مثالی معاشرے کے اغراض و مقاصد
امام علی(ع) ابن عباس سے فرماتے ہیں اگر اس حکوت کے ذریعہ سے حق کو زندہ کرنا اور باطل کو دور کرنا مطلوب نہ ہوتا تو ایک پھٹا پرانا جوتا میرے لئے اس سے زیادہ قیمتی تھا۔(والله لَهِيَ أَحَبُّ إِليَّ من إِمرتكم، إِلاّ أَن أُقيم حقّاً، أَوأَدفع باطلاً) “اگر میرے پیش ِ نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا ہو تو تُم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے ۔”جی ہاں مثالی معاشرے کی تشکیل کے واسطے ایک صالح اسلامی حکومت اور قیادت کے بھی کچھ اہم ابتدائی اغراض اور مقاصد ہیں جو در واقع مثالی معاشرے کےاصلی مقصد اور ہدف کا پیش خیمہ بنتے ہیں، مکتب نہج البلاغہ کی روشنی میں ان ابتدایی اہداف اور پھر مثالی معاشرے کے اصلی اور واقعی ہدف اور مقصد کی جانب اشارہ کریں گے ۔
عدالتامام علی(ع) کے مثالی معاشرے کا سب سے بنیادی مقصد اور ہدف یہ ہے کہ معاشرے کے تمام امور میں انسان کی فطرت کے مطابق عدالت الہی اجرا ہوجائے ، انبیاء کرام(ع) کی بعثت کا ایک اہم مقصد بھی عدالت الہی اور اقامہ قسط ہے۔(لیقوم الناس بالقسط۔۔۔(حدید 25) امام علی(ع)سورہ نحل کی آیہ شریفہ(۹۰ )کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ حقیقت عدالت سے مراد وہی انصاف ہے۔”آیہ کریمہ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ میں عدل، انصاف ہے اور احسان فضل و کرم”اور دوسری جگہ اس کے دائرے کو وسعت بخشتے ہوئے سخاوت کے ساتھ اس کا موازنہ کرتے ہوئےفرماتے ہیں اس سے مراد صاحبان حق کو حق دلانا مقصود ہے یعنی عدالت حق کی رعایت کرنے کا نام ہے۔(العدل یضع الامور مواضعها والجود یخرجها عن جهتها والعدل سائس عام والجود عارض خاص فالعدل اشرفهما و افضلهما) “عدل امور کو اپنی جگہ پر بر قرار رکھتا ہے لیکن سخاوت امور کو انکی حدود سے خارج کردیتی ہے ۔عدل ایک عام سیاست گر ہے لیکن سخاوت کا اثر محدود ہے اسی لئے عدل جود و سخا کے مقابلے میں بہتر ہے”امام علی (ع) کی نظر میں عدالت ذاتی طور سے ایک نیک اور اچھا کام ہےلہذا بغیر کسی دستور الہی کے بھی انسان کو عدالت اجرا کرنی چاہیے۔(وَلَوْ لَمْ يَكُنْ فِيَما نَهَى اللهُ عَنْهُ مِنَ الْبَغْيِ وَالْعُدْوَانِ عِقَابٌ يُخَافُ لَكَانَ فِي ثَوَابِ اجْتِنَابِهِ مَا لاَ عُذْرَ فِي تَرْكِ طَلَبِهِ فَأَنْصِفُوا النَّاسَ مِنْ أَنْفُسِكُمْ) “اگر پروردگار نے بغاوت اور ظلم سے روکنے کے بعد اس پر عذاب بھی نہیں رکھا ہوتا تو اس سے پرہیز کرنے کا ثواب ہی اتنا زیادہ تھا کہ اس کے ترک کرنے میں کو ئی شخص معذور نہیں ہوسکتا تھا لہذا لوگوں کے ساتھ انصاف کرو”آپ نے عدالت کی مختلف تعبیریں بیان فرمائی ہیں کبھی دستورات الہی کی حیات کے محور کو عدالت ہی قرار دیا ہے اور کبھی معاشرے میں رائج اسلامی حکومت کا نظام نیز اس پر حاکم سیاست کا معیاربھی عدالت ہی جانا ہے۔اسی لئے حکومت کا سب سے بنیادی کام اپنے تمام امور میں عدالت اور انصاف سے کام لینا جانتے ہیں اسی زاویے سے والی مصر مالک اشتر کو تحریر فرماتے ہیں کہ دیکھو تمہارا مقصد صرف عدالت اجرا کرنا ہو!