پيغمبروں كے بعثت كى اہم غرض نفوس كا پاكيزہ كرنا
پيغمبروں كا سب سے بڑا ہدف اور غرض انسانى نفوس كى پرورش كرنا اور نفوس انسانى كو پاك و پاكيزہ بنانا تھا_خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا ہے كہ ‘ خداوند عالم نے مومنين پر احسان كيا ہے كہ ان سے ايك رسول ان كے درميان بھيجا ہے تا كہ وہ ان كے لئے قرآنى آيات كى تلاوت كرے اور ان كے نفوس كو پاك و پاكيزہ بنائے اور انہيں كتاب اور حكمت كى تعليم دے گرچہ وہ اس سے پہلے ايك كھلى ہوئي گمراہى ميں غرق تھے_ (1)تعليم و تربيت كا موضوع اس قدر مہم تھا كہ پيغمبروں كے بھيجنے كى غرض قرار پايا اور خداوند عالم نے اس بارے ميں اپنے بندوں پر احسان كيا_ انسان كى فردى اور اجتماعى شخصيت كى سعادت اور دنيوى اور اخروى شقاوت اس موضوع سے وابستہ ہے كہ كس طرح انسان نے اپنے آپ بنايا ہے اور بنائے گا_ اسى وجہ سے انسان كا اپنے آپ كو بنانا ايك زندگى ساز سرنوشت ساز كام شمار ہوتا ہے_ پيغمبر(ص) آئے ہيں تا كہ خودسازى اور نفس انسانى كى پرورش اور تكميل كا راستہ بتلائيں اور مہم ا ور سرنوشت ساز كام كي
16رہنمائي اور مدد فرمائيں پيغمبر آئے ہيں تا كہ نفوس انسانى كو رذائل اور برے اخلاق اور حيوانى صفات سے پاك اور صاف كريں اور اچھے اخلاق اور فضائل كى پرورش كريں_ پيغمبر عليہم السلام آئے ہيں تا كہ انسانوں كو خودسازى كا درس ديں اور برے اخلاق كى شناخت اور ان پر كنٹرول اور خواہشات نفسانى كو قابو ميں ركھنے كى مدد فرمائيں اور ڈرانے اور دھمكانے سے ان كے نفوس كو برائيوں اور ناپاكيوں سے پاك و صاف كريں_ وہ آئے ہيں تا كہ فضائل اور اچھے اخلاق كے پودے كو انسانى نفوس ميں پرورش ديں اور بار آور بنائيں اور اپنى راہنمائي اور تشويق اور ترغيب سے ان كے مددگار بنيں_رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا ہے كہ ‘ ميں تمہيں اچھے اخلاق كى وصيت كرتا ہوں كيونكہ خداوند عالم نے مجھے اسى غرض كے لئے بھيجا ہے_ (2)نيز پيغمبر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ ميں اسلئے بھيجا گيا ہوں تا كہ اچھے اخلاق كو نفوس انسانى ميں مكمل كروں_ (3)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ خداوند عالم نے پيغمبروں كو اچھے اخلاق كے لئے منتخب كيا ہے جو شخص بھى اپنے آپ ميں اچھے اخلاق موجو د پائے تو خداوند عالم كا اس نعمت پر شكريہ ادا كرے اور جو شخص اپنے آپ ميں اچھے اخلاق سے محروم ہو اسے اللہ تعالى كى بارگاہ ميں تضرع اور زارى كرنى چاہئے اور اللہ تعالى سے اچھے اخلاق كو طلب كرنا چاہئے_ (4)امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ اگر بالغرض ميں بہشت كى اميد نہ ركھتا ہوتا اور دوزخ كى آگ سے نہ ڈرتا ہوتا اور ثواب اور عقاب كا عقيدہ بھى نہ ركھتا ہوتا تب بھى يہ امر لائق تھا كہ ميں اچھے اخلاق كى جستجو كروں كيونكہ اچھے اخلاق كاميابى اور سعادت كا راستہ ہے_ (5)امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ ايمان كے لحاظ سے كاملترين مومنين وہ
