اسلامی حکومت کی ذمہ داری کے بارے میں نظریات
اسلامی سیاسی نظام میں حکومت کی اھمیت اور اس کے قوانین کو نافذ کرنے کی ذمہ داری کی معرفت اس بات پر مبنی ھے کہ حکومت کی تشکیل خصوصاً اس سلسلہ میںاسلامی آئیڈیل کی شناخت کی جائے اسی طرح ھم نے حکومت کے وظائف اور ذمہ داریوں کے بارے میں بیان کیا تھا جن کا خلاصہ درج ذیل ھے:
1۔ ان قوانین کو جاری کرنے کی ضمانت جو براہ راست عوام الناس کے ذمہ ھوتے ھیں۔2۔ کیفری اور سزائی قوانین کا جاری کرنا جو براہ راست حکومت کے ذمہ ھوتے ھیں؛ یعنی اگر بعض لوگوں نے قوانین اوّلی پر عمل نہ کیا اور ان کی خلاف ورزی کی تو ان لوگوں کو سزا دےنا حکومت کی ذمہ داری ھے۔3۔ معاشرہ کی ان ضرورتوں کو پورا کرنا جن کو صرف حکومت ھی انجام دے سکتی ھے اور وہ انفرادی یا گروھی شکل میں انجام نھیں دی جاسکتیں جس کی بھترین مثال بیرونی دشمن کے مقابلہ میں دفاع ھے، عوام الناس اور گروھوں کی قدرت سے بالاتر ایک قدرت (حکومت) ھو جو اس کام کو اپنے ذمہ لے،( اور بیرونی دشمن کو دندان شکن جواب دے سکے)۔4۔ ان ضرورتوں کو پورا کرنا جو پھلے مرحلہ میں حکومت کے ذمہ نھیں ھیں بلکہ خود عوام الناس بھی ان امور کو انجام دے سکتی ھے، لیکن بعض وجوھات کی بنا پر وہ عملی جامہ نھیں پھن پاتی ھیںاور نہ ھی ان کا کوئی خاص فرد ذمہ دار ھوتا ھے مثلاً عام صفائی اور دیگر خدمات وغیرہ جن کو خود عوام الناس بھی انجام دے سکتی ھے لیکن ان کاموں کو انجام دینے میں رغبت نھیں پایی جاتی، یا ان کے وسیع ھونے یا ان میں مشکلات ھونے کی وجہ سے ان کے لئے خاص طریقہ پر منصوبہ بندی کی ضرورت ھوتی ھے اور اس کام کو حکومت ھی انجام دے سکتی ھے۔5۔ حکومت کی مھم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری معاشرہ کے عام درآمدی منابعسے فائدہ اٹھاناھے جس کو اسلامی ثقافت میں “انفال” کھا جاتا ھے، مثلاً جنگل، دریا، تیل اور گیس، یا سونے چاندی کی کانیںوغیرہ جن کا کوئی مخصوص مالک نھیں ھوتا اور کسی کو ان سے ذاتی طور پر فائدہ اٹھانے کا حق (بھی) نھیں ھوتا، تو انھیں چیزوں کے پیش نظر اس بات کی ضرورت ھے کہ ان چیزوں کی حفاظت کے لئے کوئی کمیٹی (یاحکومت) ھو تاکہ ان معدنوں سے صحیح فائدہ اٹھاکر معاشرہ کی ا صلاح کے لئے خرچ کیا جاسکے۔ظاھر سی بات ھے کہ حکومت کے وظائف اور اس کی مخصوص ذمہ داریوں کی شناخت کے بعد اس کے وجود کا فلسفہ بھی (آسانی) سے سمجھا جاسکتا ھے اسی طرح عام طور پر اس کی اھمیت بھی معلوم ھوجاتی ھے، لیکن اس نکتہ پر توجہ ضروری ھے کہ اسلامی حکومت کا خاص امتیاز یہ ھے کہ وہ مادی امور جن کو عام حکومتیں بھی انجام دیتی ھیں ان کے علاوہ معاشرہ میں معنوی اور روحانی امور کو ملحوظ خاطر رکھنا ھوتا ھے، اسی لئے اسلامی شعار کی حفاظت کرنا، دینی عام معلومات کا فراھم کرنااور اسلام واسلامی مقاصد کو بھتر سے بھتر رواج دینا اسلامی حکومت کی مخصوص ذمہ داری ھے۔
2۔ اسلامی حکومت کے عھدہ داروں کے شرائطاب جبکہ معلوم ھوگیا کہ اسلامی حکومت کی عظیم ذمہ داریاں ھوتی ھیں تو پھر حکومت کے مختلف عھدہ داروں میںکن شرائط کا ھونا ضروری ھے کیونکہ عھدہ داروں کے شرائط بھی ان کے وظیفوں کے لحاظ سے ھونا ضروری ھیں، اور جس قدر وظائف عظیم اور مھم ھونگے اسی لحاظ سے اس کے عھدہ داروں کے شرائط بھی عظیم ھونا ضروری ھیں ، اور چونکہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری دوسری حکومتوں سے زیادہ ھوتی ھے تو اس کے عھدہ داروں کے لئے بھی مھم شرائط ھونا ضروری ھیں ھر حکومت میں قوانین کو نافذ ھونا چاھئے، لیکن لائیک حکومتوں کی نسبت اسلامی حکومت کے قوانین کا دائرہ وسیع تر ھے جیسا کہ ھم نے قانون کے سلسلہ میں عرض کیاکہ غیر دینی حکومتوں میں قوانین کو صرف معاشرہ کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بنایا جاتا ھے، جیسا کہ سیاسی فلاسفہ کھتے ھیں کہ حکومت کی ذمہ داری صرف اجتماعی طور پر امن وامان قائم کرنا اور ھرج ومرج(بد امنی) سے روک تھام ھے، لھٰذا اس طرح کے اھداف آسان شرطوں کے ساتھ پورے ھوسکتے ھیں، لیکن اگر اس مقصد کے ساتھ ایک عظیم ھدف معنوی مصالح اور دینی والٰھی اقدار کا اضافہ ھوجائے (جیسا کہ قانون اساسی (بنیادی قوانین) میں موجود ھے اور ان کو نافذ کرنا حکومت کی ذمہ داری ھے) تو اسلامی حکومت کے عھدہ داروں کے شرائط دیگر حکومتوں کے عھدہ داروں سے سخت ھوجائیں گے۔