الهی ادیان کاایک هی هونا

273

بحث تک رسائی کے لئے مندرجه ذیل موضوعات کا واضح هونا ضروری هے : دین کی حقیقت ، دین کے مرحلے اور رکاوٹیں ،واقعی دین اسلام مستحکم هے ، شریعتوں اور مذاهب میں اختلاف کے اسباب ،قرآن مجید اور آسمانی کتابیں ۔
الف : دین کی حقیقت :
دین کے لغوی معنی ؛سراپا تسلیم ، خضوع ، پیروی ، اطاعت ، سر تسلیم خم کرنا اور انعام هے ؛ لیکن دین کے معنی اصطلاح میں اخلاق ،عقائد اور قانون و ضوابط کا وه مجموعه هے جو انسان کے سماجی اور مو منظم کرنے اور ان کی تربیت کی خاطر هو ۔
ب: قرآن مجید میں دین کی معنی :
قرآن مجید کی زبانی دین و مقام پر استعمال هوا هے :
1- غیبی طاقت پر هر قسم کا عقیده ، چاهے حق هو یا باطل : [لَکُم دینکم و لیَ دین]
2- خاص ادیان الٰهی : [ انَّ الدّینَ عند اللهِ الاسلام]
ج: دین کے مرحلے اور سطحیں :
اس بحث میں هماری توجه کا مرکز دین کا دوسرے معنی میں استعمال هونا هے یعنی خاص الٰهی ادیان جس کے مختلف مرحلے اور سطحیں هیں :
1- دین نفس الامری : انسانوں کی هدایت اور کامیابی کے لئے جو کچھ الله کے علم اور مشیت میں موجود هے وه نفس الامری دین هے ۔
2- دین رسول : خداوند عالم نے انسان کی هدایت و کامیابی کے لئے رسولوں ؑ کے ذریعه جو بھی چیزیں بھیجی هیں وه دین مرسل کو تشکیل دیتی هیں ۔
دین نفس الامری ایک هے :
چونکه انسان اپنے تمام ظاهری فرق کے باوجود ایک مشترک جو هر کا حامل هے لهذا دین نفس الامری بھی اسی مشترک جو هر پر نگاه رکھتا هے ۔
دین مرسل متعدد هیں :
قرآن مجید و تاریخ کے مطابق دنیا کی واقعی تاریخ رسولوںؑ کی تعداد کے برابر دین مرسل کے هونے پر سچی گواه هے ، یهاں رسول سے مراد ، صاحب شریعت نبیؑ هے جو تبلیغ پر مامور هو[1] ۔
3- حقیقی دین :
4- چونکه دین انسانی سماج کے منظم کرنے اور اس کی تربیت کی خاطر هے لهذا اس (دین) کے قانون و ضوابط کا سماج کی واقعی ضرورت سے هم آهنگ هونا ، سماج کے بدلتے هوئے حالات کے مناسب هونا اور انسان کی طبیعت و جوهر کے مطابق هونا اس دین کے حق هونے کا معیار هے ۔
پس جس ذات نے اس دنیا اور انسانوں کو پیدا کیا هے وه انسان ، دنیا اور اس کے تعلقات سے پوری طرح باخبر تھا ، نتیجه میں اس کا دین انسان کی هدایت و رهبری کی طاقت رکھتا هے ، اس تمهید سے پته چلتا هے که ، دین حق قه دین هے جس کا قانون و ضابطه ،اخلاق اور عقیده خداوند عالم کی جانب سے نازل هوا هے اور دین باطل وه دین هے جو غیر خدا کی طرف سے مقرر هوا هو [2] ۔
د:اسلام مستحکم دین هے :
قرآن مجید میں الٰهی دین ، اسلام کے عنوان سے بیا هوا هے اور اس کے ثبات و دوام پر بهت سی دلیلیں قائم کی گئی هیں پهلی دلیل جو دین کے ثبات پر قائم هوئی هے وه اس کے فاعلی مبداء پر مبنی هے یه دلیل دو آیتوں کو ملانے سے حاصل هوتی هے ،
پهلی آیت سوره آل عمران مین ارشاد هوتا هے : [انَّ الدِّینَ عندَ اللهِ الاسلامُ] [3] یعنی حق کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ۔ تنها یهی وه دین سے جسے خداوند عالم کی جانب سے قانونی حیثیت حاصل هے ، دوسری آیت سوره نحل میں ارشاد هوتا هے : [ ما عِندَکُم ینفَذُ و ما عِندَ اللهِ باقٍ][4] ” جو تمهارے پاس هے وه فنا هونے والا هے اور جو خدا کے پاس هے وه باقی هے ” ان دو آیتوں سے جو دلیل تیار هوتی هے اس کا خلاصه یه هے کے خداوند عالم کے پاس اسلام هے اور جو خدا کے پاس هے وه باقی هے لهذا اسلام باقی هے دوسری دلیل انسان کی طبیعت پر مبنی هے جو دین کا قابلی مبداء هے ۔ اس طرح که اسلام ، انسان کی ترتیب اور اس کی فطرت کو شگفته کرنے کی خاطر نازل هوا هے اور انسان کی فطرت ایک ثابت اور غیر متغیر امر هے لهذا جو دین انسانی فطرت کی تربیت کی خاطر منظم هوا هے وه بھی ثابت اور مشترک هوگا ۔
