مہدی منتظرکی معرفت عقل کی روشنی میں
مہدی منتظرکی معرفت عقل وفطرت کی روشنی میں
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
< وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ >[1]
ابن حجر ھیتمی شافعی اس آیت کے ذیل میںکہتے ھیں:
”مقاتل بن سلیمان اور ان کے تابع مفسرین نے کھا کہ یہ مذکورہ آیت (حضرت امام) مہدی (علیہ السلام) کے بارے میں نازل هوئی ھے۔“
< لِیُظْهرہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ >[2]
حافظ گنجی شافعی اس آیت کے بارے میں کہتے ھیں:
”سعید بن جبیر کہتے ھیں کہ (دین اسلام کو تمام ادیان پر ظاھر کرنے والے) (حضرت ) امام مہدی اولاد فاطمہ (سلام اللہ علیھا) سے ھیں۔“
مقدمہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
الحمد لله علی ما اٴنعم واٴلھم ،صلی اللّٰہ علی سیدنا محمد وآلہ وسلم۔
قارئین کرام ! حضرت امام ”مہدی منتظر“ کے سلسلہ میں بہت سے شک وشبھات کے سیاہ بادل منڈلاتے هوئے نظر آتے ھیں،اور مسلمانوں کے درمیان میں بہت سی ردّ وبدل هوتی رھی ھے ،یھاں تک کہ بعض کتابوں اور بعض مولفین نے ”امام مہدی“ پر ایمان کو خرافات اور افسانہ پر ایمان رکھنابتایا ھے۔
جبکہ ان بحث کرنے والوں پر لازم تھا کہ اپنی بحث کو صرف اسی حقیقت کوواضح کرنے کے لئے مخصوص کرتے،تاکہ جو شبھات اس سے متعلق پائے جاتے تھے ان کو دور کرتے، اور ناقص افتراء پردازی کا خاتمہ کرکے خالص حقیقت سے پردہ برداری کرتے، تاکہ تمام لوگوں کے سامنے حقیقت واضح اور روشن هوجائے۔
چنانچہ بعض حضرات ایسے بھی هونگے جو یہ خیال کریں کہ یہ موضوع او راس طرح کے دوسرے موضوعات نے مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کردیا ھے اور ان کے درمیان اختلافات کی آگ بھڑکادی ھے، لہٰذا ان جیسے موضوعات پر بحث ھی نہ کی جائے تو زیادہ مفید ھے، لیکن ھمارے لحاظ سے یہ تصور حقیقت سے بہت دور ھے کیونکہ کسی بھی زمانہ میں کسی بات پر خاموش رہنا اس طرح کی مشکلات کا علاج نھیں رھا ھے، لہٰذا اس طرح کا خیال خام سوء ظن او رپستی کی علامت کے علاوہ کچھ نھیں هوسکتا۔
لہٰذا اس سلسلہ میں صاف اور وضاحت کے ساتھ گفتگو کرنا ھی مفید اور بہتر ھے، تاکہ نامعلوم حقائق سے پردہ برداری کی جاسکے ، جھوٹ او ربے هودہ باتوں کا پول کھل جائے اور شک وتردید کا سد باب هوسکے۔
اسی وجہ سے ھم اسی اھم مقصد وہدف کے بارے میں چند صفحات گفتگو کرنا چاہتے ھیں اور ھم آپ تک خالصانہ واضح طورپرحقائق کو هوبهو پهونچانا چاہتے ھیں۔
ھم اس حصہ میں بھی (اپنی تحقیق اور جستجو )کو محترم قارئین کی خدمت پر پیش کرتے هوئے امیدوار ھیں کہ اس بحث کے مطالعہ کے بعد انصاف سے کام لیں اور خود غرضی کا شکار نہ هوں۔
ھماری دلی آرزو یہ ھے کہ ھمارے قارئین کرام اس بحث کے مطالعہ میں وہ چیزیں پائے گے جن پر گذشتہ صدیوں سے غبار چڑھا هوا تھا اور”مہدی ومہدویت“ کے سلسلہ میں شیعہ حضرات کے عقیدہ سے بھی آگاہ هوجائیں گے۔
اَلْحَمُدْ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَاکُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَو لَا اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ۔
پھلا مرحلہ :
نظریہ مہدویت
گذشتہ فصل ”امامت“ کا خلاصہ یہ ھے کہ امامت نام ھے رسالت کے مکمل کرنے والے جز کا، جیسا کہ نصوص اور عقل انسانی بھی دلالت کرتی ھےں، اور جو دلیل نبوت کے لئے قائم کی جاتی ھے اسی دلیل کے تحت امامت کی بھی ضرورت کو ثابت کیا جاسکتا ھے، کیونکہ بغیر امامت کے نبوت کا وجود مکمل نھیں هوتاھے اور اگر نبوت کو ناقص تصور کرلیں تو یہ بات حقیقت اسلام سے منافی ھے کیونکہ اسلام تو یہ کہتا ھے کہ قیامت تک نبوت ورسالت کا هوناضروری ھے۔
لہٰذا نبوت زندگی کا آغاز ھے او رامامت اس زندگی کا دوام او رباقی رہنا ھے، اور اگر ھم نبوت کوامامت کے بغیر تصور کریں تو پھر ھمیں یہ کہنے کا حق ھے کہ رسالت ایک محدود سلسلہ ھے جو رسول کے بعد اپنی حیات کو باقی نھیں رکھ سکتایعنی اپنے اغراض ومقاصد میں اپنی وصی کے بغیر پایہ تکمیل تک نھیں پهونچاسکتی۔
جبکہ حقیقت تو یہ ھے کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وصیت روایات کے ذریعہ بھی ثابت نہ هو تو ھماری عقل اس بات کا فیصلہ کرتی ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس طرح کی وصیت کرنی چاہئے، کیونکہ ھمارے سامنے جب کوئی شخص اس دنیا سے جاتا ھے تو اپنے تھوڑے سے مال کے لئے بھی وصیت کرتا ھے اور کسی ایک شخص کو اپنا وصی بناتا ھے تاکہ اس کی اولاد اور مال ودولت پر نظر رکھے، تو کیا وہ رسول جوسردار انبیاء هو اور اتنی عظیم میراث (نوع بشریت کے لئے اسلام) چھوڑے جارھا ھے، اس میراث پر کسی کو وصی نہ بناکرجائے گا؟!!
لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے وقت ِوفات کے حالات کے پیش نظر یہ بات ثابت هوجاتی ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے وصی بنایا اور آپ نے اپنی امت کو شک وشبھات کی وادی میں بے یارو مددگار نھیں چھوڑا۔
اسی طرح یہ بات بھی مزید روشن هوجاتی ھے کہ شیعہ امامیہ نے انتخاب کے مسئلہ میں مخالفت احساسات کی بنا پر نھیں کی، یا کسی سیاسی پھلو کو مد نظر رکھا هو، بلکہ انھوں نے تو روایات اور دیگر نصوص میں وہ چیزیں پائی ھیں جن میں صحیح زندگی کی ضمانت ھے چنانچہ ھم لوگ تو اس مسئلہ میں اس تائید کا دفاع کرتے ھیں اور وہ بھی اسلام واخلاص کی حقیقت کے پیش نظرتاکہ کسی مقصد تک پهونچ جائیں۔
حضرت علی علیہ السلام سب سے پھلے امام ھیں اور ان تمام ائمہ (ع)کے بارے میں متواتر احادیث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمموجود ھیں جن میں کبھی تو وضاحت کے ساتھ او رکبھی اشاروں میں ائمہ (ع)کی امامت کے بارے میں بیان کیا گیا ھے، (جیسا کہ ھم پھلے بیان کرچکے ھیں) اور یہ تمام روایات اپنے انداز بیان کے اختلاف کے ساتھ ایک ھی چیز کی طرف اشارہ کرتی ھیں اور وہ یہ کہ یہ حضرات رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد امام اور خلیفہ ھیں۔
دوسرے امام : حضرت حسن بن علی (علیہ السلام )
تیسرے امام : حضرت حسین بن علی( علیہ السلام )
چوتھے امام : حضرت علی بن الحسین ، (امام سجاد علیہ السلام )
پانچویں امام : حضرت محمد بن علی (امام باقر علیہ السلام )
چھٹے امام : حضرت جعفر بن محمد الصادق (علیہ السلام )
ساتویں امام: حضرت موسیٰ بن جعفر الکاظم (علیہ السلام )
آٹھویں امام : حضرت علی بن موسیٰ الرضا (علیہ السلام )
نویں امام: حضرت محمد بن علی ،تقی (علیہ السلام )
دسویں امام : حضرت علی بن محمد نقی (علیہ السلام )
گیارهویں امام: حضرت حسن بن علی عسکری (علیہ السلام )
بارهویں امام : حضرت محمد بن حسن المہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)[3]
اوربارهویں امام لوگوں کی نظروں سے غائب ھیں اور جب حکم خدا هوگا تو آپ ظهور فرمائیں گے” اور ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔“ [4]
لیکن امام مہدی کے سلسلہ میں بہت سے لوگوں نے عجیب وغریب اور بے جا اعتراضات کئے ھیں اور آپ کی” غیبت“کے بارے میں بہت زیادہ بے هودہ گفتگو کی ھے جس کی بنا پر سیاہ بادلوں نے حقیقت پر پردہ ڈال دیا اور انسان صحیح طریقہ پر حقیقت کی پہچان نہ کرسکا، جبکہ بعض مخلص موٴلفین نے اس سلسلہ میں غور وخوض سے کام نھیں لیا اس خوف سے کہ یہ سلسلہ بہت مشکل ھے ، جبکہ مخالفین اور منکرین اس سلسلہ میں بہت زیادہ مذاق اڑانے کی غرض سے خوش هوتے ھیں کہ ھم نے اس موضوع کو نابود کردیا اور جس کو یہ لوگ بہت بڑا اسلحہ سمجھتے ھیں، کیونکہ ان کا خیال خام یہ ھے کہ ھماری یہ باتیں
نھایت استدلال اور منطق پر استوار ھیں جن کی کوئی ردّ نھیں کرسکتا۔
اسی طرح بعض لوگوں نے ”مہدی ومہدویت“ کے بارے میں علمی استدلالات سے بحث نھیں کی ھے اور نہ ھی خاص موضوع کو واضح کیا ھے چنانچہ ایسے خیالات کے قائل هوگئے ھیں کہ عقل ومنطق سے دور ھیں۔
قارئین کرام ! اس کتاب میں ھماری روش اسی موضوع کے تحت هوگی تاکہ ھم بھی ان اشکالات سے دور رھیں جن میں دوسرے لوگ گرفتار هوئے ھیں۔
لہٰذا ھم اس کتاب میں اپنے طریقہ کی بنا پر احادیث کو تین حصوں میں تقسیم کریں گے :
۱۔ وہ احادیث جن میں نظریہ ”مہدویت“ کو بیان کیا گیا ھے اور وہ کس طرح اسلام سے ارتباط رکھتی ھیں۔
۲۔ وہ احادیث نبوی جن میں امام” مہدی “کو معین کیاگیا ۔
۳۔ وہ احادیث جن میں امکان ”غیبت“ پر بحث کی گئی ھے اور غیبت پر دلالت کرتی ھیں۔
چنانچہ ان تمام احادیث کی وضاحت کرنے کے کے بعد حقیقت واضح هوجائے گی، اور اس کووہ تمام ھی لوگ جو اپنی هویٰ وهوس اور خود غرضی کے خواھاں نہ هوں؛آسانی سے سمجھ سکتے ھیں۔
اگر ھم تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں( خصوصاً اگر تاریخ ادیان کو ملاحظہ کریں)تو ھمیں معلوم هوجائے گا کہ ”مہدویت “ کا عقیدہ صرف اور صرف شیعہ حضرات سے ھی مخصوص نھیں ھے اور نہ ھی ان کی ایجاد ھے (جیسا کہ بعض مولفین نے کھا ھے کہ مہدویت کا عقیدہ صرف شیعوں کی ایجاد ھے) بلکہ ھم تو یہ بھی کہہ سکتے ھیں کہ یہ عقیدہ مسلمانوں سے بھی مخصوص نھیں ھے بلکہ دوسرے آسمانی ادیان بھی اس عقیدہ میں شریک ھیں۔
کیونکہ یهود ونصاریٰ بھی ایک ایسے مصلح منتظر کا عقیدہ رکھتے ھیں جو آخرالزمان میں آئے گا جس کا نام ”ایلیا“ هوگا (یہ تھا یهودیوں کا نظریہ) جبکہ عیسائیوں کے نزدیک وہ مصلح منتظر حضرت عیسیٰ بن مریم هونگے۔
اسی طرح دیگر مسلمان بھی اپنے مذھبی اختلاف کے باوجود اسی چیز کا اقرار کرتے ھیں جبکہ شیعہ امامی اور کیسانیہ اور اسماعیلیہ ”امام مہدی“ کا عقیدہ رکھتے ھیں اور اس کو ضروریات مذھب سے شمار کرتے ھیں، اسی طرح اھل سنت حضرات اپنے ائمہ اور علماء حدیث کے بارے میں عقیدہ رکھتے ھیں،جن میں سے بعض لوگوں نے مہدویت کا دعویٰ بھی کیا ھے جیسا کہ مغرب ، لیبی اور سوڈان میں اس طرح کے واقعات رونما هوئے ھیں کہ اھل سنت کے بعض بڑے بڑے علماء نے اپنے کو ”مہدی مصلح“ کھلوایا۔
