فتنہ
فتنہ کو قرآن مجید میں صاف طور پر قتل سے بھی شدید اور بڑا مانا گیا ہے (سورة بقرة آیت ۱۹۱ ۔ ۲۱۷) اور چونکہ انسان کو ناحق قتل کرنا مانا ہوا گناہ کبیرہ ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے اس لیے فتنے کا کبیرہ ہونا بھی مسلم ہوا جو قتل سے بھی بُرا ہے۔فتنے کے سخت قابل نفرت اور قابل غیظ وغضب ہونے کے لیے یہی کافی ہے ہے خدا نے قرآن مجید میں اسے دور کرنے کے لیے جہاد کا حکم فرمایا ہے اور کہا ہے :”مشرکین سے جنگ کرو تاکہ فتنہ دُور ہو۔” (سورة بقرہ آیت ۱۹۳)کتاب اسلام وصلح جہانبانی موٴلفہ سیّد قطب کے صفحہ ۵۶ پر لکھا ہے کہ وہ واحد جنگ جسے اسلام نے شرعاً جائز سمجھا اور لازم قرار دیا وہ جنگ ہے جو خدا کے کلمے کو اونچا کرنے کے لیے کی جائے اور خدا کے کلمے سے مراد وہ حقیقت ہے جو ایسے قانون اور سنت سے موافقت رکھتا ہو جسے دنیا اور انسان کے لیے ناقابلِ تغیر قرار دیا گیا ہو۔ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ دنیا کی فطرت میں انحصار باہمی اور انسانی زندگی میں اشتراک عمل دو ایسے قانون ہیں جنہیں خدا زندگی کے تسلسل کے لیے چاہتا ہے یعنی وہ متوازن تنظیم جو دنیا کی ساخت میں رکھی گئی ہے اور جو دنیا کو بگڑنے اور بکھرنے سے روکتی ہے اور جس نے زندگی کو وہ قوت عطا کی ہے جسے سے وہ برابر ترقی اور تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے اور اشتراک عمل اور باہمی تعاون کو جو تاریخِ انسانی میں علی العموم تمام انسانوں کی بہبود کے لیے ہے قائم رکھے۔اسلام تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے اس لیے کلمہٴ خدا اور خدا کے ارادے کا کام یہ ہے کہ اسلام جو عام لوگوں کے لیے بھلائی اور نیکی لایا ہے وہ سب تک پہنچا دے اور ان ہر قسم کے اسباب کو جو انسانوں اور ان نیکیوں اور بھلائیوں کے درمیان حائل ہوں دُور کر دے اس لحاظ سے جو کوئی انسانوں کی اس عمومی بھلائی کے حاصل ہونے میں راستے کا پتھر بنے اور اپنی قوت سے لوگوں کے اور اس بھلائی کے درمیان حائل ہو وہ شخص خدا کا دشمن ہے اور کلمہ خدا اور ارادہٴ خدا پر دست درازی کرتا ہے اس لیے دعوت اور تبلیغ کے راستے سے اس کے کانٹے کو ہٹانا اور دوبارہ کلمہ خدا کو قائم کرنا چاہیئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اسلام کو طاقت سے منوائیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ان کو سوچنے کی آزادی اور وسیع معلومات فراہم کی جائیں جن کی بدولت ہدایت اور عمومی بھلائی حاصل ہوتی ہے تاکہ اس سے انہیں بھی ہدایت حاصل ہو ورنہ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ اس کے سامنے سر جھکائے اور مجبوراً اسے مانے “لا اکراہ فی الدین” بلکہ یہ چاہتا ہے ان لوگوں کو راستے کے کنارے کھڑے ہوتے ہیں اور لوگوں کو حق کے راستے سے بھٹکاتے ہیں راستے کے کانٹوں کی طرح چن کر الگ کر دیں “وقاتلواھم حتی لاتکون فتنہ ویکون الدین کلہ للّٰہ” یعنی ان سے لڑو تاکہ فتنہ نہ رہے اور دین قطعی خدا سے مخصوص ہو جائے۔