شیعوں کا تعارف

368

اختصار کے ساتھ یہ ہے شیعہ کا “حقیقی” تعارف متعصب لوگوں کی ان باتوں کو چھوڑئیے کہ شیعہ دشمنِ اسلام ہیں یا وہ علی(ع) کی نبوت یا رسالت کے قائل ہیں یا اس مذہب کا موجد عبد اللہ بن سبا یہودی ہے۔
میں نے چند ایسے مقالات و کتب کا مطالعہ کیا ہے کہ جن کے لکھنے والوں نے اپنی پوری کوشش اس بات پر صرف کی ہے کہ شیعہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
لیکن ان کے اقوال محض افترا اور صریح جھوٹ ہیںانھوں نے دشمنِ اہل بیت(ع) اپنے آباؤ اجداد ہی کے اقوال کو دھرایا ہے اور نواصب کے ( تھوکے لقموں کو چبایا ہے) جو کہ امَت پر مسلط ہوگئے تھے، اور انھیں دور افتادہ علاقوں میں رہنے پر مجبور کرتے تھے، برے القاب سے نوازتے تھے۔
شیعوں کے دشمن کی کتابوں میں رافضی یا روافض ایسے القاب مرقوم ہیں۔چنانچہ قاری بادی النظر میں یہ سوچتا ہے کہ شیعہ رسالتِ نبی(ص) و قوانین اسلام کے منکر اور اس پر عمل پیرا نہیں ہوںگے۔
در حقیقت بنی امیہ و بنی عباس کے حکام اور ان کے چاپلوس علما نے شیعوں کو ان برے القاب سے یاد کیا ہے کیونکہ شیعہ حضرت علی(ع) کے محب تھے اور ابوبکر، عمر اور عثمان کی خلافت کے منکر تھے اور ای طرح بنی امیہ و عباس کے حکام کی خلافت کا بھی انکار کرتے تھے۔ شاید حکام بعض حدیث وضع کرنے والے صحابہ کی مدد سے امت پر مسلط ہوئے تھے۔ کیوں کہ صحابہ ان کی خلافت کو شرعی بتاتے تھے اور خداوندِ عالم کے اس قول کو بہت رواج دیتے تھے۔
ا اّا الذن آمنوا اطعوا الل و اطعوا الرسول و اولی الامر منکم
” ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول(ص) اور جو تم میں سے صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔”
وہ اس آیت سے انہی حکام کو مراد لیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ آیت ان ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے وہ صاحبانِ امر ہیں مسلمان پر ان کی اطاعت واجب ہے،
کبھی حکام ان لوگوں کو کرایہ پر لیتے تھے جو نبی(ص) کی طرف سے جھوٹی حدیثیں گھڑت کرتے تھے۔
چنانچہ رسول(ص) سے یہ حدیث نقل کردی گئی تھی۔
لس احد خرج من السلطان شبرا فمات عل الا مات الجالة
“کسی کو حاکم کے خلاف ایک بالشت بھی جانے کا حق نہیں ہے اور جو اس حالت میں مر گیا تو گویا وہ جاہلیت کی موت مرا”
پس کسی مسلمان کو بادشاہ کی اطاعت سے نکلنے کا حق نہیں ہے۔
اس سے ہماری سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ شیعہ حکام کے مظٖالم کا نشانہ کیوں بنے رہے اس لئے کہ انھوں نے ان کی بیعت سے انکار کردیا تھا اور خلافت کو اہل بیت(ع) کا مغصوب حق تصور کرتے تھے لہذا حکام عوام فریبی کے لئے یہی کہتے رہے کہ شیعہ اسلام کے دشمن ہیں وہ اسے نابود کردینا چاہتے ہیں جیسا کہ یہی چیز ایسے بعض صاحبانِ قلم نے لکھی ہے کہ جن کے بارے میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ سابقین و لاحقین کے عالم تھے۔
