وصی کے لقب سے حضرت علی کی شہرت
وصی نبی(ص) کے لقب سے حضرت علی(ع) کی شہرت
صحابہ و تابعین کے اشعار اور کتب لغت میں اس کا تذکرہ
اسلا م کے ابتدائی دور سے حضرت علی وصی کے لقب سے مشہور تھے۔ یہ شہرت لغت کی کتابوں میں بھی پائی گئی ہے۔”تاج العروس“ میں لفظ وصی کے بارے میں مرقوم ہے:
و الوصی کغنی لقب علی رضی الله عنہ۔
یعنی وصی جو غنی کا ہم وزن لفظ ہے، حضرت علی(ع)کا لقب ہے۔
”لسان العرب “میں مذکور ہے۔”علی(ع) کو ولی کہاجاتاتھا“اور ”کامل“میں مبرد کا قول جلد ہی نقل ہوگا۔
صحابہکے دور سے ہی شعراء کے کلام میں اس کا تذکرہ شروع ہوا مثال کے طور پر شاعر رسول(ص) حضرت حسانبن ثابت کے قصیدے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعدانہوں نے کہا اس کا تذکرہ موجود ہے۔
جزی اللہ عنا والجزاء بکفہ
ابا حسن عنا ومن کابی حسن
اللہ ہماری طرف سے ابوالحسن اور ابولحسن جیسے لوگوں کو جزائے خیر دے کیونکہ جزاء دینا خدا کے ہاتھ میں ہے۔
حفظت رسول اللہ فینا وعھدہ
الیک ومن اولی بہ منک من ومن
آپ نے ہمارے درمیان رسول اللہ(ص) کی حفاظت کی۔ رسول(ص) کی وصیت آپ کے نام ہے اور اس کا آپ سے زیادہ سزاوار کون ہوسکتاہے؟
الست اخاہ فی الھدی ووصیہ
واعلم منھم بالکتاب والسنن1
کیاآپ رسول(ص) کے برادر ایمانی اور وصی نہیں ؟کیا آپ سارے لوگوں سے زیادہ کتاب وسنت کے عالم نہیں ؟
عبداللہ بن عباس کی تعریف میں قریش کے ایک شاعر کا یہ کلام نقل کیاہے:
والله ما کلم الاقوام من بشر
بعد الوصی علی کابن عباس
اللہ کی قسم وصی رسول(ص) علی(ع)کے بعد کسی انسان نے ابن عباسجیسی گفتگو نہیں کی۔ 2
جب ولید بن عقبہ بن ابی معیط نے قتل عثمان کے بارے میں یہ کہاتھا:
الا ان خیر الناس بعد ثلاثة
قتیل التجیبی الذی جاء من مصر
آگاہ رہو کہ تین شخصیات کے بعد سب سے بہترین انسان مصر سے آنے والے تجیبی کے ہاتھوں قتل ہونے والا آدمی ہے۔
فضل ابن عباسنے اس کے جواب میں کچھ اشعار کہے تھے۔ ان میں سے دو شعر یہ ہیں :
الا ان خیر الناس بعد محمد
وصی النبی المصطفیٰ عند ذی الذکر
آگاہ رہوکہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہترین انسان وہ ہے جو قرآن کے مطابق مصطفی(ص) کا وصی ہے۔
واول من صلی وصنو نبیہ
واول من اردی الغواة لدی بدر
وہ سب سے پہلے نماز پڑھنے والا نبی(ص) کا بھائی ہے۔ اس نے سب سے پہلے بدر میں کافروں کو قتل کیا۔ 3
انصار میں سے ایک شاعر نعمان بن عجلان نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعداپنے قصیدے میں کہا ہے:
وکان ھو انا فی علی وانہ
وصی النبی المصطفیٰ وابن عمہ
لاھل لھا یاعمرومن حیث لاتدری
وقاتل فرسان الضلالة والکفر
حضرت علی(ع) اس (امارت )کے اہل ہیں اگرچہ تم نہیں جانتے۔ وہ محمد(ص) کا وصی اور ابن عم ہیں۔وہ کفر وضلالت کے شہسواروں کا قاتل ہے۔
نعمان نے یہ اشعار عمرو بن عاص کے جواب میں تب کہے تھے جب اس نے سقیفہ کے
