ربوبیت تشریعی

238

2۔اصول موضوعہ کو معین کرنے کی ضرورتاس چیز کو ثابت کرنے کیلئے کہ ایک اجتماعی اور صحیح و سالم حکومت مذکورہ شکل و صورت رکھتی ھو،اور ھم نے پھلے بھی اشارہ کیا کہ اگر ھم اس مسئلہ کو ان لوگوں کیلئے بیان کریں کہ جو ھمارے فقھی و اعتقادی بنیادوں پر عقیدہ رکھتے ھیں، تو ان کے لئے شرعی دلیلوں خصوصا ً قرآنی آیات کے ذریعہ ثابت کر سکتے ھیں، لیکن وہ حضرات جو دین کی حقانیت ، یا دوسرے بنیادوں کو کہ جو اس نظریہ کی بنیادیں قبول نھیں کرتے،لھذا اگر ان افراد کے لئے اس نظریہ کو ثابت کرنا ھے تو پھلے اصول موضوعہ کے بارے میں بتانا پڑے گا کہ اس بحث کے اصول موضوعہ کیا ھیں؟ اور پھلے ان کو اصول موضوعہ کو ثابت کرنا ھوگا، اصول موضوعہ ان مسائل کو کھتے ھیں کہ جو بدیھی اور ظاھر ی چیزوں سے شروع ھوتے ھیں اور اس نظریہ پر ختم ھوتے ھیں۔جو لوگ استدلال حساب یا ھندسہ کے ذریعے کچھ چیزوں کو ثابت کرنے کے طریقوں سے واقفیت رکھتے ھیں، وہ جانتے ھیں کہ ھندسی بحثیں اس طرح شروع ھوتی ھیں کہ پھلے کسی قضیہ کو اصل موضوع کے عنوان سے بیان کیا جاتا ھے، اور اس کی بنیاد پر دوسرے قضیہ کو ثابت کیا جاتا ھے اور اس طرح قضیہ سوم کو اثبات کرتے ھیں اور اس طرح چوتھے اور پانچویں کو اثبات کرتے ھیں اور اس طرح آگے بڑھتے چلے جاتے ھیں اور اگر بیسوں قضیوں کو ثابت کرنا چاھیں تو اس کیلئے انیسوں قضیہ کو پھلے سے ثابت ھونا ضروری ھے اور اس طرح انیسویں کو ثابت کرنے کے لئے اس سے پھلے والا قضیہ ثابت ھونا چاھیے۔اگر کسی کے لئے کسی ایک قضیہ کو ثابت کرنا ھو تویھان پر یہ دیکھنا ھوگا کہ وہ اس سے پھلے قضیوں کو کھاں تک درک کیا ھے، تاکہ ان کو بحث کا اصل موضوع قرار دیں وگرنہ اگر ھر ایک قضیہ کو اثبات کرنے کیلئے پھلے والے قضیوں کے اثبات کو تکرار کرنا پڑے گا،مثال کے طورپر جب ایک سیدھی لائن کی تعریف دونقطوں کے درمیان چھوٹے فاصلہ یا دونوں ایک دوسرے کے مقابل لائن آپ ان کو کتنا بھی بڑھائیں وہ ایک دوسرے کو قطع نھیں کرسکتی ھیں ان کو بیان کریں ،اسی طرح ھر ایک قضیہ کو بیان کرنے کیلئے کوئی نئے مسائل کوبیان کرنے کی ضرورت نھیںھوتی، بلکہ ھمیشہ گذشتہ مطلب ھی کی تکرارھوتی رھتی ھے۔اسی طرح اگر کسی ایک عقلی قضیہ کو ثابت کرنا چاھیں تو اس کے اصول موضوعہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے،کہ جن کو الگ کسی دوسرے علم یا دوسری بحثوں میں ثابت کیا جا چکا ھے، مثال کے طور پر اگر یہ کھیں کہ قانون کو الھٰی قانون ھونا چاھیے تو خدا کا اثبات ثابت ھونا ضروری ھے ، لھٰذا اگر کوئی کھے کہ میں خدا ھی کو نھیں مانتا تو پھر اس کے ساتھ کلامی اور فلسفی بحث کریںتاکہ اس پر ثابت ھوسکے کہ ھاں خدا بھی ھے،اور وہ خدا ایک ھے اور ھمارا رب ھے، تا کہ بحث کے دوران حکومت کے سلسلہ میں حکومت کی نسبت خدا کی طرف دی جاسکے۔لھٰذا اگر اصول اولیہ سے بحث شروع کریں تو یہ بحث تکراری اور خستہ کنندہ ھوگی، مجبوراً اس اصل کو بیان کریں جس کو مد مقابل بھی قبول کرتا ھے اور دور کی بحثوں کو اس کے علم پر چھوڑ دیں ،البتہ اس کا یہ مطلب نھیں کہ جب ھم ھندسہ کے دسویں قضیہ سے بحث کو شروع کریں تو اس سے پھلے قضیوں کو اثبات نہ کیا جا سکے،کیونکہ ان کو تو پھلے ثابت کرچکے ھیں ،لھذا جن اصولوں کو پھلے ثابت کر چکے ھیں ان سے بعد میں نتیجہ حاصل کرتے ھیں ، اس نکتہ کو بیان کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ھیں کہ آپ اپنے مبانی(بنیادی نظریات) کے اعتبار سے گفتگو کرتے ھیں جبکہ دوسرے ان کو قبول نھیں کرتے،لھذا ان حضرات کے جواب میں یہ عرض کرتے ھیں کہ ھمارا مخاطب بھی ھمارے ساتھ بھت سی چیزوں کو مانتا ھے تاکہ ان کی بنیاد پر دوسری چیزوں کو ثابت کیا جا سکے اور اگر ان اصول و مقدمات کو نھیں مانتا تو پھر دوسرے علم کی طرف رجوع کریں اور وھاں ان مقدمات کو ثابت کریں۔یھاں اس چیز کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ھے کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ھیں کہ آپ نے مغربی ثفافت کو “اور مانیرم و لیرالیزم”کی بنیاد پر اس کو کفر والحاد کی ثقافت بتایا ھے جبکہ مغربی ممالک میں بھت سے افراد خدا کو ماننے والے ھیں،ھم نے مکرر عرض کیا ھے کہ مغربی ثقافت سے مراد صرف جغرافی علاقہ نھیں ھے اور ھماری مراد یہ نھیں ھے کہ وہ سبھی لوگ جو مغربی ممالک میں زندگی بسر کرتے ھیں اس طرح کا نظریہ رکھتے ھیں کیونکہ وھاں پر بھت سے لوگ خدا کو مانتے ھیں اور اخلاقی قوانین کی رعایت کرتے ھیں اور ھم ان کا احترام کرتے ھیں لیکن مغربی ثقافت میں جو چیز عمل ھے وہ انھیں اصول پر مبنی نھیں کرتے، بعض خود ان کو یہ معلوم نھیں ھوتا کہ ھم کس منطق کے تحت گفتگو کر رھے ھیں، جو حضرات اھل بحث و استدلال ھیں اس طرز تفکر کی بنیاد کی معرفت رکھتے ھیں؟