نیز اسی طرح کا عقیدہ تینوں آسمانی ادیان میں ملتا ھے۔
اسی طرح یہ عقیدہ شیعہ حضرات میں، دوسرے مسلمان بھائیوں کی طرح پایا جاتا ھے اور امام مہدی کے بارے میں ان کا وھی عقیدہ ھے جس کو ڈاکٹر احمد امین صاحب نے اھل سنت کے نظریہ کو بیان کیا ھے کہ:
”اس وقت تک قیامت نھیں آئے گی جب تک آخرالزمان میں اھل بیت (ع) سے ایک شخص ظاھر نہ هوجائے جو دین کی نصرت کرے گا اور عدل وانصاف کو عام کردے گا ،تمام مسلمان اس کی اتباع وپیروی کریں گے اور تمام اسلامی ممالک پر حکومت کرے گا جس کا نام ”مہدی“ هوگا۔[5]
شیعہ حضرات بھی وھی کہتے ھیں جو شیخ عبد العزیر بن باز رئیس جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کہتے ھیں، چنانچہ موصوف فرماتے ھیں:
”(حضرت ) مہدی کا مسئلہ معلوم ھے کیونکہ ان کے سلسلہ میں احادیث مستفیض بلکہ متواتر ھیں جو ایک دوسرے کی کمک کرتی هوئی اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ واقعاً مہدی موعود ھیں اور ان کا ظهورحق ھے“۔ [6]
قارئین کرام ! یھاںتک یہ بات واضح هوگئی کہ ”نظریہ مہدویت“ایک صحیح نظریہ ھے جیساکہ معاصر کاتب مصری عبد الحسیب طٰہ حمیدہ کہتے ھیں[7]
لیکن واقعاً تعجب خیز ھے کہ جناب عبد الحسیب صاحب اس بات کی طرف متوجہ نھیں هوئے کہ خود پھلے نظریہ مہدویت کوصحیح مان چکے ھیں کیونکہ ان کا بعد کا نظریہ پھلے نظریہ کے مخالف ھے جبکہ اس سے پھلے انھوں نے یہ بھی کہہ ڈالا تھا کہ ”مہدویت کا نظریہ ایک ایسا نظریہ ھے جو یهودیوں سے لیا گیا ھے اور جس کا اسلام سے کوئی سروکار نھیں ھے“[8]
کیونکہ موصوف اپنی اس عبارت سے صرف اور صرف شیعوں پر تھمت لگانا چاہتے ھیں کہ شیعوں کے عقائد یهودیوں سے لئے گئے ھیں،لیکن موصوف نے اپنے اس اعتراض سے تمام مسلمانوں پر تھمت لگائی ھے (جبکہ اس بات کی طرف متوجہ بھی نھیں ھیں) کیونکہ ان کی ان دونوں بات میں واضح طور پر ٹکراؤ ھے کیونکہ پھلے انھوں نے نظریہ مہدویت کو صحیح تسلیم کیا لیکن بعد میں اس کو یهودیوں کے عقائد میں سے کہہ ڈالا، چنانچہ آپ حضرات نے بھی اندازہ لگایا لیا هوگا کہ موصوف کا اتنی جلدی نظریات کا تبدیل کرنا ان کی بد نیتی اور تعصب پر دلالت کرتا ھے کیونکہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے حضرات پر یہ بات واضح ھے کہ عبد اللہ ابن سبا نامی شخص کا تاریخی وجود ھی نھیں بلکہ یہ صرف خیالی اور جعلی نام ھے اور صرف اس کے نام سے مختلف عقائد منسوب کردئے گئے ھےں جو سب کے نزدیک معلوم ھیں کہ یہ سب کچھ جعلی اور صرف افسانہ ھے، اور شاید یہ سب اس وجہ سے هو کہ صدر اسلام میں عبد اللہ بن سبا کا نام بہت زیادہ زبان زدہ خاص وعام تھا اور اس سے مراد رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے جلیل القدر صحابی جناب عمّار یاسر هوتے تھے جیسا کہ بعض مولفین نے اس چیز کی طرف اشارہ بھی کیا ھے۔[9]
خلاصہ بحث یہ هوا کہ ”نظریہ مہدویت“ شیعوں کی ایجاد کردہ نھیں ھے اور نہ ھی اس سلسلہ میں یهود وغیریهود کی اتباع کرتے ھیں بلکہ اس سلسلہ میں تینوں آسمانی ادیان (یهودی ،عیسائی اور اسلام) نے بشارت دی ھے ، اور اسلام نے اس سلسلہ میں عملی طور پر مزید تاکید کی ھے ، چنانچہ تمام مسلمانوں نے اس مسئلہ کو قبول کیا ھے اور اس بارے میں احادیثیں نقل کی ھیںاور ان پر یقین کامل رکھتے ھیں۔
لہٰذا ان تمام باتو ںکو ”شیعہ حضرات کی گمراھی اور بدعتیں“ کہنا ممکن نھیں ھے اور اس قول پر یقین کرنا ناممکن ھے ، بلکہ یہ ایک ایساصحیح عقیدہ ھے جو عقائد اسلام کی حقیقت اور احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اخذ شدہ ھے جس کا انسان انکار ھی نھیں کرسکتا۔
چنانچہ اس حقیقت کا خلاصہ عراقی سنی عالم جناب شیخ صفاء الدین آل شیخ نے یوں کیا ھے:
”حضرت امام مہدی منتظر کے بارے میں احادیث اس قدر زیادہ ھیں کہ انسان کو اطمینان حاصل هوجاتا ھے کہ” وہ آخر الزمان میں ظاھر هوں گے اور اسلام کو اس کی صحیح حالت پر پلٹادیں گے، اوردین و ایمان کی قوت اور رونق کو بھی پلٹادیں گے اسی طرح دین کی رونق کو بھی لوٹادیں گے“
چنانچہ اس طرح کی روایت بغیر کسی شک وشبہ کے متواتر ھیں بلکہ ان سے کم بھی هوتیں تب بھی علم اصول کی اصطلاح کی بنا پر ان کومتواتر کہنا صحیح تھا ۔
قارئین کرام ! حضرت امام مہدی کے بارے میں صاف صاف روایات موجود ھےں اور ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ھے کیونکہ علماء اھل سنت نے اس سلسلہ میں بہت سی روایات نقل کی ھیں جیسا کہ برزنجی صاحب نے ”الاشاعة لاشتراط الساعة“ میں ، جناب آلوسی صاحب نے اپنی تفسیر میں، ترمذی صاحب ، ابو داؤد، ابن ماجہ ، حاکم، ابویعلی ، طبرانی عبد الرازق، ابن حنبل، مسلم، ابونعیم ، ابن عساکر، بیہقی ، تاریخ بغداد ، دار قطنی ، ردیانی ونعیم بن حمادنے اپنی کتاب ”الفتن“ میں اور اسی طرح ابن ابی شیبہ، ابونعیم الکوفی، البزار، دیلمی، عبد الجبار الخولانی نے اپنی تاریخ میں، جوینی، ابن حبان، ابوعمرو الدانی نے اپنی سنن میںو۔۔۔