اور جب ہم اس کھیل کی طرف رجوع کریں گے جو حق کو باطل سے ملاتا ہے تو معلوم ہوگا کہ جو اسلام کو مٹادینا چاہتا ہے وہ اور ہے اور جو فاسق و ظالم حکام کے خلاف خروج کرتا ہے وہ اور ہے اور اس سے ان کا مقصد حق کو حقدار تک پہونچانا تھا، تاکہ عادل حاکم کے ذریعہ اسلام کے قوانین کانفاذ ہوسکے۔ بہر حال یہ بات تو ہم اپنی سابعہ کتابوں”ثم اہتدیت” لاکون مع الصادقین اور اہل ذکر کی بحثوں میں بیان کرچکے ہیں کہ شیعہ ہر فرقہ ناجیہ ہے کیوں کہ وہ ثقلین ” کتابِ خدا اور عترت رسول(ص) سے متمسک ہے۔
ہم نے بعض منصف مزاج علمائے اہل سنت کوبھی اس حقیقت کا معترف پایا ہے۔ چنانچہ ابنِ منظور اپنی کتاب “لسان العرب” میں شیعہ کے معنی بیان کرتے ہیں “شیعہ” وہ قوم ہے جو عترتِ نبی(ص) کی عاشق و محب ہے” اسی طرح ڈاکٹر عبد الفتاح عاشور نے مذکورہ کتاب کی عبارت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :
جب شیعہ اس قوم کو کہا جاتا ہے جو عترت نبی(ص) کی عاشق و محب ہے تو مسلمانوں میں ایسا کون ہے جو شیعہ ہونے سے انکار کرے گا؟
نسلی تعصب وعداوت کا درد واپس لوٹ چکا ہے، روشنی اور آزادی فکر کا زمانہ آگیا ہے ذہین وجدت پسند جوان آنکھیں کھولیں اور شیعوں کی کتابوں کا مطالعہ کریں ان سے ملیں اور ان کے علماء سے گفتگو کریں اور اس طرح حق کو پہچان لیں ۔ کتنی شیرین زبانوں کے ذریعہ ہمیں دھوکہ دیا گیا اور کتنی بے بنیاد باتیں سنائی گئیں۔
آج جنکہ دنیا ہر ایک انسان کے ہاتھ میں ہے اور شیعہ بھی اس زمین کے چپہ چپہ پر آباد ہیں پھر کسی محقق کو یہ حق نہیں پہونچتا کہ وہ شیعوں کے بارے میں شیعوں کے دشمنوں سے سوال کرے ان لوگوں سے پوچھے جو کہ عقیدہ کے لحاظ سے ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ان سے سائل کیا توقع رکھتا ہے جو کہ ابتدا ہی سے شیعوں کے دشمن ہیں؟ شہعی کوئی خفیہ مذہب نہیں ہے کہ جس کے عقائد سے کوئی واقف نہ ہوسکے بلکہ اس کی کتانیں اور منشورات دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں اور ہر طالب علم کے لئے ان کے مدارس اور خوزات علمیہ کھلے ہوئے ہیں، ان کے علماء کی طرف سے کانفرنس، سیمنار منعقد ہوتے رہتے ہیں وہ امت اسلامیہ کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں اور انھیں ایک مشترک کلمہ پر جمع ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ اگر ملتِ اسلامیہ کے منصف مزاج افراد سنجیدگی اور جانفشانی سے اس مسئلہ کی تحقیق کریں گے تو وہ حق سے قریب ہوجائیں گے اور حق کے سوا تو ضلالت و گمراہی ہے اور جو چیز ان کے حق تک پہونچنے میں رکاوٹ بنتی ہے وہ دشمنان شیعہ کا جھوٹا پروپگنڈہ ہے یا شیعہ عوام میں سے کسی کی غلطی ہے۔(کتاب کے آخر میں یہ بات واضح ہوجائے گا کہ شیعہ عوام میں بعض کے افعال سے اہل سنت کے ذہین و روشن خیال جوان بد ظن ہوجاتے ہیں اور پھر ان میں حقیقت تک رسائی کے لئے بحث و تحقیق کی بھی ہمت نہیں رہتی ہے۔)
کیونکہ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ( سی انسان کے قلب سے) شبہ زائل ہوجاتا ہے اور باطل افسانہ محو ہوجاتا ہے پھر آپ دیکھیں گے کہ شیعہ دشمن خود شیعہ ہوگیا ہے۔
