ہیومنزم یا عقیدہ ٔانسان
ایک دوسرے زاویہ سے انسان کی حقیقی شخصیت اور اس کی قابلیت ولیاقت کے بارے میں دو کاملاً متفاوت بلکہ متضاد نظریات بیان کئے گئے ہیں، ایک نظریہ کے مطابق انسان کاملاً آزاد اور خود مختار مخلوق ہے جو اپنی حقیقی سعادت کی شناخت اور اس تک دست رسی میں خود کفا ہے ،اپنی تقدیر کو خود بناتا ہے ، خود مختار، بخشی ہوئی قدرت مطلقہ کا مالک اور ہر طرح کی بیرونی تکلیف سے (خواہش و ارادہ سے خارج ) مطلقاً آزاد ہے ۔
دوسرے نظریہ کے مطابق انسان کے لئے قدرتِ شناخت کا ہونا لازم ہے نیز واقعی سعادت کے حصول کے لئے الٰہی رہنمائی کا محتاج ہے وہ خدائی قدرت کی ہدایت اور اس کی تدبیر کے زیر اثر اپنی سعادت کے لئے تکالیف اور واجبات کا حامل ہے جو خدا کی طرف سے پیغمبروں کے ذریعہ اس کے اختیار میں قرار دی جاتی ہے ۔یہ دونوں نظریات ، پوری تاریخ بشر میں نسبی یا مطلق طور پر انسانوں پر حاکم رہے ہیں، لیکن اس حاکمیت کی تاریخی سیر کے متعلق تجزیہ و تحلیل ہمارے ہدف کے پیش نظر ضروری نہیں ہے اور اس کتاب کے دائرہ بحث سے خارج ہے ۔لہٰذا پہلے نظریہ کی حاکمیت کے سلسلہ کی آخری کڑی کی تحقیق کریں گے جو تقریباً ١٤سو سال سے ہیومنزم (١)یا انسان مداری کے عنوان سے مرسوم ہے ،اور ٦سو سالوں سے خصوصاً آخری صدیوں میں اکثر سیاسی ، فکری اور ادبی مکاتب اس بات سے متفق ہیں کہ ہیومنزم نے مغرب کو اپنے اس نظریہ سے کاملاً متاثر کیا ہے اور بعض مذاہب الٰہی کے پیروکاروں کو بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر جذب کرلیا ہے۔
ہیومنزم کا مفہوم و معنیاگرچہ اس کلمہ کے تجزیہ و تحلیل اور اس کے معانی میں محققین نے بہت ساری بحثوں اور مختلف نظریوں کو بیان کیا ہے اور اپنے دعوے میں دلیلیں اور مثالیں بھی پیش کی ہیں ،لیکن اس کلمہ کی لغوی تحلیل و تفسیر اور اس کا ابتدائی استعمال ہمارے مقصد کے سلسلہ میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیںہے۔ لہٰذا اس لغوی تجزیہ و ترکیب کے حل و فصل کے بغیر اس مسئلہ کی حقیقت اور اس کے پہلوؤں کی تحقیق کی جائے گی، اس لئے ہم لغت اوراس کے تاریخی مباحث کے ذکرسے صرف نظر کرتے ہیں ، اور اس تحریک کے مفہوم و مطالب کی تاریخی و تحلیلی پہلو سے بحث کرتے ہیں جو آئندہ مباحث کے محور کو ترتیب دیتے ہیں ۔ (٢)…………..(1)Humanism(٢)کلمہ ہیومنزم کے سلسلہ میں لغت بینی اور تاریخی معلومات کے لئے ۔ملاحظہ ہو. احمد ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ، ص ٨٣،٩١۔ .لالانڈ آنڈرہ، فرہنگ علمی و انتقادی فلسفہ کلمۂ Humanismکے ذیل میں.. Lewis W, spitz Encyclopedia of Religion.. Abbagnano, Nicola Encyclopedia of Philosophy.’