(وَلْيَكُنْ أَحَبَّ الاُْمُورِ إِلَيْكَ أَوْسَطُهَا فِي الْحَقِّ، وَأَعَمُّهَا فِي الْعَدْلِ، وَأَجْمَعُهَا لِرِضَى الرَّعِيَّةِ) “تمہاری نظر میں سب سے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہئے جو حق کے مطابق ہو جس میں عدل عمومی ہو اور زیادہ زیادہ سے رعایا کی خوشنودی کا باعث ہو!”دوسری جگہ ملکی سطح پر عدالت اجراکرنے کو حکام کی آنکھوں کی ٹھنڈک سے تعبیر کرتے ہیں:(وَإِنَّ أَفْضَلَ قُرَّةِ عَيْنِ الْوُلاَةِ اسْتِقَامَةُ الْعَدْلِ فِي الْبِلاَدِ، وَظُهُورُ مَوَدَّةِ الرَّعِيَّةِ) “بے شک حکام اور والیوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ملکی سطح پر عدالت کا قائم کرنا اور رعایا کے دلوں کو اپنی طرف جذب کرنا ہے”حکمین کی خیانت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہم نے انہیں اپنی باطل رأی واپس لینے سے پہلے عدل و انصاف کا حکم کرنے کے لئے کہا۔آپ کےمثالی معاشرے میں عدالت اجرا کرنے میں دوست اور دشمن کا امتیاز نہیں کیا جاتا ہے چنانچہ یہ انسان کی ذات اور فطرت کے ساتھ عجین ہے لہذا دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ عدالت سے پیش آنا چاہیے۔(علیک بالعدل فی الصدیق و العدو) “دوست و دشمن کے ساتھ عدالت سےپیش آو”آپ اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر عدالت اجرا ہوجائے تو سارے لوگ بے نیاز ہوجائیں گے اسی وجہ سے مملکت اسلامی کی بھاگ دوڑ ہاتھ میں لیتے ہی آپ کے حلقہ مبارک سے نکلنے والی عدالت انسانی کی صدائیں اسلامی مثالی معاشرے کی فضاؤں میں گونجنے لگی۔(لوعدل فی الناس لاستغنوا) “اگر لوگوں کے درمیان عدالت اجرا ہوتی تو سارے لوگ ایک دوسرے سے بے نیاز ہوجاتے”یہی عدالت جو مثالی معاشرے کے ابتدائی مقاصد میں شمار ہوتی ہے خود بخود اسلامی معاشرے کے دوسرے امور اور مقاصد تک پہونچنے کا ایک ذریعہ ہے اسی عدالت کی وجہ سے ہر قسم کی تبعیض ختم ہوکے معاشرے میں فلاح اور بہبودی وجود میں آتی ہےہر طرح کی غربت ، بربریت اور ظلم و ناانصافی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ (بالعدل تصلح الرعية) “عدالت اجرا کرنے سے رعایا میں اصلاح ہوجاتی ہے”پس ان فرمایشات کی روشنی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی مثالی معاشرے کا ایک اہم مقصد عدالت انسانی کو احسن طریقہ سے اجرا کرنا ہے۔
امنیت۔امنیت نہ فقط عالم انسانیت کا ایک اہم مقصد ہے بلکہ عالم حیوانات میں بھی یہ چیز ہر جانور، پرندے اور حشرات کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔ عصر حاضر کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ امنیت ہی ہے کتنے ہی مغربی اور مشرقی نظام اور معاشرے وجود میں آئے تاکہ انسان کی زندگی میں چین و سکون اور امنیت برقرار کرسکیں لیکن یہ سب کے سب اس امرمیں ناکام ہوئے ہیں مثالی معاشرے کا ایک لازمی اور ناقابل تفکیک نتیجہ اور مقصد امنیت ہے امام علی(ع) کے اس خوبصورت مثالی معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے کسی بھی ذات، پات کسی بھی دین و مذہب سے تعلق رکھنے والے کیوں نہ ہووہ اپنی زندگی کے تمام جوانب میں امن و امنیت کی لذت کو درک کرتے ہیں۔