یہاں مجھے اس شامی کا قصہ یاد آگیا جس کو اس زمانہ کے ذرائع ابلاغ نے گمراہ کردیا تھا۔ جب وہ قبر رسول اعظم کی زیارت کی غرض سے مدینہ میںداخل ہوا تو اہاں گھوڑے پر سوار ایک باوقار شخص کو دیکھا کہ جس کے چاروں طرف اس کے اصحاب کھڑے ہوئے ہیں اور اس کے اشارے کے منتظر ہیں۔
شامی یہ کیفیت دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا کیونکہ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا میں معاویہ سے زیادہ بھی کسی کی تعظیم کی جاتی ہے اس نے اس شخص کے متعلق دریافت کیا توجواب دیا گیا یہ حسن بن علی ابی طالب(ع) ہیں۔ اس نے کہا : یہی خارجی ابن ابی تراب ؟ اس کے بعد اس نے امام حسن(ع) اور آپ کے پدر اور اہل بیت پر سب و شتم کرنا شروع کردیا۔
امام حسن(ع) کے اصحاب نے اسے قتل کرنے کے لئے تلواریں کھینچ لیں لیکن امامِ حسن(ع) نے انہیں منع کردیا اور گھوڑے سے اتر پڑے اور اسے خوش آمدید کہا اور محبت آمیز لہجہ میں فرمایا:
کیا ا س شہر میں تم مسافر و غریب ہو؟ شامی نے کہا ہاں ، میں شام سے آیا ہوں اور میں امیر المؤمنین سید المرسلین معاویہ بن ابی سفیان کا چاہنے والا ہوں ،امام(ع) نے دوبارہ اسے خوش آمدید کہا اور فرمایا : تم میرے مہمان ہو ، شامی نے انکار کیا لیکن امام حسن(ع) نے اسے مہمان ہونے پر راضی کرلیا اور بنفس نفیس کئی روز تک اس کی ضیافت کرتے رہے چوتھے روز شامی شرمندہ ہوگیا اور امام حسن(ع) کی شان میں جو گستاخی کی تھی اس کی معافی طلب کرنے لگا، امام حسن(ع) نے اس کے سب و شتم کے مقابلہ میں احسان و درگذشت اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا جس سے شامی پشیمان ہوا۔ امام حسن(ع) اور شامی کے درمیان اصحاب امام حسن(ع) کے سامنے کچھ اور گفتگو بھی ہوئی تھی جسے ہم ذیل میں نقل کررہے ہیں۔
امام حسن(ع) : میرے عرب بھائی کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟
شامی: مجھے پورا قرآن حفظ ہے۔
امام حسن(ع) کیا تم جانتے ہو کہ اہل بیت (ع) کون ہیں جن سے خدا نے رجس کو دور رکھا اور ایسے پاک رکھا جو حق ہے؟
شامی: معاویہ اور آل ابی سفیان ہیں۔
حاضر ین کو اس کی با ت پر بڑا تعجب ہوا، اور امام حسن(ع) نے مسکراتے ہوئے فرمایا: میں علی بن ابی طالب(ع) کا فرزند حسن (ع) ہوں جو کہ رسول اللہ (ص) کے ابن عم اور بھائی ہیں۔میری مادر گرامی فاطمہ زہرا سیدہ نساء العالمین، میرے جد رسول اللہ سید الانبیاء والمرسلین(ص)، میرے چچا سید الشہداء جناب حمزہ اور جعفر طیار(ع) ہیں خدا نے ہمیں پاک و پاکیزہ رکھا ہے اور تمام مسلمانوں ہماری محبت واجب کی ہے۔ خدا اور اس کے ملائکہ ہم پر صلوات بھیجتے ہیں اور مسلمانوں کو ہم پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے ، میں اور میرے بھائی حسین(ع) جوانان جنت کے سردار ہیں۔ اس کے علاوہ امام حسن(ع) نے اہل بیت(ع) کے کچھ اور فضائل شمار کرائے اور اس حقیقت سے آگاہ کیا تو شامی آپ کا محب ہوگیا اور رونے لگا اور امام حسن(ع) کے دست مبارک کو بوسہ دیا اور اپنی باتوں پشیمان ہوا اور کہا:
قسم اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ جب میں مدینہ میں داخل ہوا تھا اس وقت روئے زمین پر آپ میرے نزدیک مبغوض ترین انسان تھے اور اب میں آپ(ع) کی محبت و مودت اور آپ (ع)کے دشمنوں سے برءت کے ذریعہ خدا کا تقرب حاصل کروںگا۔
امام حسن(ع) اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
“تم اسے قتل کرنا چاہتے تھے اور اب وہ ذبح گیا کیوں کہ اس نے
حق کو پہچان لیا اور جو حق کو پہچان لیتا ہے اس سے عناد نہیں رکھا جاتا اور شام میں لوگ ایسے ہی ہیں اگر وہ حق کو پہچان لیتے تو ضرور اس کی اتباع کرتے۔”
اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:
إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ (سوره یس آیت11)
آپ(ص) تو صرف ذکرِ (قرآن) کا اتباع کرنے والے اور غیب کے خدا سے ڈرنے والے کو ڈرا سکتے ہیں۔ پس اسی کو بخشش اور اجرِ عظیم کی خوشخبری دے دو ۔
جی ہاں اسحقیقت سے اکثر لوگ نا واقف ہیں، افسوس کہ بہت سے لوگ ایک عمر تک حق سے عداوت و معاندت رکھتے ہیں لیکن جب انھیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ہم خطا پر ہیں تو فورا توبہ و استغفار میں مشغول ہو جاتے ہیںاور یہ تو ہر انسان پر واجب ہے جیسا کہ مقولہ بھی ہے،حق کی طرف بڑھنے میں فضیلت ہے۔
مصیبت ان کی ہے جو اپنی آنکھوں سے حق دیکھتے ہیں۔ محسوس کرتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی دنیوی اغراض اور پوشیدہ کینہ کی بنا پر حق سے برسر پیکار رہتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے متعلق رب العزَت کا ارشاد ہے:
تم انھیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ایمان لانے والے نہیں ۔” (یس آیت 10)
ان کےساتھ وقت خراب کرنے اور انکے حال پر افسوس کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہارے اوپر صرف یہ واجب ہے کہ ہم ان منصف مزاج افراد کے لئے ہر شئی کو واضح کردیں جو حق کے متلاشی ہیں اور حق تک پہنچنے کے لئے جدو جہد کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے ربَ العزَت کا ارشاد ہے:
تم تو صرف اس شخص کو ڈراسکتے ہو جو نصیحت قبول کرے اور ان دیکھےخد ا کا خوف24
رکھے لہذا تم بھی اسے مغفرت کی اور عظیم اجر کی بشارت دیدو۔
دنیا کے تمام روشن خیال شیعوں پر واجب ہے کہ وہ ملت کے نونہالوں کو حق سے متعارف کرانے کے سلسلے میں اپنا وقت اور اموال خرچ کریں کیونکہ ائمہ اہل بیت(ع) صرف شیعوں کا ذخیرہ نہیں ہیں بلکہ وہ سارے مسلماںوں کے لئے ائمہ ھدی اور تاریکی کو چھاٹنے والے چراغ ہیں۔
جب تک عام مسالمان ہی ائمہ کو نہیں پہچانیں گے خصوصا اہل سنت کے روشن خیال جوان بھی ان سے بے خبر رہیں گے تو اس وقت تک شیعہ عند اللہ جواب دہ ہیں۔
اسی طرح جب تک لوگ کافر وملحد ہیں اور اس دین خدا سے بے خبر ہیں جسے محمد سید المرسلین(ص) لائے تھے اس تک سارے مسلمان عند اللہ جواب دہ ہیں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.