ہیومنزم ‘ ہر اس فلسفہ کو کہتے ہیں جو انسان کے لئے مخصوص اہمیت و منزلت کاقائل ہو اور اس کو ہر چیزکے لئے میزان قرار دیتا ہو، تاریخی لحاظ سے انسان محوری یاہیومنزم ایک ادبی ، سماجی ، فکری اور تعلیمی تحریک تھی، جو چند مراحل کے بعد سیاسی ، اجتماعی رنگ میں ڈھل گئی تھی ، اسی بنا پراس تحریک نے تقریباً سبھی فلسفی ، اخلاقی ، ہنری اور ادبی اور سیاسی مکاتب کو اپنے ماتحت کرلیا تھا یا یوں کہا جائے کہ یہ تمام مکاتب (دانستہ یا نادانستہ ) اس میں داخل ہو گئے تھے ، کمیونیزم(١) سودپرستی(٢) مغربی روح پرستی(٣) شخص پرستی (٤) وجود پرستی(٥)آزاد پرستی(٦) حتی پیرایش گری(٧)لوتھرمارٹن(٨)(مسیحیت کی اصلاح کرنے والے ) کے اعتبار سے سبھی انسان محوری میں شریک ہیں اوران میں ہیومنزم کی روح پائی جاتی ہے۔ (٩)یہ تحریک عام طور پر روم اور یونان قدیم سے وابسطہ تھی (١٠)اور اکثر یہ تحریک غیر دینی اور اونچے طبقات نیز روشن فکر حلقہ کی حامی و طرفدار رہی ہے ، (١١)جو ١٣ویں صدی کے اواخر میں جنوب اٹلی میں ظاہر ہوئی، اور پورے اٹلی میں پھیل گئی،اس کے بعد جرمن ، فرانس ، اسپین اور انگلیڈ میں پھیلتی چلی گئی اور مغرب میں اس کوایک نئے سماج کے روپ میں شمار کیا جانے لگا ۔عقیدہ ٔ انسان مداری، اس معنی میں بنیادی ترین ترقی (١٢) کا پیش خیمہ ہے اور ترقی پسندمفکرین، انسان کو مرکز ومحور بنا کر عالم فطرت اور تاریخ کے زاویہ سے…………..(1)communism.(2)pragmatism(3)spiritualism(4)Personalism(5)existentialism.(6)Liberalism(7)protestantism.(8)Luther,Martin(٩)لالاند ، آندرہ ،گذشتہ حوالہ ۔پٹراک(١٠) (Francesco Petratch) اٹلی کا مفکر و شاعر ( ١٣٠٤۔ ١٣٧٤) سوال کرتا تھا ‘ تاریخ روم کی تحلیل و تفسیرکے علاوہ تاریخ کیا ہوسکتی ہے ؟ملاحظہ ہو: احمدی ، بابک ؛ معمای مدرنیتہ ؛ ص ٩٢و ٩٣. بیوراکہارٹ (Burackhardt Jacob)(١٨١٨۔١٨٩٧)کہتا تھا :’ آتن’ہی وہ تنہادنیا کی سند تاریخ ہے جس میں کوئی صفحہ رنج آور نہیں ہے ،ہگل کہتا تھا : یورپ کے مدہوش لوگوں میں یونان کا نام ، وطن دوستی تھا۔ڈیوس ٹونی؛ ہیومنزم ؛ ترجمہ عباس فجر ؛ ص ١٧،٢١،٢٣۔(١١)مفکرین کی حکومت سے مراد لائق لوگوں کا حاکم ہونا نہیں ہے بلکہ معاشرہ کے اونچے طبقات کی حکومت ہے ۔(12)Renaissanceانسان کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں ۔جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان محوری کا رابطہ روم اور قدیم یونان سے تھا اور انسان کو محور قرار دے کر گفتگو کرنے والوں کا خیال یہ تھاکہ انسان کی قابلیت ، لیاقت روم او ر قدیمیونان کے زمانہ میں قابل توجہ تھی ، چونکہ قرون وسطی میں چشم پوشی کی گئی تھی ، لہٰذا نئے ماحول میں اس کے احیاء کی کوشش کی جانی چاہیئے ،ان لوگوں کا یہ تصور تھا کہ احیاء تعلیم و تعلم کے اہتمام اور مندرجہ ذیل علوم جیسے ریاضی ، منطق ، شعر ، تاریخ ، اخلاق ، سیاست خصوصاً قدیمیونان اور روم کی بلاغت و فصاحت والے علوم کے رواج سے انسان کو کامیاب و کامران بنایا جاسکتا ہے جس سے وہ اپنی آزادی کا احساس کرے ، اسی بنا پر وہ حضرات جو مذکورہ علوم کی تعلیم دیتے تھے یا اس کے ترویج و تعلیم کے مقدمات فراہم کرتے تھے انہیں’ہیومنیسٹ ‘ کہا جاتا ہے ۔ (١)
ہیومنزم کی پیدائش کے اسبابہیومنزم کی پیدائش کے اسباب و علل کے بارے میں بحث و تحقیق مزید وضاحت کی طالب ہے لیکن یہاں فقط دو اہم علتوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے ۔ایک طرف تو بعض دینی خصوصیات اور کلیسا ئی نظام کی حاکمیت مثلاً مسیحیتکے احکام اور بنیادی عقائد کا کمزور ہونا ،فہم دین او راس کی آگاہی پر ایمان کے مقدم ہونے کی ضرورت ، مسیحیت کی بعض غلط تعلیمات جیسے انسان کو فطرتاً گنہگار سمجھنا ،بہشت کی خرید و فروش ، مسیحیت کاعلم و عقل کے خلاف ہونا ، علمی و عقلی معلومات پر کلیسا کی غیر قابل قبول تعلیمات کو تحمیل کرنا وغیرہ نے اس زمانے کے رائج و نافذ دینی نظام یعنی مسیحیتکی حاکمیت سے رو گردانی کے اسباب فراہم کئینیز روم او رقدیم یونان کو آئیڈیل قرار دیا کہ جس نے انسان اور اس کی عقل کو زیادہ اہمیت دی ہے ۔…………..(١)ملاحظہ ہو:ڈیوس ٹونی : ہیومنزم: ص ١٧١؛ Abbagnano Nicola lbidاور دوسری طرف بہت سے ہیومنیسٹ حضرات نے جو صاحب قدرت مراکز سے مرتبط تھے اور دین کو اپنی خواہشات کے مقابلہ میں سر سخت مانع سمجھ رہے تھے گذشتہ گروہوں کی حکومت کے لئے راہ حل مہیا کرنے میں سیاسی تبدیلی اور تجدد پسندی کی(١)عقلی تفسیراور اس کے منفی مشکلات کی توجیہ کرنے لگے،’ ڈیوس ٹونی’ (٢)کے بقول وہ لوگ ؛سات چیزوں کے ماڈرن پہلوؤں کی توجیہ ، دین اور اس کی عظمت و اہمت پر حملہ اور کلیسائی نظام کو اپنا طریقۂ کار قراردینا (٣) اور عوام کی ذہنیت کو دین اور دینی علماء سے خراب کرنا نیزدین کی سیاست اور اجتماع سے جدائی کی ضرورت پر کمربستہ ہوگئے ۔ مذکورہ دوسبب سے اپنی حفاظت کی تلاش میں کلیسا،اجتماع اور سیاست کے میدان سے دین کے پیچھے ہٹ جانے کا ذریعہ بنا ،اس تحریک میں دین اور خدا کے سلسلہ میں نئی نئی تفسیریں جیسے خدا کوماننالیکن دین اور تعلیمات مسیحیت کا انکار کرنا، دین میںشکوک وبدعتیں (٤)نیز کسی بھی دین اور اس کی عظمت و اہمیت میں تسامح و تساہل (٥)، دینی قداست اور اقدار کے حوالے سے (٦) مختلف طریقۂ عمل اور نئے انداز میں تعلیمات دینی کی توضیح و تفسیر شروع ہوگئی ۔
