راہ خدا میں انفاق کے سبق آموز قصے(حصہ سوم)

309

۱۱. ایک ہار اور اتنی ساری برکتیںعماد الدین طبری نے اپنی کتاب”بشارة المصطفیٰ”میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ جابر بن عبد اللہ انصاری کا بیان ہے:ایک دن نماز عصر کے بعد رسول خدا ،اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک بوڑھا، بوسیدہ کپڑا پہنے ہوئے کمزوری کی حالت میں وارد ہوااس کے آثار سے لگ رہا تھا کہ وہ بھوک کی حالت میں کافی طولانی راستہ طے کر کے آیا ہے۔اس نے عرض کیا: میںایک پریشان حال انسان ہوں آپ مجھے بھوک،عریانی اور مشکلات سے نجات دلائیے۔رسول خدا نے فرمایا: فی الحال میرے پاس کچھ نہیں ہے لیکن میں تجھے ایک ایسے شخص کی رہنمائی کرتا ہوں جو تیری حاجتوں کو پورا کردے گا اور نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والا اس شخصکے مانند ہے کہ جس نے خوداس کام کو انجام دیاہو ۔اس کے بعد آنحضرت نے جناب بلال کو حکم دیا کہ اس بوڑھے کو درِ فاطمہ پر لے جائیں۔جب وہ بوڑھا حضرت علی (ع) کے بیت الشرف پرپہنچا تو اس نے اس طرح سلام کیا: “السلام علیکم یا اھل بیت النبوة”اے خاندان نبوت آپ پر سلام ہو۔آپ(ع)نے سلام کا جواب دیاا وردریافت فرمایا: تم کون ہو؟اس نے کہا: میں ایک مرد عرب ہوں ،رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور ان سے مدد کا تقاضا کیا تھا ۔انہوں نے مجھے آپ کے دروازہ پر بھیج دیا۔وہ تیسرا دن تھا جسے آل علی علیہ السلام بھوک کی حالت میں گذار رہے تھے اور رسول خدا بھی اس سے آگاہ تھے،بنت رسول نے جب کوئی چیز نہ پائی تو آپ نے گوسفند کی کھال جس پر حسن وحسین علیھما السلام سوتے تھے: اس مرد عرب کو دے دیا اور فرمایا: خداوندعالم تمہیں آسودگی عنایت فرمائے ۔بوڑھے نے کہا:اے بنت رسول! میں بھوک سے بے حال ہوں اور آپ مجھے گوسفند کی کھال عطا کر رہی ہیں۔جیسے ہی جناب فاطمہ نے یہ سنا اپنا ہار جسے عبد المطلب (ع)کی صاحبزادی نے آپ کو ہدیہ کیا تھا، اس مرد عرب کو دے دیا۔وہ بوڑھا ہار لے کر مسجد میں آتا ہے۔اس نے دیکھا کہ رسول خدا، اصحاب کے درمیان تشریف فرما ہیں اس نے عرض کیا:یا رسول اللہ!آپ کی بیٹی نے مجھے یہ ہار عطا کیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں اسے بیچ دوں ممکن ہے خداوند عالم میرے کاموں میں وسعت عطا فرمائے۔آنحضرت رونے لگے اور فرمایا:کیونکر خدا وسعت اور راحت نہ دے جبکہ اولین وآخرین کی عورتوں میں سب سے بہتر خاتون نے تجھے اپنا ہار عطا کیا ہے!عما ر یاسرۻ نے عرض کیا: کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں اس ہار کو خرید لوں؟ آنحضرت نے فرمایا:اس ہار کو خریدنے والے کو خدا وندعالم جہنم سے دور رکھے گا۔جناب عمار یاسرۻ نے مرد عرب سے کہاکہ اس ہار کو کتنے میں بیچوگے۔