عید میلاد (ص) کے تقاضے

217

اے نبی! مسلمانوں سے کہہ دیجئے! اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبے والے اور وہ اَموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہاری حویلیاں جو تمہیں پسند ہیں؛ اللہ، اس کے رسول (ص) اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا امر لے آئے۔”اس آیت میں اللہ تعالٰی نے جن رشتوں کا ذکر کیا ہے، ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے۔ اس لئے انہی چیزوں سے مومنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے۔ اللہ تعالٰی واضح فرما رہے ہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول (ص) کی محبت، ماں باپ اور دیگر عزیز و اقارب سے زیادہ ہو، تب ہی ایمان کا دعویٰ صحیح ہوسکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ دار اور کمائے ہوئے مال اور دنیا کی زمین و جائیداد، تجارت اور پسندیدہ مال خدا اور رسول (ص) اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب و مرغوب ہیں تو خدا کے عذاب کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
محبت اگر قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو “طبعی محبت” کہلاتی ہے اور اگر کسی کے جمال و کمال یا احسان کی وجہ سے ہو تو “عقلی محبت” کہلاتی ہے اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتے کی بنیاد پر ہو تو “روحانی محبت” یا “ایمان کی محبت” کہلاتی ہے۔ رسول اللہ (ص) کے ساتھ “محبتِ طبعی” بھی ہے، عقلی بھی ہے اور روحانی بھی۔ محبت کے اسباب میں سے ایک سبب کمال بھی ہے اور جمال بھی، خواہ یہ ظاہری ہو یا باطنی۔ آپ کا کمال و جمال ظاہری بھی تھا اور باطنی بھی۔ شکل و صورت میں بھی آپ سب سے حسین تھے، جیسا کہ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں:”کان مثل الشمس والقمر (مسنداحمد:۵/۱٠۴ )آپ کا چہرہ آفتاب و ماہتاب جیسا تھا-“ربیع بنت معوذ آپؐ کے بارے میں فرماتی ہیں:”لورأیت الشمس طالعۃ (مجمع الزوائد: ۸/۲۸٠)اگر تم رسول اللہ کو دیکھتے تو ایسے سمجھتے جیسے سورج نکل رہا ہے۔”
آپ کے باطنی جمال و کمال کا کیا کہنا، آپ کو اللہ تعالٰی نے خاتم النّبیین، سید المرسلین، امام الاوّلین و الآخرین اور رحمتہ للعالمین بنایا۔ آپ کے احسانات اُمت پر بے حد و حساب ہیں، بلکہ آپ محسن انسانیت ہیں۔ صاحبِ جمال و کمال کے ساتھ محبت رکھنا اور محبت کا ہونا بھی لازمی امر ہے۔ تاریخ میں بہت سے لوگ اپنے کمالات کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ حاتم طائی، اپنی سخاوت؛ نوشیرواں اپنے عدل و انصاف؛ سقراط و بقراط و افلاطون، اپنی دانائی و حکمت کی بنا پر مرجع خلائق اور لائق محبت تھے۔ مگر آپ (ص) کے جملہ کمالات ان سب سے کئی گنا بڑھ کر تھے، حتٰی کہ تمام انبیاء (ع) میں جو جو خوبیاں تہیں، وہ تنہا آنحضورؐ کی ذاتِ اقدس میں تھیں۔ بقولِ شاعرحسن یوسف، دم عیسٰی، ید بیضا داریآنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری!
