روح

222

  پھر اگر جسم کی فنا کے ساتھ وہ باقی رہے تو اس میں عقل کو کیا گنجائش انکار ہے۔ فضا میں اس کی سیرکرنا۔ جسم سے پھر ملحق ہونا۔ وادی السلام یا وادی برہوت میں قیام ہونا، یہ باتیں مذہبی روایات میں وارد ہیں۔ جو کسی عقلی اصول کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن دوسرے جسموں میں حلول کرنا، سر پر آنا، شیطان بننا، ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوا کرنا۔بھوت پریت، برم راکس، اگیابیتال، شہید مرد، نٹ بن جانا، درختوں میں عمارتوں میں ٹھکانا بنا لینا۔ بازاری باتیں ہیں جن کی مذہب پر ذمہ داری نہیں۔ شریر آدمی اس دنیا میں ہیں شیطان ہیں۔ بعد مردن ان کے شیطان بننے کی کوئی اصلیت نہیں دوسرے جسموں میں حلول کرنا آریوں کا آواگون ہے اس کو مذہب اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔اسباب و سامان خانہ داری سے مستفید ہونے کے معنی صرف اتنے صحیح ہیں کہ اگر کسی غریب کو اس کے ذریعہ سے امداد پہنچائی گئی تو اس کا نیک صلہ قدرت کی طرف سے دینے والے کی نیت کے لحاظ سے میت کی روح کو حاصل ہو سکتا ہے جو اخروی نعمتوں کے لباس میں ہو گا۔ایسا ہرگز نہیں کہ یہ دینوی سازوسامان بجنسہٖ روح کے کام آئے۔ اور اس سے وہ فائدہ اٹھائے۔قوت جاذبہ و نامیہ کو روح کہنا غلط ہے اس لئے کہ یہ توپھول پتی گھانس اور درخت میں بھی موجود ہے۔ مگر روح اس میں نہیں مانی جاتی وہ حیوان سے مخصوص ہے۔ اور انسانی روح وہ اس سے خاص ہے۔ہوا کی ضرورت نباتات کے لئے بھی ویسی ہی ہے جیسے حیوان کے لئے پھر اس کی جان کو روح کیوں نہیں کہتے۔پرانے زمانہ کے ریاضت کرنے والے سادھوں برسوں تک سانس روکے رکھنے کی مشق کرتے تھے۔ اس عرصہ میں خارجی ہوا ان کے جسم میں اعضاء کے ذریعہ سے نہیں پہنچتی تھی پھر بھی اس عالم میں روح ان کے جسم میں موجود تھی۔پھر جب وہ چاہتے ہیں تو برسوں کے بعد سانس لے لیتے ہیں ہوا کی آمد نہیں تھی پھر بھی روح موجود تھی اگر روح نہ رہتی تو ہمیشہ کے لئے مر جاتے پھر سانس کیسے لیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ روح کوئی اور چیز ہے۔پھیپھڑوں کی کشش، دل کی حرکت سے ہوا کی آمد ورفت کے ذریعہ فضا کے حیات بخش اجزاء کا پہنچنا، اور برے اور مضر اجزاء کا نکال پھینکنا، خون کا دوران، عناصر کا اعتدال اور امتزاج، اجزاء کی ترکیب اور ترتیب، اندرونی اعضا کا عمل یہ سب روح کے آثار و لوازم ہیں۔ روح کے نکلنے سے یہ تمام مشینری بے کار اور معطل ہو جاتی ہے روز ہزار پرزے بگڑیں جب تک روح ہے اسی وقت تک زندگی قائم رہتی ہے اور نفس کی آمدوشد برقرار رہتی ہے۔قدرت نے عالم کا نظام اسباب پر قرار دیا ہے مگر اپنے سے علاقہ قطع نہیں کیا ہے وہ جب چاہتا ہے اسباب کا نظام بدل دیتا ہے۔ اور نتائج میں تبدیلی کر دیتا ہے۔ اس لئے ہر شے جو فنا ہوتی ہے کسی سبب سے فنا ہوئی مگر پھر خدا کی مشیت کے ماتحت۔ بے شک خصوصی حیثیت سے مشیت کا عمل اس وقت نمایاں ہے جب نظام اسباب کی رفتار کو روکنا اور ان کے رویہ کا بدلنا ہو ورنہ جو عام نوعی نظام جاری کر دیا اسی کے مطابق ہو گا اور اس کے ہر ہر جزو میں خصوصی منشا او رمفاد کے ڈھونڈنے کی ضرورت نہ ہو گی۔ جبکہ بحیثیت مجموعی وہ پورا نظام ایک خاص حکمت اور مصلحت پر مبنی کیا گیا ہے۔بڑے فائدے کے لئے چھوٹے نقصانات گوارا کئے جاتے ہیں اور میزان میں آ کر وہ نقصان نقصان نہیں رہتے بلکہ فائدہ بن جاتے ہیں۔ یہی حالت نظام کائنات کی ہے۔خالق کا کام بے شک بنانا ہے۔ اور بگاڑنا بھی اس کا حقیقت میں بنانا ہی ہوتا ہے۔ کوتاہ نظر انسان اسے بگاڑنا سمجھتا ہے پھر بننے بگڑنے میں خود اسی نے اسباب کا عمل دخل رکھا ہے اسی لئے بیماری میں علاج سے عناصر، اعضا، اعصاب کا امتزاج درست کیا جاتا ہے اور یہ قدرت کے خلاف مقابلہ نہیں قرار پاتا، نہ حفظان صحت کے کالجوں میں اس کے مقابلہ کو امدادی افواج کی تیاریاں ہیں بلکہ یہ سب بھی قدرت کے منشاء پر عملدرآمد ہے۔اس نے ان اسباب کو مقرر کیا ہے اور اس نے ان میں اثر دیا، بے شک وہی کبھی اس اثر کو سلب بھی کر لیتا ہے۔ مگر ہمیں تو عام قانون پر عمل چاہئے اور کامیابی کے لئے پھر بھی قدرت سے لو لگانا چاہئے کہ اسی کی یہ سب فوج ہے اور اسی سے ان افواج کی کامیابی کی ڈھارس ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.