قانون گذاری کے شرائط

193

اسلام کے سیاسی نظریات میں انسانوں کی امنیت ونظم وضبط او رعدالت وغیرہ کی حفاظت متوسط قسم کے اھداف ھیں، لیکن اسلام کی قانون گذاری کا اصل ھدف انسانوں کے مادّی اور معنوی فوائد کی حفاظت ھے، اور اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ معنوی فائدے مادی فائدوں سے کھیں زیادہ اھم ھیں، لھٰذا قانون اس طرح ھونا چاھئے کہ جس سے انسان کی کمال تک پھونچنے کے لئے راہ ھموار ھوسکے یعنی جو تقرب خداوندمتعال کا باعث بنے، لھٰذا جو چیزیں خدا کی طرف جانے میں مانع ھوں ، وہ معاشرہ سے ختم ھوجانا چاھئے، مختصر الفاظ میں یہ کھا جائے کہ قانون وہ ھے جس میںتمام انسانوں کے مادی اور معنوی مصالح ومنافع کی حفاظت ھو۔یھاں پھونچنے کے بعد یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ قانون گذار کون ھونا چاھئے؟ اس سلسلے میں بھی مختلف نظریات پائے جاتے ھیں ، خلاصہ یہ کہ سیاسی اور حقوق الناس کے دعویدارحضرات کے درمیان دوشرطوں کو معتبر جانا گیا ھے :پھلی شرط: قانونگذار وہ ھو جو قانون کے ھدف کو اچھی طرح جانتا ھو ۔دوسری شرط: قانون گذار معاشرہ کے منافع کواپنے ذاتی مفاد پر قربان نہ کرے،اور وہ قانون کے اھداف ومقاصد کو اچھی طرح جانتا ھو ۔ان دو چیزوں کو تقریباً تمام ھی لوگ قبو ل کرتے ھیں، اگرچہ ان کے قانون بنانے کے اھداف مختلف ھیں، بھر حال قانون بنانے سے کسی کا کوئی ھدف ھو وہ یہ ضرور مانتا ھے کہ قانون گذار کو قانون کے اھداف سے اچھے طریقہ سے واقفیت ھونا چاھئے، اور ان اھداف تک پھونچنے کے راستوں سے واقف ھو، تاکہ اس کے بنائے ھوئے قوانین کے ذریعہ ان اھداف تک پھونچا جاسکے، قانون گذار کا علم ایسا ھو کہ جس کے ذریعہ قوانین کے اھداف تک پھونچنے کا راستہ کا پتہ لگاسکے ،اور قوانین کو اسی کے مطابق بنائے ، اور اخلاقی صلاحیت ایسی ھو کہ معاشرہ کے مفاد کو اپنے مفاد پر قربان نہ کرے۔

2۔قانون گذاری کے شرائط خدا وندعالم میں منحصر ھیںاسلامی نظریہ کے مطابق مذکورہ شرطوں کے علاوہ ،قانون گذار کی انسانی مادّی ومعنوی مصلحتوں سے واقفیت ضروری ھے اور کسی خاص فرد یا کسی خاص گروہ کے فائدہ کی خاطر معاشرہ کے فائدوںکو قربان نہ کرے۔اسلام اس نکتہ کا بھی اضافہ کرتا ھے کہ قانون گذاری کا اصل حق اسی کو ھے جو انسانوں کو امر ونھی کرسکتا ھو،اگر کوئی معاشرہ کی مصلحتوں کا علم رکھتا ھو او روہ معاشرہ کی مصلحتوں کو اپنی ذاتی مصلحتوں پر مقدم کرے پھربھی قانون گذاری کا حق اصالةً اس کو نھیں ھے؛ کیونکہ ھر قانون خواہ ناخواہ امر ونھی رکھتا ھے ، جیسا کہ ھم نے بحث “حق وتکلیف “کے بارے میں گذشتہ جلسوں کے دوران عرض کیا کہ ھرقانون صریحاً یا اشارةً امر ونھی رکھتا ھے ، مثلاً تایک دفعہ کھا جاتا ھےکہ دوسروں کے مال کا احترام کرو اور اس میں تجاوز نہ کرو،یہ امر صریح او رواضح ھے لیکن کبھی قانون میں ظاھری طور پر امر ونھیں ھوتا ،مثلاً کھا جائے کہ آپ کے لئے اس طرح کا حق ھے ، اس کا مطلب یہ ھوا کہ دوسرے اس حق کی رعایت کریں ، ان تمام چیزوں کا قانون ضامن ھوتا ھے،یعنی یہ ساری باتیں قانون کے اندر ھونا چاھئے گویا اس طرح کا امر پر بھی قانون مشتمل ھوتا ھے۔لھٰذا قانون کو یہ حق ھے کہ دوسروں کو امر ونھی کرے اور یہ اصل حق خدا سے مخصوص ھے، چاھے شرط اول کے لحاظ سے دیکھا جائے جس میں یہ کھا گیا تھا کہ قانون گذار کو انسانوں کے مصالح سے آگاہ ھونا چاھئےے، یا شرط دوم کے لحاظ سے دیکھا جائے جس میں یہ کھا گیا تھا کہ قانون گذار وہ ھے جو اجتماعی مصالح پر فردی مصالح کو مقدم نہ کرے ، ان دونوں شرطوں کے اعتبار سے خدا متحقق ھے کیونکہ وہ انسانوں کے مصالح کا سب سے زیادہ عالم ھے ، چنانچ مذکورہ شرطیں سب سے زیادہ کامل خدا میں موجود ھیں؛ کیونکہ انسان کے اعمال کا کوئی بھی فائدہ خدا کو نھیں پھونچتا، مثلاً اگر تمام انسان مومن ومتقی بن جائیں تو خدا کاکو ئی فائدہ نھیں ھے اور اسی طرح اگر تمام لوگ کافر ھوجائیں تو بھی خدا کا کوئی نقصان نھیں ھے،اگر تمام لوگ قوانین کی رعایت کریں تو بھی خدا کا کوئی فائدہ نھیں ھے اسی طرح اگر تمام لوگ قوانین کی مخالفت کریں تو بھی خدا کا کوئی نقصان نھیں ھے۔