زندگی کی صحیح آ ئیڈیالوجی
امام علی(ص) زندگی کے صحیح معنی اور مفہوم سمجھانے کی سعی و تلاش کرتے ہیں آپ نے مختلف خطبوں میں لوگوں سے یہی تقاضا کیا کہ دنیا کو آخرت کی گزرگاہ سمجھ کے زندگی بسر کریں۔(الدُّنْیَا دَارُ مَمَرٍّ لَا دَارُ مَقَرٍّ) “دنیا ایک گزرگاہ ہے ایک منزل نہیں ہے”بلکہ اس سے بڑھکر دنیا نفع اور نقصان کا ایک کمرشل بازارہے جس میں ہر کوئی سرمایہ گذاری کرتا ہے بعض نفع حاصل کرتے اور بعض افراد اپنا سرمایہ کھوکے نقصان میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔(الدُّنیا سَوقٌ رَبِحَ فِیْها قَوْمٌ وَ خَسِرَ فِیْها آخَرُون) “دنیا ایک بازار ہے جس میں ایک گروہ نفع حاصل کرتا ہے اور دوسرے کو نقصان ہوتا ہے”آپ کی نظر میں مثالی معاشرہ اور حیات اخروی کا ایک دوسرے کے ساتھ کافی مضبوط رابطہ پایاجاتا ہے پہلا، دوسرے کو سنوارنے میں اتنا ہی مؤثر ہے جتنا دوسرے پہ توجہ کرنا دنیا کے آباد ہونے میں اثر انداز ہے، اسکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی سعادت اورشقاوت آمیز زندگی کا آپس میں کافی گہرا اورمستقیم رابطہ ہے گویا دائمی عالم آخرت کو یاد کئے بغیر کرہ زمین پر ایک مثالی معاشرے کی بنیاد ڈالنا ناممکن ہے نیزانسانی اور اسلامی اقدار کی راہ میں حرکت کئے بغیر آخرت کی سعادتمند زندگی حاصل کرنا امکان پذیر نہیں ہے۔اسی طرح خلقت کے اصلی ہدف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے لہذا اس سرای فانی سے کوچ کرنے کے لئے ہمیشہ آمادہ رہو(وَاعْلَمْ أَنَّكَ إِنَّمَا خُلِقْتَ لِلاْخِرَةِ لاَ لِلدُّنْيَا، وَلِلْفَنَاءِ لاَ لِلْبَقَاءِ، وَلِلْمَوْت لاَ لِلْحَيَاةِ، وَأَنَّكَ فِي مَنْزِلِ قُلْعَة وَدَارِ بُلْغَة، وَطرِيق إِلَى الاْخِرَةِ) “یاد رکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایا گیا ہے دنیا میں باقی رہنے کے لئے نہیں۔ تمہاری تخلیق موت کے لئے ہوئی ہے زندگی کے لئے نہیں اور تم اس گھر میں ہوجہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت سامان فراہم کرنا ہےاور تم آخرت کے راستے پر ہو”قیامت کواس دنیا کا مقصد اور غایت سمجھیں اور اسکے لئےہمیشہ خود کوآمادہ رکھاکریں۔(اعدوا له قبل نزوله فان الغایة القیامة و کفی بذالک واعظا لمن عقل و معتبراَ لمن جهل) “آخرت میں وارد ہونے سے پہلے ہی اپنے آپ کو آمادہ کرو کیونکہ تمہارا غایت اور آخری مقصد قیامت ہی ہے لہذا عقلمند انسان کے لئے ایک واعظ کی حیثیت سے اور جاہل کے لئے ایک عبرت آموز کی حیثیت سے تصورقیامت کافی ہے”لہذااس آئیڈیالوجی کو مدنظر رکھتے ہوئےدنیا کو آخرت کی سرمایہ گذاری سمجھ کے بھر پور فائیدہ اٹھانا چاہیے۔پس ان فرمایشات سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ یہ آئیڈیالوجی بھی معاشرے کی تشکیل میں ایک بنیادی رکن کی حیثیت رکھتی ہے اگرمعاشرے کے افراد ایسے عقیدہ کے حامی نہ ہوں تو مثالی معاشرہ تو دور ایک عام ، صحیح اور سالم معاشرے کا قیام بھی ممکن نہیں ہوسکتا ہے