ہیومنزم کے اجزا ئے ترکیبی اور نتائج(٧)ہیومنزم کی روح اورحقیقت ،جو ہیومنزم کے مختلف گروہوں کے درمیان عنصر مشترک کو تشکیل دیتی ہے اورہر چیز کے محور و مرکز کے لئے انسان کو معیار قرار دیتی ہے (٨)اگر اس گفتگو کی منطقی ترکیباتاور ضروریات کو مدنظر رکھا جائے توجو معلومات ہمیں انسان محوری سے ملی ہے ہمارے مطلب سے بہت ہی قریب ہے ،یہاںہم ان میں سے فقط چار کی تحقیق و بررسی کریں گے ۔…………..Modernity (1)Davis,Toni (2)(٣)ملاحظہ ہو: ڈیوس ٹونی ، ہیومنزم ص ١٧١Religious Ploralism (4)Tolerance (5)Protestantism(6)(٧)ماڈرن انسان کے متنوع ہونے اور ہر گروہ کے مخصوص نظریات کی بناپر ان میں سے بعض مذکورہ امور ہیومنزم کے ائتلاف میں سے ہے اوربعض دوسرے امور اس کے عملی نتائج و ضروریات میں سے ہیں ۔ قابل ذکر یہ ہے کہ نتائج سے ہماری مراد عملی و عینی نتائج و ضروریات سے اعم ہے ۔(٨)لالانڈ ، آنڈرہ ،گذشتہ مطلب ، ڈیوس ٹونی ،گذشتہ مطلب ،ص٢٨۔عقل پرستی(١) اور تجربہ گرائی(٢)ہیومنزم کی بنیادی ترکیبوں میں سے ایک عقل پرستی ، خود کفائی پر اعتقاد، انسانی فکر کااپنی شناخت میں آزاد ہونا ، وجود ، حقیقی سعادت اور اس کی راہ دریافت ہے ۔(٣) معرفت کی شناخت میںہیومنیسٹ افراد کا یہ عقیدہ تھا کہ ایسی کوئی چیزنہیںہے جو فکری توانائی سے کشف کے قابل نہ ہواسی وجہ سے ہر وہ موجود کہ جس کی شناخت کے دو پہلو تھے ، ماوراء طبیعت جیسے خدا ، معاد ، وحی اور اعجاز وغیرہ (جس طرح دینی تعلیمات میں ہے ) اس کو وہ لوگ غیرقابل اثبات سمجھتے تھے ۔ اور اہمیت شناخت میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ حقوقی ضرورتوں کو انسان کی عقل ہی کے ذریعہ معین کرنا چاہیئے۔ ہیومنزم ایک ایسی تحریک تھی جو ایک طریقہ سے اس سنتی آئین کے مد مقابل تھی جو دین و وحی سے ماخوذ تھے اسی بنا پر پہ ہیومنزم ، دین کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھتاہے ۔(٤) انسانی شان و منزلت کے نئے نئے انکشافات سے انسان نے اپنی ذات کو خدا پرست کے بجائے عقل پرست موجود کا عنوان دیا، علم پرستی یا علمی دیوانگی (٥)ایسی ہی فکر کا ماحصل ہے ۔ ہیومنیسٹ حضرات اٹھارہویں صدی میں ہیوم(٦) (١٧١١۔ ١٧٧٦) کی طرح معتقد تھے کہ کوئی ایسا اہم سوال کہ جس کا حل علوم انسانی میں نہ ہو (٧) وجود نہیںرکھتا ہے ۔ اومنیسٹ حضرات کی قرون وسطی سے دشمنی اور یونان قدیم سے گہرا رابطہ بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے ، وہ لوگ یونان قدیم کو تقویتِ عقل اور قرون وسطی کو جہل و خرافات کی حاکمیت کا دور سمجھتے تھے ۔