علی (ع) خیرالبشر

249

۱ـ جابر(رض) کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا بہشت کے دروزاہ پرلکھا ہوا ہے” لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی اخو رسول اﷲ” اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں اور علی(ع) رسول خدا(ص) کے بھائی ہیں زمین و آسمان کی پیدایش سے دو ہزار سال پہلے سے۔
۲ـ ابن عباس کہتے ہیں، میں نے پیغمبر(ص) نے ان کلمات کے بارے میں پوچھا جو آدم(ع) نے اپنے رب سے دریافت کیئے اور ان کی توبہ قبول ہوئی آںحضرت(ص) نے فرمایا کہ آدم(ع) نے جب کہا اے خدایا تو بحق محمد(ص) و علی(ع) و فاطمہ(س) و حسن(ع) و حسین(ع) میری توبہ قبول کر لے تو خدا نے ان کی توبہ قبول کی۔
۳ـ عطاء کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ سے علی(ع) بن ابی طالب(ع) کے بارے میں پوچھا تو کہا آںحضرت(ع) (علی(ع)) خیرالبشر ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کرتا مگر کافر۔
۴ـ ربعی کہتے ہیں کہ خذیفہ(رض) سے علی بن ابی طالب(ع) کے بارے میں سوال ہوا انہوں نے کہا وہ حضرت(ع) خیرالبشر ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کرتا مگر وہ جو منافق ہے۔
۵ـ حذیفہ بن یمان(رض) کہتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ علی ابن ابی طالب(ع) خیرالبشر ہے اور جو بھی اس کے سر کشی کرے گا وہ کافر ہے۔
۶ـ ابوزبیر مکی کہتے ہیں میں نے جابر کو دیکھا کہ اپنے عصا کو پکڑے ہوئے کوچہ انصار کی ایک مجلس کے اندر ہیں اور کہتے ہیں کہ علی(ع) خیرالبشر ہے اور جو کوئی بھی اس سے سر کشی کرے گا وہ کافر ہے اے گروہ انصار اپنی اولاد کو محبت علی ابن ابی طالب(ع) پر ورش کرو اور جو کوئی اس معاملے میں سر کشی کرے اس کی ماں کے بارے میں نظر کی جائے گی (یعنی اس کے نطفہ میں شک ہے)
۷ـ امام رضا(ع) نے اپنے آبائے طاہرین(ع) سے روایت کی ہے کہ علی ابن ابی طالب(ع) نے فرمایا کہ پیغمبر(ص) نے مجھ سے فرمایا تم خیرالبشر ہو اور شک نہیں کرتا تیرے بارے میں مگر وہ جو کافر ہے۔
۸ـ زید بن علی(ع) نے اپنے اجداد(ع) سے روایت کیا کہ علی(ع) نے فرمایا کہ رسول خدا(ص) کی طرف سے مجھے دس چیزیں دی گئی ہیں جو کسی کو مجھ سے پہلے نہیں دی گئیں اور کسی بندے کو میرے بعد بھی نہ دی جائیں گی، آںحضرت(ص) نے فرمایا اے علی(ع) تم میرے بھائی ہو دنیا میں اور آخرت میں بہشت میں برابر ہوگی جیسے کہ دو بھائیوں کی ہوتی ہے، تم حق ہو، تم ولی ہو، تم وزیر ہو تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن ہے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ہے، تیرا دوست میرا دوست ہے اور میرا دوست خدا کا دوست ہے۔علی(ع) کی عبادت
۹ـ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ہم مسجد رسول خدا(ص) میں جمع ہوکر مجلس کی شکل میں بیٹھے تھے اور اہل بدر اور اصحاب بیعت رضوان کے اعمال کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ ابودردا(رض) نے کہا اے لوگو کیا میں تمہیں ایسے بندے سے آگاہ کروں کہ جس کا مال تمام سے کمتر ہے اور اس کی ورع سب سے افضل اور اس کی کوشش عبادت بہت زیادہ ہے، ہم نے کہا وہ کون ہے کہا علی(ع) بن ابی طالب(ع) تو خدا کی قسم جو کوئی اس محفل میں تھا اس نے یہ سن کر منہ پھیر لیا ایک اںصاری نے ابو دردا(رض) سے کہا اے عویمر تم نے ایسی بات کی ہے کہ کسی نے تیری موافقت نہیں کی ابو دردا(رض) نے کہا کہ اے لوگو! میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہی کچھ کہا اور تم کو بھی چاہیے کہ جو کچھ دیکھو وہی کہو میں نے خود علی(ع) بن ابی طالب(ع) کو نجار میں دیکھا کہ اپنے موالی سے علیحدہ ہوگئے اور دور کجھور کے درختوں کے جھنڈ کے پیچھے غائب ہوگئے اور میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ میں نے خیال کیا کہ شاید گھر تشریف لے گئے ہیں۔ ناگاہ ایک دردناک گریہ کی آواز اس جھنڈ سے آتی ہوئی محسوس ہوئی میں معلوم کرنے کے لیے بڑھا کہ یہ کون ہے جو گریہ کر رہا ہے جب قریب پہنچا تو آواز آنے لگی، اے خداوندا تیرا کرم ہے کہ میری کوتاہیوں کو تو نے نظر انداز کیا اورمجھے عظیم نعمتوں سے نوازا اور اپنے کشف کی بزرگی عنایت کی۔ بار الہا میں اپنے گناہوں کے سلسلے میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ کوئی آرزو نہیں رکھتا اور سوائے تیری رضا کے میں کچھ نہیں چاہتا۔ میں ( ابو دردا) یہ جملے سن کر آسگے بڑھا تو دیکھا کہ علی(ع) ہیں میں نے خود کو درختوں میں پوشیدہ کر لیا۔ جنابِ امیر(ع) نے اپنی مناجات کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا اے خداوندا تو ماضی کا حال جانتا ہے تو جانتا ہے کہ میرے دل کو تیرے خوف نے جکڑ لیا ہے۔ خداوندا میں اس وقت سے پناہ مانگتا ہوں جب نامہء اعمال سامنے آئے گا بار الہا میں اس نامہء اعمال کے عشر عشیرہ کا بار اٹھانے کے قابل بھی نہیں مجھے اس بار سے محفوظ رکھ مجھے اس بار سے محفوظ رکھ۔ جس کو اٹھانے کی طاقت ایک پورا قبیلہ بھی نہیں رکھتا۔ یا اﷲ مجھے اس آگ سے محفوظ رکھ جو بدنوں کو اس طرح جلائے گی جیسے آگ پر جانور کو بھونا جاتا ہے جو کلیجے اور دل کو ایسے جلا دے گی جیسے کوئلہ دہکتا ہے یہ فرما کر آپ(ع) نے بے حد گریہ کیا اور اس قدر غلبہ خوف آپ کے جسم پر طاری ہوگیا کہ آپ بالکل ساکت اور بے حس و حرکت ہو کر گر گئے۔ جب اس حالت میں بہت دیر گزر گئی تو میں نے سوچا کہ یہ اس حالت میں کافی دیر سے ہیں انہیں نماز کے لیے اٹھانا چاہیئے لہذا جب میں نے انہیں چھو کر دیکھا تو علم ہوا کہ آپ(ع) ایک خشک لکڑی کی مانند پڑے ہیں۔ اور اٹھنے بیٹھنے کی قوت سے عاری ہیں۔ تو میری زبان سے بے اختیار ” انا ﷲ و انا الیہ راجعون”جاری ہوگیا۔ خدا کی قسم ایسا معلوم ہوا جیسے علی بن ابی طالب(ع) دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں پھر میں وہاں سے ان کے گھر کی طرف چلاتا کہ ان کی موت کی خبر فاطمہ(س) کو پہنچادوں ۔ جب میں نے ان سے ذکر کیا تو جناب فاطمہ(س) نے فرمایا اے ابو دردا(رض) خدا کی قسم یہ وہ غشی ہے جو خوفِ خدا کے دل میں گھر کر لینے سے انہیں ہوتی ہے۔ لہذا جب علی(ع) کے چہرے پر پانی چھڑکا گیا تو وہ ہوش میں آگئے اور مجھے گریہ کرتے دیکھ کر فرمایا اے ابو دردا تم سے اس وقت کسیے برداشت ہوگا جب دیکھو گے کہ مجھے حساب کے لیے بلایا گیا ہے اور سخت گیر فرشتے مجھ سے سوالات کررہے ہوں گے اور تند خو جہنمی بھی اس میدان میں موجود ہوں گے وہ وقت ایسا ہوگا کہ اپنے بھی ہاتھ کھیچ لیں گے لہذا یہی چیزیں میرے خوف اور اس کیفیت کا باعث ہیں اے ابو دردا جان لو کہ خدا سے کوئی پردہ نہیں۔ حضرت ابودردا فرماتے ہیں، خدا کی قسم علی(ع) جیسی حالت میں نے کسی صحابی کی نہیں دیکھی۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.