خلاصہ مذکورہ حضرات وغیرہ نے لکھا ھے کہ (امام مہدی) کے ظهور پر ایمان رکھنا ضروری ھے کیونکہ ان کے ظهور پر اعتقاد رکھنا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث کی تصدیق کرنا ھے۔[10]
قارئین کرام ! اکثر علماء اسلام نے مہدویت کے بارے میں اقرار کیا ھے اور اس سلسلہ میں اخبار وراوایات کی تصحیح کی خاطر کتابیں تالیف کی ھیںتاکہ زمانہ پر حقیقت واضح هوجائے اور اس حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش کریں جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پیش کیا ھے ، لہٰذا ھم مثال کے طور پر چند مولفین کے نام پیش کرتے ھیں ، اگرچہ مولفین کی تعداد اس سے کھیں زیادہ ھے جس کو ھم بیان کرتے ھیں:
۱۔ عباد بن یعقوب الرواجنی متوفی ۲۵۰ھ نے کتاب ”اخبار المہدی“ میں۔
۲۔ ابو نعیم اصفھانی متوفی ۴۳۰ھ نے کتاب ”اربعین حدیثا فی امر المہدی“[11] و کتاب ”مناقب المہدی“[12]و کتاب ”نعت المہدی“ میں۔
۳۔محمد بن یوسف کنجی شافعی متوفی ۶۵۸نے کتاب ”البیان فی اخبار صاحب الزمان“ میں۔
۴۔ یوسف بن یحيٰ سلمی شافعی متوفی ۶۸۵ھ نے کتاب ”عقد الدرر فی اخبار المہدی المنتظر“ میں ۔[13]
۵۔ ابن قیم جوزی متوفی ۷۵۱ھ نے کتاب ”المہدی“ میں۔
۶۔ ابن حجر ھیتمی شافعی متوفی ۸۵۲ھ نے کتاب ”القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر“ میں[14]
۷۔ جلال الدین سیوطی متوفی ۹۱۱ھ نے کتاب ”العرف الوردی فی اخبار المہدی“ جو شایع شدہ بھی ھے اسی طرح دوسری کتاب ”علامات المہدی“ میںبھی۔
۸۔ ابن کمال پاشا حنفی متوفی ۹۴۰ھ نے کتاب ”تلخیص البیان فی علامات مہدی آخر الزمان“ میں[15]
۹۔ محمد بن طولون دمشقی متوفی ۹۵۳ھ نے کتاب ”المہدی الی ماورد فی المہدی“ میں۔[16]
۱۰۔علی بن حسام الدین متقی ہندی متوفی ۹۷۵ھ نے کتاب ”البرھان فی علامات مہدی آخر الزمان“ اورکتاب ”تلخیص البیان فی اخبار مہدی آخر الزمان“ میں۔[17]
۱۱۔ علی قاری حنفی متوفی ۱۰۱۴ھ نے کتاب ”الرد علی من حکم وقضی ان المہدی جاء ومضی“ وکتاب”المشرب الوردی فی اخبار المہدی“ میں ۔[18]
۱۲۔ مرعی بن یوسف الکرمی حنبلی متوفی ۱۰۳۱ھ نے کتاب ”فرائد فوائد الفکر فی الامام المہدی المنتظر“ میں[19]
۱۳۔ قاضی محمد بن علی شوکانی متوفی ۱۲۵۰ھ نے کتاب ”التوضیح فی تواتر ما جاء فی المہدی المنتظر والدجال والمسیح“ میں۔ [20]
۱۴۔ رشید الراشد التاذفی حلبی (معاصر) نے کتاب ”تنویر الرجال فی ظهور المہدی والدجال“ میں جو شایع شدہ بھی ھے۔
قارئین کرام ! یہ تھے چند اھل سنت مولف جنھوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں احادیث نقل کی اور کتابیں لکھیں ھیں۔
اسی طرح شعراء کرام نے بھی حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں اپنے اپنے اشعار میں مہدی او رمہدویت کی طرف اشارہ کیا ھے چنانچہ انھوں نے اپنے اشعار وقصائد میں حضرت مہدی کی معرفت، ان کے ظهوراور ان کے وجود کی ضرورت کو بیان کیا ھے جن کی تعداد بھی بہت زیادہ ھے ، لہٰذا ھم یھاں پر چند شعراء کے ا شعار بطور مثال پیش کرتے ھیں:
۱۔ کمیت بن زید اسدی متوفی ۱۲۶ھ کہتے ھیں:
متیٰ یقوم الحق فیکم متیٰ یقوم مہدیکم الثانی[21]
کب ھمارے درمیان حق آئے گا اور کب ھمارا مہدی قیام کرے گا۔
۲۔ اسماعیل بن محمد حمیری متوفی ۱۷۳ھ کہتے ھیں:
باٴن ولیَّ الامر والقائم الذی تطلع نفسی نحوہ بتطرّبِ
لہ غیبة لابد من اٴن یغیبھا فصلی علیہ اللّٰہ من متغیب
فیمکث حیناً ثم یظھر حینہ فیملاٴ عدلا کل شرق ومغرب[22]
ولی امر قائم منتظر کے لئے میرا دل خوشحالی سے انتظار کرتا ھے۔
ان کے لئے غیبت ضروری ھے پس اس غائب پر خدا کا درود وسلام هو۔
وہ پردہ غیب سے ظاھر هونگے تو مشرق ومغرب (پوری دینا)کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔
۳۔ دعبل خزاعی متوفی ۲۴۶ھ کہتے ھیں:
خروج امامٍ لا محالة خارج یقوم علی اسم اللّٰہ والبرکاتِ
یمیز فینا کل حق وباطل ویجزی علی النعماء والنقمات[23]
امام کا ظهور (ایک روز) حتمی اور ضروری ھے اور آپ خدا کے نام او راس کی برکتوں کے ساتھ ظهور کریں گے۔
اور آپ کے ظهور کے وقت حق وباطل الگ الگ هوجائے گا اور نعمت ونقمت کے لحاظ سے جزا دیں گے۔
۴۔ مھیار دیلمی متوفی ۴۲۸ھ کہتے ھیں:
عسیٰ الدھر یشفي غداً من عداک قلبَ مغیظٍ بھم مکمدِ
عسیٰ سطوة الحق تعلو المحال عسیٰ یُغلب النقص بالسودد
بسمعي لقائمکم دعوة یلبي لھا کل مستنجد [24]
ھم اس دن کے منتظر ھیں کہ جب آپ کے دشمن ھلاک هونگے اور ھم خوشحال۔
عنقریب وہ دن آنے والا ھے جب حق باطل پر اور کمزور متکبروں پر غلبہ حاصل کریں گے۔
اور جب ھمارے کانوں میں حضرت قائم(ع) کی آواز آئے گی تو ھم سب ان کی آواز پر لبیک کھیں گے۔
۵۔ ابن منیر طرابلسی متوفی ۵۴۸ھ مخالف کا مسخرہ کرتے هوئے کہتے ھیں:
والیتُ آل امیة ة الطھر المیامین الغرر
واکذّب الراوی واٴطعن ن فی ظهور المنتظر[25]
میں آل امیہ کو دوست رکھتا هوں جن کے صفات عالی ھیں!!
اور میں اس راوی کی تکذیب کرتا هوں جو ظهور مہدی کے انتظارمیں کہتا ھے!!
