صلح حدیبیہ ریاست مدینہ کی سیاسی فتح

431

ہجرت کے پانچویں سال غزوہ خندق کے موقع پر محسن انسانیت نے پیشین گوئی فرمادی تھی کہ ‘اب قریش تم پر چڑھائی نہیں کرسکیں گے ‘‘۔ چنانچہ چھ ہجری میں آپ نے ایک بار فجرکی نمازکے بعد مسلمانوں کو بتایا میں نے خواب دیکھاہے کہ خانہ کعبہ کا طواف کررہاہوں۔ نبی(ص) کاخواب صرف سچاہی نہیں ہوتا بلکہ وہ وحی ہونے کے ناطے حکم ہوتا ہے اور اسے پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اس لیے عمومی طورپر کل مسلمان اورمہاجرین خصوصی طور پر نہایت خوش ہو گئے کہ چھ سالوں کی طویل مدت کے بعد وہ حرم شریف کا سفرکریں گے اوراپنے آبائی شہر کو روانہ ہوںگے ۔ کم وبیش چودہ سومسلمان آپ کے ہم رکاب تھے اور عمرہ کی نیت سے اور قربانی کے جانوروں، ستراونٹوں، کی معیت میں آپ(ص) بغیرکسی جنگی ہتھیار کے عازم حرم مکہ ہوئے۔ محسن انسانیت (ص) نے خاص طور پر اس مقصد کے لیے ذی القعدہ، ایک محترم مہینے کا انتخاب فرمایا جس میں جنگ منع تھی تاکہ قریش مکہ پر واضع ہوسکے کہ مسلمان لڑائی کے لیے نہیں بلکہ خالصتاَ عمرے کی نیت سے آرہے ہیں۔ام المومنین حضرت ام سلمہ بھی اس سفر سعادت میں آپ(ص) کے ہمراہ تھیں۔ راستہ میں ‘ذوالحلیفہ‘‘ کے مقام پر آپ نے احرام بھی باندھ لیاجس سے دنیا پر اور خاص طورپراہل مکہ پر واضع ہوگیا کہ اس لشکرنبوی(ص) کے کوئی جنگی عزائم نہیں ہیں اوریہ خالصتاَ ایک مذہبی سفر ہے جو زیارت کعبۃاﷲ کے لیے کیاجارہاہے۔ جیسے جیسے مکہ کی وادی قریب آتی جارہی تھی اہل مکہ کی طرف سے تکلیف دہ خبریں ملتی چلی جارہی تھیں چنانچہ آپ(ص) نے مکہ داخل ہونے سے پہلے ‘حدیبیہ‘ نامی ایک کنویں کے جوار میں پڑاؤڈال دیا تاکہ براہ راست ٹکراؤ سے بچا جاسکے ۔دوسری طرف اہل مکہ نے طے کرلیا کہ وہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے کیونکہ وہ مسلمانوں کو ‘ بے دین‘‘،باغی‘‘ اور’بھگوڑے ‘‘ سمجھتے تھے۔ اہل مکہ خود کو مذہبی ٹھیکیدارخیال کرتے تھے اور جو بھی ان کے مذہب کومانے گا وہ تو دیندار ہے مگرجوکوئی ان کے مذہب سے انکارکرے گا وہ دہریہ ہے، کافرہے، لادین ہے، مرتد ہے اور گویا ان کا مجرم ہے، اور اس قبیل کے افراد کوکوئی حق نہیں کہ وہ خانہ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرسکیں۔ان خیالات کی مالک قریش کی قیادت مسلمانوں کو حرم کی حدود میں داخلے کی روادار نہ تھی جس کے باعث نوجوانان قریش مکہ مسلمانوں سے جنگ پر آمادہ رضا تھے حالانکہ خود ان کے عقیدے کے مطابق اس ماہ مقدس میں اور ان حدود حرم میں جنگ و جدال قطعاَ ممنوع تھی۔ لیکن جب خواہش نفس کو خدا بنا لیا جائے اور مذہب کی تعلیمات مذہبی پروہتوں کے ہاتھ میں کھلونا بن جائیں تو حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے معیارات تبدیل ہو جاتے ہیں چنانچہ تمام تقدیسی تحریمات کو پس پشت ڈال کر مسلمانوں سے جنگ کا فیصلہ کر لیا گیا اور قریش مکہ کے کچھ دستے خالد بن ولید جواس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کی قیادت میں شب خون مارنے کے لیے روانہ بھی ہو گئے۔ ان دستوں کی کہیں کہیں چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی ہوئیں اور مسلمانوں نے ان کے کچھ افراد پکڑکر خدمت اقدس(ص) میں پیش بھی کردیے لیکن محسن انسانیت(ص) نے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا کیونکہ آپ(ص) کسی قیمت پر بھی جنگ نہیں چاہتے تھے ۔جنگ سے اعراض کرنے کی اس مسلسل پالیسی نے قریش کو مجبورکیا کہ وہ سفارت کاری پر آمادہ ہوں۔ انہوں نے دارالندوہ میں مشورہ کیا اور بنی ہاشم کے دوست قبیلہ ‘نبوخزاعہ‘‘ کے سردار بدیل بن ورقاع کو بھیجا گیا کہ گفت و شنید کر کے مسلمانوں تک قریش کا غیض و غضب پہنچاسکے۔ گویا اب قریش کی صورتحال ایسی تھی جیسے حالات سے شکست کھایا ہوا بھیڑیا جہاں سرخ سرخ آنکھوں سے حریف کو گھوررہا ہوتا ہے وہاں دُم بھی ہلارہا ہوتا ہے کہ شاید مصالحت کی کوئی صورت نکل آئے۔ بدیل بن ورقاع نے قریش مکہ کو بتایا کہ اہل مدینہ صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں اور ان کے کوئی عسکری عزائم نہیں ہیں سُو انہیں عمرہ کے لیے مکہ آنے کی اجازت دے دی جائے۔قریش کی یہ تدبیر بھی انہیں پر الٹ گئی تھی۔ اب کی بار قریش نے بہت ہی بزرگ سردار عروہ بن مسعود کوبھیجا اس نے واپس آکر قریش کو مشورہ دیا کہ دیکھو اس شخص(ص) کے ساتھ جنگ کا ارادہ نہ کرو، اس نے کہا کہ ہم نے ساری عمر تجارت کی غرض سے سفرکیے ہیں اور بڑے بڑے سرداروں اور بڑے بڑے بادشاہوں کے لشکری دیکھے ہیں لیکن جس طرح اس شخص(ص) کے چاہنے والے ان پر جان نچھاور کرتے ہیں اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں دیکھی۔ عروہ نے اہل مکہ کو مشورہ دیا کہ دیکھو تم ان سے کبھی نہیں جیت سکتے پس صلح کی پیشکش کو قبول کرلو۔ ابھی سفارت کا سلسلہ جاری تھا کہ مکہ کے شریر ذہنوں نے 80 جنگی افراد پر مشتمل ایک دستہ کو بھیجا تاکہ مسلمانوں کو ہراساں کیا جاسکے اور وہ مدینہ کی جانب لوٹ جائیں۔ وہ دستہ جو مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے آیا تھا خود مسلمانوں کے نرغے میں آگیا اوراسے خدمت اقدس(ص) میں پیش کردیا گیا، جنگ سے چونکہ اعراض پیش نظر تھا اس لیے اس دستہ کو بھی اس لیے آزاد کردیا گیا کہ قریش صلح پر آمادہ ہوجائیں۔ جب قریش کی تمام سفارتوں کا نتیجہ قریش کی ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہ نکلا تو تو آپ(ص) نے اپنی سفارت بھیجنے کا ارادہ فرمایا ۔محسن انسانیت(ص) نے اپنا سفیربھیجا، سفیر نے بڑی جرات مندی سے قریش سے کہا کہ اب دوہی راستے ہیں تمہارے سامنے، مسلمانوں کو عمرہ کرنے دویا پھرجنگ کے لیے تیارہوجاؤ۔ قریش مکہ بھلا ‘باغیوں اورمرتدوں‘‘ کوعمرے کی اجازت کیسے دیتے اور ریاست مدینہ طیبہ سے مسلسل چھیڑچھاڑنے اب انہیں جنگ کے قابل بھی نہیں چھوڑا تھا چنانچہ انہوں نے جواب دیا وہ خود طواف کرلیں اور واپس چلے جائیں مگر سفیر نے اپنے نبی(ص)اور ساتھیوں کے بغیر طواف کرنے سے صاف انکارکردیا جس کے نتیجے میں قریش نے ان کا اونٹ قتل کردیا اورانہیں نظر بندکردیا۔ کافی وقت گزرنے کے بعد جب حضرت کا سفیر واپس نہیں لوٹا تو مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کردیاگیا ہے۔ اس پرمحسن انسانیت(ص) ببول کے ایک درخت تلے تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ سفیر کے خون کا بدلہ لینا ہم سب پر لازم ہے ، کون ہے جواس کاروائی میں میرا ساتھ دے گا ۔چودہ سو کے چودہ سو مسلمانوں نے آپ(ص) کے ہاتھ پر قتل سفیر کے انتقام پر بیعت کی۔ ﷲ تعالی نے اس بیعت پراپنی خوشنودی کا پیغام بھیجا اور سورہ فتح میں ﷲ تعالی نے ان تمام افراد پراپنی رضا مندی کا اظہار کیا جنہوں نے آپ(ص) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، اسی لیے اس بیعت کو ‘بیعت رضوان‘‘ کہتے ہیں۔یہ اطلاع جب وادی مکہ کے مکینوں تک پہنچی تو ان کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی، اب ان کے پاس مسلمانوں سے صلح کے سوا کوئی راستہ نہ تھا ۔’خطیب قریش‘‘ سہیل بن عمرو جو زبان دانی میں اور خطابت میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا قریش کی طرف سے جب مسلمانوں کے لشکرمیں پہنچا توجنگی تیاریاں دیکھ کربہت گھبرایا اورفوراَ خدمت اقدس(ص) میں پہنچ کرعرض کی کہ اپ کے سفیر ابھی زندہ ہیں جس سے مسلمانوں کاغصہ تھم گیا۔ بیٹھتی جھاگ دیکھ کرعمرو نے آپ(ص)کی خدمت میں عرض کیا کہ چند شرائط مان لیں تو ایک خوفناک جنگ ٹل سکتی ہے۔ شرائط پیش کی گئیں، جو اگرچہ بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں لیکن چونکہ فراست نبوی(ص) بہت دورتک دیکھ رہی تھی اور پہلی بار یہود سے صلح کرکے قریش سے ٹکر لی گئی اور اب کی بار ہرقیمت پر اس مورچے کو خاموش کر کے تو یہود کا قلع قمع کرنا مقصود تھا اس لیے یہی شرائط قدرے قدوغد کے بعد مان لی گئیں:1۔ اس سال لوٹ جائیں اور اگلے سال عمرے کے لیے نہتے آئیں اورتین دن قیام کے بعد چلے جائیں۔2۔ اہلیان مکہ میں سے کوئی مدینہ آیا تواسے واپس کیا جائے گا اور کوئی مسلمان مکہ آیا تو اسے واپس نہیں کیاجائے گا۔3۔ اگلے دس سالوں تک فریقین میں جنگ نہیں ہوگی اور قبائل عرب جس فریق کے ساتھ چاہیں مل سکتے ہیں۔ان یکطرفہ شرائط کے علاوہ بھی معاہدہ نامہ لکھے جاتے وقت قریش کی طرف سے کچھ بدتمیزیاں دیکھنے میں آئیں لیکن فراست نبوی(ص) نے انہیں برداشت کیا۔ ابھی دستخط ہونا باقی تھے کہ کچھ مسلمانان مکہ جنہیں قریش نے قید میں ڈال رکھا تھا کسی طرح آزاد ہوکر لشکراسلام میں پہنچ گئے لیکن قول وقرارکی بنیاد پر آپ(ص) نے انہیں اہل مکہ کے حوالے کردیا تا ہم کچھ ہی دیر بعد چند خواتین اسلام بھی مکہ سے فرار ہوکر لشکراسلام تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئیں۔سہیل بن عمرو نے کہا کہ انہیں بھی ہمارے حوالے کردیں لیکن محسن انسانیت(ص) نے انکارکردیا اورکہا کہ معاہدے میں مردوں کا ذکر ہے عورتوں کا نہیں۔ ان شرائط پرعام مسلمان مطمئن نہیں تھے لیکن یہ مسلمانوں کی سیاسی فتح تھی کہ اہل مکہ نے مسلمانوں کواپنے ہم پلہ مان کر ان سے معاہدہ کیا تھا اسی لیے چنددن بعد جب سورۃ فتح میں اس صلح کو ‘فتح مبین‘‘کہا تومسلمانوں کو اطمنان ہوگیا۔ صلح نامہ کی تکمیل کے بعد مسلمانوں نے اسی مقام پر قربانیوں کے جانور ذبح کئے ، حلق کرایا اور احرام کھول دئے ۔معاہدے کی پہلی شرط کے مطابق اگلے سال مسلمان مکہ میں وارد ہوئے اوراپنے نبی(ص) کی امامت میں عمرہ اداکیا۔ قریش کواپنی آنکھوں سے ان کا طواف کرتے دیکھنا قبول نہ تھا اس لیے وہ پہاڑوں کی طرف سدھارگئے اور مکہ خالی کردیا۔ مسلمانوں نے بڑے اطمینان سے تین دنوں تک حرم کعبہ کی فیوض و برکات کوسمیٹا اورلوٹ آئے اور اس طرح نبی(ص) کا خواب پورا ہوگیا۔دوسری شرط بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھی لیکن فراست نبوی(ص) نے اسے قبول کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مکہ سے بھاگنے والے مسلمان نوجوانوں نے قریش کے قافلوں کو پریشان کرنا شروع کردیا۔ مکہ سے بھاگے ہوئے یہ مسلمان قریش مکہ کے قافلوں کو، جنہیں پورے عرب میں کوئی پریشان نہ کرتاتھا، انہیں یہ نوجوان خالی نہ جانے دیتے تھے۔ قریش مکہ نے جب ریاست مدینہ طیبہ سے رجوع کیا توریاست کی طرف سے انہیں صاف جواب مل گیا کیونکہ یہ نوجوان مسلمان تو تھے لیکن ریاست مدینہ طیبہ کے شہری نہ تھے ۔ چنانچہ جب قریش بہت پریشان ہوئے تواس شرط سے دستبردارہوگئے اور محسن انسانیت(ص) نے ان نوجوانوں کو مدینہ بلالیا۔دوسری شرط کے دوسرے حصے کے باعث اہل مکہ بلاروک ٹوک مدینہ طیبہ جانے لگے اور مسلمانوں کا قائم کردہ معاشرہ دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ اہل مکہ کے مسلمان ہونے کی شرح میں بہت اضافہ ہوگیا اورخالد بن ولید اورعمروبن العاص جیسے لوگ بھی اسی دوران مسلمان ہو گئی۔ تیسری اور آخری شرط کے باعث مسلمانوں نے یہودیوں کازورتوڑدیا اوراتنی سرعت سے یہ کاروائی کی کہ ذوالقعدہ میں یہ معاہدہ ہوا اورمحرم میں خیبرپر چڑھائی کردی گئی۔ اور پھر تاریخ نے ثابت کیا کہ یہی تیسری شرط فتح مکہ کا مقدمہ بنی اور مسلمانوں کوباغی، کافر، مرتد اور بھگوڑے سمجھنے والے خود تاقیامت ان استعارات کے مستحق ٹہرے۔سیرت النبی(ص) سے ثابت ہوتا ہے کہ حکمران آقاؤں کے خلاف بغاوت کا آغاز قوموں کی تاسیس ہوتاہے، معاشی تنگ دستی، جنگ و جدال اور اس دوران منافقت سے نبرد آزماہونا قوموں کی زندگی کا دوسرا اہم سنگ میل ہوا کرتا ہے اور جب دشمن کے اعصاب شل ہوجائیں تومصالحت و صلح جوئی پرآمادگی دشمن کے زوال کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے بعد کامیابی ایسی زندہ قوموں کے قدم چوم لیتی ہے اور وقت ان پر بے پناہ مہربان ہوجاتا ہے۔وطن عزیز ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بھی تاریخ کے انہیں کامیاب مرحلوں سے گزررہاہے۔ بدیسی راج کے خلاف تحریک کاآغاز، معاشی تنگ دستیاں اور جنگ و جدال اور پھرآج بھی منافقین کا وہ طبقہ موجود ہے جو بانی پاکستان کے بارے میں سرتوڑکوشش کررہا ہے کہ اس راسخ العقیدہ مسلمان راہنما کو کسی نہ کسی طرح سیکولرثابت کردے کہ جس کی نماز جنازہ شبیراحمدعثمانی جیسے مفسرقرآن نے پڑھائی تھی تاکہ ان نام نہاد مفروضوں کی بنیاد پراس نوزائدہ ریاست کو بھی سیکولر بنادیاجائے۔ لیکن ماضی قریب کے واقعات اور یمین و یسار کی کشمکش نے یہ ثابت کیا ہے اب دشمن معاہدات و صلح جوئی کے لیے خود سے آمادہ ہے ۔ پس اب صرف دین داراور جرات مند قیادت کی آمد آمد ہے جو ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کواسلامی نشاۃ ثانیہ کا مرکزبنادے گی ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.