لیکن تیسری شرط،(امر ونھی)خدا کے علاوہ کوئی بھی انسان اصالةً یہ حق نھیں رکھتاکہ کسی کو امر ونھی کرے، انسان دوسروے کو اس وقت امرونھی کرسکتا ھے جس اس کا دوسرے پر کوئی حق ھو اور لوگوں کا ایک دوسرے پر اس طرح کا کوئی حق نھیں ھے، خدا کی نظر تمام کے تمام انسان برابر ھیں ،خدا ان سبھی کا مالک ھے اور انسان اور اس کا تمام وجود خدا سے متعلق ھے ، لھٰذا صرف خدا کو انسانوں پر امر ونھی کا حق ھے۔دوسرے الفاظ میں یہ عرض کیا جائے کہ انسانوں کے لئے ضروری ھے کہ خدا کی ربوبیت کو پھچانیں اور اس کی ربوبیت کے حق کو ادا کر ے اور خداوندعالم کی ربوبیت انسانوں کے لئے دو اعتبار سے ظاھر ھے:1۔تکوینی، یعنی کائنات کے چلانے کا حق صرف ذات باری تعالیٰ سے مخصوص ھے وھی کائنات کا مدبّر ھے، لھٰذا انسان اس چیز کا عقیدہ رکھے کہ خداوندعالم نے اس کائنات میں کچھ تکوینی قوانین نافذ کئے ھیں جن کے تعاون سے یہ کائنات رواں دواں ھے، چاند سورج اسی کے حکم سے گردش میں ھیں، کائنات کا ذرہ ذرہ اسی کے اشارہ پر چلتا ھے،لھٰذا اس کائنات کا صاحب اختیار، ربّ تکوینی اور اس کائنات کا چلانے والاخدا وحدہ لاشریک ھے، اسی طرح یہ عقیدہ بھی رکھے کہ اس کائنات کا ربّ تشریعی بھی خدا وندعالم ھے، گذشتہ جلسہ میں اس سلسلہ میں گفتگو ھوچکی ھے کہ ربوبیت تشریعی بھی خداھی کا حق ھے اور ربوبیت تشریعی میں توحید اس بات کا تقاضا کرتی ھے کہ انسان فقط خدا سے احکامات کو لے اور اس سے قانون کو اخذ کرے، اور قانون کو جاری کرنے والے افراد خدا کی اجازت سے معاشرہ میں جاری کرےں۔

3۔ قانون بنانے والے متعدد ھوسکتے ھیں (ایک اعتراض)یھاں پر کچھ شبھات بیان کئے جاتے ھیں: (گذشتہ گفتگو میں ان اعتراضات وشبھات کے بارے میں ایک اشارہ ھوچکا، لیکن کبھی کبھی اخباروں یا تقریروں یا کانفرنس وغیرہ میں کچھ چیزیں بیان کی جاتی ھےں کہ جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ یا تو ان لوگوں نے اس سلسلہ میں توجہ نھیں کی یا یہ کہ یہ بحث ان کو ھضم نھیں ھوئی،لھٰذا ضروری ھے کہ اس سلسلہ میں مزید وضاحت کردی جائے) ان شبھات میں سے ایک یہ ھے : کہ آپ کھتے ھیں کہ قانون کو خدا وضع کرے، جیسا کہ ربوبیت تشریعی اس بات کا تقاضا کرتی ھے،لیکن ھم دیکھتے ھیں کہ معاشرے میں ایسے قوانین کی ضرورت ھے کہ جن کو خدا نے نھیں بنایا بلکہ خود لوگوں نے ان قوانین کو بنایا ھے،اور اگر ان کو نہ بنایا جاتا تو معاشرہ میں بھت بڑی مشکل ھوتی، مثلاً وہ قوانین جو ھمارے اسلامی معاشرہ میں اسلامی پارلیمینٹ کے ذریعہ بنائے جاتے ھیں، ان قوانین کی ھمارے معاشرہ کو ضرورت ھے، لیکن ان کو خدا وپیغمبر نے نھیں بنایا ، جن کا سب سے واضح نمونہ ٹریفک قوانین ھیں، کہ اگر یہ قوانین نہ ھوتے تو پھر کتنے حادثہ ھوتے کتنے لوگوں کی جان خطرہ میں ھوتی اور کتنا مال برباد ھوتا۔لھٰذا ایک طرف تو معاشرہ کو ایسے قوانین کی ضرورت ھے جبکہ خدا کی طرف سے ایسے قوانین نھیں بنائے گئے ھیں ، نہ ھی قرآن مجید میں اس طرح کے قوانین موجود ھیں اور نہ ھی حدیث رسول اکرم اور ائمہ کے کلمات میںیہ قوانین ملتے ھیں، پس آپ کس طرح یہ کھتے ھیں کہ قوانین کو خدا کی طرف سے ھونا چاھئے اور خدا قوانین کو بنائے؟ اور اگر انسانی قانون گذار کے ذریعہ یہ قوانین بنائے جائیں اور ان کو معتبر سمجھا جائے تو اس بات کا نتیجہ یہ ھے کہ قانون بنانے والے دو مرجع ھوئے ایک خدا اور دوسرے انسان، اور یہ آپ کے بیان کے مطابق تشریع میں شرک ھے، یہ ایک مھم اعتراض ھے کہ جو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ھے البتہ اس کا جواب بھی دیا جاچکا ھے لیکن جواب کو وہ لوگ صحیح ھضم نہ کرسکے۔

4۔ گذشتہ اعتراض کا جوابگذشتہ اعتراض کے جواب میں دو نکتوں پر توجہ کرنا ضروری ھے، پھلا نکتہ یہ ھے کہ قانون کی مختلف اصطلاحیں ھیں ، کبھی کبھی کلی قواعد کو قانون کھا جاتا ھے، اور ان میں جزئی اور دوسرے دستور العمل شامل نھیں ھوتے ،اور کبھی قانون کو اتنی وسعت دی جاتی ھے کہ اس دستور العمل کو بھی شامل ھوتا ھے جو ایک ادارہ کا رئیس اپنے کارکن کو دیتا ھے،البتہ یہ اطلاق بھی نادرست نھیں ھے بھرحال دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ قانون کی دو اصطلاح ھیں ایک خاص اور ایک عام، اور دونوں صحیح ھیں، دوسرا نکتہ یہ ھے کہ اسلام میں بھت سے ثابت قوانین ھیں، جو کسی بھی وقت تبدیل نھیں ھوسکتے ،اورھر زمانہ میںتمام لوگوں کے لئے ثابت ھیں اور اسلام کے کچھ قوانین متغیرھیں، جو زمان ومکان سے لحاظ سے ھیں اوران قوانین کو فقھاء ومجتھدین جن کو دین کی صحیح شناخت ومعرفت ھوتی ھے کلی اصول کو مدنظر رکھتے ھوئے بناتے ھیں۔