۶۔ محمد بن طلحہ شافعی متوفی ۶۵۲ھ کہتے ھیں :
وقد قال رسول اللّٰہ قولا قد رویناہ
وقد ابداہ بالنسبة والوصف و سمّاہ
یکفی قولہ ”منّی“ لاشراق محیاہُ
ومن بضعتہ الزھراء مرساہ ومسراہ
فمن قالوا هو المہدی ما مانوابما فاهوا[26]
بلا شبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے (امام مہدی کے بارے میںارشاد فرمایا جس کو ھم نے بیان کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کی نسبت، اوصاف اور نام بھی بیان کیا ھے۔
آپ کی شان میں لفظ ”مِنِّی“ کہنا ھی آپ کی عظمت پر دلالت کرتا ھے۔ حضرت زھرا (ع)آپ کا ایک جزء ھیں جن سے آپ باھر جاتے وقت اور واپس آتے وقت (سب سے پھلے) ملاقات کیا کرتے تھے۔ جو افراد حضرت مہدی کے بارے میں کہتے ھیں وہ کوئی نئی چیز پیش نھیں کرتے (بلکہ یہ حقیقت تو پھلے سے معلوم شدہ ھے)
۷۔ ابن ابی الحدید معتزلی متوفی ۶۵۶ھ کہتے ھیں:
ولقد علمتُ بانہ لا بد من مہدیکم ولیومہ اٴتوقعُ
یحمیہ من جند الالہ کتائب کالیم اٴقبل زاخراً یتدفعُ
فیھا لآل اٴبی الحدید صوارم مشهورة ورماحُ خط شرَّع[27]
مجھے امام مہدی پر یقین ھے اور ان کے ظهور کا انتظار ھے۔ لشکر خدا کے سپاھی امام زمانہ کی اس طرح حمایت کریں گے جس طرح دریا کی لھریں اٹھتی ھیں۔
اس وقت آل ابی الحدید تیر وتلوار کے ساتھ آپ کی حمایت میں جنگ کرے گی۔
۸۔ شمس الدین محمد بن طولون حنفی دمشقی متوفی ۹۵۳ھ ، موصوف ارجوزہ کے ضمن میں فرماتے ھیں جس کوبارہ اماموں کی شان میں کھا ھے: والعسکری الحسن المطھرُ محمد المہدی سوف یظھرُ[28]
امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد حضرت مہدی ظاھر هوں گے۔
۹۔ عبد اللہ بن علوی الحداد تریمی شافعی متوفی ۱۱۳۲ھ فرماتے ھیں:
محمد المہدی خلیفة ربنا امام المہدی بالقسط قامت ممالکہ
کاٴني بہ بین المقام ورکنھا یبایعہ من کل حزب مبارکہ
حضرت امام مہدی ھمارے رب کے خلیفہ ھیں جن کی وجہ سے پوری دنیا عدل وانصاف سے بھر جائے گی۔ اور جب آپ رکن ومقام کے درمیان کھڑے هوں گے اس وقت ھر گروہ آپ کی بیعت کرتا هوا نظر آئے گا۔
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ھیں:
ومنّا امام حان حین خروجہ یقوم باٴمر اللّٰہ خیر قیام
فیملوٴھا بالحق والعدل والہدی کما ملئت جوراً بظلم طغام [29]
ھمارے امام کے ظهور کا وقت نزدیک ھے جو خدا کے حکم سے بہترین قیام کرےں گے۔ چنانچہ آپ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے۔
دوسرا مرحلہ: مہدی کون ھیں؟
حضرت مہدی (ع) کی معرفت
قارئین کرام ! اسلام نے یهودیوں کے اس نظریہ کو باطل قرار دیا ھے کہ ”ایلیا“ ھی مصلح منتظر ھے، اسی طرح نصاریٰ کا جناب عیسیٰ (ع)کو مصلح منتظر ماننے کوبھی باطل قرار دیا ھے ، نیز اسی طرح کیسانیہ کا محمد بن حنفیہ کا ، نیز اسماعلیوں کا جناب اسماعیل بن جعفر کا مصلح منتظر ماننے کو باطل اور بے بنیاد قرار دیا ھے کیونکہ محمد بن حنفیہ او راسماعیل بن جعفرزندہ نھیں ھیں۔
لہٰذا اب فقط شیعہ اور سنی حضرات کے درمیان یہ اختلاف باقی ھے کہ مہدی کون ھےں؟
چنانچہ اھل سنت کا نظریہ یہ ھے کہ مہدی آخری زمانہ میں تلوار کے ساتھ ظاھر هونگے کیونکہ اس سلسلہ میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی روایات بہت زیادہ ھیں جو تواتر کی حد تک پهونچی هوئی ھیں جن میں مہدی منتظر کی بشارت دی گئی ھے اور فرمایا ھے کہ وہ میرے اھل بیت میں سے هوں گے اور یہ کہ وہ سات سال حکومت کریں گے نیز وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے ، ان کے ساتھ جناب عیسیٰ (ع) بھی هوںگے او ر جناب عیسیٰ (ع) ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔[30]
لیکن شیعوں کا نظریہ یہ ھے کہ امام مہدی آخری زمانہ میں ظاھر هونگے ان کا نسب علوی هوگا ان کے ھاتھ میں تلوار هوگی اور وہ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے اور پوری دنیا میں اسلام کا بول وبالا هوگا۔
دونوں حضرات کے نظریات کا خلاصہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ، دونوں حضرت مہدی کے ظهور کے قائل ھیں تو پھر ان دونوں میں اختلاف کیا ھے؟
تو عرض خدمت ھے کہ اختلاف صرف اتناھے کہ اھل سنت کا اعتقاد یہ ھے کہ وہ آخری زمانہ میں پیدا هوں گے یعنی وہ اس وقت موجود نھیں ھےں او ریہ بھی نھیں معلوم کہ وہ کب پیدا هوں گے ان کے باپ کون هوں گے۔!!