اس نے کہا: اتنی قیمت میں بیچوں گا کہ کھانا کھا کر سیر ہوسکوں ، پہننے کے لئے ایک یمانی ردا ء خرید سکوں اور کچھ دینار جسے میں واپسی پر خرچکر سکوں۔جناب عمارۻ نے کہا: میں اس ہار کو دوسو درہم میں خریدوں گا اور تجھے روٹی اور گوشت سے سیر کروں گا ،اوڑھنے کے لئے یمانی رداء بھی دوں گا اور اپنے اونٹ سے تجھے تیرے گھر تک پہنچا وٴں گا۔جناب عمارۻ کے پاس جنگ خیبر کے مال غنیمت میں سے جو کچھ بچاتھا،بوڑھے کو اپنے گھر لے گئے اور جو وعدہ کیا تھا وفا کردیا۔مرد عرب دوبارہ آنحضرت کی خدمت میںحاضر ہوا آپ نے فرمایاکہ کیاتونے لباس لے لیا اور سیر ہوگیا؟اس نے عرض کیاہاںرسول اللہ اورمیں بے نیاز بھی ہوگیا۔اس وقت آنحضرت نے جناب فاطمہ زہرا کے فضائل کا ایک مختصر ساحصہ بیان فرمایا ۔آپ نے ارشاد فرمایا:میری بیٹی فاطمہ کو جب قبر میں رکھاجائے گا تو ان سے سوال کیا جائے گا:تمہارا خداکون؟وہ جواب دیں گی “اللّٰہُ رَبِّیْ”سوال ہوگا:تمہارے رسول کون؟جواب دیں گی:”میرے والد” دوبارہ سوال کریں گے،تمہارے امام اور ولی کون ہیں؟تو آپ جواب دیں گی:”ھذا القائم علی شفیر قبری”میرا امام وہ ہے جو میری قبر کے کنارے کھڑا ہوا ہے۔(یعنی حضرت علی علیہ السلام)جناب عمارۻ نے ہار کو سونگھا اور ایک چادریمانی میں رکھ کر”سہم”نامی غلام کو دیا اور کہاکہ اسے رسول خدا کی خدمت میں لے جاوٴ اور میں نے تم کو بھی رسول خدا کو بخشا۔آنحضرت(ع) نے اسے جناب فاطمہ زہرا کے پاس بھیج دیا۔بنت رسول نے ہار کو لیا اور غلام کو آزاد کردیا۔یہ ماجرا دیکھ کر غلام ہنسا ۔جناب فاطمہ نے اس کی ہنسی کا سبب دریافت فرمایا تو اس غلام نے کہا: میں اس ہار کی برکتوں پر ہنس رہاہوں کہ اس نے ایک بھوکے کو سیر کردیا ۔ ایک فقیر کو بے نیاز بنادیا۔ ایک برہنہ کو لباس عطا کیا ۔ ایک غلام کو آزاد کرایا اور دوبارہ اپنے اصل مالک کے پاس واپس آگیا۔

۱۲ . محتاجوں کی مدد، مانگنے سے پہلےحضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیںکہ حضرت علی (ع) نے ایک محتاج شخص کے لئے پانچ اونٹ پر کھجورلدوا کر بھجوایاوہ ایک آبرومند اور باعزت آدمی تھا وہ حضرت علی (ع) کے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے دست سوال نہیں پھیلاتا تھا۔آنحضرت کے پاس موجود ایک شخص نے آپ سے عرض کیا:اے علی (ع)!اس شخص نے توآپ(ع) سے کوئی درخواست نہیں کی ہے ،اس کے علاوہ اس کے لئے ایک اونٹ کھجورکافی ہے۔امام(ع) نے فرمایا:”لاکثر اللّٰہ فی المومنین مثلک” خداوند مومنین میں تم جیسے افراد کو زیادہ نہ کرے۔ میں بخشش کرتا ہوں اور تو کنجوسی کرتا ہے۔ اگر میں کسی کے دست سوال پھیلانے کے بعد اس کی مدد کروں تو میں نے اسے جو کچھ دیا ہے وہ اس کی عزت کی قیمت ہے جو اس نے میرے سامنے گنوائی ہے۔جوبھی ایسا کرے اور اسے معلوم ہوکہ وہ محتاج ہے اوروہ اس کی مدد کرسکتا ہے تو اس نے اپنے پروردگار سے جھوٹ بولا ہے۔