اسی طرح ھم نے اس سے قبل التقاط(دوسروں کے نظریات سے متاثر ھونا) کے بارے میں بیان کیا کہ بعض لوگ مختلف ادیان سے کچھ چیزوں اخذ کرکے ایک جگہ جمع کرتے ھیں، ان چیزوں کی استدلالی اور بنیادی کو پھلو کو ثابت کئے بغیر،کیونکہ کبھی کبھی یہ چیزیں آپس میں سازگار اور ھم آھنگ نھیں ھوتیں،در نتیجہ ھم یہ عرض کردینا چاھتے ھیں کہ اگر ھمارے تمام عقائد کو ملاحظہ کیا جائے تو اس طرح کے اشکالات ھمارے یھاں نھیں پائیں گے۔بھر حال اس چیز کو اثبات کرنے کیلئے کہ ھمارا یہ سیاسی نظام و حکومت جو اسلامی نقطہ نظر سے ھے اور سب سے زیادہ عقلائی اور سب سے زیادہ حکیمانہ ھے، لھٰذا ھم اس کا استدلال شروع کرتے ھیں،ھم یھاں پر خدا کے اصل وجود اور انھیں صفات کو مسلم مانتے ھوئے اسی بنیاد پر اس مسئلہ کو بھی اثبات کرتے ھیں،گر چہ کچھ لوگ خدا کو قبول نھیں کرتے یا اس کے بعض صفات کو نھیں مانتے تو ان کو چاھئے کہ علم کلام کا مطالعہ کریں کیونکہ اس وقت ھماری بحث علم کلام میں نھیںھے بلکہ سیاسی فلسفہ سے متعلق ھے لھٰذا یھاں پر علم کلام کی بحث نھیں کی جا سکتی۔

3۔خدا کی حاکمیت اور تشریعی الوھیتھم نے پھلے بھی اشارہ کیا تھا کہ اسلامی حکومت کے سیاسی نظام کی اصل بنیاد خداوند عالم کی حاکمیت ھے، در حقیقت اس نظریہ کا سرچشمہ خدا کی تشریعی ربوبیت کا قائل ھونا ھے،اس سلسلہ میں اس مطلب کی یادھانی بھی ضروری ھے کہ نہ صرف یہ کہ اسلام کا بلکہ تمام آسمانی ادیان کا معیار توحید ھے،کلمہ” لا الہ الااللّٰہ” ھے، جو ھمارے نبی اکرم کا اصلی نعرہ ھے،اور یھی تمام ادیان کا نعرہ تھا، اگرچہ اس میں تھوڑی بھت تحریفات ھوتی ھیں، اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ” لا الہ الااللّٰہ کا کیا مطلب ھے؟ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ھے کہ توحید کے معنی یہ ھیں کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اس جھان کا خالق و پیدا کرنے والا ایک ھے،لیکن کیا توحید کے یھی معنی ھےں؟ بعض” لا خالق الا اللّٰہ” (خدا کے علاوہ کوئی خالق نھیں ھے) کیا اسلام کی نظر میں توحید کے معنی صرف خلقت میں یگانیت و وحدانیت کا اعتقاد رکھنا ھے؟ چند سال پھلے اسلام کے نظام عقیدتی و نظام ارزشی میں توحید کے عنوان سے بحث میں ھم نے بیان کیا تھاکہ توحید کا مطلب یہ نھیں ھے کہ انسان خالقیت میں یگانیت و وحدانیت کا قائل ھو جائے، اسلام کے لحاظ سے توحید کے معنی اس میں محدود نھیں ھیں، مکہ کے مشرکین بھی خالقیت میں توحید کا عقیدہ رکھتے تھے ۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے 🙁 وَلَئِنْ سَاٴلْتَھمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَالاٴَرْضَ لَیَقُولُنَّ اللّٰہ …)(1)”اور (اے رسول) تم اگر ان سے پوچھو کہ سارے آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کھہ دیں گے کہ اللہ نے “اس طرح شیطان بھی خدا کے وجود کا اعتقاد رکھتا تھا اور خالقیت میں توحید کو قبول کرتا تھا لیکن خدا نے پھر بھی اس کو کافروں میں شامل کردیاجیسا کہ قرآن مجید میں ابلیس کی خدا سے گفتگو سے نتیجہ نکلتا ھے کہ وہ توحید در خالقیت اور خدا کی تکوینی ربوبیت کا معتقد تھا نیز معاد و عاقبت کا بھی اعتقاد رکھتا تھا:(قَالَ رَبِّ فَاٴَنْظِرْنِی إِلٰی یَومِ یَبْعَثُوْنَ.قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنْتَظَرِیْنَ.إِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ. قَالَ رَبِّ بِمَآ اٴَغْوَیْتَنِی لَاٴُزَیِّنَنَّ لَھمْ فِی الاٴَرْضِ وَلَاٴُغْوِیَنَّھمْ اٴَجْمَعِیْنَ) (2)”شیطان نے کھا کہ ا ے میرے پروردگار خیر تو مجھے ا س دن تک کی مھلت دے جبکہ (لوگ دوبارہ زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے خدا نے فرمایا: وقت مقرر کے دن تک کی تجھے مھلت دی گئی ، شیطان نے کھااے میرے پروردگار چونکہ تونے مجھے راستہ سے الگ کیا ھے، میں بھی ان کے لئے دنیا میں (ساز وسامان کو) عمدہ کردکھاؤں گا او رسب کو ضرور بھکاؤں گا۔”نتیجہ یہ نکلا کہ شیطان بھی توحید در خالقیت اور خدا کی تکوینی ربوبیت کا قائل تھا اور قیامت پر بھی اعتقاد رکھتا تھا اب دیکھنا یہ ھے کہ اس کے کفر کی وجہ کیا تھی؟ شیطان کے کفر کی وجہ کو پھچاننے کے لیے ضروری ھے کہ پھلے اسلامی نقطہ نظر سے توحید کا نصاب پھچاننا پڑے گا، یعنی اسلامی لحاظ سے انسان کب موحد یعنی اھل توحید بنتا ھے ؟ تو جواب یہ ھے کہ خلقت میں خدا کی وحدانیت خدا کی تکوینی و تشریعی الوھیت میں وحدانیت اور وحدت معبود کے اعتقاد سے انسان موجود بنتا ھے یعنی انسان خدا کو تنھا خالق مانے اور اسی کو کردگار، صاحب اختیار جھان، اور اصل قانون گذار مانے، اور الوھیت و عبودیت میں توحید کے اعتقادکے ساتھ ساتھ اس کو عبادت کا مستحق مانے، توحید کے نصاب کی پھچان سے معلوم ھوا کہ شیطان کے کفر کی وجہ خدا وند عالم کی تشریعی ربوبیت کا انکار تھا خدا و ند عالم کی تکوینی ربوبیت کاانکارنھیں تھا۔اس طرح خداوند عالم اپنے رسول کو حکم دیتا ھے کہ اھل کتاب سے بحث کرتے وقت ان عقائد کی طرف دعوت دیں کہ جن میں خود آپ اور وہ لوگ مشترک ھیں، اور وہ اعتقاد خدا کی وحدانیت اور اس کی عبودیت کا عقیدہ ھے اس کے بعد خداوند عالم ایک جملہ ارشاد فرماتا ھے، جس کا نتیجہ یہ ھے کہ اھل کتاب کو ان کے غیر خدا کی تشریعی ربوبیت کے عقیدہ سے روکے، کہ جس کی وجہ سے وہ اس دائرہ میں پھونچ چکی ھیں:( قُلْ یَا اٴَھلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلیٰ کَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ إلاّٰ نَعْبُدَ إِلاّٰ اللّٰہ وَلاَتُشْرِکْ بِہ شَیْئاً َولاَیَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اٴَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہ) (3)”(اے رسول) تم (ان لوگوں) سے کھو کہ اے اھل کتاب تم ایسی(ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ھمارے اور تمھارے درمیان یکساں ھوکہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریںاور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیںاور ھم سے کوئی خدا کے علاوہ کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے۔”اس آیت کی تفسیر میں جو روایات وارد ھوئی ھیں ان کا مضمون یہ ھے کہ اھل کتاب اپنے جیسے افراد کو اپنا خالق نھیں مانتے تھے بلکہ اپنے احبار و رھبان (روحانی علماء) کو اپنا تشریعی رب مانتے تھے اور ان کے حکم کو خدا کا حکم سمجھتے تھے۔ قرآن مجید میں احبار و رھبان کی بدون قیدو بند اطاعت کو رب ماننے کے مترادف کھا ھے: “ً َولاَیَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اٴَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہ”یعنی اپنے بزرگوں کی بدون قید و شرط اطاعت نہ کروکہ یہ کام ایک طرح کا شرک ھے لیکن یہ شرک تکوینی خالقیت و ربوبیت کا شرک نھیں ھے اور نہ ھی الھیت وعبودیت کا شرک ھے، کیونکہ وہ لوگ احبار و رھبان کی عبادت نھیں کرتے تھے بلکہ ان کا شرک تشریعی ربوبیت میں تھا،یعنی خدا کے ساتھ ساتھ ان کو بھی قانون گذار مانتے تھے، کھتے تھے کہ خدا کے علاوہ دوسرے افراد اور خود پر بھی قانون بنانے کا حق رکھتے ھیں ،یعنی ایسا نھیں ھے کہ صرف خداوند عالم کا قانون معتبر ھو، اور جو بھی کھے اس کی اطاعت کرنا ضروری ھو؟جس طرح شیطان بھی خدا کی تشریعی ربوبیت کا منکر ھوا،اور اس نے کھا: “اٴَنَا خَیْرٌ مِنْہ” (میں اس سے بھتر ھوں)مجھے جناب آدم . کو سجدہ نھیں کرنا چاھیے جبکہ خدا کا حکم ھے کہ جناب آدم کو سجدہ کر،شیطان نے کھا میں آدم کو سجدہ نھیںکروں گا ،کیونکہ میں اس سے بھتر ھوں، یعنی شیطان خداوندعالم کے اس حکم کو تسلیم نہ کرتا تھا، دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ شیطان حق حاکمیت کو خدا سے مخصوص نھیں سمجھتا تھا، جس کی وجہ سے کافر ھوگیا، ورنہ تو وہ خدا اور اس کی ربوبیت اور قیامت کا منکر نہ تھا، شیطان کے کفر کی وجہ خدا کی مطلق حاکمیت کا انکار تھا، اسلام جس کفر کی نسبت اھل کتاب کی طرف دیتا ھے اور اس سے روکتا ھے اور توحید کی طرف دعوت دیتا ھے وہ تشریعی کفر و شرک ھے،جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:(اتَّخِذُوْا اٴحْبَارَھمْ وَرُھبَانَھمْ اٴَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَا اٴُمِرُوْا إِلاَّ لِیَعْبُدُوْا إِلٰھاً وَاحِداً (4)”ان لوگوں نے تو اپنے خدا کو چھوڑ کر اپنے عالموں کو اور اپنے زاھدوں کو اور مریم کے بیٹے مسیح کو اپنا پروردگار بناڈالا حالانکہ انھیں سوائے اس کے او رحکم ھی نھیں دیا گیا کہ خدائے یکتا کی عبادت کریں۔”وہ لوگ کبھی بھی احبار و راھبوں کو سجدے نھیں کرتے تھے، لیکن بغیر کسی قید وشرط کی اطاعت کو ان کو ربّ ماننے کے برابر سمجھا گیا ھے، درحقیقت وہ لوگ قانون گذاری کو خداوند عالم میں مخصوص نھیں جانتے تھے۔