اسی نظریہ کے تحت ”سنوسی“ نے لیبی میں او رعبد الرحمن نے سوڈان میں تلوار کے ذریعہ قیام کیا او رمہدویت کا دعویٰ کرڈالا ۔
لیکن شیعوں کا عقیدہ یہ ھے کہ حضرت مہدی : محمد بن الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (علیھم السلام) ھیں اور آپ اس دنیا میں موجود ھیں لیکن کوئی ان کود یکھ نھیں پاتا۔
اور یھی دونوں فریق میں نقطہ اختلاف ھے۔
اور چونکہ مدعی کے پاس دلیل کا هونا ضروری هوتا ھے (جیسا کہ فقھی قانون بھی کہتا ھے) لہٰذا ھم یھاں پر کچھ ایسے دلائل پیش کرتے ھیں جن کے ذریعہ شیعہ حضرات اپنے اس عقیدہ کو ثابت کرتے ھیں نیز منکرین کی طرف سے بیان شدہ دلائل کی بھی ردّ کریں گے تاکہ صاحبان علم وبصیرت پر حقیقت بالکل واضح اور روشن هوجائے۔
اور چونکہ شیعوں کا عقیدہ ھے کہ امامت الٰھی منصب هوتا ھے جس میں نص اور تعین کا هونا ضروری هوتا ھے لہٰذا منطق واحادیث کے مستحکم دلائل کی بنا پر شیعہ حضرات امامت حضرت مہدی پر ایمان رکھتے ھیں ۔
یھاں پر کوئی شخص یہ سوال کرسکتا ھے کہ وہ احادیث جن کے ذریعہ آپ امام مہدی کی امامت پر ایمان رکھتے ھیں کھاں ھیں اور ان کے راوی کون کون ھیں۔؟
توھم جواب میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ھیں کہ ایک یادو حدیث نھیں ھیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی بہت سی احادیث ھیں جن کو اکثر صحابہ نے نقل کیا ھے اور بہت سے حفاظ نے روایت کیا ھے اور اس قدر روایت وتواتر کے پیش نظر کسی کو ان احادیث کی صحت پر شک وشبہ کی گنجائش نھیں رہتی۔
اس سلسلہ میں مزید دقت اور موضوع کی اھمیت کے پیش نظر ھم ان احادیث کو سند ودلالت کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کرتے ھیں:
لہٰذا قسم اول اور قسم دوم باقی بچتی ھیں جن پر عمل کیا جانا چاہئے جو مختلف طریقہ سے ایک ھی مقصد تک پهونچاتی ھیں اگرچہ الفاظ مختلف ھیں لیکن سب ایک ھی ہدف کی طرف راہنمائی کرتی ھیں ، لہٰذا ھم یھاں پر ان احادیث کا خلاصہ پیش کرتے ھیں:
وہ احادیث جن میں کھا گیا ھے کہ حضرت مہدی قریش سے هوں گے:
احمدا ورماوردی نے روایت کی ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”ابشروا بالمہدی ، رجل من قریش من عترتی، یخرج فی اختلاف من الناس وزلزال، فیملاٴ الارض عدلا وقسطا کما ملئت ظلماً وجوراً“ [32]
(میں تمھیں مہدی کے بارے میں بشارت دیتا هوں جو قریش اور میرے عترت سے هوں گے وہ لوگوں کے اختلاف اورتفرقہ کے وقت ظاھر هونگے اور ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھردیں گے۔)
بعض احادیث میں امام مہدی کو اولاد عبد المطلب سے بتایا گیا ھے:
ابن ماجہ نے اپنی سند کے ساتھ جناب انس بن مالک سے نقل کیا ھے کہ انس کہتے ھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو یہ فرماتے هوئے سنا ھے:
”نحن ولد عبد المطلب سادة اھل الجنة انا وحمزہ وعلی وجعفر والحسن والحسین والمہدی“[33]
(ھم اولاد عبد المطلب اھل بہشت کے سردار ھیں: میں، جناب حمزہ حضرت علی جناب جعفر امام حسن وامام حسین او رامام مہدی (علیھم السلام)
جبکہ بعض احادیث کا بیان ھے کہ امام مہدی از آل محمد هوں گے:
”قال رسول اللّٰہ (ص) یخرج فی آخر الزمان رجل من ولدی اسمہ کاسمی وکنیتہ ککنیتی، یملاٴ ا لاٴرض عدلاً کما ملئت جوراً فذلک هو المہدی“ (وہذا حدیث مشهور )[34]
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا: میری اولاد میں سے ایک شخص ظاھر هوگا جس کا نام میرے نام پر جس کی کنیت میری کنیت پر هوگی اور وہ ظلم وجور سے بھری دینا کو عدل وانصاف سے بھر دیگا اور وہ مہدی هوگا ، )اور یہ حدیث مشهور ھے۔[35]
اور بعض کابیان ھے کہ مہدی میری عترت میں سے هونگے:
ابوداؤد نے اپنی سند کے ذریعہ جناب ام سلمہ سے روایت کی ھے کہ انھوں نے فرمایا:
”سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول المہدی من عترتی“[36]
(میں نے رسول اللہ سنا کہ مہدی میری عترت سے هوں گے)
بعض احادیث میں امام مہدی کو اھل بیت سے بتایا گیا ھے:
قال النبی (ص) لولم یبق من الدھر الا یوم لبعث اللّٰہ رجلا من اھل بیتی یملوٴھا عدلا کما ملئت جوراً[37]
(حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا کہ اگر (قیامت میں) ایک روز بھی باقی رہ جائے تو خداوندعالم میرے اھل بیت سے ایک شخص کو ظاھر کرے گا جو ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا)
جبکہ بعض روایات ،امام مہدی کو نسل علی علیہ السلام سے بتاتی ھیں:
سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”ان علیا وصیي، و من ولدہ القائم المنتظر المہدی الذی یملاٴ الارض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلماً“[38]
(بے شک علی میرے وصی ھیں اور ان ھی کی نسل سے قائم منتظر مہدی هوں گے جو ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے)
جبکہ بعض روایات میں اولاد فاطمہ سلام اللہ علیھا سے بتایا گیا ھے:
مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، بیہقی وغیرہ نے اس روایت کو نقل کیا ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”المہدی من عترتی من ولد فاطمة“ [39]
(مہدی میری عترت،جناب فاطمہ (ع) کی اولاد سے هوں گے)
اوربعض روایات میںآیا ھے کہ امام حسین کی اولاد میں سے هوں گے:
”قال رسول اللّٰہ (ص) لاتذھب الدنیا حتی یقوم بامتی رجل من ولد الحسین یملاٴ الارض عدلاً کما ملئت ظلما“[40]
(حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:جب تک حسین کی اولاد سے میری امت میںایک شخص ظهور نہ کرلے اس وقت تک قیامت نھیں آسکتی او روہ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا“)
بعض روایت میں آیا ھے کہ ذریت امام حسین علیہ السلام سے نھم هوں گے:
”عن سلمان الفارسی رضی اللّٰہ عنہ قال۔دخلت علی النبی (ص) فاذا الحسین علی فخذیہ هویقبل خدیہ ویلثم فاہ ویقول ۔انت سید ابن سید اخو سید وانت امام ابن امام اخو امام و انت حجة ابن حجة اخو حجة ابو حجج تسعہ، تاسعھم قائمھم المھدی[41]
