اہل سنت میں احادیث امام مہدی (عج) کا تواتر اور صحت
اہل سنت میں احادیث امام مہدی (عج) کا تواتر
کسی بھی حدیثی اور روائي موضوع کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کے بارے ميں احادیث متواتر نقل ہوں، کیونکہ کسی بھی موضوع پر احادیث کا تواتر سے نقل ہونا باعث بنتا ہے کہ اس کی طرف بطور خاص توجہ کی جاتی ہے اور ان کے مضامين اور مطالب قابل قبول ہوتے ہیں۔لہذا ان پر ايمان و عقيدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کردار و رفتار٬ کاموں اور پروگراموں ميں ان پر توجہ ديني چاہئے اور ان کے مطالب پر عمل کرنا چاہئے ۔ مہدویت کے موضوع پر احادیث کا متواتر ہونا ایک ایسی مسلّمہ حقیقت ہے کہ جسے شیعہ اور سنی دونوں قبول رکھتے ہیں؛یعنی صرف شیعہ ہی احادیثِ امام مہدی (عج) کو متواتر نہیں جانتے؛ بلکہ اہل سنت کے علماء نے بھی ان احادیث کے متواتر ہونے کا اعتراف کيا ہے۔ ہم یہاں کچھ علماء اہل سنت کے نام ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اس حقیقت کو صراحت کيساتھ قبول کيا ہے:[1]
۱۔محمد حسین آبری شافعی (م۳۶۳ ھ ق) وہ کتاب مناقب الشافعی میں یوں بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) سے امام مہدی (عج) کي آمد پر بشارت دینے والی احادیث راویوں کے کثرت کی بناپر تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں۔[2]
۲۔قرطبی مالکی(م۷۶۱ ھ ق)[3]
۳۔ابن قیم (م۷۵۱ ھ ق)[4]
۴۔ابن حجر عسقلانی (م۸۵۲ ھ ق)
۵۔سیوطی(م۹۱۱ ھ ق)[5]
۶۔ابن حجر ھیثمی (م۹۷۴ ھ ق) انہوں نے کئی مرتبہ مسلمانوں کے عقيدہ “ظہور امام مہدی (عج”) کا دفاع کیا ہے اور ان احادیث کے تواتر کی تصریح کی ہے۔[6]
7۔شیخ محمد بن علی صبان(م۱۰۲۶ ھ ق)[7]
8۔محمد رسول برزنجی(م۱۱۰۳ ھ ق) وہ لکھتے ہیں کہ: ایسی احادیث جو امام مہدی (عج) کے وجود اور ان کے آخر الزمان میں قیام اور ان کے خاندان رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور اولاد فاطمہ سلام اللہ عليھا سے ہونے پر دلالت کرتی ہیں وہ تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں اور ان کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔[8]
ب:احادیث امام مہدی عج کا صحیح ہونا:
کسی بھی حدیثی اورمنقول موضوع کي ايک اور اہم خصوصيت اس کی روایات کا صحیح ہونا ہے۔ روایات کا صحیح ہونا باعث بنتا ہے کہ ان روایات کے مطالب اور مضمون کو نہ تنہا قبول کیا جائے، بلکہ اس میں وارد ہونے والے احکامات پر بھی عمل کیا جائے۔ لہذا احادیث مہدویت کا صحیح ہونا نہ صرف شیعہ کے نزدیک قابل قبول ہے بلکہ کئی علماء اہل سنت نے بھی اس حقیقت کو قبول کیا ہے؛ ہم کچھ ایسے بزرگان علماء اہلسنت کے نام بیان کرتے ہیں جنہوں نے اپني تصنيفات ميں ان احادیث کے صحیح ہونے کو بیان کیا ہے ۔
۱۔ابو عیسی محمد ترمذی نے اپنی کتاب سنن (ج۴ ص۵۰۵ میں احادیث ۲۲۳۰، ۲۲۳۱، ۲۲۳۲و ۲۲۳۳) میں بیان کیا ہے۔
۲۔حافظ ابو جعفر عقیلی نے اپنی کتاب الضعفاء الکبیر(ج۳، ص۲۵۳ حدیث ۱۲۵۷) میں بیان کیا ہے۔
۳۔محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک (ج۴، احادیث ۴۲۹، ۴۶۵، ۵۵۳ و ۵۵۸) میں بیان کیا ہے۔
۴۔ احمد بن حسین بیهقی نے اپنی کتاب الاعتقاد و الہدایۃ (ص۱۲۷)ميں بيان کياہے ۔
۵۔ الحسين بن مسعود بن محمد بغوي نے اپنی کتاب مصابیح السنۃ(ص۴۴۸ ٬حدیث ۴۱۹۹) میں بیان کیا ہے۔
۶۔ مبارك بن محمد المعروف ابن اثیر نے النهایة فی غریب الحدیث والأثر (ج۵ ص۲۵۴) میں بيان کيا ہے۔
۷۔ ابوعبدالله، محمد بن احمد قرطبی مالکی نے التذکرة فی احوال الموتی و امور الآخرة (ص۷۰۴) میں بیان کیا ہے۔
۸۔ناصر الدین البانی نے حول المہدی(ص۶۴۴) میں بیان کیا ہے۔
۹۔عبد العلیم عبد العظیم البستوی نے “المہدی المنتظر”میں بیان کیا ہے۔
[1] )۔رجوع کریں کتاب در انتظار ققنوس، ص۷۶۔۹۰
[2] )۔التذکرۃ ج۱ ٬ص۷۰۱
[3] )۔ایضاً
[4] )المنار المنیف٬ ابن قیم ٬ص۱۳۵
[5] )الابراز الوھم المکنون٬ غماری٬ ص ۴۳۶
[6] ) الصواعق المحرقۃ فصل ۱ ٬باب ۱۱ ٬ص۱۶۲ ۔ ۱۶۷۔
[7] )اسعاف الراغبین ٬صبان ٬ص۱۴۵۔ ۱۵۲
[8] ) الاشاعۃ الأشراط الساعۃ ، برزنجی٬ ص۸۷۔