجہاد و اسباب الرّشاد ،باسعى غلام حسين زرگرى ناد، تہران، قبعہ ،ص 6_75_2) حامد الگار،دين و دولت در ايران، ترجمہ ابوالقاسم سرّي، تہران، توس، ج 2 ، ص 97_ 87 _3) حسين آباديان ، روايت ايرانى جنگہاى ايران و روس ، تہران ، مركز اسناد و تاريخ ديپلماسى ،ص 110_3231343 قمرى ميں ايران وروس كے درميان جنگوں كے اختتام سے ليكر تنباكو كى تحريك تك كے درميانى عرصہ ميں احياء شدہ نظر و فكر اور اسلامى بيدارى كى تحريك بظاہر سست اور ٹھہراؤ كا شكار ہوگئي _ ليكن ان سب كے باوجود ايرانى شيعوں كى اپنى شيعہ تہذيب كے مفاہيم اورتعلميات كے بارے ميں فہم ميں ٹھہراؤ نہ رہا بلكہ وہ روز بروز تغيير و تبديلى محسوس كر رہے تھے_ اسكى سب سے بڑى مثال اصفہان ميں اس زمانہ كے سب سے بڑے عالم سيد محمد باقر شفتى كى روز بروز محمد شاہ كى حكومت سے بڑھتى ہوتى مخالفت تھى انہوں نے زندگى كے آخرى لمحات تك محمد شاہ كى حكومت پر اعتماد نہيں كيا تھا_مركزى حكومت سے يہ ٹكراؤ بتاتا ہے كہ اجتہادى مكتب كسى صورت ميں بھى بادشاہت كے سامنے سر تسليم خم كرنے كے ليے تيار نہيں ہے_(1)اجتہاد ى مكتب كے محور پرشيعہ عقائد كے ارتقا كا سفر بيدارى كى تحريك كى پيشرفت ميں بہت زيادہ اثرات كا حامل تھا_ اگر چہ ايران و ورس كى جنگوں سے ليكر تنباكو كى تحريك تك كے درميانى عرصہ ميں ہم دينى قوتوں ميں ٹھراؤ اور سكون كى كيفيت كا مشاہدہ كرتے ہيں ليكن يہ ظاہرى كيفيت ہے باطن ميں اصلاح طلب اور دينى فكر كے احياء كى يہ تحريك آئندہ اقدامات كيلئے تيارى كے مراحل سے گزرہى تھي_ كيونكہ اس تيارى كے بغير وہ بعد والے مسائل مثلا تنباكو كى تحريك اور مشروطيت پسندى اورديگر مسائل ميں وسيع پيمانے پر سياسى معاشرتى اور مذہبى يعنى تمام جوانب سے تحريك اور جوش و خروش نہيں پيدا كرسكتى تھي_اس درميانى دور ميں اجتہادى مكتب كے ٹھراؤ اور جمود كى ايك وجہ اندرونى اور بيرونى مخالفين كا رد عمل بھى تھا يہ رد عمل صوفيت ، بابيت، شيخيت اور اخبارى رحجان جيسے باطل اور فاسد مكاتب كى ترويج كى صورت ميں ظاہر ہوا ،ان سب مسائل اور تحريكوں كے پس پردہ استعمار بالخصوص انگريزوں كے خفيہ ہاتھ اپنا كام دكھا رہے تھے نيز اجتہادى مكتب كى ترقى كى راہ ميں ايك اور ركاوٹ لادينى اور الحادى افكار و عقايد كى نشر و اشاعت تھى با بالفاظ ديگر سكولاريزم اور فرى ميسن (freemason) كى وسيع پيمانہ پر ترويج تھي_————————-1) انديشہ دينى و جنبش ضد ريم در ايران، تہران ،موسسہ مطالعات تاريخ معاصر ايران ،ص 45_324اس دور ميں دينى قوتوں كى ايك ذمہ دارى ‘ قاعدہ نفى سبيل’ كى بناء پر استعمار سے جنگ اور فرقہ سازى كا مقابلہ كرنا تھا_ كيونكہ استعمارى پاليسيوںنے شيعوں كے درميان تفرقہ اور انتشارڈالنے كيلے فرقہ سازى كى مہم شروع كردى تھى مثلا صوفى مسلك شيخ احمد احسايى كے شاگرد سيد كاظم رشتى كے ذريعے شيخى فرقہ كا بنانا اور سيد كاظم رشتى كے شاگرد على محمد باب كے ذريعے فرقہ بابيہ كا بنايا جايا اسى استعمارى اہداف كى تكميل تھى _ يہ فرقہ بابيہ وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ دو شاخوں ازليہ ( يحيى صبح ازل كے پيروكاروں) اور بہائيہ ( ميرزا حسينعلى بہاء كے پيروكاروں ) ميں تقسيم ہوا روسى استعمار نے ازليہ اور انگلستان كے استعمار نے بہائيہ كى حمايت كى اور ان فرقوں كو اپنے آغوش ميں پرورش دى اور ا نكى نشر و اشاعت كا انتظام كيا_(1)اگر چہ حاجى ميرزا آقاسى كى صدارت كے دور ميں صوفيوں كے امور كى طرف جھكاؤ نظر آيااورمحمد شاہ قاجار نے بھى اس پر اپنى رضامندى دكھائي تھى _ ليكن ميرزا تقى خان امير كبير كى صدارت كے دور ميں صوفى و درويش مسلك عناصر كو حكومت و سلطنت سے مربوط محافل اور اداروں سے نكال ديا گيا اور بدعات و خرافات كا قلع قمع كيا گيا_ گوشہ نشينى اور خانقاہوں كى رسم ختم كردى گئي_ نيز مذہبى بانفوذ شخصيات مثلا ميرزا ابوالقاسم جو كہ امام جمعہ تھے ،كى سفارش قبول كرنے سے پرہيز كيا گيا وہ (امير كبير) فقط اس بات پر تاكيد كرتے تھے كہ علماء دين دينى اور شرعى امور ميں قوت و طاقت سے فعاليت انجام ديں اور دين كو كمزور پڑنے كاموقع نہ ديں ليكن اس سياست كے ساتھ ساتھ وہ اس بات كا بھى خيال ركھتے تھے كہ استعمار كى فرقہ سازى اور انہيں نشر و اشاعت دينے والى سياست كى بھى روك تھام كريں، اس حوالے سے سب سے واضح مثال فتنہ بابيہ كے مقابلے ميںانكا علماء كى حمايت كرنا_ قضاوت كے امور ميں بھى انھوں نے شرعى اور عرفى قوانين كى تركيب اور امتزاج كيلئے اقدامات انجام دے اور اقليتوں كے حقوق اور انكى دينى آزادى كے حوالے سے بھى خاص توجہ كي(2)——————-1) موسى نجفى و موسى فقيہ حقالي، تاريخ تحولات سياسى ايران، بررسى مؤلفہ ہاى دين ، حاكميت ، مدنيت و تكوين دولت _ ملت در گسترہ ہويت ملى ايران ، تہران، موسسہ مطالعات تاريخ معاصر ايران ،ص 119_118_2) دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 10، ذيل امير كبير ( على اكبر ولايتي) _325مجموعى طور پر اميركبير كى علماء كے كردار كو محدود كرنے والى مذہبى پاليسى نے اسلامى بيدارى كى تحريك كى اعانت كى _ انہوں نے دينى ميدانوں ميں آگاہى اور مختلف امور كے علمى اور عقلانى پہلو كو ترجيح دي، توہمات اور خرافات كا مقابلہ كيا دربارى ملاؤں كى فعاليت كو كم كيا، آئمہ جمعہ ،نظام العلماء و سلطان الذاكرين جيسے القاب والے علماء دين كے اختيارات كو كم كيا ان تمام امور كے ساتھ انہوں نے نادانستہ طور پر بتدريج اسلامى بيدارى كى تحريك كى حمايت كي_جبكہ ميرزا آقا خان نورى كى صدارت كے دور ميں معاملہ الٹ ہوگيا دربارى ملاؤں اور حكومت كى حامى اور باعتماد مذہبى قوتوں كو فعاليت كا زيادہ موقعہ ملا اور بعض علماء كى نظر مساعدت لينے كيلئے حكومتى وظيفہ بھى مقرر كيا گيا_ (1)ميزرا حسين خان سپہسالار كے دور ميں بھى دينى اداروں كو كمزور كيا گيا اسكى مغرب زدہ اصلاحات اور غير ملكيوں كو امتيازى حيثيت دينا علماء كى مخالفت اور اعتراض كا باعث قرار پايا، سپہسالاركى اصلاحات لانے كى ايك روش يہ تھى كہ ناصر الدين شاہ كو فرنگيوں كے ملك كى طرف سفر كى ترغيب دى جائے تا كہ وہ مغربى ترقى كا مشاہدہ كرے_ چونكہ سپہسالار كى مطلوبہ اصلاحات واضح طور پر مغربى زندگى كے قوانين اور اصولوں كى تقليد پر مبنى تھيں اور بہت سے امور ميں تو يہ اصلاحات اسلامى قوانين اور شريعت كى مخالف بھى تھيں اس ليے دينى حلقے اسكے مخالف ہوگئے_اس مخالفت كى دوسرى وجہ انگريزوں كو رويٹر كا اختيار عطا كيا جانا تھا_ علماء دين بالخصوص ملا على كنى كى نظر كے مطابق حكومت كى جانب سے اغيار كو رعايتيں اور اختيارات دينے سے انكى ايران ميں زيادہ سے زيادہ مداخلت كا راستہ ہموار ہوجاتا تھا_(2) ناصر الدين شاہ اور سپہسالار كے فرنگستان سے واپسى سے پہلے يہ اعتراضات سامنے آئے تو انہوں نے بادشاہ سے خط كے ذريعے مطالبہ كيا كہ سپہسالار كو ايران نہ لائے_ يہ————————–1) حامد الگار ، سابقہ حوالہ ،ص 236_2) حسين آباديان، انديشہ دينى ضد ريم در ايران ، ص 50_ 49_326خطوط بادشاہ كو رشت ميں موصول ہوئے ناصر الدين شاہ نے مجبوراً سپہسالار كو صدارت سے معزول كيا اور گيلان كا حاكم مقرر كيا اور اسكے بغير تہران ميں داخل ہوا (1) كيونكہ علماء نے بادشاہ كو خبردار كيا تھا كہ سپہسالار كو معزول نہ كرنے كى صورت ميں وہ سب ايران سے چلے جائيںگے_ بادشاہ نے يہ مطالبہ تسليم كرتے ہوئے تہران ميں داخل ہونے كے بعد ملا على كنى كى زيارت كيلئے حاضر ہوا اور مراتب احترام بجالايا تا كہ علماء كى ناراضگى كم ہو ،حاج ملا على كنى كا سپہسالار سے طرز عمل قاجاريہ دور ميں دينى اداروں اور شيعہ علماء كى قاجارى حكومت كے اراكين سے طرز عمل كى تنباكو كى تحريك سے پہلے كى واضح ترين مثال تھى (2)سپہسالار كے حوالے سے علماء كے سخت طرز عمل كى ايك وجہ يہ بھى تھى كہ سپہسالار عدليہ كے وزير كے عنوان سے يہ كوشش كر رہا تھا كہ شرعى قاضى و مرجع كے عہدوں پر مجتھدوں كے انتخاب كا اختيار حكومت كے پاس ہو (3) ملا على كنى كى قيادت ميں دينى قوتوں كے حكومت سے مسلسل ٹكراؤ كى وجہ سے آخر كار ويٹر كى رعايت و اختيار كولغو كرديا گيا_ (4)حاج ملا على كنى كو اس زمانہ ميں رئيس المجتہدين كا لقب حاصل ہوا تھا وہ ان اقدامات كا مقابلہ كرتے تھے كہ جو دين ، حكومت اور لوگوں كيلئے مضرہوں وہ ايك ماہر دينى سياست دان كى حيثت سے سيكولر اور دين مخالف روشن فكر حضرات كے افكار اور اقدامات پر گہرى نظر ركھتے تھے اور انكا مقابلہ كيا كرتے تھے_ اس زمانہ ميں ايسے روشن خيال لوگوں ميںسے ملكم خان ناظم الدولہ اور فتحعلى خان آخوند زادہ كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے كہ يہ افراد بھى سپہسالار كے مذہبى پاليسى سازوںكى حيثيت سے سيكولر افكار ونظريات پيش كرتے تھے اور اقدامات انجام ديتے تھے_ (5) ميرزا ملكم خان كى بہت زيادہ كوشش تھى كہ ايك مذہبى شخصيت كے خول————————-1) احمد كسروى ، تاريخ مشروطہ ايران، ج 1، تہران، اميركبير ، ص 10_2) محسن بہشتى سرشت، نقش علماء در سياست از مشروطہ تا ا نقراض قاجار، تہران ، پوہشكدہ امام خمينى و انقلاب اسلامي، ص 81_ 77_3) صادق زيبا كلام، سنت و مدرنيتہ، ريشہ يابى علل ناكامى اصلاحات و نوسازى سياسى در ايران عصر قاجار ، تہران ، ص 294_ 293_4) موسى نجفى ، تعامل ديانت و سياست در ايران، موسسہ مطالعات تاريخ معاصر ايران ص 100_ 89 ،ابراہيم تيمورى ، عصر بى خيرى با تاريخ امتيازات در ايران، تہران، ج جہاد ، ص 112_ 108_5) عبدالہادى حائري، تشيع و مشروطيت در ايران و نقش ايرانيان مقيم عراق، تہران، اميركبير چ دوم، ص 47 _ 40 ، 29 _ 26_327ميں رہتے ہوئے اپنے جدت پر مبنى اہداف كو پيش كرے وہ عقائد اور فكرى بنيادوں كے حوالے سے مغربى مادى مكاتب كامعتقد تھا _ اگر وہ ان كو پنہان ركھتا تھا تو يہ سب مصلحت انديشى كى بناء پر تھا چونكہ اس كے يہ عقائد اور اہداف ظاہر ہونے كى صورت ميں وہ مسلمان معاشرہ سے دھتكار ديا جاتا _وہ 1289 قمرى ميں تفليس ميں قيام كے دوران اپنى اخوند زادہ كے ساتھ گفتگو ميں دين كو عقل كى نابودى ، نقل كو عقل پر ترجيح دينے اور عقل كے محبوس ہونے كا سبب سمجھتا تھا _ يا اس نے لندن ميں كسى مسئلہ ميں ‘ ايرانى مدنيت ‘ كے موضوع پر تقرير كرتے ہوئے واضح كيا ہ وہ اپنے جدت پر مبنى نظريہ اور غربى تہذيب كے اقتباس كو دينى لفافہ ميں ڈال كر پيش كرے گا كيونكہ وہ اسى راہ كو فقط مسلمانوں كى ترقى كى ضمانت سمجھتا تھا كہ مسلمانوں كو فقط يہى بتايا جائے كہ مغربى ترقى كى اساس اسلامى اصولوں كے منبع سے لى گئي ہے اورمسلمان اس مغربى تہذيب ميں ڈھل كر اپنے آپ كو اور جوانكا سرمايہ تھا اسے پھرپاليں گے _(1)بعض لوگوں نے ملكم خان كے متضاد اقوال اور كردار كى بناء پر اسے دورو اور منافق سے تعبير كياہے_ اور وہ اسكى موقع پرستى اور خودغرضى جيسى خصلتوں كى مذمت كرتے ہيں _ ميرزا ملكم خان ايران ميں سب سے پہلا فرى ميسن تھا جس نے اس ادارہ كو تشكيل ديا (2) لا تارى كے اختيارات عطا كرنے والے مسئلہ ميں ملكم خان كى مالى اور سياسى خيانت