حکومت کے مخصوص کام اور عوام الناس کے ھاتھ بٹانے پر اسلام کا زور

244

 “اسلامی سیاسی نظریھ” کی گفتگو دو حصوں میں تقسیم ھوتی ھے جس کے پھلے حصے میں قانون اور قانونگذاری کے سلسلہ میںبحث ھوچکی ھے اس کا دوسرا حصہ حکومت اور نظام اسلامی میں قوانین کے نفاذ کی ضمانت سے مر بوط ھے ھم نے گذشتہ گفتگو میں حکومت کی ضرورت کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں اسلامی حکومتی سسٹم کو ثابت کیا اور ھم نے حکومت کی ضرورت کے سلسلہ میں ایک دلیل یہ پیش کی کہ چونکہ قوانین کو جاری کرنے کے لئے ایک ضامن کی ضرورت ھوتی ھے، اور یہ بھی عرض کیا کہ اگر قوانین کو جاری کرنے کی کوئی ضمانت نہ ھو تو پھر ان (قوانین) کا ھونا لغو اور بے ھودہ ھوجائے گا، اور چونکہ معاشرہ میں ھمیشہ جرائم اور قانون شکنی ھوتی رھتی ھے (اگر قوانین کی ضمانت اجرائی نہ ھو) تو پھر ان قانون کو بنانے کا مقصد ختم ھوجاتا ھے چنانچہ یہ ایک ایسی بات ھے جس پرھمیشہ تمام ھی ملتوں نے تجربہ کیا ھے اور اسلامی منابع و کتب کے لحاظ سے بھی اس میں کوئی شک وتردید نھیں ھے۔
2۔ حکومت کے عظیم اور مخصوص کامقارئین کرام ! جیسا کہ ھم بعد میں ذکر کریں گے کہ حکومت کی ضرورت کے لئے ؛ قوانین کی ضمانت اجرائی کے علاوہ بھی دیگر دلائل موجود ھیں کہ ان تمام دلائل کے پیش نظر حکومت کے وظائف کے مجموعہ کو بیان ، اور ان کی منطقی توجیہ کرنا اسی طرح حکومت کے اختیارات کو بیان کرنا ممکن ھے کیونکہ اگر صرف حکومت کا کام قوانین کو جاری کرنے کی ضمانت ھوتی تو پھر اس طرح کے پیچ وخم والے سسٹم کی ضرورت نہ ھوتی اور صرف محکمہ پولیس کے ذریعہ یہ مسئلہ حل ھوسکتا تھا، اور حکومت کی دوسرے اجتماعی کاموں میں کوئی دخالت نہ ھوتی کیونکہ اس صورت میں حکومت کی ذمہ داری صرف ملک میںقوانین کوجاری کرنا ھوتا جس کے لئے صرف پولیس ھی کافی تھی لیکن حکومتوں کی منجملہ اسلامی حکومت کی دوسری بھی ذمہ داریاں ھوتی ھیں جن میں سے اسلامی معاشرہ کی ان عام ضرورتوں کو پورا کرنا ھے جو انفرادی طور پر ممکن نھیں ھیں۔ھم کبھی انسان کی زندگی کو شخصی اور انفرادی حیثیت سے دیکھتے ھیں اور اس کی ضرورتوں کی جستجو کرتے ھیں تو ظاھراً یہ ضرورتیں خود شخصی طریقہ سے پوری ھونا چاھئے مثلاً روٹی اور مکان کی ضرورت، اور یہ چیزیں خود انسان کی سعی وکوشش سے پوری ھوجاتی ھیں البتہ انسان کی انفرادی سعی و کوشش کا ثمر بخش ھونے کے لئے قاعدہ وقانون کے ما تحت ھونا ضروری ھے۔لیکن کچھ ضرورتیں انسان اور اھل خانہ سے متعلق نھیں ھوتیں بلکہ وہ پورے معاشرہ یامعاشرہ کے کسی خاص گروہ سے متعلق ھوتی ھیں مثلاً اندرونی اور بیرونی امنیت ایک عام ضرورت ھے ،کیونکہ اندرونی دشمنی، قانون شکنی اور نا امنی سے مقابلہ کرنے کے لئے نیزاسلامی ملک کے عھدہ دار افراد کے جو بیرونی دشمن ھیں ان سے جنگ کے لئے فوج کی تشکیل دینا وغیرہ ؛ یہ چیزیں معاشرہ کے بعض افراد سے متعلق نھیں ھیں، بلکہ تمام ھی افراد سے متعلق ھیں اور چونکہ اس طرح کی ضرورت معاشرہ کے بعض افراد کے بس کی بات نھیں ھے، بلکہ یہ کام معاشرہ کے تمام افراد کے ذریعہ پورا ھونا چاھئے، جن کو حکومت معاشرہ کی طرف سے قوانین کو مرتب کرنے اور ضروری طریقوں کو بروئے کار لاتے ھوئے انجام دی سکتی ھے۔ظاھر سی بات ھے کہ جس وقت معاشرہ کے لئے سرحدی علاقےسے کوئی خطرہ در پیش ھوتا ھے اور عوام الناس اس خطرہ سے مقابلہ کرنا چاھتے ھیں، تو ان کو صحیح طریقہ سے ٹریننگ دی جائے ، یعنی در حقیقت جنگ اور دفاع میں شرکت کرنے والے تمام لوگوں کو ایک سسٹم کے ماتحت ھونا چاھئے کیونکہ یھاں پر ذاتی اور شخصی سلیقہ کا کوئی فائدہ نھیں ھوتا لھٰذا ھر شخص اپنے سلیقہ سے دشمن کے حساب شدہ حملوں کو نھیں روک سکتا اسی وجہ سے فوجی افسروں کے تجربوں ، دشمن کے اسلحوں اور اس کی طاقت کی شناخت کے ذریعہ بھترین پلان کے ساتھ میدان جنگ میں قدم رکھا جانا ضروری ھے لھٰذا اس اھم ضرورت کو صرف ایسا سسٹم ھی پورا کرسکتا ھے جو پورے معاشرہ پر حکومت کرتا ھو چنانچہ حکومت اپنے خاص پروگرام کے ذریعہ ھی لوگوں کو جنگ میں شرکت کرنے کے لئے تیار کرسکتی ھے تاکہ ملک سے دشمن کا خطرہ ٹل جائے اس کے علاوہ بیرونی دشمن کے مقابلہ کی تیاری کے پیش نظر لازمی اسلحہ کی فراھمی ضروری ھے، اور حکومت کو فوج کی ٹریننگ پر خاص دھیان رکھنا ضروری ھے تاکہ ملک میں سرحدوں کی حفاظت کرنے والی فوج کی تعداد کافی مقدار میں آمادہ رھے، اسی طرح اندرونی فتنہ وفساد سے روک تھام کے لئے پولیس کی ضرورت ھے لھٰذا اس طرح کے مسائل صرف حکومت ھی کرسکتی ھے، لھٰذا عوام الناس حکومت کی اطاعت کریں، اور اس کے احکام کو لازم الاجراء مانیں۔