اس سلسله میں قرآن مجید ارشاد فرماتا هے [ فأقِم وَجهکَ للدِّینِ حنیفاً فِطرَۃَ اللهِ الَّتی فَطَرَ النّاسَ علَیها لا تَبدیلَ لِخلقِ اللهِ ][5] “یعنی (اے رسول ) تم اپنا رخ دین حنیف کی طرف کئے رهو یهی خد اکی فطرت هے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا هے خداوند عالم کی خلقت می کوئی تبدیلی نهیں هو سکتی ” وه تنها دین جس کی سفارش تمام اولوالعزم پیغمبروں نے کی هے اور جو تمام شریعتوں کا متفقه دین هے ، خداوند عالم اسے اس طرح بیان کرتا هے : [شَرعَ لَکُم مِنَ الدّینِ ما وصَّی بِهِ نوحاً وَ الَّذی أوحَینا الَیکَ و ما وصَّینا بِهِ ابراھیمَ و مُوسی و عیِسی أَن أَقیموُا الدِّینَ ولا تَتَفَرَّقوُا فِیهِ کَبُرَ عَلی المُشرِکینَ ما تَدعُوھُم الَیهِ اللهُ یَجتَبی الَیهِ مَن یَشاَءُ وَ یَھدی الیهِ مَن یُنیبُ] [6] ۔
یعنی” خداوند عالم نے تمهارے لئے دین کا وهی راسته مقررکیا جس ( پر چلنے)کا حکم نوح کو دیا تھا اور اے رسولؑ اسی کی هم نے تمهارے پاس وحی بھیجی هے اور اسی کا ابراهیم اور موسیٰ و عیسیٰ کو بھی حکم دیا تھا وه یه که دین کو قائم رکھنا اور اس میں متفرقه نه ڈالنا جس دین کی طرف مشرکوں کو بلارهے هو وه ان کو بهت شاق گزرتا هے ، خدا جس کو چاهتا هے اپنی بارگاه کو برگزیده (بنده) کر لیتا هے اور جو اس کی طرف رجوع کر لے اس کی هدایت کرتا هے ” ۔
ھ: مذاهب کا منسوخ هونا اور شریعتوں کا اختلاف:
الٰهی دین کے استھکام اور اتحاد کا نتیجه یه هے که الٰهی ادیان کا فرق کبھی بھی اصل دین ، جو که اسلام هے ، میں نهیں هےبلکه فرق شریعت و مذاهب میں هے اس لئے که اصول دین جو وهی ،توحید، وحی ، رسالت ، عصمت و امامت ، عدالت ، برزخ ، قیامت اور اسی جیسے دیگر مسائل هیں وهی عام راسته هے جس پر انسان اپنی الٰهی فطرت و طبیعت کی بنیاد پر چلتا هے لیکن جزئی اور فرعی احکام هیں جو انسان کی طبیعی و مادی ضرورت کے مناسب اور قومی ، فردی ، اور زمان و مکان کی مختلف خصوصیت کے لحاظ سے تبدیل هوتے رهتے هیں [7]۔
قرآن کریم میں جهاں تک اصول دین کا یا عام راسته کی بات هے تو انبیاء نے ایک دوسرے کی تصدیق کی هے :
[ مصدِّقاً لِما بَینَ یَدَیهِ مِن الکِتابِ و مُھَیمناً عَلَیهِ] [8] “قرآن مجید الٰهی کتابوں کی تصدیق کرتا هے جو اس کے روبرو هیں اور ان کا محافظ بھی هے ”
لیکن جهاں بات جزئیات اور فروع دین کی هے وهاں تعدد ، تبدیلی ، تفسیر اور نسخ کی بات کی هے [ لِکُلِّ جَعَلنا مِنکُم شِرعَۃً و منِھاجاً] ” تم میں سے هر امت کے لئے ایک شریعت اور مخصوص راسته قرار دیا هے ” ۔[9]
مختلف شریعتوں کا مختلف راسته یا مختلف نسخه هے جو امت کی استعداد کے مطابق اور اولیاء و انبیاء کے مقام و منصب کی مناسبت سے تشکیل پاتا هے اور اس کی کثرت کا سبب یا تو اس حقیقت واحد کی مختلف تصویر دکھانا هے جو زمانے کے ساتھ ساتھ یکے بعد دیگرے سامنے آتی هے یا انسان کی سمجھ بوجھ کے مطابق اصل اصیل اور رکن وثیق (خدا) کی جانب سے دقیق بیان هے ۔