و رسوائي اپنے عروج كو پہنچى ،اس زمانہ ميں بعض كم فہم لوگ ان تمام دلائل كے باوجود اسكے دعووں كا فريب كھائے ہوئے تھے ليكن حاج ملا على اسكا اصل چہرہ پہچان چكے تھے لہذا انہوں نے ناصر الدين شاہ كو اپنے ايك خط ميں ملكم كے فرى ميسن ہونے اور اس كے عقائد كے خطرات سے آگاہ كرتے ہوئے اسكے وہاں سے نكالے جانے پر زور ديا(1)1306 قمرى ميں ناصرالدين شاہ نے فرنگ كى طر ف اپنے تيسرے سفر كے ضمن ميں سگر يٹ اور تمباكو كي———————–1) حجت اللہ اصيل، زندگى و انديشہ اى ميرزا ملكم خان ناظم الدولہ، تہران ، ص 83 _ 82 _2) محمد مددپور، سير تفكر معاصر، تجدد و دين زدايى در انديشہ ميرزا ملكم خان ناظم الدولة ، تہران ، ص 37 _ 33_3) موسى نجفي، سابقہ ماخذ،ص 104 _ 100_328صنعت كے اندرونى اور بيرونى معاملات كے حقوق ايك انگريز كمپنى كو عطا كرديے البتہ اس قرار داد پر دستخط 1308 قمرى اور 1890 عيسوى ميں ہوئے _چونكہ اس قرارداد كى رو سے ہزاروں كسانوں ، مزدوروں اور تاجروں كے مفادات اور ايران كا اقتصاد اغيار سے وابستہ ہو گيا تھا اس ليے يہ نقصان دہ ترين قرار دادوں ميں سے شمار ہوتى تھي_ نيز اس قرارداد كے ضمن ميں علماء كے مقام اوركردار كو ملحوظ خاطر نہ ركھا گيا تھا_ليكن كچھ عرصہ ہى نہ گذرا تھا كہ شيعہ علماء اور تجار نے متحد ہو كر اس قرار داد كى مخالفت ميں قيام كيا_ علماء نے اس ليے قيام كيا كہ انكے تجزيہ كے مطابق يہ قرارداد ايك غير ملك كے اسلامى مملكت كے ايك حصہ پر تسلط اور قبضہ كا وسيلہ تھى اور اس سے دينى اہداف اور اسلامى معاشرہ كا دينى تشخص خطرہ ميں پڑرہاتھا جبكہ تاجروں كى مخالفت كى وجہ انكے اقتصادى مفادات كو بہت بڑا ضرر پہنچ رہا تھا لذا يہ سب مخالفت ميںاٹھ كھڑے ہوئے_ انگريزوں كا ايران ميں ايك بڑى تعداد كے ساتھ داخل ہونا اور انكے افعال و كردار اور اقدامات كا لوگوں كے عقائد و تہذيب كے منافى ہونے كى وجہ سے اس كمپنى كى مخالفت روز بروز بڑھتى گى اور بتدريج علماء كى قيادت ميں ايك بہت بڑے احتجاج كى شكل اختيار كر گئي_(1)بيدارى كى اس تحريك ميں علماء شيعہ اور دينى قوتوں كو ايك تاريخى موقعہ ملاتا كہ ثابت كريں كہ وہ لوگوں كو ساتھ ملا كر اندرونى آمريت اور بيرونى استعمار پر غلبہ پا سكتے ميں اور ميرزا شيرازى كے تنباكو كى حرمت پر تاريخى فتوى سے واقعا ايسا ہى ہوا اورعلماء كو دونوں ہى اہداف حاصل ہوگئے ،حكومت نے اس وسيع احتجاجى تحريك كے سامنے پسپائي اختيار كى اور اس قراداد كو ختم كرنے كا اعلان كرديا_ ملا محمدعلى ھيد جى كے رسالہ ‘دخانيہ ‘كى تحرير كے مطابق ميرزا شيرازى كے حكم كى پہلے نصف روز تك ايك لاكھ كاپيوں كى تقسيم نے ايرانيوں اور غير ملكوں كو حيرت ميں ڈال ديا_ ھيدجى تحرير كرتے ہيں كہ يہاں تك كہ ناصرالدين شاہ كى بيگمات اور نوكروں نے سگريٹ اور تنباكو استعمال كرنا چھوڑديا، كوئي بھى كسى سڑك پر تنباكو استعمال كرتا ہوا يا خريد————————1) حسين آبادياں ، سابقہ ماخذ، ص 80 _ 71_329و فروخت كرتا ہوا نہيں ديكھا گيا بلكہ مشہور تھا كہ عيسائيوں اور يہوديوں نے بھى اس حرمت شرعى كا خيال ركھا(1)اہم نكتہ يہاں يہ ہے كہ علماء اور لوگوں كے باہمى جوش و خروش پر مشتمل اس تحريك كا روح رواںنظريہ يہ تھا كہ موجودہ حكام كى حكومت كے كچھ حد تك جواز كى شرط يہ ہے كہ وہ مملكت ايران كى تمام زمينى سر حدوں اور لوگوں كے دينى عقائد و نظريات كى نگہبان ہو، ا س چيز نے شيعہ سياسى نظريہ كى اساس كو تشكيل دے ديا تھا اور اس نظريہ كے مطابق سلاطين اور بادشاہوں كى حكومت و طاقت اصل ميں غير شرعى اور ناجائز ہے سوائے اس كے كہ وہ نظم و ضبط پر كنٹرول كرے_دوسرا نكتہ يہ تھا كہ اس دور ميں شيعہ مسلك لوگوں كے اتحاد اور فكرى يكجہتى ميں ايك اہم عنصر كى صورت ميں ابھرا_ اس تحريك سے يقينا ثابت ہو چكا تھا كہ قاجارى بادشاہ اب بھرپور انداز سے حكومت چلانے كى طاقت نہيں ركھتا اور كسى صورت ميں بھى بادشاہ كى حكومت و طاقت ميں عنوان الوہيت موجود نہيں ہے ،آخرى نكتہ يہ ہے كہ اس بڑى آزمائشے كى گھڑيوں ميں لوگوں كو بيدار كرنے سے مراجع اور مجتہدين كى سياسى اہميت ثابت ہوچكى تھى اور اس مسئلہ كے بعد نجف ميں مقيم ايرانى مجتہدين اور مراجع ، مشروطہ كى تحريك كے دوران اور اسكے بعد زيادہ اطمينان كے ساتھ لوگوں كى سياسى قيادت اور رہبرى ميںاپنا سياسى كردار ادا كرتے رہے لہذا يہ تنباكو كى تحريك اس مشروطيت كى تحريك كيلئے ايك پيش خيمہ تھى كہ جو تقريباً پندرہ سال كے بعد وجود ميں آئي(2)_شاہ ناصر قاجار كے زمانے ميں ايك اور بيدارى كى تحريك كا ہم مشاہدہ كرتے ہيں اور وہ سيدجمال الدين (افغاني) اسدآبادى كى صورت ميں تھي_ سيدجمال ايران ميں كچھ حد تك اسلامى علوم حاصل كرنے كے بعد نجف كى طرف روانہ ہوئے_ وہاں انكے تعليمى اور ضروريات زندگى كے اخراجات شيخ مرتضى انصارى نے اپنے ذمہ ليے_ سيد جمال نے نجف ميں چار سال تك تعليم حاصل كى (3) سيد جمال كى سب سے بڑي———————-1) محمد على ھيدجي، رسالہ دخانيہ ،على اكبرولايتى كى سعى سے ، تہران ، ص 53، 52_2) حسين آباديان، سابقہ ماخذ، ص 192 _ 189_3) سيدعباس رضوى ‘ سيدجمال الدين فرزند حوزہ’ سيد جمال، جمال حوزہ ، با سعى مصنفين مجلہ حوزہ قم، دفتر تبليغات اسلامي، ص 229 _ 225_330آرزو يہ تھى كہ وہ دينى حوزات اور علماء كے ذريعے ايرانى اور ديگر اسلامى معاشروں اور اقوام كو بيدار كريں _ اسى ليے جب وہ كسى شہر يا ملك ميں سفر كے دوران علماء كے استقبال كا محور قرار پاتے توان سے تفصيلى تبادلہ خيال كرتے_(1)انكى بيدارى گر تحريك كا اہم ترين نظريہ اسلامى يكجہتى كا نظريہ تھا وہ كوئي شك و ترديد نہيں ركھتے تھے كہ مسلمانوں كے درميان سب سے مستحكم تعلق دينى تعلق ہے(2) لہذا انكى سب سے اہم فعاليت يہ تھى كہ انہوں نے اسلامى معاشروں اور مسلمانوں كو جداگانہ تشخص بخشا_ انكے نعرے ‘اسلام كى طرف پلٹنا’ ،’ قرآن كى طر ف پلٹنا’ يا ‘ سلف صالح كى سنت كا احياء كرنا’ يہ سب مسلمانوں كو انكے نئے تشخص سے روشناس كروانے كيلئے تھا_ وہ مسلمانوں كى يكجہتى كا محور قرآن كو سمجھتے تھے_ عروة الوثقى ميں لكھتے ميں كہ ميرى آرزو يہ ہے كہ سب مسلمانوں كا سلطان قرآن ہو اور انكى وحدت و يكجہتى كا مركز ايمان ہو_(3)سيدجمال تمام مسلمانوں كى يكجہتى كے نظريہ كے ساتھ ساتھ ايران كے حالات اور وہاں بيدارى كى ضرورت پر خاص توجہ ركھتے تھے_ ميرزا شيرازى كى طرف انكا خط، قاجارى حاكموں كى بے دينى اور اغيار كے اقتصادى تسلط كے خطرات كے خلاف انكى تقريروں كا اسلامى بيدارى ميں بہت زيادہ كردار ہے_(4)سيدجمال ايك طويل مدت تك مسلمانوں ميں احتجاجى روح پھونكنے كے وجہ سے تحريك مشروطيت ميں بہت سا حصہ ركھتے تھے_ نے اعلانيہ ايران كے صدراعظم اور بادشاہ سے مطالبہ كيا كہ وہ اصلاح، آزادي———————-1) سابقہ ماخذ، ص 240 _ 235_2) غلام حسين زرگرى ناد ‘ كاوشى در انديشہ ہاى سياسى سيدجمال الدين اسدآبادى ، انديشہ ہا و مبارزات، با سعى غلامحسين زرگرى و رضا رئيس طوسي، تہران، ص 35_3) حامد اسگار، سابقہ ماخذ، ص 295_4) سابقہ ماخذ، ص 302_331عدالت اور قانون كو مد نظر ركھيں كہ يہ چيز انكى ايران سے ملك بدرى كا موجب بني_ وہ بہت سے دوسرے حريت پسندوںسے بھى خط و كتابت اور رابطہ ركھتے تھے اور انكى آمريت كے خلاف قيام كرنے پر حوصلہ افزائي كرتے تھے(1)_مظفرالدين شاہ قاجار جب بادشاہ بنا( 1313قمري) تو اس وقت تنباكو كى حرمت كے فتوى كے بعد بظاہر حكومت كے علماء سے تعلقات بہتر ہورہے تھے_ ليكن حكومت كى طرف سے بلجيم ناد (ناز)كو ايرانى كسٹم كے ادارہ كا سربراہ مقرر كرنے اور اسكے ايرانى اور غير ملكى تجار كے مابين جانبدارانہ سلوك اور عيسائي تجار كو نوازنے كا عمل ايرانى علما اور تجار كے اعتراض كا باعث قرار پايا_ تہران ميں مجتہد تفرشي، آيت اللہ ميرزا ابوالقاسم طباطبايى اور ديگر شخصيات نے پروگرام بنايا كہ امين السلطان كو بر طرف كيا جائے جو اغيار كو مسلمانوں كے امور پر مسلط كرنے كا سبب تھا بتدريج شيخ فضل اللہ نورى بھى مخالفين كى صفوف ميں داخل ہوگئے_ نجف ميں سكونت پذير ايرانى علماء كے ايك گروہ كہ جن ميں ملا محمد كاظم خراسانى جيسى علمى شخصيات شامل تھيںنے خطوط بھيجتے ہوئے اس مسئلہ پر اپنا اعتراض پيش كيا_ (2) بالاخر 1221 قمرى جمادى الثانى ميں انہوں نے ميرزا على اصغر خان اتابك امين اسلطان كے مرتدہونے كا اعلان كيا(3) آخر كار بادشاہ كو مجبور ہونا پڑا كہ وہ امين السلطان كو برطرف كرتے ہوئے اسكى جگہ عين الدولہ كو مقرر كرے_بتدريج علماء دين كى خود بادشاہ مظفر الدين شاہ سے بھى مخالفت شروع ہوگئي اس مخالفت كے بنيادى اسباب غير ممالك سے قرضوں كا حصول، فرنگيوں كے ملك كے پر تعيش سفر، اغيار كا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، ملكى صنعتوںكا زوال اور اس قسم كے ديگر مسائل تھے_ (4)————————1) مقصود فراستخواہ’سيد جمال الدين و نوانديشى ديني’ ، تاريخ و فرہنگ معاصر، سال پنجم شمارہ 3،4_ص 212 _ 201_2) احمد كسروي، سابقہ ماخذ ، ج 1 ، ص 31_ 29_3) ہاشم محيط مافى ، مقدمات مشروطيت ، مجيد تفرشى اور جواد جان خدا كى سعى سے ، تہران ص 74_4) عبداللہ مستوفى ، شرح زندگانى من يا تاريخ اجتماعى و ادارى دورہ قاجار ، ج2، ص 62_61_332ليكن دينى طبقے كى پيدا كردہ بيدارى كى لہريں ان مسائل سے كہيں زيادہ و سعت سے پھيل رہى تھيں اس زمانہ ميں بيدارى كے مراحل واضح طور پر ارتقاء كے مقام كو پار ہے تھے_مشروطہ كى تحريك ميں بيدارى اور آگاہى كا ايك وسيلہ اس تحريك كى موافقت يا مخالفت ميں شايع ہونے والے جرائد و رسائل تھے_ يہ جرائد و رسائل علماء اور اصولى مكتب سے وابستہ دانشوروں كى سعى سے سامنے آرہے تھے اور انكا بنيادى ہدف يہ تھا كہ لوگ اس تحريك كے تمام پہلوؤںسے آشناہوں او راس تحريك كے اسلامى احكام سے مطابقت اور تضادكو اچھى طرح جان ليں(1)اس دور ميں اسلامى بيدارى كى تحريك اور دينى مكتب كيلئے ايك اہم مسئلہ فكرى اورعملى ميدان زندگى ميں مغرب پسندى كى لہركا سامنا تھا_ ايرانيوں كے مغربى دنيا سے مختلف شعبوں مثلا تجارت ، سياحت ،تعليم و غيرہ ميں بڑھتے ہوئے تعلقات اور جديد مغربى كلچر كے حامل انسٹيٹيوٹس كا قائم ہونا اور جديد مغربى شہريت كے ضوابط كا رائج ہونا البتہ يہ ضوابط مغربى شہريت كے ظاہرى اور اور نمايشى پرت سے ليے گئے تھے ،ان سے دينى نظريات كے احياء كى تحريك كو بڑھنے ميں دشوارياں پيش آنا شروع ہو ئيں اور ساتھ ساتھ علماء كى آراء و افكار ميں تناقص و تضاد نے بھى ان دشواريوں كو دو چند كرديا_محمد على شاہ كى آمريت كے دور ميں نجف ميں سكونت پذيرعلماء جو ايران كے سياسى دباؤ اور گھٹن سے دور تھے، نے ايرانى علماء كى نسبت زيادہ آسانى سے مشروطہ كى تحريك اور حريت پسندى كوجارى ركھاانہوں نے محمد على شاہ كى آمرانہ حكومت كے حتمى خاتمہ اوركافر روسى سپاہيوںكے ايران سے نكلنے پر زور ديا(1)نجف كے تين بزرگ علماء (تہراني، خراسانى اور مازندراني) نے اپنے ايك خط ميں عثمانى حكومت سے———————–1) مزيدمعلومات كيلئے رجوع فرمائيں_ غلام حسين زرگرى ناد، رسائل مشروطيت، تہران_حسين