ھم جس چیز پر زور دیتے ھیں وہ ایسے قوانین ھیں جو خداکی طرف سے ثابت قوانین ھیں اور متغیر قوانین کے لئے خاص شرائط ھیں ، ورنہ ممکن نھیں ھے کہ تمام ثابت متغیر قوانین کسی ایک قانون گذار کے ذریعہ بنائے جائیں، اور لوگوں کو تک پھونچائے جائیں، متغیر قوانین اپنے زمان ومکان کے اعتبار سے لاتعداد ھیں،اور ان کی کوئی حد نھیں، اور انسان کی ذھینت آغاز دنیا سے لے کر آخر تک کے متغیر قوانین کے تصور سے عاجز ھے، لھٰذا متغیر قوانین اپنے زمانہ کے اعتبار سے جو اس زمانہ اور مکان کا تقاضہ ھے اس کو مد نظر رکھتے ھوئے بنائے جاتے ھیں، مثال کے طور پر چونکہ رسول اسلام کے زمانہ میں کوئی بھی موٹر گاڑی نھیں تھی تو اس موقع پر اگر یہ کھا جاتا کہ گاڑیوں کو داھنی طرف چلنا چاھئےے یا بائیںطرف، تو کیا اس وقت کے لوگ اس قانون کو سمجھ سکتے تھے، اور اس قانون کے معنی کو درک کرسکتے تھے؟ لھٰذا قانون کو اس کے زمانہ کے لحاظ سے ھونا چاھئے، البتہ ان قوانین کے کچھ خاص شرائط ھیں کہ جن کو خدا بیان کرتا ھے، لھٰذا جو لوگ ان متغیر قوانین کو مرتب کریں ان کے لئے ضروری ھے کہ ان شرائط کی رعایت کریں، اور اس میں کوئی شک نھیں کہ یہ قوانین وہ حضرات بناسکتے ھیں کہ جو ثابت قوانین اور متغیر قوانین کے شرائط کو بھتر طور پر جانتے ھوں۔پس ھماری مراد اس قول سے کہ قوانین کو خداکی طرف ھونا چاھئےے، یہ ھے کہ ثابت قوانین ھمیشگی ھیں اور متغیر قوانین کے لئے بھی شرائط خدا کی طرف سے معین شدہ ھوں،جن کو متغیر قوانینکا میزان قرار دیا گیا ھے ، اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:(وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ اٴَلاَّ تَطْغَوا ِفیْ الْمِیْزَانِ) (1)”اور ترازو (انصاف) کو قائم کیا تاکہ تم لوگ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو”الھٰی اور توحیدی نظریہ جس بات کی تاکید ھے اور تقاضا کرتا ھے وہ تیسرا نکتہ ھے جس کو ھم نے قانون بنانے کے سلسلہ میں گفتگو کے دوران بیان کیا، اور وہ یہ ھے : چونکہ قانون میں امر ونھی ھوتا ھے، او رجس کو قانون بنانے کا حق ھے اس کو امر ونھی کرنے کا بھی حق ھونا چاھئے، اور وہ خدا کے علاوہ کوئی نھیں ھے، خود انسان ایک دوسرے پر امر ونھی کا حق نھیں رکھتے لھٰذا قانون کو بھی نھیں بناسکتے اور نہ ھی اس کوجاری کرسکتے، لھٰذا اگر زمان ومکان کے لحاظ سے متغیر قوانین کو بنانا پڑے تو اس کی اجازت بھی خدا کی طرف سے ھو، کیونکہ صرف وھی ھے کہ جسے امر ونھی کا حق ھے،اور وھی دوسروں کو یہ حق عطاکرسکتا ھے تاکہ ان کے بنائے ھوئے قوانین معتبر ھوسکیں۔

5۔ قانون گذاری میں خدا کی اجازت بے اثر ھے .(دوسرا اعتراض)ایک دوسرا اعتراض یہ ھوتا ھے کہ قانونگذاری میں خدا کی اجازت کا معتبر ماننا صرف ایک دعوی ھے، جس کا کوئی اثر نھیں ھے، اور ایسا نھیں ھے کہ اس شرط سے قانون گذاری میں کوئی تغیر ومشکل ایجاد ھو، اور یہ صرف ایک الفاظ کا کھیل ھے، مثلاً اسلامی پارلیمینٹ میں ممبران جمع ھوکر کسی اجتماعی متغیر امر کے لئے قانون بنانے کا مشورہ کریں، اور اس کے بعد کوئی خاص قانون بنا کر پیش کریں، اس موقع پر کیا فرق ھے کہ خدا نے اجازت دی ھے یا نھیں؟ یہ صرف ایک لفظ ھے جس کو استعمال کیا گیا ھے او راس کا کوئی اثر نھیں ھے، لھٰذا قانون کا معیار یہ ھے کہ اچھائیوں اور برائیوں کو جاننے والے حضرات اس کی تحقیق وبررسی کرکے کوئی قانون بنادیں، اب یھاں کیا فرق پڑتاھے کہ یہ قانون اس کی طرف سے قانون گذاری کا حق ھے یا قانون دان افراد کے ذریعہ یہ قانون بنادیا جائے،( توجہ رھے کہ یہ اعتراض بھی اپنی جگہ اھم ھے)۔