قارئین کرام ! ھم اپنے اس مقدمہ کو بیان کرنے کے بعد مناسب سمجھتے ھیں کہ قوانین نافذ کرنے والے عھدہ داروں کے شرائط بیان کریں، (لھٰذا ھم عرض کرتے ھیں کھ) قوانین کے نافذ کرنے والے عھدہ داروں کے عام طور پر تین شرائط ھیں جن کے بارے میں تمام حکومتوں میں کوشش کی جاتی ھے کہ وہ شرائط عھدہ داروں میں ھونے چاھئے، اوراسلامی حکومت کے عھدہ داروں کے شرائط کے سلسلہ میں قرآن وحدیث میں بیان شدہ دلائل کے علاوہ ایسے عقلی (اور منطقی) دلائل ھیں جن میں انسان اعتراض نھیں کرسکتا:
الف۔ قانون کی پھچانجو شخص قانون کو نافذ کرنے کا عھدہ سنھالنا چاھتا ھے تو اس کے لئے اس سے آگاھی ضروری ھے نیز اس کے شرائط اور اس کو جاری کرنے کا طریقہ کار بھی جانتا ھو اگر کوئی شخص قانون نہ جانتا ھو تو اس کو نافذ بھی نھیں کرسکتا، جس کی بنا پر قانون کو نافذ کرنے میں غلطی کر بیٹھے گااور اپنی ذمہ داری کو ھی نقصان پھنچائے گا اور چونکہ اسلامی حکومت کے قوانین اسلامی اصول کے مطابق ھوتے ھیں تو ھر عھدہ دار اور مدیر کے لئے اپنے ما تحت انجام پانے والے امور کے بارے میں شرعی قوانین کا علم ھونا ضروری ھے کیونکہ ان قوانین کے تحت کام کرنااس کی ذمہ داری ھے اور جو شخص کسی کام کی ذمہ داری اپنے اوپر لیتا ھے تو اس کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنا خاص اھمیت رکھتا ھے اور چونکہ جیسی ذمہ داری ھوتی ھے اسی لحاظ سے اس کی اھمیت ھوتی ھے مثال کے طور پر کسی انسان کو ایک چھوٹی سی ذمہ داری دی جاتی ھے تو اس کے قوانین اور مقررات بھی محدود ھوتے ھیں لیکن کبھی اس کی ذمہ داری اس سے بڑہ کر ھوتی ھے جیسے ڈپٹی کمشنر تو اس کے لئے ضروری ھے کہ وہ اپنے ما تحت مختلف اداروں، ان میں نافذ ھونے والے قوانین اور ان کی دیکہ بھال کے بارے میں پوری معلومات رکھتا ھو، اسی طرح ذمہ داریاں بڑھتی رھتی ھے، یھاں تک کہ وزیر اور وزیر اعظم یا صدر مملکت جو ملک کا سب سے بڑا عھدہ ھوتا ھے اس کے لئے مختلف قانون کے بارے میں مزید معلومات کا ھونا ضروری ھے، لھٰذا اس عظیم عھدہ کے لئے وھی شخص لیاقت رکھتا ھے جو دوسروں سے زیادہ قوانین کے بارے میں علم رکھتاھو۔
ب۔ اخلاقی صلاحیتاسلامی حکومت کے عھدہ دار، مدیر اور کارگزاروں کو قوانین کے بارے میں معلومات رکھنے کے علاوہ ان میں اخلاقی شائستگی ھونا (بھی) ضروری ھے تاکہ اپنے عھدے اور موجود امکانات سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکے، اور ان کو اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر نبھاتے ھوئے ان کو کام میں لائے، اور اس میں ذاتی مفاد یا کسی خاص گروپ کا فائدہ اس کو اپنے وظائف پر عمل کرنے سے نہ روکے ممکن ھے کوئی شخص قوانین کو خوب اچھی طرح جانتا ھو لیکن اگر اس قانون کو جاری کرنا اس کے نفع میں نہ ھو تو ھوسکتا ھے وہ اپنے فائدہ کے لئے قانون کو پامال کردے اس کی مثال دنیا کے مختلف ممالک میں دیکھنے کو ملتی ھے کہ ملک کے بڑے بڑے عھدہ داروں نے کتنا غبن کیا (کیسے کیسے گھوٹالے کئے) جن کی خبریں دنیا بھر کے اخباروں کی سرخی بنتی ھیں کہ مثلاً فلاں ملک کا صدر مملکت فلاں گھوٹالے کی وجہ سے جیل بھیج دیا گیایا فلاں وزیر یا فلاں عھدہ دار کو فلاں سزا ھوگئی اس کی وجہ یہ ھے کہ وہ لوگ قوانین کو اپنے حق میں مانع دیکھتے ھیں، (لھٰذا ان کو پامال کرتے ھوئے اپنے منافع کو ترجیح دیتے ھیں)، ان میں تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت نھیں پائی جاتی کہ جس کی وجہ سے معاشرہ کو اپنی ذات پر ترجیح دیںاسی وجہ سے وہ قوانین کو پامال کردیتے ھیں۔لھٰذا طے یہ ھوا کہ قانون کے رکھوالوں کے لئے اخلاقی صلاحیت کا ھونا ضروری ھے اور اس قدر تقویٰ ھونا ضروری ھے کہ اپنی ھوا وھوس اور ذاتی مفاد کا مقابلہ کریں اور (ھمیشھ) حق کو مقدم رکھیں۔
