اصول دین

304

اول توحید:خدا ایک ہے اس کا شریک کوئی نہیں۔قدرت جو کائنات کے ذرہ ذرہ میں شامل ہے ذات قادر کا پتہ دے رہی ہے اس حیثیت سے اسی کو قدرت بھی کہہ سکتے ہو کہ اس کی ذات سے الگ قدرت کوئی چیز نہیں۔
دوم عدل:خدا عادل ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک طرف رحیم و غفار ہے اور دوسری طرف قہار۔ عذاب نازل کرنا عدل کا نتیجہ ہے۔ عاصیوں کے گناہوں کی پاداش معصوموں کو نہیں ملتی۔ جو عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں وہ یا گناہ کرنے سے یا بخوشی گناہگاروں کا ساتھ دینے سے۔ رحم بھی عدل کے حدود کے ماتحت ہوتا ہے۔ اتفاقی گناہ کا مرتکب جب کہ دل سے پشیمان ہوا تو رحم کا حقدار ہے اس استحقاق کے درجے مختلف ہیں۔ سرکش اور گناہ پر اصرار رکھنے والا آدمی رحمت کا حقدار نہیں نہ اس پر رحمت کی برش ہے، وہ قہر کا مستوجب ہے اور یہ قہر بھی عدالت کا نتیجہ ہے۔ محل اور موقع جداگانہ ہے۔ ہر ایک کا کردار جدا اور اس کے ساتھ برتاؤ بھی الگ ہے، یہی عین عدالت ہے بے شک عزت و ذلت، بادشاہت اور فقیری، دینا اور لینا، فراغت اور بے فکری سب خدا کے چاہنے سے ہوتی ہے مگر اس کا چاہنا حکمت و عدالت کے اصول کے موافق ہوتا ہے۔ کفار کی جسانی طاقت مقابلہ بھی اسی کی دی ہوئی ہے اگر اس نے ان کے مقابلہ میں اپنے رسول کو فرشتوں کی غیبی طاقت عطا کرکے توازن قائم کر دیا تو اصول عدالت کے خلاف کیا ہے؟کفار کی شرارتوں اور فساد کی طاقتوں کو شکست دینا جس طرح بھی ہو صلاح عالم کا ذریعہ ہے جو عین حکمت کے مطابق ہے۔ عدالت اصول حکمت و مصلحت کے لحاظ ہی کا نام ہے۔ جو شے موافق حکمت ہو وہی عدالت ہے۔جب تک انسان طالب حقیقت رہتا ہے خدا مدد کرتا ہے اور ایسے اسباب فراہم کرتا ہے کہ وہ سیدھے راستے پر آ جائے۔ جب انسان ہٹ دھرمی سے کام لیتا ہے تو خدا اس کی پاداش میں اپنی نگاہ موڑ لیتا ہے اور گمراہی چھوڑ دیتا ہے۔ یہ بداعمالی کی ایک سزا ہے جو اصول عدالت کے مطابق ہے۔ اس نگاہ موڑ لینے کے بعد دلوں کے مرض میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ بھی اپنے کرتوت کا نتیجہ ہے اسی کا نام ڈھیل دینا ہے۔ الٹ پلٹ کرنا بھی کرتوتوں کی بدولت ہے تو عدالت کے خلاف کیا ہے۔ بے شک خدا چاہتا تو جبری طاقت سے کام لیتا، اس صورت میں یہ لوگ شرک نہ کرتے مگر یہ جبر کرنا اصول عدالت کے خلاف ہوتا۔ اسی طرح وہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر ایسا بھی عدالت ہی کی بناء پر نہ ہوا۔ وہ چاہتا تو ایک ہی گروہ بنا دیتا مگر اسے تو ہر ایک کے اختیار عمل کے مطابق اس سے سلوک کرنا ہے۔ جو اپنے اختیار سے گمراہی پر مصر ہیں خدا انہیں گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے، خدا کی توفیق سلب ہونے سے غفلت میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔ یہ آنکھوں پر پردوں کا پڑنا ہے اور بیشک جو اتنا بداعمال ہو کہ خدا اسے گمراہی کے سپرد رہنے دے اور ہدایت سے ہاتھ اٹھا لے تو پر کون اسے راہ راست پر لا سکتا ہے۔ کوئی اسے راہ پر لانے والا نہیں۔ کیونکہ اس کا عناد اور اصرارہدایت کی آواز پر رخ ہی نہیں کرنے دے گا۔اس سے کیا حرف آ سکتا ہے اس قدرت کاملہ کے انصاف پر جو کامل عقل اور مکمل عدل ہے۔
سوم نبوت:نبی کی تصدیق ان خصوصی دلائل اور آیات وبینات کے ذریعہ سے ہو گی جو اس کے کمال صفات اور بلندی ذات اور خداوندی انتساب کے شاہد ہیں۔ انہی دلائل سے اس کے بشیر و نذیر ہونے میں اثر پیدا ہو گا۔ جو اس کے دلائل سے ایمان نہ لائے گا وہ اس کے بشارت و انذار سے اثرپذیر بھی نہیں ہو گا۔
چہارم امامت:پیغمبر کی جانشینی ہے اس لئے پیغمبر کی زبان سے نام کا اعلان کافی ہے۔ قرآن تو مجمل ہدایات کا مجموعہ ہے جس کی تفصیل پیغمبر کے قول و عمل سے ہوئی ہے۔ اسی لئے ہم تنہا قرآن کو ہدایت کے لئے کافی نہیں سمجھتے پھر جو شخص کہ قرآن کو بنی امیہ کی تالیف بتاتا ہو اسے تو قرآن میں ائمہ کے نام ڈھونڈنے کا کوئی موقع ہی نہیں۔ بقول شخصے” قلم در کف دشمن است” بنی امیہ کی تالیف اور اس میں ہمارے ائمہ کے نام، یہ غلط خیال و محال ہے۔
پنجم معاد:یہ جزا و سزا کے لئے انسانوں کی باز گشت ہے۔ اس کے ثبوت کے لئے عقل کا فیصلہ ہے۔ تفصیلی حالات اور بہشت و دوزخ کے کیفیات بے شک نبی کی زبان سے معلوم ہوئے۔ مگر نبی کی سچائی ان کے دلائل نبوت سے جب حاصل ہے تو آئندہ کے لئے ان کا قول ہر طرح سند ہے واقفیت کے لئے ان کا بتلانا کافی ہے۔ خدا کو دیکھا نہیں عقل سے پہچانا ایسے ہی قیامت کو سمجھ لو۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.