تربیت اولاد اور فاطمہ ؑ

119

ولایت اور معرفت ؛۲؛معرفوں میںحضرت زہرا ؑاپنے بیٹے حسن امیر ؑ کو جب پیار کرتی تھیں اور یہ جملے ارشاد فرماتی تھیں ا شبہ اباک یا حسن واخلع عن الحق الرسن واعبد الھا ذالمینولا توال ذا الاحن فضائل الزہرا ؑمنابع بحار الانوار ج۴۳ ص۲۸۶ دسواں باب تربیت اولاد وفاطمہ س۱۔اے حسن اپنے والد کی طرح بنو اور حق کی گردن سے رسی اتار پھینکو اور نعمت عطا کرنے والے خدا کی عبادت کر اور کینہ پرستوں کو دوست نہ رکھو
اس کے ظاہر کی تفسیرچونکہ حضرت علی ؑ قدرت حق اور صفات الہی کے مظہر ہیں لذا فرماتی ہیں جناب زہرا ؑاپنے والد کی شبیہ بنو البتہ شباہت علم انصاف شجاعت اور تقوی وغیرہ ہے جنہیں علی ؑ کی ترویج میں بہت دوست رکھتے ہیں یعنی اپنے والد کے نقش قدم پر چلو اور یہ اپنے بیٹے حسن سے حضرت سیدہ کی پہلی خواہش۲۔ حق سے رسی اتار پھینکنا یہ ہے کہ انسان حق کو پاک وخالص کرے۔اس سے دو معنی سمجھے جاتے ہیں۱۔توحید حقیقی میں سب سے پہلے موحد عقائد افعال سے کفر وشرک اور معصیت دریا کی جڑوں کو کاٹ ڈالے۲۔ان کی جڑوں کو دلیل وبرہان کے ذریعے لوگوں کے عقائد وافعال سے کاٹ ڈالے۳۔صاحب نعمت اور نعمت بخشش معبود کی عبادت کرو کہ تمام آشکار وبہتان نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں۴۔جو چیز بھی باطل ہے اسے اپنے دل سے نکال دو اس سے دل نہ لگاؤاپنے دل میں صرف خدا اور اولیاء خدا کی ولایت ومحبت رکھو باقی سب کچھ نکال دو بحار الانوار ج۲۳ ص۲۸۶اولاد کو حقائق کی تعلیمتکبیرات اختتامیہ یا تکبیرۃ الاحرام کے اسرار کےبارے میں امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں ایک دن رسول خدا ؐ نماز پڑھنے کے لئےکھڑے ہوئے تو امام حسین ؑ بھی ان پہلو مبارک میں نماز کے لئے کھڑے ہو گئے جب پیغمبر نے تکبیرۃ الاحرام کہی تو امام حسین ؑ ادا نہ کر سکے رسول خدا ؐ نے سات بار تکبیرۃ الاحرام کو دہرایا یہاں تک امام حسین ؑ دہرانے میں کامیاب ہو گئے لذا یہ مستحب ہےزہرا ؑامام حسین ؑ کے بارے میں فرماتی تھیںانت شبیہ بابی لست شبیھا بعلیامام حسین ؑ کے بارے میں حضرت فاطمہ زہرا ؑفرماتی تھیںتم میرے باپ حضرت محمد ؐ پر گئے ہو علی ؑ پر نہیں
امت سبق لےکتاب راہنمائے بہشت کی جلد اول ص۱۶۳ پر لکھا ہوا ہے کہ حضرت امام حسن مجتبی ؑ پانچ سال کی عمر میں ہر روز مسجد میں جاتے تھے اور پیغمبر اکرم ؐ جو کچھ بیان کرتےح تھے وہ سب کچھ ذہن نشین کرتے تھےاور جب اپنے گھر واپس آتے تھے تو اپنی والدہ ماجدہ جناب سیدہ ؑکو من وعن تقریر کر کے سناتے تھے اور جب حضرت امیر المومنین ؑ گھر تشریف لاتے تھے تو حضرت صدیقہ طاہرہ ؑوہ سب باتیں انہیں بیان کیا کرتی تھیںایک دن حضرت امیر المومنین ؑ نے پوچھا اے فاطمہ تم تو مسجد میں نہیں گئیں یہ باتیں کہاں سے سیکھیں اسی وقت جناب سیدہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں کہ میں اپنے بیٹے حسن امیر سے وہ ہر روز مسجد میں جاتا ہے اور میرے جد حضرت محمد ؐ منبر پر بیٹھ کر جو کچھ بیان فرماتے ہیں وہ گھر آکر اسی ترتیب سے تقریر کر کے مجھے سناتا ہے۔حضرت نے فرمایا میں اس کی تقریر سننا چاہتا ہوں جناب صدیقہ طاہرہ نے فرمایا میرا خیال ہے کہ وہ شرم کی وجہ سے آپ کے سامنے تقریر نہیں کر پائے گا حضرت نے فرمایا میں کسی جگہ پر چھپ کر اس کی باتیں سن لوں گا اگلے دن امام حسن ؑ ہر روز کی طرح مسجد سے گھر آتے تو حضرت صدیقہ ؑاے میرے نور چشم تمہارے نانا نے کیا فرمایا امام حسن ؑ ہر روز کی طرح ایک بلند جگہ پر بیٹھ کر تقریر کرنا چاہی تو ان کی زبان مبارک میں لکنت آگئی وہ بات شروع نہ کر سکے اور اپنی والدہ سے فرماییا اماہ قل بیانی وکل لسانی لعل سیداً تیرانیاے اما جان میرا بیان کم ہو گیا ہے اور میری زبان گنگ ہو گئیشاید کوئی بزرگوار مجھے دیکھ رہا ہے حضرت امیر عجو دروازے کے پیچھے تھے بے اختیار اندر آئے اور انہیں اپنی آغوش میں بٹھایا اور ان کے ہونٹوں کا بوسہ لیا اسلامی علم ودانش کے فروغ کے لئے بیٹے کا وہ عمل اور والدہ ماجدہ اور والد بزرگوار پہ حوصلہ افزائی
پیغمبر ؐ سے درخواستجب فاطمہ الزہرا ؑحسنین ؑ کو رسول خدا صکی خدمت میں لاتیں اور عرض کی :ھذان ابناک مورثھما شیئا یہ آپ کے دو بیٹے ہیں انہیں کوئی چیز ارث میں دیجیئے فرمایا اما الحسن فلہ ھیبتی ووسودوی ،واما الحسین فان لہ جراء تی وجودی فرمایا حسن کے لئے میری ہیبت اور سیاوت ہے اور حسین کے لئے میری جرات و سخاوت ہے پھر جناب سیدہ نے فرمایا میں راضی ہو گئی میرے حسن حکیم یا حشمت تھے حسین سخی اور شجاع تھےمنابع فضائل الزہرا بحار الانوار دسواں باب ج۴۳ ص۶۸۶تربیت اولاد فاطمہ الزہرا ؑبحار الانواربشکریہ مہدی سنٹر ڈاٹ کام
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.