ج۔ مدیریتی مھارت اور تجربہقانون کے ذمہ دار افراد قانون کو صحیح طریقہ سے جاری کریں اور ان کو خاص اور جزئی موارد میں منطبق کرنے کے لئے کافی حد تک تجربہ اور مھارت کا ھوناضروری ھے، اور صرف قوانین کے بارے میں معلومات ھونا کافی نھیں ھے کیونکہ ممکن ھے کہ بھت سے لوگ قوانین کو اچھی طرح جانتے ھوں اور تقویٰ اور صلاحیت بھی رکھتے ھوں لیکن قوانین کو جاری کرنے کا تجربہ اور مھارت نہ ھو، اور عملی میدان میں قوانین کو اس کے مصداق پر تطبیق نہ کرسکتے ھوں لھٰذا حکومت کے بڑے عھدہ دار کسی ایسے شخص کو ذمہ دار قرار نہ دیں جو کافی مقدار میں مھارت اور تجربہ نہ رکھتا ھو لھٰذا مدیریت کو ثمر بخش ھونے کے لئے اس شرط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ھے۔قارئین کرام ! دنیا کے تمام ھی ممالک میں یہ کوشش کی جاتی ھے کہ حکومت کے عھدہ داروں میں یہ شرط ھونا چاھئے؛ اسی طرح اسلام نے بھی حکومت کے عھدہ داروں کے لئے ان تین شرائط کو لازم اور ضروری جانا ھے اور ان کو بھت زیادہ اھمیت دی ھے، لیکن دوسری شرط؛ یعنی تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت پر اسلام نے بھت زیادہ توجہ دی ھے جبکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں دوسری دو شرطوں پر توجہ دی جاتی ھے اور عھد ہ داروں کے لئے تقویٰ وعدالت پر زیادہ دھیان نھیں دیا جاتا ھاں اس شرط کو فقط اس حد تک ضروری سمجھتے ھیں کہ بعض حکومتی عھدوں کے لئے جن ا شخاص کو منتخب کرتے ھیں وہ جرائم میں ملوث نہ ھو۔
3۔ عھدہ داری کے شرائط کا نصاب معین کرنے کی ضرورتقارئین کرام ! ایک قابل توجہ نکتہ جس پر مختلف سیاسی مکتب میں توجہ کی جاتی ھے وھ(مذکورھ) شرائط کے مختلف درجات ھیں جو اقدار کی وجہ سے مختلف ھوتے ھیں مثلاً جس طرح تقویٰ کے مختلف درجات ھوتے ھیں جس کا سب سے کمترین درجہ یہ ھے کہ انسان اپنے واجبات کو انجام دے اور گناھوں سے اجتناب کرے، اس کا ایک درجہ وہ ھے جس پر اولیاء اللہ اور دینی عظیم پیشوا مثل امام خمینی رحمة اللہ علیہ یا وہ افراد جن کا مقام معصومین علیھم السلام سے قریب ھوتا ھے؛ فائز ھوتے ھیں ،اور اس درجہ کے ھوتے ھوئے ان کے خیال وفکر میں بھی ناجائز تصور نھیں آتے۔اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ حکومتی عھدوں کو حاصل کرنے کے لئے کس درجے کا تقویٰ؛ معیار اور ملاک قرار دیا جانا چاھئے، اور اگر تقویٰ کا بلند ترین درجہ معیار قرار دیں تو پھر ایک مشکل پیداھوجائے گی کہ اس طرح کے افراد بھت کم ھوتے ھیں جو شاید ملک کے عظیم اور مھم عھدوں کے لئے ھی کافی ھو، لیکن دوسرے عھدوں کے لئے کافی نہ ھوںگے، اور اگر کمترین درجے والے تقویٰ کو معیار قرار دیں تو وہ مقام عمل میں سودمند نھیں ھوتا جس کی بنا پر خلاف ورزیاں ھوتی رھیںگی،اور جس کے نتیجہ میں اپنے مقصد تک نھیں پھنچا جاسکتا یہ مسئلہ انسانی کردار کے مختلف بنیادی مشکلات اور مسائل کے حل کے مقابلہ میں ھے، لیکن بعض افراد کا یہ ماننا ھے کہ عھدہ داری کے لئے یا تمام تر اخلاقی صلاحیت پائی جائیں اور اگر تمام صلاحیت نہ ھوں تو پھر کسی بھی صلاحیت کا ھونا ضروری نھیں ھے، “یا سب کچھ یا کچھ بھی نھیں” یعنی یا تو انسان میں بلندترین صفات ھونا چاھئے یا بالکل بھی صفات کا ھونا ضروری نھیں ھے اور یہ نظریہ انسانی علوم کے مختلف شعبوں میں جن میں سے ایک فلسفہ اخلاق بھی ھے ؛ پایا جاتا ھے۔
