حدیث معرفت اہل سنت اور شیعہ احادیث کی رو سے
پیغمبر اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا: «مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَعْرِفْ اِيَّامَ زَمَانِهِ مَيْتَةً جَاهِلِيةً»۔جو بھی اپنے وقت کے امام کی معرفت حاصل کے بغیر مرجائے وہ جاھلیت کی موت مرا۔[1]
اہل سنت کے محدثین میں صحاح ستہ کے مؤلفين نے اس حدیث کو سات صحابہ سے نقل کیا ہے:(۱) زید بن ارقم (۲) عامر بن ربیعہ غنری(۳) عبد اللہ ابن عباس (۴) عبد اللہ بن عمر(۵) ابوالدرداء(۶) معاذ بن جبل(۷) معاویۃ بن ابی سفیان۔
ان سات افراد کے علاوہ اسی حدیث کے مشابہ احادیث ابوھریرہ اور انس بن مالک سے بھی نقل ہوئی ہیں۔ یہ جاننا کافی ہے کہ علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کو چالیس شيعہ اسناد کے ساتھ بحار الانوار میں ذکر کیا ہے۔[2]
علماء اھل سنت نے اس حدیث کو ستر کتابوں سے زیادہ کتب احادیث میں بیان کیا ہے کہ جن میں چند یہ ہیں: ۱۔سنن ابی داؤد؛ ۲۔ مصنف حافظ عبد الرزاق بن ہمام صنعانی؛ ۳۔سنن سعید بن منصور خراسانی؛ ۴۔”طبقات الکبری”محمد بن سعد کاتب واقدی ؛ ۵۔مسند حافظ ابو الحسن علی بن جعد جوہری؛ ۶۔مصنف ابی شیبہ؛ ۷۔صحیح بخاری؛ ۸۔صحیح مسلم و …[3]
ایک محقق نے اس حدیث کے ۳۳ مضمونوں میں سے ۳۰ مضمون جمع کرکے انہیں مرتب کیا ہے کہ جس میں سے ۱۰ مضمونوں کا تعلق اہل سنت سے اور ۱۳ کا تعلق شیعہ سے ہے، باقي سات ایسے ہیں جو شیعہ اور سنی دونوں کے قابل اعتماد ماخذات میں ذکر ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایسے لوگوں کے ناموں کا بھی ذکر کیا ہے جو اس حدیث کے متواتر ہونے کے دعوے دار ہیں، جن میں سے بعض کے نام مندرجہ ذيل ہيں: شیخ مفید، شیخ بہائی ، علامہ مجلسی، قندوزی حنفی، قاضی بہلول، بہجت آفندی، زنگنہ، زوری اور ابن ابی الحدید ۔[4]
یہ حدیث مضمون کي کثرت اور بعض کلمات کے اختلاف کے با وجود٬ اکثر « مَيْتَةً جَاهِلِيةً » اور کبھی «مات يهوديا اور نصرانيا» کي عبارت کے ساتھ یا ایسی تعبیرات کے ساتھ بیان ہوئی کہ جن سے شخص کی بری عاقبت کا اشارہ ملتا ہے ۔ان احادیث کا پہلا حصہ دو حالتوں سے خارج نہیں ہے: کچھ «من مات»سے شروع ہوئی ہیں اور امام زمانہ (عج) کي معرفت نہ ر کھنے کا نتیجہ جاہلیت کی موت کو قرار دیتی ہیں اور کچھ «من خرج» جیسے الفاظ کے ساتھ شروع ہوئی ہیں کہ امام (ع) کی نافرمانی کرنے والے کی موت کو جاہلیت کی موت قرار ديتي ہیں۔ ایسا امام جس کا نہ پہچاننا جاہلیت کی موت اور جس کے احکامات کی نافرماني کا نتیجہ جہنم ہو٬ وہ امام یقیناً صاحب شرائط اور امر الٰہی کی طرف دعوت کرنے والا ہوگا؛ نہ کہ ایسا امام کہ جو کافر ہو يا جہنم کی طرف دعوت کرنے والا اور قسم قسم کے فسق و فجور سے آلودہ ہو ۔
پس اس حديث کي رو سے امام کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ وہ:
(۱)۔علم کے بلند ترین مقام پر فائز ہو اور ہر قسم کی صلاحیت رکھتا ہو تا کہ دنیائے اسلام کی رہبری اور امامت کا عہدہ دار ہوسکے اور مسلمان اس کی معرفت کے طفیل اور اس کے احکامات کی پیروی کرکے جاہلیت کی موت سے بچ سکیں ۔
(۲)۔ہر لحاظ سے پاک و پاکیزہ ہو ، اس کے اندر کسی قسم کی ہوا و ہوس نہ ہو تا کہ نہ صرف وہ خود عقیدہ، علم اور عمل میں غلطي کا شکار نہ ہو بلکہ دوسرے انسانوں کو بھی حق کی طرف راہنمائی کرسکے۔ ایسے امام کی معرفت رکھنا يا نہ رکھنا تقدیر ساز ہے اور انسان کے لئے جنت میں جانے یا جہنم کا ایندھن بننے کا باعث بنتی ہے (یعنی اگر اس کی معرفت رکھتا ہوگا تو جنت میں جائے گا اور جو شخص اس کی معرفت سے نہ رکھتا ہو ہوگا وہ جہنم ميں جائے گا)۔