(جناب فارسی راوی ھیں کہ جب میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی خدمت عالیہ میںمشرف هوا تودیکھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کی آغوش میں بیٹھے ھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآپ کے رخسار اور منھ کا بوسہ لے رھے ھیں اور کہہ رھے ھیں تم سید ، سید کے بیٹے اور سید کے بھائی هو۔ تم امام، امام کے بیٹے ، اور امام کے بھائی هو۔ تم حجت، حجت کے بیٹے ، حجت کے بھائی اور نو حجتوں کے باپ هو جن کا نواں مھدی هوگا)
بعض روایات میں بارہ اوصیا بارہ ائمہ ،بارہ خلیفہ بیان هوا ھے:
”۔۔۔ان وصیی علی بن ابی طالب وبعدہ سبطای الحسن والحسین تتلوہ تسعہ اٴئمہ من صلب الحسین، قال :یامحمد فسمھم لی، قال : اذا مضی الحسین فابنہ علی، فاذا مضی علی فابنہ محمد فاذا مضی محمد فابنہ جعفر، فاذا مضیٰ جعفر فابنہ موسی فاذامضی موسیٰ فابنہ علی فاذا مضی علی فابنہ محمد فاذا مضی محمد فابنہ علی فاذا مضی علی فابنہ الحسن فاذا مضی الحسن فابنہ الحجة محمد المہدی فھولاء اثنا عشر “[42]
(میرے وصی علی ابن ابی طالب ھیں ان کے بعد میرے دونوں نواسے حسن وحسین (ع)ھیں اور ان کے بعد حسین کی نسل سے ۹ /وصی هوں گے (سائل سے سوال کیا )یا رسول اللہ آپ ان کے بھی نام بیان فرمائیں ،تب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا :
جب امام حسین گذر جائیں گے تو ان کے فرزند علی (زین العابدین ) اور جب علی گذر جائیں گے تو ان کے فرزند محمد (باقر) اور جب محمد گذر جائیں گے تو ان کے فرزند جعفر (صادق)اور جب جعفر گذر جائیں گے تو ان کے فرزند موسیٰ (کاظم )اور جب موسی ٰگذر جائیں گے ان کے فرزند علی (رضا ) اور جب علی (رضا ) گذر جائیں گے تو ان کے فرزند محمد (تقی ) اور جب محمد گذر جائیں گے ان کے فرزند علی(نقی ) اور جب محمد گذر جائیں گے ان کے فرزند حسن (عسکری )اور جب حسن گذر جائیں گے تو ان کے فرزند حجت محمد مھدی (علیھم السلام) هوں گے بس یھی میرے وصی بارہ ھیں۔“)
یحيٰ بن الحسن نے کتاب عمدہ میں اس حدیث کے ۲۰/ طریقے نقل کئے ھیں کہ رسول اسلام کے بعد ۱۲ خلیفہ هوں گے جو سب کے سب قریش سے هوں گے اور مذکورہ بیس طریقے درج ذیل کتابوں میں اس طرح ھیں :
صیح بخاری میں۳/ طریقے۔
صیح مسلم میں ۹/طریقے ۔
سنن ابی داؤدمیں ۳/ طریقے۔
سنن ترمذی میں ایک طریقہ۔
اور حمیدی میں۳ /طریقے ۔
اور بعض روایات کے مطابق مھدی (ع)، حسن عسکری (ع)کے فرزند هوں گے ۔
مناقب میں جابر بن عبداللہ انصاری ، حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے روایت کرتے ھیں:
”۔۔۔فبعدہ ابنہ الحسن یدعی العسکری فبعدہ ابنہ محمد یدعی بالمہدی و القائم والحجة فیغیب ثم یخرج فاذا خرج یملاٴ الارض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما“[43]
(آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمایک حدیث کے ضمن میں فرمایا: ان کے بعد ان کے فرزند حسن عسکری ان کے بعد ان کے فرزند محمد مہدی والقائم والحجة ھیں پس وہ هونے کے بعد ظاھر هوں گے اور ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔)
قارئین کرام ! مذکورہ تمام احادیث کو جمع کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ اس امت کے مہدی امام حسن عسکری کے فرزند ھیں چنانچہ اس مسلم نتیجہ سے کوئی گریز نھیں کرسکتا ۔
اس حقیقت کو مزید واضح کرنے کے لئے ضروری ھے کہ ان اصحاب کے اسماء گرامی کو بیان کیا جائے جنھوں نے حضرت مہدی سے متعلق احادیث نقل کی ھے اور چونکہ ھر روایت کے تمام افراد کو اس مختصر کتاب میں بیان نھیں کیا جاسکتا ۔
(لہٰذا صرف راوی کو بیان کرتے ھیں )
۱) ابو اما مة الباھلی ۔
۲) ابو ایوب الانصاری ۔
۳)ابو سعید خدری
۵) ابوالطفیل۔
۶)ابو ھریرہ ۔
۷) ام حبیبہ ام المومنین ۔
۸) ام سلمہ ام المومنین ۔
۹) انس بن مالک ۔
۱۰) ثوبان (غلام رسول ) ۔
۱۱) جابر بن سمرة ۔
۱۲) جابر بن عبد اللہ انصاری ۔
۱۴) سلمان فارسی ۔
۱۵) شھربن حوشب ۔
۱۶)طلحہ بن عبیداللہ ۔
۱۷)عائشہ ام المومنین ۔
۱۸) عبد الرحمن بن عوف ۔
۱۹) عبد اللہ بن الحارث بن حمزہ ۔
۲۰) عبداللہ بن عباس ۔
۲۱) عبداللہ بن عمر ۔
۲۲) عبداللہ بن عمرو بن العاص۔
۲۳) عبداللہ بن مسعود ۔
۲۴) عثمان بن عفان ۔
۲۵) علی بن ابی طالب ۔
۲۶) علی الھلالی ۔
(۲۷) عمار بن یاسر ۔
۲۸) عمران بن حصین۔
۲۹) عوف بن مالک ۔
۳۰) قرة بن ایاس ۔
۳۱) مجمع بن جاریة الانصاری [44]
قارئین کرام ! شیخ عبد المحسن صاحب نے امام مہدی (ع)کے سلسلے میں احادیث بیان کرنے والے مشهور و معروف حفاظ کی تعداد ۳۸ بتائی ھے ، چنانچہ ھم یھاں پر ان افراد کی فھرست بیان کرتے ھیں :
۱ ۔ابو داؤد نے اپنی کتاب سنن میں ۔
۲۔ ترمذی نے اپنی کتاب جامع میں ۔
۳۔ ابن ماجہ نے اپنی کتاب سنن میں ۔
۴۔ نسائی نے اپنی کتاب کبری میں ۔
۵۔ احمد نے اپنی کتاب مسند میں ۔
۶۔ ابن حبان نے اپنی کتاب صحیح میں ۔
۷۔ حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں۔
۸۔ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی کتاب المصنف میں ۔
۹۔ نعیم بن حماد نے اپنی کتاب الفتن میں ۔
۱۰۔ ابو نعیم نے اپنی کتاب المھدی والحلیة میں ۔
۱۱۔ طبرانی نے اپنی کتاب کبیر، اوسط اور صغیر میں۔
۱۲۔ دار قطنی نے اپنی کتاب الافراد میں ۔
۱۳۔ بارودی نے اپنی کتاب معرفة الصحابہ میں ۔
۱۴۔ ابو یعلی الموصلی نے اپنی کتاب مسند میں۔
۱۵۔ بزار نے اپنی کتاب مسند میں ۔
۱۶۔ الحارث بن ابی اسامہ نے اپنی کتاب مسند میں ۔
۱۷۔ الخطیب نے اپنی کتاب تلخیص المتشابہ ، المتفق اور مفترق میں۔
۱۸۔ ابن عساکر نے اپنی کتاب تاریخ میں۔
۱۹۔ ابن مندہ نے اپنی کتاب تاریخ اصفھان میں۔
۲۰۔ ابو الحسن حربی نے اپنی کتاب الاول من الحربیات میں۔
۲۱۔ تمام الرازی نے اپنی کتاب فوائد میں ۔
۲۲۔ ابن جریر نے اپنی کتاب تہذیب الآثار میں ۔
۲۳۔ ابو بکر بن المقری نے اپنی کتاب معجم میں ۔
۲۴۔ ابو عمر والدانی نے اپنی کتاب السنن میں۔
۲۵۔ ابو غنم الکوفی نے اپنی کتاب الفتن میں۔
۲۶۔ الدیلمی نے اپنی کتاب مسند الفردوس میں۔