کیون که الٰهی وحی ایک رسی هے جس کا ایک سرا انسانوں کے هاتھ میں هے اور دوسرا سرا خدا کے پاس هے اور انسان جس قدر اس راسته پر آگے بڑھے گا اس بلند و برتر ادراک سے شرفیاب هوگا ، اس کے بغیر که برتر ادراک پست ادراک کی نفی کرے یا پست ادراک بلند تک پهنچنے میں حائل هو ۔ یه وهی رسی هے جس سے متمسک رهنے کا خداوند عالم نے حکم دیا هے : [ و اعتَصِمُوا بِحَبلِ اللهِ جمیعاً ولا تفرَّقُوا] [10] ” سب کے سب الله کی رسی کو مضبوطی سے تھام کو اور آپس میں تفرقه مت ڈالو”
اس رسی کے مراحل کا آغاز لوگوں کے در میان رائج الفاظ سے هوتا هے اور کمال ، مقام : [ ثمَّ دَنا فَتَدَلّیٰ ۔ فَکانَ قابَ قوسَینِ أو أدنَی] [11] تک باقی رهتا هے ۔
اسی لئے جب سب سے کامل انسان جه که خاتم النّبیؑ هیں اپنے ظهور کے ذریعه اس مقام کے فتح کرنے کی خوشخبری دی تو سریعتوں کے تعدد ، تبدیلی اور نسخ کے مراحل جو که اس مقام تک پهنچنے کا راسته هیں ختم هوجاتے هیں اور پیغمبر کی شریعت کی تبلیغ کے ذریعه آکری خطاب هوتا هے : [ الیومَ اکمَلتُ لکَم دینَکُم و أتمَمتُ عَلیکُم نعمتی وَ رَضیتُ لکُم الاسلامَ دیناً] [12] یعنی ” آج میں نے تمهارے دین کو کامل اور نعمتوں کو تم پر تمام کر دیا اور اسلام کو تمهارے دین کے عنوان سے قبول کر لیا هے “[13]
و: قرآن مجید اور آسمانی کتابیں :
قرآن مجید کا دوسری آسمانی کتابوں کا ان پر برتری کے ساتھ ساتھ تصدیق کرنا بهت بری خدمت هے جسے قرآن نے ان (کتابوں ) کے لئے انجام دیا هے ۔
شیعوں کے نامور فقیه مرحوم کاشف الغطاء اس سلسله میں فرماتے هیں : اگر قرآن اور رسول اسلام کا وجود مبارک نه هوتا تو عیسائیت اور یهودیت کا نام و نشان بھی نه هوتا [14] اس لئے که توریت و انجیل جو که تحریف شده هیں اور خدا کے یعقوب سے جنگ کرنے کو بیان کرتی هوں ، انبیاء کو شرابی بتاتی هوں اور پاک دامن خواتین پر تهمت لگاتی هوں ان میں هرگز باقی رهنے کی طاقت نهیں هوسکتی ۔
قرآن مجید نے توھید کے عام کرنے کے ساتھ ساتھ انبیاء کے دامن کو بھی اس طرح کی تهمتوں سے پاک کیا اور ابراهیم خلیل الله اور دیگر تمام انبیاء کی عزت و عظمت بیان کی ۔ جناب مریم عذرا کو طهارت و پاکیزگی کے ساتھ یاد کیا اور ارشاد فرمایا : [ انَّ اللهَ اصطفاکِ و طھَّرَکِ علی نساءِ العالمینَ] [15] ۔ یعنی “یقیناً خداوند عالم نے (اے مریم) تم کو برگزیده کیا اور (تمام گناهوں و برائیوں ) سے پاک و صاف رکھا اور سارے عالم کی عورتوں میں سے تم کو منتخب کیا”[16] ۔
[1] مزید مطالعه اور دین کے مراحل سے واقفیت کے لئے رجوع کریں : مبانی کلامی اجتهاد هادوی تهرانی ، مهدی ، ص 383-389 ۔
[2] جوادی آملی ، عبد الله ، شریعت در آئینه معرفت ، ص 111-112 با تلخیص ۔
[3] سوره آل عمران / 19
[4] سوره نحل / 96
[5] سوره روم/ 30
[6] سوره شوریٰ/ 13
[7] جوادی آملی ، عبد الله ، شریعت در آئینه معرفت ، ص 118 ، 120 با تلخیص
[8] سوره مائده /48
[9] سوره مائده /48
[10] سوره آل عمران /103
[11] سوره نجم / 8-9
[12] سوره مائده / 3
[13] جوادی آملی ، عبد الله ، شریعت در آیئنه معرفت ، ص 118 ، 120 با تلخیص
[14] کشف الغطاء ، کتاب الجهاد ، ص 391
[15] سوره آل عمران / 42
[16] جوادی آملی ، عبد الله ، شریعت در آئینه معرفت ، ص 122- 123 با تلخیص
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.