6۔گذشتہ اعتراض کا جواباس اعترا ض کا جواب یہ ھے کہ اگرچہ ھم اس طرح کی اجازت کو معتبر جانتے ھیں، اور اصطلاح میں اس کو ایک امر اعتباری کھا جاتا ھے، اور کسی کا کسی دوسرے کو کسی کام کی اجازت دینے سے کام کی حقیقت نھیں بدلتی، لیکن کیا انسان کی اجتماعی زندگی ان اعتبارات کے علاوہ ھے؟ مثلاً اگر کسی شخص نے اپنی گاڑی کو کسی جگہ کھڑا کردیا ھے او رآپ کو اس گاڑی کی ضرورت پڑجاتی ھے ،آپ اس پر بیٹھےں او راپنے کام کرکے واپس آجائیں تو کیا آپ اس کی اجازت کے بغیر اس گاڑی کو لے جاسکتے ھیں؟ اور ھوسکتا ھے کہ گاڑی کا مالک آپ کو اجازت بھی دیدے، لیکن جب تک اس کی اجازت نھیں ھے کیا آپ کو حق ھے کہ اس کی گاڑی کو لے جائیں؟اگر آپ کو اجازت دیدے تو آپ اس کو لے جاسکتے ھیں ، لیکن اگر اس کی اجازت نھیں ھے اور آپ اس کی گاڑی میں بیٹہ کر چل دیں تو کیا یہ آپ کا کام خلاف قانون نھیں ھے؟ اور گاڑی کا مالک آپ پر مقدمہ میں دائر کرسکتا ھے کیونکہ اس نے آپ کو اجازت نھیں دی تھی۔دوسری مثال تصور کیجئے کہ کوئی مرد وعورت آپس میں شادی کرنا چاھتے ھیں،کافی مدت سے ایک دوسرے کو جانتے ھیںمثلاً کافی مدت سے کسی ایک ادارے میں کام کرتے ھیں اور ایک دوسرے کے اخلاق سے بھی واقف ھیں، ایک دوسرے کے گھر والوں کو بھی جانتے ھیں کہ مومن متدین ھیں، اور اب شادی کی تمام تیاریاں پوری ھوگئی ھیں؛ لیکن جب تک نکاح نہ ھوجائے یا ھر مذھب کے رسم ورواج پورے نہ ھوجائیں ،اس وقت تک ان مرد وعورت میں جنسی رابطہ غیر مشروع ھے، ٹھیک ھے کہ نکاح الفاظ کے علاوہ کچھ نھیںھے، دونوں کی مرضی سے یہ نکاح ھوتا ھے، لیکن یہ ایسے الفاظ ھیں جن سے ھزاروںحرام چیزیں حلال ھوجاتی ھیں، اور ھزاروں حلال چیزیں حرام ھوجاتی ھیں،انسان کی اجتماعی زندگی انھیں اعتباروں چلتی ھے، یعنی اجتماعی زندگی انھیں اجازت، دستخط، یا رد کرنے پر متوقف ھوتی ھے۔تیسری مثال : فرض کریں کہ کسی کو شھر کاڈی ایم(D.M) معین کیا جائے لیکن ابھی تک اس کا حکم نامہ نھیں آیا ھے اور اس کو اس عنوان سے نھیں پھچنوایا گیا ھے، تو کیا اس کا حق ھے کہ وہ (D.M) کے دفتر میں جاکر بیٹہ جائے اور دستوارت صادر کرے، ظاھر ھے کہ اس کو یہ حق نھیں ھے، اور ذمہ دار لوگ اس کو وھاں سے باھر نکال کھڑا کریں گے، اور کھیں گے کہ یہ ڈی ایم کی کرسی ھے! لیکن اگر وہ کھے کہ مجھے ایک مھینہ کے بعد اس شھر کا ڈی .ایم بنایا جائے گا، تو اس کو جوا ب ملے گا کہ جس وقت تم کو یہ عھدہ سونپ دیا جائے گا تو آپ ھمارے ڈی ایم ھونگے، لیکن اگر وہ کھے کہ صرف رئیس اعلیٰ کاایک دستخط اور اجازت ھی باقی ھے ، کوئی بات نھیں ، جواب ملے گاکہ وھی ایک دستخط تو آپ کے اعتبار کے لئے ضروری ھے، تومعلوم ھوا کہ تمام اجتماعی امور صرف ایک دستخط او راجازت پر متوقف ھوتے ھیں، قانون گذاری بھی اسی طرح ھے، حق قانون گذاری خدا کا حق ھے ،صرف اسی کی ایک اجازت سے دوسروں کے بنائے ھوئے قانون معتبر ھوجاتے ھیں، اس کے علاوہ یہ قوانین معتبر نھیں ھوسکتے:(قُلْ ءَ اللّٰہ اٴَذِنَ لَکُمْ اٴَمْ عَلَی اللّٰہ تَفْتَرُوْنَ)(2)”(اے رسول) تم کھہ دو کہ کیا خدا نے تمھیں اجازت دی ھے یا تم خدا پر بھتان باندھتے ھو”اگر خدا نے تم کو اجازت نہ دی ھو تو پھر تمھیں کیا حق پھونچتا ھے کہ تم کسی چیز کو حلال کھو یا حرام؟ قانون بنانا یعنی یہ کام جائز ھے یا وہ کام جائز نھیں، یہ کام حلال ھے اور وہ کام حرام ھے، جب تک تم کو خداکی طرف سے اجازت نہ ھو تو کیا تم کو اس طرح کے احکام صادر کرنے کا حکم ھے؟ جمھوری اسلامی ایران کی اسلامی پارلیمنٹ اور شاہ کے زمانہ کی پارلیمینٹ میں صرف اسی ایک بات کا فرق ھے کہ یہ پارلیمینٹ اس کے حکم سے کام کرتی ھے کہ جو خدا کی طرف سے ماذون (اجازت یافتھ) ھے، یعنی ولی فقیہ اس پارلیمینٹ کومتغیر قانون بنانے کی اجازت دیتا ھے اور انھیںکی اجازت کی وجہ سے یہ پارلیمینٹ معتبر ھوتی ھے۔جب اس وقت ولی فقیہ امام زمانہ (عج) کی طرف سے یہ حق رکھتا ھے تو پھر دوسروں کو یہ حق نھیں ھے ، جس طرح امام زمانھ(عج) کو خدا کی طرف سے یہ حق ھے تو پھر کسی دوسرے کو یہ حق نھیں ھے،بھر حال جس شخص کوبراہ راست یا غیر مستقیم طور پر خدا وند کی طرف سے اجازت ھے وہ دوسروں کے امور میں تصرف اور دوسروں کو امر ونھی کرسکتا ھے، لیکن جس کو خدا کی طرف سے اذن نھیں ھے وہ امر ونھی کرنے کا کوئی حق نھیں ھے ،چنانچہ اس کی امر ونھی کا کوئی اثر نھیں ھے۔