17ہيں كہ جن كے اخلاق بہتر ہوں_’ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمايا ہے كہ ‘ قيامت كے دن نامہ اعمال ميں كوئي چيز حسن خلق سے افضل نہيں ركھى جائيگي_ (6)ايك آدمى رسول خدا كى خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض كى يا رسول اللہ دين كيا ہے؟ آپ(ص) نے فرمايا ‘حسن خلق’ وہ آدمى اٹھا اور آپ(ص) كے دائيں جانب آيا اور عرض كى كہ دين كيا ہے؟ آپ(ص) نے فرمايا ‘حسن خلق’ يعنى اچھا اخلاق_ پھر وہ گيا اور آپ كے بائيں جانب پلٹ آيا اور عرض كى كہ دين كيا ہے ؟ آپ(ص) نے اس كى طرف نگاہ كى اور فرمايا كيا تو نہيں سمجھتا؟ كہ دين يہ ہے كہ تو غصہ نہ كرے_ (7)اسلام كو اخلاق كے بارے ميں خاص توجہہ ہے اسى لئے قرآن مجيد ميں اخلاق كے بارے ميں احكام كى نسبت زيادہ آيات قرآنى وارد ہوئي ہيں يہاں تك كہ قرآن كے قصوں ميں بھى غرض اخلاقى موجود ہے_ تمہيں احاديث ميں اخلاق كے بارے ہزاروں حديثيں مليں گى اگر دوسرے موضوعات سے زيادہ حديثيں نہ ہوئيں تو ان سے كمتر بھى نہيں ہيں_ اخلاق كے بارے ميں ثواب اور خوشخبرياں جو ذكر ہوئي ہيں دوسرے اعمال كے ثواب سے كمتر نہيں ہيں_ اور برے اخلاق سے ڈرانا اور سزا جو بيان ہوئي ہے وہ دوسرے اعمال سے كمتر نہيں ہيں_ اسى لئے اسلام كى بنياد اخلاقيات پر تشكيل پاتى ہے_ مناسب نہيں كہ اسے دين كے احكام ميں دوسرا درجہ ديا جائے اور دينداروں كے لئے آرائشے اور خوبصورتى كا درجہ ديا جائے اگر احكام ميں امر اور نہى ہيں تو اخلاق ميں بھى امر اور نہى موجود ہيں اور اگر احكام ميں تشويق اور تخويف ثواب اور عقاب اور جزا ء اور سزا موجود ہے تو اخلاق ميں بھى يہى امور موجود ہيں_پس احكام شرعى اور اخلاق ميں كونسا فرق موجود ہے؟ اگر ہم سعادت اور كمال كے طالب ہيں تو اخلاقيات سے لاپرواہى نہيں برت سكتے ہم اخلاقى واجبات كو اس بہانے سے كہ يہ اخلاقى واجبات ہيں ترك كرديں اور اخلاقى محرمات كو اس بنا پر كہ يہ اخلاقى محرمات ہيں بجالاتے رہيں_ اگر نماز واجب ہے اور اس كا ترك كرنا حرام اور موجب
18سزا ہے تو عہد كا ايفا بھى واجب ہے اور خلاف وعدہ حرام ہے اور اس پر بھى سزا ہوگى پس ان دونوں ميں كيا فرق ہے؟واقعى متدين اور سعادت مند وہ انسان ہے كہ جو احكام شرعيہ اور تكاليف الہى كا پابند ہو اور اخلاقيات كا بھى پابند ہو بلكہ سعادت اور كمال معنوى اور نفسانى ميں اخلاقيات بہت زيادہ اہميت ركھتے ہيں جيسے كہ بعد ميں ذكر كريں گے_