اس لئے کہ یہ اپنے اس برادرمومن کے لئے جنت کی دعا کرتا ہے لیکن دنیا کے بے قیمت مال میں سے ذرا سی مالی مدد کرنے سے کتراتا ہے۔اکثرایسا ہوتا ہے کہ کہ بندہ مومن اپنیدعامیں کہتا ہے:”اللھم اغفر للمومنین والمومنات”جب اپنے برادر دینی کے لئے طلب مغفرت کرتا ہے یعنی اس کے لئے جنت کی دعا کرتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے اس لئے کہ زبان سے تو اس کے لئے جنت چاہتا ہے لیکن منزل عمل میںاسے ذرا سابے قیمت مال دینے میں مضائقہ کرتا ہے- (1)______________________________________(۱)ریاحین الشریعة/۱۸
۱۳. بے منت صدقےایک شخص امام محمد تقی(ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اس کے چہرہ پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔امام(ع) نے فرمایا:میں تجھے خوش دیکھ رہاہوں،اس خوشی کا سبب کیا ہے؟اس نے عرض کیا:اے فرزند رسول ! میں نے آپ(ع) کے والد بزرگوار سے سنا ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایاہے: سب سے مناسب دنجس دن انسان کو خو ش ہونا چاہئے وہ دن ہے جب صدقہ دینے،نیکی کرنے اور برادر دینی کو فائدہ پہنچانے کی توفیق عطا ہو۔آج میرے پاس دس برادر دینی آئے تھے اور سب کے سب فقیر اورصاحب عیال تھے۔ میں نے ان کی خدمت کی اور ہر ایک کی مدد کی ۔ اسی لئے میں خوش ہوں۔امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:میری جان کی قسم !بہتر ہے کہ تمہاری یہ خوشی باقی رہے اس شرط کے ساتھ کہ تم نے خود اپنے نیک عمل کو برباد نہ کیا ہو اور اس کے بعد بھی اسے ضائع نہ کرو۔اس نے عرض کیا:کیونکر ممکن ہے میرے نیک اعمال ضائع ہوجائیں جبکہ میں آپ(ع) کے حقیقی اور خالص شیعوں میں سے ہوں؟امام محمد تقی(ع) نے فرمایا:تم نے ابھی ابھی اپنے اس نیک عمل اور برادران دینی کی مدد کو ضائع کردیا۔اس نے آنحضرت(ع) سے دریافت کیا:میںنے کیونکراسے ضائع کیا ہے؟امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:اس آیہٴ کریمہ کی تلاوت کر:”لَا تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذَیٰٰ”اپنے صدقاتکو احسان جتانے اور اذیت دینے کے ذریعہ ضائع نہ کرو۔(سورئہ بقرہ/آیت۲۶۴)اس شخص نے عرض کیا:میں نے جن لوگوں کی مدد کی ہے نہ ان کو احسان جتایا ، نہ منت گذاری کی ہے اور نہ ہی انہیں کوئی اذیت دی ہے۔امام(ع) نے ارشاد فرمایا:تیری نظر میں ان لوگوں کی اذیت کرنا زیادہ اہم ہے یا اپنے اوپر مامور فرشتوں کو اذیت دینایا ہم اہل بیت(ع) کو اذیت دےنا ؟اس نے جواب دیا:آپ(ع) کو اور ملائکہ کو اذیت دےنا۔امام (ع)نے فرمایا:بے شک تونے مجھے اذیت دی ہے۔اس نے سوال کیا:اے فرزند رسول!میں نے اپنے کس عمل کے ذریعہ آپ کو اذیت دی ہے؟آپ(ع) نے فرمایا:اپنی اسی بات کے ذریعہ کہ تونے کہا:میںآپ کے حقیقی اور خالص شیعوں میں سے ہوں۔