آپ کے نزدیک سب سے برا معاشرہ وہ ہے جو ناامنی کا شکا ہو۔(شرالبلا بلد لاامن فیه و لا خِصَب) “سب سے برا شہر اور معاشرہ وہ ہے جس میں امن نہ ہو مہنگائی سے خالی نہ ہو”اسی طرح فرماتے ہیں: (شرالاوطان مالم یأمن فیه القطان) “سب سے برا وطن وہ ہے جس میں رہنے والے افراد ناامنی کے شکار ہوں”ان احادیث کا لازمی نتیجہ یہ ہےکہ اگر ناامن شہر، معاشرہ اور وطن سب سے بری جگہ ہیں تو اسکے عوض میں امن کی نعمت سے بھرا ہوا شہر ،معاشرہ اور وطن سب سے بہترین جگہ ہونی چاہیے لہذا اس بناپر امنیت مثالی معاشرے کے اہم اہداف کا حصہ ہونا چاہیے۔قرآن کریم میں بھی رب العزت مثالی معاشرے کے اس اہم مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے۔(وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا) (سورہ نور ۵۵) “اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا”امیرالمومنین(ع) بھی حکومت اسلامی کی ایک اہم وجہ معاشرے کی امنیت ہی بتلاتے ہیں۔(فَيَاءْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبادِكَ،) ” تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو امن و امان حاصل ہوجائے”اسی طرح مالک اشتر کے نام لکھے سیاسی پیغام میں جنگ و جدال سے کسی بھی طرح پرہیز کرتے ہوئے امنیت کی جانب توجہ کرنے پر زور دیتےہوئے فرماتے ہیں۔(وَلاتَدْفَعَنَّ صُلْحاً دَعَاكَ إِلَيْهِ عَدُوُّ كَ لله فِيهِ رِضىً، فإِنَّ فِي الصُّلْحِ دَعَةً لِجُنُودِكَ، وَرَاحَةً مِنْ هُمُومِكَ وأَمْناً لِبِلاَدِكَ) “اور خبردار کسی ایسی دعوت صلح کا انکار نہ کرنا جس کی تحریک دشمن کی طرف سے ہو اور جس میں مالک کی رضامندی پائی جاتی ہو کہ صلح کے ذریعہ فوجوں کو قدرے سکون مل جاتا ہے اور تمہارے نفس کو بھی افکار سے نجات مل جائے گی اور شہروں میں بھی امن و امان کی فضا قائم ہوجائے گی”اسی طرح سے شریعت اسلامی کے نفاذ کا ایک مقصد امنیت اور سلامتی بتلاتے ہیں۔(الْحَمْدُ للهِ الَّذِي شَرَعَ الاِْسْلاَمَ فَسَهَّلَ شَرَائِعَهُ لِمَنْ وَرَدَهُ، وَأَعَزَّ أَرْكَانَهُ عَلَى مَنْ غَالَبَهُ، فَجَعَلَهُ أَمْناً لِمَنْ عَلِقَهُ، وَسِلْماً لِمَنْ دَخَلَهُ) “تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے کہ جس نے شریعت اسلام کو جاری کیا اور اس (کے سرچشمہٴ) ہدایت پر اترنے والوں کے لیے اس کے قوانین کو آسان کیا، اور اس کے ارکان کو حریف کے مقابلے میں غلبہ و سرفرازی دی چنانچہ جو اس سے وابستہ ہو اس کے لیے امن جو اس میں داخل ہو اس کے لے صلح و آشتی”اور اسی طرح مثالی معاشرے پر حاکم وحدت اور انسجام سے پیدا ہونے والی امنیت کی جانب خطبہ نمبر(١٩١)میں یوں اشارہ فرماتے ہیں:”انکی ذلت کو عزت بخشی اور انکے خوف کو امنیت میں بدل دیا”پس اگر مثالی معاشرے کی خصوصیات کی جانب توجہ کی جائے تو خود بخود یہ ہمیں اسکے اہم اور بنیادی مقصد امنیت کی جانب لے جاتی ہیں جی ہاں امام علی(ع)کے مثالی معاشرے کا ایک اور ابتدائی ہدف اور مقصد امنیت ہےکیونکہ ہرطرح کے خوف و ہراس سے عاری معاشرہ ہی ایک مطلوب اور مثالی معاشرہ ہوسکتا ہے ۔