بزرگ شناسى و خودسازيگرچہ انسان ايك حقيقت ہے ليكن يہ مختلف جہات اور اوصاف ركھتا ہے_ انسان كے وجود كا ايك مٹى كے جوہر سے جو بے شعور ہے آغاز ہوا ہے اور پھر يہ جوہر مجرد ملكوتى تك جاپہنچتا ہے خداوند عالم قرآن مجيد ميںفرماتا ہے كہ ‘ خداوند وہ ہے كہ جس نے ہر چيز كو اچھا پيدا كيا ے اور انسان كو مٹى سے بنايا ہے اور اس كى نسل كو بے وقعت پانى يعنى نطفہ سے قرار ديا ہے پھر اس نطفہ كو اچھا اور معتدل بنايا ہے اور پھر اس ميں اپنى طرف منسوب روح كو قرار ديا ہے اور تمہارے لئے كان، آنكھ اور دل بنايا ہے اس كے باوجود تم پھر بھى بہت كم اس كا شكريہ ادا كرتے ہو_ (8)انسان مختلف مراتب اور جہات ركھتا ہے ايك طرف تو وہ ايك جسم طبعى ہے اور اس جسم طبعى كے آثار ركھتا ہے دوسرى طرف وہ جسم نامى ہے كہ وہ اس كے آثار بھى ركھتا ہے اور دوسرے لحاظ سے وہ ايك حيوان ہے اور وہ حيوان كے آثار بھى ركھتا ہے ليكن بالاخرہ وہ ايك انسان ہے اور وہ انسانيت كے آثار بھى ركھتا ہے جو حيوانات ميں موجود نہيں ہيں_لہذا انسان ايك حقيقت ہے ليكن يہ حقيقت وجود كے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات كى حامل ہے_ جب يہ كہتا ہے كہ ميرا وزن اور ميرى شكل و صورت تو وہ
19اپنے جسم نامى ہونے كى خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ كہتا ہے كہ ميرى شكل و صورت تو وہ اپنے جسم نامى ہونے كى حكايت كر رہا ہوتا ہے اور جب وہ كہتا ہے كہ ميرا چلنا اور شہوت اور غضب تو وہ اپنے حيوانى درجہ كى خبر دے رہا ہوتا ہے اور جب وہ كہتا ہے كہ ميرا سوچنا اور عقل اور فكر تو وہ اپنے انسان اعلى درجہ كا پتہ دے رہا ہوتا ہے پس انسان كى ميں اور خود مختلف موجود ہيں_ ايك جسمانى ميں اور ايك ميں نباتى اور ايك ميں حيوانى اور ايك ميں انسانى ليكن ان ميں سے انسانى ميں پر ارزش اور اصالت ركھتى ہے وہ چيز كہ جس نے انسان كو انسان بنايا ہے اور تمام حيوانات پر برترى دى ہے وہ اس كى روح مجرد ملكوتى اور نفخہ الہى ہے_خداوند عالم انسان كى خلقت كو اس طرح بيان فرماتا ہے كہ ہم نے انسان كو ٹى سے خلق كيا ہے پھر اسے نطفہ قرار ديا ہے اور اسے ايك مضبوطہ جگہ رحم مادر ميں قرار ديا ہے اور پھر نطفہ كو علقہ لو تھڑا اور پھر علقہ كو نرم گوشت بنايا ہے اور پھر نرم گوشت كو ہڈياں بنايا ہے پھر ان ہڈيوں پر گوشت سے ڈھانپا ہے_ پر اس ميں روح مجرد ملكوتى كو پھونكا ہے جس سے اسے ايك نئي مخلوق بنايا ہے_ شاباش اس كامل قادر پر جو بہترين خلق كرنے والا ہے_انسان كى خلقت كے بارے خدائے دانا فرماتا ہے_ تبارك اللہ احسن الخالقين اسى ملكوتى روح كى وجہ سے انسان كايك ايسے مقام تك پہنچ جاتا ہے كہ خداوند عالم كى طرف سے فرشتوں كو حكم ديتا ہے كہ ‘ ميں نے آدم (ع) كو پيدا كيا ہے اور اس روح كو جو ميرى طرف نسبت ركھتى ہے اس ميں پھونكا ہے لہذا تم سب اس كى طرف سجدہ كرو_ (9)اگر انسان تعظيم كا مورد قرار پايا ہے اور خدا نے اس كے بارے ميں فرمايا ہے كہ ہم نے اولاد آدم كو محترم قرار ديا ہے اور انہيں خشكى اور سمندر ميں سوار كيا ہے اور ہر قسم كى پاكيزہ اور لذيذ غذا اس كى روزى قرار دى ہے اور اپنى بہت سى مخلقو پر اسے