تم جانتے ہو کہ ہمارے خالص اور حقیقی شیعہ کون ہیں؟اس نے تعجب کے ساتھ عرض کیا:نہیں!آپ(ع) نے فرمایاحزقیل مومن آل فرعون،صاحب یٰس جس کے بارے میں پروردگار فرماتا ہے:”وَجَآءَ مِنْ اَقْصَی الْمَدِیْنَةِ رَجُلٌ یَسْعٰی”سلمان،ابوذر،مقداد اور عمار یاسر۔کیا تم اپنے آپ کو ان افراد کے برابر جانتے ہو؟کیا تم نے اپنی اس بات کے ذریعہ ملائکہ اور ہمیں اذیت نہیں پہنچائی ہے۔اس شخص نے عرض کیا:”استغفراللّٰہ واتوب الیہ یابن رسول اللّٰہ” پس میں کیا کہوں؟آپ(ع) نے فرمایا:تم یہ کہو کہ میں آپ کے دوستداروں میں سے ہوں۔میں آپ کے دشمنوں کا دشمن اور دوستداروں کا دوست ہوں۔میں نے عرض کیا:میں ایسا ہی کہوں گااور ایسا ہی ہے میں نے جو کچھ کہا ہے وہ خدا کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں ہے ، آپ اور خدا کے فرشتے بھی اسے ناپسند کرتے ہیں تو میںان سے توبہ کرتا ہوں۔امام محمد باقر(ع) نے فرمایا:اب تمہارے صدقہ دینے کاثواب پلٹ آیا ہے۔(۱)______________________________________(۱)کلمہ طیبہ /ص۲۵۴

14 میں حضرت علی (ع) سے طلبگار ہوںصاحب کتاب شرائع جو ایک عظیم الشان شیعہ فقیہہیں وہ اپنی کتاب فضائل علی بن ابی طالب علیہ السلام میں تحریر کرتے ہیں کہ ابراہیم بن ہمران کا بیان ہے کہ شہر کوفہ میں ابو جعفر نامی ایک تاجر تھا اور اس نے تجارت میں ایک بہت ہی پسندیدہ طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔اس کی تجارت مادی مقاصد اور مال وثروت میں اضافہ کی خاطر نہ تھی بلکہ اس کا زیادہ ترمقصد خدا کی رضایت رہتا تھا۔جب کوئی اس سے کوئی چیز مانگتا تو وہ کسی طرح کا کوئی بہانہ نہیں کرتا تھا اور اسے وہ چیز دے دیتا تھا اور اپنے غلام سے کہتا تھاکہ لکھوکہ”حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے مجھ سے اتنا قرض لیا ہے”اوروہ اس نوشتہ کو اسی حالت میں چھوڑ دیتا تھا۔اسی طریقہ سے اس نے کافی مدت گذاردی۔یہاںتک کہ اس کا دیوالیہ ہوگیا اور اس کے سارے سرمائے ختم ہوگئے۔ایک اس نے دن اپنے غلام سے کہا کہ حساب کا رجسٹر لاوٴ اور قرض لینے والوں میں سے جو مر گئے ہیں ان کا نام اس رجسٹر سے مٹادو۔لیکن جو لوگ زندہ ہیں ان سے مطالبہ کرو۔ یہ کام بھی اس تاجر کے دیوالیہ ہونے کا خاتمہ نہ کرسکا۔ایک دن وہ اپنے گھر کےدروازہ پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص وہاں سے گذرا اور اس تاجر کا مذاق اڑاتے ہوئے اس نے کہا:اس نے تمہارے ساتھ کیا کیاجس کے نام پر تم ہمیشہ قرض دیتے تھے اور اپنے آپ کو اس بات سے خوش کر رکھا تھا کہ اس کا نام تمہارے رجسٹر میں ہے(اس کی مراد حضرت علی (ع) تھے)تاجر ا س مسخرہ سے بہت غمگین ہواا ور اسی غم میں پوری رات گذاردی۔ اس نے رات میں خواب میں رسول خدا اور امام حسن وامام حسین علیھم السلام کو دیکھتا ہے۔