اسلام اورجمھوریت (2)

211

ھم نے گذشتہ بحث کے دوران اسلام کے سیاسی نظریہ پر ھوئے بعض اعتراضات کے بارے میں گفتگو کی تھی ، جن میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ اگر قوانین خداوندعالم کی طرف سے معین ھوں اور ان کو جاری کرنے والے بھی خداکی طرف سے معین ھوں تو یہ جمھوریت سے ھم آھنگ نھیں ھے، ھم نے اس اعتراض کے جواب میں عرض کیا تھاکہ جمھوریت کے کوئی خاص واضح وروشن معنی بیان نھیں ھوئے ھیں. “آٹن” میں جمھوریت کا آغاز اس طرح ھواکہ شھر کے تمام لوگ شھری مسائل میں براہ راست دخالت کیا کرتے تھے. اور اس طریقہ کے عملی نہ ھونے اور دوسرے دلائل کی وجہ سے دانشمندوں اور فیلسوف حضرات کو اس پراعتراض ھوا. یھاں تک کہ “رنسانس” کے زمانہ سے خود پسند اور ظالم حکومتوں کے مقابلہ میں جمھوریت کی دوسری تصویر پیش کی گئی،اور مغرب زمین کے بڑے بڑے فیلسوف حضرات اس پر تنقید کرنے لگے ،یھاں تک کہ اس کی ایک قابل قبول شکل نکالی گئی اور اس کے بعد دوسرے ملکوں میں جانے لگی. اس کی موجودہ صورت یہ ھے کہ لوگ فقط پارلیمینٹ کے ممبران کے انتخابات میں شرکت کرتے ھیں، اور قوة مجری (صدر یا وزیراعظم) یا مسئول قوة قضائیہ ( رئیس قضاة) کے انتخاب میں لوگوں کا کوئی کردار نھیں ھوتا. اس نظریہ میںحکومت کی کوئی خاص شکل وصورت معین نھیں ھوتی اسی وجہ سے مختلف حکومتیںبادشاھی، پارلیمینٹی، یا ریاست جمھوری حکومتیں اپنے کو جمھوری حکومت تصور کرتی ھیں، کیونکہ اس حکومت میں کسی نہ کسی طریقہ سے لوگوں کا کردار ھوتا ھے۔
2۔سیکولر جمھوری اور اس کے فلسفہ کی وضاحتجیسا کہ ھم نے عرض کیا،مغربی ممالک کے سیاست داں حضرات نے جمھوریت کی ایک نئی شکل پیش کی ھے کہ جس جمھوریت میں “لائیزم” کے معنی پائے جاتے ھیں. یعنی ایک طرف تو لوگ بھی حکومت میں دخالت رکھتے ھوں او ردوسری طرف یہ کہ کسی بھی سرکاری دفتر میں دین کی کوئی نشانی نہ پائی جائے.دین نہ توقانون گذاری میںکوئی دخالت ھو او رنہ ھی قانون کے جاری کرنے والے دین کے نام پر حکومت کریں،یھاں تک کہ جو شعبہ جات حکومت سے وابستہ ھیں ان میں بھی دین کی کوئی نشانی نہ ھو،دینی اعتقاد یا اس کی طرف داری کا کوئی وجود نہ ھو. اسی وجہ سے بعض حکومتوں میں لڑکیوں کوکالج میں باپردہ جانے سے روکا جاتا ھے، کیونکہ دینی نشانی کے ساتھ کالج میں جانے کا مطلب یہ ھے کہ حکومت اس کی حمایت کرتی ھے۔اس میں کوئی شک نھیں کہ جمھوریت کے یہ جدید معنی سوفی صد دین کے مخالف ھےں، او ر ایسی حکومتوں کو جمھوریت کا نام دینے کے بجائے “بے دینوں کی ڈکٹیٹری” کھنا مناسب ھے، کیونکہ یہ لوگ جمھوریت کے نام پر معاشرہ میں دینی اعتقادات اور مذھبی امور کو انجام دینے کی اجازت نھیں دیتے، اورسرکاری دفاتر میں دینی امور پر عمل کرنے کووممنوع قرار دیتے ھیں۔