4۔ اخلاقی صفات کے بارے میں “کانٹ” کے نظریہ کی ردّجو لوگ اخلاقی فلسفہ سے آشنائی رکھتے ھیں ان کو معلوم ھے کہ جرمنی فیلسوف “کانٹ” کا ایک نظریہ ھے جس کے بھت زیادہ طرفدار (بھی) پائے جاتے ھیں، اس کا نظریہ یہ ھے کہ وہ اخلاقی صفت اس وقت اھمیت پیدا کرتی ھے جب وہ بلند ترین درجے پر فائز ھو اور کسی دوسری چیز پر توجہ کئے بغیر اس کو اپنایا جائے، محبت ، احساسات اور معاشرہ کی وجہ سے نہ ھو، یعنی اگر انسان کوئی نیک کام کرنا چاھے تو فقط اس کو اس کے نیک ھونے کی وجہ سے انجام دے، اس پر مرتب ھونے والے اثر (وثواب) کے لئے نھیں،اور نہ اپنی خواھش کو پورا کرنے یا محبت کی تسکین کے لئے، لھٰذا اگر کوئی ماں آدھی رات بچے کے رونے کی آواز سن کر اپنی میٹھی نیند سے بیدار ھوکر بچے کو اپنی گود میں لے اور اس کو دودہ پلائے ، اگرچہ عوام الناس کی نظر میں یہ کام بااھمیت ھے ، لیکن کانٹ کے نزدیک اس کام کی کوئی قدر وقیمت نھیں ھے کیونکہ ماں نے اپنی مامتا اور بچے سے شدید محبت کی وجہ سے اس کو دودہ پلایا ھے اور اگر وہ اس بچے کو دودہ نہ پلائے تو پریشان ھوجائے گی ، در حقیقت ماں نے اس بچے کو دودہ پلاکر اپنی مامتا کو ٹھنڈا کیا ھے۔اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کام کو معاشرہ کی بھلائی کے لئے انجام دے یا عوام الناس کے اعتماد کو جلب کرنے کے لئے سچ بولے، تو ان کاموں کی کوئی ارزش واھمیت نھیں ھے سچائی کی اھمیت اس وقت ھے جب صرف اس کی خوبی کو مد نظر رکہ کر سچ بولے۔قارئین کرام ! جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ کانٹ نے اخلاقی اقدار کے لئے بھت سخت شرائط بیان کئے ھیں جس کے تحت بھت کم افراد ھی اس کے مصداق مل پائیں گے، اور بھت ھی کم افراداخلاقی اقدار والے مل پائیں گے؛ کیونکہ یہ اخلاق کبھی تو مامتا کی وجہ سے یا اور کبھی اجتماعی فائدہ کی وجہ سے یا اُخروی ثواب کے لئے ھوتاھے۔لھٰذا اگر اخلاقی صفات میں تمام صفات پائے جائیں تو وہ صحیح ھے لیکن اگر ان میں کچھ شرائط نہ پائے جائیں تو اس کی کوئی اھمیت نھیں ھے اسی طرح دوسری چیزوں میں بھی منجملہ سیاست اور حکومت کے بارے میں، کہ وہ حکومت بر حق ھے جس کے تمام عھدہ دار اعلیٰ شرائط پر فائز ھوں اور اگر ایسے افراد موجود ھوں تب کھیں حق کی حکومت کی بارے میں سوچا جاسکتا ھے۔اسلامی انقلاب سے پھلے ھمارے معاشرہ میں بھی بعض دیندار افراد لیکن سخت دل اور کج فکر رکھنے والے اس طرح کا نظریہ رکھتے تھے اور کھتے تھے: اگر اسلامی حکومت بنانا چاھتے ھیں تو جب ھمارے معاشرہ میں سلمان فارسی جیسے افراد کی تعداد کافی مقدار میں موجود ھوںگی تاکہ ایسے ھی افراد کو شھر کا حاکم بنایا جائے ، اور جب تک ھمارے پاس ایسے افراد نہ ھوں تو پھر ھمیں انقلاب لانے کی کوئی ضرورت نھیں ھے۔ان تنگ نظر لوگوں کا نظریہ تھا کہ حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے ظھور تک اسلامی انقلاب کے لئے راستہ ھموار نھیں ھوگا، لھٰذا ھمیں انقلاب کی کوئی ضرورت نھیں ھے ، اور ھمیں انتظار کرنا چاھئے یھاں تک کہ حضرت امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) اپنے تین سو تیرہ ممتاز ساتھیوں کے ساتھ آکر انقلاب برپا کریں اور عدل وانصاف کی حکومت قائم کریں ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ اس وقت تقویٰ اور اخلاقی صفات کے مالک افراد نھیں ھیں لھٰذا انقلاب برپا کرنا صحیح نھیں ھے متقی اور مخلص افراد کی تعداد اس قدر ھوکہ حکومت کے مھم عھدے ان کے سپرد کئے جاسکیں، تاکہ وہ معاشرہ کو صحیح طریقہ سے چلاسکیں اور معاشرہ میں کسی طرح کا نقص وعیب پیدا نہ ھوسکے۔قارئین کرام ! اس نظریہ پرچھوٹے سے چھوٹا اشکال یہ ھے کہ اس طرح کی نمونہ حکومت کسی بھی وقت نھیں بن سکتی، اور جب تک تقویٰ اور اخلاق سے مزین ایسے افراد کی تعداد حدّ نصاب تک نہ پھنچے اسلامی حکومت کی فکر کرنا ھی بے کار ھے؛ تو اس صورت میں معاشرہ میں فساد و تباھی پھیلتی چلی جائے گی، اور اجتماعی وسیاسی مثبت پھلو کی طرف ترقی ھونے کے بجائے ان کا راستہ بالکل محدود ھوکر رہ جائے گا۔