رسول اللہ (ص) کے ساتھ سچی محبت کے کچھ بدیہی تقاضے ہیں، جن میں سے کچھ تو ایسے اُمور ہیں جنہیں بجا لانا ضروری ہے اور کچھ ایسے جن سے اجتناب ضروری ہے۔ ہم چند تقاضوں کو بیان کرتے ہیں ایمان کامل کے لئے رسول اللہؐ کی صرف ظاہری اطاعت ہی نہیں بلکہ قلبی تسلیم و رضا بھی ضروری ہے۔فرمانِ باری تعالٰی ہے:﴿فَلاَ وَرَبِّک لاَ یُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکمُوْک فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أنْفُسِہمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (النساء :۶۵”نہیں، تمہارے ربّ کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے، جب تک اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔ پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں، بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کر لیں۔”
صدر اسلام سے لیکر آج تک جن لوگوں نے کہیں بھی رسول خدا (ص) کے فیصلوں اور احکام کو نہیں مانا، چاہے اس وقت جب آپ قلم دوات مانگ رہے تھے یا آپ اعلان غدیر پر عملدرآمد کی بات کر رہے تھے۔ یہ ہماری انتہائی کم نصیبی ہے کہ ہم نے حبِ رسول (ص) کو محض میلاد کی محفل منعقد کرنے اور ذکر رسول (ص) بیان کرنے کی حد تک محدود سمجھ لیا اور اطاعت و اتباع رسول (ص) سے بالکل تہی دامن ہوگئے، اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضور پاک (ص) کی حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو غور سے پڑھیں، سیکھیں، اُسوۂ حسنہ پر عمل کا وہی جذبہ تازہ کریں جو قرونِ اولٰی میں تھا۔ انہوں نے سچے جذبے، عزم اور خلوصِ نیت کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیروی اختیار کی تو قیصر و کسریٰ کے خزانے ان کے قدموں میں تھے۔
حبِ رسول (ص) کے دعویداروں سے یہ بات پھر عرض کرنا ہے کہ اتباعِ سنت اور اطاعتِ رسول (ص) صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ اطاعتِ رسول (ص) ساری کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ نماز کی ادائیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے، اسی طرح اخلاق و کردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ جس طرح روزے اور حج کے مسائل میں اتباع سنت ہونی چاہئے، اسی طرح کاروبار اور باہمی لین دین میں بھی یہ مطلوب ہے۔ ایصال ثواب، زیارت قبور، شادی بیاہ، خوشی و غمی ہر موقع پر اتباع سنت ضروری ہے۔ دشمن کے خلاف جہاد ہو یا حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا معاملہ ہو، سنت رسول (ص) ہر جگہ جاری ہونی چاہئے۔ ہر سال ربیع الاول کا مہنے رحمتوں، برکتوں اور روحانی نعمتوں کا تحفہ لے کر آتا ہے اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کی زندگی میں نئی روح پھونکنے کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن یہ حقیقت بھی ہر لمحے سامنے رکھنا ضروری ہے کہ حبِ رسول (ص) کا تعلق نہ کسی خاص مہینے سے ہے، نہ کسی خاص مقام اور موسم سے۔ یہ تو وہ سدا بہار کیفیت ہے جو ایمان کے لمحے لمحے سے زندگی کے آخری سانس تک مومن کا سرمایۂ زیست ہے، شرط ایمان ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای آج کے دن کی مناسبت سے فرماتے ہیں “آج کا دن سترہ ربیع الاول کا دن نبی مکرم کی ولادت کا دن تاریح انسانیت میں بشر کی سب سے بڑی عید کا دن قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس دن اللہ تعالٰی نے بشریت اور تاریخ بشریت کو اس عظیم انسان کے تحفے سے نوازا اور اس عظیم ہستی نے الہی مہم کے تمام تر تقاضے پورے کئے۔