تربیت:تربیت ایک وسیع اور عام موضوع ہے یہاں پہ صرف اشارہ کے طور پر امام کے بعض اقوال کی روشنی میں اسے بیان کرناچاہتا ہوں آپ کےخوبصورت مثالی معاشرے اور سماج کا تیسرا اہم مقصد انسان اور معاشرے کی تربیت ہے۔ تربیت یعنی کمال مطلق تک پہنچنے کے لئےانسان کی صلاحیتوں کو شکوفا کرنے کی غرض سے موجودہ موانع کو دور کرکےضروری وسائل فراہم کرنا۔آپ انبیاء کی فلسفہ بعثت کی وجہ بھی انسان کے اندر موجودپوشیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہی بیان فرماتے ہیں:”اللہ نےان میں اپنے رسول مبعوث کئے اور لگاتار انبیاء بھیجے تاکہ ان سے فطرت کےعہدو پیمان پورے کرائیں۔۔۔عقل کے دفینوں کو ابھاریں اورا نہیں قدرت کی نشانیاں دکھائیں”نیز فرماتے ہیں:(وَبَعَثَ إِلَى الْجِنِّ وَالاِْنْسِ رُسُلَهُ، لِيَكْشِفُوا لَهُمْ عَنْ غِطَائِهَا) “اس نے جن و انس کی طرف اپنے رسول بھیجے ہیں تاکہ وہ نگاہوں سے پردہ اٹھادیں اور نقصانات سے آگاہ کردیں”امام علی(ع) کی نظر میں مثالی دینی حکومت کے حاکم اور قائد کی سب سے اہم ذمہ داری عوام اور معاشرے کی تربیت کرناہے۔(أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّ لِي عَلَيْكُمْ حَقّاً، وَلَكُمْ عَلَيَّ حَقٌّ: فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَيَّ: فَالنَّصِيحَةُ لَكُمْ، وَتَوْفِيرُ فَيْئِكُمْ عَلَيْكُمْ، وَتَعْلِيمُكُمْ كَيْلا تَجْهَلُوا، وَتَأْدِيبُكُمْ كَيْما تَعْلَمُوا) “اے لوگو! ایک تو میرا تم پر حق ہے ، اور ایک تمہارا مجھ پر حق ہے کہ میں تمہاری خیر خواہی پیشِ نظر رکھوں اور بیت المال سے تمہیں پورا پورا حصہ دوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہو اور اس طرح تمہیں تہذیب سکھاؤں ، جس پر تم عمل کرو”ان فرمایشات کی تایید میں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ قرآن بھی انبیاء کرام کا اہم مقصد تعلیم اور تربیت ہی بتلاتا ہے(سورہ جمعہ، آیہ 2 و آل عمران 164)امام تربیت کے اس دائرے کو صرف رعایا اور عوام کی تربیت تک محدود نہیں کرتے بلکہ سب سے پہلے خود قائد اور رہبر کو اپنی ذات کی تربیت کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔(مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِهِ وَ لْيَكُنْ تَأْدِيبُهُ بِسِيرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِيبِهِ بِلِسَانِهِ وَ مُعَلِّمُ نَفْسِهِ وَ مُؤَدِّبُهَا أَحَقُّ بِالْإِجْلَالِ مِنْ مُعَلِّمِ النَّاسِ وَ مُؤَدِّبِهِمْ) “جو شخص اپنے کو قائد ملت بناکر پیش کرے اس کا فرض ہے کہ لوگوں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنے نفس کو تعلیم دے اور زبان سے تبلیغ کرنے سے پہلے اپنے عمل سے تبلیغ کرے اور یہ یاد رکھے کہ اپنے نفس کو تعلیم و تربیت دینے والا دوسروں کو تعلیم و تربیت دینے والے سے زیادہ قابل احترام ہوتا ہے”پس اس بنا پر پہلے مرحلہ میں قائد خود کو تہذیب نفس اور تربیت کے زیور سے آراستہ کرے اور پھر مثالی معاشرے کے افراد اور رعایا کے تہذیب و تربیت پر کمر کسے کیونکہ سعادت اور خوشبختی عوام اور رعایا کی اصلاح اور تہذیب میں ہی پوشیدہ ہے۔