رسول خدا نے امام حسن(ع) سے فرمایا:تمہارے والد بزرگوار کہاں ہیں؟حضرت علی (ع) نے فرمایا:میں آپ ہی کی خدمت میں ہوں۔آنحضرت نے فرمایا:تم اس مرد کا قرض اداکیوں نہیں کرتے؟امام(ع) نے عرض کیا:میں آپ کی خدمتمیں آیا ہوں تاکہ اس کا قرض واپس کروںاور آنحضرت کو ایک سفید تھیلی دی جس میں ہزار اشرفیاں تھیں۔آنحضرت نے مجھ سے فرمایا:اسے لویہ تمہارا حق ہے اور اسے لینے میں تکلف نہ کرو،اس کے بعد میری اولاد میں سے جب بھی کوئی تم سے قرض مانگے تو اسے دے دینا۔اس کے بعد تم کبھی بھی فقیر اور محتاج نہ ہوگے۔ابو جعفر خواب سے بیدار ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں ایک تھیلی ہے۔وہ اسے لیکر اپنی زوجہ کے پاس آیا اور اسے دکھایا پہلے تو اس کی بیوی نے یقین نہیں کیا اور کہنے لگی گر تم نے کوئی چال بازی کی ہے تاکہ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں سستی کرو تو اللہ سے ڈرو اور اس چال بازی سے باز آجاوٴ۔تاجر نے پورا خواب بیان کیاتو اس کی بیوی نے کہا:اگر تم نے واقعاًیہ خواب دیکھا ہے تو حساب کا رجسٹر دکھاوٴ۔جب میاں بیوی نے رجسٹر دیکھنا شروع کیا تو دیکھا کہ جہاں بھی حضرت علی (ع) کے نام قرض لکھا ہوا تھا وہاں سے قرض کی مقدار مٹ چکی ہے۔(۱)______________________________________(۱)کشکول بحرانی،ج۲،ص ۲۲۹نقل از روضہٴ شیخ مفیدو کلمہٴ طیبہ

۱۵ . پاک وپاکیزہ اموال سے انفاقحضرت امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا:میں نے سنا ہے کہ اہل سنت والجماعت، ایک شخص کی بہت تعریف کرتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں ۔میں نے چاہا کہ ایک اجنبی کی طرح اس سے ملاقات کروں۔اتفاق سے ایک دن میں نے ایک مقام پر اس سے ملاقات کی، لوگ اس کے اردگرد جمع تھے لیکن وہ ہر ایک سے دور بھاگ رہا تھا۔وہ ایک کپڑے سے ناک تک اپنے چہرے کو چھپائے ہوئے تھا وہ مسلسل کوشش کررہا تھا کہ وہ لوگوں سے دور ہوجائے آخرکاراس نے جب ایک راستہ انتخاب کیا اور اس کے اردگرد موجود افراد نے اسے چھوڑدیا۔میں اس کے پیچھے چل دیا اور اس کے کاموں کو دیکھنے لگا ۔وہ ایک روٹی کی دوکان پر پہنچا ایک مناسب وقت میں جب دوکاندار غافل تھا اس نے دو روٹی اٹھالی اور وہاں سے چلا گیا۔ایک انار بیچنے والے کے پاس گیا وہاں سے دوانار چرا لئے۔مجھے بہت تعجب ہواکہ یہ شخص کیوںچوری کررہا ہے۔آخرکار راستہ میں بیٹھے ایک بیمار کے پاس پہنچا اور اس نے دونوں روٹی اور دونوںانار اسے دے دیا۔میں نے اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ وہ شہر سے باہر نکل گیاوہ ایک گھر میں داخل ہونے والا تھا کہ میں نے اس سے کہا:اے بندہٴ خدا! میں نے تیری شہرت سن رکھی تھی، میں تجھے قریب سے دیکھنا چاہتا تھا لیکن اب میں تجھ سے بیزار ہوں۔