آباديان، مبانى نظرى حكومت مشروطہ و مشروعة، تہران ، ص 243_132_2) عبدالہادى حائرى ، سابقہ ماخذ، ص 109_333ايران ميں محمد على شاہ كى حكومت كے خاتمہ اور روسيوں كے اخراج كيلئے مدد مانگى اس زمانہ ميں عثمانى حكومت اسلامى وحد ت كے نظريہ كى حامى تھي_ البتہ يہ نكتہ قابل ذكر ہے كہ سنى خليفہ سے مدد مانگنے كى ضرورت اس زمانہ كے تقاضوں اور مشكلات كى بناپر محسوس ہوئي ايران كے اندر بھى محمد على شاہ اور روسى افواج كے خلاف تحريك شروع تھى _نجف كے بزرگ علماء اپنے مقلدين كے ہمراہ ايران كى طرف جہاد كيلئے روانہ ہونے والے تھے_ كہ تحريك مشروطہ كى كاميابى ، اصفہان اور گيلان سے افواج كاتہران ميں داخل ہونا اور محمد على شاہ كے فرار اور روسى سفارت خانہ ميں پناہ لينے سے يہ پروگرام ملتوى ہوگيا_(1)ان سالوں ميں علماء كى دوسرى تحريك 1329 اور 1330 كے دوران روس كى طرف سے ايران كو الٹى ميٹم دينے سے پيدا ہونے والے بحران كے رد عمل كے طور پر سامنے آئي_دوسرے دور كى قومى پارلمينٹ نے اقتصادى امور كى بہترى كيلئے مورگن شاسٹراور ديگر چار امريكى مشيروںكا تقرر كيا_ وہ ايران آئے اور انہوں نے مالى شعبہ كو اپنے كنٹرول ميں لے ليا_ روس اور انگلينڈنے شدت كے ساتھ انكى مخالفت كى روس نے ابتداء ميں تو زبانى كلامى پھر 7 ذى الحجہ 1339 كو تحريرى طور پر ايران كو الٹى ميٹم ديا كہ شاسٹر كو نكال ديا جائے پھر اسكے بعد فوراً ہى ايران كے بعض شمالى علاقوں پر قبضہ كرليا_ تبريز ميں ثقةالاسلام تبريزى كو پھانسى دي، مشہد ميں امام رضا (ع) كے حرم پر گولہ بارى كى اور لوگوں كو محصور كرليا_سپيكر پارليمنٹ نے نجف ميں موجود آخوند خراسانى اورديگر علماء كى طرف ٹيلى گراف بھيجتے ہوئے ان سے در خواست كى كہ وہ اسلامى ذمہ دارى كے حوالے سے اقدام كريں اس درخواست كے جواب ميں علماء نجف نے ايران كى خودمختارى كے دفاع كيلئے اقدامات انجام ديے انہوں نے درسى كلاسوں كى تعطيل كرتے ہوئے جہاد كا اعلان كيا اور لوگوں كو كاظمين ميں جمع ہونے كى دعوت دى تا كہ ايران كى طرف روانہ كيا جائے، اسى طرح قبائل كے سرداروں سے بھى مذاكرات ہوئے كہ وہ اپنے مسلح لشكروں سميت روس كے خلاف جہاد——————–1) سابقہ ماخذ ص 117_110_334ميں شركت كريں اور انہوں نے بھى قبول كيا _ ليكن روانگى سے ايك روز قبل آخوندخراسانى كى وفات سے يہ پروگرام التواء كا شكار ہوگيا _كچھ مدت كے بعد آيت اللہ عبداللہ مازندرانى كى قيادت ميں يہ پروگرام دوبارہ شروع ہوا تيرہ مجتھدين اور علماء كى منتخب انجمن تشكيل پائي اور اس انجمن كى روحانى صدارت (آخوند خراسانى كے فرزند) آقا ميرزا مہدى آيت اللہ زادہ خراسانى كے كندھوں پر ركھى گئي بہت سے جہادى فتاوى صادر ہوئے اور مجتہدين نے ملت ايران كو متحد ہوكر دشمن سے مقابلہ كرنے پر زور ديا_ اور ايران كے سركارى عہديداروں كو متعدد ٹيلى گراف بھى بھيجے گئے _علماء كرام اغيار كى يلغاركو ايران كى خود مختارى اور سالميت كيلئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے اس دينى طبقے كى تحريك ميں ميرزا محمد تقى شيرازى ، سيد اسماعيل صدر اور شيخ الشريعہ اصفہانى بھى كاظمين ميں علماء كے اجتماع سے پيوست ہوگئے ،اگر چہ كہ وہ مشروطہ حكومت كے زيادہ حامى نہيںتھے ليكن ايرانى حكومت نے اس مسئلہ كے نتائج كو مد نظر ركھتے ہوئے علماء كى ايران كى طرف جہاد كے عنوان سے روانگى كى مخالفت كى اور اس منتخب انجمن سے تقاضا كيا كہ لوگوں كو انكے شہروں كى طرف لوٹا ديا جائے اور جہاد كا پروگرام ملتوى كرديا جائے علماء بھى كاظمين ميں تين ماہ كے اجتماع كے بعد نجف اور كربلا كى طرف لوٹ گئے اور يہ تحريك بغير كسى عملى نتيجے كے ختم ہوگئي_(1)ليكن اس تحريك سے واضح ہوا كہ شيعہ مرجعيت ايك طاقتور سياسى طاقت ميں تبديلى ہوچكى ہے اور قليل مدت ميں عوامى گروہوں كوتيار كرسكتى ہے اوريہ مسئلہ شيعوں كے شعور و آگاہى ميں ترقى كو ظاہر كرتاہے اور بيدارى اور احياء كى تحريكوں كے مابين ان كے نفوذ كوواضح كرتاہے_احمد شاہ قاجار كے زمانہ حكومت ميں ايرانى معاشرہ كو ايك كمزور حكومت اور بد امنى كے حالات كا سامنا تھا اس غير مناسب صورت حال ميں اصلاحى اور بيدارى كى تحريك بھى جمود كا شكار ہوگئي _ اور يہ تحريك جسكى بناء پر————————-1) حسن نظام الدين زادہ ، ہجوم روس و اقدامات رؤساى دين برائے حفظ ايران، بہ كوشش نصر اللہ صالحى تہران ، ص 24_3_335آئندہ سالوں ميں رضا خان كى قيادت ميںتشكيل پانے والى آمرانہ حكومت سے بچاجا سكتا تھا ايك مستحكم حكومت كے قيام اور امن و امان كى صورت حال كو درست كرنے كے گرماگرم موضوع كے نيچے دب گئي_(1)البتہ اس دور ميں بالخصوص پہلوى حكومت كى تشكيل كے قريب ترين سالوں ميں بہت سى اسلامى رنگ و روپ كى حامل تحريكيں اور گروہ وجود ميں آئے ليكن يہ بھى ايك مركزى مستحكم حكومت اور امن و امان كى ضرورت كے مسئلہ كے پيش نظر ختم ہوگئيں ،ان تحريكوں كے كامياب نہ ہونے كى دوسرى وجہ شيعہ مكتب كے بانفوذ علماء اور دينى مراجع كى ان تحريكوں كو سرپرستى كا حاصل نہ ہونا تھى نيز يہ تحريكيں ايك مخصوص اسلامى فكر كى حامل تھيں كہ جنكى بناء پر دينى مراجع و مراكز انكى حمايت نہيں كرسكتے تھے _اس كے علاوہ يہ گروہ اور تحريكيں وقت كى قلت كى وجہ سے اپنى تحريك اور اس كے صحيح مقاصد سے آگاہ نہ كرسكيں جسكى وجہ سے يہ زيادہ عرصہ نہ چل سكيں اور غيرملكى استعمار نے بھى انہيں ناتوان كرنے ميں براہ راست كردار ادا كيا كيونكہ بعض تحريكيں مثلا تحريك جنوب غير ملكيوں كى ايران ميں موجودگى اور تجاوز كے خلاف تھي_ميرزا كوچك خان جنگلى كى قيادت ميںتحريك جنگل ان حالات ميں وجود ميں آئي كہ سرزمين ايران كا گوشہ گوشہ اغيار كے تسلط سے ايران كو آزاد كرنے اور بدامنى كى صورت حال كو ختم كرنے كيلئے انقلابات لانے كيلئے تيار تھا _ ميرزا كوچك خان نے تہران ميں تنظيم اتحاد اسلام سے رابطہ كرنے اور ان سے بحث و مناظرہ كرنے كے بعد اس ہدف كو پانے كيلئے ايك تحريك شروع كى كہ جب كوئي حكومت اپنى مملكت كو اغيار اور دشمنوں كے تسلط سے آزاد نہ كرسكے تو ملت كا فرض ہے كہ اپنے وطن كو نجات دے _انہوں نے ايران كے شمالى جنگلوں سے قيام كا آغاز كيا اور يہ قيام شوال 1333 قمرى سے ليكر ربيع الثانى 1340 قمرى تك جارى رہا _ انہوں نے اپنى سياسى كاوش كا آغاز مذہبى و روحانى طبقے كى ہمراہى ميں كيا ، انقلاب مشروطہ كے دوران اور انكے بعد كے حالات ميں وہ آمريت كے ساتھ جنگ كرتے رہے_ پہلى جنگ عظيم كے دو ران وہ گيلان كى طرف چلے گئے اور’ انجمن اتحاد اسلام’ كے عنوان سے ايك مخفى تنظيم كو تشكيل———————-1) عليرضا ملايى توانى ، مشروطہ و جمہومرى ، ريشہ ہاى نابسامانى نظم دوكراتيك در ايران، تہران،گسترہ 1381، ص 175_ 162_336ديا اور بتدريج مجاہدين كو اپنى ساتھ شامل كيا _ چند سال كے مقابلہ و جنگ كے بعد اس تنظيم كو بعض واقعات ميں ہزيمت كا سامنا ہوا بالخصوص سرخ بغاوت كے واقعہ ميں آخر كار وثوق الدولة كى حكومت، انگلستان اور روس كے باہمى مشترك حملہ سے جنگل كى اس تحريك كو شكست ہوئي_ (1)پہلوى حكومت كى تشكيل كے قر يب ترين دور ميں ديگر اسلامى عناوين كى تحريكوں ميں سے تبريز ميں شيخ محمد خيابانى كا قيام قابل ذكر ہے _ يہ قيام در اصل 1919 عيسوى ميں وثوق الدولة كى حكومت كى انگلستان سے قرار داد كا رد عمل تھا_ البتہ اسى دوران ملك كے ديگر مناطق ميں اور بھى احتجاجى قيام سامنے آئے كہ جو قرار داد كے مخالف تحريكوںكے عنوان سے معروف ہوئے _ (2) اس قرا داد كے مطابق ايران كے عسكرى امور ، اقتصادى امور ، ذرائع ابلاغ كے امور اور ديگر انتظامى امور انگلستان كے كنٹرول ميں آگئے تھے _شيخ محمد خيابانى ايك شجاع اور اصول پسند عالم تھے جو قاجاريہ دور كے اواخر ميں سامنے آئے اور حريت پسند مجاہد طبقہ سے تعلق ركھتے تھے كہ انہوں نے اس تحريك كے تمام مراحل ميں ظلم و آمريت كے حاميوں سے مقابلہ كيا انہوں نے مندرجہ بالا قرار داد ، آذربائيجان كى حكومت پر عين الدولہ كے تقرر اور ديگر چند مسائل كے رد عمل ميں مركزى حكومت كے خلاف تحريك كو تشكيل ديا اور آذربائيجان كے امور اپنے ہاتھوں ميں لے ليے_ وہ غير ملكى قوتوںكے سخت دشمن اور ايران كے داخلى امور ميںاغيار كى ہر قسم كى مداخلات كے سخت مخالف تھے وہ بھى ميرزا كوچك خان كى مانند اس دھن ميں تھے كہ آذربائيجان سے شروع كريں اورمكمل ايران كو اغيار كے تسلط اور استعمار سے نجات دلائيں_ (3)———————-1) نہضت جنگل بہ روايت اسناد وزارت امورخارجہ ، رقيہ سادات عظيمى كى سعى سے ،تہران، دفتر مطالعات سياسى و بين الملل ، 1377، ص 18_15 ( مقدمہ )_2) داريوش رحمانيان، چالش جمہورى وسلطنت در ايران ، زوال قاجار روى كار آمدن رضا شاہ ، تہران، نشر مركز، 1379، ص 42_3) على اصغر شميم ، ايران در دورہ سلطنت قاجار، تہران ، علمى ، ج 2 ص 603_ 599 ،محمد جواد شيخ الاسلامي، سيماى احمد شاہ قاجار ، ج 2 ، تہران ، ص 108_90_337اعتراضات بڑھنے كى وجہ سے وثوق الدولة نے استعفى دے ديا _ ليكن خيابانى كى تحريك بھى بعد والى حكومت كے ذريعے دبادى گئي اور خيابانى كے قتل ہونے كے ساتھ ہى يہ تحريك ختم ہوگئي _ (1)اہم نكتہ يہ ہے كہ خيابانى اور جنگلى كى تحريك كو اسلامى بيدارى كے منظر سے محور تجزيہ قرار نہيںديا جاسكتا كيونكہ انكے اسلامى افكار اور اصول پسند علماء كے نظريات ميں اساسى فرق تھا، اصول پسند علماء كى اہم خصوصيات يہ تھى كہ وہ دين اور سياست كے امتزاج پر يقين ركھتے تھے جبكہ ان تحريكوں ميں دين كے سياست سے جدا ہونے پرزور ديا گيا تھا_ ليكن امور مسلمين پر كفار اور اغيار كے تسلط كى مخالفت ميں يہ باہمى اور مشابہہ نظريات ركھتے تھے_ اور يہ موضوع بعد ميں استعمار كى مخالف تحريكوں اور تنظيموں ميں اہم تاثير كا حامل تھا _ديگر واقعات ميں سے كہ جن ميں شيعہ علماء نے رد عمل كا اظہار كيا اور محاذ تشكيل ديا اور اُس موضوع كے خلاف آراء اور نظريات كا اظہار كيا _ وہ رضا خان كا جمہوريت پسند پروگرام تھا _ يہ پروگرام سال 1303 شمسى ميں اس وقت سامنے آيا كہ جب سلسلہ قاجار كا نظام حاكميت مكمل طور پر اپنى حيثيت كھو بيٹھا تھا اور ايران كے ہمسايہ ملك تركى ميں جمہورى نظام كا اعلان ہوچكا تھا_ ايران ميں اس پروگرام كے پيش ہونے اور بالخصوص تركى سے متاثر ہونے نے علماء كو تشويش ميںمبتلا كرديا كيونكہ وہ اس اعلان جمہوريت كو اتا ترك كے اسلام مخالف پروگراموںسے مربوط سمجھتے تھے _ (2)جمہوريت كے مخالفين ميں سے ايك آيت اللہ سيد حسن مدرس تھے كہ جو قومى پارلمنٹ كے ركن بھى تھے _ (3) جناب مدرس حقيقى جمہوريت كے مخالف نہيں تھے يہ بات وہ كئي بار معترضين كے اعتراض اور تنقيد كے———————1) على اصغر شميم ، سابقہ ماخذ ، ص 603_2) سلسلہ پہلوى و نيروہاى مذہبى بہ روايت تاريخ كمبريج ،ترجمہ عباس مخبر، تہران، ج3 ، ص 22_ 21، عليرضا ملايى تواني، سابقہ ماخذ ، ص 335_3) على دوانى ، استادان آيت اللہ شہيد سيد حسن مدرس، مدرس، تاريخ و سياست ( مجموعہ مقالات ) موسسہ پوہش و مطالعات فرہنگى ، ص 48_44_338جواب ميں كہہ چكے تھے _ وہ كہا كرتے تھے كہ يہ جمہوريت