اسلامی مآخذ بارےدونوں مکاتب فکر کے نظریات

281

شریعت اسلامیہ کے مآخذ کے بارےمیں دونوں مکاتب فکر کے نظریات
 

 

 
 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی نظریات کی تاریخ میں دو مختلف مکاتب فکر کے درمیان ہم ایک واضح تقسیم بندی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک مکتب فکر کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آنے والے برسر اقتدار طبقہ سے لے کر آخری عثمانی خلیفہ تک سے ہے۔

 

 

 
 

دوسرے مکتب فکر کا تعلق ائمہ اہل بیت(ع) سے ہے جن کا سلسلہ بارہویں امام تک جا پہنچتا ہے۔

 

 

 
 

دونوں مکاتب فکر کے تربیت یافتہ افراد اور ان کے مسلمان پیروکاروں کے درمیان اختلاف کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے آج بھی موجود ہے اور معلوم نہیں کب تک جاری رہتا ہے۔

 

 

 
 

ہم آنے والی بحثوں میں پہلے مکتب فکر کو ”مکتب خلفاء“ اور دوسرے مکتب خیال کو ”مکتب اہل بیت“ کے نام سے یاد کریں گے۔ ہم انشا اللہ پہلے ان دونوں کے درمیان اختلاف کے اسباب کا ذکر کریں گے بعد ازاں اختلافات کی کچھ مثالیں بیان کریں گے۔

 

 

 
 

اختلاف کا سبب

 

 

 
 

دونوں مکاتب فکر قرآن کریم پر متفق ہیں اور اپنے آپ کو اس میں بیان کئے گئے حلال و حرام اور واجب و مستحب امور کا پابند سمجھتے ہیں البتہ اس کی تاویل خاص کر متشابہ آیات کی تاویل میں شدید اختلافات رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ درج ذیل تین امور میں بھی اختلاف کے شکار ہیں۔

 

 

الف۔ صحابہکے بارے میں۔
ب۔ امامت و خلافت1 کے مسئلے میں۔
 
 

ج ۔ قرآن مجید کے بعد اسلامی شریعت کے دیگر مآخذ کے بارے میں

 

 

 
 

ہم ان تینوں مسائل پر دونوں مکاتب فکر کے نظریات کا جائزہ لیں گے لیکن ابتدا میں ہر موضوع سے متعلق اصطلاحات پر ایک نظر ڈالیں گے۔

 

 

 
 

سب سے پہلے ہم ان اصطلاحات پر بحث کریں گے جو اس کتاب کے ابواب کے درمیان مشترک ہیں۔ اس کے بعد عربی لغات کی تدوین کی کیفیت کا تذکرہ کریں گے۔

 

 

 
 

عربی زبان اور اسلامی اصطلاحات

 

 

اولاً۔اصطلاحات کی تعریف
 
 

          اصطلاحات یہ ہیں:

 

 

 
 

الف۔ عربی زبان

 

 

 
 

ب۔ شرعی اصطلاح یا اسلامی اصطلاح۔

 

 

 
 

ج۔ اصطلاح متشرعہ یا اصطلاح مسلمین۔

 

 

 
 

د۔ حقیقت اور مجاز

 

 

 
 

ہم پہلی قسم کو تسمیة العرب دوسری قسم کو تسمیة الشارع اور تیسری قسم کو تسمیة المسلمین کا نام دیتے ہیں۔

 

 

 
 

الف۔عربی زبان

 

 

 
 

          عربی زبان کے اکثر الفاظ جنہیں ہم آج استعمال کرتے ہیں اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد آج تک اپنے عام معانی میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ مثلاً لفظ الاکل (کھانا)، النوم (نیند، سونا)، اللیل (شب) اور النھار (دن) وغیرہ۔

 

 

 
 

          ان الفاظ میں سے کچھ ایسے ہیں جو عربی زبان میں مختلف معانی کے لئے استعمال ہوئے ہیں مثال کے طور پر لفظ غنم جو ابتدا میں کسب مال کے لئے استعمال ہوتا تھا پھر عربی میں بلا مشقت کسی چیز کے حصول کے لئے استعمال ہوا۔ اس کے بعد اسلام نے اسے کسی چیز کے حصول کے لئے شرط استعمال کیا خواہ اس چیز کا حصول بلا مشقت ہو یا مشقت کے ساتھ۔