اس نے پوچھا:آپ نے کیا دیکھا ہے ؟میں نے کہا:تونے نانوائی سے دو روٹی اور انار کی دکان سے دوانار چرائے ہیں۔اس نے مجھے اپنی بات پوری کرنے کی اجازت نہ دی اور پوچھا آپ کون ہیں؟میں نے جواب دیا:میں اہل بیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک فرد ہوں۔اس نے میرے وطن کے بارے میں سوال کیا:میں نے کہا:میرا وطن مدینہ ہے۔اس نے کہاکہ آپ شاید جعفر بن محمدبن علی بن حسین علیھم السلام ہیں۔میں نے جواب دیا: بے شک ایسا ہی ہے۔ اس نے کہاکہ تمہارا رسول کی اولاد ہونے کی نسبت کا کیا فائدہ جب آپ نے اپنے جد بزرگوار کے علم ہی کو چھوڑ رکھا ہے۔میں نے سوال کیاکس طرح؟اس نے کہا:اس لئے کہ آپ قرآن کی ہر آیت سے آگاہ ہی نہیںہیں خداوندعالم فرماتا ہے:”مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَہ عَشْرُ اَمْثَالِھَا وَمَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلاَ یُجْزَیٰ اِلَّا مِثْلَھَا”جو شخص بھی نیکی کرے گا اسے دس گنا اجر ملے گا اور جو برائی کرے گا اسے صرف اتنی ہی سزا ملے گی۔ (۱)میں نے دوروٹی اور دو انار چرائے لہٰذا چار گناہ کئے لیکن میں نے انہیں انفاق کردیا اور بیمارکو دے دیااس آیت کی روشنی میں میرے حصہ میں ۴۰ نیکیاں آگئی اور جب ۴۰ میں سے ۴ نیکیاں کم ہوں گی تو میں اس کے بعد بھی۳۶ نیکیوں کا حقدار ہوں گا۔میںنے کہا:”ثکلتک امک”تیری ماںتیرے سوگ میں بیٹھے۔تو خدا سے جاہل ہے کیا تونے نہیں سنا ہے کہ خداوندعالم فرماتاہے:”اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ”خدا صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔ اس کے بعد میں نے کہا:تونے دوروٹی اور دو انار چرائے لہٰذا چار گناہ کئے اورچونکہ ان کے مالک کی اجازت کے بغیر دوسرے کو دیا لہٰذا چار گناہ اور بڑھ گئے۔(اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا لہٰذا مجبور ہوکر خاموش ہوگیا)اس نے تعجب کے ساتھ بڑے غور سے مجھے دیکھا۔میں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا اور وہاں سے چلا آیا۔(۲)______________________________________(۱)سورئہ انعام/آیت/۱۶۰( ۲)انوار نعمانیہ،ص۹۲

۱۶ . غیرمسلم ضرورتمند کی بھی مدد کروامام جعفر صادق(ع) مکہ اور مدینہ کے درمیان راستہ میں تھے،امام کا مشہورومعروف خدمت گذارمصادف بھی آپ کے ہمراہ تھا۔راستہ میں ان کی نگاہ ایک ایسے شخص پر پڑی جو اپنے آپ کو ایک درخت کے تنے پر گرائے ہوئے تھا اس کی حالت غیر تھی۔امام(ع) نے مصادف سے فرمایا:اس کے پاس چلیں اور دیکھیںکہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ پیاسا ہو اور پیاس کی وجہ سے بے حال ہوگیا ہے۔دونوں حضرات اس کے قریب گئے۔ امام(ع) نے اس سے دریافت فرمایا:کیا تو پیاسا ہے؟اس نے کہا:ہاں!