جو مثال ھم نے حکومت کی ضرورت پر دلیل دوم(یعنی معاشرہ کی عام ضرورت) کے تحت پیش کی وہ ملک سے دفاع اور بیرونی دشمن سے مقابلہ کے سلسلہ میںھے اور ھمارے ملک میں یہ خطرناک وظیفہ ارتش اور سپاھ(فوجوں کے نام) کے ذمہ ھوتا ھے، اسی طرح وہ مثال جس کو ھم نے دلیل اول (یعنی قوانین کی اجرائی ضمانت) کے سلسلہ میں ذکر کی وہ اندورنی امنیت کی حفاظت اور مجرموں کو قانون پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کے لئے طریقوں کے سلسلہ میں ھے ،اور یہ ذمہ داری نیروئے انتظامی ( پولیس) کے کاندھوں پر ھوتی ھے۔اِن ھی عام ضرورتوں میں سے جو عام افراد کے ذمہ داری سے باھر ھوتی ھیں اور انھیں بھی حکومت انجام دیتی ھے وہ معاشرہ کی صحت وسلامتی کا مسئلہ ھے کیونکہ ھمیشہ معاشرہ میں پھیلنے والی بیماریاں موجود رھی ھیں جن کی وجہ سے بھت بڑے بڑے نقصانات معاشرہ کو اٹھانا پڑے ھیں، اور اگر ان کی روک تھام نہ کی جائے تو معاشرہ کو کافی نقصان اٹھانا پڑے گا (اور بے شمار جانیں چلی جائیں گی) جیسا کہ گذشتہ زمانہ میں میڈیکل ترقی نہ ھونے اور عظیم پیمانہ پر منصوبہ بندی نہ ھونے کی بنا پر معاشرہ میں پھیلنے والی بیماریاں پائے جاتی تھیں مثلاً “وبا” ، “طاعون” اور “چیچک” وغیرہ جن سے بھت سی جانیں جاتی تھیں لیکن آج کل حکومتی پروگرامس وغیرہ کے تحت اور میڈیکل کے ترقی کی وجہ سے اس طرح کی بیماریوں پر کافی حد تک کنٹرول کیا گیا ھے اور حکومت کی مدد نیز تمام عوام الناس کے تعاون اور شرکت سے بعض مذکورہ بیماریوں کی جڑ ھی ختم کردی گئی ھے مثلاً گذشتہ زمانہ میں بچوں میں فالج کا اثر بھت زیادہ ھوتا تھا جس کی وجہ سے ھزاروں اور لاکھوں معصوم بچوں کی جانیں ضایع ھوچکی ھیں لیکن آج بھترین منصوبہ بندی اور میڈیکل وغیرہ کے پروگرامس کے تحت ھمارے ملک میں “واکسیناسین” “vaccinatin” کا پروگرام بھترین طریقہ سے جاری ھوا ھے جس کے نتائج بھی بھترین برآمد ھوئے ھیں لیکن یہ کام بغیر حکومتی منصوبہ بندی اور عوام الناس کی بھر پور شرکت کے بغیر ممکن نھیں ھے تو ایسے کاموں کے لئے عام افراد کی قدرت سے بالا تر ایک قدرت کا ھونا ضروری ھے، اوروہ حکومت ھے جواپنے پروگرام کے تحت، ضروری وسائل کے ساتھ اور ضروری مقررات اورمخصوص قانون نامہ مرتب کرکے عملی میدان میں قدم آگے بڑھائے اور عوام الناس بھی حکومت کے قوانین پر عمل کرے، تاکہ معاشرہ کی میڈیکل ضرورت پوری ھوجائے اور معاشرہ سے خطرناک بیماری کی جڑیں ختم کی جاسکے۔قارئین کرام ! حکومت کے گذشتہ وظائف کی طرح منشیات کادھندہ کرنے والے افرادکا بھی مقابلہ کرنا ھوتا ھے کیونکہ یہ ایک ایسی بلا ھے جس سے بدن ،روح اور معاشرہ کی امنیت کو بھت بڑے نقصانات پھونچے ھیں، اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ حکومت خاص منصوبہ بندی کے تحت اور اپنی پوری طاقت صرف کرکے ھی اس برائی کی جڑ کو اکھاڑ پھینک سکتی ھے اس میں محدود افراد کی کوشش کسی نتیجہ پر نھیں پھونچ سکتی۔پس معاشرہ کی عام ضرورتوں کو پورا کرنا حکومت کے وجود پر ایک دوسری دلیل ھے کیونکہ ان کا پورا ھونا معاشرہ کےلئے مفید اور ثمر بخش ھے، اور اگر ان کے پورا ھونے میں کوئی نقص اور خلل واقع ھو تو پھر اس کا نقصان بھی معاشرہ ھی کو بھگتنا پڑے گا، اور جیساکہ ھم نے عرض کیا کہ یہ ضرورت انفرادی طور پر پوری نھیں کی جاسکتی بلکہ یہ کام معاشرہ پر حکومت کرنے والے حاکم اور وزراء کا ھے، اسی وجہ سے ان تمام ضرورتوںکے پیش نظر یا ان ذمہ داریوں کے الگ الگ ھونے کی وجہ سے ھر ایک کے لئے سلسلہ میں ایک وزراتخانہ تشکیل دیا جاتا ھے۔البتہ معاشرہ کی بعض ضرورتوں کو انفرادی طور پر پورا کیا جاسکتا ھے لیکن ان کو پورا کرنے کے لئے تمام افراد میں خواھش اور تمنا نھیں ھوتی یا اگر ھوتی بھی ھے تو وہ اتنی زیادہ نھیں ھوتی ، تو اگر اس صورت میں عوام الناس پر یہ کام چھوڑ دئے جائیں تو پھر یہ ضرورتیں ناقص رہ جاتی ھیں، کم سے کم معاشرہ کے بعض گروہ ان ضرورتوں سے محروم رہ جائیں گے، اسی وجہ سے یہ ذمہ داریاں حکومت کی ھوتی ھیںتاکہ ان ضرورتوں میں کوئی نقص اور خلل واقع نہ ھو مثلاً پورے ملک میں عوام الناس خود ھی مدرسہ ، اسکول اور کالج بنا کر تعلیم وتربیت کا انتظام کرسکتے ھیں اور ان کا خرچ بھی خود ھی برداشت کرسکتے ھیں، (جیسا کہ گذشتہ زمانہ میں ایسا ھی ھوتا تھا اور آج کل بھی بعض ترقی یافتہ ممالک میں مدارس اور کالج وغیرہ کا انتظام عوام الناس کے ذمہ ھے) لیکن افسوس تعلیم وتربیت پر خرچ کرنے کے لئے کم ھی لوگ تیار ھوتے ھیں تاکہ خود ان کے بچوں اور دیگر بچوں کی تعلیم کا انتظام ھوسکے اگرچہ ھم اس بات کے منکر نھیں ھیں کہ کوئی اس طرح کے امور میں خرچ نھیں کرتا بلکہ ھمیشہ تاریخ میں ایسے مخیر افراد موجود رھے ھیںاور آج بھی بعض ایسے مخیر حضرات موجود ھیں جنھوں نے مدرسہ بنانے کے لئے بھت زیادہ مدد کی ھے، لیکن ان کی مدد محدود ھوتی ھے ، معاشرہ کے تمام لوگوں تک ان کی خدمت نھیں پھنچ سکتی، اور اگر حکومت اس طرح کی ذمہ داریوں کو ایسے مخیر افراد کے اوپر چھوڑدے تو پھر معاشرہ کی مصلحت پوری نھیں ھوگی۔ایسے حالات میںجب عوام الناس مدارس واسکول بنانے کی ذمہ داری اپنے اوپر نھیں لیتی ، تو پھر معاشرہ کی فلاح وبھبود کے لئے حکومت کو یہ ذمہ داریاں اپنے ذمہ لینا پڑتی ھیں، تو پھر اس چیز کی ضرورت ھے کہ ان تمام ضرورتوں کا خرچ یا عوام الناس ادا کرے اور حکومت مختلف قسم کے ٹیکس کے ذریعہ یہ مبلغ حاصل کرے ، یا حکومت اپنی ملّی درآمد کے ذریعہ اس خرچ کو پورا کرے؛ کیونکہ تعلیمی نصاب کا ایک حصہ تمام لوگوں تک مفت پھنچانے کی ضرورت ھے تاکہ معاشرہ فلاح وبھبود کی طرف آگے بڑھے اور اگر حالات بدلے اور تعلیمی اداروں کے اخراجات کو بعض مخیر حضرات برداشت کرنے کے لئے تیار ھوں تو پھر واقعاً حکومت سے ایک بڑا بوجہ کم ھوجائے گا۔
3۔ حکومت کے دو طرفہ وظائفقارئین کرام ! گذشتہ باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ بعض ایسی ذمہ داریاں ھوتی ھیں جو حکومت سے مخصوص نھیں ھوتی بلکہ حکومت خاص حالات میں ان کو قبول کرتی ھے اور ان کو پورا کرنے میں اپنی ھمت لگادیتی ھے، جبکہ بعض حالات میں ان کو عوام الناس کے سپرد کیا جاسکتا ھے لیکن بعض ایسی ذمہ داریاں ھوتی ھیں جو صرف حکومت ھی سے مخصوص ھوتی ھیں اور کبھی بھی حکومت کے عھدہ سے باھر نھیں ھوتیں اور کسی بھی وقت حکومت کو یہ حق حاصل نھیں ھے کہ ان کو عوام الناس کے کاندھوں پر ڈال دے، مثلاً دفاع اور جنگ کیونکہ انفرادی اور مختلف گروہ کے ذریعہ کبھی بھی جنگ اور دفاع ممکن نھیں ھے ، لھٰذا اس بات کی ضرورت ھے کہ بھترین منصوبہ بندی کے تحت معاشرہ کی اس اھم ضرورت کو پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ھوتی ھے البتہ جب حکومت دفاع اور جنگ کی ذمہ داری قبول کرلے، اور براہ راست اس سلسلہ میںمنصوبہ بندی مکمل کرلے تو پھر عوام الناس اپنی مرضی سے فوجی اور بسیجی ( عوامی رضاکار فوج) جنگ میں شرکت کرسکتی ھے اور اپنے اسلامی ملک اور اسلامی حکومت سے دفاع کرسکتی ھے۔لھٰذا تمام اجتماعی کاموں کوانجام دینے کی ذمہ داری اپنے کاندھے پر لینے کی کوئی ضرورت نھیں ھے؛ بلکہ بھت سی ذمہ داریوں کو خود عوام الناس اپنے عھدہ پر لے سکتی ھے اور اپنی مرضی سے ان کے اخراجات کو برداشت کرسکتی ھے اور ان کاموں کے انجام دینے کے لئے (بھی) وزارت خانہ بنانے کی کوئی ضرورت نھیں ھے، بلکہ عوام الناس خود اس ذمہ داری کو نبھاسکتی ھے لیکن ان عظیم منصوبوںکو منظم کرنے ،بے نظمی سے بچنے اور ان میں عوام الناس کی شرکت کو بروئے کار لانے نیز ان کو اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے؛ حکومت کو چاھئے کہ اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرے، جیسا کہ بعض وزارت خانہ صرف نظارت کا کردار ادا کرتے ھیں جبکہ اصل کام عوام الناس کرتی ھے مثلاً محکمہ تجارت کا اصل کام تجارت نھیں ھے اندرونی اور بیرونی تجارت عوام الناس انجام دیتے ھیں البتہ جیسا کہ شاہ کے زمانہ میں درباری لوگ ھی معاملات سے بڑے بڑے فائدہ اٹھاتے تھے اور عوام الناس ان فوائد سے محروم رھتی تھی، لھٰذا اس طرح کی تجارت سے روک تھام کے لئے یہ کام حکومت کے ذمہ ھوتا ھے۔جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ تجارتی امور عوام الناس سے متعلق ھیں حکومت سے نھیں جیسا کہ معروف ھے کہ “حکومت ایک مناسب تاجر نھیں ھوسکتی” اور اگر حکومت براہ راست تجارتی امور کو انجام دےنے (بھی) لگے، تو اس کو شکست اٹھانا پڑے گی کیونکہ تجارتی اور صنعتی امور بلکہ کلی طور پر اقتصادی امور میں افراد اور گروہ کی آپس میں رقابت (مقابلہ،کمپٹیشن) بھت ھی زیادہ موثر ھوتی ھے، اور اگر ان کو صحیح طریقہ پر راھنمائی ھوتی رھے اور ان کے درمیان مقصد معین رھے تو پھر تجارت اور صعنت میں ترقی ھوگی ، لیکن اگر حکومت خود براہ راست تجارت کرے تو پھر اس کے اندر وہ مقصد نھیں ھوتا جس کے نتیجہ میں ترقی نھیں ھوگی۔”