واقعات میں انصار کو غصہ دلایا تھا اور حضرت علی(ع) نے مہاجرین کے مقابلے میں انصار کی حمایت کی تھی۔ 4 صدر اسلام کے جن اشعار میں حضرت علی(ع) کے وصی رسول(ص) ہونے کا تذکرہ ملتاہے ان میں سے ایک عبداللہ بن ا بو سفیان بن عبدالمطلب کایہ کلام ہے۔
ومنا علی ذاک صاحب خیبر
وصی النبی المصطفیٰ وابن عمہ
وصاحب بدر یوم سالت کتائبہ
فمن ذایدانیہ ومن ذایقاربہ؟
فاتح خیبر علی(ع) ہم میں سے ہے وہ فاتح بدر ہے۔جس دن ان کے لشکر کے دستے ہرطرف سے سیلاب کی طرح آگئے۔وہ نبی مصطفی کا وصی اور چچا زاد بھائی ہے۔ پس کون ہے جو اس کی برابری کرے اور کون ہے جو اس کے مقام کو پہنچے؟
عبدالرحمن بن جعیل کہتے ہیں :
لعمری لقد بایعتم ذا حفیظة
علیاً وصی المصطفیٰ وابن عمہ
علی الدین معروف العفاف موفقا
واول من صلی اخا الدین والتقی
تم نے ایسے شخص کی بیعت کی ہے جو دین کا محافظ ہے۔پاکدامنی میں معروف اور تائید الہٰی کاحامل ہے۔تم نے اس علی(ع) کی بیعت کی ہے جو مصطفی (ص)کا وصی اور ابن عم ہے۔جو سب سے پہلا نمازی اور دینی وایمانی بھائی ہے۔ 5
جنگ جمل میں کہے گئے اشعار میں وصایت کا تذکرہ
حضرت ابو الہیثم بن تیہان جو بدری صحابہمیں سے تھے نے کہاہے:
قل للزبیر وقل لطلحہ اننا
نحن الذین رأت قریش فعلنا
کنا شعار نبینا ود ثارہ
ان الوصی امامنا وولینا
نحن الذین شعارنا الانصار
یوم القلیب اولٰئک الکفار
یفدیہ منا الروح والابصار
برح الخفاء وباحت الاسرار
طلحہ وزبیر سے کہو کہ ہم انصاری ہیں اور یہ ہماری امتیازی علامت ہے۔ کفار قریش نے جنگ بدرمیں ہماری کارکردگی کا مشاہدہ کیا ہے
ہم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اندرونی اور بیرونی لباس کی مانند تھے۔ ہم آپ پر اپنی جانیں اور آنکھیں نچھاور کرتے تھے۔وصی رسول(ص) ہمارے امام اور ولی ہیں۔پوشیدہ باتیں ظاہر ہوگئی ہیں اور اسرار سے پردہ ہٹ گیاہے۔
حضرت عمرو بن حارثہ انصارینے جنگ جمل میں جناب محمد حنفیہکے بارے میں کچھ اشعار کہے تھے۔ ایک شعریہ ہے:
سمی النبی وشبہ الوصی
ورأیتہ لونھا العندم
وہ نبی کا ہم نام اور وصی کا ہم شکل ہے۔اس کے پرچم کا رنگ ارغوانی تھا۔
ایک ازدی نے جنگ جمل میں کہا:
ھذا علی وھو الوصی
وقال ھذا بعدی الولی
اخاہ یوم النجوة النبی
وعاہ واع ونسی الشقی
یہ علی (ع) ہے اور یہی (نبی(ص)کا) وصی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم النجوہ میں اسے اپنا بھائی بنایا اور کہا:یہ میرے بعد ولی ہے۔ عقل مند نے اسے یاد رکھا اور شقی نے اسے بھلا دیا ہے۔
جنگ جمل کے دن حضرت عائشہ کے لشکر سے بنی ضبہ کا ایک پرچم دار جوان نکلا جو جنگی نشانوں سے مزین تھااور کہنے لگا :
نحن بنو ضبہ اعداء علی
وفارس الخیل علی عھد النبی
لکننی ان غی ابن عفان التقی
ذاک الذی یعرف قدماًبالوصی
ماانا عن فضل علی بالعمی
ان الولی طالب ثار الولی
