خاندان عصمت و طہارت کی ایک عظیم خاتون حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا

246

 
اسے سب پہچانتے ہیں ۔ وہ سب کے دلوں میں آشنا ہے اگر اس کا حرم و گنبد اور گلدستے آنکھوں کو نور بخشتے ہیں تو اس کی محبت و عشق ، اس کی یادیں اور نام دلوں کو سکون بخشتے ہیں ۔ کیونکہ یہ حرم ، حرم اہل بیت ہے ۔ مدفن یادگار رسول ، نور چشم موسیٰ بن جعفر علیہم السلام ، آئینہ نمائش عفت و پاکی، حضرت فاطمہ ثانی ہے ۔
کریمۂ اہل بیت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا فرزندِ رسول حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی دختر گرامی اور حضرت امام رضاعلیہ السلام کی ہمشیرہ ہیں۔ آپ کا اصلی نام فاطمہ ہے۔ آپ اور امام رضاعلیہ السلام ایک ہی ماں سے پیدا ہوئے ہيں، آپ کے مشہور نام خیزران، ام البنین اور نجمہ ہیں ۔ روایات کے مطابق حضرت فاطمۂ معصومہ یکم ذی العقدہ ٣٧١ھ ق کو مدینۂ منوّرہ میں پیدا ہوئيں، اور١٠ربیع الثانی ٢٠١ ہجری کو وفات پاگئیں ہے۔
حضرت فاطمۂ معصومہ سلام اللہ علیہااہل بیت رسول کی اُن ہستیوں میں سے ہیں جو مقام عصمت کی حامل نہ ہوتے ہوئے بھی عظیم شخصیت کی مالک تھیں جیسے حضرت زینب کبری اور حضرت ابوالفضل العبّاس علیہ السلام تھے، آپ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہيں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نےآپ کے والد گرامی حضرت امام موسٰی کاظمعلیہ السلام کی ولادت سے قبل ہی آپ کے مدفن کی پیشنگوئی کرتے ہوئے آپ کی زیارت کی فضیلت بیان فرمائی تھی۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے حضرت امام موسٰی بن جعفرعلیہ السلام کی طرف بچپن میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہ میرا بیٹا موسٰی ہے، خداوندِ عالم اس سے مجھے ایک بیٹی عطا کرے گا جس کا نام فاطمہ ہوگا ۔ وہ قم کی سرزمین میں دفن ہوجائے گی اور جس نے قم میں اس کی زیارت کی، اس پر بہشت واجب ہوگی ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : بہت جلد قم میں میری اولاد ميں سےایک خاتون دفن ہوگی جس کا نام فاطمہ ہے اور جو اس کی قبر کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی۔ اس طرح کی احادیث و روایات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے عظیم مقام و مرتبے کا بہترین ثبوت ہيں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبان سے زائر حضرت معصومہ کے لئے جنت کی بشارت اور وہ بھی وجوب کی حد تک بڑي اہمیت کی حامل ہے، حضرت امام رضا علیہ السلام کو چھوڑ کر، حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی اولاد ميں حضرت معصومہ ہی وہ ہستی ہیں جن کی فضیلت کے بارے میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات ملتی ہيں ۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ائمہ معصومین میں سب سے زيادہ اولاد حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام ہی کی تھیں۔ آپ کے برادر گرامی حضرت امام رضاعلیہ السلام سے روایت ہے :
جس نے ان کے حق کی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کی اس کے لئے جنت ہے”
آئیے آپ کو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے علمی مقام اور فضل و دانش سے متعلق ایک واقعہ سناتے ہيں ۔ ایک دن محبّان اہل بیت علیہم السلام کا ایک گروہ اپنے رہبر و آقا حضرت امام موسٰی کاظم سے کچھ علمی جوابات حاصل کرنے کے لئے مدینۂ منورہ وارد ہوااس وقت آپ سفر پر تھے لہٰذا اس گروہ کے افراد نے اپنے سوالات لکھ کر آپ کے دولت کدے کے افراد کے حوالے کئے۔ وہ لوگ جاتے وقت حضرت امام موسٰی کاظم (ع) کے دولت کدے پر گئے تو دیکھا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے اُن تمام سوالات کے جواب لکھ دیئے تھے، جب کہ اس وقت آپ کمسن تھیں، وہ لوگ اپنے سوالات کے جواب پا کر بہت خوش ہوئے اور اپنے وطن واپس چل پڑے ، راستے میں حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو پورا واقعہ آپ کو سنایا، امام علیہ السلام نے ان سے وہ جوابات مانگے، جب آپ نے دیکھا کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے تمام سوالات کےجواب صحیح لکھے ہیں تو آپ نے فرمایا: فداھا ابوھا ” اُس کا باپ اُس پر قربان ہو” یہ واقعہ حضرت معصومۂ قم کی علمی منزلت کی ایک واضح دلیل ہے۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اسلامی علوم پر دسترس رکھتی تھیں، آپ عالمہ فاضلہ ہونے کے ساتھ محدثہ بھی تھيں۔ آپ سے متعدد احادیث نقل کی گئی ہیں، ان میں سے ایک مشہور حدیث، واقعۂ غدیر سے متعلق ہے۔ حضرت معصومہ(ع) کی معروف و غیر مشہور زیارتوں میں آپ کو حجّت، امین، حمیدہ، رشیدہ، تقیہ، نقیہ، رضیہ، طاہرہ اور برّہ کے القاب سے یاد کیا گيا ہے ۔غرض یہ کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا معصومین علیہم السلام کی طرح معصوم عن الخطا تو نہيں تھیں لیکن آپ گناہوں سے پاکیزگي کے مقام پر فائز ہیں یعنی آپ کی عصمت اکتسابی ہے۔ آپ کو شفاعت کا مقام بھی حاصل ہے۔ حضرت امام جعفرالصادق(ع) سے روایت کی گئی ہے کہ : اُس (حضرت معصومہ(ع) ) کی شفاعت سے ہمارے تمام چاہنے والے بہشت میں داخل ہو جائیں گے۔ ” آخرت میں شفاعت کے علاوہ دنیا میں بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ذات اقدس کرامات کا سرچشمہ ہے آپ کے روضۂ اقدس پرلاچار اور مضطر لوگوں کی حاجات روا ہوتی ہیں، بیماروں کو شفا ملتی ہے اور دلوں ميں نور ہدایت بھر جاتا ہے۔ قم کی عظیم دینی درسگاہ بھی آپ ہی کی مرہون منت ہے۔ ابتدا سے لے کر آج تک علماء، محدثین، فقہا اور دانشور آپ کے روضے کے نزدیک علم و دانش کی اشاعت میں مصروف رہے ہيں ۔
حضرت معصومۂ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے زندگی کا بیشتر حصہ اپنے عزیز برادر حضرت امام رضاعلیہ السلام کے سایۂ عطوفت ميں گزارا کیونکہ آپ کے والد گرامی حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام زیادہ تر عباسی خلیفہ ہارون کے زيرعتاب اور پابند سلاسل رہے ۔ حضرت معصومہ کمسن تھیں جب آپ کے والد کو مقیّد کیا گیا۔ اسی لئے جب خلیفہ مامون عباسی نے حضرت امام رضاعلیہ السلام کو ایک سازش کے تحت مدینۂ منورہ سے خراسان بلایا، توآپ بھائی کی جدائی برداشت نہ کرسکیں اور ایک سال بعد خود بھی ایران کی طرف روانہ ہوئیں، لیکن ساوہ پہنچ کر آپ بیمار ہوگئيں، بعض روایات کے مطابق ساوہ میں آپ کے قافلے پر دشمنانِ اہل بیت نے حملہ کیا اور آپ کے ٢٣ حقیقی اور چچازاد بھائیوں کو شہید کیا گیا ۔ آپ سے یہ منظر دیکھا نہ گيا اور بیمار ہوگيئں اور حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کی طرح اعزہ و اقارب کی لاشوں کو چھوڑ کر قم روانہ ہوئيں۔ مؤرخین کے مطابق ساوہ میں بیماری کے بعد آپ نے قافلہ والوں سے قم لے جانے کو کہا۔ ایک اور روایت ہے کہ حضرت معصومہ(ع) کو ساوہ کی ایک عورت نے زہر دیا تھا جس کے اثر سے آپ علیل ہوئیں۔ جب قم کے باشندوں کو معلوم ہوا آپ ساوہ پہنچی ہيں تو شہر کے عمائدین نے آپ کو قم تشریف لانے کی دعوت دی ۔ بہرحال حضرت معصومہ قم پہنچنے کے ١٧ دن بعد رحلت کر گئيں۔ اس مدت میں آپ خداوند عالم سے راز و نیاز میں مصروف رہيں ۔ آپ کا محراب عبادت آج بھی قم کے مدرسہ ستیّہ میں موجود ہے جسے بیت النور بھی کہا جاتا ہے۔ قم کے معززین میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو دفن کرنے کے مسئلے پر اختلاف ہوا، بالآخر فیصلہ کیا گیا کہ قادر نامی بزرگ آپ کے جسد مبارک کو قبر میں اتاریں گے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے صحرا کی طرف سے دو نقاب پوش نمودار ہوئے جنہوں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھ کر آپ کو سپرد خاک کیا۔ وفات کے وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عمر صرف ٢٨ سال تھی۔
 
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.