 

 

 
 

کبھی ایک ہی لفظ کسی قبیلے کے ہاں ایک خاص معنی میں استعمال ہوتا ہے اور وہی لفظ دوسرے قبیلے کے ہاں دوسرے معنی میں مثلاً لفظ اثلب جو حجازیوں کے ہاں پتھر کے لئے اور بنو تمیم کے ہاں مٹی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔,2 دورِ حاضر میں مستعمل الفاظ میں سے ایک ”المبسوط“ ہے۔ عراقیوں کے نزدیک اس سے مراد ہے ”مضروب“ لیکن شامیوں اور لبنانیوں کے ہاں یہ لفظ ”مسرور“ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

 

 

 
 

ان امور کے پیش نظر ہمیں یہ کہنا پڑے گا (بطور مثال) کہ اثلب سے مراد تمیمیوں کے ہاں فلاں چیز ہے اور حجازیوں کے ہاں فلاں چیز اور یہی حال لفظ مسبوط کا۔

 

 

 
 

 ب ۔ شرعی اصطلاح یا اسلامی اصطلاح

 

 

 
 

جب اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا تو آپ(ص) نے عربی زبان کے بعض الفاظ کو عربوں کے ہاں رائج ان الفاظ کے عام معنی سے ہٹا کر (کسی خاص معنی میں) استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر لفظ ”صلاة“ پہلے ہر قسم کے دعا کے لئے استعمال ہوتا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ایک خاص عبادت کے لئے (جو قیام، رکوع اور سجود جیسے مخصوص افعال کے ساتھ ساتھ مخصوص سورتوں اور اذکار وغیرہ پر مشتمل ہے) استعمال کیا حالانکہ عرب اس (جدید معنی) سے آگاہ نہ تھے۔ اسی کو ہم ”اصطلاح شرعی“ یا ”اسلامی اصطلاح“ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہاں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کہ شارع  لفظ کے لغوی معنی میں تبدیلی لائیں (مثلاً لفظ الصلاة میں) یا وہ کسی نئے لفظ کو ایک نئے معنی میں استعمال کریں مثلاً لفظ رحمن جو خدا کی ایک صفت کے طور پر استعمال ہوا۔

 

 

 
 

شرعی اصطلاح کی علامت یہ ہے کہ وہ لفظ اس جدید معنی میں قرآن کے اندر یا احادیث نبوی میں استعمال ہوا ہو وگرنہ ”شرعی اصطلاح“ کہلایا نہیں جائے گا۔ بنا بریں اصطلاح شرعی(یا اسلامی اصطلاح) کی تعریف یہ ہو گی: وہ لفظ جسے شارع نے ایک خاص معنی میں استعمال کیا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے لوگوں تک پہنچایا ہو۔

 

 

 
 

 

 

 

 
 

ج ۔ اصطلاح متشرعہ یا اصطلاح مسلمین

 

 

 
 

کچھ الفاظ ایسے ہیں جو تمام مسلمانوں کے نزدیک خاص معانی میں استعمال عام کے حامل ہیں مثال کے طور پر لفظ ”اجتہاد“ اور لفظ ”مجتہد“ جو تمام مسلمانوں کے ہاں ”فقہ“ اور ”فقیہہ“ کے لئے عام استعمال کے حامل ہیں۔ عربی زبان میں لفظ ”اجتہاد“ کا مفہوم تھا: کسی چیز کی طلب میں پوری کوشش کرنا۔ ,3  اور لفظ ”مجتہد“ کا مفہوم تھا: کوشش کرنے والا۔ چنانچہ یہ دونوں الفاظ احادیث نبوی(ص) میں بھی انہی دونوں معنوں میں (یعنی لغوی معنی میں) استعمال ہوتے رہے ہیں جیسا کہ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:

 

 

فضل العالم علی المجتہد مائة درجة ۔
عالم کا درجہ مجتہد کے مقابلے میں سو گنا بڑا ہے۔
اس حدیث میں مجتہد سے مراد ہے عبادت میں کوشش کرنے والا۔,4
 
 

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے بارے میں ایک روایت ہے:

 

 

کان رسول الله یجتھد فی العشر الاواخر ما لا یجتھد فی غیر۔,5
 
 

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں جو کوشش فرماتے تھے دوسرے ایام میں نہیں فرماتے تھے۔

 

 

 
 

یاد رہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبوی میں نہ لفظ ”اجتہاد“ فقہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور نہ ہی لفظ ”مجتہد“ فقیہ کے معنی میں۔ اس قسم کی اصطلاح کو عرف متشرعہ اور تسمیة المسلمین کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔

 

 

 
 

اس قسم کے بعض اصطلاحات ایسی ہیں جو تمام مسلمانوں کے نزدیک عام استعمال کی حامل نہیں ہیں بلکہ صرف بعض مسلمانوں کے ہاں مستعمل ہیں۔ مثال کے طور پر ”صوم زکریا“ جو بعض مسلمانوں کے ہاں اس روزے کے لئے مستعمل ہے جس میں خاموش رہنے اور بات نہ کرنے کی پابندی کی جائے۔ اس قسم کی اصطلاح کا نام اسی علاقے کے نام پر رکھنا چاہئے جہاں اس کا استعمال عام ہو۔ اس صورت میں ہم یہ کہیں گے کہ ” یہ بغداد کے مسلمانوں کی اصطلاح ہے“ یا قاہرہ کے مسلمانوں کی وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی اصطلاح کو کسی قید کے بغیر اصطلاح مسلمین کہنا یا عرف متشرعہ کہنا یا تسمیة المسلمین کہنا غلط ہے۔

 

 

 
 

یہی حال ہر اس اصطلاح کا ہے جو اسلام کے کسی خاص مذہب یا خاص فرقے کے ہاں مستعمل ہو۔ مثال کے طور پر لفظ الشاری اور لفظ المشرک جو خوارج کے ہاں خاص معنی کے لئے مستعمل ہیں۔ ان کے ہاں شاری کا وہی معنی ہے جو تمام مسلمانوں کے ہاں لفظ ”مجاہد“ کا اور ان کے ہاں لفظ ”مشرک“ سے مراد سارے مسلمان ہیں سوائے خوارج کے۔

 

 

 
 

یہی حال لفظ ”رافضی“کا ہے جسے مکتب خلفاء کے بعض پیروکار مکتب اہل بیتکے بعض پیروکاروں کو دشنام دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

 

 

 
 

ان باتوں کے پیش نظر ہم پہلی اصطلاح کو اصطلاح خوارج اور دوسری اصطلاح کو مکتب

 

 

خلفاء کی اصطلاح کے نام سے یاد کریں گے۔
 
 

مذکورہ معروضات کی روشنی میں جب خوارج کے علاوہ دیگر لوگ لفظ ” شاری“ کا استعمال کریں تو ہم اس لفظ سے وہ معنی مراد نہیں لے سکتے جو فقط خوارج لیتے ہیں۔

 

 

 
 

 د ۔حقیقت اور مجاز

 

 

 
 

          جب کسی لفظ کا استعمال کسی معنی میں اس طرح سے عام ہو جائے کہ اس لفظ کے سنتے ہی سامع کے ذہن میں صرف اسی معنی کا تصور آجائے مثال کے طور پر لفظ ”الاسد“ جس کے سنتے ہی مسلمانوں کے ذہن میں ایک حیوان درندہ کا تصور آتا ہے اور لفظ ”الصلاة“ جس کے سنتے ہی مسلمانوں کے ذہن میں ایک خاص عمل (نماز) کا تصور آتا ہے جو خاص اذکار کے ساتھ بجا لایا جاتا ہے تو اس صورت میں ہم لفظ ”الاسد“ کے بارے میں کہیں گے کہ یہ حیوان درندہ(شیر) کے لئے ”حقیقت“ ہے اور الصلاة“ کے بارے میں کہیں گے کہ یہ ان اعمال مخصوصہ کے لئے ”حقیقت“ ہے۔ پہلی مثال میں موجود ”الاسد“ کو حقیقت لغویہ کہتے ہیں اور دوسری مثال میں موجود لفظ (الصلاة) کو حقیقت شرعیہ کہتے ہیں۔