(ھم اپنی نظری اور تھیوری بحث میں نھیں چاھتے کہ کسی کی گفتگو کی بناپر بحث کریں، لیکن امام خمینی ۺ کو دوسروں کی فھرست میں نھیں رکھا جاسکتا، ان کی گفتگو قرآن وحدیث سے اخذ شدہ ھوتی تھی، لھٰذا ان کی گفتگو سے دلیل پیش کرنے میں کوئی حرج نھیںھے) امام خمینیۺ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ھیں: “یھاں تک کہ اگر کوئی صدر بھی ولی فقیہ کی طرف سے منصوب نہ ھو تو وہ طاغوت ھے اور اس کی اطاعت جائز نھیں ھے”(3)صدر کو خود افراد اپنے ووٹ کے ذریعہ انتخاب کرتے ھیں لیکن اگر ولی فقیہ کی طرف سے اجازت نہ ھو تو امام خمینیۺ کے فرمان کے مطابق طاغوت ھے، او راس کا امر ونھی معتبر نھیں ھے، اور اس کی اطاعت بھی جائز نھیں ھے، حضرت امام خمینیۺ نے تمام صدرورئیس جمھور کو منصوب کرتے وقت فرمایا کہ میں تم کو منصوب کرتا ھوں،( بعض موقع پر آپ نے وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ میں چونکہ تم پر الٰھی ولایت رکھتا ھوں اس وجہ سے صدارت پر منصوب کرتا ھوں) درحالیکہ لوگوں نے ان کو ووٹ دیا ھے اور ان کا ووٹ دینا بھی صحیح اور مورد تائید ھے۔البتہ تمام لوگ بھی اجتماعی کاموں میں شرکت کریں اور ان کا شرعی وظیفہ ھے کہ ووٹینگ میں شرکت کریں،اسی وجہ سے جس وقت انتخابات شروع ھوتے تھے امام خمینیۺ فرماتے تھے: انتخابات میں شرکت کرنا ایک شرعی وظیفہ ھے او رتما م لوگوں کو شرکت کرنا ضروری ھے؛ لیکن ھر قانون گذار وصاحب منصب کا اعتبار خدا کی طرف پلٹنا چاھئے، کیونکہ وھی صاحب اختیار ھے ، خدا ھی نے پیغمبر او رائمہ معصومین علیھم السلام کو حکومت وقانون گذاری کی اجازت دی ھے، اور پیغمبر وائمہ معصومین علیھم السلام کی طرف سے عمومی طورپر ولی فقیہ منصوب ھوتا ھے جس طرح ان حضرات کے زمانے میں والی شھر وحاکم شھر معین ھوتے تھے،اور امام معصوم کی اجازت سے مشروعیت پیدا کرتا ھے اور جب ان کو اجازت مل گئی تو وہ معتبر ھوگئے۔پس یہ اعتراض کہ اجازت ھونا یا نہ ھونا یا دستخط کرنا یا نہ کرنا قانون کے اجراء اور وضع کرنے میں کوئی فرق نھیں کرتا ،توجواب یہ ھے کہ فرق وھی فرق ھے کہ جو تمام اجتماعی امور میں فرق ھوتا ھے ، جس ڈی ایم کا ابھی حکم نامہ نہ آیا ھو اس کا دوسروں سے کیا فرق ھے؟ یا تعلیمی بورڈ کا آفیسرجس کا ابھی حکم نامہ نھیں آیا دوسروں سے کیا فرق رکھتا ھے؟ اگرچہ طے یہ ھے کہ ابھی کچھ دنوں کے بعد ان کا حکم نامہ آجائے گا، لیکن جب تک ان کا حکم نامہ نہ صادر ھو اس وقت تک ان کی کوئی اھمیت نھیں،جس وقت یہ حکم نامہ ان تک پھونچ جائے گا اس وقت سے وہ اس عھدے پر فائز ھوجائیںگے، صرف ایک دستخط سے یہ حضرات دوسروں کے مال میں تصرف کرسکتے ھیں، جس طرح اگر کوئی شخص اپنی لاکھوں کی دولت آپ کے سپرد کردے یا آپ کوبخش دے اور آپ کو اجازت دےدے کہ جس کام میں بھی چاھیں خرچ کریں یا کوئی اپنا مال عمومی طور پر وقف کرے یا کسی خاص آدمی کو بخش دے ، بھر حال صرف ایک لفظ کھنے سے کہ “میں نے اپنا مال تمھیں بخش دیا” کام تمام ھوجاتا ھے او راس مال میں دخل وتصرف حلال ھوجاتا ھے،لیکن اگر اس کی اجازت نہ ھو اور اس نے نہ بخشا ھو ،تو اس کے مال میں تصرف کرنا حرام ھے او راگر کوئی اس کے مال میں اس طرح تصرف کرے تو وہ مجرم ھے۔نتیجہ آپ کے سامنے ھے کہ تمام اجتماعی مسائل اسی طرح کے اعتبارات پر ھوتے ھیں او رجب تک یہ اذن واجازت نہ ھوں اجتماعی امور میں وہ کام معتبر نھیں سمجھا جاتا، تو پھر کس طرح یہ کھا جاتا ھے کہ خدا کی طرف سے حکومت کرنے والے اور ان کو امر ونھی کرنے والے کو اجازت کی ضرورت نھیں ھے؟کیا خدا کی اجازت کے بغیر اس کے بندوں پر حکومت کی جاسکتی ھے؟ لوگ ھمارے بندے تو ھےں نھیںکہ ھم کو ان پر حکومت کرنے کا حق ھو، لوگ خدا کے بندے ھیں حاکم وراعیٰ خدا کی نظر میں برابر ھیں اور جب تک خدا اجازت نہ دے تو پھر رھبر ،امت، رئیس اور عوام الناس سب برابر ھیں اور جب خدا اجازت دےدے تب لوگوں پر اس کے امر ونھی معتبر ھوتے ھیں۔

7۔کیا انسان اپنی زندگی پر حقِ حاکمیت رکھتا ھے؟یھاں پر ایک دوسرا مسئلہ یہ ھے کہ انسان اپنی زندگی پر خود حق حاکمیت رکھتا ھے ، اگرچہ ھم نے اس موضوع کے سلسلہ میں گفتگو کی ھے لیکن چونکہ دیکھنے میں آتا ھے کہ اخباروںاور دوسرے رسالوں او ربعض موٴدب افراد کی تقریروں میں بیان ھوتا ھے یھاں تک “ٹی .