ٹوٹالیٹر” “Totalitair”(1) حکومت یا متحدھحکومتیں مثلاً سوسیالیسٹ “Socialiste” اور کمیونسٹ “communiste” حکومتیں جو ” چین” او ر”کوبا” پر حاکم تھی یا قدیم روس کی حکومتیں یا مشرقی ممالک کی وہ حکومتیں جن میں حکومت براہ راست تمام تر سیاست گذاری اور پروگراموں کو اپنے ھاتھوں میں لے لیتی ھے اور عوام الناس اقتصادی ، تجاری، صنعتی اور کاشتکاری وغیرہ میں صرف نوکروں کا کردار ادا کرتی ھے کیونکہ تمام کام حکومت کے ذمہ ھوتے ھیں اور تمام عوام الناس یھاں تک کہ کاشتکار اور کارخانوں میں کام کرنے والے افراد حکومت کے نوکر اور مزدوروں کی طرح ھوتے ھیں لیکن اس طرز کی حکومت کے مقابلہ میں اسلامی حکومت کا نظریہ یہ ھے کہ جھاں تک عوام الناس مختلف مسائل کو خود اپنے آپ انجام دے سکتے ھیں اس پر چھوڑ دیا جاتا ھے اور ان کی مالکیت اور ان کے استقلال کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ھے۔
4۔ کم در آمد لوگوں کو مدد پھنچانے والی کمیٹیوں کی ضرورتقارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے عرض کیا معاشرہ میں عام طور پر فائدہ کے لئے کچھ مرکز ھونا چاھئیں تاکہ وہ غریب لوگ جو اپنی بعض ضرورتوں کو پورا نھیں کرسکتے ان مرکزوں سے استفادہ کرسکیں مثلاً ایسے ھاسپٹل بنائے جائیں جھاں پر ان کے لئے مفت علاج کیا جاسکے کیونکہ ان میں علاج کے اخراجات کو ادا کرنے کی صلاحیت نھیں ھوتی، اسی وجہ سے بیمہ اجتماعی کے قوانین کے تحت ھاسپٹل بنائے جاتے ھیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے ھاسپٹل کی تعداد کافی مقدار میں ھوتی ھے، جن میں مریضوں کو اپنے علاج کے لئے اخراجات ادا نھیں کرنے پڑتے، اور حکومت ٹیکس وغیرہ یا اپنی ملّی درآمد کے ذریعہ ان ھاسپٹلوں کا خرچ حاصل کرتی ھے۔ظاھر سی بات ھے کہ جس وقت حکومت اپنی درآمد کے لئے ٹیکس مقرر کرتی ھے مثلاً عمومی بیمہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ٹیکس وصول کرتی ھے تو پھر عوام الناس کو یہ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کرتی ھے ، خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں ایسے طریقے اپناتی ھے جن سے عوام الناس ٹیکس ادا کرنے سے فرار نھیں کرسکتے، اگرچہ بعض فوائد ٹیکس دینے والے کے حق میں بھی ھوتے ھیں، لیکن معاشرہ کے کم در آمد والے افراد کے لئے یہ امکانات فراھم کئے جاتے ھیں، تاکہ ٹیکس سسٹم کے تحت مفت علاج اور دوسری خدمات حاصل کرسکیں۔لیکن کیا یہ کام عوام الناس پر چھوڑ دینا بھتر ھے کہ وہ خود اپنی مرضی سے عام فائدوں کے لئے اس طرح کے کام انجام دیں اور اسپتال وغیرہ بنائیں تاکہ کم در آمدوالے افراد ان میں جاکر اپنا مفت علاج کراسکیں؟ یا حکومت لوگوں سے ٹیکس وغیرہ حاصل کرکے کم در آمد والے افراد کے لئے ھاسپٹل وغیرہ بنوائے تاکہ وہ لوگ مفت علاج کراسکیں؟جواب یہ ھے کہ بے شک پھلی صورت بھتر اور مناسب تر ھے کیونکہ احکام اسلامی فلسفہ میں اس چیز پر توجہ دی گئی ھے اور مقام تشریع احکام میں بھی مد نظر قرار دیا گیا ھے ، کیونکہ اسلام نے اس بات پر تاکید کی ھے عوام الناس کو اپنے مال کے ایک حصہ کو عام فائدہ کاموں میں خرچ کرنا چاھئے اور اپنی مرضی اور شوق کے ساتھ دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پھنچائیں، کیونکہ اس صورت میں نیک عمل کو اختیار کرنے کی اھمیت بھی ظاھر ھوجاتی ھے اور انسان ،نفسانی کمال اور آخرت میں ثواب کا مستحق ھوتا ھے نیز اس طرح معاشرہ کی ضرورتیں بھی پوری ھوجاتی ھیں لیکن اگر عوام الناس کو اپنے مال کے کچھ حصے کو خرچ کرنے پر مجبور کیا جائے تو اس میں عمل کو اختیار کرنے کی اھمیت ختم ھوجاتی ھے اور اس میں ثواب بھی نھیں ھوتا۔اِن ھی نیک کاموں میں سے ایک کام یہ ھے کہ ھمارے مخیر مسلمان برادران رضاکارانہ طور پرھمیشہ بعض چیزیں وقف کرتے ھیں کہ جس سے معاشرہ میں فوائد رھے ھیں، یھاں تک کہ یہ بھی کھا جاسکتا ھے کہ اس ملک میں ایسا کوئی دیھات، بستی اور شھر نہ ھوگا جس سے عوام الناس کے لئے کوئی وقف نہ ھو لیکن اس عظیم اور خدا پسند کام میں آج کل رغبت کم ھوگئی ھے جس کی بنا پر وقف کا سلسلہ کم ھوگیا ھے اس کے علاوہ بھت سے ایسے وقف ھیں کہ یا تو وہ بھلادئے گئے ھیں یا ان سے صحیح طریقہ سے فائدہ نھیں اٹھایا جارھا ھے جب کہ اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ اگر دوبارہ وقف کا سلسلہ شروع ھوجائے اور اس عظیم مسئلہ کی اھمیت عوام الناس پھچان لیں تو پھر حکومت بعض ذمہ داریوں سے سبکدوش ھوجائے گی اور عوام الناس بھی ثواب کی مستحق ھو گی جس وقت کوئی شخص اپنی مرضی اور رغبت سے کوئی کام انجام دے یا وہ کام جس مقدار میں اختیاراور آزادی کے ساتھ انجام دیا جائے تو اس کا ثواب بھی زیادہ ھوتا ھے۔جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ وہ امور جو حکومت سے مخصوص نھیں ھیں اور ان میں اصل یہ ھے کہ عوام الناس رضاکارانہ طور پر انجام دیں اور اپنی اجتماعی ضرورتوں کو پورا کریں، اور یہ کام عوام الناس کے سپرد کیا جائے، لیکن اگر عوام الناس اس کام کو انجام نہ دے اور اجتماعی ضرورتیں رضاکارانہ طور پر انجام نہ ھوپائیں تو اس وقت حکومت کی ذمہ داری یہ ھے کہ وہ خاص قوانین بنا کر عوام الناس کو ٹیکس وغیرہ دینے پر مجبور کرے تاکہ معاشرہ کی ضرورتوں کا مکمل خرچ پورا ھوجائے۔
5۔ عوام الناس کی شرکت پر اسلام کی توجہیہ بات عرض کردینا ضروری ھے کہ عوام الناس پر بعض امور کی ذمہ داری کا رکھنا، اور مختلف قسم کے کاموں میں سبھی کی شرکت کا راستہ ھموار کرنا، مثلاً معاشرہ کی بھت سی ضرورتوں کو پورا کرنا، یہ تمام “جامعہ مدنی “(جیسا کہ ذیل میں وضاحت کی جائے گی) کے خصوصیات ھیں البتہ جامعہ مدنی اور مغرب سے آئی ھوئی بھت سی دیگر اصطلاحات کے مختلف معنی کئے جاتے ھیں، اسی وجہ سے ان اصطلاحات سے ناجائز استفادہ کیا جاتا ھے، لیکن ھم ان اصطلاحات کو اپنے اعتبار سے قبول کرتے ھیں، مثلاً جامعہ مدنی کے مختلف بلکہ بعض موقع پر ایک دوسرے کے مخالف معنی کئے جاتے ھیں، چنانچہ جامعہ مدنی کے ایک معنی یہ ھیں کہ حتی المقدور معاشرہ کے امور خود عوام الناس کے سپرد کئے جائیں، اور ان میں حکومت کی ذمہ داری نہ ھو حتی الامکان عوام الناس خود رضا کارانہ طور پر معاشرتی امور میں شرکت کریں اور اگر حکومت کسیموقع پر دخالت کر سکتی ھے البتہ معاشرہ کے اھم مسائل میں سیاست گذاری تمام ھی ممالک میں حکومت کے ھاتھوں میں ھوتی ھے اور اس کو عملی جامہ پھنانے اور ان کے مختلف مراحل حتی الامکان عوام الناس کے ذمہ ھوتے ھیں۔بے شک جامعہ مدنی کے مذکورہ معنی اسلامی مستحکم اصول کے مطابق ھے جس پر روز اول ھی سے “جامعہ اسلامی ” یا “مدینة النبی ” کا نام دیا گیا ھے کیونکہ شروع میں اسلامی حکومت تمام امور کی عھدہ دار نھیں ھوتی تھی بلکہ اکثر معاشرہ کے امور کو عوام الناس ھی انجام دیتے تھے ، لیکن معاشرہ کی ترقی کے ساتھ اور طرح طرح کی جدید ضرورتوں کے پیش نظر آھستہ آھستہ ایسے حالات پیداھوئے کہ بعض ضرورتوں کو پورا کرنا عوام الناس کے بس کی بات نہ تھی تو اس صورت میں حکومت کاان امور کو اپنے ذمہ لینا ضروری تھا مثلاً قدیم زمانہ میں شھر کی روشنی کے لئے عوام الناس کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے گلی کوچوں میں فانوس اور چراغ لگائے جاتے تھے اور یہ کام خود عوام الناس کے ذریعہ ھوتا تھا، لیکن آج کے زمانہ میں بجلی کے ذریعہ پورے شھر کے گلی کوچوں میں روشنی کرنا عوام الناس کا کام نھیں ھے اور اگر عوام الناس کرنا بھی چاھے تو اس میں نقص پایا جائے گا، لھٰذا معاشرہ کی اس ضرورت کو پورا کرنااور ضروری اسباب فراھم کرنا حکومت کی ذمہ داری ھوتی ھے۔
6۔ عوام الناس کی شرکت کو کم کرنے والے اسبابکلی طور پر عوام الناس میںمعاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی شرکت کو کم کرنے والے دواسباب کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ھے:پھلا سبب: ضرورتوں کی بڑے پیمانہ پر وسعت کے ساتھ ساتھ ان ضرورتوں کا پیچیدہ اور خاص طریقہ پر ھونا ، جس کی بنا پر عوام الناس ان ضرورتوں کو پورا کرنے سے محروم ھیں، جس کے نتیجہ میںان کو پورا کرنے کے لئے حکومت کا بوجہ مزید بڑہ جاتا ھے۔دوسرا سبب: عوام الناس میں اخلاقی اور دینی اقدار کا کمزور ھوجانا اور مغربی ممالک کی طرح صرف ذاتی مفاد کی فکر رائج ھوجانا۔