نعمتیں اور انسان کی ذمہ داری
نعمتیں اور انسان کی ذمہ داری
خدا وندمتعال نے اپنے خاص لطف و کرم، رحمت ومحبت اور عنایت کی بنا پر انسان کو ایسی نعمتوں سے سرفراز ہونے کا اہل قرار دیا جن سے اس کائنات میں دوسری مخلوقات یہاں تک کہ مقرب فرشتوںکو بھی نہیں نوازا۔
انسان کے لئے خداوندعالم کی نعمتیں اس طرح موجود ہیں کہ اگر انسان ان کو حکم خدا کے مطابق استعمال کرے تو اس کے جسم اور روح میں رشد و نمو پیدا ہوتا ہے او ردنیاوی اور اُخروی زندگی کی سعادت و کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
قرآن مجید نے خدا کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں ١٢اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے:
١۔ نعمت کی فراوانی اور وسعت۔
٢۔ حصول نعمت کا راستہ۔
٣۔ نعمت پر توجہ ۔
٤۔نعمت پر شکر۔
٥۔نعمت پر ناشکری سے پرہیز۔
٦۔نعمتوں کا بے شمار ہونا۔
٧۔نعمت کی قدر کرنے والے۔
٨۔نعمتوں میں اسراف کرنا۔
٩۔نعمتوں کو خرچ کرنے میں بخل سے کام لینا۔
١٠۔نعمت کے چھن جانے کے اسباب و علل۔
١١۔اتمام ِنعمت ۔
١٢۔نعمت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا انعام۔
اب ہم قارئین کی توجہ قرآن مجید کے بیان کردہ ان عظیم الشان بارہ نکات کی طرف مبذول کراتے ہیں:
١۔ نعمت کی فراوانی اور وسعت
زمین و آسمان کے در میان پائی جانے والی تمام چیزیں کسی نہ کسی صورت میں انسان کی خدمت اور اس کے فائدے کے لئے ہیں، چاند، سورج، ایک جگہ رکنے والے اور گردش کرنے والے ستارے، فضا کی دکھائی دینے والی اور نہ دکھائی دینے والی تمام کی تمام چیزیں خداوندعالم کے ارادہ اور اس کے حکم سے انسان کو فائدہ پہنچارہی ہیں۔
پہاڑ، جنگل، صحرا، دریا، درخت و سبزے، باغ، چشمے، نہریں، حیوانات اور دیگر زمین پر پائی جانے والی بہت سی مخلوقات ایک طرح سے انسان کی زندگی کی نائو کو چلانے میں اپنی اپنی کارکردگی میں مشغول ہیں۔
خداوندعالم کی نعمتیں اس قدر وسیع ، زیادہ، کامل اور جامع ہیں کہ انسان کو عاشقانہ طور پر اپنی آغوش میں بٹھائے ہوئے ہیں، اور ایک مہربان اور دلسوز ماں کی مانند ،انسان کے رشد و نمو کے لئے ہر ممکن کوشش کررہی ہیں۔
انسان کو جن ظاہری و باطنی نعمتوں کی ضرورت تھی خداوندعالم نے اس کے لئے پہلے سے ہی تیار کررکھی ہے، اور اس وسیع دسترخوان پر کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں اس سلسلے میں بیان ہوتا ہے:
( َلَمْ تَرَوْا َنَّ اﷲَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الَْرْضِ وََسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہُ ظَاہِرَةً وَبَاطِنَةً…).(١)
‘کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور تمہارے لئے تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کو مکمل فرمایااور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو علم ہدایت اور روشن کتا ب کے بغیر بھی خدا کے بارے میں بحث کرتے ہیں ‘.
٢۔ حصول نعمت کا راستہ
رزق کے حصول کے لئے ہر طرح کا صحیح کام اور صحیح کوشش کرنا؛ بے شک خداوندعالم کی عبادت اور بندگی ہے؛ کیونکہ خدائے مہربان نے قرآن مجید کی بہت سی آیات میں اپنے بندوں کو زمین کے آباد کرنے اور حلال روزی حاصل کرنے، کسب معاش، جائز تجارت اورخرید و فروخت کا حکم دیا ہے، اور چونکہ خداوندعالم کے حکم کی اطاعت کرنا عبادت و بندگی لہٰذا اس عبادت و بندگی کا اجر و ثواب روز قیامت ]ضرور[ ملے گا۔
تجارت، خرید و فروخت، اجارہ ]کرایہ[، وکالت، مساقات ]سینچائی[،زراعت ،مشارکت، صنعت، تعلیم، خطاطی، خیّاطی، رنگ ریزی، دباغی ] کھال کو گلانا[ اور دامداری]بھیڑ بکریاں وغیرہ پالنا[
جیسے اسلامی موضوعات اور انسانی قوانین کی رعایت کرتے ہوئے مادی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنے والاانسان خدا کی نظر میں محبوب ہے، لیکن ان راستوںکے علاوہ حصول رزق کے لئے اسلامی قوانین کے مخالف اور اخلاقی و انسانیت کے خلاف راستوں کو اپنانے والوں سے خدا نفرت کرتاہے۔
قرآن مجید اس مسئلہ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
( یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَْکُلُوا َمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ ِلاَّ َنْ تَکُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْکُمْ).(2)
‘اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق طریقہ سے نہ کھایا کرو۔مگر یہ کہ باہمی رضامندی سے معاملہ کرلو ‘.
( یَاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوا مِمَّا فِی الَْرْضِ حَلاَلًا طَیِّبًا وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ ِنَّہُ لَکُمْ عَدُوّ مُبِین).(3)
‘اے انسانو! زمین میں جو کچھ بھی حلال و پاکیزہ ہے اسے استعمال کرو اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو بے شک وہ تمہاراکھلا دشمن ہے ‘.
بہر حال خداوندعالم کی طرف سے جو راستے حلال اور جائز قرار دئے گئے ہیںاگر ان جائز اور شرعی طریقوں سے روزی حاصل کی گئی ہے اور اس میں اسراف و تبذیر سے خرچ نہیں کیا گیا تو یہ حلال روزی ہے اور اگر غیر شرعی طریقہ سے حاصل ہونے والی روزی اگرچہ وہ ذاتی طور پر حلال ہو جیسے کھانےپینے کی چیزیں؛ تو وہ حرام ہے اور ان کا اپنے پاس محفوظ رکھنا منع ہے اور ان کے اصلی مالک کی طرف پلٹانا واجب ہے۔
٣۔ نعمت پر توجہ
کسی بھی نعمت سے بغیر توجہ کئے فائدہ اٹھانا، چوپائوں، غافلوں اور پاگلوں کاکام ہے ، انسان کم از کم یہ تو سوچے کہ یہ نعمت کیسے وجود میں آئی ہے یا اسے ہمارے لئے کس مقصد کی خاطر پیدا کیا گیا؟ اس کے رنگ، بو اور ذائقہ میں کتنے اسباب و عوامل پائے گئے ہیں، المختصر یہ کہ بغیر غور و فکر کئے ایک لقمہ روٹی یا ایک لباس، یا زراعت کے لائق زمین، یا بہتا ہوا چشمہ، یا بہتی ہوئی نہر، یا مفید درختوں سے بھرا جنگل، اور یہ کہ کتنے کروڑ یا کتنے ارب عوامل و اسباب کی بنا پر کوئی چیز وجود میں آئی تاکہ انسان زندگی کے لئے مفید واقع ہو ؟!!
صاحبان عقل و فہم اور دانشور اپنے پاس موجود تمام نعمتوں کو عقل کی آنکھ اور دل کی بینائی سے دیکھتے ہیں تاکہ نعمت کے ساتھ ساتھ،نعمت عطا کرنے والے کے وجود کا احساس کریں اور نعمتوںکے فوائد تک پہنچ جائیں، نیز نعمت سے اس طرح فائدہ حاصل کریں جس طرح نعمت کے پیدا کرنے والے کی مرضی ہو۔
قرآن مجید جو کتاب ہدایت ہے ؛اس نے لوگوں کوخداوندعالم کی نعمتوں پر اس طرح متوجہ کیاہے:
(یَاَیُّہَاالنَّاسُ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اﷲِ عَلَیْکُمْ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُاﷲِ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَائِ وَالَْرْضِ لاَِلَہَ ِلاَّ ہُوَ فََنَّی تُؤْفَکُونَ).(4)
‘اے لوگو! اپنے اوپر ]نازل ہونے والی[ اللہ کی نعمت کو یاد کرو کیا ، ]کیا[ اس کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے ؟وہی تو تمھیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ، پس تم کس طرف بہکے چلے جارہے ہو’.