20برترى دے ہے (10) تو يہ سب اسى روح ملكوتى كے واسطے سے ہے لہذا انسان اگر خود سازى يعنى اپنے آپ كو سنوارنا ہے تو اسے چاہئے كہ وہ اپنى انسانى ميں كو سنوارے اور تربيت دے نہ وہ اپنى حيوانى ميں يا جسمانى ميں كى پرورش كرے پيغمبروں كى غرض بعثت بھى يہى تھى كہ انسان كو خودسازى اورجنبہ انسانى كى پرورش ميں اس كى مدد كريں اور اسے طاقت فراہم كريں_ پيغمبر(ص) انسانوں سے فرمايا كرتے تھے كہ تم اپنے انسانى ميں كو فراموش نہ كرو اور اگر تم نے اپنے انسانى خود اور ميں كو خواہشات حيوانى پر قربانى كر ديا تو بہت بڑا نقصان تمہارے حصہ اور نصيب ميں آجائيگا_خدا قرآن مجيد ميں فرماتا ہے ‘ اے پيغمبر_ ان سے كہہ دے كہ نقصان ميں وہ اشخاص ہيں جو اپنے نفس انسانى اور اپنے اہل خانہ كے نفوس كو قيامت كے دن نقصان ميں قرار ديں اور يہ بہت واضح اور كھلا ہوا نقصان ہے_ (11)جو لوگ حيوانى زندگى كے علاوہ كسى دوسرے چيز كى سوچ نہيں كرتے در حقيقت وہى لوگ ہيں جنہوں نے انسانى شخصيت كو كھو ديا ہوا ہے كہ جس كى تلاش ميں وہ كوشش نہيں كرتے_(12)امير المومنين عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ميں اس شخص سے تعجب كرتا ہوں كہ ايك گم كى ہوئي چيز كى تلاش تو كرتا ہے جب كہ اس نے اپنے انسانى روح كو گم كيا ہوا ہے اور اس كے پيدا كرنے كے درپے نہيں ہوتا_’ اس سے بدتر اور دردناك تر كوئي نقصان نہيں ہے كہ انسان اس دنيا ميں اپنى انسانى اور واقعى اور حقيقى شخصيت كو كھو بيٹھے ايسے شخص كے لئے سوائے حيوانيت كے اور كچھ باقى نہيں رہے گا_
روح انسانى اور نفس حيوانيجو روايات اور آيات روح اور نفس انسانى كى بارے ميں وارد ہوئي ہيں وہ د و
21قسم پر ہيں ايك قسم نفس انسانى كو ايك در بے بہا اور شريف ملكوتى كہ جو عالم ربوبى سے آيا ہے اور فضائل اور كمالات انسانى كامنشا ہے بيان كرتى ہيں اور انسان كو تاكيد كرتى ہيں كہ ايسے كمالات اور جواہر كى حفاظت اور نگاہ دارى اور تربيت اور پرورش ميں كوشش كرے اور ہوشيار رہے كہ ايسے بے بہا در كو ہاتھ سے نہ جانے دے كہ اس سے اسے بہت زياد نقصان اٹھانا پڑے گا_ نمونے كے طور پر قرآن مجيد ميں آيا ہے كہ ‘ اے محمد (ص) آپ سے روح كى حقيقت كا سوال كرتے ہيں ان كے جواب ميں كہہ دے كہ يہ پروردگار كے عالم سے ہے اور وہ علم جو تمہيں ديا گيا ہے وہ بہت ہى تھوڑا ہے_ (13)اس آيت ميں روح كو ايك موجود عالم امر سے جو عالم مادہ سے بالاتر ہے قرار ديا ہے_اميرالمومنين عليہ السلام نے روح كے بارے ميں فرمايا ہے كہ ‘روح ايك در بے بہا ہے جس نے اس كى حفاظت كى اسے وہ اعلى مرتبہ تك پہنچائيگا اور جس نے اس كى حفاظت