ان دو اسباب کی وجہ سے عوام الناس معاشرہ اور دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے کتراتے ھیں کیونکہ مغربی کلچر اپنے ذاتی مفاد، خود پسندی اور ذمہ داری کو قبول نہ کرنے پر مبنی ھوتا ھے جو “رنسانس” کے زمانے سے مغربی ممالک میں رائج ھوتا چلا گیا ھے اور آھستہ آھستہ یہ نظریہ اسلامی ممالک میں بھی رواج پیدا کرچکا ھے، جس نے مسلمانوں کے معنوی اور اخلاقی رجحان کو کم رنگ کردیا ھے ایک انسان کو دوسرے کے بارے میں نیز اس کی ضرورتوں میں مدد کرنے سے روک دیا ھے اور انسان کو دوسروں سے بے توجہ کردیا ھے کیونکہ یہ خود پسند نظریہ معاشرہ کے امور میں حصہ لینے کی ذمہ داری کوقبول نھیں کرتا اور صرف اپنے ذاتی مفاد اور اپنی لذتوں کے بارے میں فکر کرتا ھے یہ کلچر بالکل اسلامی ثقافت کے مقابلہ میں ھے جو صدیوں سے اسلامی معاشرہ میں رائج تھا اور عوام الناس کومعاشرہ کے فوائد اور لوگوں کی خدمت پر تحریک کرتا ھے۔آج کل کے زمانہ میں سنتوں اور اسلامی اقدار پر بے توجھی اور مغربی کلچر کا رواج اس بات کا باعث بنا ھے کہ وقف کی بھترین سنت پر کم عمل ھورھا ھے اوروقف ھونے والی زمینوں اور عمارتوں کی نسبت پھلے سے بھت کم ھوتی جارھی ھے اسی طرح رضاکارانہ طور پر عام المنفعہ امور کم ھوتے جارھے ھیں، اور اسلامی معاشرہ میں “روح مدنیتی ” (حقیقت جامعہ مدنی) کمزور ھورھی ھے جس کے نتیجہ میں اسلامیحکومت کی ذمہ داری روز بروز بڑھتی جارھی ھے اگر اسلامی انقلاب کی برکت سے معاشرہ میں انسانی اور اسلامی اقدار کی اھمیت دوبارہ زندہ ھوجائے اور عوام الناس اپنی دینی، اخلاقی اور معنوی ذمہ داریوں پر توجہ کریں اور عام المنفعہ امور میں حصہ لیں تو پھر حکومت کا بوجہ کم ھوجائے گا ، حکومت کی ذمہ داریاں کم ھوجائیں گی اور حکومت بعض اپنی ذمہ داریوں کو عوام الناس کے حوالے کرسکتی ھے؛ اور یہ چیز ایک حساب سے” جامعہ مدنی” کی طرف دوبارہ پلٹ جانا ھے۔
7۔اسلام میں جامعہ مدنی کی اھمیتقارئین کرام ! ھم دوبارہ اس بات پر تاکید کرتے ھیں کہ گذشتہ معنی میں جامعہ مدنی کا اسلام اور انبیاء علیھم السلام کی دعوت میں سرچشمہ ملتا ھے اور ھم اسلام سے دور ھونے کی وجہ سے اس سے دور ھوئے ھیں اور وہ وقت آچکا ھے کہ ھم اسلام کی برکت سے اس کی طرف توجہ کریں پس مغربی ممالک کو ھم لوگوں پر احسان نھیں جتانا چاھئے کہ ھم نے “جامعہ مدنی” کے نقشے کو پیش کرکے تمام ملتوں پر احسان کیا ھے اور ھم اس وقت تمام افراد کو جامعہ مدنی کی تشکیل کی دعوت اور راھنمائی کرتے ھیں، بلکہ ھمیں ان کے اوپر احسان جتانا چاھئے کہ جب اسلامی تمدن اپنے اوج پر تھا تو مغربی معاشرہ نیم وحشی تھا(یعنی آدھی حیوانیت پائی جاتی تھی) اور اسلامی تمدن نے ان کو آھستہ آھستہ صاحب تمدن کیا اور انھوں نے جامعہ مدنی کو اسلام سے حاصل کیا ھے لیکن اس وقت یہ دعویٰ کرتے ھیں کہ ھم مغربی کلچر کو اسلامی ملک میں رواج دینا چاھتے ھیں اور ھماری تربیت کرنا چاھتے ھیں تاکہ جامعہ مدنی کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ھوجائے۔!لھٰذا ثابت یہ ھوا کہ صحیح معنی میں جامعہ مدنی اسلام اور اسلامی تمدن میں سرچشمہ رکھتا ھے اور اگر کوئی اسلام کی طرف رجوع کرے تو اس میں جامعہ مدنی مل جائے گا؛ لیکن جامعہ مدنی کے دوسرے معنی بھی کئے جاتے ھیں جو ھمارے نزدیک قابل قبول نھیں ھیں کیونکہ آج کل مغربی کلچر میں جامعہ مدنی کے اسلامی معاشرہ کے مخالف معنی کئے جاتے ھیں، اور وہ معنی یہ ھیں کہ جامعہ مدنی یعنی جس میں دین کی سلطنت نہ ھو اور معاشرہ کے امور میں دینی کوئی منصوبہ نہ ھو ایسے غیر دینی جامعہ مدنی (جس کا آج کل بھت زیادہ پروپیگنڈا کیا جاتا ھے) میںحکومت کے تمام عھدوں کے سلسلہ میں تمام لوگ برابر ھونے چاھئیں ، اور جیسا کہ کھتے ھیں کہ ایرانی معاشرہ جامعہ مدنی میں تبدیل ھوناچاھئے یعنی ایک یھودی بھی صدر مملکت ھوسکتا ھے کیونکہ تمام انسان ،انسانیت میںبرابر کے شریک ھیں، یعنی انسانوں میں پھلا درجہ یا دوسرا درجہ نھیں ھے کیونکہ وہ اس نعرہ کے ذریعہ چاھتے ھیں کہ ایک الحادی اور منحرف مذھب جو صھیونیزم سے وابستہ ھے ان کو قانونی طور پر مان لیا جائے وہ لوگ اس بھانہ سے کہ انسان ایک درجہ کے ھیں اور ان میں چند درجہ نھیں ھیں؛ یہ چاھتے ھیں کہ امریکہ اور صھیونیزم سے وابستہ گروھوں کو اھم عھدے مثلاً صدر مملکت کے عھدے پر بیٹھادیا جائے۔اگر ھم یہ دعویٰ کرتے ھیں کہ ھم شھریوں کا اختلاف ایک حد تک قابل قبول ھے، اس کی وجہ یہ ھے کہ ھمارے بنیادی قوانین میں بعض عھدوں کے لئے خاص شرائط رکھے گئے ھیں جیسا کہ خداوندعالم بھی ارشاد فرماتا ھے:( وَلَنْ یَجْعَلَ اللهُ لِلْکَافِرِینَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا ۔) (2)” اور خدا کفار کے لئے صاحب ایمان کے خلاف کوئی راہ نھیں دے سکتا‘اس طرح کا نظریہ جامعہ مدنی سے کوئی مخالفت نھیں رکھتا، لیکن اسلامی نظریہ کے مطابق وہ جامعہ مدنی جس میں کافر اور مسلمان تمام حقوق اور مختلف عھدوں پر فائز ھونے میں سب برابر ھوں ؛قابل قبول نھیں ھے اور ھم صاف طور پر یہ اعلان کرتے ھیں کہ اسلام اس چیز کی اجازت نھیں دیتا کہ اسلامی معاشرہ پر کوئی کافر مسلط ھو اور مسلمانوں پر حکومت کرے، اسی طرح یہ بھی اجازت نھیں ھے کہ ایک ایسی پارٹی یا ایک ایسا مذھب جو ملحد اور صھیونیزم سے وابستہ ھو ، اس کوقانونی طور پر مان لیا جائے؛ اس صورت میں کوئی فرق نھیں ھے کہ اس چیز پر انسانوں میں درجہ بندی کی تھمت لگائیں یا کوئی دوسرا نام رکھیں۔