اسلام اس لیے آیا ہے کہ پوری دنیا میں عدالت پھیلا دے اور انسانی سماج میں سماجی عدالت، عدالت قانو سازی اور بین الاقوامی عدالت قائم کرے اس لیے جب بھی کوئی ظلم کا راستہ اختیار کرے اور انصاف سے دُور ہو جائے مسلمانوں کولازم ہے کہ کلمہ توحید کو بلند کرنے کے لیے اس سے لڑیں چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ (کتاب اسلام وصلح جہانبانی)خدا سورة البروج میں فرماتا ہے: “جو لوگ ایمان لانے والے مردوں اور عورتوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اور اس گناہ سے توبہ بھی نہیں کرتے ان پر دوزخ اور اس کی دہکتی بھڑکتی آگ کا عذاب ہو گا۔” (آیت ۱۰)پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: “فتنے کی کوشش کرنے والا (فتنہ پیدا کرنے والا) خدا کا منکر (کافر) ہو جاتا ہے چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔” (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب ۴۸ حدیث ۱۴)
فتنے کے معنیاگرچہ اہلِ لغت نے محل استعمال کے لحاظ سے فتنے کے دس سے زیادہ معنی لکھے ہیں لیکن یہاں فتنے کے وہ عام اور روایتی معنی مراد ہیں جو اس کے اطلاق سے ظاہر ہوتے ہیں اور وہ ہیں ہنگامہ کھڑا کرنا اور کسی ایک شخص یا جماعت کا آرام، آزادی اور امن غارت کرنا، دو یا دو سے زیادہ انسانوں کو لڑانا، دو دھڑے بنوانا اور عوام کو تکلیف اور مصیبت میں پھنسانا۔فتنہ دینی کاموں میں بھی ہوتا ہے اور دنیا کے کاموں میں بھی۔ پھر دینی فتنے کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ کبھی ایک شخص لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انہیں دین حق قبول کرنے نہیں دیتا اور اس راستے میں اپنی زبان اور قلم سے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، کبھی ان لوگوں کو ایذا پہنچا کر اور تنگ کر کے جنہوں نے دین قبول کر لیا ہے دوسروں کو دین قبول کرنے سے روکتا ہے۔ مثلاً آغاز اسلام میں مسلمانوں کے ساتھ مکے کے مشرکوں کا طرزِ عمل اور معاویہ کا حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے شیعوں کے ساتھ برتاؤ۔
بنی اُمیّہ کا فتنہ بد ترین تھاحضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے خطبے میں فرماتے ہیں: “میرے نزدیک تمہارے لیے سب سے خطرناک فتنہ بنی امیہ کا فتنہ ہے (اپنی سختی، دورانیے اور دینی قوانین کی بیخ کنی کے لحاظ سے) درحقیقت یہ فتنہ تاریک اور اندھا ہے۔ (کیونکہ جس طرح اندھا اپنے ہی راستے پر چلتا ہے اس کی ہدایت بھی شریعت کے راستے پر نہیں اپنے ہی راستے پر تھی) اور دنیا والوں پر تاریکی لانے والا ہے کیونکہ اس کا اثر عام ہے یعنی اس کا شر سب تک پہنچتا ہے اور اس کی مصیبت خاص ہے۔ (مخصوص پرہیزگاروں اور ہلِ ایمان پر خصوصاً پیغمبر کے اہل بیت پر کیونکہ اس سے بڑا اور کوئی فتنہ نہیں ہو سکتا جس نے رسول خدا کی توہین کی، حسن اور حسین # کو ان کے ساتھیوں سمیت شہید کیا، کعبے کو منہدم کیا، مدینے میں مہاجر اور انصار کا قتل عام کیا، تقریباً اسّی سال تک منبروں اور میناروں پر امیرالمومنین (علیہ السلام) کو بُرا بھلا کہا اور حجا ج لعین کو مظلوموں کا خون بہانے کے لیے مسلط کیا) جس کسی نے اسے دیکھا، اس سے عبرت حاصل کی او اسے فتنہ جانا اور اس سے فرار کیا وہ گرفتار ہوا اور جو کوئی اس فتنے کی طرف سے اندھا بن گیا اور بنی امیہ کے قریب آ گیا وہ ان کے ظلم وستم سے محفوظ رہا۔ (نہج البلاغہ ۱۰۲)تاریخ گواہ ہے کہ آغازِ اسلام سے آج تک کہ چودہ صدیاں گذر چکی ہیں ہر صدی میں دنیائے اسلام میں فتنے اٹھتے رہے ہیں اور ان فتنوں کی پیدائش اس لیے ہوتی رہی ہے کہ دنیا کو آزمایا جائے، اسلام کا دعویٰ کرنے والوں کا سچ ظاہر ہو جائے، پاک سے ناپاک الگ ہو جائے، خوش قسمتوں میں نیکی اور بدقسمتوں اور منحوسوں میں سنگدلی پیدا ہو جائے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس موضوع کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً سورة عنکبوت میں ہے: “احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا وھم لایفتنون” (آیت ۲)کیا لوگوں نے یہ سوچا تھا کہ جیسے ہی وہ یہ کہہ دیں گے کہ ہم ایمان لے آئے وہ نجات پا جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں ہو گی؟پچھلی صدی میں جو فتنے اٹھے ان میں سب سے شدید فتنہ پارٹی بازی کا فتنہ اور مادیت اور عیاشی کے طرفداروں اور ایمان داری اور روحانیت سے انکار کا فتنہ ہے جس نے سیلاب کی طرح یورپ اور امریکہ کی طرف سے اسلام ممالک کا رُخ کیا، آفرینش اور آخرت کے عقیدے کی جڑ دلوں سے اکھاڑ ڈالی اور اس کی جگہ مادیت، عیاشی، خود غرضی اور دنیا پرستی کا منحوس پودا لگا دیا۔ مسلمانون نے اس عہد کو آیت “فخلف من بعد ھم خلف اضاعوا الصلوة واتبعوا الشھوات فسوف یلقون غیاً” (سورة مریم آیت ۵۹)کا حقیقی مصداق قرار دیا یعنی پہلے مومن لوگوں کی جگہ ایسے لوگ آ گئے جنہوں نے نمازیں ترک کر دیں ور عیاشی کو اپنا شعار بنا لیا۔ یہ لوگ بہت جلد اپنی گمراہی کے نتائج ور ہلاکت دیکھ لیں گے۔غرض ان لوگوں نے انسانی سماج سے شرافت اور روحانیت کا خاتمہ کر دیا۔ سب کو خدا اور آخرت کی یاد سے غافل بنا دیا اور طرح طرح کی خواہشات اور بدکاریوں میں اس طرح مشغول کر دیا کہ اسلام کا صرف نام ہی رہ گیا جیسا کہ پیغمبر اکرم نے آگاہ کیا تھا اور آج کے سماجی حالات کو جانچنے کے بعد بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی عمدہ صفات اُٹھ گئی ہیں۔ ان کی جگہ حیوانی اور شیطانی عادتوں نے لے لی ہے۔ مثلاً حیا جو انسان کی ایک عمدہ صفت ہے اور جو ہزاروں خرابیوں کو روکتی اور عام عصمت اور پاکدامنی کی حفاظت کرتی ہے ان کے درمیان سے اٹھ گئی ہے اور اس کی جگہ بے غیرتی اور فحاشی نے لے لی ہے۔ اسی طرح حقوق کی ادائیگی خصوصاً والدین کے حق کی ادائیگی جو انسانی سماج کے لوازمات میں سے شامل ہے اور غیر معمولی ایمانداری کی مستحق ہے جاتی رہے ہے اور اس کی جگہ حق ضائع کرنے، ناشکرے پن، احسان فراموشی اور دوسرے کی خدمت کو نظر انداز کرنے نے لے لی ہے۔اشتراک عمل، امدادِ باہمی، تنظیم ، مہربانی، رحم، ہمدردی، خیرخواہی اور درگذر وغیرہ جن سے دنیاوی زندگی کا نظام اور آخرت کی نیکی اچھی طرح وابستہ ہے ختم ہو چکی ہیں ان کے مقابلہ میں خود غرضی، غرور کٹھورپن بے مروّتی اپنے آرام اور دوسرے کی تکلیف وغیرہ نے جگہ لے لی ہے۔ اسی طرح تمام طبقوں سے گفتار وکردار کی سچائی اُٹھ گئی ہے۔ اس کی جگہ دھوکا، ملاوٹ، فریب کاری اور چوٹٹا پن پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ ہر جنس کے لوگ اپنی اپنی جس میں کیسی کیسی تبدیلیاں کرتے ہیں اور انہیں صحیح بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مال حاصل کرنے اور اپنے مادی تکلفات کے وسائل کی حفاظت کے لیے کسی قسم کی بے ایمانی اور جرم سے دریغ نہیں کرتے۔ چنانچہ بار ہا ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے زہریلی خوراک بیچی ہے اور اپنی نوع کی جانوں کو خطرے میں ڈالا ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ حیوانات کی طرح ہو گئے ہیں جو ایک دوسرے سے الگ ہیں اور آپس میں نفرت، غصہ اور زور آوری سے ملتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ مادیت کی خرابی کا نمونہ ہے اگر اس کی تفصیل بتائی جائے تو اس سے کتابیں بھر جائیں۔واضح رہے کہ اس فتنے کا آغاز کرنے اور اسے رواج دینے والے لوگوں کی چال سماج کو کمزور بنانا اور اس کی روحانیت کو ختم کرنا ہے اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ سماج خصوصاً جوان نسل میں ایمانداری کو بُرا سمجھنے اور اس کا مذاق اُڑانے کا جذبہ پیدا کرنا اور ان کے اور سماج کے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے تاکہ وہ ایمانداری کے بلند درجات، انسانیت کی اعلیٰ صفات ار آدمیت اور شرافت کی علامات اور آثار کے بارے میں کچھ نہ سن پائیں اور پھر انہیں اندھا بہرا بنا کر اور خرابی کے گٹر میں گرا کر طرح طرح کے گندے جذبات میں مشغول بنا دیں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کی خاطر ان کا سب سے بڑا ہتھیار اتہام ہے۔ کبھی انہیں دنیا کی حالتوں اور تمدن سے بے خبر کہتے ہیں اور کبھی انہیں سماجی ترقی کے مخالف بتاتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ وہ دنیا پرست اور جاہ طلب ہیں۔ چونکہ سماجی ترقی ان کی سرداری میں روڑے اٹکاتی ہے اس لیے یہ اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور اسی طرح کے مختلف الزام لگاتے ہیں۔ کسی سمجھ دار مسلمان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ سب الزامات اور اتہامات میں جنہیں اصلیت اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بدعت اور جاسوسیدینی فتنوں میں بدعت کا بھی شمار ہے۔ جن لوگوں نے اسلام میں نئے نئے طریقے ایجاد کیے اور مسلمانوں کو الگ الگ کیا اور عالم اسلام میں ہزاروں فتنے اور فسادات پیدا کیے وہ بدترین فتنہ انگیز لوگ ہیں۔