جو ہم پرمسلط كرنا چاہتے ہيں يہ ملت و قوم كى مرضى پر استوار نہيں ہے بلكہ انگريز ہميں اسے قبول كرنے پر مجبور كر رہے ہيں تا كہ وہ اپنے سے وابستہ اور سو فيصد اپنى حامى حكومت كو ايران ميںتشكيل دے سكيں_ اگر ان جمہوريت پسندوں كى طرف سے نامزد شخص ايك ملت پسند اور حريت پسند فرد ہو تو ميں ضرور اسكى ہمراہى كرونگا_ (1)حقيقت بھى يہى ہے كہ رضا خان كا جمہورى پروگرام كسى بھى طرح سے عوامى حكومت كے نظريہ سے تعلق نہيں ركھتا تھا _ بلكہ اہل فكر و سياست كے ايك گروہ كى ايك كوشش تھى كہ انہى قوانين اور اداراتى نظام كے دائرہ كا ر ميں ہى رہتے ہوئے مصالحانہ انداز سے حكومت كو تبديل كيا جائے تا كہ ايك طاقتور مركزى حكومت تشكيل پاسكے _ گرزتے ہوئے وقت نے انكے جمہورى نظام كے دعوى كو جھوٹا ثابت كرديا _ (2)جناب مدرس نے رضاخان كے جمہورى پروگرا م كى مخالفت ميں علماء كو ابھار نے ميں بھى كردار ادا كياانہوں نے ايران كى معاصر تاريخ كے اس دورانيہ ميں ايك قوى سياسى مجتہد كے مقام پراپنا كردار كوبنھايا_ علماء نے بھى قم ميں اس پروگرام كى مخالفت ميں احتجاجى مظاہرے تشكيل ديے_ بالاخرہ نوبت يہانتك پہنچى كہ خود رضاخان نے بھى علما ء كے دامن كا سہارا ليا تا كہ اس جمہورى پروگرام پر ہونے والے اعتراضات اور احتجاج كو ختم كيا جاسكے_رضا خان اپنى حكومت كے پہلے دور ميں يہ چاہتا تھا كہ اپنے زمانہ كے علماء بالخصوص علماء نجف كى مدد سے اپنے مقاصد كو پورا كرے _ وہ اس دورانيہ ميں بظاہر دين كى طرفدارى كے عنوان سے اپنے آپ كو پيش كيا كرتا تھا_(3)————————1) حسين مكي، تاريخ بيست سالہ ايران ، تہران، علمى 1374، ص 495_2) عليرضا ملايى تواني، سابقہ ماخذ ، ص 358_ 345_3) عبدالہادى حائري، سابقہ ماخذ ، ص 192_ 187_339اس ترتيب سے جمہوريت پسند تحريك مذہبى قوتوں كى واضح مخالفت اور پارلمينٹ كى قليل سى حزب اختلاف كى ثابت قدمى سے شكست سے ہمكنار ہوئي _ (1)مدرس نے پارلمنٹ كے پانچويں انتخابات كى روش پر بھى اعتراض كيا انہوں نے انتخابات ميں دھاندلى كى بناپررضاخان كى جھوٹى جمہوريت پسندى كو بے نقاب كيا _ مدرس نے كم نظير ثابت قدمى اور مقابلہ كے ساتھ اس شديد دباؤ كے دور ميں اسلامى بيدارى كے چراغ كو سنبھالے ركھا _پہلوى دور كے پہلے مرحلے ( 1320_ 1304 ) شمسى كواسلامى تہذيب اور دينى اداروں كے ساتھ شديد دشمنى كے دور سے تعبير كيا جاسكتا ہے _ رضا شاہ كى آمريت كومستحكم انداز سے تشكيل دينے والے اسباب ميں سے ايك سبب مشروطيت پسندى كى تحريك سے علماء كا دل اچاٹ ہونا اور رضا شاہ كا اپنى حيثيت كو مستحكم كرنے كے ليے مذہبى مراسم ميں مسلسل شركت كرتے ہوئے دوسروں كو گمراہ كرنا تھا در حقيقت اس حوالے سے اسكے دوغلے پن اور منافقت نے اہم كردار ادا كيا _ (2) ان سب دشواريوں كے باوجود اسلامى بيدارى كى تحريك اسى طرح آگے قدم بڑھاتى رہى _پہلوى دور ميں ايك اہم واقعہ آيت اللہ شيخ عبدالكريم حائرى كى كوشش سے قم كے حوزہ علميہ كى تشكيل تھي انہوں نے مشروطيت پسندى كى تحريك ميں خود كو غير جانبدار ركھا اور سياسى محاذوں سے دور رہے _ انكى كاوشوں كا عمدہ ترين نتيجہ قم ميں حوزہ علميہ كى تشكيل اور مقامات مقدسہ اور حوزہ علميہ نجف اشرف سے مرجعيت كے مركز كو اس حوزہ ميں منتقل كرنا تھا كہ جسكے ايرانى معاشرہ اور لوگوں پربہت زيادہ اثرات پڑے(3) كچھ عرصہ بعد ہى اس حوزہ نے كميونسٹ نظريات اور رضا شاہ كے دين مخالف اقدامات كے ساتھ مقابلہ كرنے ميں شہرت پايى اور دينى و شرعى مسائل ميں لوگوں كے سوالات اور ضروريات كو پورا كرنے كا خلا پر كرديا مشروطيت——————1) عليرضا ملايى تواني، مجلس شوراى ملى و تحليم ديكتا تورى رضا شاہ تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامى ، تہران ، ص 129_119_2) سلسلہ پہلوى و نيروہاى مذہبى بہ روايت تاريخ كمبريج، سابقہ ماخذ، ص 279_ 278_3) حميد بصيرت منش، علماء و ريم رضاشاہ، تہران، موسسہ چاپ و نشر عروج ،ص 236 _ 235_340كے مسائل اور علما كے انقلاب كے مركز سے دور ہونے كى بنا پر اس قسم كے حوزہ كى تشكيل كو ايك ناگزير امر بنا ديا تھا(1) حوزہ علميہ قم كى تشكيل اور استحكام ميں آيت اللہ حائرى كى سياسى احتياط بہت تاثير ركھتى تھى _ انہوں نے حوزہ كے استحكام سے قبل سياسى حوالے سے افراط و تفريط ميں پڑنے سے مكمل طور پر پرہيز كيا_آيت اللہ حائرى دينى اداروں كے جہاد كى ايك تيسرى صورت كو وجود ميں لائے اور وہ يہ تھى كہ مغربى تہذيب كى مہلك اور بڑھتى ہوئي لہروں كے مد مقابل حوزہ كى طرف سے صحيح شيعى تہذيب كے احياء كى تحريك كى بنياد ركھى _اگر ان سے قبل علماء سياسى اور انقلابى محاذپر استعمار اورآمريت كا مقابلہ كر رہے تھے تو آيت اللہ حائرى نے لائيسزم كے خلاف تيسرى محاذير توجہ كى اور اسے دين كے مقابلے ميںاساسى محاذ شمار كرتے ہوئے اسكا مقابلہ كيا_ البتہ آيت اللہ حائرى كى طرف سے دينى تہذيب كو مستحكم كرنے كى كاوشوں نے آئندہ دور تك دورس اثرات چھوڑے كہ جن كى بناء پر بالآخرہ دينى نظريے نے سيكولرزم پر برترى حاصل كرلى اور اسے شكست دي_(2)رضاشاہ كے زمانہ ميں ايك اور روشن فكر اور مجاہد عالم آيت اللہ محمد تقى بافقى تھے_ انہوں نے 29 اسفند 1306 شمسى ميں نوروز كى رسوم كى ادائيگى كے موقعہ پر كہ جب كچھ دربارى بے حجاب خواتين حضرت معصومہ قم كے حرم ميں داخل ہوئيںشديد مخالفت كى جسكى بناء پر انہيں گرفتار كيا گيا اور كچھ عرصہ بعد شہر بدر كرديا گيا_(3) ان اعتراضات نے لوگوں اور اخبارات ميں رد عمل پيدا كيا_ اور دين مخالف سياست كے مقابلے ميںمجاہد علماء كے جھاد كو زندہ اور فعال ركھا_———————-1) حاج شيخ عبدالكريم حائرى (مؤسس حوزہ علميہ قم،عمادالدين فياضى كى سعى سے، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامي، ص 66 _ 62_ تاريخ شفاہى انقلاب اسلامى (تاريخ حوزہ علميہ قم، ج 1، غلامرضا كرباسچي، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامي، ص 27 _ 26_2) موسى نجفى و موسى فقيہ حقاني، سابقہ ماخذ، ص 427 _ 424_3) دانشنامہ جہان اسلام، ج 1، ص 1375، ‘ بافقي’ كے ذيل_ آيت اللہ محمد تقي_341رضا شاہ كى دين مخالف سياسى حركات كے مقابلے ميںايك اہم رد عمل 1306 شمسى ميں آيت اللہ نوراللہ اصفہانى كى قيادت كى شكل ميں سامنے آيا جناب نوراللہ نے 1306 شمسى ميں علماء ، پيشہ ور حضرات ،انجمنوں، تاجر حضرات اور مذہبى طبقہ پر مشتمل ايك تنظيم’ اتحاد اسلامى اصفہان’ كى تشكيل دى اس تنظيم كا ہدف پہلوى حكومت كى مذہبي، اقتصادى اور ثقافتى پاليسيوںكا مقابلہ كرنا تھا_(1)1306 شمسى كا قيام بظاہر ‘نظام وظيفہ ‘كے قانون كے خلاف تھا كہ جسكى رو سے دينى طلاب كيلئے نظام وظيفہ كے عنوان سے سول اور ملٹرى سروس (2)كرنا لازمى تھا_ ليكن حقيقت ميں يہ قيام رضاشاہ كى غيرمذہبى سياست كے خلاف تھا اسى قيام كے سلسلے ميں اصفہان كے علماء اور طلاب نے 21 شہريور 1306 شمسى ميں قم كى طرف ہجرت كى كہ يہ قيام 4 دى 1306 شمسى (105 روز) تك جارى رہا ،آيت اللہ حائرى نے مہاجرين كا استقبال كيا اور انكى خاطر تواضع كرتے ہوئے انكے نظريات اور اہداف كى نشر و اشاعت كے تمام وسائل اور ذرائع فراہم كيے_دربارنے ابتداء ميں اس مسئلہ كى پروا نہ كى ليكن جب دربار كے وزير تيمور تاش نے مہاجرين سے ملاقات كى اور ان سے گفتگو كي، مشہد، ہمدان، كاشان، شيراز اور ديگر شہروں كے علماء اصفہانى مہاجرين كى صفوف ميں شامل ہوگئے ،پورے ملك سے علماء كى حمايت ميں شاہ كو ٹيلى گراف ملنے شروع ہوئے اور نجف كے علماء سے بھى رابط برقرار ہوا معاملہ يہاں تك پہنچ گيا كہ حكومت قم پر حملے كا پروگرام بنانے لگي(3)حكومت نے علماء كے مطالبات كو تسليم كرليا ليكن علماء نے اسكى موافقت كو حكومت كى طرف سے رسمى بل كى تيارى اور پارليمنٹ ميں اسكى منظورى پر موقوف كرديا ،آخر كار مخبر السلطنة ، رئيس الوزرا، اور تيمور تاش مہاجرين————————1) حميد بصيرت منش، سابقہ ماخذ، َص294_2) يہ نظام اب بھى دنيا كے بہت سے ممالك ميں رائج ہے جس كے تحت ملك كے ہر شہرى پر لازم ہے كہ وہ شناختى كارڈ لينے اور بعض دوسرے شہرى حقوق سے بہرہ مند ہونے كے ليے ايك يا دو سال گورنمنٹ يا فوج كے كسى بھى شعبے ميں ٹريننگ كے بعد خدمات سر انجام دے_(مصحح)3) مرجعيت در عرصہ اجتماع و سياست ، محمد حسين منظور الاجداد كى سعى سے ، تہران ، ص 225_ 320_342ميں تفرقہ ڈالتے ہوئے اور اپنے وعدہ پر عمل كيے بغير اس قيام كو ختم كرنے ميں كامياب ہوگئے اسى درميان ناگہان آيت اللہ نور اصفہانى كى قم ميں وفات نے بھى اس قيام كے بے نتيجہ اختتام ميں كردار ادا كيا _(1) اگر چہ بظاہر يہ كاوش بے نتيجہ محسوس ہوتى ہے ليكن مختلف شہروں كے علماء اور طلاب كا قم ميں اجتماع اور انكا باہمى معلومات اور نظريات ميں تبادلہ خيال اور اس احتجاج كى خبروں كى نشر و اشاعت سے مذہبى قوتوں كو يہ اميدملى كہ وہ آئندہ سالوں ميں بھى يہ جہاد جارى ركھ سكتے ہيں ،حقيقت ميںاس قسم كى تحريكيں ايسے ہمت و صبر كے پيدا ہونے كا باعث بنيں جو آئندہ دور ميں بڑے انقلاب كا سبب بنا تھا_1307 شمسى سے ليكر 1320 شمسى تك كادور مذہبى قوتوں اور انكى فعاليت پر سب سے زيادہ دباؤ اورتنگى كا دور تھا اسى دوران آيت اللہ مدرس كو رضا شاہ كى حكومت كى مسلسل مخالفت كى بناء پر شہر خواف كى طرف شہر بدر كرديا گيااور آخر كار انہيں شہيد كرديا گيا _ (2)رضا شاہ كى حكومت كا ايك اور اہم واقعہ مسجد گوہر شاد كا قيام تھا، 1314 ميں يہ واقعہ وقوع پذيرہوا _ مشہد كے ايك عالم آيت اللہ حسين قمى يورپى طرز كى سبك ٹوپيوںكے رواج پر اعتراض كيلئے تہران آئے تا كہ رضا شاہ تك اپنى شكايت پہنچائيں ليكن انہيںگرفتار كر كے جيل ميں ڈال ديا گيا ،انكى گرفتارى كے رد عمل ميں مشہد كى مسجد گوہر شاد ميں احتجاجى اجتماع ہوا كہ جو پوليس كے ہاتھوں لوگوںكے قتل عام پر ختم ہوا ،يہ حكومت پہلوى كے ہاتھوں 15 خرداد 1343 تك سب سے بڑا قتل عام ہے _ مشہور واعظ شيخ محمد تقى بہلول افغانستان كى طرف فرار ہوگئے اور آيت اللہ قمى كو عراق كى طرف ملك بدر كرديا گيا ،ديگر علماء اور كچھ مذہبى افراد كو گرفتار كر كے جيل ميں ڈالا گيا يا جلا وطن كرديا گيا (3)مجموعى طور پر ايرانى معاشرہ پر رضا شاہ كى حكومت كا غير دينى طرز عمل لوگوں اور حكومت كے درميان فاصلے اور مذہبى قوتوں ميں شدت پسندى كے رحجان كے بڑھنے كا موجب بنااور مذہبى قوتوں كى فعاليت زير زمين———————–1) حاج شيخ عبدالكريم حائرى ، سابقہ ماخذ ، ص 88_ 87_2) حميد بصيرت منش، سابقہ ماخذ ، ص 335_ 333_3) سلسلہ پہلوى ونيروہاى مذہبى بہ روايت تاريخ كمبريج ص 286_ 285 _343چلے جانے سے بعد ميں آتش فشان كى صورت پيدا ہوئي (1) نتيجہ يہ نكلا كہ ان اسلام مخالف سياسى پاليسيوںنے اپنى مخالف قوت كو عوام ميں پھلنے پھولنے كے اسباب فراہم كيے اور تيسرے عشرے كے انقلابات كا پيش خيمہ ثابت ہوئے _25 شہريور 1320 ميں رضا شاہ كى آمريت كو شكست ہونے اور اسكے ايران سے نكلنے كے بعديكدم ظلم وآمريت كى زنجير ٹوٹ گى اور ديگر قوتوں كى مانند مذہبى اور دينى تفكر كى احيا گر قو توں نے بھى خود