8۔ اسلامی انتخاب کے معیار سے مخالفت کے نئے حیلےقارئین کرام ! آج کل استکبار سے وابستہ بعض افراد اندرون ملک ، انسانوں کے ایک درجہ کا نعرہ لگاتے ھوئے مغربی ممالک کی لیبرلیزم اور ڈیموکریٹک کو رائج کرنا چاھتے ھیں وہ اس مطلب کو معاشرہ کے اندر رائج کرنا چاھتے ھیں کہ انسانوں کے درمیان کوئی فرق نھیں ھے لھٰذا ان کے حقوق بھی برابر ھیں اور ملک کے قوانین بناتے وقت ان کو بھی مد نظر رکھنا چاھئے۔اگرچہ انسانوں کے درمیان دو درجہ نہ ھونے کو اسلام بھی قبول کرتا ھے، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:( یَااٴَیُّھا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَاٴُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ اٴَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اٴَتْقَاکُمْ )(3)” اے انسانو ! ھم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ھے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ھیں تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پھچان سکو ، بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وھی ھے جو زیادہ پرھیزگار ھے “مذکورہ آیت میں ذاتی اور تکوینی خصوصیات کے اعتبار سے کوئی فرق نھیں ھے بلکہ سب برابر ھیں اور اس لحاظ سے انسانوں میں کسی درجہ بندی کا تصور بھی ممکن نھیں ھے لیکن اسی آیت کے ذیل میں عَرَضی فرق کی طرف اشارہ موجود ھے ؛ یعنی اگرچہ تکوینی (ذاتی) طور پر تمام انسان ایک ھی درجہ کے ھیں لیکن اکتسابی خصوصیات اور انسانی صفات کے صاحب امتیاز ھوسکتے ھیں، اسی وجہ سے باتقویٰ افراد خدا کے نزدیک ایک خاص اھمیت رکھتے ھیں اور یہ بھی نھیں کھا جاسکتا کہ خداوند عالم کے نزدیک تمام انسان برابر ھیں اسی طرح صلاحیت اور شائستگی کے لحاظ سے چونکہ ایک دوسرے میں فرق پایا جاتا ھے لھٰذا معاشرہ میں ان کو عھدہ اور مقام دینے میں بھی برابر نھیں رکھا جاسکتا، کیونکہ ھر عھدہ کے لئے خاص شرائط رکھے گئے ھیں مثلاً پوری دنیا میں یہ کھیں نھیں ھوتا کہ ایک جاھل انسان کو صدر مملکت بنادیا جائے؛ تو کیا اس سلسلہ میں یہ کھا جاسکتا ھے کہ صدر مملکت کے عھدہ کے لئے پڑھے لکھے ھونے کی شرط لگانا؛ انسان کے برابر ھونے کے خلاف ھے؟ اور کیا یہ وھی انسانوں کے دو درجہ ماننا نھیں ھے؟دنیا بھر میں اھم عھدوں مثلاً صدر مملکت کے عھدہ کے لئے خاص شرائط مقرر کئے گئے ھیں، ھماری حکومت میں بھی اسلامی ھونے کی وجہ سے اس کے لئے خاص شرائط رکھے گئے ھیں اور جس دلیل کے تحت صدر مملکت کو پڑھا لکھا ھونا ضروری ھے ، اسی دلیل کے تحت ایک اسلامی ملک کے صدر مملکت کا اسلام کا حامی اور طرفدار ھونا ضروری ھے، اور یہ ممکن نھیں ھے کہ ایک ایسا شخص جو اسلام کا دشمن ھو ،اسلامی ملک میں کسی بڑے عھدہ پر فائز ھوسکے؛ اور یہ مطلب اسلامی اصول پر منطبق ھے۔پس اگر ممبر آف پارلیمنٹ یا دوسرے کاموں کے لئے مسلمان ھونے کی شرط لگائی گئی ھے ، اس کے یہ معنی نھیں ھیں کہ انسانوں میں دو درجہ ھیں اگر اسلامی معاشرہ کے اندر ان حقوق اور ذمہ داریوں کے مقابلہ میں جو مسلمان انجام دیتے ھیں اسی طرح مسلمان خمس وزکواة ادا کرتے ھیں اس کے مقابلہ میں، دوسرے ادیان کی پیروکاروں کے لئے الگ طریقہ پر حقوق اور وظائف معین کئے جائیں تو اس کا مطلب انسانوں میں درجہ بندی کے نھیں ھیں؛ اگرچہ ایک لحاظ سے ان فرقوں کی وجہ سے انسان کے درجے میں فرق پایا جاتا ھے۔اگر کوئی شخص یہ کھے کہ “مقام رھبری” ، “ریاست جمھوری” اور دوسرے اھم عھدے اس شخص کو دئے جاسکتے ھیں جو اسلام اور اسلامی حکومت کا مخالف ھو نیز بنیادی قوانین کو قبول نہ کرتا ھو، تو ایسا کرنا اس شخص کی مانند ھے جو اپنا کامل اختیار اپنے دشمن کو دیدے!! مسلماً ایسا کام نہ ھی عاقلانہ ھے اور نہ ھی ھونے والا، اور اگر بعض لوگ ایسا کرنا بھی چاھیں تو اسلام اس چیز کی اجازت نھیں دیتا؛ کیونکہ خداوندعالم نے کافروں کو مسلمانوں سے بھتر قرار نھیں دیا ھے اور مسلمانوں پر ان کی حکومت کو قبول نھیں کرتا یہ ھمارا عقیدہ ھے، اور ھمیں اس بات کا بھی ڈر نھیں ھے کہ ھم پر شھریوں کی درجہ بندی کی تھمت لگائی جائے۔