ہم بنی ضبہ علی(ع) کے دشمن ہیں۔ وہی علی(ع) جو قدیم الایام سے وصی کے نام سے معروف ہے۔ وہ رسول(ص) کے دور کا شہسوار ہے۔ میں ان کے فضائل سے جاہل نہیں ہوں، لیکن میں عثمان بن عفان (جو متقی انسان تھے) کے خون کا انتقام لینا چاہتاہوں۔ کیونکہ دوست ہی دوست کے انتقام کا طالب ہوتاہے۔ 6
سعید بن قیسہمدانی نے جو حضرت علی(ع)کے لشکر میں شامل تھا جنگ جمل کے دن کہا:
قل للوصی اقبلت قحطانھا
فادع بھا تکفیکھا ھمدانھا
وصی سے کہو کہ قحطانی آگئے۔ انہیں بلائیے کہ قبیلہ ہمدان والے آپ کی طرف سے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
حجر بن عدی کندینے بھی اس دن کہا۔
یاربنا سلم لنا علیا
المومن الموحد التقیا
بل ھادیاً موفقا مھدیا
فیہ فقد کان لہ ولیا
سلم لنا المبارک المرضیاً
لاخطل الرای ولا عویاً
واحفظہ ربی واحفظ النبیا
ثم ارتضاہ بعدہ وصیا
اے پروردگار !علی(ع) کو ہمارے لیے محفوظ رکھ۔ اس مبارک اور پسندیدہ ہستی کو محفوظ رکھ جو مومن، موحد اور متقی ہے۔جو نہ غلط فیصلہ کرتاہے اور نہ گمراہ ہے بلکہ وہ کامیاب، ہدایت پانے والا ہدایت یافتہ ہے۔اے رب اس کی حفاظت کر اور اس کی شکل میں نبی(ص)کی حفاظت کر کیونکہ وہ ان کا حامی و ناصر تھا پھر نبی(ص) نے ان کو اپنے بعد وصی بنایاتھا۔
خزیمہبن ثابت ذوالشہادتیں (جو اصحاب بدر میں سے ہیں )نے جنگ جمل کے دن کہا:
یا وصی النبی قد اجلت الحرب
واستقامت لک الامور سوی الشام
حسبھم ماراوا وحسبک منا
الاعادی و سارت لاظعان
وفی الشام یظھر الاذعان
ھکذا نحن حیث کنا وکانوا
اے وصی رسول(ص)!جنگ نے دشمنوں کے چھکے چھڑا دیے ہیں اور ہودج نشینوں کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں۔ آپ کے سارے امور سنور گئے ہیں سوائے شام کے اور شام میں شکست تسلیم کرنے کے آثار ظاہر ہیں ان کے لیے وہی کافی ہے جو وہ دیکھ چکے ہیں اور آپ کے لیے یہی کافی ہے ہم پہلے کی طرح ان کے مقابلے میں ثابت قدم ہیں۔ حضرت خزیمہنے جمل میں حضرت عائشہسے مخاطب ہوکر کہا:
وصی رسول الله من دون اھلہ
وانت علی ماکان من ذاک شاھد
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل سے آپ کے وصی ہیں اور آپ اس بات کی گواہ ہیں۔
جنگ جمل کے دن پہلے زبیر نے اور اس کے بعد اما م حسن نے گفتگو کی۔ عمرابن احیحہ نے اس بارے میں کہا۔
حسن الخیر یاشبیہ ابیہ
لست کابن الزبیر لجلج فی القول
وابیٰ اللہ ان یقوم بما قام
ان شخصاً بین النبی لک الخیر
قمت فینا مقام خیر خطیب
وطاطا عنان فسل مریب
بہ ابن الوصی وابن النجیب
وبین الوصی غیر مشوب
اے بہترین انسان حسن !اے وہ جو اپنے باپ کی تصویر ہے!آپ نے ہمارے درمیان بہترین خطاب کیاہے۔ابن زبیر کے برخلاف گفتگو کے وقت نہ آپ کی زبان لڑکھڑائی ہے نہ آپ عنان کلام کو ڈھیلی چھوڑتے ہیں اور نہ آپ اس کی طرح پست فطرت اور مشکوک ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں کہ وہ (ابن زبیر)صاحب نجات وصی کے بیٹے کا مقابلہ کرسکے۔خدا آپ کا بھلا کرے آپ نبی اور وصی کے مابین ایک خالص انسان ہیں۔
جنگ صفین میں کہے گئے اشعار میں وصی کا ذکر