كو رضا شاہ كى حكومت كے دباؤ سے آزاد پايا_ اس بہتر سياسى فضا ميں مذہبى قوتوں نے غير دينى اور زبردستى كى لاگو اقدار كوختم كرنے اور اسلامى دينى افكار كے احياء اورلوگوں كى بيدارى كے محاذ پر كام كرنا شروع كرديا ،اسى دوران حوزہ علميہ قم نے لوگوں كى مذہبى راہنمائي كيلئے حوزہ كے تربيت شدہ اورجديد دينى فكر كے حامل سب سے پہلے گروہ كو معاشرہ ميں بھيجا تا كہ ايك نئي زندگى كا آغاز ہو _تيسرے عشرہ كے اوائل ميں مذہبى قوتوں كے جہاد كا محور مندرجہ ذيل موضوع تھے: احمد كسروى كے نظريات كا مقابلہ ، خواتين كے حجاب كيلئے بھر پور كوشش ،كميونيزم سے مقابلہ اور بہائيت سے مقابلہ ان ميں سے ہر ايك ہدف كيلئے بہت زيادہ پروپينگنڈا كيا گيا اور بہت سى كتب تاليف اور شايع ہوئيں_ نيز مختلف رسالے بھى لكھے گئے كہ ان تاليفات ميں معروف رسائل حجابيہ اور امام خمينى كى كتاب كشف الاسرار تھى كہ جو حقيقت ميں حكيم زادہ كى تاليف اسرار ہزارسالہ اوراحمد كسروى كى تاليفات كے رد ميںتھي،نيز يہ كتاب ولايت فقيہ كا اجمالى سانظام بھى پيش كرتى تھي_سنن1327 شمسى سے مسئلہ فلسطين بھى اسلامى بيدارى كى محافل ميں داخل ہوا مذكورہ چاراہداف تك پہنچنے كيلئے اور بے دينى سے مقابلہ كرنے كيلئے تنظيميں، انجمنيں ، گروہ اورسياسى جماعتيں بھى وجود ميں آئے_(2)————————-1) دانشنامہ جہان اسلام ، ج 5 ، پہلوى كے ذيل ميں عصر پہلوى اوّل ،ص 7_ 843_2) رسول جعفريان ، جريانہا و سازمانہاى مذہبى _ سياسى ايران ( سالہاى 1357_ 1320) تہران، موسسہ فرہنگى دانش وانديشہ معاصرچ3، ص 22_18_344اس كاوش اور فعاليت كے ساتھ ساتھ مكتب اجتہاد كے علماء كا دو محاذوں يعنى آمريت اور استعمار كے خلاف جہاد پر بھى كام جارى رہا _ جلاوطن علماء دوبارہ ميدان عمل ميں لوٹ آئے كہ جن ميں آيت اللہ حسين قمى اور سيد ابوالقاسم كاشانى قابل ذكر ہيں دينى اور مذہبى تعليم كے نصاب كى اصلاح كى گئي اور موقوفات كے ادارہ كى حيثيت اور حالت كوتبديل كيا گيا _ (1)تيسرے عشرہ ميں دينى نظريات كے احياء كى تحريك كا اہم مرحلہ امام خمينى كا ظہور اور انكا مذہبى سياست كے ميدان ميں داخل ہونا تھا _ انہوں نے 1323 شمسى ميں اپنا سب پہلا سياسى مكتوب بيان جارى كيا كہ اس ميں تحرير تھاكہ ‘ انبياء الہى مكمل طور پر اللہ تعالى كى معرفت ميں غوطہ زن ہوتے ہوئے انسانوں كى معاشرتى اور سياسى حالت كو تبديل كرنے كيلئے قيام كرتے تھے انكے برعكس آج كے مسلمان فقط دنياوى مفادات كيلئے قيام كرتے ہيں كہ جسكا نتيجہ اغيار كى غلامى اورانكے حوارى مثلا رضا شاہ … و غيرہ كى حاكميت كى صورت ميں نكلتاہے _ (2)ہجرى شمسى كے تيسرے اور چوتھے عشرہ ميں اسلامى بيدارى كى اس تحريك كے ساتھ دو اركان كا مزيد اضافہ ہوا اوروہ دينى جرائد اور دينى رجحان كى حامل يونيورسٹى كے طلباء كى تنظيم تھى ،اگر چہ دينى جرائد گذشتہ عشروں ميں بھى دينى فعاليت انجام ديتے تھے ليكن ان دو عشروںميں كميت اور كيفيت كے اعتبار سے انكى فعاليت ميں واضح طور پر اضافہ ہوا _ اس دور كى دينى تحريروںميں فعال حضرات كى نئي خصوصيت يہ تھى كہ علماء كے علاوہ ملكى اور غير ملكى اور يونيورسٹيوں كے تعليم يافتہ حضرات بھى دينى موضوعات پر قلمى كا وشيں كر رہے تھے اور جوان نسل كو اسلام سے آشنا كرنے كى سعى ميںمصروف تھے ،مذہبى جرائد كے بعض مقالات جديد علوم كے ذريعے سائنس و دين ميں مطابقت اور دينى مسائل كے جديد علوم كى روشنى ميں اثبات پر كام كر رہے تھے _———————-1)روح اللہ حسينيان، بيست سال تكاپوى اسلام شيعى در ايران ، تہران مركز اسناد انقلاب اسلامى ص 98_ 95_2) سلسلہ پہلوى ونيروہاى مذہبى بہ روايت تاريخ كمبريج ،ص 304، 203_345اس دور كے مذہبى رسائل و جرائد ميں سے خرد ، سالنامہ اور ہفتہ نامہ نور دانش ، آيين اسلام ، پرچم اسلام ، دنياى اسلام ، وظيفہ ، محقق ، تعليمات اسلامى ، ستارہ اسلام ، نداى حق ، حيات مسلمين اور تاريخ اسلام كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے _ (1)اسلامى بيدارى كى تحريك كا ايك شاہكار دور تيل كوقوميانے كى تحريك كا دور تھا _ يہ تيسرے عشرہ ميں استعمار كے خلاف ايك اہم ترين تحريك شمار ہوتى ہے تيل كو قوميانے كى تحريك كے دوران دو فكرى رحجان قوم پرستى كى تحريك اور مذہبى تحريك متحد ہوگئيں دونوں نے متحد ہو كر لوگوں كے حقوق كے دفاع پر مشتمل اقدامات سے بھر پورنتيجہ ليا_ اس دور ميں قوى تحريك كے قائد محمد مصدق اور مذہبى تحريك كے متفقہ قائد آيت اللہ سيدابوالقاسم كاشانى تھے _آيت اللہ كاشانى نے سالہا سال سے ايران و عراق ميں انگلستان كے استعمارى تسلط كے خلاف جنگ كى تھى اور اس دور ميں بھى قاعدہ ‘نفى سبيل ‘ كى بناء پر انگلستان كے ايرن پر بالخصوص تيل كى صنعت پر تسلط كے خلاف كوشش كى ،لوگوں ميں انكى مقبوليت اور ايرانى معاشرے كے مذہبى ہونے كى بناء پر وہ قادر ہوئے كہ مذہبى طبقے اور قوم پرست طبقے كے مابين پل كا كردار ادا كرتے ہوئے ان دونوں كو متحد كرديں_ (2)ان كے اعلانات، تقارير اور فتاوى نے اس عوامى جنگ كو دينى پشت پناہى عطا كى _ انہوں نے تيل كو قوميانے كے شرعى اور عقلى دلائل بيان كيے، اور اس ضمن ميں علماء اور ديگر مذہبى قوتوں كو بھى شامل ہونے كى دعوت دى اور مختلف بين الاقوامى انٹرويوزميں اپنے اور قوم كے نظريات اور دلائل كو بيان كيا (3)_آيت اللہ كاشانى نے تيل كو قوميانے كى تحريك ميں اپنے افكار كو عملى جامہ پہنانے كيلئے مجمع مسلمانان مجاہد اور جمعيت فدائييان اسلام كى تنظيموں سے بھى مدد لى _—————————–1) رسول جعفريان ، سابقہ مواخذ ، ص 91_74_2) فريدون اكبرزادہ ، نقش رہبرى در نہضت مشروطہ ، ملى نفت و انقلاب اسلامى تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامى ،ص 103_ 100_3) حسين گلى بيدي، آيت اللہ كاشانى ونفت ، تہران ، اسلامى ، 1380،ص 220_ 35_346′ مجمع’ كا پہلا گروہ جمعيت فداكاران اسلام تھا كہ جو 1322 شمسى ميں تشكيل پايا البتہ جمعيت فدائيان اسلام كى ابتداء بھى اسى جمعيت سے ہوئي تھي، يہ مجمع’ مہر ميہن’ اخبار كے ذريعے اپنے نظريات كى اشاعت كرتا تھا _ (1)فدائيان اسلام 1320 شمسى كے تبديل ہوتے ہوئے حالات ميں زور و شور سے شريك تھے انكى بنيادى جدوجہدكسروى اور اسكے ہم فكر لوگوں كے افكار كا مقابلہ كرنا تھا _ يہ لوگ تبليغى اور ثقافتى امور ميں كام كرنے كے ساتھ ساتھ عسكريت پربھى ايمان ركھتے تھے انكے خيال كے مطابق مسلمانوں كو اپنے دشمنوں كو قتل كرنے يا قتل ہونے پر خوفزدہ يا پريشان ہونے كى ضرورت نہيں ہے ايسے دشمن لوگ جو اسلامى حقائق كے سامنے سر تسليم خم نہ كريں اور مسلمانوں پر تجاوز كرنے كے عزائم ركھتے ہوںانہيں نابود ہوجانا چاہيے _ (2)انہوں نے اپنے مقاصد كى تكميل كى خاطر احمد كسروي، عبدالحسين ہير اور حاجى على رزم آرا كو قتل كرديا_ رزمآرا كے قتل نے تيل كى صنعت كو قوميانے اور اس قرار داد كے پارلمينٹ اور سينٹ ميں پاس ہونے ميں سرعت پيدا كى (3) حقيقت ميں رزم آرا كا قتل تيل كى صنعت كے قوميا نے ميں كاميابى كا آخرى مرحلہ تھا_ايك اور مقام كہ جہاں شيعہ علماء آمريت اور استعمار كے مد مقابل كامياب ہوئے 1331 شمسى ميں 30 تيركے مہينے كا قيام تھا، 1331 ميں 25 سے 30 تير تك كے درميانى عرصہ ميں مصدق نے استعفى ديا اور محمد رضا پہلوى نے بغير كسى تعطل كے احمد قوام كو انكى جگہ وزير اعظم مقرر كيا تو فوراً آيت اللہ كاشانى ميدان عمل ميں آگئے _ انكى تقارير، اخبارات ميں انٹريوز اور اشتہارات نے ايسا ماحول بناديا كہ سارے ايران سے قوام كى حكومت كے خلاف اعتراضات شروع ہوگئے _ ايك مجتہد كى سياسى بصيرت پر لوگوں كا لبيك كہنا اسلامى بيدارى كى تحريك كے تسلى بخش نتائج اور پورے ايران ميں اسكے اثر و رسوخ كو بيان كرتا ہے _————————-1) روح اللہ حسينيان، سابقہ ماخذ ، ص 66_63_2) داود امينى _ جمعيت فدائيان اسلام و نقش آن در تحولات سياسى و اجتماعى ايران ص 118_ 12_3) سابقہ ماخذ ص 213_ 212_347آيت اللہ كاشانى نے احمد قوام كے دھمكى آميز اعلان كے رد عمل ميں اپنے ايك اعلان ميں فرمايا: اپنى حكمرانى كے ابتدائي ايام ميں انكا اعلان بخوبى بتا رہا ہے كہ اغيار كسطرح انكے ذريعے يہ عزائم ركھتے ہيں كہ اس مملكت ميں دين ، آزادى اور خود مختارى كو جڑوں سے كاٹ ديا جائے اور دوبارہ مسلمان قوم كى گردن ميں غلامى كا طوق ڈال ديا جائے_ دين كو سياست سے جدا كرنے كى سازش جو سالہا سال سے انگريزوں كے تمام پروگراموں ميں سر فہرست تھى اور اسكى بناء پر انہوں نے مسلمانوں كو اپنے مستقبل اور اپنے دين و دنياوى امور ميں جد وجہدكرنے سے روكا ہوا تھا آج اس جاہ طلب شخص كے پروگرام ميں سرفہرست ہے_ احمد قوام كو يہ جاننا چاہيے كہ وہ سرزمين كہ جہاں مصيبت زدہ لوگوں نے سالہا سال كے رنج و سختى كو تحمل كرنے كے بعد خود كو ايك آمركے تسلط سے نجات دلوائي ہے انہيں آج اپنے عقائد افكار كو آزادانہ بيان كرنے سے نہيں روكنا چاہيے اور نہ انہيں اجتماعى پھانسى سے ڈرانا چاہيے ،ميں واضح انداز سے كہتا ہوں كہ تمام مسلمان بھائيوں پر ضرورى ہے كہ وہ آمادہ ہوجائيں اور استعمارى سياست دانوں پر ثابت كرديں كہ گذشتہ دور كى مانند وہ آج طاقت اور تسلط نہيں پاسكتے_29 تير 1331 ميں انہوں نے دربار كو ايك پيغام ميں كہا: اعلى حضرت كو بتاديں كہ اگر كل تك ڈاكٹر مصدق كى حكومت كى بحالى كيلئے كوئي قدم نہ اٹھايا گيا تو انقلاب كى اس عظيم موج كو ميں اپنى قيادت ميں دربار كى طرف پھير دوں گا_ (1) اپنے انٹريو ميں اعلان كيا كہ : اگر كوئي ايك انگريز بھى آبادان كے تيل كے پلانٹ كى طرف آيا تو ميں حكم دونگا كہ اس تيل كے پلانٹ كو تمام ساز و سامان كے ساتھ جلاديا جائے اور تباہ كرديا جائے … اگر اس سے زيادہ مشكل پيدا ہوئي تو ميں كفن پہن كر قيام كرونگا_ (2)————————–1) حسين گل بيدي، سابقہ ماخذ ، ص 227_ 274_2) روح اللہ حسينيان ، سابقہ ماخذ ، ص 176_348بالآخر مذہبى اور قوى تنظيموں كے باہمى اتحاد اور عوام كے احتجاجى مظاہروںكے نتيجہ ميں احمد قوام كو ہٹاديا گيا اور اسكى جگہ دوبارہ مصدق كو منتخب كيا گيا _ 30 تير كا يہ قيام در حقيقت سياسى مسائل ميں شيعہ مرجعيت اور دينى طاقتوں كى طاقت و قوت كے عروج كا دور تھا _دينى افكار كے احياء كى صورت ميں بيدار كرنے والا ايك اوراقدام آيت اللہ بروجردى كى عالم اسلام ميں شيعہ علماء كو فعال اور تمام علمى اور عملى ميدانوں ميں لانے كى كوشش تھى انہوں نے شروع ميںجوان مبلغين اور حوزہ علميہ قم كے مذہبى دانشوروں كى مختلف ٹيميں دنيا كے مختلف ممالك ميں مسلمانوں اور شيعوں كى دينى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے بھيجيں اور يورپ، امريكہ، افريقہ اور ايشيا ميں شيعہ اسلامك سينٹرز قائم كيے_ اس حوالے سے انكا اہم ترين قدم علامہ شيخ محمد تقى قمى كوقاہرہ كى طرف بھيجنا تھا جب وہ قاہرہ تشريف لے گئے تو اسوقت قاسم غنى وہاں ايرانى سفير تھے وزارت خارجہ كى اسناد كے مطابق ان دونوں نے باہمى كوشش سے علماء اہلسنت كے ساتھ وسيع پيمانے پر تعلقات قائم كيے تا كہ اہل تشيع كے بنيادى قواعد كى تشريح و