ایک دینی فتنہ کافروں کے لیے ان باتوں کی جاسوسی کرنا بھی ہے جن کو مسلمانوں میں ہی پوشیدہ رکھنا چاہیئے جیسا کہ خداوندعالم سورة نساء میں منافقین کے متعلق فرماتا ہے: “جب ان تک کوئی خوف یا امن کی خبر پہنچتی ہے تو وہ اسے ظاہر کر دیتے ہیں۔” (سورة نساء آیت ۸۳)علامہ مجلسی نے بیضاوی سے اس آیت کا مطلب نقل کیا ہے کہ وہ امن اور خوف کی باتیں ظاہر کر دیتے ہیں کچھ کمزور طبیعت کے مسلمانوں کا قاعدہ یہ تھا جب رسول خدا کی طرف سے بھیجے جانے والے لشکر کی کوئی خبر ملتی تھی یا پیغمبر اکرم فتح یا شکست کے بارے میں خدا کی وحی کی اطلاع دیتے تھے تو اسے فاش کر دیتے تھے اور خود اس بات سے بھی پریشانی اور گڑبڑ پیدا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ یہ آیت اس بات کے آشکارا کرنے کی مذمت کرتی ہے جس کے کھول دینے سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔
شیعوں کے بھید اور مشکل حد یثوں کا فا شیہی صورت شیعوں کے ایسے بھیدوں کے کھول دینے کی ہے جو ان کے اماموں نے مخالفوں کے بارے میں انہیں بتائیں کیونکہ اس سے مومنوں کو نقصان اور تکلیف پہنچتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تقیہ واجب ہو وہاں تقیہ نہ کرنا نقصان کا موجب ہوتا ہے۔علّامہ مجلسی فرماتے ہیں: “شاید علوم کی بعض مشکل باتیں ان لوگوں کو بتانا جو انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں بھید کھولنے ہی کے زمرے میں آتا ہے۔” (اصول کافی کتاب الایمان والکفر باب الاذاعہ حدیث ۱۲)حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “جو کوئی ہماری حدیث ظاہر کر دے گا خدا اس کا ایمان سلب کر لے گا کیونکہ اس نے ہمیں کسی خطا پر قتل کی نہیں کیا بلکہ بے خطا اور عمداً قتل کیا۔” (کافی)اس آیت کے معنی بیان کرتے ہوئے بھی کہ “وہ پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں”۔ (سورة بقرة آیت ۶۱) فرمایا: “خدا کی قسم ان لوگوں نے پیغمبروں کو اپنی تلواروں سے نہیں قتل نہیں کیا بلکہ ان کے راز فاش کیے اور انہیں شہرت دی جس سے وہ قتل ہو گئے۔” (کافی)
د ینی جماعتوں کی پراگندگیجو لوگ متحد اور متفق ہو کر خدا سے لو لگاتے اور اپنے پیغمبر اور امام کا ذکر کرتے ہیں ان میں زور زبردستی سے جماعت کے امام اور دینی پیشوا کے خلاف پیروکاروں میں یا پیروکاروں میں ایک دوسرے کے خلاف شک اور بدگمانی پیدا کر کے ان میں جدائی ڈالنا اور انہیں الگ الگ کر دینا یعنی ان کے دلوں کا اتحاد ختم کر دینا جو ہر بُرائی کی جڑ ہے اور خدا کو سخت ناپسند ہے ایک دینی فتنہ ہے۔
فتنے کا گناہ قتل سے بھی بڑا ہےجیسا کہ بتایا گیا ہے کہ دینی فتنے کا گناہ قرآن مجید کی نص کے مطابق کسی انسان کے قتل کے گناہ سے بھی برا ہے کیونکہ کسی انسان کا قتل تو ایک عارضی اور مستعار دنیوی زندگی کا ختم کرنا اور حقیقت میں اس دنیا کی برائیوں اور آفتوں سے چھٹکارا پانا ہے لیکن دینی فتنے سے ابدی زندگی ختم ہو جاتی ہے اور انسان دائمی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے اور جس قدر عالم آخرت دنیا سے بڑا اور اہم ہے بلکہ ناقابلِ قیاس ہے دینی فتنہ بھی قتلِ انسانی سے اتنا ہی بڑا اور اہم ہوتا ہے۔