4۔خالص توحید کا مطلبخالص توحید وہ ھے کہ جو اِن شرکوں سے خالی ھو، نہ شیطان جیسا شرک ھو اور نہ اھل کتاب والا شرک، اسلام میں توحید کا حد نصاب خدا کی توحید خالقیت، اس کی معبودیت اور اب ولایت تکوینی کے اعتبار کے ساتھ ساتھ تشریعی ربوبیت میں توحید کا اعتقاد بھی ضروری ھے، پس توحید کے یہ چار رکن ھیںکہ اگر ان میں کوئی ایک بھی نامکمل رہ گیا، تو پھر بھی توحید، حقیقی توحید نھیں ھوگی،ا ور اگر کسی کا یہ عقیدہ ھو کہ خداکی خالقیت کے ساتھ ساتھ کوئی دوسرا بھی خالق ھے، یا کوئی دوسرا بھی رب تکوینی ھے جو مستقل طور پر عالم کا ادارہ کرتا ھے، یا حق حاکمیت یا حق عبادت رکھتا ھے وہ اسلامی توحید سے خارج ھے۔لھٰذا تشریعی ربوبیت میں توحید کا قائل ھونا اسلامی توحید کا ایک رکن ھے اور تشریعی ربوبیت میں توحید کے عقیدہ کے بغیر اسلامی توحید نھیں ھوسکتی،ممکن ھے کوئی شخص ظاھری طور پر کلمہ شھادتین پڑھے اگرچہ اس پر طھارت کا حکم بھی ھوتا ھے لیکن یہ ظاھری احکام جن کی وجہ سے اس کو مسلمان شمار کیا جائے گا،اگر فقھا کرام اپنے توضیح المسائل میں لکھتے ھیںکہ اگر کوئی شخص شھادتین پڑھے تو اس پر طھارت کا حکم جاری ھوگا اور اس سے نکاح کرنا صحیح ھے اور اس کا ذبح کردہ حیوان حلال ھے،لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ جس نے کلمہ شھادتین پڑہ لیا ھو، وہ جنتی ھے اور عذاب جھنم سے نجات یافتہ ھے ،بلکہ اس کے لئے اسلام کے دوسرے ضروریات کو پورا کرنا ضروری ھے اور ان پر عمل کرنا ضروری ھے، ورنہ تو کلمہ شھادتین پڑھنے سے مسئلہ حل نھیں ھوتا، کیا اگر کوئی معاد کا منکر ھو تو اسے مسلمان کھا جائے گا؟ یا اگر نماز و زکواة کا منکر ھو تو اس کو مسلمان کھیں گے؟ کلمہ شھادتین صرف اس چیز کی نشانی ھے کہ اس نے “ما انزل اللہ ” پر اعتماد کر لیا ھے اور ظاھرا ًمسلمان شمار کر لیا جائے گا۔لیکن اگر اس کے دل میں خدا کا اعتقاد نہ ھو ،یا قیامت کو قبول نہ کرتا ھو،یا اسلام کی ضروریات کو دل سے قبول نہ کرتا ھو ،تو وہ ظاھری طور پر تو مسلمان ھے لیکن حقیقت میں وہ کافر ھے، اگرچہ اس پر اسلامی احکام اس پر جاری ھونگے، پس ظاھری اسلام اور چیز ھے او واقعی ایمان جو عذاب اخروی سے نجات کا باعث ھوتا ھے، وہ دوسری چیز ھے۔جس وقت یہ کھا جاتا ھے کہ توحید کا ایک معیار تشریعی ربوبیت میں توحید کا اعتقاد ھے تو اس کا مقصد وہ توحید ھے جو سعادت اخروی اور عذاب جھنم کے عذاب سے نجات کا باعث ھے ورنہ ظاھری احکام کے اثبات کیلئے کلمہ شھادتین کاپڑہ لینا کافی ھے۔

5۔قانون گذار حضرات اور اسلام میں حاکمیتاسلامی نظریہ اور تشریعی ربوبیت کی بنیاد پر یہ کھا جائے کہ قانون گذاری کا اصل حق خداوند عالم کو ھے اور خدا کے مقابلہ میں کسی کو قانون گذاری کا حق نھیں ھے، تواب یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ کوئی دوسرا قانون گذاری کا حق رکھتا ھے یا نھیں؟ اس کے جواب میں پھلے بھی اشارہ کیا جاچکا ھے کہ خدا کے قانون گذاروں کے مقابلہ میں ان لوگوں کو قانون گذاری کا حق ھے جن کو خداوند عالم نے اجازت دی ھے، اور ان کا قانون اس صورت میں قابل اجرا ھے وہ قانون خدا کے اذن سے ھو:( وَلَا تَقُوْلُوا لِمَا تَصِفُ اٴَلْسِنَتُکُمْ الْکِذْبَ ھٰذَا حَلَالٌ وَھٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہ الْکِذْبَ. إِ نَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہ الْکِذْبَ لاَُیفْلِحُونَ.)(5)”اور جھوٹ موٹ جو کچھ تمھاری زبان پر آئے (بے سمجھے بوجھے) نہ کھہ بیٹھا کرو کہ یہ حلال ھے اور یہ حرام، تاکہ ا س کی بدولت خدا پر جھوٹ، بھتان باندھنے لگو اس میں شک نھیں کہ جو لوگ خدا پر جھوٹ اور بھتان باندھتے ھیں وہ کبھی کامیاب نہ ھوں گے”پس اپنی طرف سے نھیں کھنا چاھئے کہ فلاں چیز حلال اورفلاں چیز حرام، حلال و حرام آپ کے حساب سے نھیں ھے بس لیکن اگر کوئی ایسا کرے تو یہ بھی شرک کی ایک قسم ھے، لھٰذا دیکھنا یہ ھے کہ خدا کا کھنا ھے:(قُلْ ءَ اللّٰہ اَذِنَ لَکُمْ اٴَمْ عَلَی اللّٰہ َتفْتَرُوْنَ.) (6)”(اے رسول) تم کہدو کہ کیا خدا نے تمھیں اجازت دی ھے یا تم خدا پر بھتا ن باندھتے ھو”جی ھاں خدا نے اپنے پیغمبر کو قانون گذاری اور امور دینی کی اجازت دی ھے۔(اٴَطِیْعُوا للّٰہ وَاٴَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ.) (7)”(اے ایمان دارو )خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو”نیز فرمایا:( مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اٴَطَاعَ اللّٰہ.)