5۔اقدار اور وظائف کے بارے میں اسلامی درجہ بندی نظریہمذکورہ ایک پھلو والے اقدار کے نظریہ کے برخلاف؛ بعض حکومتوں میں چاھے انفرادی کردار ھو یا اجتماعی اور سیاسی مختلف مراتب اور مختلف نمونے پیش کئے گئے ھیں: اول درجہ میں ایک آئیڈیل(نمونھ) پیش کیا جاتا ھے اس کے بعد دوسرے درجے والے نمونے اور کمترین شرائط والے نمونے ، اس کے بعد مجبوری والے نمونے پیش کئے جاتے ھیں اسی طرح اسلام نے مختلف مواقع پر درجات والے نمونے بیان کئے ھیں مثال کے طور پر اسلام نے انسان پر تمام شرائط کے ساتھ نماز واجب کی ھے لیکن اگر انسان مجبوری کی حالت میں ھو تو پھر وہ کامل شرائط ضروری نھیں ھوتے، بلکہ وہ اس وقت سے مخصوص ھیں جب انسان ان شرائط اور اجزاء پر قدرت رکھتا ھو ، لیکن مجبوری یا اضطراری حالت میں وہ شرائط کم ھوجاتے ھیں مثال کے طور پر جن مواقع پر انسان کے لئے غسل کرنا واجب ھوجاتا ھے لیکن اگر پانی موجود نہ ھو یا پانی اس کے بدن کے لئے نقصان دہ ھو، یا اگر اس کا وظیفہ وضو کرنا ھو لیکن ٹھنڈا پانی اس کے لئے نقصان د ہ ھو اور وہ وضو نہ کرسکتا ھو ، تو اسلام “یا سب کچھ یا کچھ بھی نھیں” کے نظریہ کو قبول نھیں کرتا اسلام یہ نھیںکھتا کہ نماز صرف اس صورت میں واجب ھے جب تمام شرائط موجود ھوںاو رنماز کو تمام تر مقدمات اور شرائط کے ساتھ بجالائے اور اس کے علاوہ نماز نھیں ھوگی،بلکہ اسلام نے اس طرح کے مواقع پر اسی لحاظ سے وظیفہ معین کیا ھے، چنانچہ مذکورہ صورت کے بارے میں فرمایا کہ اگر انسان وضو اور غسل کے ذریعہ نماز نھیں پڑہ سکتا تو تیمم کے ساتھ نماز پڑھے، اور اگر کھڑے ھوکر نماز نھیں پڑھی جاسکتی تو بیٹہ کر پڑھے، اور اگر کوئی شخص بیٹہ کر بھی نھیں پڑہ سکتا تو لیٹ کر پڑہ لے، اور اگر ھاتہ پیر اورزبان کو حرکت نھیں دے سکتا لیکن ھوش میں ھو تو اس سے بھی نماز ساقط نھیں ھے تو اس نازک حالت میں بھی اسی حالت کے لحاظ سے نماز واجب ھے۔مقصد یہ ھے کہ اسلامی اقداری نظام میں کیفیت اور کمیت (تعداد) کے لحاظ سے سیاسی، اجتماعی اور شرعی وظائف کے درجات رکھے گئے ھیں جن میں سے ھر ایک انسان کی حالت کے لحاظ سے اھمیت رکھتے ھیں، اول درجہ میں سب سے بلند درجہ مد نظر ھے اس کے بعد دوسرا درجہ اور پھر تیسرا درجہ یھاں تک انسان کی مجبوری کے لحاظ سے جس مقدار بھی انجام دے سکتا ھے اسی کو کافی گردانتا ھے۔
6۔عبادت کے بھی مختلف درجات ھیںدوسری مثال جس سے کانٹ کے نظریہ کا فرق واضح ھوجاتا ھے ؛ یہ ھے کہ اسلام عبادت کے سلسلہ میں مراتب اور درجات کا قائل ھے؛ کیونکہ سب سے بھترین عبادت وہ عبادت ھے جو صرف اور صرف خدا کی محبت اور اس کی شکر گذاری کے لئے انجام دی جائے جیسی عبادت حضرت علی علیہ السلام انجام دیتے تھے، جیسا کہ آپ اپنی مناجات میں عبادت کی توصیف کرتے ھوئے فرماتے ھیں:”اِلٰھی مَا عَبَدْتُکَ خَوْفاً مِنْ عِقَابِکَ وَلاٰ طَمَعاً فِی ثَوَابِکَ وَلَکِنْ وَجَدْتُکَ اٴَھلاً لِلْعِبَادَةِ فَعَبَدْتُکَ ” (1)”پروردگارا ! میں تیری عبادت تیرے عذاب کے ڈر سے یا تیرے ثواب کے لالچ میں نھیں کرتا بلکہ تجھے عبادت کا حقدار پاتا ھوں تو تیری عبادت کرتا ھوں۔””اِنَّ قَوماً عَبَدُوْا اللهَ رَغْبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ وَاِنَّ قَوماً عَبَدُوْا اللهَ رَھبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ وَاِنَّ قَوماً عَبَدُوْا اللهَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴَحْرَارِ۔”(2)”بعض لوگ خدا کی عبادت؛ بخشش کی امید میں کرتے ھیں تو ایسی عبادت تاجروں کی عبادت ھے، اور بعض لوگ خدا کی عبادت اس کے خوف کی وجہ سے کرتے ھیں تو یہ غلاموں کی عبادت ھے، اور بعض لوگ خدا کی عبادت اس کے شکر کی وجہ سے کرتے ھیں اور یھی عبادت آزاد افراد کی عبادت ھے۔”