(من کمال السعادةالسعی فی صلاح الجمهور) “سعادت کی انتہایہ ہے کہ جمہوریت کی اصلاح کے لئے سعی و تلاش کی جائے”پس تربیت عوام اور معاشرہ امام کے مثالی معاشرے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس معاشرے کی تشکیل کا اہم مقصد تربیت انسان ہے یہ تربیت عدالت اور امنیت کے سائے میں ہی حاصل ہوسکتی ہے گو یا یہ اہداف ایک دوسرے پر مترتب ہیں لیکن اسکے باوجود بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ مثالی معاشرے کی تشکیل کے ان اہداف اور مقاصدکے حصول کے کیا بعد کیا کرنا ہے ؟ کیا واقعی معنوں میں ان مقاصد کے حصول سے امام علی (ع) اس مقصد تک پہنچ رہے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں توکیا کوئی اور مقصد بھی درکار ہے ؟
مقصد اصلی:جی ہاں ان سارے سوالوں کا جواب یہی ہے کہ ابھی وہ مطلوبہ مقصد حاصل ہونا باقی ہےجس کے لئے مثالی معاشرے کو وجود میں لایا گیالہذاجو چیز امام علی(ع) کے مثالی معاشرے کو دوسرے معاشروں سے جدا اور ممتاز بنادیتی ہے وہ اس معاشرے میں پرورش پانے والے انسان کےمتعلق آپکی جہان بینی اور آیڈیالوجی ہےآپ کی نظر میں آگانہ طور سے اقدار انسانی کی ارتقاء کی انتہا ان فطری صلاحیتوں کے احیاء پر موقوف ہے جو انبیاء کی بعثت کا اصلی مقصد تھا۔ (لیستادوهم میثاق فطرته)(خطبه۱)یہ شکوفایی حقیقت میں انسان کے درمیان حائل اس دیوار کو گرادیتی ہے جو اسے حقیقت ابدی تک پہنچنے سے باز رکھتی ہے اور اسے مقصد نہایی سے دور کردیتی ہےلہذا اس بناپر امام علی(ع) کے فرمایشات کے نتیجہ میں مثالی معاشرے کے مذکورہ تین اہم مقصد (عدالت، امنیت اور تربیت) اس میں پرورش پانے والے مثالی انسان کا واقعی مقصد نہیں ہوسکتے بلکہ واقعی مقصد تک پہونچنے کے لئے ہمیں آنحضرت(ع)کی دوسری فرمایشات کا سہارا لینا ہوگا اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک سے بھی اس بارے میں مدد لے سکتے ہیں کہ جس میں ارشاد ہو رہا ہے کہ خلقت کا بنیادی مقصد عبودیت اور معرفت الہی ہے جو فقط بندگی سے حاصل ہوتی ہے۔(وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ)( سورہ ذاریات۵۶)” میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت اور معرفت کے لئت پیدا کیا”اسی لئے اس پورے عالم کوایک سعادتمند اور بے مثال معاشرہ بنانے اور انسان کو اپنے عبودیت کے مقام و منزلت سے آشنا کرنے کے لئےانبیاء کرام(ع)بھی ارسال کئے گئے۔(وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ)( سورہ انبیاء۲۵) ‘‘اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اسکی طرف سے یہی وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا سب لوگ میری ہی عبادت کرو’یا دوسری آیہ شریفہ میں ہر معاشرے میں ایک پیغمبر اور رسول کے بھیجنے کا فلسفہ صرف خدا کی بندگی اور طاغوت سے اجتناب کہا گیا ہے۔(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ)(نحل٣٦)”اور بیشک ہم نے ہر امت کے لئے ایک رسول بھیجا تا کہ خدا کی عبادت کریں اور طاغوت سے دوری اختیار کریں “نہج البلاغہ بھی بعثت پیغمبر (ص)کا سب سے اہم فلسفہ اور حکمت لوگوں کی بندگی اور عبودیت ہی بتلاتا ہے۔