(8)”اور جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی”البتہ رسول خدا بھی اپنی مرضی کے مطابق عمل نھیں کرتے بلکہ آپ کا عمل بھی خدا کی وحی و الھام کے مطابق ھوتا ھے اور جب تک آیات نازل نھیں ھوتیں ،الھٰی الھام اور غیر قرآنی وحی کے ذریعہ خدا وند عالم کا تشریعی ارادہ ان تک پھونچتا ھے:(مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھویٰ إِنْ ھوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوْحیٰ (9)”اور وہرسول) تو اپنی نفسانی خواھش سے کچھ بھی نھیں کھتے، یہ تو بس وحی ھے جو بھیجی جاتی ھے”اس بنا پر اگر کسی کو خدا کی طرف سے اجازت ھو تو وہ قانون کو واضح کر سکتا ھے اور اس کا بنایا ھوا قانون لازم الاجرا ء ھے شیعہ حضرات کاعقیدہ یہ ھے کہ جس طرح پیغمبر اکرم کو قانون بنانے کی اجازت دی گئی ھے، اسی طرح ائمہ معصومین . کو بھی خدا کی طرف سے قانون بنانے کی اجازت ھے البتہ اس مطلب کی دلیل علم کلام میں واضح طریقہ سے بیان ھوئی ھے، ان میں سے ایک حدیث ثقلین ھے کہ جس میں ائمہ طاھرین علیھم السلام کو قرآن کا ھم پلہ قرار دیا گیا ھے:”اِنِّی تَارکٌ فیِْکُمُ الثَّقْلِیْنِ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُم بِھمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِی، کِتَابَ اللّٰہ وَ عِتْرَتِی”(میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ھوں جب تک تم ان دونوں سے متمسک رھو گے ھر گز میرے بعد گمراہ نہ ھونگے ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت (اھل بیت.)۔ھم یھاں پر شیعیت کے عقائد کو اثبات نھیں کرنا چاھتے،لیکن پھر بھی اشارہ کرتے ھیں کہ جو لوگ شیعوں کے اس قبول شدہ عقیدہ کو تسلیم کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم کے علاوہ ائمہ معصومین . کو اس طرح کی اجازت ملی ھوئی ھے، اس نظریہ کے مقابل میں بعض لوگوں کا نظریہ ھے کہ صرف رسول اکرم معصوم اور واجب الاحترام ھیں لیکن اس اختلاف نظر سے کوئی فرق نھیں پڑتا، مثلاً اگر فرض کریں کہ ھم لوگ رسول اکرم کے زمانہ میں ھوتے اور آپ کسی شھر کیلئے کوئی حاکم بنا کر بھیجتے، اور فرماتے کہ اس حاکم کی اطاعت کریں، تو کیا یہ اطاعت واجب تھی یا نھیں؟ کیا یہ اطاعت، اطاعت پیغمبر خدا اور حاکمیت خدا کے مخالف ھوتی؟ ھر نھیں؟ کیونکہ وہ شخص اس پیغمبر کا نمائندہ ھے کہ جس کو خدا نے معین فرمایا ھے۔ھمارا یہ عقیدہ ھے کہ ائمہ معصومین . بھی ایسا ھی اختیار رکھتے ھیں، اور ائمہ نے اس عصر حاضرکیلئے نوعی(عمومی) طورپر (نہ کہ شخصی طورپر) ان افراد کو منصوب فرمایا ھے جو ائمہ کی طرح سب صالح سے زیادہ ھیں ان کو حکومت کی اجازت ملی ھوئی ھے، اور یہ نظریہ چاھے مقبولہ عمر ابن حنظلہ یا مرفوعہ ابو خدیجہ یا دیگر روایات کے ذریعہ ثابت کیا جائے، یا عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا جائے جیسا کہ فقھا کرام نے مختلف طریقوں سے اس نظریہ کو ثابت کیا ھے۔پس جس طرح پیغمبر اکرم اپنے زمانہ میں کسی کو کسی شھر یا اسلامی علاقہ کا حاکم بناکر بھیجتے تھے، اور ان کی اطاعت وھاں کے رھنے والوں پر واجب ھوتی تھی، یا جس طرح حضرت علی . نے اپنی خلافت کے دوران بھت سے لوگوں کو اسلامی ممالک منجملہ بحرین، اھواز، مصر وغیرہ کیلئے والی اور حاکم بنا کر بھیجا، اور ان حضرات کی اطاعت واجب تھی، اس غیبت کے زمانہ میں جو حضرات فقاھت و سیاست میں مالک اشتر کی طرح ھیں اور اسلامی معاشرہ کے چلانے کی صلاحیت اور توانائی رکھتے ھیں، ولایت فقیہ کے دلائل کے تحت ان کو اجازت ھے اور ان کی اطاعت بھی ھم لوگوں پر واجب ھے،اور وہ خدا کی تشریعی ربوبیت کے مخالف بھی نھیں ھے بلکہ ان کی حاکمیت بھی خدا کی شان میں سے ایک شان ھے۔جس طرح خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ھے اور پیغمبر اس حاکم کو فرمان دیتے ھیں یا امام معصوم اپنے خاص جانشین اور والی کو اجازت دیتے ھیں ان کی اطاعت ھم لوگوں پر واجب ھے دوسرے الفاظ میں یہ کہ والی و حاکم کی اطاعت پیغمبر اور خدا کی اطاعت ھے، اور اس والی و حاکم کی مخالفت پیغمبر اکرم کی مخالفت اور پیغمبر اکرم کی مخالفت خدا کی مخالفت ھے۔اس طرح ولی فقیہ کی اطاعت، امام معصوم . کی اطاعت اور امام معصوم . کی اطاعت پیغمبر کی اطاعت اور پیغمبر کی اطاعت خدا کی اطاعت ھوگی، اور اس کی مخالفت معصوم. کی مخالفت اور معصوم . کی مخالفت خدا کی مخالفت ھوگی، یہ مطلب مقبولہ عمر ابن حنظلہ کی روایت سے واضح و روشن ھے جس میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:”ینظرنی من کان منکم ممن قد روی حدیثنا ونظر فی حلالنا وحرامنا وعرف احکامنا فلیرضوا بہ حکما فانی قد جعلتہ علیکم حاکما. فاذا حکم بحکمنا فلم یقبلہ فانما استخف بحکم اللہ وعلینا رد والراد علینا الراد علی اللہ وھو حد الشرک باللہ” (10)”اگر کوئی ھماری احادیث کو نقل کرنے والے کو دیکھے اور ھماری حلال و حرام کردہ چیزوں بیان کرنے والے کو دیکھے اور ھمارے احکام کو جانتا ھے تو اس کو