جی ہاں! تمام نعمتیں اپنے تمام تر فوائد کے ساتھ ساتھ خداوندعالم کی وحدانیت کی دلیل ، اس کی توحید ذاتی کاثبوت اور اسی کی معرفت و شناخت کے لئے آسان راستہ ہے۔
٤۔نعمت پر شکر
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت سے فائدہ اٹھانے کے بعد ‘شکر ﷲ ‘ ]الٰہی تیرا شکر[ یا ‘الحمد ﷲ’ کہہ دیا جائے ، یا اس سے بڑھ کر ‘الحمد ﷲ رب العالمین’ زبان پر جاری کردیا جائے۔
یاد رہے کہ ان بے شمار مادی اور معنوی نعمتوں کے مقابلہ میں اردو یا عربی میں ایک جملہ کہہ دینے سے حقیقی معنی میں شکر نہیں ہوتا، بلکہ شکر ، نعمت عطا کرنے والی ذات کے مقام اور نعمت سے ہم آہنگ ہونا چاہئے ، اور یہ معنی کچھ فعل و قول اور وجد بغیر متحقق نہیں ہوں گے، یعنی جب تک انسان اپنے اعضاء و اجوارح کے ذریعہ خداوندمتعال کا شکر ادا کرنے کے لئے ان افعال و اقدامات کو انجام نہ دے جن سے پتہ چل جائے کہ وہ پروردگارعالم کا اطاعت گزار بندہ ہے ، پس شکر خدا کے لئے ضروری ہے کہ انسان ایسے امور کو انجام دے جو خدا کی رضایت کا سبب قرار پائے اور اس کی یاد سے غافل نہ ہونے دیں۔
کیا خداوندعالم کے اس عظیم لطف و کرم کے مقابلہ میں صرف زبانی طور پر’الٰہی تیرا شکر ‘یا ‘الحمد للہ’ کہہ دینے سے کسی کوشاکر کہا جاسکتا ہے؟!
بدن، اعضاء و جوارح: آنکھ کان، دل و دماغ،ہاتھ، پیر، زبان، شکم، شہوت، ہڈی اوررگ جیسی نعمتیں یا کھانے پینے، پہننے اور سونگھنے کی چیزیں یا دیدہ زیب مناظر جیسے پہاڑ، صحرا، جنگل،نہریں، دریا اور چشمے یا پھلوں، اناج اورسبزیوں کی مختلف قسمیں اور دیگر لاکھوں نعمتیں جن پر ہماری زندگی کا دارومدار ہے، کیا ان سب کے لئے ایک ‘الحمد ﷲ’ کہنے سے حقیقی شکر ہوجائے گا؟ اور کیا اسلام وایمان، ہدایت و ولایت، علم و حکمت، صحت و سلامتی، تزکیہ نفس و طہارت، قناعت و اطاعت اور محبت و عبادت جیسی نعمتوںکے مقابلہ میں ‘الٰہی تیرا شکر’ کہنے سے انسان خدا کا شاکر بندہ بن سکتا ہے؟!
راغب اصفہانی اپنی عظیم الشان کتاب ‘المفردات’ میں کہتے ہیں:
‘اَصْلُ الشُّکْرِ مِنْ عَیْنٍ شَکْریٰ’.(5)
شکر کا مادہ ‘عین شَکْریٰ’ہے؛ یعنی آنسو بھری آنکھیں یا پانی بھرا چشمہ، لہٰذا شکر کے معنی ‘انسان کا یاد خدا سے بھرا ہوا ہونا ہے اور اس کی نعمتوں پر توجہ رکھنا ہے کہ یہ تمام نعمتیں کس طرح حاصل ہوئیں اور کیسے ان کو استعمال کیاجائے’۔
خواجہ نصیر الدین طوسی ،علامہ مجلسی کی روایت کی بنا پر شکر کے معنی اس طرح فرماتے ہیں:
‘شکر، شریف ترین اور بہترین عمل ہے، معلوم ہونا چاہئے کہ شکر کے معنی قول و فعل اور نیت کے ذریعہ نعمتوں کے مدّمقابل قرار پانا ہے، اور شکر کے لئے تین رکن ہیں:
ا۔ نعمت عطا کرنے والے کی معرفت ، اوراس کے صفات کی پہچان، نیز نعمتوں کی شناخت کرنا ضروری ہے، اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں سب اسی کی طرف سے ہیں، اس کے علاوہ کوئی حقیقی منعم نہیں ہے، انسان اور نعمتوں کے درمیان تمام واسطے اسی کے فرمان کے سامنے سرِتسلیم خم کئے ہیں۔
٢۔ ایک خاص حالت کا پیدا ہونا، اور وہ یہ ہے کہ انسان عطا کرنے والے کے سامنے خشوع و خضوع اور انکساری کے ساتھ پیش آئے اور نعمتوں پر خوش رہے، اور اس بات پر یقین رکھے کہ یہ تمام نعمتیں خدا وندعالم کی طرف سے انسان کے لئے تحفے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ خداوندعالم انسان پر عنایت و توجہ رکھتا ہے، اس خاص حالت کی نشانی یہ ہے کہ انسان مادی چیزوں پر خوش نہ ہو مگر یہ کہ جن کے بارے میں خداوندعالم کا قرب حاصل ہو۔
٣۔ عمل، اور عمل بھی دل، زبان اور اعضاء سے ظاہر ہونا چاہئے۔
دل سے خداوندعالم کی ذات پر توجہ رکھے اس کی تعظیم اور حمدو ثناکرے، اور اس کی مخلوقات اور اس لطف و کرم کے بارے میں غور و فکر کرے، نیز اس کے تمام بندوں تک خیر و نیکی پہنچانے کا ارادہ کرے۔
زبان سے اس کا شکر و سپاس، اس کی تسبیح و تہلیل اور لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے۔
تمام ظاہری و باطنی نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس کی عبادت و اطاعت میںاعضاء کو کام میں لائے، اور اعضاء کو خدا کی معصیت و مخالفت سے روکے رکھے’۔
لہٰذا شکر کے اس حقیقی معنی کی بنا پر یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ شکر ،صفات کمال کے اصول میں سے ایک ہے، جو صاحبان نعمت میں بہت ہی کم ظاہر ہوتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
( وَقَلِیل مِنْ عِبَادِی الشَّکُورُ).(6)
‘اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں’.
