حجاب
قرآن مجید میں ﷲ تعالی نے حکم دیا ہے کہ’ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّاَزوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآءِ المُؤمِنِینَ یُدنِینَ عَلَیہِنَّ مِن جَلَابِیبِہِنَّ ذٰلِکَ اَدنٰٓی اَن یُّعرَفنَ فَلَا یُؤذَینَ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُورًا رَّحِیمًا»33:95«‘‘ترجمہ:اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں اور ﷲ تعالی غفورالرحیم ہے‘‘۔
اس آیت میں لفظ ‘جلابیب‘‘ استعمال ہوا ہے جو ‘جلباب‘‘ کی جمع ہے، جلباب سے مراد ایسی بڑی چادر ہے جس سے پورا جسم ڈھک جائے ۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادر اچھی طرح لپیٹ کر اس کا ایک پلو اپنے اوپر لٹکا لیں۔ خلیفہ دوم کے زمانے میں قاضی شریح سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو وہ جواب دینے کی بجائے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر سے اس طرح اپنے کل جسم کو سر تا پا ڈھانپ لیا کہ صرف ایک آنکھی باہر رہ گئی ۔
عائشہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ہم نے اپنے کپڑوں میں سے موٹے کپڑے چھانٹ کر علیحدہ کیے اور ان سے اپنے دوپٹے بنالئے ۔ ایک مسلمان خاتون ام خلاد کابیٹا ایک جنگ میں شہید ہوگیا، اتنی بڑی پریشانی کی حالت میں خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور معاملے کے بارے میں اس حالت میں استفسارفرمایا کہ جسم مکمل طور پر چادر میں ڈھکا ہوا تھا اور چہرے پر نقاب تھا۔ اصحاب رسول نے حیرانی کا اظہار کیا کہ صدمے کی اس حالت میں بھی اس قدر پردہ؟ تو اس صحابیہ نے جواب فرمایا کہ بیٹا کھویا ہے ، شرم و حیا تو نہیں کھوئی ۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ﷲ تعالی نے فرمایا کہ ‘ِّ وَ اِذَا سَاَلتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَسئَلُوہُنَّ مِن وَّرَآءِ حِجَابٍ ذٰلِکُم اَطہَرُ لِقُلُوبِکُم وَ قُلُوبِہِنَّ وَ مَاکَانَ لَکُم اَن تُؤذُوا رَسُولَ اللّٰہِ »33:35 «‘‘ترجمہ: نبی کی بیویوں سے اگرتمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو یہ تمہارے لیے اور اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے ، تمہارے لیے یہ ہرگزجائزنہیں کہ ﷲ کے رسول کو تکلیف دو ۔
اس آیت میں حکم حجاب کے ساتھ ساتھ مصلحت حجاب بھی بتادی گئی۔ اس آیت کے نزول سے پہلے تمام مسلمان بلاروک ٹوک امہات المومنین کے پاس آتے جاتے تھے جبکہ کچھ مسلمانوں کو یہ بات سخت ناگوار محسوس ہوتی تھی ، آخر کار یہ آیات نازل ہوئیں جس کے بعد صرف محرم مرد ہی امہات المومنین کے ہاں آتے جاتے اور باقیوں کے لیے پردے کی پابندی عائد کر دی گئی۔
قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ کسی ایک فرد یا طبقے کو حکم دے کر کل امت مراد لیتا ہے مثلاَ نبی کومخاطب کر کے حکم دیا جاتا ہے لیکن اس سے مراد کل امت کوحکم دینا ہوتا ہے، اسی طرح یہاں بھی اگرچہ صرف امہات المومنین کو حکم دیا گیا لیکن اس حکم کی متابعت کل صحابیات نے کی اور مدینہ کے کل گھروں میں پردے لٹکا دیے گئے اور سوائے محرم مردوں کے عام لوگوں کا گھروں میں آنا جانا بند ہوگیا ۔اس طرح سے مخلوط مجالس اور مرد وزن کے آزادانہ میل جول پر مکمل پابندی لگ گئی ۔
اسی سورۃ میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ ‘ وَ قَرنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجنَ تَبَرَّجَ الجَاہِلِیَّۃِ الاُولٰی»33:33« :ترجمہ: (اے خواتین اسلام) اور اپنے گھروں میں رہا کرواور دورجاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھرا کرو ۔