چاھیے کہ اس کے حکم کو قبول کرے کیونکہ ھم نے اس کو تم پر حاکم قرار دیا ھے،لھٰذا اگر ھمارے حکم کے مطابق عمل کرنے اور کوئی اس کو قبول نہ کرے تو گویا اس نے خدا کے حکم کو سبک(ھلکا) سمجھا، اور ھم کو رد ّ کیا اور جس نے ھم کو ردّ کیا گویا اس نے خدا کو ردّ کیا، اور یھی شرک باللہ ھے”حضرت امام صادق علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ “وھوعلی حدالشرک” کی کیا وجہ ھے کہ شرک کوتوحید کے مقابلہ میں قرار دیا ھے اور توحید کے ارکان میں سے ایک رکن تشریعی ربوبیت میں توحید ھے اب اگر ھم نے خدا کی حاکمیت اور اس کے ساتھ ساتھ پیغمبر ، ائمھ، اور ان لوگوں کی حاکمیت کو قبول کیا ھے کہ جن کو خدا و ائمہ نے منصوب کیا ھے، تو ھم نے تشریعی ربوبیت میںتوحید کو قبول کیا ھے اور اگر اس کو نھیں مانا تو پھر تشریعی ربوبیت میں شرک کیا، پس”الراد علیھم” کا مطلب یہ ھے کہ اگر کسی نے ان فقھا کرام کو رد کیا جن کو لوگوں پر حکومت کرنے کا حق ھے اس نے گویا ائمہ کو رد کیا ھے یعنی اگر کوئی یہ کھے کہ میں ولایت فقیہ کو نھیں مانتا گویا وہ یہ کھتا ھے کہ میں امام معصوم . کو نھیں مانتا، اور اگر کوئی امام کو قبول نھیں کرتا اس نے خدا وند عالم پر ایک قسم کا شرک کیا ھے کیونکہ اس نے خداوند عالم کی تشریعی ربوبیت کا انکار کیا ھے البتہ یہ شرک معنوی اور باطنی ھے، اور انسان کی نجاست کا سبب نھیں بنتا۔لھٰذا ثابت یہ ھوگیا کہ اگر کوئی قبول کرتا ھو کہ درحقیقت حکومت کا حقخدا سے مخصوص ھے اور اس کے بعد رسول اللہ سے مخصوص ھے اور خدا کی حاکمیت کے زیر سایہ رسول اللہ اور ائمہ . اور ان کے جانشین حضرات کی حاکمیت تحقق اور مشروعیت پیدا کرتی ھے،لیکن اگر ھم حاکمیت کی مشروعیت کو کسی دوسرے راستہ سے مانیں تو در حقیقت خدا کی حاکمیت کے بارے میں شرک کے قائل ھوئے ھیں، اس بنا پر، اسلامی حکومت میں الٰھی قوانین اور اس حاکم کے بنائے قانون کے تحت ھوکہ جو خدا کی طرف سے اذن رکھتا ھو اس کی عقلی دلیل خداوند عالم کی تشریعی ربوبیت ھے، اگر توحید کو صحیح معنوں میں سمجھاجائے تو اس نتیجہ پر پھونچیں گے اور اگر انسان اس نتیجہ کا انکار کرے تو گویا اس کا عقیدہ کمزور ھے اور اس کی توحید خالص نھیںھے اور اس میں شرک کی آمیزش ھے۔ممکن ھے کوئی سوال کرے کہ معاشرہ میں الھٰی قوانین کے ھونا کا کیا فلسفہ ھے ؟ اگر کوئی خدا اور اس کے قوانین کو قبول نہ کرے اورخود اپنے لئے قوانین بنائے تو کیا معاشرہ کی فلاح و بھبود نھیں ھوسکتی؟ اگر ایسا نھیں ھے تو پھر کس طرح جو معاشرے خدا کے قوانین کو تسلیم نھیں کرتے لیکن پھر بھی ان کی زندگی بھتر ھے؟ یہ وہ نظریہ ھے جس کو بھت سے روشن فکر لوگ بیان کرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ قانون کا خدا کی طرف ھونا، کیا ضروری ھے؟ ان کا عقیدہ یہ ھے کہ خود ھم اپنے لئے قانون بنا کر اس پر عمل کریں اور کوئی مشکل نھیں ھے۔

6۔ قانون گذاری حق خدا سے مخصوص ھونے کے دلائلاس اعتراض کا جواب واضح ھونے کیلئے یہ توجہ رکھنا ضروری ھے کہ انسان ایک ایسا موجود واحد ھے جو مختلف پھلو رکھتا ھے اور یہ مختلف پھلو ایک دوسرے سے مرتبط ھیں انسان میں صرف اقتصادی پھلو نھیں ھے کہ اگر اقصاد ی قانون بنا دیا تو معاشرہ میں اس کی اقتصادی مشکل آسان ھوجائے، کیونکہ اس کا اقتصاد اس کی سیاست سے مربوط ھے اور اس کی سیاسی، اجتماعی اور مدنی احکام سے مرتبط ھیں اس کے مدنی احکام اس کے جزائی احکام سے مربوط ھیں اوریہ سب بین الاقوامی قوانین سے مرتبط ھیں، اورتمام کے تمام انسان کے روحی و معنوی اور اخلاقی پھلو سے گھرا ارتباط رکھتے ھیں، انسان دس موجود نھیں ھیں اور نہ ھی دس روح رکھتا ھے، انسان ایک الھی روح رکھتا ھے جس کے مختلف پھلو اور گوشہ ھیں لیکن تمام ایک دوسرے سے متعلق ھیں۔لھٰذا اگر کسی ایک پھلو میں کوئی نقص و کمی پیدا ھوجائے تو پھر اس کا اثر دوسرے پر پڑتا ھے، وہ خدا جس نے انسان کو پیداکیا اور انسان کیلئے اجتماعی زندگی مقرر فرمائی ھے، اجتماعی زندگی کی خاطر انسانی فطرت میں ایسے اسباب قرار دیئے جن کی وجہ سے انسان طبیعی طور پر اجتماعی زندگی کی طرف رجحان پیدا کرتا ھے، لھٰذا خداوند عالم نے انسان کی خلقت ایک مقصد کے تحت کی ھے، اور وہ مقصد یہ ھے کہ انسان اجتماعی زندگی کے ساتھ ساتھ انسانی کمالات تک پھونچے، اور اسی کے تمام پھلو، معنوی پھلو کے تحت کام کریں، اور وہ ترقی کی منزلوں کو طے کرتا ھوا انسانی کمالات تک پھونچے:(مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إِلاَّلِیَعْبُدُوْنَ.) (11)”ھم نے نھیں پید اکیا جن وانس کو مگر یہ کہ ھماری عبادت کرے”جو کچھ بھی ھم نے عرض کیا یہ سب کچھ عبادت کے زیر سایہ ھوں وہ عبادت جو توحید اور ربوبیت سے جدا نہ ھونے والا ارتباط رکھتی ھے،ورنہ انسانی کمال پیدا نھیں ھوسکتا، البتہ اس کے علاوہ بھی معاشرہ میں ظاھری طورپر نظم و ضبط پیدا ھوسکتا ھے لیکن یہ بھی یقینی نھیں ھے، مثلاً جیسا کہ آج کل مختلف ممالک جن کا نمونہ امریکہ ھے اور امریکہ کے کالج تمام ممالک کیلئے نمونہ قرار پائے ھیں، جب کہ ان کالجوں میں پولیس اسلحہ کے ساتھ رھتی ھے لیکن پھربھی وھاں قتل و غارت ھوتا رھتا ھے، ملاحظہ کریں کہ یہ وھی نظام ھے جس کو انسان نے بنایا ھے اور اس طرح کے دوسرے کارنامے ھیں، جن کے بیان کرنے سے انسان کو شرم آتی ھے۔