۲۷۔ ابو بکر الاسکاف نے اپنی کتاب فوائد الاخبار میں ۔
۲۸۔ ابو الحسین بن المناوی نے اپنی کتاب الملاحم میں ۔
۲۹۔بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوة میں ۔
۳۰۔ ابوعمرا ور المقری نے اپنی کتاب سنن میں ۔
۳۱۔ ابن الجوزی نے اپنی کتاب تاریخ میں ۔
۳۲۔ یحی الحمانی نے اپنی کتاب مسند میں ۔
۳۳۔رویانی نے اپنی کتاب مسند میں۔
۳۴۔ ابن سعد نے اپنی کتاب الطبقات میں۔
قارئین کرام ! یہ تھی ان مولفین اور کتابوں کی فھرست جن میں حضرت امام مھدی کے سلسلہ میں احادیث بیان کی گئی ھیں۔
حضرت امام مھدی علیہ السلام کی ولادت باسعادت
آپ کی ولادت با سعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ھ کو فجر کے وقت شھرسامراء میں هوئی [45]
آپ کے والد گرامی نے آپ کا نام محمد رکھا اور یھی نام رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی اس مشهور حدیث کا مصداق تھا جس میں آپ نے فرمایا تھا” یواطی اسمہ اسمی “[46]
(اس کا نام میرے نام پر هوگا ) اور آپ ھی کے والد گرامی نے آپ کی کنیت (ابوالقاسم ) رکھی [47]
یہ وہ حقیقت ھے جس پر شیعہ امامیہ اور دیگر اسلامی فرقے متفق ھیں لیکن بعض مسلمانوں نے (حالانکہ مھدویت کا اقرار کیا ھے ) حضرت مھدی کا اس وجہ سے انکار کیا چونکہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے کوئی فرزند نھیں تھا اور اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے چار دلیلیں بیان کی ھیں جن کو یھاں پر مختصر طور پر بیان کیا جاتا ھے :
۱۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنی والدہ ام الحسن کے لئے تمام مال وقف اور دیگر امور کے بارے میں وصیت کی اور اگر امام حسن عسکری (ع)کے کوئی فرزند هوتا تو ان کو وصیت کرنا چاہئیے تھی۔
۲۔ حضرت امام مھدی کے چچا جعفر بن علی نے اس بات کی گواھی دی ھے کہ ان کے بھائی ( امام حسن عسکری علیہ السلام ) کے کوئی فرزند نھیںتھا اور ایسے مسائل میں چچا کی گواھی خاص اھمیت رکھتی ھے ۔
۳۔ شیعہ حضرات جیسا کہ دعویٰ کرتے ھیں کہ امام عسکری علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو غیر خواص سے چھپایا ( یعنی صرف خاص لوگوں ھی کو معلوم تھا) تو آپ نے ایسا کیوں کیا؟جب کہ اس زمانہ میں آپ کے اصحاب بہت زیادہ تھے اور ھر طرح کی طاقت و توانائی رکھتے تھے جب کہ گذشتہ ائمہ علیھم السلام جو اموی وعباسی حکام کے زمانے میں زندگی کرتے تھے اور اس وقت کے
حالات زیادہ خراب تھے ،لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس طرح اپنی اولاد کو نھیں چھپایا ۔
۴۔ تاریخ میں ایسا کوئی ذکر نھیں ھے جس میں امام حسن عسکری علیہ السلام کا کوئی فرزند هو اور نہ ھی کسی نے اس طرح کی روایت کی ھے ۔
انھیں چار دلیلوں کے ذریعہ امام مھدی بن الحسن عسکری کی ولادت کا انکار کرتے ھیں ۔
قارئین کرام ! ھم ان چار دلیلوں کے جواب مختصر طور پر بیان کرتے ھیں تاکہ حق و حقیقت واضح هوجائے ۔
پھلی دلیل کا جواب :
امام علیہ السلام کا اپنی والدہ گرامی کو وصیت کرنا دلیل نھیں هوسکتا کہ امام کے کوئی فرزند نہ هو، امام علیہ السلام اس وصیت کے ذریعہ دشمنوں کی نظروں کو امام مھدی کی طرف سے ہٹا نا چاہتے تھے اور دشمن کو شک و شبہ میں ڈالنا چاہتے تھے کہ ان کے کوئی اولاد ھے یا نھیں؟ اور آپ نے عمداً اس طرح کا شک ایجاد کیا تاکہ حکومت وقت اس وصیت کو دیکھ کر مزید شک و شبہ میں پڑ جائے ۔[48]
امام حسن عسکری علیہ السلام نے گویا اپنے جد امام جعفر صادق علیہ السلام کی روش پر عمل کیا کیونکہ امام صادق علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت درج ذیل پانچ افراد کے لئے وصیت کی:
۱۔منصورعباسی۔
۳ و ۴ ۔ قاضی مدینہ اور اس کے ساتھ ان کی زوجہ حمیدہ ۔
۵۔ اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) ۔
کیونکہ امام صادق علیہ السلام اپنے اس کام سے دشمنوں کی نظروں کو اپنے فرزند موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ہٹانا چاہتے تھے۔[49]
اور اگر صرف امام موسی کاظم علیہ السلام ھی کو وصیت فرماتے تو پھر بنی عباس کا رویہ کچھ اور ھی هوتا چنانچہ جب منصور عباسی کو امام صادق علیہ السلام کی وفات کی خبرپهونچی تو مدینہ میں اپنے والی کو خط بھیجا اور لکھا جو شخص بھی امام علیہ السلام کا وصی هو اس پر زندگی تنگ کردی جائے ،چنانچہ والی مدینہ نے اپنی تحقیق کے بعد منصور کو خط لکھا کہ امام (علیہ السلام ) کے پانچ وصی ھیں ، جن میں سب سے پھلے اور مھم خود جناب خلیفہ ھیں، لہٰذا امام علیہ السلام نے اپنی اس سیاست کے تحت اپنے فرزند موسی کاظم علیہ السلام کو آزار و اذیت سے بچالیا۔
دوسری دلیل کا جواب :
جعفر بن علی ( امام حسن عسکری کے بھائی ) ایک عام انسان تھے اور ان سے بھی خطاو نسیان اور باطل دعوی کا امکان ھے ، اور وہ گویا قابیل کے مشابہ تھے جس نے اپنے بھا ئی ھابیل کو قتل کرڈالا، یا جناب یعقوب علیہ السلام کے لڑکوں کی طرح جنھوں نے اپنے بھائی (جناب یوسف ) کو کنویں میں ڈال دیا اور جھوٹی قسمیں کھانے لگے کہ ان کو بھیڑیا کھا گیا ۔
جعفر کا خیال یہ تھا چونکہ میرے بھائی کے کوئی اولاد نھیں ھے لہٰذا اگر وہ ان کا انکار کریں گے تو وہ امام هوجائیں گے اور ان کے پاس بیت المال اکٹھا هوجائے گا لیکن خدا وند عالم کا ارادہ ھر چیز پر غالب هوتا ھے، جو وہ چاہتا ھے وھی هوتاھے۔
چنانچہ ایک مدت بعد (جعفر) اپنے کئے پر شرمندہ هوے اور توبہ کی یھاں تک کہ جعفر تواب کے نام سے مشهور هوئے ۔
قارئین کرام ! چچا کا بھتیجہ کے مقابلہ میں آجانا کوئی عجیب چیز نھیں ھے کیونکہ ابو لھب و عباس دونوں اپنے بھتیجے(حضرت) محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے مقابلہ میں آگئے اور ان کی نبوت کا انکار کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی طرف سحر وجنون کی نسبت دی، آپ سے مقابلہ کے لئے لشکر آمادہ کیا اور آپ کی دشمنی میں مختلف کا رنامے انجام دیئے۔
(۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے )