عقائد و مراسم

116

مراسم اکثر بڑھ کر موروثی خلل دماغ ہو گئے ہیں یہ یقیناً اصلاح طلب ہیں۔قدرت نے ہم کو لامحدود عقل اور گویائی دے کر انسان بنا دیا۔ دماغ دیا ہے کہ سوچ کر سمجھئے، نطق دیا ہے کہ پوچھ کر سمجھئے، آنکھیں دی ہیں کہ پرانے قضیے، گزرے افسانے، قدیم مقولے، موجودہ فضا کو دیکھ بھال کر سمجھئے، سمجھ کی اصلاح یا صحیح اندازے کے لئے عقل عنایت کی ہے۔بہترین انسان وہی ہے جو قدرت کی دی ہوئی نعمتوں کو اچھی صورت سے صرف میں لائے۔ کسی بات کا بلادلیل اقرار نہ کرے۔ کسی بات کا بلادلیل انکار نہ کرے جبکہ یہ صحیح ہے کہ فطرت کے آئین میں قوت، خواہش، قد، نیند، عمر، وغیرہ کی کوئی حد مقرر نہیں تو پھر کمی یا زیادتی کے درجہ پر ناک بھوں چڑھانا عقل کے اصول پر صحیح نہیں ہے۔ عام و خاص کے اعتدال اور کم و بیش کے اوسط پر دل کی تسلی ہو جائے تو ہو جائے۔ دماغ کوسکون نہیں ہو سکتا جب کہ انہی اوسط حدود میں آخری نقطہ معمول سے باہر ہی ہو گا۔ تو پھر اس آخر پر بھی اضافہ کا امکان کیوں نہ ہو۔قوت! کوئی شخص دو چار چھ من کا وزن اٹھا لے، اور رام مورتی صاحب بقول شخص ترکیب سے ۳۸ من پتھر کا سینہ پر توڑ ڈالیں تو آخر ۳۸ دوناچھہتر من کا وزن اٹھانا غیرممکن کیسے سمجھا جائے۔ دماغ یہاں خاموش اور عقل دم بخود رہے گی انکار کی جرات نہ کرے گی۔ واہمہ ہے جو مشاہدہ کے آگے ایک انچ قدم آگے بڑھانے میں تھراتا ہے۔ وہ تو رام مورتی صاحب کا قصہ بھی اگر پہلے پہل سنتا تو انکار پر تل جاتا اس لئے کہ اس کے سامنے وہ انوکھا تھا تو اس سے زیادہ طاقت کے مظاہرہ پر بھی وہ انکار کی جرات کرتا ہے۔ مگر عقل دوراندیش کہتی ہے کہ جب قوت کی کوئی حد نہیں مقرر تو اس سے زیادہ بھی قوت کا امکان ہے یوں ہی خواہش، قد اور نیند کو سمجھ لو، عمر کے لئے کسی نے کوئی میعاد مقرر نہیں کی۔ کوئی حد قرار نہیں دی۔ اب تم اصول فطرت کے مشاہدے تک مانتے ہو تو جو آخری مشاہدہ قراردو گے وہ عام نظام فطرت سے الگ ہی ہو گا۔پھر جب عام نظام سے وہ الگ ہے اور مانا گیا اس لئے کہ مشاہدہ میں آ گیا تو اس سے زیادہ مقدار کے مشاہدہ کا اگر کوئی ادعا رکھتا ہو تو تم کس عقلی اصول کی بناء پر اس کا انکار کرو گے۔ اس کا باور نہ کرنے والا اپنے محدود مشاہدات کے حلقہ کا قیدی واہمہ ہے۔ اس کو عقل سے کوئی تعلق نہیں۔عقل کو بیکار بدنام کرنا اپنی انسانیت کو دھبا لگانا ہے۔ عقل تو دلیل کی پابند ہے۔ وہ بلادلیل ہرگز کوئی مفروضہ قائم نہیں کرتی۔ نہ کسی بات کا انکار کرتی ہے۔ نہ وہ واقعات کو مشاہدات کا پابند سمجھتی ہے۔نظام قدرت میں مداخلت اور آسمان پر دست درازی اگر اسی کے منشاء سے ہو جو اس نظام کا موجد اور آسمان کا بانی ہے تو ہمارا یا کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ اس کی قدرت کو مان کر اس کی کارفرمائی کا انکار بالکل بعید از انسانیت ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.