ميں كوتاہى كى يہ اسے پستى كى طرف جائيگا_ (14)آپ نے فرمايا ہے كہ ‘ جس شخص نے اپنى روح كى قدر پہچانى وہ اسے پست اور فانى كاموں كے بجالانے كى طرف نہيں لے جائي گي_ (15)آپ نے فرمايا ‘جس شخص نے روح كى شرافت كو پاليا وہ اسے پست خواہشات اور باطل تمينات سے حفاظت كردے گي_ (16)’روح جتنى شريف ہوگى اس ميں اتنى زيادہ مہربانى ہوگي_ (17)آپ نے فرمايا كہ ‘ جس كا نفس شريف ہوگا وہ اسے سوال كرنے كى خوارى سے پاك كردے گا_ (18)اس قسم كى آيات اور روايات كے بہت زيادہ نمونے موجود ہيں_ ان سے معلوم ہوتا ہے كہ نفس انسانى ايك بيش بہا قيمتى در ہے كہ جس كى حفاظت و نگاہ دارى اور تربيت كرنے ميں كوشش كرنى چاہئے_دوسرى قسم كى روايات وہ ہيں كہ جس ميں نفس انسانى كو ايك انسان كا سخت دشمن
22تمام برائيوں كا مبدا بتلايا گيا ہے لہذا اس سے جنگ كى جائے اور اسے سركوب كيا جائے ور نہ وہ انسان كے لئے بدبختى اور شقاوت كے ا سباب مہيا كردے گا_ نمونے كے طور پر جيسے قرآن مجيد ميں آيا ہے كہ ‘ جو شخص مقام رب سے ڈرتا ہو اور اپنے نفس كو خواہشات پر قابو پاتا ہو اس كى جگہ جنت ہے_(19)قرآن مجيد حضرت يوسف عليہ السلام سے نقل كرتا ہے كہ انہوں نے فرمايا ہے كہ ‘ ميں اپنے نفس كو برى قرار نہيں ديتا كيونكہ وہ ہميشہ برائيوں كى دعوت ديتا ہے مگر جب خدا رحم كرے_(20)پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ تيرا سب سے بدترين دشمن وہ نفس ہے جو تيرے دو پہلو ميں موجود ہے_(21)حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘نفس ہميشہ برائي كا حكم ديتا ہے جو شخص اسے امين قرار دے گا وہ اس سے خيانت كرے گا جس نے اس پر اعتماد كيا وہ اسے ہلاكت كى طرف لے جائيگا، جو شخص اس سے راضى ہوگا وہ اسے بدترين موارد ميں وارد كردےگا_(22)نيز آپ نے فرمايا ‘ نفس پر اطمينان كرنا شيطان كے لئے بہترين اور مضبوط موقعہ ہوا كرتا ہے_(23)امام سجاد عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘اے پروردگار كہ ميں آپ سے نفس كى شكايت كرتا جو ہميشہ برائي كى دعوت ديتا ہے اور گناہ اور خطاء كى طرف جلدى كرتا ہے او ربرائي سے علاقمند ہے اور وہ اپنے آپ كو تيرے غضب كا مورد قرار ديتا ہے اور مجھے ہلاكت كے راستوں كى طرف كھينچتا ہے_(24)اس قسم كى آيات اور روايات بہت زيادہ ہيں كہ جن سے مستفاد ہوتا ہے كہ نفس ايك ايسا موجود ہے جو شرير اور برائيوں كا سرچشمہ ہے لہذا چاہئے كہ جہاد كر كے اس كى كوشش كو سركوب كيا جائے_
23ممكن ہے كہ بعض لوگ تصور كريں كہ ان دو قسم كى آيات اور روايات ميں تعارض اور تزاحم واقع ہے يا خيال كريں كہ انسان ميں دو نفس اور روح ہيں كہ ايك اچھائيوں كامنبع ہے اور دوسرا نفس حيوانى ہے جو برائيوں كا سرچشمہ ہے ليكن يہ دونوں تصور اور خيال غلط ہيں_ پہلے تو ان دو قسم ميں تعارض ہى موجود نہيں ہے دوسرے علوم ميں ثابت ہوچكا ہے كہ انسان كى ايك حقيقت ہے اور ايك روح ہے اور اس طرح نہيں ہے كہ انسانيت اور حيوانيت انسان ميں ايك دوسرے سے جدا اور عليحدہ ہوں_بلكہ نفس انسانى ميں دو مرتبے اور دو وجودى حيثيت ہيں نيچے اور پست مرتبے ميں وہ ايك حيوان ہے كہ جس ميں حيوان كے تمام آثار اور خواص موجود ہيں اور ايك اعلى مرتبہ ہے كہ جس ميں وہ ايك انسان ہے اور وہ نفخہ الہى اور عالم ملكوت سے آيا ہے_جب يہ كہا گيا ہے كہ نفس شريف اور قيمتى اور اچھائيوں كا مبدا ہے اس كے بڑھانے اور پرورش اور تربيت ميں كوشش كرنى چاہئے يہ اس كے اعلى مرتبے كى طرف اشارہ ہے اور جب يہ كہا گيا ہے كہ نفس تيرا دشمن ہے اس پر اعتماد نہ كرو تجھے ہلاكت ميں ڈال دے گا اور اسے جہاد اور كوشش كر كے قابو ميں ركھ يہ اس كے پست مرتبے كى طرف اشارہ ہے يعنى اس كى حيوانيت كو بتلايا گيا ہے_ جب كہا جاتا ہے كہ نفس كى تربيت اور پرورش كر اس سے مراد انسانى مرتبہ ہوتا ہے اور جب كہا جاتا ہے كہ اس كو سركوب اور مغلوب كر دے تو اس سے مقصود اس كا پست حيوانى مرتبہ ہوتا ہے_ان دو مرتبوں اور دو حيثيتوں اور دو وجودوں ميں ہميشہ كشمكش اور جنگ رہتى ہے_ حيوانى مرتبہ كى ہميشہ كوشش رہتى ہے كہ اپنى خواہشات اور تمينات كو پورا كرنے ميں لگا رہے اور قرب الہى اور ترقى اور تكامل سے نفس انسانى كو روكے ركھے اور اسے اپنا غلام بنائے ركھے اس كے برعكس نفس انسانى اور مرتبہ عالى وجود انسانى ہميشہ كوشش ميں رہتا ہے كہ كمالات انسانى كے اعلى مراتب طے كرے اور قرب الہى كى مقام پر فائز
24ہوجائے اس مقام تك پہنچنے كے لئے وہ خواہشات اور تمايلات حيوانى كو قابو ميں كرتا ہے اور اسے اپنا نوكر اور غلام بنا ليا ہے اس كشمكش اورجنگ ميں ان دو سے كون دوسرے پر غلبہ حاصل كرتا ہے اگر روح انسان اور ملكوتى نے غلبہ حاصل كر ليا تو پھر انسانى اقدار زندہ ہوجائيں گى اور انسان قرب الہى كے بلند مرتبے اور قرب الہى تك سير و سلوك كر تا جائيگا اور اگر روح حيوانى اور حيثيت بہيمى نے غلبہ حاصل كر ليا تو پھر عقل كا چراغ بچھ جائيگا اور وہ اسے گمراہى اور ضلالت كى وادى ميں دھكيل دے گا اسى لئے پيغمبر آئے ہيں كہ انسان كو اس مقدس جہاد اورجنگ ميں حتمى اور يقينى مدد ميں__ لقد منّ اللہ عليہ المؤمنين اذ بعث فيہم رسولاً من انفسہم يتلوا عليہم آياتہ و يزكيہم و يعلّمہم الكتاب و الحكمة و ان كانوا من قبل لفى ضلال مبين_ آل عمران/ 1642_ قال رسول اللہ صلّى اللہ عليہ و آلہ: عليكم بمكارم الاخلاق فانّ اللہ عزوجل بعثنى بہا_ بحار/ ج 69 ص 375_3_ عن النبى صلى اللہ عليہ و آلہ انہ قال: انّما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق_ مستدك /ج 2 ص 282_4_ قال ابوعبداللہ عليہ السلام: انّ اللہ تبارك و تعالى خصّ الانبيا_ بمكارم