اس آیت میں لفظ ‘تبرج‘‘ وارد ہوا ہے جس کے تین معانی ہیں 1۔ اپنے چہرے اور جسم کی موزونیت اور حسن لوگوں کو دکھانا۔ 2۔ اپنے چمکتے زیوروں اور زرق برق لباس اور سامان آرائش کی نمائش کرنا۔ 3۔ اپنی چال ڈھال اور نازوانداز سے خود کو نمایاں کرنا۔
پس عورت کا میدان کار اس کے گھر کی چار دیواری ہے ، محسن نسوانیت نے فرمایا کہ ‘عورت تو سراپا پردہ ہے، جب وہ گھرسے نکلتی ہے تو شیطان اسے گھورتا ہے اور وہ ﷲ تعالی کی رحمت کے قریب تر اسی وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہو ۔
ان احکامات کے نتیجے میں کسی مجبوری یعنی تعلیم یا علاج یا صلہ رحمی کے لیے تو گھرسے نکلنا بجا لیکن محض کھیل تماشے اور سیر سپاٹے کے لیے اس طرح گھر سے نکلنا کہ عورت کے ساتھ اس کی تمام تر عیش سامیانیاں بھی موجود ہوں ، تو اس سے کلی طور پر منع کر دیا گیا۔ جو لوگ کسی بھی طرح سے عورت کو بلا کسی شرعی عذرکے گھر سے باہر نکالنے کا جواز پیش کرتے ہیں وہ دراصل دانستہ یا نادانستہ اصحاب سبت کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے ﷲ تعالی کے حرام کو حلال اورحلال کو حرام کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے لیے حیلے بہانے تراشے تھے پس وہ قوم ذلیل بندر بنادی گئی اور ان کی نسل ہی ختم ہو گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ ﷲ تعالی اپنے احکامات اوراپنے نیک بندوں کا مذاق و استہزا بالکل بھی پسند نہیں ہے ۔ یہودیوں کے بارے میں قرآن نے نقل کیا ہے کہ ‘سمعنا وعصینا‘‘ کہ ہم نے سن لیا لیکن مانا نہیں اور نافرمانی کی جبکہ مسلمانوں کے بارے میں قرآن نے بتایا کہ ‘سمعنا واطعنا‘‘ کہ ہم نے سنا اور مان بھی لیا اور اطاعت و فرمانبرداری بھی کی، سو جس جس تک یہ احکامات پہنچے اس کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ بلا چوں و چرا ان کو تسلیم کر لے ۔
اسی طرح کا ایک حکم ﷲ تعالی نے سورۃ نور میں بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ‘ وَ قُل لِّلمُؤمِنٰتِ یَغضُضنَ مِن اَبصَارِہِنَّ وَ یَحفَظنَ فُرُوجَہُنَّ وَ لَایُبدِینَ زِینَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنہَا وَ لیَضرِبنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوبِہِنَّ وَ لَا یُبدِینَ زِینَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُولَتِہِنَّ اَو اٰبَآءِہِنَّ اَو اٰبَآءِ بُعُولَتِہِنَّ اَو اَبنَآءِہِنَّ اَو اَبنَآءِ بُعُولَتِہِنَّ اَو اِخوَانِہِنَّ اَو بَنِیٓ اَخوَانِہِنَّ اَو بَنِیٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَو نِسَآءِہِنَّ اَو مَا مَلَکَت اَیمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِینَ غَیرِ اُولِی الاِربَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفلِ الَّذِینَ لَم یَظہَرُوا عَلٰی عَورٰتِ النِّسَآءِ وَ لَا یَضرِبنَ بِاَرجُلِہِنَّ لِیَعلَمَ مَا یُخفِینَ مِن زِینَتِہِنَّ وَ تُوبُوا اِلَی اللّٰہِ جَمِیعًا اَیُّہَ المُؤمِنُونَ لَعَلَّکُم تُفلِحُونَ»42:13« ترجمہ: اے نبی مومن عورتوں سے کہہ دو اپنی نظریں بچا کہ رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا سنگھار نہ دکھائیں سوائے اس کے کہ جو خود ہی ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں وہ (مومن عورتیں) اپنا بناؤ سنگھار(صرف) ان لوگوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہیں :شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے ، بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے لونڈی غلام، وہ زیردست مرد جو کسی قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جوعورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے، اے مومنو تم سب مل کر ﷲ تعالی کے حضور توبہ کرو توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ اس آیت میں ﷲ تعالی نے بڑی وضاحت سے بتادیا ہے کہ صرف محرم مرد وں کے سامنے ہی اپنی زیب و زینت کا اظہار کیاجا سکتا ہے اور بس ۔آواز کے بارے میں سورۃ احزاب میں ﷲ تعالی کا حکم ہے کہ ‘ یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَستُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیتُنَّ فَلَا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَیَطمَعَ الَّذِی فِی قَلبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلنَ قَولًا مَّعرُوفًا»33:23« ترجمہ: نبی کی بیویو؛ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگرتم ﷲ تعالی سے ڈرنے والی ہو تو(مردوں سی) دبی دبی زبان میں بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘۔
یہاں ایک بار پھر قرآن مجید نے اپنے عمومی اسلوب کے مطابق امہات المومنین کو خطاب کر کے تو تمام خواتین اسلام کو مراد لیا ہے۔ اس آیت میں عورتوں کو آواز کے پردے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسلام کے قوانین عورتوں کو بلاضرورت مردوں سے گفت و شنید کی اجازت نہیں دیتا تاہم اگر مجبوری پر بات کرنی بھی پڑے تو خواتین کے لیے ﷲ تعالی کا حکم ہے کہ اپنی آواز میں نرمی اختیار نہ کریں کہ مبادا کسی کے دل میں کوئی بری آس و امید جنم لے بلکہ سیدھی اورصاف بات کی جائے تاکہ معاشرے کا ماحول انتہائی پاکیزہ رہے اوراخلاقی آلودگیوں سے انسانوں کو بچایا جا سکے۔
یہ تمام احکامات اگرچہ کسی قدر دقت طلب ضرور ہیں لیکن ان کے ثمرات کو دیکھاجائے تو دنیا وآخرت کی کامیابیوں کے نتیجے میں ان احکامات کی مشقت گویا کچھ بھی نہیں، نظروں کی پاکیزگی براہ راست کردار پر اثر انداز ہوتی ہے اور کردار کی پاکیزگی سے ہی نسلوں کا حسب نسب وابستہ ہے۔
پس عورت کو چاہیے کہ اپنا ستر، جس میں منہ اور ہاتھ کے سواکل جسم داخل ہے، چھپائے رکھیں، جہاں محرم مردہوں وہاں زیب و زینت کے ساتھ آسکتی ہے جہاں بہت قریبی رشتہ دار ہیں وہاں بغیر زیب و زینت کے آسکتی ہے اور جو جگہ بالکل غیر مردوں کی ہو وہاں مکمل پردے ، نقاب اور حجاب کی پابندی کے ساتھ آئیں حتی کہ اپنی آوازکو بھی شیرینی سے خالی کر کے گفتگوکریں۔
یہ تعلیمات عورت کی فطرت کے عین مطابق ہیں جس سے عورت کی نسوانیت محفوظ رہتی ہے ،اس کی عفت و پاک دامنی کا جوہرمیلا نہیں ہوتا اور عندﷲ وہ عورت بہت بڑے اجر کی حق دار ٹہرے گی۔
جوعورتیں ان احکامات کا خیال نہیں رکھتیں تو مردوں کے ساتھ مسلسل میل جول کے نتیجے میں ان کے چہروں سے ملائمیت و نورانیت و معصومیت رخصت ہو جاتی ہے، ان کے رویوں میں عجیب سی غیرفطری کرختگی آجاتی ہے اورنتیجہ میں وہ ایک ایسی شخصیت میں ڈھل جاتی ہیں جس میں مامتا، زوجہ اورخواہرہ جیسے اوصاف عنقا ہو جاتے ہیں اور پھرایسی عورتوں سے وابستہ مرد حضرات تلاش نسوانیت میں جب گھرسے باہر نظریں دوڑاتے ہیں تو معاشرے میں ایک نہ ختم ہونے والا برائی کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے جسے قرآن نے کہا کہ ‘ عَلَیہِم دَآءِرَۃُ السَّوئ‘‘ کہ وہ برائی کے گھیرمیں آجاتے ہیں ۔