تفسير كى جائے جسكى بناء پر وہاں بالاخر دارالتقريب مذاہب اسلامى كاادارہ تشكيل پايا_ (1)جيسا كہ پہلے بھى اشارہ ہوا ہے اسلامى بيدارى كى تحريك كا ايك جديد ركن يونيورسٹى كے طلباء كى اسلام پسند تحريك تھى جو اسى زمانہ ميں وجود ميں آئي اور ثابت قدمى سے فعاليت كر رہى تھى ،يونيورسٹياں جو كہ مختلف افكار ونظريات كے تبادلے كا مركز تھيں وہاں اسلامى نظريات اور دينى تشخص كے دفاع كے نظريات و خيالات بتدريج بڑھ رہے تھے _ اس تحريك كا مقصد اسلام كو غلط عقائد سے پاك كرنا اور اسلام كا تعارف اس دين كے عنوان سے كروانا تھا كہ جو علم ، معاشرتى انصاف ، مساوات اور آزادى كے ساتھ ہم آہنگ ہے اور جہالت ، ظلم ، بے انصافى ، آمريت اور استعمار كا مخالف ہے _اس تحريك كى تشكيل ميں بڑا حصہ اہل فكر علما اور اسلام پسند اساتذہ كى كاوشوںپر مشتمل تھا مثلا آيت اللہ—————————1) سابقہ ماخذ ص 391_ 390349طالقاني، استاد محمد تقى شريعتى ، حسين على راشد ،محمد تقى فلسفي، ڈاكٹر محمود شہابى ، ڈاكٹر عطاء اللہ شہاب پور، مہدى بازرگان ، يداللہ سحابى اور ديگر افراد;بعد ميں آنے والے عشروں ميں انكى تعداد بڑھتى چلى گئي_يونيوسٹى كے طلاب كے ايك گروہ نے ايك تنظيم ‘ انجمن اسلامى دانشجويان’ قائم كى اور اسلامى بيدارى كى مندرج بالا فعاليت كو مستحكم كيا اور وسعت بخشى _ يہ انجمن 1320 شمسى ميں تشكيل پائي اور بعد ميںآنے والے دو عشروں ميں اس نے كافى ترقى كى _(1)چوتھے عشرہ ميں اسلامى بيدارى كے افكار كى ترويج كے مراكز مساجد تھيں ہر ايك مسجد ميں كوئي مذہبى مجاہد تقرير اور تفسير قرآن مجيد كا پروگرام چلا رہا تھا ان سب ميں تہران كى مسجد ہدايت اور اسكے امام آيت اللہ طالقانى كا كردار سب سے برجستہ تھا _ آيت اللہ طالقانى كا پيش نظر ہدف جوانوں اور روشن فكر حضرات ميں سچے اسلام كى ترويج اور كيمونيزم اور مغربى نظريات كے جال سے بچانا تھا _چوتھے عشرہ ميں بالخصوص 1332 شمسى 28 مرداد ميں امريكہ اور انگلستان كى مشتركہ سازش كى بناء پر بغاوت كے بعد كہ جب دوبارہ بادشاہت كى صورت ميں ايك ڈكٹيڑ حاكم بن چكا اور دوبارہ دينى رسم و رواج كے ساتھ مقابلہ شروع ہوا اوردين كى مخالفت ميں بڑھ چڑھ كر كوشيشں كى جانے لگيں اور ايك طرح كا مذہبى و فكرى خلا سا پيدا ہوچلا تھا كہ آيت اللہ طالقانى نے مذہبى ارتقاء كے قواعد و اصول كو پيش كيا_ انكى تقارير اور تفسير قرآن كى محلفوں ميں مذہبى و سياسى مجاہدين ، دينى طلبا اور يونيورسيٹوں كے طلبا حضرات شركت كيا كرتے تھے(2) ان اقدامات نے بيدارى كى تحريك كى بقاء ميں اہم كردار ادا كيا_بتدريج مسجد ہدايت جوان نسل بالخصوص دينى معارف سے بہرہ مند يونيورسٹى كے طلبا اور دانشور طبقہ كا اہم مركز بن گئي_ جيسا كہ آنے والے سالوں اور عشروں ميں مسجد ہدايت كے پروگراموں ميں شريك ہونے————————-1) على رضا كريميان ، جنبش دانشجويى در ايران، تہران مركز اسناد انقلاب اسلامى ص 120_ 115_2) بہرام افراسيابى و سعيد دہقان، طالقانى و انقلاب ، ج 2 ، تہران، ص 61_ 59_350والے بہت سے حضرات متحرك سياسى اور ثقافتى شخصيات ميں تبديل ہوگئے_ اور اسى مسجد ہدايت كے شاگردوں كا ايك گروہ دين كے احياء اور اسكى حفاظت كى راہ ميں مقام شہادت پر فائز ہوا _ ان ميں معروف ترين چہرے آيت اللہ مرتضى مطہري، محمد على رجائي ، مہدى بازرگان، جلال الدين فارسى اور محمد جواد باہنر … تھے _چونكہ مسجد ہدايت نے دينى معارف كى نشر و اشاعت ميں اہم كردار ادا كيا اس ليے اسے ‘ دالان دانشگاہ’ (يونيورسٹى كى دھليز) كے عنوان سے ياد كيا گيا كيونكہ جہاں مذہبى محافل كے ساتھ ساتھ اس زمانہ كے روزمرہ كے مسائل كو اسلامى اقدار كے ساتھ مطابقت ديتے ہوئے محور تجزيہ قرار ديا جاتا تھا _ (1)چوتھے عشرہ ميں پہلوى حكومت نے رضا شاہ كى دين مخالف پاليسى وسيع پيمانے پر دوبارہ اجرا كرنا شروع كردى اور قومى آداب اور اسلامى اقدار كو غلط قرار ديا اور ايرانى آداب ور سوم اوراسلامى ثقافت كى جگہ مغربى كلچر كو رواج ديا _ اسى دوران 1335 شمسى ميںساواك كى تشكيل نے اس حكومتى پاليسى كى حمايت ميں بہت اہم كردار ادا كيا _ہجرى شمسى سال كے پانچويں اور چھٹے عشرے ايران كى معاصر تاريخ ميں سياسي، اقتصادى ، معاشرتى دينى فكر كے احياء اور اسلامى بيدارى كى تحريك كے پھلنے پھولنے ميںايك خاص مقام ركھتے ہيں ان دو عشروں ميں دينى فكر و نظريہ كے احياء كى تحريك نے نئي كروٹ لى اس مرحلہ ميں اس تحريك كے يكتا قائد امام خمينى تھے آپ حقيقتاً نظرى اور عملى ميدانوں ميں گذشتہ مجددبزرگوں سے مختلف اور منفرد كام كر رہے تھے اسى طرح اس دور ميں ديگر سياسى اسلام كے معتقد اور دينى حكومت كى برپائي كے خواہشمند عناصر نے امام خمينى كى قيادت ميں انكى حقيقى تحريك كو مستحكم كيا_چوتھے عشرہ كے آخرى سالوں ميں بين الاقوامى حالات كے اثرات كى بناء پر ايرانى معاشرہ ميں سياسى گھٹن كى شدت كم ہوئي اور كسى حد تك آزاد سياسى فضا اور محدود آزادى كا ماحول پيدا ہوا _ بين الاقوامى حالات ميں تبديلى كى وجہ امريكہ ميں ڈيموكريٹ پارٹى كى جان ايف كنيڈى كى قيادت ميں كاميابى اور اسكا————————-1 ) لطف اللہ ميثمى ، از نہضت آزادى تا مجاہدين، ج 1، تہران ، ص 91_ 88_351امريكہ كے زير اثر ممالك ميں سياسى جمود كو ختم كرنے اور سياسى اور معاشرتى سطح پر اصلاحى تبديليوں كو لانے پر زور دينا تھا_امريكہ كى اس پاليسى كا مقصد ان ممالك ميں سياسى اور معاشرتى بحرانوں كو كنٹرول كرنا اور كميونيزم كو پھلنے پھولنے سے روكنا تھا (1) ايران ميں ارضى اصلاحات اور سفيد انقلاب كے اصول و قوانين كا اجراء در اصل كنيڈى كى ڈيموكريٹ پارٹى كى منشاء كے مطابق تھا ،پہلوى حكومت نے لاچار ہو كر اسے قبول كيا تھا _امام خمينى كى قيادت ميں مذہبى قوتوں نے اس پاليسى كى (جو بظاہر اصلاح پسند ليكن عمل ميں امريكہ كى مادى اور غير مادى امداد كے ساتھ ايران كو مغربى طرز كا بنانے كى پاليسى تھى )مخالفت كى ، يہيں سے ايران كى روشنفكر تاريخ كا تيسرا دور شروع ہوا اس تاريخى دورانيہ ميں دينى روشن خيالى اور اسلامى بيدارى كى تحريك تمام ديگر مسائل پر غالب تھي_ اس مرحلہ ميں ايران كى روشن خيال فضا ميں ايك اہم تبديلى پيدا ہوئي كہ اسے ‘ تو بہ روشفنكرى ‘ (روشن خيالى كى توبہ) سے تعبير كيا گيا ہے _ (2)1340 شمسى كى ابتدائي ايام ميں ايك حادثہ كہ جس نے اسلامى بيدارى كے مسئلہ كو تيار كيا آيت اللہ بروجردى كى وفات تھا_ وہ پندرہ سال تك شيعوں كے بلامقابلہ مرجع تھے_ لذا اس حوالے سے ايك بہت بڑا خلاء پيدا ہوا اسى دور ميں ايران اور نجف ميں ايسے مجتہد تھے كہ جو صاحب رسالہ يا مرجعيت كى صلاحيت كے حامل تھے مثلا امام خمينى (رہ) اور آيت اللہ گلپايگانى ، آيت اللہ مرعشى نجفى ،آيت اللہ شريعتمدارى ، آيت اللہ حكيم ، آيت اللہ خوئي ، آيت اللہ شاہرودى ، آيت اللہ شيرازى اور آيت اللہ يثربي … اسى گروہ ميں سے تھے(3) حكومتى كابينہ اس كوشش ميں تھى كہ مركز مرجعيت كو نجف كى طرف منتقل كيا جائے لہذا انہوں نے آيت اللہ بروجردى كى وفات پر تسليت كا پيغام آيت اللہ حكيم كى خدمت ميں بھيجا(4)——————————-1) عباس خلجى ، اصلاحات امريكاى و قيام پانزدہ خرداد، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامى ،ص 45_ 44_2) محمد على ذكريابى ، در آمدى بر جامعہ شناسى و روشنفكرى دينى ، تہران _3) روح اللہ حسينيان، سہ سال ستيز مرجعيت شيعہ (1343_ 1341)،تہران ،ص 126_4)محمد حسن رجبي، زندگينامہ سياسى امام خمينى ،ج1 ،تہران ، مركز اسناد انقلاب اسلامى ص 226 ، 225_352آيت اللہ بروجردى كى وفات كے بعد اصولى مكتب كے جدت پست علماء كے ايك گروہ اور بعض دينى روشن خيال دانشوروں نے مرجعيت كے موضوع پر غور و خوض كرنے كيلئے نشستيں كيں اور اپنے تجزيہ و تحليل كو ايك مقالہ كى شكل ميں لاكر 1341 شمسى ميں ايك كتاب بنام ‘ بحثى دربارہ مرجعيت و روحانيت’ كى صورت ميں شايع كيا (1) اس كتاب كى مباحث ميں دين پر ايك نئي نگاہ اور دينى مسائل ميں اصلاحى نظريات كو بيان كيا گيا تھا ،مثلا دين اسلام كے دامن كو خرافات سے پاك كرنا شيعہ رہبر كا اپنے دور جديد اور ضرورى علوم سے ضرورى طور پر آگاہ ہونا _ مذہبى فعاليت كى پشت پناہى كيلئے جداگانہ اقتصادى اساس فراہم كرنے كى ضرورت پر زور تاكہ وہ حكومت يا عوامل كى طرف دست دراز كرنے سے بے نياز ہو اور گروہى صورت ميں مرجعيت بنام ‘شورائے فتوا’ (افتاء كونسل) كى رائے دينا _(2)اسلامى بيدارى كى اس نئي لہر ميں امام خمينى (رہ) اور انكے ہم فكر علماء نے يہ كوشش كى كہ سياست كومرجعيت كے محور كى طرف لوٹا ديا جائے _ يونيورسٹى طلباء كى مذہبى تنظيم نے بھى اس مقصد كى تكميل كيلئے مدد كى _ اور اس نظر كى تشريح اور وضاحت كيلئے ‘ سياست ميں روحانيت كى طرف رحجان’ اور ‘ ايرانى مسلمان كا اپنى طرف لوٹنا’ جيسى اصطلاحات سے مدد لى ہے (3) امام خمينى نے اس ہدف كے حصول كيلئے حوزہ علميہ كو مستحكم كيا_ (4)16 مہر 1341 شمسى ميں حكومتى اراكين ميں قانون ‘ انجمنہاى ايالتى و ولايتى ‘ (قومى اور صوبائي انجمنيں) پاس ہوا كہ جسكى بناء پر منتخب ہونے ا ور منتخب كرنے والوں كى شرائط ميں سے مذہب اسلام كى شرط ختم ہوگئي تھى اور قرآن كى قسم كى بجائے آسمانى كتاب كى قسم كو حلف نامے ميں قرار ديا گيا تھا،يہ قانون پاس ہونے سے————————————–3) بحثى دربارہ مرجعيت و روحانيت ( مجموعہ مقالات) ،تہران_4) آ_ مراد حامد الگار ، برك و ديگران ،نہضت بيدارگرى در جہان اسلامى ، ترجمہ محمد مہدى جعفرى تہران ص 113 _ 131_3) محمد تقى قزل سفلى ‘ امام خميني، گفتمان احياء و چالش با گفتمانہاى غالب’ ايدئولوى ،رہبرى و فرايند انقلاب اسلامى مجموعہ مقالات ‘ ج 2، تہران، موسسہ چاپ ونشر عروج ص 252 _4) رسول جعفريان ، سابقہ ماخذ ، ص 139_353ايك بہت بحران پيدا ہوا كہ جو بذات آنے والے دور ميںبہت سے بحرانوں اور تغير و تبدل كا باعث بنا_ (1) اس كے بعد امام خمينى نے علماء قم كو دعوت فكر ديتے ہوئے اور انكے ساتھ مشورہ كيلئے نشستوں كا انعقاد كرتے ہونے رسمى طور پر اپنى فعاليت كا آغاز كيا _ (2) امام خمينى كى زير قيادت اس تحريك ميں ايك نيا نكتہ يہ تھا كہ اب تك تمام تر تنقيد كا مركز حكومت تھى جبكہ اس كے بعد تنقيد كا مركز محمد رضا پہلوى تھا (3) اس مجددانہ فكركے مد مقابل پہلوى حكومت كا مزاحمت كرنا باعث بنا كہ يہ اصلاحى تحريك ايك انقلابى فكر ميں تبديل ہوگئي_(4)امام خميني نے مذكورہ قانون پر شرعى اشكالات كرتے ہوئے اسكى مخالفت كا آغاز كيا اور اسكے لغو ہونے كا مطالبہ كيا ،بادشاہ اور وزير اعظم ‘ علم ‘ كو ايك ٹيلى گراف ميں قرآن اور اسلامى احكام كى نافرمانى اور مخالفت كى صورت ميں بھيانك نتائج سے آگاہ كيا _ (5)امام خمينى كى كوشش سے يہ مخالفت پورے ملك ميں پھيل گئي _ امام خمينى كے مقلدين اور شاگردوں نے مختلف طريقوں سے اما م كے بارے ميں خبريں ، معلومات اور انكے پيغامات سارے ملك ميں پھيلا دے_ اور يوں يہ لوگ اپنے شہروں ، حوزہ علميہ قم اور امام خمينى كے درميان ايك پل كى مانند كام كر رہے تھے_(6)اسلامى بيدارى كى تحريك كا پہلا مرجلہ 10 آذر 1341 ميں پہلوى حكومت كى پسپائي اورمذكورہ قانون كے لغو كرنے سے كاميابى كے ساتھ طے ہوگيا اس كے بعد كا مرحلہ مراجع اور علماء كا سفيد انقلاب كے چھ اصولوں كے بارے ميں ريفرنڈم كى مخالفت تھا كہ جو چھ بہمن 1341 ميں انجام پايا_ اس مرحلہ ميں اشتہارات لگانے، احتجاجى مظاہرے ، تقارير اور مشورہ كے حوالے سے نشستوں كا اہتمام كيا گيا كہ اس مخالفت كى بناء پراس ريفرنڈم———————-1) عباس جلجي، سابقہ ماخذ ، ص 123_2) روح اللہ حسينيان، سابقہ ماخذ ، ص 127_ 126_3) رسول جعفريان، سابقہ ماخذ ، ص 142_4) محمد على زكريايي، سابقہ ماخذ ، ص 110_ 104_5) صحيفہ نور، باسعى سازمان مدارك فرہنگى انقلاب اسلامى ، تہران، ج 1 ، ص 43_ 27_6 ) رحيم روح بخش ‘ چند شہرى بودن جنبش ہاى معاصر ايران، بررسى قيام 15 خرداد، گفت و گو ،ش 29 ،ص 37_ 36_354ميں بہت كم لوگوں نے شركت كى _(1)اسى دوران ايك اہم واقعہ 2 فروردين 1342 كا واقعہ تھا جسميںپہلوى حكومت نے مدرسہ فيضيہ قم اورمدرسہ طالبيہ تبريز ميں علماء پر حملہ كيا جسكے ضمن ميں كچھ افراد قتل اور كچھ زخمى ہوئے ،يہاں ايك دلچسپ نكتہ يہ ہے كہ پہلوى حكومت نے عوام كو فريب دينے كيلئے اس واقعہ كو اصلاحات ارضى كے مخالف علماء اور اسكے موافق كسانوں كے درميان نزاع قرار ديا_ اور كہا گيا كہ يہ كسان زيارت كے ليے قم آئے تھے اور علماء سے ٹكرا گئے_ ليكن حكومت كا يہ اقدام بھى گذشتہ دين مخالف اقدامات كى مانند برعكس نتائج كا سبب قرار پايا_ پورے ملك ميں حكومت كے خلاف غصہ و نفرت كى لہر چلى _ يہانتك كہ نجف اور كربلا كے حوزات سے رد عمل سامنے آيا اور ايران كى طرف ٹيلى گرافوں اور بيانات كا ايك سيلاب روانہ ہوا (2) سب سے شديد اللحن اعلان امام خمينى كى طرف سے صادر ہوا انكا يہ اعلان ‘شاہ دوستى يعنى غارتگرى ‘كے عنوان سے لوگوں ميں مشہور ہوا_(3)تحريك كا ايك اور مرحلہ كہ جو تحريك كے آنے والے دور ميں ديگر مراحل ميں بہت زيادہ اہميت اور اثرات كا حامل تھا اور تاريخ معاصر كا بھى ايك مقطع شمار ہوتا ہے 15 خرداد 1342 كا قيام تھا_اس سال كے محرم ميں مجاہد علماء نے پہلوى حكومت كى پر تشدد كا روائيوں پر تنقيد كى جسكے نتيجہ ميں پر عزادارى كى محافل ،جہاد اور سياسى فعاليت كے مراكز ميں تبديل ہوگئيں_ اس مرحلہ تحريك ميں عوام كے تين طاقتور اورموثر طبقات تاجر،يونيورسٹى والے اور علماء نے اپنى وحدت ديكجہتى كا مظاہرہ كيا _ اس مرحلہ تحريك كا عروج امام خمينى كى عاشورا كے دن مدرسہ فيضيہ قم ميں تقرير تھى كہ جس ميں انہوں نے اعلان كيا كہ تحريك كا مقصد بادشا اور اسرائيل سے مقابلہ اور اسلام كو انكے خطرات سے محفوظ ركھنا ہے ‘ _———————–1) سابقہ ماخذ ،ص 53_2) عباس على حميد زنجاني، انقلاب اسلامى ايران ( علل، مسائل و نظام سياسى )، تہران ص 146_ 142_3) صحيفہ نور، ج 1 ، سابقہ ماخذ ، ص 75_73_355اپنى تقرير كے ايك اور حصے ميں محمد رضا پہلوى كو مخاطب كر كے فرمايا: ميں نہيں چاہتا كہ تيرا انجام تيرے باپ كى مانند ہو ،يہ چاہتے ہيں كہ تجھے يہودى كے عنوان سے پيش كريں تا كہ ميں كہوں كہ تو كافر ہے تا كہ تجھے ايران سے نكال ديں اور تيرا كام تمام كرديں _(1)پندرہ خرداد كا قيام در حقيقت علماء كا انتہايى سنجيدگى سے سياسى فعاليت كا مظاہرہ اور سياسى اسلام كو حقيقت ميں سامنے لانے كى كوشش تھا _ تاجر طبقہ بھى عشروں سے قوم پرستانہ نظريات سے منسلك رہنے كے بعد اب مراجع اور علماء كى راہنمائي سے سياسى اسلام پسند نظريات كى طرف رخ چكا تھا اور يہ نيا مرحلہ پانچويں عشرہ ميں اسلامى بيدارى كى تحريك كى خصوصيات ميں سے تھا ،دوسرا قابل توجہ نكتہ ايران كى جغرافيائي سرحدوں كے اندر انتہائي سرعت سے پيغام و معلومات كا پہنچنا اور عوام كے مختلف طبقات كا ان كوششوں ميں شريك ہونا تھا _ (2) اس قيام نے ثابت كيا كہ اسلامى بيدارى كى تحريك ايك طاقتور تحريك كى صورت ميں سامنے آچكى تھي_آيت اللہ بروجردى كى وفات سے ليكر 15 خرداد كے قيام تك كچھ اور ضمنى لہروں نے بھى اسلامى بيدارى كى اس موج كو مزيد مستحكم كيا كہ ان لہروں كى فعاليت كا مركز بھى مذہبى اور اسلامى تھا _ اس تحريك كے اس حصہ ميں جس ميں دينى علماء نہيںتھے مذہبى اور قوم پسند رحجانوں كے باہمى اختلاط سے دينى روشن خيالى اور دينى احياء كى تحريك وجود ميں آئي_ اگر چہ اس تحريك كے تانے بانے كئي عشرے قبل كى تحريك سے ملتے ہيں_ايران ميں نہضت آزادى ‘تحريك آزدى ‘ايك مذہبى و سياسى تنظيم تھى كہ جو 1340 شمسى ميں ارديبہشت (ايرانى مہينہ) كے آخر ميں مہدى بازرگان، يداللہ سحابي، آيت اللہ طالقانى اور ديگر قوم پرست مذہبى لوگوں كى كوششوں سے وجود ميں آئي _ بازرگان نے اس تحريك كى تشكيل كا مقصد ‘ (ايراني) قوميت اور————————1) سابقہ ماخذ ،ص 93_91_2) رحيم روح بخش ، سابقہ ماخذ، ص 69_ 68_356تحريك كے اصول كو مدنظر ركھتے ہوئے نئي اسلامى بيدارى سے ہم آہنگى برقرار كرنا ‘بتايا (1) جلال الدين فارسى اور محمد على رجائي كا اس تنظيم كا ركن ہونا اور آيت اللہ بہشتي، آيت اللہ مطہرى اور محمد جواد باہنر جيسے افراد كا اس تحريك كے قائدين سے دوستى و رابطہ اس تحريك كے قائدين كے دين اسلام كى طرف ميلان كو بيان كر تا ہے_نہضت آزادى كے منشور ميں بھى ايرانى قوم كے اساسى حقوق كے احياء كے ساتھ ساتھ اخلاقي، معاشرتى اور سياسى اصولوں كى دين مبين اسلام كى بنياد پر ترويج كى تاكيد ملتى ہے_(2)اس تحريك كى فعاليت كے مقابلے ميں پہلوى حكومت كا رد عمل اس تحريك كے قائدين كى گرفتاريوں اور عدالتى كا روائيوں كى صورت ميں سامنے آيا اور يہ عدالتى كا روائياں سياسى جلسوں ميں تبديل ہوگئيں _ دينى طلاب، سياسى كاركن حضرات اور يونيورسٹى كے طلباء ان كا روائيوں كى نشستوں ميں شريك ہوتے تھے اور آيت اللہ طالقانى اور ديگران سے ملاقات اور گفتگو كر تے تھے(3) در حقيقت يہ عدالتى كاروائياں خود حكومت كے محاكمہ اور حكومت كے طرز عمل كے بارے ميں انكشافات ميں تبديل ہوچكى تھيں كہ مجموعى طور پر اس مسئلے نے اسلامى بيدارى كے مراحل كو سرعت بخشي_(4)ان سالوں ميں امام خمينى كى قيادت ميں اسلامى بيدارى كى تحريك كى خصوصيات مندرجہ ذيل ہيں:دين و سياست كے ملاپ كے نظريہ كو مستحكم كرنا_ پہلوى حكومت كے ساتھ كوئي سمجھو تہ نہ كرنا ،علمى ميدان ميں سياسى اجتہاد كو استحكام دينا اور فكر و عمل ميں ہم آہنگى برقرار كرتے ہوئے آمريت اور استعمار كا مقابلہ كرنا … ان ميں سے سب سے اہم دنيا كى جديد آمريت كو نشانہ بنانا تھا ،انہى سالوں ميں ديگر بيدارگر شخصيات ميں سے محمود طالقانى اور مرتضى مطہرى قابل ذكر ہيں كہ جنہوں نے زيادہ تر فكرى ميدانوں ميں————————-1) 60 سال خدمت و مقاومت ( خاطرات مہندس مہدى بازرگان )ج 1، غلام رضا نجاتى تہران ، موسسہ خدمات فرہنگى رسا، ص 374_2) اسناد نہضت آزادى ايران، ج1 ، تہران، ص 44_3) عباسى على عميد زنجاني، سابقہ ماخذ، ص 150_4) محمد حسن رجبى ، سابقہ ماخذ_ ص 341 _ 239_357فعاليت كي_(1)انہى سالوں ميں يونيورسٹى كے طلاب كى مذہبى تنظيم كا بھى اسلامى بيدارى كى تحريك ميں قابل ذكر حصہ ہے _ وہ دانشور اور مجاہد علماء مثلا علامہ طباطبائي، آيت اللہ مطہرى اور آيت اللہ طالقانى سے رابطہ ميں رہتے تھے_’انجمن اسلامى دانشجويان’ كى تنظيم كى صورت ميں طلباء نے دو عشروں تك علمى موضوعات مثلا ماركسزم كے مقابلے ميںدين اسلام كے دفاع كے موضوع پر فعاليت كى اور تمام اقوام اسلام كے اتحاد پر زور ديا انہوں نے امام خمينى كى اسلامى تحريك كے آغاز سے ہى آپ سے رابطہ قائم كيا_ امام خمينى نے ايك سياسى مرجع تقليد كے عنوان سے اس طلباء كى تحريك كيلئے ايك مذہبى برجستہ قائد كے خلاء كو پر كيا(2)امام خمينى كى سياسى فعاليت بڑھنے اور بالخصوص ‘كيپيٹلائزيشن’ كے بل كے پاس ہونے پر اعتراض كى بناء پر امام خمينى كو پہلے تركى اور پھر نجف اشرف كى طرف جلا وطن كياگيا_جسكى وجہ سے آمرانہ اقدامات اور سياسى گھٹن ميں اضافہ ہوگيا اور سياسى فعاليت مخفى صورت ميںانجام پانے لگي_ اس زمانہ كے وزير اعظم حسن على منصور كے قتل نے بھى اس سياسى گھٹن كو بڑھايا_ لہذا ان سالوں ميں اسلامى تحريك زيادہ ترعسكرى اور نظرياتى صورت ميں سامنے آئي_ مؤتلفہ اسلامي، حزب ملل اسلامى اور مجاہدين خلق كى تنظيم كى فعاليت نئي صورت ميں تشكيل پانے لگى ان ميں حزب ملل اسلامى عالم اسلام پر چھائي ہوئي فكرى فضا سے متاثرہوتے ہوئے اور دينى روشن فكر اور مصلح حضرات كى پيروى ميں بين الاقوامى اسلامى انقلاب كے ذريعے فرقہ و قوم كے تعصب سے قطع نظر ايك وسيع اسلامى حكومت كى تشكيل كى خواہاں تھي_(3) جبكہ مجاہدين خلق كى تنظيم 1344 سے 1350 تك فوجى اور عسكرى تربيت اور اس حوالے سے نظرى مطالعات ميں مشغول رہي_————————–1) مرتضى مطہرى ،احياء فكر ديني، دہ گفتار ( مجموعہ مقالات) تہران، ج 5 ، ص 151 _ 129، احياء تفكر اسلامي، تہران ،ص 14_7 ، رسول جعفريان، سابقہ ماخذ ،ص 197 _ 193_2) عليرضا كريميان ، سابقہ ماخذ ، ص 217 _ 214_3) اسماعيل حسن زادہ، تاملى در پيدايش و تكوين حزب ملل اسلامي، متين ، س 2 ، ش 5،6 _ ص 82 _ 62_358جسكے نتيجہ ميں سن پچاس كے عشرہ ميں اسلامى بيدارى كى تحريك كے مراحل كچھ زيادہ مؤثر نہ تھے_1350 سے ليكر 1353 شمسى تك اس تنظيم كے بہت سے قائدين اور بانى حضرات انكى مسلحانہ سرگرميوں كے انكشاف پر گرفتار ہوئے يا پھانسى چڑھ گئے_(1) يہ تنظيم 1354 شمسى ميں اندرونى خلفشار كا شكار ہوئي اور دو گروہوں اسلامى اور كيميونسٹ ميں بٹ گئي اور پھر يہ اختلاف آپس ميں خونى لڑائيوں تك پہنچ گيا_(2)1356 شمسى سے سياسى گھٹن كم ہونا شروع ہوى اور آہستہ آہستہ سياسى قيدى آزاد ہونا شروع ہوئے _ ان سالوں ميں اسلامى گروہوں ميں بعض مجاہدين مثلا محمد جواد باہنر، محمد على رجائي، ہاشمى رفسنجاني، جلال الدين فارسى اور ديگرافراد كے ذريعے علمى فعاليت كہ جس كا سياسى رنگ كم تھا كا آغاز ہوا (3) كو اپريٹواشاعتى اداروںكى فعاليت كہ جو مذہبى مجاہد طرز كے دانشور حضرات كى قلمى كاوشوں كى اشاعت كرتے تھے ،نے دينى تفكر كو پھيلانے ميں اہم كردار ادا كيا_(4)بيدارگراور دينى مصلح شخصيات كے ساتھ ساتھ جلال آل احمد، مہدى بازرگان اور على شريعتى جيسى شخصيات كے نظريات اور آثار نے بھى بتدريج اسلامى بيدارى كے رجحان كو قوت بخشي_ آل احمد نے اپنى دو كتابوں ‘غرب زدگى و در خدمت و خيانت روشنفكران’ ميں مغرب پرستى اور روشن فكرى كے مختلف پہلووں كو واضح كيا ،وہ تشيع كو ايرانى تشخص كاجزو لاينفك سمجھتے تھے اور مغربى تسلط كے مقابلے ميں دينى علماء كے كردار پرزور ديتے تھے_(1)———————1) غلام رضا نجاتي، تاريخ سياسى بيست سالہ ايران، ج 1، تہران ، ص 407 _ 393_2) بيانيہ اعلام مواضع ايدئو لويك ،تہران ، سازمان مجاہدين خلق ايران، 1354_3) جلال الدين فارسي، زواياى تاريك، تہران، حديث ، ص 138_4) حسن يوسفى اشكوري، در تكاپوى آزادى ، ج1، تہران ، ص 239 _ 238_5) مہرزاد ، بروجردي، روشنفكران ايران و غرب، ترجمہ جمشيد شيرازى ، تہران ، ج 2 ص 123 _ 118، محمد على زكريايي، سابقہ ماخذ ، ص 193_ 