الاخلاق، فمن كانت فيہ فليحمد اللہ على ذلك، و من لم يكن فليتضرع الى اللہ و ليسئلہ_ مستدرك/ ج 2 ص 283_5_ قال اميرالمؤمنين عليہ السلام: لو كنّا لا نرجو جنة و لا نخشى ناراً و لا ثواباً و لا عقاباً لكان ينبغى لنا ان نطلب مكارم الاخلاق فانہا مما تدّل على سبيل النجاح_ مستدرك/ ج2 ص 283_6_ عن ابى جعفر عليہ السلام قال: انّ اكمل المؤمنين ايماناً احسنہم خلقاً_ كافي/ ج 2 ص 99_7_ جاء رجل الى رسول اللہ عليہ و آلہ من بين يديہ فقال: يا رسول اللہ ماالدين؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاہ من قبل يمينہ فقال: يا رسول اللہ ما الدين؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاہ من قبل شمالہ فقال: ما الدين؟ فقال: حسن الخلق_ ثم اتاہ من ورائہ فقال: ما الدين؟ فالتفت اليہ فقال: اما تفقہ؟ ہو ان لا تغضب_ محجة البيضائ/ ج 5 ص 89_8_ الذى احسن كلّ شيء خلقہ و بدا خلق الانسان من طين، ثم جعل نسلہ من سلالة من ماء مہين ثمّ سوّاہ و نفخ فيہ من روحہ و جعل لكم السمع و الابصار و الافئدة قليلاً ما تشكرون_ سجدة/ 7_
3079_ فاذا سوّيتہ و نفخت فيہ من روحى فقعوا لہ ساجدين_ حجر/ 29_10_ و لقد كرّمنا بنى آدم و حملناہم فى البر و البحر و رزقناہم من الطيبات و فضّلناہم على كثير ممن خلقنا تفضيلاً_ اسرائ/ 70_11_ قل ان الخاسرين الذين خسروا انفسہم و اہليہم يوم القيامة الا ذالك ہو الخسران المبين_ زمر/ 15_12_ قال على عليہ السلام: عجبت لمن ينشد ضالتہ و قد اضلّ نفسہ فلا يطلبہا_ غرر الحكم/ ص 495_13_ و يسئلونك عن الروح قل الروح من امر ربى و ما اوتيتم من العلم الّا قليلاً_ اسرائ/ 85_14_ قال على عليہ السلام: ان النفس لجوہرة ثمنية من صانہا رفعہا و من ابتذلہا وضعہا_ غرر الحكم/ ص 226_15_ قال على عليہ السلام: من عرف نفسہ لم ينہنا بالفانيات_ غرر الحكم/ ص 669_16_ قال على عليہ السلام: من عرف شرف معناہ صانہ عن دنائة شہوتہ و زور مناہ_ غرر الحكم/ ص 710_17_ قال على عليہ السلام: من شرف نفسہ كثرت عواطفہ_ غرر الحكم / ص 638_18_ قال على عليہ السلام: من شرف نفسہ نزّہا عن ذلّہ المطالب_ غرر ا لحكم/ ص 699_19_ و امّا من خاف مقام ربّہ و نہى النفس عن الہوى فانّ الجنة ہى الماوي_ نازعات/ 41_20_ و ما ابرّء نفسى انّ النفس لا مّارة بالسوء الا ما رحم ربّي_ يوسف/ 53_21_ قال النبى صلى اللہ على و آلہ: اعدى عدوك نفسك التى بين جنبيك_ بحار/ ج 70 ص 64_22_ قال على عليہ السلام: انّ النفس لامّارة بالسوء فمن ائتمنہا خانتہ و من استنام اليہا اہلكتہ و من رضى عنہا اوردتہ شرّ الموارد_ غرر الحكم/ ص 226_23_ قال عليہ بن الحسين عليہ السلام فى دعاہ: الہى اليك اشكو نفساً بالسوء امّارة و الى الخطئية مبادرة و بمعاصيك مولعة و لسخطك متعرضہ تسلك بى مسالك المہالك_ بحار/ ج 94 ص 143_