یہ طریقہ کار کہ جس کی کوئی فلسفی بنیاد نھیں ھے اور نہ ھی یہ کوئی فلسفی نظریہ ھے، لیکن دشمنان دین کا مقصد یہ ھے کہ مغربی اور یورپین ممالک میں دین، خصوصاًاسلام کو پھیلنے سے روکا جائے، اور اپنی تمام تر کوشش کرتے ھیں کہ اپنے ممالک یھاں تک کہ اسلامی ممالک میںجمھوریت کے نام پر اسی جمھوری انداز کو اپنائیں کہ جس کا نمونہ الجرائر اور ترکی میںدیکھنے میں آتاھے۔ڈکٹیٹری کی سخت شکل سے نکالنے کے لئے اور اس کی جگہ جمھوریت کی نرم وملائم شکل پیش کرنے کے لئے ایک فلسفہ تراشی شروع کی ،تاکہ دینداروں کے اعتراضات کا مقابلہ نہ کرنا پڑے، اور ان کے غصہ کو کم کرسکیں،اسی وجہ سے حکومتی دفاتر میں دینی نشانیاں نہ ھونے کی توجیہ اور وضاحت کرتے ھیںاور فلسفہ کا راہ حل پیش کرتے ھیں کہ (جیسا کہ حقوق بشر کے نشریہ میں بھی موجود ھے) تمام انسان انسانیت میں برابر ھیں اور ان میں کوئی درجہ بندی نھیں ھے اور ھمارے پاس درجہ اول یا درجہ دوم کے انسان نھیں ھےں، اسی بناپر اگر کسی دین کے لئے کسی امتیاز کے قائل ھوں تو اس کا مطلب یہ ھے کہ ھم نے اس دین کو دوسرے دیگر ادیان پر ترجیح دی اور اس کا سب سے بڑا درجہ مانا. پس کسی دین کا احترام کرنا یاسرکاری دفاتر میں اس کے دینی رسم ورواج کی اجازت دینا ، گویا اس دین کو ایک خاص امتیاز دینا ھے جبکہ ھم تمام انسان برابر ھیںاور کسی ایک کے دوسرے پر امتیاز کے قائل نھیں ھیں!لیکن سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ یہ حکومتیں کس طرح اجازت دیتی ھیں کہ جس طرح چاھیں عمل کرےں جس طرح کا کپڑا پھننا چاھیں پھنےں،لیکن دیندار لڑکیوں کے باحجاب ھونے پر پابندی ھے ، درحقیت یہ بعض شھریوں کی آزادی کی نفی اور ان کے حقوق کی پامالی ھے۔
3۔سیکولر نظام کی فلسفی بنیاد میںمغالطہبھر حال ،وہ اپنی کارگردگی کے لئے مذکورہ توجیہ وضاحت پیش کرتے ھیں،لیکن اس میں ایک بھت بڑامغالطہ اور غلطی یہ پائی جاتی ھے کہ تمام انسانوں کا انسانیت میں برابر ھونے کا مطلب یہ نھیں ھے کہ تمام شھری ،شھری ھونے میں برابر ھوں. کیونکہ تمام انسانوںکا انسانیت میں برابر ھونے کی بحث کو سب سے پھلے اور سب سے زیادہ اسلام نے تاکید کی ھے، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:(یاَاٴَیُّھا النَّاسُ إِناَّ خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَاٴُنْثیٰ وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ اٴَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہ اٴَتْقَاکُمْ…)(1)”لوگوں ھم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ھم ھی نے تمھارے قبیلے اور برادریاں بنائیںتاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرلے، اس میں شک نھیں کہ خدا کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت دار وھی ھے جو بڑا پرھیزگار ھو”قرآن کریم واضح طور پر انسانوں کے درمیان فرق اور امتیاز کی نفی کرتا ھے اور ان کو ایک آدم کی اولاد کھتا ھے کہ جو آپس میں بھن بھائی ھیں، اور ان میں کوئی فاصلہ وامتیاز نھیں ھے. یہ مطلب کسی بھی آسمانی کتاب میں اس کیفیت کے ساتھ بیان نھیں ھوا ھے. اور ھم بھی ایک مسلمان کی حیثیت سے معتقد ھیں کہ تمام انسان برابر ھیں اور انسانیت درجہ اول اورودم نھیں رکھتی، مشھور ومعروف شاعر سعدی کا یہ شعر بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتے ھیں