آج ہم مسلمان اگر پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت پر اپنی توجہ مرکوز کر لیں، اس کے بارے میں غور و خوض کریں، اس سے درس حاصل کرنے کی کوشش کریں تو ہمارے دین و دنیا کے لئے یہی کافی ہوگا۔ اپنے وقار رفتہ کی بحالی کے لئے اس وجود پر نگاہوں کو مرکوز کرنا، اس سے درس لینا اور اس سے سیکھنے کی کوشش کرنا ہی کافی ہوگا۔ یہ شخصیت مظہر علم تھی، دیانتداری کا آئینہ تھی، اخلاق کا مجسمہ تھی، انصاف کا معیار تھی۔
انسان کو اور کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ انسانی ضرورتیں تو یہی چیزیں ہیں۔ یہ ایسی انسانی ضرورتیں ہیں جو پوری تاریخ بشر میں کبھی تبدیل نہیں ہوئی ہیں۔ آغاز خلقت سے تاحال انسانوں کی زندگی میں بے شمار تغیرات پیدا ہوئے، تبدیلیاں آئیں، جن سے زندگی کے حالات، زندگی کے امور دگرگوں ہوکر رہ گئے، لیکن بشر کے اصلی مطالبات اور احتیاجات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ انسان روز اول سے ہی سکون اور ذہنی آسائش کی فکر میں تھا، انصاف کی تلاش میں تھا، اخلاق حسنہ کی جستجو میں تھا، خالق ہستی سے مستحکم رابطے کا متمنی تھا، یہی بشریت کی اصلی ضرورتیں ہیں، اور ان ضرورتوں کا سرچشمہ اس کی فطرت و سرشت ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات ان تمام خصوصیات کی آئینہ دار ہے۔ ہم مسلم امہ کو آج ان تمام خصوصیات کی ضرورت ہے۔ امت اسلامیہ کو آج علمی پیشرفت کی ضرورت ہے، اللہ تعالٰی کی ذات پر مکمل اطمینان رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں صحت مند روابط اور اخلاق حسنہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں آپس میں برادرانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لینا چاہئے۔ ان تمام خصوصیات کا بھرپور آئینہ پیغمبر اکرم کی ذات ہے۔ آپ کا علم، آپ کا حلم، آپ کی چشم پوشی، آپ کی رحمدلی، کمزور طبقے کے لئے آپ کی شفقت، معاشرے کے تمام افراد کے حوالے سے آپ کا عدل و انصاف، ان تمام خصوصیات کا مجسمہ پیغمبر اکرم (ص) کی شخصیت ہے۔ ہمیں پیغمبر (ص) سے درس لینا چاہئے، ہمیں ان خصوصیات کی ضرورت ہے۔
آج ہمیں اللہ تعالٰی پر اپنا یقین پختہ کرنے کی ضرورت ہے، اللہ پر اطمینان رکھنے کی ضرورت ہے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالٰی نے وعدہ کیا ہے، فرمایا ہے کہ اگر مجاہدت کروگے، اگر محنت کروگے، تو اللہ تعالٰی تمہیں منزل مقصود تک پہنچائے گا اور تم استقامت کے زیر سایہ اپنے اہداف حاصل کر لوگے۔ دنیاوی خواہشات کے مقابل ہماری قوت ارادی میں تزلزل نہیں پیدا ہونا چاہئے، مال و مقام کے معاملے میں اسی طرح دوسرے گوناگوں وسوسوں کے سامنے ہماری بے نیازی میں کوئی کمزوری نہیں پیدا ہونی چاہئے۔ یہی چیزیں انسانیت کو کمالات کے مقام اوج پر پہنچاتی ہیں، کسی بھی قوم کو وقار کی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہیں، کسی بھی معاشرے کو حقیقی سعادت و کامرانی سے ہمکنار کرسکتی ہیں۔ ہمیں ان چیزوں کی شدید احتیاج ہے اور ان صفات کا مرقع ہمارے پیغمبر کی ذات ہے۔