مصادف ،امام علیہ السلام کے حکم سے سواری سے نیچے اترے اور اسے پانی دیا لیکن اس کے قیافہ،لباس اور حالت سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ مسیحی ہے۔جب امام(ع) اور مصادف وہاں سے دور ہوگئے تو مصادف نے امام (ع) سے ایک مسئلہ دریافت کیا اور وہ مسئلہ یہ تھاکہ کیا غیرمسلم افراد کو صدقہ دینا جائز ہے؟امام(ع) نے ارشاد فرمایا:ضرورت کے وقت ،ہاں(بہت اچھا ہے۔)(۱)________________________________________
(۱)وسائل،ج۲،ص۵۰۱۷ . لوگوں کے ہمراہمدینہ میں روز بروز گیہوں اور روٹی کی قیمت بڑھتی چلی جارہی تھی،پریشانی اور وحشت تمام لوگوں پر غالب ہوتی جارہی تھی۔جس نے سال بھر کی خوراک کا انتظام نہیں کیا تھا وہ اس کے انتظام کی کوشش کررہاتھا اور جس نے پہلے سے مہیا کررکھا تھا وہ اس کی حفاظت کی کوشش میں لگا تھا۔انہیں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو فقر اور تنگدستی کی وجہ سے مجبور تھے کہ ہر روز بازار سے اپنی خوراک کا انتظام کریں۔امام جعفر صادق(ع) نے اپنے گھر کے اخراجات کے وکیل”معتب”سے دریافت فرمایا:کیا ہمارے گھر میں اس سال گیہوں ہیں؟معتب نے عرض کیا:ہاںفرزند رسول!گیہوں اتنی مقدار میں ہے کہ کئی مہینے کے لئے کافی ہے۔امام(ع) نے فرمایا:انھیں بازارلے جاوٴاور بیچ دو۔معتب نے عرض کیا:یابن رسولاللہ! مدینہ میں گیہوں نایاب ہے اگر انھیں بیچ دیا تو دوبارہ گیہوں خریدنا ہمارے لئے آسان نہ ہوگا!امام(ع) نے فرمایا:تم وہی کرو جو میں نے کہاہے ،سارے گیہوں کو لوگوں کے ہاتھ بیچ دو۔معتب نے امام(ع) کے حکم کی تعمیل کی انھوں نے سارا گیہوں بیچ دیا اور اس کی اطلاع امام(ع) کودے دی۔امام جعفر صادق(ع) نے معتب کو حکم دیا:اس کے بعد سے میرے گھر کے لئے روٹی ہر روز بازار سے خریدو،میرے گھر کی روٹی ایسی نہیں ہونی چاہئے جیسی اس وقت عوام استعمال کرتے ہیں بلکہ اس میںکچھ فرق ہونا چاہئے۔آج سے میرے گھر کی روٹی آدھی گیہوں اور آدھی جو سے بنی ہونی چاہئے۔الحمد للہ میں اتنی توانائی رکھتا ہوں کہ سال کے آخر تک اپنے گھر کو گیہوں کی روٹی کھلا کر بہترین طریقہ سے جلا سکوں۔لیکن میں ایسانہیں کروں گاتاکہ میںبارگاہِ الہٰی میں روزی کے مقدر اور معین ہونے کے مسئلہ کی رعایت کرسکوں۔(۱)______________________________________(۱)بحارالانوار،ج۱۱،طبعہ قدیم،ص۱۲۱

۱۸ . غربت کی مشکلات کا بہترین راہ حلوہ رسول خدا کے صحابیوں میں سے تھا، جس پرفقر اور تنگدستی غالب ہو چکی تھی،ایک دن اس نے محسوس کیاکہ بہت زیادہ سختی اور مصیبت میں گرفتار ہوچکا ہے۔اپنی بیوی کے مشورہ پر ارادہ کیا کہ رسول خدا کی خدمت میںجائے اوراپنے حالات بیان کرے اور آنحضرت سے مالی مدد چاہے۔وہ اسی نیت سے آنحضرتکی خدمت میں گیا۔لیکن اس سے پہلے کہ اپنی حاجت بیان کرتا ،رسول خدا کی زبان مبارک سے یہ جملہ سنا۔”