وہ قتل جو سرکاٹنے سے بھی بدتر ہوتا ہےحضرت امام سجاد (علیہ السلام)فرماتے ہیں: “کیا تمہیں میں ایسا قتل بتاؤں جو سر کاٹنے سے بھی بدتر ہوتا ہے۔” لوگوں نے کہا “ضرور بتائیے”َ آپ نے فرمایا: “جو کسی کو قتل کرے اور ہمیشہ کے لیے ہلاک کر دے۔” لوگوں نے پوچھا “وہ کیا ہے؟” آپ نے فرمایا “اسے حضرت محمد ﷺکی نبوت اور حضرت علی (علیہ السلام) کی ولایت سے بھٹکائے، غیر خدا کے راستے اور دشمنانِ علی کے طریقے کی پیروی پر اس طرح مجبور کرے کہ دشمنان علی اسے پیشوا جانیں اور حضرت علی کی امامت اور فضیلت کا منکر ہو۔ تو یہ ہے وہ قتل جو بدقسمت مقتول کو ہمیشہ کے لیے دوزخ میں رکھے گا اور اس کے قاتل کی سزا بھی دوزخ کا دائمی قیام ہو گا۔” (تفسیر علی ابن ابراہیم قمی)اس کے علاوہ دینی فتنے غالب طور پر قتل اور خونریزیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔
دنیوی فتنہدنیوی فتنہ قتل سے بدتر ہوتا ہے کیونکہ جو کوئی پہلے فتنے کی آگ بھڑکاتا ہے اور کچھ لوگوں کو اس آگ میں جلاتا ہے ان کو اس قدر تکلیف اور مصیبت میں مبتلا کرتا ہے جیسے وہ روزانہ قتل ہوتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ اگر انہیں ایک ہی بار قتل کیا جاتا تو وہ کچھ آرام سے رہتے۔ دوسرے یہ کہ فتنے اکثر قتل وغیرہ یعنی زخمی کرنے اور اعضائے جسمانی کے ناکارہ اور ناقص بنا دینے کی طرف لے جاتے ہیں۔ شہید فرماتے ہیں کہ قتل ناحق گناہِ کبیرہ ہے اور بدن کے اعضاء (مثلاً ہاتھ، پاؤں، آنکھ وغیرہ) کو نقصان پہنچانا قتل کے برابر ہے۔ (قواعد ص ۱۰۰)معلوم ہونا چاہیئے کہ جس فتنے کا نقصان اور خرابی جتنی زیادہ ہو گی اس کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔فتنے کا مطلب کفر اور شرک بھی بیان کیا گیا ہےواضح رہے کہ زیادہ تر مفسرین نے اس آیت میں لفظ فتنہ کی کفر اور شرک سے تفسیر کی ہے۔ ایک روایت میں ہے جو حضرت امام باقر (علیہ السلام) کی آیت “حتی لاتکون” کی تفسیر میں ملی ہے آپ نے فتنے کے معنی شرک بتائے ہیں اور یہ معنی فتنے کے ان ظاہر معنوں سے جن کا ذکر کیا جا چکا ہے کوئی تضاد نہیں رکھتے کیونکہ ظاہر میں روایتوں اور مفسرین کے الفاظ سے فتنے کے سبب کا بیان مراد ہے اس لیے کہ حقیقی مومن سے دینی یا دنیوی کوئی بھی فتنہ صادر نہیں ہو گا جیسا کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) متقین کی صفات میں فرماتے ہیں: ان کی خوبی سے امید اور بدی سے امان اور بے خوفی ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ ہمام) یعنی جس کے دل میں ایمان کی روشنی داخل ہو چکی ہے لوگوں کو اس کے شر سے امان ہے۔ سو فتنہ بھڑکانے والا یا باطنی اور ظاہری کافر اور مشرک ہے یا اگر مسلمان ہے تو ابھی کفر کی تاریکی اور شرک کی منزلوں سے نجات نہیں پا سکا ہے اور اس کا دل بھی ایمان کی روشنی سے نہیں جگمگایا ہے۔
ظالم کے لیے جاسوسیفتنے کے مانے ہوئے معاملات میں حاکم اور ظالموں کے لیے جاسوسی کرنا بھی شامل ہے اور اس کا بڑا خطرہ اور خرابی اور اس کا قتل سے بھی برا ہونا ظاہر ہے اس لیے کہ ایک جاسوسی اور فتنہ انگیزی ہی قتلوں اور جرائم کا سبب ہو سکتی ہے۔ مثلاً ابن زیاد ملعون کے جاسوس معقل کی جاسوسی سے حضرت مسلم اور ہانی بن عروہ گرفتار اور قتل ہوئے بلکہ کربلا کے حادثات اور اس کے بعد کے واقعات بھی اس ملعون جاسوس کے فتنے کی بدولت رونما ہوئے