ہمارے نبی مکرم (ص) کی پوری زندگی ایسی ہے، آپ کا بچپن بھی دیدنی ہے، آپ کی نوجوانی کا دور بھی اور بعثت سے قبل کے سال بھی بے مثال ہیں۔ آپ کی دیانتداری کا یہ عالم ہے کہ پورا قبیلہ قریش اور آپ سے واقفیت رکھنے والا ہر عرب آپ کو امین کے لقب سے یاد کرتا تھا۔ لوگوں کے بارے میں آپ کا انصاف، آپ کی عادلانہ نگاہ ایسی ہے کہ جب حجر الاسود کو نصب کرنے کا موقعہ آتا ہے اور عرب قبائل اور گروہوں میں تصادم کی نوبت آجاتی ہے، تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے تو فیصلے کے لئے آپ کا انتخاب کرتے ہیں، حالانکہ اس وقت آپ نوجوانی کے دور میں تھے۔ یہ آپ کی انصاف پسندی ہے، جس کے سب معترف تھے۔ آپ کو صادق و امین مانتے تھے۔ یہ آپ کی نوجوانی کا دور ہے۔ اس کے بعد بعثت کا دور آیا تو آپ کا ایثار، آپ کی مجاہدت اور آپ کی استقامت سامنے آئی۔ اس دور میں سارے لوگ آپ کے مخالف تھے، آپ کے خلاف محاذ آرائی کر رہے تھے، آپ کے برخلاف سمت میں حرکت کر رہے تھے، آپ کی دشمنی پر تلے ہوئے تھے، کتنی سختیاں پڑیں، مکہ کے تیرہ سال کتنی دشواریوں میں گزرے، لیکن پیغمبر (ص) کے پائے ثبات میں جنبش نہ آئی، آپ کی اسی استقامت کا نتیجہ تھا کہ مضبوط ارادے کے مالک مسلمان وجود میں آئے جو ہر دباؤ اور سختی کو مسکرا کر گلے لگاتے تھے۔ یہ سب ہمارے لئے درس ہیں۔ اس کے بعد مدنی معاشرہ تشکیل پایا۔ آپ نے دس سال سے زیادہ حکومت نہیں کی، لیکن ایسی عظیم عمارت تعمیر کر دی کہ صدیاں گزر گئیں مگر علم و دانش میں، تہذیب و تمدن میں، روحانی ارتقاء میں، اخلاقی کمالات میں اور دولت و ثروت میں انسانیت کا نقطہ عروج آج بھی وہی معاشرہ ہے۔ وہی معاشرہ جس کا خاکہ پیغمبر (ص) اسلام نے کھینچا اور جس کی داغ بیل آپ کے دست مبارک سے پڑی۔ البتہ بعد میں مسلمانوں نے تساہلی برتی تو ان پر ضربیں پڑیں۔ ہم مسلمانوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی پسماندگی کا سامان مہیا کیا۔ اب اگر ہم پھر آنحضرت (ص) کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں تو ایک بار پھر ترقی کریں گے۔ آج امت اسلامیہ کو اتحاد کی ضرورت ہے، باہمی جذبہ ہمدردی کی ضرورت ہے، باہمی آشنائی کی ضرورت ہے۔ آج عرب اور اسلامی دنیا میں جو عوامی انقلابات آ رہے ہیں، قوموں کی رگوں میں بیداری خون کی مانند گردش کر رہی ہے، میدان عمل میں قومیں وارد ہو رہی ہیں، امریکہ اور استعماری نظام کو جو بار بار ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے، صیہونی حکومت پر روز بروز کمزوری طاری ہو رہی ہے، یہ سب مسلمانوں کو حاصل ہونے والے اہم ترین مواقع ہیں۔ یہ امت اسلامیہ کے لئے سنہری موقعہ ہے۔ ہمیں ہوش میں آنے کی ضرورت ہے، درس لینے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امت اسلامیہ کی بلند ہمتی سے، روشن فکر حضرات، علمی شخصیات، سیاسی و مذہبی قائدین کی قوت ارادی کی برکت سے یہ تحریک آگے بڑھے گی اور عالم اسلام کے وقار کا دور ایک بار پھر پلٹ آئے گا۔اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اس دن کو قریب سے قریب تر لائے اور ہم سب کو توفیق عنایت فرمائے کہ اس تحریک میں شریک ہوں اور اس کا جز قرار پائیں۔والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.