9۔ اسلامی اصول اور اقدار کی حفاظت اور دشمن زمینہ سازی سے مقابلہ کی ضرورتھم بھی یہ عقیدہ رکھتے ھیں کہ تمام انسان، انسانیت میں شریک ھیں، لیکن بعض لوگ مغالطہ کرتے ھیں اور کھتے ھیں کہ چونکہ تمام انسان، انسانیت کے ایک ھی درجہ پر فائز ھیں پس معاشرہ میں بھی ان کے تمام حقوق برابر ھونا چاھئے لیکن انسانیت میں برابر ھونے کا مطلب ، حقوق میں بھی برابر ھونا نھیں ھے، اگرچہ تمام انسان انسانیت میں برابر کے شریک ھوں لیکن انسانی تمام لوازمات اور انسانی فضائل برابر نھیں ھیں، اسی چیز کے پیش نظر اسلامی معاشرہ میں ایسے بھت سے عھدے ھیں جن کے لئے خاص صلاحیتوں اور شائستگی کا ھونا ضروری ھے جس طرح رھبر کے لئے فقیہ (مجتھد) ھونا ضروری ھے تاکہ اسلامی احکام کے جاری ھونے پر نظر رکھے، اور اگر وہ اسلام ھی کو نہ سمجھے تو پھر اس کی حفاظت بھی نھیں کرسکتا، اسی طرح صدر مملکت کا مسلمان ھونا ضروری ھے، ایک یھودی یا عیسائی ایک ایسے معاشرہ پر حکومت نھیں کرسکتا جس کی 9۰ فی صد آبادی مسلمان ھو۔ھمیں اس چیز کا ڈر نھیں ھونا چاھئے کہ وہ اخبار یا وہ صاحبان قلم جو عالمی استکبار سے وابستہ ھیں وہ ھم پر اس بات کی تھمت لگائیں کہ یہ لوگ شھریوں میں دو درجہ کے قائل ھیں کیونکہ ان سے امید بھی اور کیا ھوسکتی ھے، کیونکہ وہ لوگ تو اسلامی ضروریات کے بھی منکر ھیں ھمیں ھر حال میں یہ کوشش کرنی چاھئے کہ اسلامی حکومت کے زیر سایہ واقعی اسلام کو دنیا والوں کے سامنے پیش کریں، نہ کہ جس طرح سے دشمن چاھتے ھیں ھمیں اسلامی اقدار کو کم رنگ نھیں کرنا چاھئے تاکہ ھمارا دشمن ھم سے خوش رھے۔اگر ھم نے کوئی بات کھی یا کچھ لکھا تو اس سے امریکہ سے وابستہ اخبار یا ذرائع ابلاغ کو خوشی ھو اور وہ ھماری تعریف کریں، اس صورت میں ھمیں خوش نھیں ھونا چاھئے بلکہ اگر ھمارے کام سے ھمارا دشمن راضی اور خوشحال ھو، تو ھمیں غمگین ھونا چاھئے۔افلاطون کے بارے میں مشھور ھے کہ بعض لوگوں نے اس سے آکر کھا کہ ” فلاں شخص تمھاری بھت تعریف کرتا ھے” یہ سن کر افلاطون رونے لگا، جب لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے کھا کہ “مجھے نھیں معلوم کہ مجھ سے ایسا کونسا جاھلانہ کام ھوگیا ھے جس کی بنا پر اس جاھل شخص کو مجھ سے خوشی ھوئی”!لھٰذا اگر ھم سے دشمن کے نفع میں کوئی کام ھوگیا ھے جس کی بنا پر وہ خوشحال ھوگیا اور اگر اسلام کو اس طرح پھچنوایا کہ دشمن کو اچھا لگا تو گویا ھم نے دشمن کی خدمت کی ھے اسلام کی نھیں! ھمیں اس اسلام کا دفاع کرنا چاھئے جس کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اھل بیت علیھم السلام نے ھم تک پھنچایا ھے، نہ اس اسلام کا جس کی تلقین اسلام دشمن طاقت کررھی ھے۔قارئین کرام ! خلاصہ کلام یہ ھوا کہ ھم جامعہ مدنی کے اس خاص معنی کو قبول کرتے ھیں جو اسلام سے اخذ شدہ ھو، اور اس سے دور ھونا حقیقت میں اسلام سے دور ھونے کی وجہ سے ھے، لھٰذا اسلامی جامعہ مدنی کی بنا پر اصل یہ ھے کہ معاشرہ کے امور عوام الناس کے ذمہ ھوں لیکن مغربی ممالک کے جامعہ مدنی کے لحاظ سے جس میں دین سے دوری اختیار کی جاتی ھے نیز اس جامعہ مدنی میں تمام انسان چاھے کافر ھوں یا مسلمان؛ تمام کے اجتماعی حقوق اور معاشرہ میں عھدہ داری مساوی ھو ھم اس جامعہ مدنی کو قبول نھیں کرتے اگرچہ بعض لوگوں کی کوشش یہ ھے کہ تمام لوگ معاشرہ کے اھم عھدوں پر فائز ھونے کے اعتبار سے مساوی ھیں، چاھے وہ مسلمان ھوں یاکافر اور چاھے بنیادی قوانین کو قبول کرتے ھوں یا نہ کرتے ھوں، اور اسی کو وہ جامعہ مدنی مانتے ھیں!! ھم اس طرح کے جامعہ مدنی کو ردّ کرتے ھیں کیونکہ ھمارے نزدیک مسلمان اور غیر مسلمان ملک کے اھم عھدوں پر فائز ھونے کے اعتبار سے مساوی نھیں ھیں تو اسلام؛ ھمیں جامعہ مدنی کے نام پر، عالمی صھیونیزم سے وابستہ پارٹی کو اس ملک کے قانونی مذھب میں شمار کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ھے۔
حوالے:(1)ٹوٹالیٹر ،اس حکومت کو کھا جاتا ھے جو ایک گروہ کے نفع میں قوانین بنائے اور اپنے مخالفین کو مخفی پولیس وغیرہ کے ذریعہ نابود کرنے کی درپے ھو، ( مترجم))2( سورہ نساء آیت 141(3) سورہ حجرات آیت 13
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.