یھاں تک کہ اگر فرض کیا جائے کہ خدا کے قوانین پر عمل انسان کے معنوی پھلو کو ن-ظر انداز کرتے ھوئے معاشرہ میں ظاھری طور پر نظم و ضبط قائم ھوجائے، تو پھر بھی اس کی زندگی کا اصل ھدف پورا نھیں ھوا ھے ، کیا انسان کی زندگی موریانہ( ایک قسم کے حشرات ھیں جو شھد کی مکھی کی طرح ایک جگہ مل کر زندگی کرتے ھیں) زندگی کی طرح ھے؟ یا انسان کی زندگی شھد کی مکھیوں کی طرح ھیں کہ جن کا ظاھر نظم کافی ھے، انسان کی زندگی یہ تمام نظام، امنیتیں، ترقیاں، علام اور ٹکنالوژی صرف اس وجہ سے ھیں تاکہ انسان کمال حاصل کر سکے اور خدا سے نزدیک ھو سکے، کون ھے جو ان روابط کو اچھے طریقہ سے سمجھتا ھے؟ کون حضرات ھیں جو بتائیں کہ کس کھانے سے یا کس کام سے انسان خدا کے نزدیک ھوتا ھے؟کون یہ معین کرے کہ خنزیر کا گوشت کھانے،شراب پینے سے ھماری سعادت و کامیابی پر اثر ھوتا ھے یا نھیں؟ آج ڈاکٹروں نے ترقی کرکے یہ بتایا ھے کہ الکحل(شراب) زیادہ پینے کی وجہ سے انسان کا ذھن خراب ھوسکتا ھے،لیکن یہ نھیں جانتے کہ شراب کے پینے سے آخرت کو بھی نقصان پھونچتا ھے یا نھیں؟ کیونکہ اس سلسلہ میں تجربہ نھیں کیا ھے اور اس مسئلہ کو تجربہ کیا بھی نھیں جاسکتا۔انسانی زندگی کے قوانین اس طرح ترتیب دئیے جائیں کہ زندگی کے تمام پھلو پیش نظر رھیں، اور صرف جسمانی بھداشت و نظافت، اقتصادی اور سیاسی وضعیت پر اکتفاء نہ کیا جائے اور نہ ھی ان کو دوسرے پھلوؤں سے جدا سمجھا جائے، بلکہ ان تمام پھلوؤں کو ایک مرتب اور ھم آھنگ نظام میں ڈھالا جائے، ظاھر ھے کہ ان تمام پھلوؤں کی مکمل آگاھی اور ان کے ایک دوسرے سے ارتباط اور ان کے ذریعہ آخری کمال تک پھونچانے کا علم خدا کے علاوہ کسی کے پاس نھیں ھے، لھٰذا قوانین کو بھی خدا ھی بنا ئے، اس کے علاوہ کونسا ایسا قانون گذار ھے کہ جو قانون بناتے وقت اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کرسکے، اور ظاھر ھے کہ جو گروہ بھی قدرت و حکومت پر قابض ھوگا وہ اپنے فائدوں کے بارے میں قوانین کو بنائے گا، مثال کے طور پر انھیں اسلامی ممالک میںجب کوئی نئی حکومت بنتی ھے توایسے قوانین اور نحس نامے تیار کرتی ھے کہ جو اس گروہ کے فائدے میں ھو، اور اس میںکوئی فرق نھیں کہ چاھے سمت راست پارٹی ھو یا بائیں بازو کی پارٹی،یہ انسان کی خاصیت اور طبیعت ھے اور بھر حال تمام انسان معصوم بھی نھیں ھیں۔ان مسائل سے صرف وہ ذات مبرّا ھوسکتی ھے کہ جس کو ان مسائل سے کوئی فائدہ نہ ھو،اور ایسی ذات خداوند عالم کی ذات ھے، اور اگر کوئی دوسرا قانون بنائے گا تو ممکن ھے کہ وہ قوانین اس کے لئے یا ضرر ھونگے یا نفع بخش،لیکن خدا کے بنائے قوانین سے خدا کو نہ کوئی نفع ھے اور نہ کوئی نقصان، وہ تو صرف انسانیت کے نفع و نقصان کو دیکھتا ھے، لھٰذا چونکہ خدا کا علم بے نھایت ھے اور قوانین کے بنانے سے اس کا کوئی فائدہ نھیں ھے؟ جبکہ انسان پر حق حکومت ربوبیت بھی رکھتا، اور اگر انسان حقیقی کمال تک پھونچنا ھے تو خدا کے حق ربوبیت کو ادا کرے، البتہ یہ ایک الگ بحث ھے اور مزید وضاحت کی ضرورت ھے جس کی تحقیق اس کتاب میں ممکن نھیں ھے۔انسان ایک دوسرے پر حق رکھتے ھیں اور عرفی حقوق کی معرفت رکھتے ھیں، مثلاً کسان مزدور پر حق رکھتا ھے اور مزدور کسان پر حق رکھتا ھے، یا ایک (DM) لوگوں پر حق رکھتا ھے،اور لوگ بھی ڈی ایم پر حق رکھتے ھیں، لیکن کیا خدا لوگوں پر حق نھیں رکھتا؟ اور اس حق کو ادا کرنے کا راستہ بھی معلوم ھے، اسلامی نظریہ کے مطابق، ان تمام حقوق میںسب سے پھلے خداکا حق ھے، لھٰذا سب سے پھلے خدا کے حق کو ادا کیا جائے،تاکہ خدا کے حق کے زیر سایہ لوگوں کے حقوق بخوبی انجام دئے جاسکیں۔تو کیا ممکن ھے کہ بنائے ھوئے قوانین میں انسان کے حقوق کا لحاظ کیا جائے لیکن خدا کے حقوق کو نظر انداز کر دیاجائے؟ اور اگر خدا کے حقوق کو پیشِ نظر نہ رکھا جائے تو کیا خدا کے حقوق پر ظلم و جفا نھیں ھوا ھے؟ اور کیا اس ناشکری کے بعد انسان کمال کی منزل تک پھونچ سکتا ھے؟خدا کی ناشکری سے بڑہ کر کون سی ناشکری ھوسکتی ھے؟ اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:( إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ.) (12)”بے شک شرک بڑا سخت گناہ ھے(جس کی بخشش نھیں)”سب سے بڑا ظلم خدا پر ظلم کرناھے، لھٰذا اگر خدا وند عالم کے حقوق نظر انداز کردیا جائے تو یہ ظلم عظیم ھے، اس وقت کس طرح دوسروں کے ساتھ عدالت برقرار کر سکتے ھیں؟ انسان کس طرح عدل کر سکتا ھے در حالیکہ خود اپنے خالق پر ظلم کرتا ھے؟ اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ غیر خدا کیلئے حق قانون گذاری کا عقیدہ ایک شرک ھے، لھٰذا چونکہ خداوند عالم ھمارے نفع و نقصان سے مکمل آگاھی رکھتا ھے اور خدا کیلئے قانون گذاری کا کوئی فائدہ نھیں ھے،اور خدا وند عالم ھر پر تشریعی ربوبیت کا حق رکھتا ھے،سب سے پھلے مرحلہ میں خدا کے قوانین کی رعایت کی جائے اور اس کے بعد ان لوگوں کے قوانین پر عمل کیا جائے کہ جن کو خدا کی طرف سے اجازت ھے اور وہ بھی اس حد تک کہ جس کی خدا نے اجازت دی ھے،تاکہ انسان اس آیت کا مستحق قرار نہ پائے:(قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ مَا اٴَنْزَلَ اللّٰہ لَکُمَ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْہ حَرَاماً وَحَلَالاً قُلَ ءَ اللّٰہ اٴَذِنَ لَکُمْ اٴمْ عَلَی اللّٰہ َتفْتَرُوْن.)(13)”(اے رسول) تم کھہ دو کہ تمھارا کیا خیال ھے کہ خدا نے تم پر روزی نازل کی تو اب اس میں سے بعض کو حرام ، بعض کو حلال بنانے لگے، (اے رسول) تم کھہ دو کہ کیا خدا نے تمھیں اجازت دی ھے یا تم خدا پر بھتان باندھتے ھو.”اس طرح دوسری آیت میں ارشاد ھوتا ھے:( وَلَا تَقُوْلُوا لِمَا تَصِفُ اٴَلْسِنَتُکُمْ الْکِذْبَ ھٰذَا حَلَالٌ وَھٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہ الْکِذْبَ. إِ نَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہ الْکِذْبَ لاَ ُیفْلِحُونَ.)(14)”اور جھوٹ موٹ جو کچھ تمھاری زبان پر آئے (بے سمجھے بوجھے) نہ کہ یٹھا کرو کہ یہ حلال ھے اور یہ حرام، تاکہ ا س کی بدولت خدا پر جھوٹ، بھتان باندھنے لگو اس میں شک نھیں کہ جو لوگ خدا پر جھوٹ اور بھتان باندھتے ھیں وہ کبھی کامیاب نہ ھوں گے۔اس بنا پر، خدا کے تشریعی حق ربوبیت کی ادائیگی کیلئے پھلے خدا کے قانون پر عمل کریں، اور اس کے بعد تحقیق و بررسی کرے کہ اس نے کسی کو قانون گذاری کی اجازت دی ھے، یا کسی کو قانون کو جاری کرنے کی اجازت دی ھے،کیونکہ اگر قانون کو اس کی اجازت سے جاری نہ کیا جائے تو پھر بھی خدا کے بندوں پر تصرف کرنا ان کے مولا و آقا کی اجازت کے بغیر ھوگا، اسلامی نظریہ کے مطابق خدا کی مرضی کے خلاف دوسروں پر تصرف کرنا تو دور کی بات ھے خود پر تصرف کرنا بھی جائز نھیں ھے، اس وجہ سے انسان کو خود کشی کا حق نھیں ھے۔ممکن ھے مغربی ممالک میں لیبرالی نظریہ کے تحت چونکہ انسان خود اپنا مالک ھے، لھٰذا اس کو خود کشی کا بھی حق حاصل ھے ،لیکن اسلام میں اس طرح نھیں ھے، کیونکہ انسان خود اپنا مالک نھیں ھے بلکہ خدا ا س کا مالک ھے، لھٰذا اس کو خود کشی کا بھی حق نھیںھے، کیونکہ خدا کی طرف سے اس کو اس کام کی اجازت نھیں ھے، خداوندعالم نے اگر انسان کو زندگی عطا کی ھے تواس کا اختیار بھی خود اسی کو ھے،کسی دوسرے کو کوئی اختیار نھیں ھے تو پھر کس طرح کسی غیر کو اس کی جان لینے کی اجازت ھوگی؟جب انسان اپنا ھاتہ کاٹ ڈالنے یا اپنی آنکہ پھوڑ ڈالنے کا حق نھیں ھے اس لئے کہ ن کا مالک خداھے اور انسان کو ان کام کی اجازت نھیں ھے، تو پھر کسی دوسرے کو کھاں سے یہ حق حاصل ھے کہ وہ کسی چور کے ھاتہ کاٹ ڈالے یا کسی مجرم کو قید کردے؟ کسی کو بھی اس طرح کا کوئی حق نھیں ھے کیونکہ دوسرے لوگ بھی خدا کے بندے ھیں اور خدا کی اجازت کے بغیر ان میں تصرف نھیں کیا جا سکتا، لھٰذا قانون گذاری اور قانون کو جاری کرنے میں خدا کی اجازت ضروری ھے۔خلاصہ کلام یہ ھوا کہ اس سلسلہ میں اسلام کا سیاسی نظریہ کی بنیاد یہ ھے کہ خدا کی تشریعی ربوبیت، توحید کا رکن ھے، اور اگر کسی نے اس کی رعایت نہ کی تو پھر وہ شیطان کے کفر کی طرح کفر کا مرتکب ھوا ھے۔
حوالے(1)سورہ لقمان آیت 25(2)سورہ حجر آیت 36تا 39(3)سورہ آیت آل عمران آیت 64.(4)سورہ توبہ آیت 31.(5)سورہ نحل آیت 116.(6)سورہ یونس آیت 59.(7)سورہ نساء59(8)سورہ نساء آیت 80(9)سورہ نجم آیت 3،4(10)کافی ج1 ص 67.(11)سورہ ذاریات آیت 56(12)سورہ لقمان آیت 13(13)سورہ یونس آیت 59(14)سورہ نحل آیت 116
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.