جو بھی ہم سے مدد چاہے گا ہم اس کی مدد کریں گے لیکن اگر کوئی بے نیازی سے کام لے اور مخلوق خدا کے سامنے دست حاجت دراز نہ کرے توخود خداوند اسے بے نیاز بنائے گا۔”اس نے اس دن کچھ بھی نہ کہا اور اپنے گھر واپس آگیا اور ایک بار پھر فقر کے خوفناک دیوسے روبرو ہوا جو پہلے کی طرح اس کے گھر پر سایہ فگن تھا۔مجبورہوکر دوسرے دن بھی اسی ارادہ سے رسول خدا کی بزم میں حاضر ہوااس دن بھی آنحضرت کی زبان مبارک سے وہی جملہ سنا :”جو بھی ہم سے مدد چاہے گا ہم اس کی مدد کریں گے لیکن اگر کوئی بے نیازی کا اظہار کرے تو خود خداوندعالم اسے بے نیاز کردے گا۔”اس مرتبہ بھی اپنی حاجت بیان کئے بغیر گھر واپس آگیا۔اوراس نے اپنے آپ کوپہلے کی طرح فقر کے پنجوں میں ضعیف،ناتواںاور مجبور پایا۔تیسری بار بھی اسی نیت سے بزم رسول اکرم میںحاضر ہوا۔اس بار بھی آنحضرت کے لبہائے مبارک حرکت میں آئے اور اسی لب ولہجہ میں اسی جملہ کی تکرار فرمائی۔ اور آپ کا کلام دل کو قوت اور روح کو سکون واطمینان عطا کررہا تھا۔اس بار جب اس صحابی نے یہ جملہ سنا تو اپنے دل میں زیادہ سکون واطمینان کا احساس کیااور اس نے محسوس کیا کہ اس نے اسی جملہ میں اپنی مشکل کاحل تلاش کرلیاہے۔جب وہاں سے باہر آیا تو اس بار زیادہ سکون واطمینان کے ساتھ قدم بڑھا رہاتھااور یہ سوچتا جارہا تھا کہ اب کبھی بھی بندگان خدا سے مدد حاصل کرنے کے لئے ان کے پاس نہ جاوٴں گاصرف خدا پر بھروسہ کروں گااور میرے اندر جو قوت وطاقت اور صلاحیت ودیعت کی گئی ہے ان سے استفادہ کروں گااور خدا ہی سے چاہوں گا کہ جس کام کو میں نے اختیار کیاہے وہ اس میں مجھے کامیابی عطا کرے اور مجھے بے نیاز بنادے۔اس نے سوچا کہ میں کیا کام کرسکتا ہوں؟اس کے ذہن میں آیا کہ وہ اتنا تو کر ہی سکتا ہے کہ جنگل میں جاکر لکڑیاں جمع کرے اور انہیں لاکر فروخت کرے۔وہ عاریةًایک کلہاڑی لے کر جنگل کی طرف ہوگیا۔کچھ لکڑیاں جمع کیںاور انھیں لاکر بیچ دیا۔اس نے اپنی زحمتوں سے حاصل لذت کو چکھا۔اس نے دوسرے دنوں میں بھی اسی کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ آہستہ آہستہ اس نے اسی پیسہ سے ایک کلہاڑی،جانور اور دوسری ضرورت کے سامان خریدے،اور اسی کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ مالدار اور نوکر چاکر والا ہوگیا۔ایک دن رسول خدا اس کے پاس تشریف لے گئے اور آپ نے مسکراتے ہوئے اس سے فرمایا:کیامیں نے نہیں کہا تھا کہ جو بھی ہم سے مدد چاہے گا ہم اس کی مدد کریں گے لیکن جو شخص بے نیازی کا اظہار کرے(یعنی مخلوق خد اکے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے)تو خداوندعالم اسے بے نیاز بنا دے گا۔(1)______________________________________(1) اصول کافی،ج۲،ص ۱۳۹۔(باب القناعہ) وسفینة البحار،مادہٴ قنع
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.