189_359بازرگان نے بھى وسيع سياسى فعاليت كے ساتھ ساتھ پچاس كے عشرہ سے قلمى نظرياتى محاذپر كام شروع كيا_ 1345 شمسى ميں اپنى اہم ترين كتاب ‘ بعثت و ايدئولوي’ (بعثت اور آئيڈيالوجي) كو تحرير كيا (1) اس قسم كى فعاليت ساٹھ كے عشرہ ميں بھى جارى رہي_ ڈاكٹر شريعتى كى خدمات اسلامى تحرك كو يونيورسيٹوں طلبا اور نوجوان نسل ميں پھونكنے اور انہيں مغربى ماركسسى نظريات سے دور ركھنے ميں انتہائي اہميت كى حامل ہيں انہوں نے اپنے نظريے’بازگشت بہ خويشتن'(اپنى طرف لوٹنا)كے ذريعے آل احمد كے مغرب پرستى كے موضوع كو آگے بڑھايا(2)پچاس كے عشرہ ميں بالخصوص اسكے دوسرے حصہ ميں عالم اسلام ميں بيدارى كى لہر اور اسلامى اقوام كى خود مختارى كى كوششوں نے بھى ايران ميں اسلامى بيدارى كى تحريك پر اثرات مرتب كيے اس حوالے سے الجزائر كے مجاہد مسلمانوں كى كاميابى اور فلسطين كى تحريك زيادہ موثر رہي_ (3)اس دور كا اہم ترين واقعہ 1349 شمسى ميں امام خمينى كى طرف سے نجف ميں اسلامى حكومت كى علمى بحث كا ‘ ولايت فقيہ’ كے عنوان سے آغاز تھا_ انہوں نے ان نشستوں ميں فقہاء كى حكومت، دين و سياست كے ملاپ اور آئيڈيالوجى كے عبادت سے بالاتر ہونے كے اثبات اور وضاحت كو محور سخن قرار ديا ،ان مباحث كے ضمن ميں ايرانى حكومت اور ديگر اسلامى ممالك كے حالات پر بھى تنقيد كى اور اہل نظر حضرات كو ان موضوعات پر مطالعہ اور تحقيق كيلئے دعوت دي_(5)ان كے افكار پيغام رسانى كے چينل كے ذريعے ايران منتقل ہوئے جو ايرانى مجاہدين ميں نئي رو ح پھونكنے كا باعث بنے_يورپ اورامريكہ ميں امام خمينى كے افكار كى مقبوليت اور اشاعت ميں ايك سبب وہاں كے ايرانى مسلمان————————1) سعيد برزين ، زندگينامہ سياسى مہندس مہدى بازرگان ، تہران، ج 2 ، ص 102_ 201_2) مہرزاد بروجردى ، سابقہ ماخذ ، ص 167_3) رسول جعفريان، سابقہ ماخذ ص 222 _ 220 ، فرہدد شيخ فرشي، روشنفكرى دينى و انقلاب اسلامى ، تہران، ص 340 _ 3394) حميد روحاني، نہضت امام خمينى ، ج 2 ، تہران ، ص 695 _ 681360طلباء كا كردار تھا كہ جو اسلامى انجمنوں كى صورت ميں فعاليت كر رہے تھے اور نجف سے رابطہ ركھے ہوئے تھے وہاں كى مناسب سياسى فضاء اور ان طلباء كى ذرائع ابلاغ تك رسائي نے انہيں تبليغ اور فعاليت كا زيادہ سے زيادہ موقعہ فراہم كيا ،اس حوالے سے آيت اللہ بہشتى كہ جو جرمنى ميں ہيمبرگ كے اسلامى مركز كے سر براہ تھے انكا ان طلباء سے رابطہ انتہائي اہميت كا حامل تھا سنہ 1345 شمسى ميں يورپ كے مسلمان طلباء نے ايك رسالہ بنام ‘ اسلام مكتب مبارز’ بھى جارى كيا(1) ساٹھ كے عشرہ ميں حسينيہ ارشاد ميں ڈاكٹر على شريعتى كى تقارير اور انكى تاليفات كے ممنوع ہونے كى بناء پر يونيورسٹى كے طلباء ميں انكى تاليفات كے مطالعہ كا رجحان بڑھ گيا انكى سماجيات، تاريخ، فلسفہ اور دين كے امتزاج پر مبنى گفتگونے طلباء كے مذہبى ونگ ميںاسلامى بيدارى كے احساس كو مزيد قوت بخشي(2)_مطہري، مفتح، محمد تقى جعفرى اور فخرالدين حجازى كى يونيورسيٹوں ميںتقارير اور قلمى آثار نے جہاں حوزہ علميہ اور يونيورسيٹوں كو ہم فكر اور ہمقدم بنانے ميں كردار ادا كيا وہاں اسلامى بيدارى كى تحريك كو علم، ايمان اور جديد دور كى معلومات سے بھى يكساں طور پرمسلح كيا _1351 شمسى ميں پہلوى حكومت نے سپاہ دين كو تشكيل ديا تا كہ اپنے مخالف علماء كى فعاليت كو كنٹرول كرے_ ليكن اس اقدام كا نتيجہ بھى الٹ نكلا امام خمينى كى قيات ميں علماء نے سختى سے اس اقدام كى مخالفت كى اور حكومت كے خلاف وسيع پيمانے پر مہم چلائي_1354 شمسى اور 1355 شمسى ميں بے پناہ سياسى گھٹن اور صف اوّل كے بہت سے مجاہدين اور دانشور شخصيات كو قيد و بند ميں ڈالنے كى فضاء سے اسلامى بيدارى كى تحريك كچھ عرصہ كيلئے جمود كا شكار ہوئي اور زيادہ تر يونيورسٹى طلبا كى تحريك كى صورت ميں جارى رہى ،يونيورسٹى كے طلباء نے يونيورسيٹوں ميں بہت سے——————–1) على رضا كريميان ، سابقہ ماخذ، ص 273_ 271 ، ياران امام بہ روايت اسناد ساواك ( شہيد بہشتي) مركز بررسى اسناد تاريخى وزارت اطلاعات )_ ص 127_ 123 ، 78، 77، 67ؤ 39، 34 عباس على عميد زنجاني، سابقہ ماخذ، ص 173 _ 170 ، علمى دوانى ، نہضت روحانيون ايران، ج 5و 6 مركز اسناد انقلاب اسلامى ، ص 208 _207_2) شريعتى بہ روايت اسناد ساواك ، 3 جلد ، تہران، مركز اسناد انقلاب اسلامي_361نماز خانے قائم كيے_ كوہ پيمائي كے پروگرام بنائے ، نماز جماعت كا اہتمام كيا، اور گھروں ميں علمى نشستيں ركھتے ہوئے نظرياتى جنگ اور يونيورسٹى اور معاشرہ ميں فاسد كلچر كے مقابلہ پر مبنى گفتگو اور اسى طرح كے ديگر كام سرانجام ديتے ہوئے انہوں نے اس جمود كے دور كو بعد كے مرحلے كے ساتھ متصل كيا وہ مرحلہ جس ميں انقلاب كى كاميابى كيلئے آخرى جوش و خروش پيدا ہوا تھا_(1)ساٹھ كے عشرہ ميں اس معتدل اور اصولى فكرى اور اسلامى سياسى فعاليت كے ساتھ ساتھ كچھ اور گروہ بھى كام كر رہے تھے كہ جو مذہبى طور پر متشددانہ افكار كے مالك تھے ان ميں سے وہ جو علماء كے ساتھ رابطہ ركھے ہوئے تھے ،ميں سے سات كى طرف اشارہ كيا جا سكتا ہے وہ يہ ہيں’امت واحدہ ، توحيدى صف، فلق، فلاح، منصورين اور موحدين كچھ ايسے گروہ بھى تھے كہ جو دينى رجحان كے حامل ہونے كے با وجود علما سے ہٹ كر كام كر رہے تھے گروہ فرقان اور گروہ آرمان مستضعفين و غيرہ ان ميں سے تھے_(2)50 اور 60 كے عشرہ ميں اسلامى بيدارى كى تحريك كو آگے بڑھانے كا ايك اہم ترين ذريعہ علمى حوزات ، دينى مدارس اور مجاہد علماء كا تبليغى پليٹ فارم تھا_ حوزات ميں سب سے اہم اور وسيع ترين حوزہ حوزہ علميہ قم تھا_ اس دور ميں حوزہ علميہ قم سے وابستہ موسسات كہ جو اسى دور ميں تشكيل پائے اور فعاليت كا آغاز كرچكے تھے ان ميں سے مكتب اہل بيت ( تشكيل 1340 شمسى ) جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم ( تشكيل 1342 شمسي)اور موسسہ در راہ حق ( تشكيل 1345) قابل ذكر ہيں_(3)دارالتبليغ اسلامى كى تشكيل اور اسكے آثار اور مطبوعات اگرچہ امام خمينى كى تحريك كے ساتھ مكمل طور پر موافق نہ تھے بلكہ كبھى كبھى انكى مخالفت بھى كرتے تھے اور امام خمينى بھى انكى طرز فعاليت اور بعض كاركن حضرات كي——————–1) حميد روحاني، سابقہ ماخذ، ج 3 _ ص 1004_ 998 ، عمادالدين باقي، جنبش دانشجويى ايران از آغاز تا انقلاب اسلامي،تہران، جامعہ ايرانيان، ص 253 _ 248_2) رسول جعفريان ، سابقہ ماخذ، ص 179 _ 177_3) سابقہ ماخذ 134 _ 131_ على رضا سيد كبارى ، حوزہ ہاى علميہ شيعہ در گستردہ جہان، تہران، اميركبير ، ص 420 _ 414362تائيد نہيں كرتے تھے اسكے باوجود يہ آگے كى طرف ايك قدم تھا اور دارالتبليغ نے علمى اور مذہبى سطح پر ايسى مسلسل فعاليت كے دوران جو ان طلباء كو علوم انسانى اور دينى ميں جديد تعليمات سے بہرہ مند كيا_ دينى علوم كے مدارس مثلا مدرسہ حقانى ،مدرسہ منتظريہ ، مدرسہ آيت اللہ گلپايگانى اور بعض ديگر مدارس اسى طرح بعض مطبوعات مثلا مكتب اسلام، مكتب تشيع، بعثت ، سالنامہ مكتب جعفري، طلوع اسلام ، مسجد اعظم قم كا رسالہ ‘پيك اسلام ‘يہ سب مجاہد علماء كى سعى و كاوش تحت چل رہے تھے اور شايع ہو رہے تھے _ اور مجموعى طور پر ان سب كااسلامى بيدارى ميں اہم كردار تھا_ (1)ديگر شہروں كے علمى حوزات بھى اہم فعاليت كر رہے تھے اس حوالے سے مشہد كا علمى حوزہ مشہور مجاہد علماء مثلا آيت اللہ محمد ہادى ميلاني، آيت اللہ حسن قمي، آيت اللہ على خامنہ اى اسى طرح عبدالكريم ہاشمى ناد اور عباس واعظ طبسى كى موجودگى كى وجہ سے پہلوى حكومت كے خلاف ايك اہم محاذ كى شكل اختيار كر گيا تھا اور دينى تفكر كے احياء ميں موثر كردار ادا كرنے والے مراكز ميں سے ايك اہم مركز شمار ہوتا تھا_(2)مبلغين علماء كرام بھى بالخصوص ماہ محرم، صفر اور رمضان المبارك ميں اپنے تبليغى سفر اور پروگراموں كى صورت ميں اسلامى تحريك كى ہمراہى كر رہے تھے اور لوگوں كو جديد سياسى اور مذہبى مسائل سے آگاہ كر رہے تھے_ (3)ديگر كاوشيں كہ جنہوں نے اس اسلامى بيدارى كى لہر كى اعانت كى مصر كى دينى تنظيم اخوان المسلمين كے قائدين سيد قطب اور انكے بھائي محمد قطب كے بارے ميں بارہ سے زياہ قلمى آثار كا عربى سے فارسى زبان ميں مجاہد دانشور حضرات كے ذريعے ترجمہ كيا جانا تھا_ (4)1355 شمسى كے اواخر اور بالخصوص 1356 شمسى ميں كچھ حد تك آزاد سياسى فضا كا پيدا ہونا اور سياسي———————-1) رسول جعفريان، سابقہ ماخذ، ص 174 _ 159_2) مزيدمطالعہ كيلئے رجوع كريں: على رضا سيد كبارى ، سابقہ ماخذ، ص 769 _ 351، غلامرضا جلالي، مشہد در بامداد نہضت امام خمينى ، تہران ، مركز اسناد انقلاب اسلامي، ص 142 روح اللہ حسنيان، سہ سال ستيز در بعثت شيعہ، ص 1139_ 137_3) رسول جعفريان ، سابقہ ماخذ ، ص 158 _ 1564) سابقہ ماخذ، ص 179 ، 177_363قيديوں كى رہائي نے اسلامى بيدارى كى تحريك كے ليے مناسب حالات پيدا كيئے ،اخبارات و رسائل كے سنسر ميں كمى نے بھى يہ موقع فراہم كيا كہ ذرائع ابلاغ سے بہتر فائدہ اٹھايا جاسكے_ اور حكومت كے سياسى مخالفين بالخصوص مذہبى قوتوں نے اس موقع كو غنيمت جانا تا كہ پہلوى حكومت كو وسيع سطح پر تنقيد كا نشانہ بنايا جائے_ مثلا جب ‘ كيہان’ اخبار نے يہ سوال اٹھايا كہ ‘ ايران چہ دردى دارد(ايران كا مسئلہ كيا ہے) تو چاليس ہزار سے زيادہ خطوط اس سوال كے جواب ميں حاصل ہوئے_(1)مجموعى طور پر پہلوى حكومت كے زير نگرانى (مجبوراً اختيار كى گئي) معتدل پاليسى كا نتيجہ يہ نكلا كہ اسكے سياسى مخالفين متحد ہوگئے پہلوى حكومت كى بنياديںمتزلزل ہوگئيں اور اسلامى بيدارى كى تحريك بھى فكرى اور انفرادى كاوشوں سے بڑھ كر وسيع پيمانے پر اپنى حتمى كاميابى كيلئے قدم اٹھانے لگى اور سياسي، اجتماعى اور ثقافتى سطح پر پہلوى حكومت كو اپنے مطالبات كو تسليم كرنے پر مجبور كرديا_ اسى دوران امام خمينى كے بڑے فرزند سيد مصطفى خمينى كى شہادت (1356 شمسى اول آبان) اور انكے ليے مجالس ترحيم كے پروگراموں كا انعقاد ہوا اور يہ مجالس و محافل پہلوى حكومت پر تنقيد اور امام خمينى اور انكى اسلامى تحريك كى تعريف و تجليل ميں تبديل ہوگئيں_ (2)ملك كے اندراور باہر مجاہدين كے نيٹ ورك نے اپنے تبليغى اور پيغام رسانى كے گوناگون ذرائع كے توسط سے امام خمينى كى مرجعيت اور رہبرى ميں كاميابى كے حصول تك جہاد كى ہدايت اور تاكيد كي_(3)آخرى نكتہ يہ ہے كہ سيد مصطفى خمينى كى شہادت كے بعد جو تحريك شروع ہوئي وہ پھر كنٹرول نہ ہوسكى سياسى اسلام اور دينى قيادت نے اسلامى حكومت كى تشكيل كيلئے اپنا نتيجہ خيز قدم اٹھايا جس كا نتيجہ بہمن 1357 ميں صبر و كاوش كے بہت سے عشروں كے بعد امام خمينى كى رہبرى ميں اسلامى حكومت كى تشكيل كى صورت ميں نكلا_———————–1) چمز بيل، عقاب و شير، ترجمہ مہوش غلامي، ج 1 ، تہران نشر كوبہ ، ص 459_2) مہدى بازرگان، انقلاب ايران در دو حكومت ، تہران، نہضت آزادى ، ايران، ج 5، ص 24_3) شہيدى ديگر از روحانيت ، نجف ، انتشارات روحانيوں خارج از كشور ، ص 140 ، 126_
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.