مورخین کی تحریروں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی نبوت کے آغاز اور بعثت کے پہلے دن سے ہی فرما دیا تھا کہ کوئی شخص یا گروہ حتی آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم خود اپنے بعد خلیفہ اور حاکم معین کرنے میں آزاد نہیں ہیں بلکہ اس کے انتخاب کا اختیار صرف اللہ تعالي کے ہاتھ میں ہے ۔مثال کے طور پر قبیلہ بنی عامر بن صعصعہ نے آنحضرت صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے عرض کیا :اگر ہم آپ کی اطاعت کریں اور آپ کے مخالفین پر کامیاب ہوجائیں تو کیا آپ اپنے بعد اقتدار ہمارے ہاتھ میں دیں گے؟
تو رسول خدا (ص) نے ارشاد فرمایا: اقتدار کا امر خدا کے ہاتھ میں ہے جس طرح وہ چاہے گا انجام دے گا۔[5]
لہذا پیغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد امامت اور خلافت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے لوگوں پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ اگر اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق اس کام کا اختیار امت پر چھوڑ دیا گیا ہے، تو پھر اس بات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے امام کی معرفت کی ترغیب دلائی جائے کہ کہیں امام کی معرفت نہ رکھتے ہوئے وہ جاہلیت کی موت مرجائیں اور ان کا انجام جہنم پر ختم ہو؛ کیونکہ انہوں نے خود امام کا انتخاب کرلیا ہے۔
حدیث “من مات” میں غور کرنے اور گزشتہ بیان سے چند نکات سامنے آتے ہیں:[6]
۱: اسلام کے نظرياتي اور فکري نظام میں شرائط کي حامل امامت اور رہبريت کی ضرورت۔
۲: ہر عصر میں امامت کا جاری رہنا اور امام کا وجود ضروری ہے ۔
۳: عصری تقاضوں کے مطابق امام کی تعداد مختلف ہو سکتی ہے نہ ممالک اور اقوام کے اعتبار سے ۔
۴:ہر عصر میں اپنے وقت کے امام کي معرفت نہ رکھنے والا انسان جاہلیت کی موت مر جاتا ہے ۔
۵:۔علم اور تقوي ميں سب سے بڑھ کر ہونا ضروري ہے۔
۶:امامت اور خلافت کے ایسے دعوے داروں کی نفی ہے جو امامت کي شرائط سے عاری ہیں(اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے راستے امام زمانہ (عج) کے راستہ سے مختلف ہيں اور کوئی بھی شخص ايسے لوگوں کي معرفت نہ رکھنے کو جاہلیت کی موت کا سبب نہیں جانتا)۔
۷:امام زمانہ(عج) کی معرفت کے راستوں کا انحصار صرف پیغمبر (ص)یا سابق امام کی طرف سے اعلان یا معجزے کے اظہار پر ہے۔
۸: جو شخص بھی اپنے امام زمانہ کے بارے میں پوچھے گئے سوالوں کا جواب نہ رکھتا ہوگا وہ اگر مرجائے تو جاہلیت کی موت مرا۔
۹:حدیث «من مات» کے یقینی ہونے کی صورت میں صرف شیعہ اثنا عشری ايسے مسلمان ہیں کہ جو بارہ اماموں کی امامت پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ جن میں سے بارہویں اور آخری امام حضرت مہدی(عج) ہیں اور جو اس حدیث کی لاریب تصویر وتفسیر ہیں(امام کے لئے جو شرائط بیان کي گئي ہیں وہ صرف شیعہ کے بارہ اماموں میں موجود ہیں)۔
۱۰: اس حدیث اور کئی دوسری حدیثوں کی بنیاد پر پیغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے خلفاء اور آئمہ کی تعداد بارہ ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بارہویں خلیفہ اور آخری امام حضرت مہدی موعود(عج) ہیں۔[7]
[1] )صحیح بخاری ، ج۵، ص۱۳؛ صحیح مسلم ٬ج۶ ،ص۲۱۔ ۲۲
[2] )بحار الانوار،ج۲۳،ص۷۶۔ ۹۵
[3] )فقیہ ایمانی، شناخت امام مہدی٬ ص۳۰، ۴۰
[4] )او خواھد آمد،ص۷۳ ، ۹۲
[5] )سیرہ ابن ہشام، ج۲، ص۶۶۔
[6] )فقیہ ایمانی ،شناخت امام مہدی عليہ السلام ٬ص۷۸، ۸۰
[7] )منتخب از شناخت امام و اصالت مہدویت در اسلام از دیدگاہ اہل تسنن۔