بنی آدم اعضای یکدیگر اندکہ درآفرنیش زیک گوھرند
لھٰذا جوھر انسانیت تمام انسانوں میں برابر ھے اور انسانوں میں درجہ اول اور ودم نھیں ھے، لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ تمام انسان تمام چیزوں میں برابر ھیں یھاں تک کہ ایک ملک کے تمام شھری تمام سھولتوں میں برابر ھوں. اور تمام دنیا میں اس کو ایک اصل کے عنوان سے بین الاقوامی حقوق میں قبول کیا گیاھے کہ کسی ملک کی تابیعت (نیشنلٹی) خاص شرائط اور خاص سھولتیں رکھتی ھے. ممکن ھے کوئی شخص اپنے ملک سے مھاجرت کرے اور چند سال کسی دوسرے ملک میں زندگی بسرکرے ،اِس ملک کو فیض پھونچائے اور وھاں کے لوگوں کیلئے کافی خدمات انجام دے؛ لیکن پھر بھی اس کو وھاں کی نیشنلٹی اس کو نھیں ملے گی.چونکہ مھاجر افراد کو نیشنلٹی ملنے کے لئے خاص شرائط وقوانین درکار ھوتے ھیں. اور جس وقت اس کو نیشنلٹی دیںبھی تو ممکن ھے اس کو دوسرے درجہ کا شھری قرار دیں، اوراس کو اول درجہ کی شھریت والی سھولتیں اس کو نہ دیں. یہ مسئلہ تمام دنیا میں پایا جاتا ھے درحالیکہ تمام انسانوں کو انسانیت میں برابر مانا جاتا ھے، لیکن شھریوں کے حقوق اور سھولتیں نیشنلٹی کے لحاظ سے برابر نھیں ھیں، اور نیشنلٹی کا اول درجہ اور دوسرا درجہ ھے ،لھٰذا یہ کھنا محض ایک مغالطہ ھے کہ تمام انسان چونکہ انسانیت میںشریک ھیں لھٰذا انسانیت کا درجہ اول ودوم نھیں ، لیکن شھریت میں دو درجہ ھوسکتے ھیں اور اس کو اسلام نے بھی قبول کیا ھے۔ھمیں ھوشیار رھنا چاھئے اور توجہ رکھنا چاھئے کہ مغربی ڈکٹیٹری حکومتیں اپنے کو جمھوری حکومتیں کھلاتی ھیں، تاکہ اپنے نامشروع مقاصد میں کامیاب ھوجائیں، ھمیں ان کی فریب کار شکل سے دھوکا نھیں کھانا چاھئے، حقیقت میں جمھوریت کی جدید شکل ایک ڈکٹیٹری ھے جس کی وجہ سے مسلمان عورتیں حجاب اور دوسرے مذھبی مراسم سے محروم ھیں. جبکہ “حقوق بشر نشریھ” میں موجود ھے کہ دین آزاد ھے اور سبھی لوگ دینی وظائف پر عمل کرنے میں آزاد ھیں ، اس میں یہ کوئی قید وشرط نھیں ھے کہ سرکاری دفاتر میں کوئی مذھبی کام ھو یا نہ ھو، لیکن اپنی مرضی کے مطابق اس کی تفسیر ومعنی کرتے رھیں اور جنگ کو صلح کے نام سے اور دوسروں پر ظلم کو حقوق بشر کی حمایت کے نام سے جائز جانتے ھیں ، اور ھم آپ ھر روزان کے ظلم وجور اور دھوکہ دھڑی کو دیکھتے رھتے ھیں۔
۴۔مدیریت کے میدان میں جمھوریت کا دوسرا رخجیسا کہ ھم نے عرض کیاکہ جمھوریت کے تین معنی ذکر کئے گئے ھیں کہ ان سب کا تعلق فلسفہ سیاست سے ھے، لیکن بعض موٴلفین جو خود کو دینی روشن فکر کھلاتے ھیں وہ یہ کھتے ھیں کہ جمھوریت کا فلسفہ سیاست سے کوئی ربط نھیں ھے، بلکہ جمھوریت مدیریت سے مربوط ھے ،اور اس کو حکومت یا حکومتی ادارہ سے کوئی ربط نھیں ھے،اور اس بحث کی جگہ سیاسی فلسفہ میں نھیںھے. ھم ان لوگوں کے جواب میں مختصر طور پر اتنا عرض کرتے ھیں: کہ فلسفی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے کہ سیاسی فلسفہ کے بارے میں ایسی کوئی کتاب نھیں ھے کہ جس میں جمھوریت سے بحث نہ کی گئی ھو، اب اگر جمھوریت کا سیاست سے کوئی تعلق نھیں ھے تو پھر سیاسی فلسفوں کی کتابوں میں اتنی زیادہ بحث کے کیامعنی؟ ان کے دعویٰ کا راز یہ ھے کہ جمھوریت کی جو نئی تصویر مغربی ممالک کے لیبرل دانشمندوں اور موٴلفوں نے پیش کی ھے تاکہ اس کو سیاسی مفھوم سے خارج کردیا جاسکے، اور اس کو دوسرے اجتماعی میدانوں میں داخل کردیں. ان کا کھنا یہ ھے کہ جمھوریت صرف کسی حاکم کی قدرت کو محدود کرنے یا چندمخالف گروھوں کے درمیان سازش (خلاف قانون تال میل) کرانے یا صرف حکومتی اداروں سے مربوط نھیں ھے بلکہ کسی بھی مدیریتی شعبہ میں ھوسکتی ھے: فرض کیجئے اگر کسی کارخانہ کے مختلف شعبوں کے مدیروں کے درمیان اختلاف ھوجائے، تو ان میں اتفاق کرانا ضروری ھے کیونکہ اگریہ اختلاف بڑھتا چلاجائے تو اس کارخانہ کی دیوالیہ نکل جائے گا، لھٰذا اس کارخانہ کے منافع کو فراھم کرنے کے لئے سبھی کو ایک دوسرے سے مشورہ کریں اور ان میں اتفاق ھو یا یہ کہ اکثر لوگوں کی رائے کو مانا جائے، اس طریقہ کار کو جمھوریت کھا جاتا ھے۔پس معلوم یہ ھوا کہ جمھوریت کسی سازمان کے اندر ھوئے اختلافات کو ختم کرنے کے لئے ھے،اور جمھوریت کے یہ معنی سیاسی فلسفہ سے خارج ھے اور مدیریت کے دائرے میں شامل ھے. اگرچہ حکومت بھی چونکہ معاشرہ کی کثیر تعداد کو ادارہ کرنا بھی ایک مدیریتی کام ھے ، لیکن بھرحال اس کے خاص حدود ھیں ،یہ لوگ جمھوریت کے معنی میں وسعت دینے کے لئے کھتے ھیں کہ اگر دوگروھوں میں اختلاف ھوجائے اور مذکورہ طریقہ سے آپس میں سازش کرلیں تو اسی کا نام جمھوریت ھے. اس بارے میں مزید وضاحت اس طرح ھے کہ دوگروھوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں ممکن ھے کہ ایک گروہ زیادہ مضبوط ھو او ر دوسرے پر مسلط ھوجائے او راپنے نظریہ کو اس پر زبردستی تحمیل کردے، تو ظاھر ھے کہ یہ طریقہ جمھوری نھیں ھے؛ لیکن اگر آپس میں اتفاق ھوجائے اور آخرکار اکثریت کے نظریہ کو تسلیم کرلیں تو گویا انھوں نے جمھوریت کو تسلیم کرلیا ھے۔البتہ ھم کسی اصطلاح کو بنانے یا کسی علمی اصطلاح میں وسعت دینے کے مخالف نھیں ھیں، لیکن یہ فراموش نھیں کرنا چاھئے کہ درحقیقت یہ معنی سیاسی میدان سے مربوط ھیںجس کو دوسرے مسائل میں بھی وسعت دی گئی ھے. اور اجتماعی علوم میں ایسے بھت سے معنی موجود ھیں جن کو شروع میں کسی خاص میدان میں استعمال کیا جاتا تھالیکن ان میں وسعت دینے کے بعد ان کو دوسرے میدانوں میں میں بھی استعمال کیا جانا لگا،مثال کے طورپر آپ “اسٹراٹیجی”(Strategie) (یعنی لشکر کشی) کے لفظ سے آگاہ ھیں جو تمام ھی محافل میں مشھور ھے.کہ دراصل اس کے معنی”سوق الجیشی” ( لشکر کشی) کے ھیں اور اس کو فوجی سطح پر بولا جاتا ھے اور اسٹراجسٹ اس کو کھا جاتا ھے جو جنگ کا نقشہ اور اس کو کمانڈ کرنے کی ذمہ داری لیتا ھے، مثلاً کسی حملہ کا پلان بناتا ھے، اور اس حملہ کی راھنمائی کرتا ھے، یہ لفظ جنگی فوج کی ھدایت یا اس کے طریقہ حرکت یا جھاں سے حرکت ھوتی تھی یا جھاں پر پڑاؤ ڈالا جاتا تھایا جھاں سے حملہ شروع ھوتا تھااس علاقہ کو سوق الجیشی یا اسٹراٹیجک علاقہ کھا جاتا تھا۔اس کے بعد اس لفظ میں وسعت دی گئی اور دوسرے علوم میں بھی اس کو استعمال کیا جانے لگا، مثلاً خود ھماری سیاسی بحث میں بھی “اسٹراٹیجک سیاست” ایک اصطلاح ھے. یھاں تک کہ تعلیمی شعبہ کی بعض مدیریتوں میں اسٹراٹیجک مسائل بیان ھوتے ھیں، اور ھمارے قانون اساسی میں میں بھی ایسے بھت سے اصول ھیں جو اسٹراٹیجک پھلو رکھتے ھیں، اس اصل کے مانند جو یہ کھتی ھے کہ ملک کے قوانین کو اسلامی قوانین کے مطابق ھونا چاھئے. لیکن بعض ان لوگوں پر تعجب ھے کہ جو قانون اساسی کا دم بھرتے ھیں اور اسی کو سند بناتے ھیں کہ گویا قانون اساسی قرآن سے بالاتر کوئی چیز ھے لیکن کبھی ایسی مخالفت کرتے ھیں کہ گویا قانون اساسی کی ان کی نظر میں کوئی اھمیت نھیں ھے. جھاں پر قانون اساسی میں لوگوں کی رائے کے احترام کے بارے میں ملتا ھے تو گویا قرآن مجید کو بھی ان کے برخلاف بولنے کی اجازت نھیں ھے. پیغمبر اور ائمہ معصومین اور امام زمانہ علیھم السلام کو بھی لوگوں کی رائے کی مخالفت کا حق نھیں ھے.؟!لیکن جب قانون اساسی یہ کھتا ھے کہ ملک کے قوانین اسلامی قوانین کے مطابق ھونے چاھئےں،تو وہ اس کو بھول جاتے ھیں اور اس کی مخالفت شروع کردیتے ھیں اور کھتے ھیں کہ معیار لوگوں کی رائے ھے!!کیا اسی قانون اساسی میں نھیں ھے کہ اس ملک کے قوانین کو اسلامی قوانین کے مطابق ھونا چاھئے؟ لھٰذا اگر کوئی چیز اسلامی نظر سے حرام ھو تو پھر آپ قانون اساسی کو سند بناکرکس طرح اس کو جائز کرسکتے ھیں؟ اس قانون اساسی کے پیش نظر کہ جو قوانین اسلام کی رعایت پر اتنی تاکید کرتا ھے یہ کھہ کر کہ اخبارات آزاد ھےں، کس طرح اسلامی مقدسات اور اسلام کے ضروری احکامات کی توھین کی جائے؟اخبارات خاص قوانین کے تحت آزاد ھیں نہ یہ کہ قانون سے بڑہ کر آزاد ھوجائیں. جب قانون اساسی اسلامی مقدسات کے احترام کو واجب کرتا ھے اور ضروریات دین کا انکار اور اسلامی قوانین کا مسخرہ کرنا ، نیز خدا وپیغمبر کا مذاق بنانا جو مرتد ھونے کا سبب ھے تو پھر اخبارات کے قوانین اس کو کس طرح جائز کرسکتے ھیں. قانون اساسی اس وجہ سے لکھا گیا تاکہ اسلامی جمھوری کے مفھوم کو واضح وروشن کرسکے۔
5۔جمھوری اسلامی میں اسلام وولایت فقیہ کا سب سے اھم مقامانقلاب کی کامیابی کے پھلے سال یعنی 1358ء ہ شمسی میں جمھوری اسلامی کا” رفرنڈم” ‘Referendum’ (ھمہ پرسی) ھونے والا تھا جس میں حکومت کی شکل وصورت کے لئے خاص نشانات پیش کئے گئے تاکہ سبھی لوگ اس کے حساب سے ووٹ ڈالیں. ان میں سے بعض جمھوری، جمھوری ڈیموکراٹک، جمھوری ڈیموکراٹک اسلامی، جمھوری اسلامی تھے. لیکن امام خمینی ۺ نے فرمایا: “جمھوری اسلامی” نہ ایک لفظ کم نہ زیادھ، اور اس میں ۹8فی صد لوگوں نے “جمھوری اسلامی” کو ووٹ دئے، یعنی اسلامی حکومت کی قید وشرط کو نھیں ھٹایا جاسکتااور اس کی جگہ “ڈیموکراٹک” لفظ کو نھیں رکھا جاسکتا. اور اگر ڈیموکراٹک کا لفظ اسلام سے بالاتر کوئی چیز تھی تو کیوں امام خمینیۺ نے اجازت نہ دی کہ اس لفظ کو اسلامی حکومت کے ساتھ اضافہ کیا جائے؟اور اگر جمھوریت اور ڈیموکریسی میں کوئی فرق نھیں ھے تو جب جمھوریت ھے تو ڈیموکریسی بھی ھے، لھٰذا ڈیموکریسی لفظ کے لانے کی کوئی ضرورت ھی نھیں ھے. پس جب بعض لوگ “جمھوری ڈیموکراٹک” پر تاکید واصرار کررھے تھے، تو امام خمینیۺ نے ان کی مخالفت کی؛ معلوم یہ ھوا کہ ڈیموکراسی کے مختلف معنی ھوسکتے تھے اور جمھوریت میں بعض چیزوں کا اضافہ ھوسکتا تھا کہ جن کی نفی کی گئی ھے اور وہ یہ ھے کہ اسلام سے بڑہ کر لوگوں کے ووٹوں اور ان کے نظریات پر تکیہ نھیں کیا جاسکتا۔بھرحال ھماری حکومت ،جمھوری اسلامی ھے کہ جن کے ستون لوگوں کے شانوں پر ھیں اور انھیں لوگوں نے انقلاب کیا ھے اور اپنے انقلاب کی اسلامی قوانین کے تحت حفاظت کرتے ھیں. مرحوم شھید استاد مطھری ۺ اس سلسلہ میں ھماری بحث کو وضاحت کرتے ھوئے بیان دیتے ھیں کہ :”جمھوریت حکومتی شکل کو بیان کرتی ھے اور اسلامیت حکومت کے محتویٰ کو بیان کرنے والا ھے” حکومت کا محتویٰ یہ ھے کہ اسلامی قوانین کونافذ کیا جائے لیکن حکومت کی شکل وصورت بادشاھت کے مدمقابل ھے. لھٰذا ھماری حکومتی بادشاھی نہ ھوگی، بلکہ اس کی شکل جمھوری اور اس کے قوانین اسلامی ھونگے. اصل احکام اسلامی ھوں گے اور اسلام سے پھلے یا اسلام کے بعد کوئی چیز نہ ھوگی۔
حضرت امام خمینیۺ مکرر فرمایا کرتے تھے :جمھوری اسلامی میں ھر حکومت یا کسی بھی حکومتی پوسٹ کی مشروعیت ولی فقیہ کی اجازت پر موقوف ھے، اور یہ وہ چیز ھے جس پر ولایت فقیہ کی تھیوری قائم ھے، اور ھم نے اس مسئلہ کو فقھاء کرام اور سب سے زیادہ امام خمینیۺ سے حاصل کیا ھے، جس پر عقلی ونقلی دلیلیں بھی قائم ھیں. کیونکہ ولی فقیہ امام معصوم (ع) کا جانشین ھوتا ھے اور تمام چیزوں کو الھٰی ارادے کے تحت ھونا چاھئے اور چونکہ ولی فقیہ امام معصوم (ع) اور خدا وندعالم کی طرف سے اجازت رکھتا ھے، لھٰذا کسی بھی نظام کی مشروعیت ولی فقیہ کی اجازت پر موقوف ھے.البتہ یہ طریقہ ان لوگوں کے نظریات سے موافق نھیں ھے جومغربی تمدن سے متاثر ھیں. اور ھماری اس نظریہ کی وجہ یہ ھے کہ یہ نظریہ توحید کے نظریہ سے لیا گیا ھے اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ھے؛ نہ یہ کہ علماء کرام کی صنف سے اخذ شدہ ھے. اور جیسا کہ ھم نے پھلے وضاحت کی تھی کہ خداوند عالم کی تشریعی ربوبیت تقاضا کرتی ھے کہ قانون گذاری اور نفاذ قانون دونوں خدا کی اجازت سے ھونے چاھئےں، اوراگر اس کے علاوہ ھے تویہ ایک قسم کا شرک ھے، لیکن اس کا مطلب یہ نھیں ھے کہ اس معاشرہ میں لوگ کوئی کردار نھیں رکھتے،اس حکومت میں لوگوں کا کردار (اسلام کے معین کردہ پھلو سے) سوفی صد ھے اور اس سلسلہ میں کوئی دوسری چیز اس کے بدلہ نھیں رکھی جاسکتی، لیکن مشروعیت اورمقبولیت میں ایک فرق کا قائل ھونا ضروری ھے۔ اس کی وضاحت یہ ھے کہ “رنسانس” کے بعد سے مغربی نظریہ کے لحاظ سے حقوقی و فلسفی اور اجتماعی گفتگو میں خدا یا دین کی کوئی بات نھیں ھونی چاھئے، البتہ مغربی نظریہ سے ھماری مراد صرف وہ لوگ نھیں ھیں کہ جو مغربی ممالک میں زندگی بسر کرتے ھیں، بلکہ ھماری مراد وہ نظریہ ھے، جو مغرب میں مو جودہ نظام کے نزدیک قبول شدہ ھے. مثلاً جس وقت حقوق بشر کے نشریہ میں انسانوں کے حقوق کی بات آتی ھے تو اس میںتو خدا سے انسانی رابطہ کا بیان ھے ھی نھیں. اور اگر کسی مذھب کی بات ھوتی ھے تو اس کی وجہ بھی یہ ھے کہ ھر انسان مذھب کو اختیار کرنے میں آزاد ھے، وھاں یہ کوئی گفتگو نھیں ھوتی کہ کون سی چیز حق ھے یا کون سی چیز باطل ھے، خدا ھے یا نھیں، ایسی چیزیں بالکل بیان نھیں ھوئی ھیں.اور جس وقت اجتماعی حقوق منجملہ حقوق اساسی، حقوق شھری یا کیفری حقوق کی بات ھوتی ھے تو اگر کسی جگہ یہ حقوق خدا سے مربوط ھوتے ھیں تو ان کی کوئی گفتگو نھیں ھے، وھاں بالکل یہ بات بیان نھیں ھے کہ خدابھی لوگوں پر حق رکھتا ھے یا نھیں؟ یا خدا کی طرف سے انسانوں پر کوئی تکلیف ھے یا نھیں؟ انھوں نے حقوقی گفتگو میں خدا کے حقوق کی بالکل کوئی بات نھیں کی، لیکن اگر ھم چاھیں اپنے اعتقادات کی بناپر اسلامی تعلیمات اور حقوق الھٰی پر مبنی اپنے ملک کے حقوق کومعین کریں تو ان کوھمیں روکنے کا کوئی حق نھیں ھے. ھم مسلمان اورموحد ھونے کے لحاظ سے معتقد ھیں کہ تمام حقوقی مسائل ، اجتماعی ،شھری اور سیاسی حقوق میں تمام جگھوں پر خدا کا لحاظ رکھیںاور تمام حقوق سے بالاتر خدا کے حق کو مانےں،اور اس کے حق کے بدلے میں ھم پر کچھ تکالیف عائد ھوتی ھیں جن کو ھمیں انجام دینا چاھئے۔دوسری طرف یہ کہ صرف انسانوں کے حقوق کی ھی بات نھیں ھونا چاھئے بلکہ حق وتکلیف ساتھ ساتھ بیان ھونے چاھئےں اور سب سے اھم خدا کے معین کردہ تکلیف ھے. خداوند عالم کی تشریعی ربوبیت کا حق یہ ھے کہ تمام انسان سیاسی واجتماعی مسائل میں خدا کے احکام کو قبول کریں. اور ھم چونکہ مسلمان ھونے کے ناطے یہ حق رکھتے ھیں کہ اپنے اعتقادات کی بناپر اپنے ملک میں قوانین بنائیں اور ان پر عمل کریں. اور ھمارے قانون اساسی میں یہ کام ھوا ھے اسی وجہ سے ھمارے نزدیک یہ اھم اور اول درجہ رکھتا ھے اور قانون اساسی کا احترام ، اسلام کے احترام کے مانند ھے۔