قارئین کرام ! حضرت امیر المومنین علیہ السلام اپنے اس بیان میں سب سے بھترین عبادت اس عبادت کوقرار دیتے ھیں جو صرف اور صرف خدا کے شکر کے لئے بجالائی جائے، اور اسلام بھی یھی چاھتا ھے کہ تمام مومنین اسی طرح عبادت کریں، لیکن یہ بات واضح ھے کہ تمام مومنین اس طرح کی قابلیت اور ھمت نھیں رکھتے کہ اس طرح کی عبادت بجالاسکیں، کیونکہ اس طرح کی عبادت صرف خالص اولیاء اللہ ھی انجام دے سکتے ھیںجن کا مقام اتنا بلند ھوجاتا ھے کہ وہ جمال پروردگار میں محو ھوجاتے ھیں، اور اگر ان کو جھنم میں (بھی) لے جایا جائے تو وہ پھر بھی خدا کی عبادت اور اس سے مناجات کرنا ترک نھیں کریں گے یا اگر ان کو جنت سے محروم کردیا جائے تو وہ پھر بھی خدا کی عبادت کو ترک نھیں کریں گے لیکن اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ اس طرح کے افرادلاکھوںمیں ایک دو ھی مل پائیں گے۔بھر حال اگر ھم کانٹ کے نظریہ “یا سب کچھ یا کچھ بھی نھیں” کو قبول کریںاور یہ مان لیں کہ اخلاقی نیکی اس وقت پیدا ھوتی ھے جب اس عمل میں تمام شرائط اور قابلیت پائی جائے اور ذرہ برابر بھی اس کے شرائط میں کمی نہ ھو ، تو پھر ھم یہ کھنے پر مجبور ھوںگے کہ عبادت اس وقت مقبول ھے جب عالی ترین اور بلند ترین درجہ پر فائز ھو، اور صرف خدا کے شکر کے لئے بجالائی جائے؛ یعنی صرف خالص اولیاء اللہ کی عبادت مقبول ھوگی، اور جو لوگ جھنم کے خوف یا بھشت کے لالچ میں عبادت کریں تو اس کی عبادت قابل قبول نھیں ھے لیکن جیسا کہ یہ بات واضح ھوچکی ھے کہ اسلام اس تنگ نظری کو قبول نھیں کرتا بلکہ مومنین کی سھولت ،زخمتوں اور سختیوں کو دور کرنے کے لئے عبادت اور دیگر وظائف میں درجات رکھے ھیں، ایسے درجات جو کم سے کم شرائط سے شروع ھوتے ھیں اور بلند ترین درجات تک پھنچ جاتے ھیں جن میں تمام شرائط اور صلاحتیں پائی جاتی ھیں، اور اگر کوئی انسان ان بلند درجات تک پھنچ جائے تو انسانی اور الٰھی کمال پر پھنچ جاتا ھے جیسے حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے (خاص) شاگردوں کی عبادت؛ جس کی وجہ سے یہ حضرات معرفت کے بلند ترین مقام پر پھنچ گئے ھیں اور خدا کی بندگی کے عالی ترین مرتبہ پر فائز ھوچکے ھیں؛ لیکن جن کا درجہ ان سے کم ھے اور وہ لوگ جو ثواب کے شوق میں عبادت کرتے ھیں اس کی عبادت بھی خدا کے نزدیک مقبول ھے اسی طرح وہ لوگ جو اس درجہ سے بھی کم درجہ رکھتے ھیں اور جھنم کے خوف سے خدا کی عبادت کرتے ھیں ان کی عبادت بھی مقبول ھے اور یہ بھی اھمیت و ارزش کا ایک مرتبہ ھے۔
7۔ اسلامی حکومت کے درجہ بندی شدہ نمونےجیسا کہ بیان ھوچکا ھے : اسلام کا نظریہ “یا سب کچھ یا کچھ بھی نھیں” نھیں ھے بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے ارزش اوراقدار کے مختلف مراتب ھیں، کم درجہ سے شروع ھوکر بلند ترین درجہ تک پھنچتے ھیں اسلامی سیاست میں بھی اسی طرح ھے: اسلام اول درجہ میں ایک نمونہ حکومت پیش کرتا ھے جو فقط خاص شرائط کے تحت اور ان افراد کے ذریعہ جن میں مکمل شرائط اور بھترین قابلیت پائی جاتی ھے جن تک عام افراد نھیں پھنچ پاتے، حقیقت میں ویسی حکومت صرف انھیں افراد کے ذریعہ ھوسکتی ھے جو مقام عصمت تک پھنچے ھوئے ھیں اور ان کے کردار میں ذرہ برابر بھی کوئی خطا وغلطی کا تصور نھیں پایا جاتا بلکہ ان کی فکر بھی پاک وپاکیزہ ھوتی ھے،یہ اسلامی حکومت کی بلند ترین اور بھترین شکل ھے وہ حکومت جس کا رئیس ایسا شخص ھو جو نہ صرف یہ کہ ھوا وھوس کے تحت معصیت نہ کرے بلکہ نا خواستہ میں بھی اس سے غلطی کا امکان نہ ھو ، اور اس سے کوئی بھی خطا ولغزش نہ ھو، اور مکمل طور پر مصالح ومنافع کی رعایت کرے، اور تمام اسلامی قوانین کے مجموعہ کو جانتا ھو ، اوران کو بھترین طریقہ سے جاری کرے اور یہ وھی نمونہ حکومت ھے جو انبیاء علیھم السلام اور پیغمبر اکرم (ص) اور کچھ مدت کے لئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ذریعہ وجود میں آئی۔البتہ اس نمونہ حکومت سے بھی بالا تر ایک اور حکومت کا تصور کیا جاسکتا ھے جو کبھی بھی نھیں ھوسکتی اور وہ یہ ھے کہ رئیس حکومت میں معصوم کے علاوہ تمام فرماندار اور ریاستی حاکم تمام کے تمام معصوم ھوں۔اور جیسا کہ ھم نے عرض کیا اس طرح کی حکومت کبھی بھی نھیں ھوسکتی کیونکہ کسی بھی زمانہ میں معصوم کی تعداد اس قدر نھیں ھوسکتی جن میں سے حکومت کے تمام عھدوں کے لئے معصوم کا انتخاب کیا جاسکے صرف وھی نمونہ حکومت ھوسکتی ھے جس کا رئیس معصوم ھواور یہ بھی صرف اسی وقت تصور کی جاسکتی ھے کہ جب معصوم موجود ھو ،اوروہ بھی اس صورت میں جب تمام رکاوٹیں ختم ھوجائیں۔لھٰذا اسلامی سیاست میں حکومت کے لئے مختلف مراتب اور درجات موجود ھیں کہ اگر حکومت کی بھترین قسم کا امکان نہ ھونے کی صورت میں اس سے ایک درجہ کم والی حکومت اس کے قائم مقام بنے، لھٰذا اگر بلند ترین حکومت جس میں ریاست معصوم کی ھو؛ نہ بن سکے تو ھم اسلامی حکومت کی تشکیل سے صرف نظر نھیں کرسکتے، بلکہ اگر معصوم حاضر نہ ھو تو ایسے شخص کی حکومت ھو جو علم ، تقویٰ اور مدیریت کے لحاظ سے معصوم سے شباھت رکھتا ھو (اگرچہ علم وتقویٰ اور مدیرت کا سب سے بلند درجہ معصوم کی ذات ھی میں تصور کیا جاسکتا ھے کیونکہ اس کا علم اور اس کا کردار عصمت کے زیر سایہ ھوتا ھے) ، اوراگر ایسا شخص بھی موجود نہ ھو تو پھر اس سے کم درجے والے کا انتخاب کیا جائے، اسی طرح کم سے کم درجہ والے کا انتخاب کیا جائے، یھاں تک کہ نصاب حکومت کے نچلے درجہ تک پھنچ جائے، اور اگر اس نصاب سے کم درجہ ھے تو پھر اس حکومت کے اھداف محقق نھیں ھوپائیں گے، لھٰذا اس شکل کی حکومت کو کسی بھی وقت میں انتخاب نھیں کیا جاسکتا۔
8۔ ولایت فقیہ کی حکومت پر عقلی دلیلقارئین کرام ! اگر ھماری بیان شدہ باتوں پر توجہ کی جائے تو ولایت فقیہ کی حکومت کی دلیل خود بخود واضح ھوجائے گی، اور وہ یہ ھے کہ : اگر ھم شرعی اور تعبدی دلائل سے صرف نظر کرلیں تو اسلامی بھترین حکومت کا نمونہ معصوم کی حکمرانی کی صورت میں تصور کیا جاسکتا ھے، لیکن چونکہ اسلام میں اقدار کے مراتب اور درجات ھیں لھٰذا بغیر شک وشبہ کے حکومت کے بھی درجات ھیں، جس وقت معصوم کے نہ ھوتے ھوئے اس کے بھترین نمونہ ممکن نہ ھو تو ایسے شخص کو حکمرانی کے لئے انتخاب کریں جو معصوم سے زیادہ شباھت رکھتا ھو، اور وہ جامع الشرائط فقیہ ھے جو صلاحیت ، قابلیت ، علم، عمل اور مدیریت میں معصوم سے زیادہ شباھت رکھتا ھے اور امام کا جانشین شمار ھوتا ھے۔پس ولایت فقیہ نظام کی دلیل یہ ھے کہ جب امام معصوم (ع) تک رسائی ممکن نہ ھو تو اس صورت میں جامع الشرائط فقیہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالے کیونکہ وہ قوانین سے آشنائی، تقویٰ منجملہ سیاسی اور اجتماعی تقوے میں، عام عدالت کی رعایت میں، قوانین کو جاری کرنے میں،حُسن تدبیر اور معاشرہ پر مدیرت میں، عملی میدان میںمھارت، قوانین کو جاری کرنے کے طریقہ کار کی شناخت میں، ھوائے نفس اور شیطان سے مقابلہ میں اور اسلام ومسلمین کے مصالح کو ذاتی اور گروھی منافع پر ترجیح دینے میں دوسروںپر فضیلت اور برتری رکھتا ھے۔ھوسکتا ھے کوئی شخص یہ کھے کہ جب امام معصوم (ع) تک رسائی ممکن نہ ھو، تو پھر اسلامی حاکم کے لئے وہ شرائط ضروری نھیں ھیں؛ نہ فقاھت اور علم کی شرط معتبر ھے اور نہ تقویٰ اور مدیریت کی قدرت، اور جو شخص بھی اپنے آپ کو مسلمانوں کی حکمرانی کے لئے ممبر کے طور پر پیش کرے اور وہ اکثریت سے جیت جائے تو اس کی حاکمیت اور حکومت معتبر اور نافذ ھے۔حقیقت میں یہ فرضیہ اسی نظریہ ( “یا سب کچھ یا کچھ بھی نھیں” ) پر مبنی ھے یعنی جب اعلیٰ قسم کے شرائط جو فقط معصوم (ع) میں ھوسکتے ھیں؛والا شخص نہ ھو تو پھر کم تر درجہ والے شرائط کی ضرورت نھیں ھے،جب معصوم (ع) کا تقویٰ نہ ھو تو پھر حاکم کے لئے تقوی کی شرط نھیں ھے اور وہ فاسد انسان جو گناہ کبیرہ کا بھی مرتکب ھوتا ھے وہ بھی اسلامی حکومت کا صدر بن سکتا ھے یھاں تک کہ وہ شخص جس نے فقہ وفقاھت کی بو بھی نہ سونگھی ھو وہ بھی اسلامی حکومت کا صدر بن سکتا ھے لیکن اسلامی سیاست کے تحت یہ نظریہ بغیر دلیل کے ھے اور باطل ھے، اور صرف مغربی ممالک میں رائج ڈیموکریٹک کے لحاظ سے ھے۔اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے درمیان اسلام سے معمولی معلومات رکھنے والے اور اپنے کو روشن فکر کھنے والے اپنی اسلامی معلومات کو مغربی کلچر سے مخلوط کرکے مشکلات میں پھنس گئے ھیں، اور جب وہ ڈیموکریسی کو عملی طور پر پیش کرنا چاھتے ھیں تومعلوم ھوتا ھے کہ انھوں نے نظریہ “یا سب کچھ یا کچھ بھی نھیں” کو قبول کرلیا ھے، یہ سادہ لوح مسلمان اس بات کو مانتے ھیں کہ اگر امام معصوم (ع) موجود ھوں تو پھراسلامی معاشرہ میں انھیں کی حکومت ھونا چاھئے؛ لیکن اب جب کہ امام معصوم (ع) حاضر نھیں ھیں تو پھر معیار لوگوں کی اکثریت ھے اور عوام الناس کی مقبولیت کے علاوہ کوئی شرط ضروری نھیں ھے۔قارئین کرام ! مذکورہ نظریہ ذرہ برابر بھی اسلامی حقیقت سے سنخیت نھیں رکھتا اسلام خود اپنے سلسلہ میں مراتب کا قائل ھے اور ارزشی واقدار کے سلسلہ میں مختلف مراتب پائے جاتے ھیں، اسی طرح ھم اجتماعی مسائل میں دیکھتے ھیں کہ بعض امور کے لئے خاص شرائط قرار دئے گئے ھیں لیکن اگر تمام شرائط موجود نہ ھوں تو پھر اس سے کم درجہ کے شرائط معتبر سمجھے جاتے ھیں ھم اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے اسلامی اجتماعی احکام میں سے “وقف” کے بارے میں اشارہ کرتے ھیں:احکام “وقف” کے سلسلہ میں بیان ھوا کہ اگرکوئی چیز کسی خاص کام کے لئے وقف کی جائے تو اس کو اسی کام میں استعمال کیا جانا چاھئے لیکن اگر وہ کام بالکل ختم ھوجائے اور اس کا وجود خارجی نہ ھو تو پھر اس کام میں استعمال کیا جائے جو اس سے نزدیک ھو مثلاً قدیم زمانہ میں بعض چیزوں کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین کے سواروں (گھوڑے وغیرھ) کے لئے وقف کیا جاتا تھا اور اس کی در آمد سے حضرت سید الشھداء (ع) کے زواروں کے ان حیوانوں پر جن پر سوار ھوکر کربلا جاتے تھے؛ ان کے لئے گھاس وغیرہ خریدی جاتی تھی لیکن آج کل اس طرح کا کوئی سلسلہ نھیں ھے اور آج کل کوئی گدھے گھوڑوں پر سوار ھوکر کربلا نھیں جاتا بلکہ آج کل تو ھوائی جھازوں اور گاڑیوں سے سفر کئے جاتے ھیں، تو کیا اس طرح کی وقف شدہ چیزوں کو بالکل ھی چھوڑ دیا جائے اور “یا سب کچھ یا کچھ بھی نھیں” کے نظریہ کے تحت اس وقف شدہ شٴے کو بالکل ھی استعمال نہ کیا جائے، یا جس طرح اسلام نظریہ پیش کرتا ھے کہ اگر اعلیٰ ترین مرتبہ نہ ھو تو اس سے کم مرتبہ والے کواخذ کیا جائے جو گذشتہ استعمال سے زیادہ شباھت رکھتا ھے، اور یہ کھیں کہ اب جب جانوروں کو گھاس کھلانے کا موقع نھیں ھے تو اس کی در آمد کو ان گاڑیوں کے تیل وغیرہ میں خرچ کیا جاسکتا ھے، جن کے ذریعہ کربلا جاتے ھیں؟ کیونکہ یہ کام گذشتہ استعمال سے زیادہ نزدیک ھے۔اسی طرح اگر وقف کرنے والا اپنے بعد وصیت کرے کہ اس کے بعد اس کے لڑکوں میں سے ھی کوئی ایک اس کا متولی ھو لیکن متولی کے شرائط بیان کریں منجملہ یہ کہ متولی مجتھد ھو، تو اگر اس کی اولاد میں کوئی مجتھد نہ ھو لیکن ایسا لڑکا ھو جو اجتھاد کے قریب یا مجتھد متجزّی ھو، تو کیا اس صورت میں وقف شدہ شئے بغیر متولی کے رھے گی کیونکہ اس کے لڑکوں میں کوئی مجتھد نھیں ھے ؟ یا اگر پھلا درجہ ممکن نہ ھو تو دوسرے درجہ کو اختیار کیا جائے گا؛ اور مجتھد نہ ھونے کی صورت میں قریب الاجتھاد کو اس کا متولی بنایا جائے؟بھر حال شرعی، اجتماعی اور سیاسی مسائل میں ایسے بھت سے نمونے موجود ھیں جن کو عقل اور شریعت صاحب مراتب سمجھتے ھیں اسی طرح اسلامی حکومت میں حاکم اور صدر کے لئے مراتب اور درجات رکھے گئے ھیں کہ اگر اول درجہ یعنی امام معصوم (ع)نہ ھونے کی صورت میں وہ شخص حاکم بنے جو امام معصوم (ع) کا جانشین ھو اور ھر لحاظ سے معصوم (ع) سے قریب ھو ،اور وہ جامع الشرائط ولی فقیہ کے علاوہ کوئی دوسرا نھیں ھوسکتا۔
حوالے:(1)بحار الانوار ج 41 ض 14(2) نھج البلاغہ، کلام 238