تمام نعمتوں کے مقابلہ میں مذکورہ معنی میں شکر واجب عقلی اور واجب شرعی ہے، اور ہر نعمت کو اسی طرح استعمال کرنا شکر ہے جس طرح خداوندعالم نے حکم دیا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ خداوندعالم کی کامل عبادت و بندگی حقیقی شکر کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے:
( فَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمُ اﷲُ حَلاَلاً طَیِّبًا وَاشْکُرُوا نِعْمَةَ اﷲِ ِنْ کُنْتُمْ ِیَّاہُ تَعْبُدُونَ).(7)
‘لہٰذا اب تم اللہ کے دئے ہوئے حلال و پاکیزہ رزق کو کھاؤ اور اس کی عبادت کرنے والے ہو تو اس کی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہو’.
( فَابْتَغُوا عِنْدَ اﷲِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوہُ وَاشْکُرُوا لَہُ ِلَیْہِ تُرْجَعُونَ).(8)
‘رزق خدا کے پاس تلاش کرواور اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکربجالائو کہ تم سب اسی کی بارگاہ میں پلٹادئے جاؤگے’.
مصحف ناطق حضرت امام صادق علیہ السلام شکر کے معنی بیان فرماتے ہیں:
‘شُکْرُ النِّعْمَةِ اجْتِنابُ الْمَحارِمِ وَتَمامُ الشُّکْرِ قَوْلُ الرَّجُلِ :الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمینَ:'(9)
‘ نعمتوں پر شکر بجالانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان تمام حرام چیزوں سے اجتناب کرے، اور کامل شکر یہ ہے کہ نعمت ملنے پر ‘الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمینَ ‘کہے ‘۔
پس نعمت کا شکر یہ ہے کہ نعمت کو عبادت و بندگی اور بندگان خدا کی خدمت میں خرچ کرے، لوگوں کے ساتھ نیکی اوراحسان کرے اور تمام گناہوں سے پرہیز کرے۔
٥۔نعمت پر ناشکری سے پرہیز
بعض لوگ ،حقیقی منعم سے بے خبر اورخداداد نعمتوں میں بغیر غور و فکر کئے اپنے پاس موجودتمام نعمتوں کو مفت تصور کرتے ہیں، اور خودکو ان کا اصلی مالک تصورکرتے ہیں اور جو بھی ان کا دل اور ہوائے نفس چاہتا ہے ویسے ہی ان نعمتوں کو استعمال کرتے ہیں۔
یہ لوگ جہل و غفلت اور بے خبری اور نادانی میں گرفتار ہیں ،خدائی نعمتوں کو شیطانی کاموں اور ناجائز شہوتوں میں استعمال کرتے ہیں، اور اس سے بدتر یہ ہے کہ ان تمام خداداد نعمتوں کو اپنے اہل و عیال، اہل خاندان، دوستوں او ردیگر لوگوں کو گمراہ کرنے پر بھی خرچ کرڈالتے ہیں۔
اعضاء و جوارح جیسی عظیم نعمت کو گناہوں میں، مال و دولت جیسی نعمت کو معصیت و خطا میں ، علم و دانش جیسی نعمت کو طاغوت و ظالموں کی خدمت میںاور بیان جیسی نعمت کو بندگان خدا کو گمراہ کرنے میں خرچ کرڈالتے ہیں!!
یہ لوگ خدا ئی نعمتوں کی زیبائی اور خوبصورتی کو شیطانی پلیدگی اور برائی میں تبدیل کردیتیہیں، اور اپنے ان پست کاموں کے ذریعہ خود کو بھی اور اپنے دوستوں کو بھی جہنم کے ابدی عذاب کی طرف ڈھکیلے جاتے ہیں!
( َلَمْ تَرَی ِلَی الَّذِینَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اﷲِ کُفْرًا وََحَلُّوا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ٭جَہَنَّمَ یَصْلَوْنَہَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ).(10)
‘کیاتم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کو کفران نعمت سے بدل دیا اور اپنے قوم کو ہلاکت کی منزل تک پہنچا دیا۔یہ لوگ واصل جہنم ہوں گے اور جہنم کتنا بُرا ٹھکانہ ہے ‘.
٦۔نعمتوں کا بے شمار ہونا
اگر ہم نے قرآن کریم کی ایک آیت پر بھی توجہ کی ہو تی تو یہ بات واضح ہوجاتی کہ خداوندعالم کی مخلوق اور اس کی نعمتوں کا شمار ممکن نہیں ہے، اور شمار کرنے والے چاہے کتنی بھی قدرت رکھتے ہوں ان کے شمار کرنے سے عاجز رہے ہیں. جیسا کہ قر آن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
( وَلَوْ َنَّمَا فِی الَْرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ َقْلَام وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَةُ َبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اﷲِ ِنَّ اﷲَ عَزِیز حَکِیم)(11)
‘اور اگر روئے زمین کے تمام درخت ،قلم بن جائیں اور سمندر میں مزید سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الٰہی تمام ہونے والے نہیں ہیں ،بیشک اللہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ‘.
ہمیں اپنی پیدائش کے سلسلے میں غور و فکر کرنا چاہئے اور اپنے جسم کے ظاہری حصہ کو عقل کی آنکھوں سے دیکھنا چاہئے تاکہ یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ خداوندعالم کی نعمتوں کا شمار کرنا ہمارے امکان سے باہر ہے۔
خداوندعالم ،انسان کی خلقت کے بارے میں فرماتا ہے:
(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الِْنسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِینٍ.)(12)
‘اور ہم ہی نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے’۔
( ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَةً فِی قَرَارٍ مَکِینٍ).(13)
‘پھر اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بناکر رکھا ہے’.
( ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ َنشَْنَاہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اﷲُ َحْسَنُ الْخَالِقِینَ.)(14)
‘پھر ہم ہی نے نطفہ کو جماہو اخون بنا یا اور منجمد خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا ، پھر ہم ہی نے ]اس[ لوتھڑے میں ہڈیاں بنائیں ، پھر ہم ہی نے ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ،پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا ہے، تو کس قدر با برکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے’۔
جی ہاںیہی نطفہ ان تمام مراحل سے گزرکر ایک کامل انسان اور مکمل وجود میں تبدیل ہوگیاہے۔
اب ہم اپنے عجیب و غریب جسم اور اس میں پائے جانے والے خلیوں، آنکھ، کان ،ناک
معدہ ،گردن، خون، تنفسی نظام، مغز، اعصاب، اور دوسرے اعضاء و جوارح کو دیکھیں اور ان کے سلسلے میں غور وفکر کریں تاکہ معلوم ہوجائے کہ خود اسی جسم میں خداوندعالم کی کس قدر بے شمار نعمتیں موجود ہیں۔
کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کایہ کہنا نہیں ہے کہ اگر انسان مسلسل( ٢٤ گھنٹے ) ہر سیکنڈ میں بدن کے ایک ہزار خلیوں کا شمار کرتارہے تو ان تمام کو شمار کرنے کے لئے تین ہزار (٣٠٠٠) سال در کا ر ہوں گے۔
کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کایہ کہنا نہیں ہے کہ انسان کے’معدہ’ ]اس عجیب و غریب لیبریٹری کے اندر[ کھانا اس قدر تجزیہ و تحلیل ہوتا ہے کہ انسان کے ہاتھوں کی بنائی ہوئی لیبریٹری میں اتنا کچھ تجزیہ و تحلیل نہیں ہوتا، اس معدہ میں یا اس لیبریٹری میں ١٠ لاکھ مختلف قسم کے ذرات فلٹر ہوتے ہیں جن میں سے اکثر ذرات زہریلے ہوتے ہیں۔(15)
کیا دانشوروں او رڈاکٹروں کا کہنا نہیں ہے کہ انسان کا دل ایک ‘بند مٹھی ‘سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا لیکن اتنی زیادہ طاقت رکھتا ہے کہ ہر منٹ میں ٧٠ مرتبہ کھلتا اور بند ہوتا ہے، اور تیس سال کی مدت میں ایک ارب مرتبہ یہ کام انجام دیتا ہے اور ہر منٹ میں بال سے زیادہ باریک رگوں کے ذریعہ پورے بدن میں دوبار خون پہنچاتا ہے اور بدن کے اربوں کھربوں خلیوں دھوتا ہے۔(16)
اس طرح آکسیجن، ہائیڈروجن وغیرہ کے ذرات، ہوا، روشنی، زمین، درختوں کی شاخیں ، پتے اور پھل نیز زمین و آسمان کے درمیان جو کچھ ہے، ایک طرح سے انسان کی خدمت میں مشغول ہیں،اگر ہم اپنے بدن کے ساتھ ان تمام چیزوں کا اضافہ کرکے غور و فکر کریں تو کیا اس دنیا میں انسان کے لئے خداوندعالم کی نعمتوں کا شمار ممکن ہے؟!
اگر آپ ایک مٹھی خاک کود یکھیں تو یہ فقط خالص مٹی نہیں ہے، بلکہ مٹی کا اکثر حصہ معدنی مواد سے تشکیل پاتا ہے، جو چھوٹے چھوٹے سنگریزوں کی شکل میں ہوتے ہیں، یہ سنگریزے بڑے پتھروں کے ٹکڑے ہیں جو طبیعی طاقت کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں، مٹی میں بہت سی زندہ چیزیں ہوتی ہیں، ممکن ہے کہ ایک مٹھی خاک میں لاکھوں بیکٹری موجود ہوں، بیکٹری کے علاوہ بہت سی رشد کرنے والی جڑیں، ریشے ]مانند امر بیل[ اوربہت سے کیڑے مکوڑے بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے بہت سے زندہ ہوتے ہیں اور مٹی کو نرم کرتے رہتے ہیں تاکہ درختوں اور پودوں کی رشد و نمو میں مدد گار ثابت ہوسکیں۔(17)
انسان کے اندر مختلف چیزوں کے ہضم کرنے کی مشینیں پائی جاتی ہیں ،جیسے منھ، دانت، زبان،حلق،لعاب پیدا کرنے والے غدود، معدہ، لوز المعدہ]٢[ "Pancreas" ، چھوٹی بڑی آنتیں نیز غذا کو جذب و ہضم کرنے کے لئے ان میں سے ہر ایک کا عمل اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے۔
اسی طرح ایک اہم مسئلہ سرخ رگوں، سیاہ رگوں، چھوٹی رگوں، دل کے درمیان حصہ، دل کے داہنا اور بایاں حصہ وغیرہ کے ذریعہ خون کا صاف کرنا اور خون کے سفید اور سرخ گلوبل ، ترکیب خون،رنگ خون، جریان خون، حرارت بدن، بدن کی کھال اور اس کے عناصر، آنکھ اور اس کے طبقات وغیرہ بھی خداوندعالم کی تعجب خیز نعمتوں میں سے ہیں۔
آسمان کی فضا ،نور کا پہنچنا، گردش، کشش اور دریائوں کا جز رو مدّ ]٣[انسان کی زندگی میں کس ]٢[ لوز المعدہ: معدہ سے قریب ایک بڑی سرخ رنگ کی رگ ہے جس کی شکل خوشہ کی مانند ہوتی ہے.
]٣[ جزر ومد : دریا کے پانی میں ہونے والی تبدیلی کو کہا جاتا ہے ، شب وروز میں دریاکا پانی ایک مرتبہ ن گھٹتا ہے اس کو ‘ جزر’ کہا جاتاہے اور ایک مرتبہ بڑھتا ہے جس کو ‘مد’ کہا جاتاہے ، اور پانی میں یہ تبدیلی سورج اور چاندکی قوۂ جاذبہ کی وجہ سے ہوتی ہے.]مترجم[
قدراہمیت کے حامل ہیں، ان کے عناصر اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ہم آسمان کے دکھائی دینے والے حصے کے ستاروں کو شمار کرنا چاہیں اور ہر منٹ میں ٣٠٠ ستاروں کو شمار کریں تو اس کے لئے ٣٥٠٠سال کی عمر درکار ہوگی جن میں شب و روز ستاروں کو شمار کریں کیونکہ بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک ان کی تعداد کے بارے میں تخمینہ لگایا گیا اس کی تعداد ایک لاکھ ملین ہے جس کے مقابلہ میں ہماری زمین ایک چھوٹے سے دانہ کی طرح ہے ، بہتر تو یہ ہے کہ ہم یہ کہیں کہ انسان ان کو شمار ہی نہیں کرسکتا!!!
جس فضا میں ستارے ہوتے ہیں وہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اس کے ایک طرف سے دوسری طرف جانے کے لئے پانچ لاکھ نوری سال درکار ہیں۔
سورج اور منظومہ شمسی ،آسمان کی کرنوں کا ایک ذرہ ہے جو ٤٠٠کیلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کررہا ہے اور تقریباً (٢٠٠٠٠٠٠٠٠) سال کا وقت درکا ر ہے تاکہ اپنے مرکز کا ایک چکر لگاسکے!
عالم بالا کا تعجب خیز نظام ،سطح زمین اور زمین کے اندر اس کا اثر نیز بہت سے جانداروں کی زندگی کے لئے راستہ ہموار کرنا، یہ سب حیرت انگیز کہانیاں انسان کے لئے سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے، انسان جس ایک قطرہ پانی کو پیتا ہے اس میں ہزاروں زندہ اور مفید جانور ہوتے ہیں اور ایک متر مکعب پانی میں ٧٥٠٠سفید گلوبل"Globule" اور پچاس لاکھ سرخ گلوبل ہوتے ہیں۔(18)
ان تمام باتوں کے پیش نظر قرآن مجیدکی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کے نورانی قلب پر نازل ہونے والے قرآن مجید نے صدیوں پہلے ان حقائق کو بیان کیا ہے، لہٰذا خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو ہرگز شمار نہیں کیا جاسکتا۔
( وَِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اﷲِ لاَتُحْصُوہَا ِنَّ اﷲَ لَغَفُور رَحِیم ).(19)
‘اور تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے ، بیشک اللہ بڑا مہربان اور بخشنے والا ہے’.
٧۔نعمتوںکی قدر شناسی
جن افراد نے اس کائنات ، زمین و آسمان اور مخلوقات میں صحیح غور و فکر کرنے کے بعد خالق کائنات، نظام عالم ،انسان اور قیامت کو پہچان لیا ہے وہ لوگ اپنے نفس کا تذکیہ ، اخلاق کو سنوارنے، عبادت و بندگی کے راستہ کو طے کرنے اور خدا کے بندوں پر نیکی و احسان کرنے میں سعی و کوشش کرتے ہیں، درحقیقت یہی افراد خداوندعالم کی نعمتوں کے قدر شناس ہیں۔
جی ہاں ، یہی افراد خداکی تمام ظاہری و باطنی نعمتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں اور اس طریقہ سے خود اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے افراد دنیا و آخرت کی سعادت و خوش بختی تک پہنچ جاتے ہیں، اس پاک قافلہ کے قافلہ سالار اور اس قوم کیممتاز رہبر انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں ، تمام مومنین شب و روز کے فریضہ الٰہی یعنی نماز میں انھیں کے راستہ پر برقرار رہنے کی دعا کرتے ہیں:
( اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ٭صِرَاطَ الَّذِینَ َنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَالضَّالِّینَ).(20)
‘ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ ۔جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تونے نعمتیں نازل کی ہیں ،ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں’.
جی ہاں، انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام خداوندعالم کی تمام مادی و معنوی نعمتوں کا صحیح استعمال کیا کرتے تھے، اور شکر نعمت کرتے ہوئے اس عظیم مقام اور بلند مقام و مرتبت پر پہنچے ہوئے ہیں کہ انسان کی عقل درک کرنے سے عاجز ہے۔
خداوندمہربان نے قرآن مجید میں ان افراد سے وعدہ کیا ہے جو اپنی زندگی کے تمام مراحل میں خدا و رسول ۖکے مطیع و فرمانبردار رہے ہیں، ان لوگوں کو قیامت کے دن نعمت شناس حضرات کے ساتھ محشور فرمائے گا۔
( وَمَنْ یُطِعْ اﷲَ وَالرَّسُولَ فَُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِینَ َنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِمْ مِنْ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ ُوْلَئِکَ رَفِیقًا).(21)
‘اور جو شخص بھی اللہ اوررسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیائ،صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور یہی لوگ بہترین رفقاء ہیں’.
٨۔نعمتوں کا بیجا استعمال
مسرف ]فضول خرچی کرنے والا[ قرآن مجید کی رُوسے اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے مال، مقام، شہوت اور تقاضوں کو شیطانی کاموں ، غیر منطقی اور بے ہودہ کاموں میں خرچ کرتا ہے۔
خداکے عطا کردہ مال و ثروت اور فصل کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
(… وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلاَتُسْرِفُوا ِنَّہُ لاَیُحِب الْمُسْرِفِینَ).(٢2)
‘اور جب فصل ]گندم، جو خرما اور کشمش[ کاٹنے کا دن آئے تو ان ]غریبوں، مسکینوں، زکوٰة جمع کرنے والوں، غیر مسلم لوگوں کو اسلام کی طرف رغبت دلانے کے لئے، مقروض، فی سبیل اللہ اور راستہ میں بے خرچ ہوجانے والوں[(23) کا حق ادا کردو اور خبردار اسراف نہ کرنا کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے’.
جو لوگ اپنے مقام و منصب اور جاہ و جلال کو لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے، ان کے حقوق کو ضائع کرنے، معاشرہ میں رعب ودہشت پھیلانے اور قوم و ملت کو اسیر کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ان لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
(وَِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الَْرْضِ وَِنَّہُ لَمِنْ الْمُسْرِفِینَ).(24)
‘اور یہ فرعون ]اپنے کو[ بہت اونچا ]خیال کرنے لگا[ہے اور وہ اسراف اور زیادتی کرنے والا بھی ہے’.
اسی طرح جو لوگ عفت نفس نہیں رکھتے یا جولوگ اپنے کو حرام شہوت سے نہیں بچاتے اور صرف مادی و جسمانی لذت کے علاوہ کسی لذت کو نہیں پہچانتے اور ہر طرح کے ظلم سے اپنے ہاتھوں کو آلودہ کرلیتے ہیںنیز ہر قسم کی آلودگی ، ذلت اور جنسی شہوات سے پرہیز نہیں کرتے ، ان کے بارے میں بھی قرآن مجید فرماتا ہے:
( ِنَّکُمْ لَتَْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَائِ بَلْ َنْتُمْ قَوْم مُسْرِفُونَ).(25)
تم از راہ شہوت عورتوں کے بجائے مردوں سے تعلقات پیدا کرتے ہو اور تم یقینا اسراف اور زیادتی کرنے والے ہو’.
قرآن مجیدان لوگوں کے بارے میں بھی فرماتا ہے جو انبیاء علیہم السلام اور ان کے معجزات کے مقابلہ میں تواضع و انکساری اور خاکساری نہیں کرتے اور قرآن ،اس کے دلائل اور خدا کے واضح براہین کا انکار کرتے ہیں اور کبر و نخوت، غرور و تکبر و خودبینی کا راستہ چلتے ہوئے خداوندعالم کے مقابل صف آرا نظر آتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے:
(ثُمَّ صَدَقْنٰھُمُ الْوَعْدَ فَأَنْجَیْنٰاھُمْ وَ مَن نَّشَآئُ وَ أَھْلَکْنٰا الْمُسْرِفِینَ)(٢6)
پھر ہم نے ان کے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور انھیں اورا ن کے ساتھ جن کو چاہا بچالیا اور زیادتی کرنے والوں کو تباہ و بر باد کر دیا ‘.
حوالہ جات
(١)سورہ ٔ لقمان آیت ٢٠.
(2)سورۂ نساء آیت ٢٩.
(3)سورۂ بقرہ آیت١٦٨.
(4)سورۂ فاطر آیت ٣.
(5)مفردات ،٤٦١ مادہ شکر.
(6)سورۂ سباء ،آیت ١٣.
(7)سورۂ نحل آیت ،١١٤.
(8)سورۂ عنکبوت آیت ،١٧.
(9)اصول کافی ،ج٢،ص٩٥.باب الشکر ،حدیث ١٠؛بحار الانوار :٤٠٦٨ ،باب ٦١،حدیث ٢٩.
(10)سورۂ ابراہیم آیت ،٢٨۔٢٩.
(11)سورۂ لقمان آیت ،٢٧.
(12) سورہ مومنون آیت١٢.
(13)سورۂ مؤ منون آیت١٣.
(14)سورۂ مومنون آیت١٤.
(15) راز آفرینش انسان ص ١٤٥.
(16) راہ خدا شناسی ص ٢١٨.
(17) علم و زندگی ص١٣٤۔١٣٥.
(18)گنجینہ ہای دانش ص ٩٢٧.
(19)سورۂ نحل آیت ،١٨.
(20)سورۂ حمد آیت ،٦۔٧.
(21)سورۂ نساء آیت٦٩.
(2٢)سورۂ انعام آیت ،١٤١.
(23)سورۂ توبہ آیت٦٠.
(24)سورۂ یونس آیت٨٣.
(25)سورۂ اعراف آیت٨١.
(26)سورۂ انبیاء آیت٩.