…………..Scientism(1)lbid (2)Abbagnano (3)Empiricism (4)Rationalism (5)Hume, David (6)(٧)ڈیوس ٹونی؛ ہیومنزم ؛ ص ١٦٦۔یہ عقل اور تجربہ پرستی کی عظیم وسعت ، دین و اخلاق کے اہم اطراف میں بھی شامل ہے ۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ سبھی چیز منجملہ قواعد اخلاقی، بشر کی ایجاد ہے اور ہونا بھی چاہئے۔(١) والٹرلپمن(٢) کتاب ‘اخلاقیات پر ایک مقدمہ ‘(٣)میں لکھتا ہے کہ ہم تجربہ میں اخلاقی معیار کے محتاج ہیں . اس انداز میں زندگی بسر کرنا چاہیئے جو انسان کے لئے ضروری اور لازم ہے۔ ایسانہ ہو کہ اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ سے منطبق کریں بلکہ شرائط سعادت کے اعتبار سے انسان کے ارادہ کواچھی شناخت سے منطبق ہو نا چاہیئے۔ (٤)
استقلالہیومنیسٹ حضرات معتقد ہیں کہ : انسان دنیا میں آزاد آیا ہے لہٰذا فقط ان چیزوںکے علاوہ جس کووہ خود اپنے لئے انتخاب کرے ہر قید و بند سے آزاد ہونا چاہئے ۔ لیکن قرون وسطی کی بنیادی فطرت نے انسان کو اسیر نیزدینی اور اخلاقی احکام کو اپنے مافوق سے دریافت شدہ عظیم چیزوں کے مجموعہ کے عنوان سے اس پر حاکم کردیا ہے، (٥)ہیومنزم ان چیزوں کو ‘خدا کے احکامات اور بندوں کی پابندی ‘ کے عنوان سے غیر صحیح اور غیر قابل قبول سمجھتے ہیں ۔(٦) چونکہ اس وقت کا طریقہ کار اور نظام ہی یہ تھا کہ قبول کیا جائے اور ان کی تغییر اور تبدیلی کا امکان بھی نہ تھا ۔(٧) لہٰذا یہ چیز یں ان کی نظر میں انسان کی آزادی اور استقلال…………..(١)لالانڈ ، آنڈرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔(2)Walter lippmann(3)A Preface to morals(٤)لالانڈ ، آنڈرہ ؛ گذشتہ حوالہ ۔(5)Abbagnano, Nicola, lbid(٦)آربلاسٹر لکھتا ہے : ہیومنزم کے اعتبار سے انسان کی خواہش اور اس کے ارادے کی اصل اہمیت ہے ، بلکہ اس کے ارادے ہی ، اعتبارات کا سر چشمہ ہیںاور دینی اعتبارات جو عالم بالا میں معین ہوتے ہیں وہ انسان کے ارادے کی حد تک پہونچ کر ساقط ہو جاتے ہیں ،(آربلاسٹر، آنتھونی ؛ ظہور و سقوط لبرلیزم ؛ ص ١٤٠)(٧)لالاند ، آندرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔کے منافی تھیں ۔ وہ لوگ کہتے تھے کہ انسان کو اپنی آزادی کوطبیعت و سماج میں تجربہ کرنا چاہیئے اور خود اپنی سرنوشت پر حاکم ہونا چاہیئے ،یہ انسان ہے جو اپنے حقوق کو معین کرتا ہے نہ یہ کہ مافوق سے اس کے لئے احکام و تکالیف معین ہوں۔ اس نظریہ کے اعتبار سے انسان حق رکھتا ہے اس لئیاس پرکوئی تکلیف عائد نہیں ہوتی ۔ بعض ہیومنزم مثلاً’ میکس ہرمان ‘(١) جس نے شخص پرستی کو رواج دیا تھا اس نے افراط سے کام لیا وہ معتقد تھا کہ : لوگوں کو اجتماعی قوانین کا جو ایک طرح سے علمی قوانین کی طرح ہیںپابند نہیں بنانا چاہیئے،(٢) وہ لوگ معتقد تھے کہ فقط کلاسیکل ( ترقی پسند) ادبیات نے انسان کی شخصیت کو پوری طرح سے فکری اور اخلاقی آزادی میں پیش کیا ہے۔(٣) اس لئے کہ وہ ہر شخص کو اجازت دیتا ہے کہ جیسا بھی عقیدہ ونظریہ رکھنا چاہتا ہے رکھ سکتا ہے اوردستورات اخلاقی و حقوقی کوایک نسبی امر، قابل تغییر اور ناپایدار بتایا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ سیاسی ، اخلاقی اور حقوقی نظام کو انسان اور اس کی آزادی کے مطابق ہونا چاہئے ۔ وہ نہ صرف دینی احکام کو لازم الاجراء نہیں جانتے تھے بلکہ ہر طرح کا تسلط اور غیر ہیومنزم چیزیں منجملہ قرون وسطی کے بنیادی مراکز (کلیسا ، شہنشاہیت (٤)، اور قبیلہ والی حکومتیں یا حکام و رعیت ) کو بالکل اسی نقطۂ نگاہ کی بناپر بے اہمیت وبے اعتبار جانتے تھے ۔(٥)
تساہل و تسامح١٦و ١٧ ویں صدی کی دینی جنگوں کے نتیجہ میں صلح و آشتی کے ساتھ باہم زندگی گزارنے کے امکان پر مختلف ادیان کے ماننے والوں کے درمیان گفتگو او رتساہل و تسامح(سستی و چشم پوشی ) کی تاکید ہوئی ہے، اور دینی تعلیمات کی وہ روش جو ہیومنزم کا احترام کرتی تھیں تساہل و تسامح کی روش سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں ، اس نظریہ میں تسامح کا مطلب یہ تھا کہ مذاہب ایک دوسرے سےاپنے اختلافات کو محفوظ رکھتے ہوئے باہم صلح و آتشی سے زندگی گذار سکیں ، لیکن جدید انسان گرائی کے تساہل و تسامح سے اس فکر کا اندازہ ہوتاہے کہ انسان کے دینی اعتقادات اسی کی ذات کا سر چشمہ ہیں اور اس کے علاوہ کوئی خاص چیز نہیں ہے ۔ ان اعتقادات کے اندر ،بنیادی اور اساسی چیز وحدت ہے کہ جس میں عالمی صلح کا امکان موجود ہے، ہیومنیسٹ اس دنیا کے اعتبار سے خدا کی یوں تفسیر کرتا ہے کہ : مسیح کا خدا وہی فلسفی بشر کی عقل ہے جو مذہب کی شکل میںموجود ہے۔(6) اس زاویہ نگاہ سے مذاہب میں تساہل یعنی ، مسالمت آمیز زندگی گزارنے کے علاوہ فلسفہ اور دین کے درمیان میں بھی تساہل موجود ہے ، جب کہ یہ گذشتہ ایام میں ایک دوسرے کے مخالف تھے ۔ یہ چیز قدیم یونان اور اس کی عقل گرائی کی طرف رجوع کی وجہ نہیں تھی ۔ یہ نظریہ جو ہر دین اور اہم نظام کی حقانیت اور سعادت کے انحصاری دعوے پر مبنی ہے کسی بھی اہم نظام اور معرفت کو حق، تسلیم نہیں کرتا اور ایک طرح سے معرفت اور اہمیت میں مخصوص نسبت کا پیروکار ہے اسی بنا پر ہر دین اور اہم نظام کی حکمرانی فقط کسی فرد یا جامعہ کے ارادہ اور خواہش پر مبنی ہے ۔…………..(1)Herman,Max(٢)ڈیوس ٹونی؛ گذشتہ حوالہ ، ص ٣٤۔(٣)لالاند ، آندرہ ؛ گذشتہ حوالہ۔(4)imperial(5)Feudaism .(6)ibid