وی” کے بعض کانفرنسوں میں بیان ھوتا ھے کہ لوگوں کی آزادی قابل احترام ھے،جیسا کہ قانون اساسی میں بھی موجود ھے کہ لوگ اپنی زندگی پر خودحق حاکمیت رکھتے ھیں،یعنی از جانب پروردگار انسان خود مختار ھے؛ لھٰذا ضروری ھے کہ اس سلسلہ میں مزید وضاحت کردی جائے:لفظ “حاکمیت” کا استعمال حقوق الناس میں دو جگہ استعمال کیا جاتاھے(البتہ چونکہ الفاظ ایک دوسرے کے مشابہ ھیں، چنانچہ جن کو اچھی طرح واقفیت نھیں ھوتی وہ ان الفاظ کو جابجا استعمال کرتے ھیں)اول: پھلی وہ جگہ ھے جھاں اقوام عالم کے حقوق کا ذکر کیا جاتا ھے اور کھا جاتا ھے کہ ھر قوم وملت اپنی سرنوشت پر حاکم ھے، یہ ایک اصطلاح ھے کہ جو بین الاقوامی حقوق میں بیان ھوتی ھے، یہ اصطلاح مختلف ممالک کے آپسی روابط اور ایک دوسرے کے سامنے ان کا موقف اور پھر استعماری طاقتوں سے مقابلہ آرادئی کرنا جیسے مباحث اور موارد میں استعمال ھوتی ھے. 18ویں اور 1۹ویں صدی عیسوی میں خصوصاً مغربی ممالک میں استعمارگری کا دور دورہ شروع ھوا،چنانچہ جس کے پاس جتنی طاقت ھوتی تھی اسی مقدار میں دوسرے ملکوں پر قبضہ کرلیتا تھا، یا اپنی طرف سے کسی ملک پر حاکم معین کردیتا تھاکہ جو وھاں پر حکومت کرتا تھا، یعنی ایک ملت کی سرنوشت (مقدر) پر دوسروں کے ھاتھوں میں ھوتی تھی یا پھر دوسرا ملک ان ک قیم اور ذمہ دار ھوتا تھا، اصل “قیمومیت” ان موضوعات میں سے ھے جو بین الاقوامی حقوق میں بیان کیا جاتا ھے، پس جب لوگ عالمی ظلم سے واقف ھوگئے اور اپنے حقوق کے طالب ھوگئے تو ملت کی حاکمیت کا مسئلہ پیدا ھوا، اور آھستہ آھستہ مسئلہ حاکمیت ملت نے بین الاقوامی حقوق میں اپنی جگہ بنالی، اور کھا جانے لگا کہ ھر قوم اپنی سرنوشت پر حاکم ھے؛ یعنی دوسروں کو استعمار اور قیمومیت کا حق نھیں ھے، “حاکمیت ملّی” یعنی ھر قوم وملت مستقل ھے اور اپنی سرنوشت پر خود حاکم ھے اور کسی ملت کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ دوسری ملتوں کا اپنے کو حاکم سمجھے، کسی بھی حکومت کو یہ حق نھیں ھے کہ کسی دوسرے ملک میں اپنی حاکمیت چلائے، پس یہ ایک ایسی اصطلاح ھے کہ جو بین الاقوامی روابط میں بیان ھوتی ھے۔حاکمیت کی دوسری اصطلاح خود معاشرہ سے متعلق ھے، اور یہ اصل اساسی وبنیادی حقوق سے مربوط ھے، یعنی ایک وہ معاشرہ کہ جس میں مختلف گروہ مختلف اقوام شامل ھےں، (قطع نظر اس چیز سے کہ اس معاشرہ کا دوسرے ملکوں سے کیسا رابطہ ھے) ان میں سے کسی قوم یا گروہ کو یہ حق نھیں ھے کہ خود کو دوسروںپر حق حاکمیت رکھتا ھو،برخلاف اس نظریہ کے کہ جو دنیا کے بعض ملکوں میں پایا جاتا ھے، کہ جن طبقاتی نظام قائم ھے اور ایک قسم قوم ذات پات کے لوگ حاکم ھوتے تھے جیسے ھندوستان میں ٹھاکر،پنڈات کے حاکم ھونے کا رواج تھا یا مسلمانوں میں سید اور پٹھان حاکم ھوتے تھے وغیرہ وغیرھ۔خلاصہ یہ کہ اصل یہ بیان کرتی ھے کہ ھر شخص اپنی سرنوشت پر حاکم ھے ، دوسرا اس پر حاکمیت نھیں رکھتا، پس کسی بھی معاشرہ کا کوئی فرد یہ نھیں کھہ سکتا کہ میں فلاں گروہ یا فلاں قبیلہ کا حاکم ھوں،(یہ تھی ایک اصل)ھم نے جو کچھ ذکر کیا ، اس بات پر توجہ کرنے کے لئے تھا کہ ان دونوں اصول کا ماحصل یہ تھا کہ انسانوں کے درمیان رابطہ کی فضاء کو ھموار کیا جائے چاھے پھلی اصل ھو یا دوسری اصل ، کیونکہ پھلی اصل جو عمومی بین الاقوامی حقوق سے متعلق ھے ،جس کا کام ملکوں اور حکومتوں کے درمیان رابطہ کو بیان کرنا تھا اور واضح طور پر اس بات کو کھتی ھے کہ ھر ملت اپنی سرنوشت پر حاکم ھے، اور کسی دوسرے ملک کو ان پر حاکمیت کا حق نھیں ھے، لھٰذا اس اصل کے اندر اس چیز کو دیکھا گیا ھے کہ ایک معاشرہ دوسرے معاشرہ کے افراد سے کیا روابط رکھنے کے لئے نظر رکھتا ھے، دوسری اصل میں خود اپنے ملک کے افراد کے حقوق کا مسئلہ زیر بحث آتا ھے یعنی دوسری اصل ملکی افراد کے حقوق کے بارے میں بحث کرتی ھے، اس میں یہ بیان ھوتا ھے ھر انسان اپنی سرنوشت پر حاکم ھے، یعنی دوسرے کسی انسان کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ کسی دوسرے پر حکومت کرے۔بھر حال یہ تمام اصول انسان کے ایک دوسرے سے رابطہ سے متعلق ھیںنہ کہ انسان کے خدا سے رابطہ سے، جن لوگوں نے ان اصول کو بیان کیا ھے (چاھے کسی دین کو مانتے ھوں یا نہ مانتے ھوں) اس سے مراد کبھی بھی انسان کے خدا سے رابطہ کو مراد نھیں لیا ھے تاکہ یہ کھا جائے کہ خد ا بھی انسانوں پر حق حاکمیت نھیں رکھتا، وہ یہ بیان نھیں کرنا چاھتے تھے بلکہ وہ انسانی روابط یا حکومتی روابط کو بیان کرنا چاھتے تھے، کہ کیا کسی استعمار ی حکومت کو یہ حق ھے کہ وہ کسی دوسری حکومت پر قبضہ کرے یا نھیں؟ یا ملکی پیمانے پر کسی ایک گروہ یا قبیلہ کو یہ حق ھے کہ وہ ایک دوسرے پر حکومت کریںیعنی کسی قبیلہ کی سرنوشت دوسرے قبیلہ سے متعلق ھے یا نھیں؟