6۔اسلام کی مورد قبول جمھوریتجمھوریت کے ایک معنی اسلام کے موافق ھے اور ایک معنی(یعنی تیسرے معنی) اسلام کے سوفی صد مخالف ھے. جمھوریت کے دوسرے معنی خاص شرائط کے ساتھ قابل قبول ھے لیکن بغیر کسی قید وشرط کے قبول نھیں ھے. اور چونکہ اسلامی قوانین کی رعایت ضروری ھے لھٰذا قانون گذاری میںکسی بھی مرکز کو یہ حق نھیں ھے کہ اسلام کے ضروری احکام کی مخالفت کرے اور یہ ایک ایسی اصل ھے جو دینی لحاظ سے مقبول ھے، لھٰذا اس اصل کو قبول کرتے ھوئے ھم جمھوریت کو قبول کرتے ھیں؛ لیکن اگر اس اصل کو نہ مانا جائے اور جمھوریت کا یہ مطلب ھو کہ الھٰی حدود اور احکامات اسلامی کی مخالفت کو بھی جائز کرلیا جائے تو پھر ھم اس جمھوریت کو سوفی صد ردّ کرتے ھیں. او رجمھوریت کے اختلاف کو حل کرنے کے طریقہ کی حد تک لیا جائے تو ھم کھیں گے کہ جھاں تک اختلافات کو حل کرنے کے لئے اسلامی احکامات کافی ھیں تو یہ مقدم ھیں لیکن اگر کوئی ایسی جگہ ھو کہ اسلام نے اس کے راہ حل کے لئے کوئی معین راستہ پیش نہ کیا ھو اور کوئی باصلاحیت مرجع نہ ھو تو پھر اکثریت کی رائے کو مانا جائے گا، یعنی اگر کسی مقام پر کوئی دلیل شرعی یا تحقیقی نظریہ موجود نہ ھو یا اس اختلاف کو حل کیا جاسکے۔مثلاً کچھ لوگ قانون کے تحت کسی مھم کام کے لئے کو ئی شورایٰ بنائیں اور تمام لوگ اسلام کا اعتقاد رکھتے ھوں اور اسلامی قوانین کی رعایت کریںلیکن کسی مسئلہ میں اختلاف ھوجائے اور اکثرلوگوں کی کچھ نظر ھو اور اقلیت کی کچھ نظر ، اوران دو نظریات کو ترجیح دینے کے لئے بھی کوئی راستہ نہ ھو تو یھاں پر اکثریت کی نظر مقدم ھے اور اکثریت کی نظر کی مخالفت کرنا ترجیح مرجوح ھوگی (جوقبیح ھے)۔خلاصہ یہ ھوا کہ اگر کسی مقام پر کوئی مرجح نہ ھواور اکثریت کی نظر سے ھمیں ظن(گمان) حاصل ھوجائے تو یہ ظن ھمارے نزدیک معتبر اور مرجح ھے،اور اگر اکثریت کی وجہ سے ظن حاصل نہ ھوتو اس کو ترجیح دینا بغیر کسی مرجح کے ھوگا جو عقلا مذموم اور نادرست ھے. یہ طریقہ بس اسی حد تک معتبر ھے،لیکن اس طریقہ سے ناجائز فائدہ اٹھاناصحیح نھیں ھے کہ لوگوں کی اکثریت کو اقلیت کے مقابلہ میں کیا جائے، مثلاً فرض کیجئے ایک فوجی نقشہ بنانے کے لئے دہ افسر معین ھوئے اور دوسری طرف ایک ھزار عام آدمی ھوں کہ جن کو فوجی مسائل سے بالکل بھی کوئی آشنائی نہ ھو، اگر عام لوگوں کی رائے پر توجہ کی جائے او ران کو مانا جائے او ران ماھر افسروں کی رائے پر عمل نہ کیا جائے تو یہ کام عقل سے دور ھے. لھٰذا جمھوریت اختلافات کو حل کرنے کے لئے خاص شرائط کے ساتھ معتبر ھے؛ لیکن ھر اکثریت کو ھر اقلیت پر ترجیح دی جائے تو اس کا کوئی اعتبار نھیں ھے۔
حوالے1۔سورہ حجرات آیت 13.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.