 

 

 
 

بسا اوقات لفظ ”الاسد“ کو استعمال کیا جاتا ہے تاہم اس سے شیر نہیں بلکہ بہادر انسان کو مراد لیا جاتا ہے مثلاً کہا جاتا ہے: میں نے اسد کو مسجد میں گفتگو کرتے دیکھا۔ لفظ اسد کے اس استعمال کو استعمال مجازی کہا جاتا ہے۔ مذکورہ مثال کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس میں لفظ اسد کا استعمال مجازاً بہادر انسان کے لئے ہوا ہے۔مجازی معنی کے استعمال کی صورت میں کلام یا مقام کے اندر کسی قرینے اور اشارے کا وجود ضروری ہے جو اس بات پر دلالت کرے کہ متکلم نے لفظ اسد سے اس کے حقیقی معنی کو مراد نہیں لیا ہے۔ لہذا اس جملے میں ”مسجد میں گفتگو“ کا تذکرہ قرینہ ہے اس بات کا کہ متکلم کی مراد شیر نہیں بلکہ بہادر انسان ہے کیونکہ شیر گفتگو نہیں کرتا۔

 

 

 
 

 

 

 

 
 

ثانیاً ۔ عربی لغات کی تدوین

 

 

 
 

جب دوسری اور تیسری صدی ہجری میں عربی زبان کے ماہرین نے عربی الفاظ کی تدوین کا کام شروع کیا تو انہوں نے ہر لفظ کے آگے اس کے وہ تمام معانی لکھ دئے جو ایام جاہلیت سے لے کر ان کے دور تک ان کے ہاتھ آسکے خواہ وہ معنی عرف عام میں مستعمل لغوی ہو یا شریعت اسلامی کے اندر مستعمل ہو یا مسلمانوں کے ہاں۔ البتہ مسلمان فقہاء نے اسلام کی فقہی اصطلاحات کے معانی کو معین کرنے اور ان کی تعریف کرنے کے لئے صدیوں تک قابل قدر جدوجہد کی ہے۔ مثال کے طور پر الصلاة ، الصوم، الحج جیسی اصطلاحات۔ یوں اسلام کی فقہی اصطلاحات تمام مسلمانوں کے درمیان معروف ہو گئیں۔ لیکن چونکہ اس قسم کی کوشش اسلام کی غیر فقہی اصطلاحات کے بارے میں نہیں کی گئی لہذا بعض اصطلاحات مسلمانوں کے ہاں غیر معروف ہو کر رہ گئیں خواہ ان الفاظ کا تعلق اصطلاحات شرعیہ سے ہو یا اصطلاحات متشرعہ (تسمیة المسلمین) سے۔ بنا بریں بہت سے اسلامی مفاہیم اور گاہے بعض شرعی احکام بھی ابہام و غموض کا شکار ہو گئے۔ مثال کے طور پر لفظ ”صحابی“ اور ”صحابہ“ جن کا ذکر ہم اس کے بعد کرنے والے ہیں۔

 

 

 
 
 

حوالہ جات

 

 

 
 

1یاد رہے کہ یہ دونوں اسلامی شریعت کے مآخذ و منابع تک رسائی کے راستوں میں شامل ہیں۔

 

 

 
 

2 تہذیب اللغة ج۱۵ صفحہ ۹۱ مطبوعہ قاہرہ ۱۳۸۴ھ

 

 

 
 

3 ملاحظہ ہو: ”نہایہ ابن اثیر“ مادہ ”جھد“ کا بیان۔

 

 

 
 

4 مقدمہ سنن الدارمی باب فضل العلم والعالم ج۱ صفحہ ۳۲ طبع دمشق۔

 

 

 
 

5 مسلم باب الاجتہاد فی العشر الاواخر من شھر رمضان حدیث نمبر ۱۱۷۵

 

 

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.