انسان اپنی سرنوشت پر حاکم ھے اس کے معنی یہ ھیں،کہ کسی کو یہ حق نھیں ھے کہ وہ اپنی آقائی کو کسی دوسرے پر مسلط کرے، نہ یہ کہ یہ حق خدا کو بھی نھیں ھے، اب اگر فرض کریں کہ وہ تمام لوگ کہ جنھوں نے ان قوانین کو بنایا اور ان اصولوں کو بیان کیا ، کیا وہ بے دین تھے اور خدا کو نھیں مانتے تھے، لیکن جب اسلامی جمھوری ایران کا قانون اساسی بن رھا تھا کہ انسان اپنی سرنوشت پر حاکم ھے تو کیا یھاں بھی خدا کو نادیدہ قرار دیا گیا؟ یعنی کیا خدا کو بھی حق نھیں ھے کہ وہ انسانوں کو حکم دے؟یا یہ کہ یہ اصل وھی ھے کہ جو اس وقت کی دنیا میں رواج یافتہ ھے ، کہ جس کی بناپر کسی انسان کودوسروں پر حکومت کرنے کا حق نھیں ھے، او ردوسروں کی سرنوشت پر حاکم نھیں ھیں؟ وہ لوگ یہ بالکل نھیں چاھتے تھے کہ یہ کھیں کہ خدا حق حاکمیت نھیں رکھتا، اس بات کی شاھد وہ بھت سی چیزیں ھیں کہ جن کو قانون اساسی بیان کرتا ھے اور اس بات کو واضح طور پر بیان کرتا ھے کہ معاشرہ میں الھٰی قوانین کا جاری ھونا ضروری ھے، ان اصول کے باوجود کس طرح یہ ممکن ھے کہ کوئی یہ سوچے کہ یہ حاکمیت جو انسانوں کے لئے طے ھے اس سے خدا کی حاکمیت کی نفی کرےں، ! کیا کوئی عقلمند جمھوری اسلامی کے قانون اساسی سے یہ نتیجہ نکال سکتا ھے؟

8۔ انسان کی حاکمیت خدا سے نھیں ٹکراتیتاکہ ھماری بحث اچھے طریقے سے واضح ھوجائے دوسرے علوم کی مثالیں پیش کرتے ھیں،تاکہ ان باتوں کو اچھی طرح واضح کیا جاسکے، اور شیطانی شبھات اور سوء استفادہ کے لئے کوئی جگہ باقی نہ رھے: “اعتماد بنفس” ایک ایسا مسئلہ ھے کہ جس کو ھماری ملت بلکہ دنیا کے تما م لوگ اس سے اچھے طرح واقف ھیں (کیونکہ یہ عالمی تمدن کا ایک جز بن چکا ھے) اور یہ مسئلہ “علم نفسیات ” علم سے مربوط ھے کھا یہ جاتا ھے کہ انسان کو اپنے نفس پر اعتماد رکھنا چاھئے، یہ جملہ مکرر سنا جاتا ھے اور کتابوں میں بھی اس کو بھت پڑھا جاتا ھے، اور ریڈیو ،ٹی،وی،میں اس مسئلہ کو بھت بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ھے خصوصاً تربیتی اور فیملی گفتگو میں، اور کھا جاتا ھے کہ بچوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ اپنے نفس پر اعتماد پیدا کریں، او رجوانوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں کہ اعتماد بنفس پیدا کریں، اسی طرح اخلاقی مسائل میں اس بات پر بھت توجہ دی جاتی ھے کہ لوگوں کو اپنے نفس پر اعتماد رکھنا چاھئے، اور دوسروں بوجہ نہ بنیں، جبکہ اسلام اس کے مقابلہ میں ایک دوسری چیز بیان کرتا ھے جو “توکل علی اللہ” ھے یعنی خدا پر بھروسہ اور اعتماد کرنا اپنے تمام امور میں یعنی انسان کو خدا کے مقابلہ میں اپنے کو کچھ نھیں سمجھنا چاھئے، اور تمام چیزوں کو اسی سے طلب کرے اور صرف اسی کو سب کچھ مانے۔(وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللّٰہ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہ إلاَّ ھوَ وَإِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہ یُصِیْبُ بِہ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہوَھوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ)(4)”(یادرکھو کہ) اگر خدا کی صرف سے تمھیں کوئی برائی چھو بھی گئی تو پھر اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نھیں ھوگا،اور اگرتمھارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل وکرم کا پلٹنے والا بھی کوئی نھیں وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاھے فائدہ پھونچائے او روہ تو بڑا بخشنے والا مھربان ھے”نفع ونقصان اس کی طرف سے ھے اور خدا کے مقابلہ میں انسان کا ارادہ کوئی اھمیت نھیں رکھتا ، انسان خدا کی عظمت کے مقابلہ میں ایک معمولی چیز ھے، اسلامی اور قرآنی تعلیمات میں اس چیز کی کوشش کی گئی ھے کہ انسان کی اس طرح تربیت ھو کہ اپنے کو خدا کے مقابلہ میں بھت چھوٹا اور ناچیز تصور کرے، اور اسلام میں تربیت اسی بنیاد پر ھوتی ھے کہ انسان اللہ کی ربوبیت اور اپنی عبودیت کا قائل رھے۔اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کس طرح یہ ممکن ھے کہ ایک طرف سے انسان اپنے نفس پر اعتماد بھی رکھے، اور دوسری طرف خدا کے مقابلہ میں اپنے کو ناچیز بھی سمجھے؟ کیا خود کو خدا کے مقابلہ میں ناچیز سمجھنا ، اعتماد بنفس کے ساتھ ھم آھنگ ھے؟ یہ نظریہ اس اعتراض کی طرح ھے کہ جو حاکمیت کے بارے میں بیان ھوچکاھے، کہ جو سیاسی مسائل سے مربوط ھے، اور یہ شبہ واعتراض علم نفسیات اور اخلاقی تربیت میں بیان ھوتا ھے. ھم نے ان دوچیزوں کا موازنہ کیا ھے، چونکہ یہ دو چیزیں آپس میں مشترک ھیں ان کوسمجھنے کے لئے ذھن تیار ھونا چاھئےے ، عرض کرتے ھیں کہ یہ علم نفسیات کا مسئلہ جو دوسروں پر اعتماد کے مقابلہ میں اپنے نفس پر اعتماد پر تاکید کرتا ھے، اور کھتا ھے کہ بچوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ اپنے ماں باپ اور دوستوں پر تکیہ نہ کرےں، اور دوسروں پر بوجہ نہ بنےں، نہ یہ کہ اپنے کو خدا کا بھی محتاج نہ مانےں۔انسان کا ایک دوسرے سے رابطہ کے متعلق گفتگواور اسی طرح “اعتماد بنفس” کا مسئلہ جس میں یہ بیان کیا جاتا ھے کہ اپنے کردار کو اتنا مضبوط بنالوکہ کسی دوسرے پر تکیہ نہ کرویہ ایسا مسئلہ ھے کہ اسلام میں بھی اس کی تاکید ھوئی ھے، حضرت رسول اکرم او رائمہ معصومین علیھم السلام کی سیرت میں اس بات پر تاکید ھوئی ھے، لیکن افسوس کہ ان مسائل پر کم توجہ کی گئی ھے، ھم سمجھتے ھیں کہ اس طرح کے مسائل مغربی ممالک کی نئی طرز تفکر ھے، حالانکہ ایسا نھیں ھے ائمہ اطھار . ان چیزوں کو پھلے بتا چکے ھیں. آنحضرت کے زمانہ میں آپ کے اصحاب اس طرح کی تربیت سے آراستہ تھے، چنانچہ اگر کوئی گھوڑے پر بیٹھا جارھا ھے اور اس کے ھاتہ سے تازیا نہ گرگیا ھے تو وہ اس دوست سے نھیں کھتے تھے جو اس کے ساتھ چل رھا ھے کہ اس کے تازیانہ کو اٹھاکر دیدو، بلکہ خود گھوڑے سے اتر کر اس کو اٹھالیتے تھے، او رپھر گھوڑے پر سوار ھوجاتے تھے، ! یہ اسلامی تربیت ھے کہ جو ھم سے یہ چاھتا ھے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ھوں، ھم خود اپنا بوجہ سنبھالیں، او رخود کو دوسروں کا محتاج نہ بنائیں، اور دوسروں پر نظریں نہ دوڑائیں ، لیکن اس کا مطلب یہ نھیں کہ خدا کے مقابلہ میں بھی اپنے کو بے نیاز سمجھیں:(یَا اٴَیُّھا النَّاسُ اٴَنْتُمُ الْفُقْرَاءُ إِلَی اللّٰہ وَاللّٰہ ھوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ) (5)”لوگو! تم سب کے سب خدا کے(ھروقت)محتاج ھو اور (صرف)خدا ھی (سب سے) بے پروا سزاوار حمد (وثنا) ھے”کیا یہ فقر وناداری والا انسان اپنے کو خدا سے بے نیاز سمجھے؟ خدا کے مقابلہ میں بے نیازی کا اظھار کرنا شرک ھے، لھٰذا اعتماد بنفس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ خدا پر بھی اعتماد نہ رکھا جائے، اور اگر کوئی یہ کھے کہ خدا پر بھی اعتماد نہ کیا جائے، تو یہ قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ھے، سیکڑوں آیات وروایات اس سلسلہ میں موجود ھیں کہ انسان اپنے کو خدا کے مقابلہ میں اپنے کو ھیچ سمجھے، اور تمام چیزوں کو خدا سے طلب کرے، اور اس بات کا اعتمادبنفس سے کوئی مطلب نھیں ھے،کیونکہ اعتماد بنفس کا مسئلہ انسانوں کے درمیان رابطہ کو بیان کرتا ھے چونکہ کوئی بھی کسی پر کچھ امتیاز نھیں رکھتا۔لھٰذا اس بات کا جواب کہ اعتماد بنفس اور خدا پر توکل وبھروسہ ایک ساتھ کسیے جمع ھوسکتے ھیں ، یہ ھے کہ اعتماد بنفس کا تعلق انسانوںکے رابطہ سے ھے، کہ ایک دوسرے پر تکیہ نہ کریں اور کوئی بھی دوسروں سے آگے قدم بڑھا کر نہ رکھیں نہ یہ کہ خدا پر بھی اعتماد نہ رکھے.اسی طرح سیاسی مسائل میں ، انسان کی فردی حاکمیت کا مسئلہ ھے اور حاکمیت ملّی میں بھی اسی طرح ھے، حاکمیت ملّی یعنی ھر ملت خود اپنے پیروں پر کھڑی ھو اور دوسروں کو بھی یہ حق نھیں ھے کہ ان پر حکمرانی کریں. حاکمیت انسان پر خود یعنی کوئی بھی انسان خودبخود اپنے کو دوسروں کا حاکم تصور نہ کرے، نہ یہ کہ خداوندعالم بھی کسی پر حاکمیت نھیں رکھتا، دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ فردی اور ملّی حاکمیت خدا کی حاکمیت کے طول (بعد) میں ھے یعنی اصل حاکمیت خدا سے مخصوص ھے ، اور اس کے طول میں خدا نے جن کو حاکمیت کی اجازت دی ھے ،یعنی خدا نے حکومت کرنے کا جو دائرہ جن کے لئے بیان کیا ھے وہ لوگ صرف اسی دائرہ اور حد کے اندر حکومت کرنے کا حق رکھتے ھیں لھٰذا اگر خدا کی طرف سے اجازت نہ ھو تو پھر کسی انسان کو حق حاکمیت نھیں ھے۔
حوالہ(1)سورہ ٴ الرحمن آیت 7،8.(2)سورہٴ یونس آیت 5۹(3)صحیفہ نور ج۹ص 251(4)سورہٴ فاطر آیت 15(5)سورہ یونس آیت 107

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.