فَبَعَثَ اللهُ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ لِيُخْرِجَ عِبَادَهُ مِنْ عِبَادَةِ الاَْوْثَانِ إِلَى عِبَادَتِهِ، وَمِنْ طَاعَةِ الشَّيْطَانِ إِلَى طَاعَتِهِ، بِقُرْآن قَدْ بَيَّنَهُ وَأَحْكَمَهُ، لِيَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ إِذْ جَهِلُوهُ) “پروردگار عالم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیاتاکہ آپ لوگوں کوبت پرستی سے نکال کر عبادت الہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمان کی اطاعت کرائیں اس قرآن کے ذریعہ سے جسے واضح اور محکم قرار دیا ہے تاکہ بندے خدا کو نہیں پہچانتے ہیں تو پہچان لیں “پس عبادت اور بندگی سب سے اہم ترین ہدف خلقت ہے اسی لئے امام علی (ع)پوری سعی و تلاش کررہے ہیں کہ انسان اپنے اصلی مقام اور منزلت (عبودیت) تک پہنچ سکے معرفت کے حوالے سے ‘‘معرفة الله اعلی المعارفیا اول الدین معرفته’ہی مقصد حیات ہے اسی لئے عبودیت کے حوالے سے ہمیشہ اپنے آپ کو عبد کہنا زیادہ پسند کرتے تھےاپنے حکومتی دستورات میں ہمیشہ یہی لکھتے تھے۔ ‘‘مِن عَبدِ اللهِ عَلی امیرالمومنین الی۔۔۔’اسی طرح شہر میں تعینات مختلف والیوں کے نام لکھے خطوط نیز عوام الناس کو موعظہ کرتے وقت اکثر‘‘یا عبادالله يا عبد الله’ کا لفظ ہی استعمال میں لاتے تھے۔پس مثالی معاشرے کا یہی وہ حقیقی اور اصلی مقصد ہے جس کے لئے پوری کائنات کو معرض وجود میں لایا گیا اور مولائے کائنات ہر حال میں ایسے معاشرے کی تشکیل کے لئے انتھک کوشش کی آج بھی اگر انسان باب علم پہ دستک دے کے اپنے معاشرے کو مثالی بنانا چاہتاہے تو اپنے آپ کوہر طرح کی ہوا و ہوس اور سامراجی ہتھکنڈوں سے آزاد کردے اگر اقدار انسانیت کی بقاء کی تمنا کرتا ہے تو اسے نہج البلاغہ کے نور ہدایت میں اپنے تاریک وجود کو روشن کرنا ہوگا۔
نتیجہ :اس مضمون میں ہم نے امام علی(ع) کی فرمایشات کی روشنی میں تشکیل پائے جانے والے ایک ایسے منفرد اور انمول مثالی معاشرے کی کسی حد تک وضاحت کی جسے آپ نے چودہ سو برس پہلے انسانیت کے نام ہدیہ کیا سب سے پہلے آپ کے مثالی معاشرے کے بنیادی ارکان پہ اجمالی بحث کی اور اسی نتیجہ پہ پہونچے کہ توحید ،سیرت نبوی ، کتاب الہی اور زندگی کی صحیح آئڈیالوجی ہی اسکے بنیادی ارکان ہیں اور اسکے بعد اہم خصوصیات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس معاشرے پر حاکم صفات اور خصوصیات بھی بیان کئے اور آخرمیں کچھ اہم عارضی مقاصد کی جانب بھی اشارہ کیا اور اسی نتیجہ پر پہونچے کہ قرآن اور نہج البلاغہ کی روشنی میں امام علی(ع)کے مثالی معاشرے یا آئیڈئل سوسائٹی کا اہم مقصدخدا کی معرفت اور بندگی ہے مثالی معاشرے کی ساری کوشش یہی ہے کہ انسان کو اپنے حقیقی مقام اور مرتبہ سے آشنا کرایا جائے اور یہ حقیقی مقام وہی مقام بندگی ہےجس کے لئے کائنات کی تخلیق ہوئی ہے ۔خدایا ہمیں بھی اپنے حقیقی بندوں میں شمار کر اور مولاامیرالمومنین(ع) کی دیرینہ تمنا، مثالی معاشرے کو تشکیل دینے میں ہماری مدد فرما!