جب حضرت علی(ع) نے جریر بن عبداللہ بجلی اور اشعت بن قیس کندی کو خط لکھا۔ یہ دونوں ایرانی علاقوں میں حضرت عثمانکے والی تھے۔ جریر نے امام کے خط کا منظوم جواب دیا جس کے دوبیت یہ ہیں :
اتانا کتاب علی فلم
علیاً عنیت وصی النبی
نرد الکتاب بارض العجم
نجالد عنہ غواة الامم
ہمارے پاس سرزمین عجم (ایران )میں علی کا خط پہنچا جسے ہم نے واپس نہیں کیا۔ علی سے میری مراد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی(علی(ع)) ہیں۔ہم اس کی طرف سے گمراہ قوموں پر تلوار کے پے در پے وار کریں گے۔
اشعث نے امام(ع) کے خط کے جواب میں یہ لکھا:
اتانا الرسول رسول علی
فسر بمقدمہ المسلمونا
علی(ع)کا پیام بر ہمارے پاس آیا۔اس کی آمد سے مسلمانوں کو خوشی حاصل ہوئی۔
رسول الوصی وصی النبی
وزیر النبی وذوصھرہ
لہ الفضل والسبق فی المومنینا
وسیف المنیة فی الظالمینا
یہ نبی(ص) کے وصی کا پیغام رساں ہے۔ جسے مومنین پر فضیلت اور سبقت حاصل ہے۔ وہ نبی (ص) کا وزیر اور داماد ہے۔ وہ ظالموں کے لیے موت کی تلوار ہے۔
اس نے یہ اشعار بھی کہے :
اتانا الرسول رسول الوصی
رسول الوصی النبی
وزیر النبی وذو صھرہ
علی المھذب من ھادشم
وخیر البریہ من قائم
وخیر البریہ فی العالم
ہمارے پاس وصی رسول کا پیغام رساں آیا۔یعنی بنی ہاشم کے مہذب انسان علی کا پیام رسان۔یہ رسول(ص) کے وصی اور تمام انسانوں سے بہتر امام کا پیغام رساں ہے۔علی(ع) نبی(ص)کے وزیر اور داماد ہیں اور پورے عالم میں تمام انسانوں سے بہتر امام ہیں۔ 7
دیگر بہت سے شعراء کے وہ اشعار جن میں لفظ ”وصی“ حضرت علی(ع) کے لئے بکثرت استعمال ہوا ہے دیکھنے کیلئے ملاحظہ فرمائیں۔ وقعة الصفین صفحہ ۴۳، ۱۳۷، ۳۲۵، ۳۸۱، ۳۸۲، ۴۱۶، ۴۳۶۔
مامون رشیدکے اشعار میں وصی کا بیان
مامون نے سیاسی مصلحتوں کی خاطر علویوں کو قریب کرنے کی پالیسی اپنائی۔اس پالیسی کے تحت اس نے حضرت علی الرضا(ع) کو ولی عہد بنایا اور اپنے اشعار میں وصایت کا ذکرکیا۔ جیسا کہ مامون کہتاہے:
الام علی حبی الوصی اباالحسن
وذالک من اعاجیب الزمن
(رسول(ص)کے) وصی ابوالحسن سے محبت رکھنے پر میری ملامت کی جاتی ہے اور یہ زمانے کی عجیب باتوں میں سے ایک ہے۔
نیز مامون نے یہ شعر بھی کہاہے:
ومن غاو یغص علی غیظاً
اذا ادنیت اولاد الوصی
جب میں وصی کی اولاد کو اپنے قریب لاتاہوں تو بعض گمراہ لوگ غصے میں میرا ناک میں دم کردیتے ہیں۔ 8
وصی کے نام سےامام علی (ع) کی صدیوں پر محیط شہرت
علوم عربیہ کے ادیب ابو العباس محمد بن یزد بصری المعروب مبرد نے الکامل فی اللغة میں کہاہے کہ مشہور شاعر مستہل بن زید اسدی کمیت کہتاہے:
والوصی الذی امال التجوبی
بہ عرش امة لانہدام
وصی وہ ہے جسے قتل کرکے تجوبی(ابن ملجم مرادی)نے امت کی امیدوں کے تخت کو سرنگوں کردیا۔
اس کے بعد مبرد کہتاہے :شاعر نے وصی کا جو لفظ استعمال کیاہے وہ لوگوں کے درمیان کثیرالاستعمال ہے۔
مبرد نے اپنے اس دعوے کی تائید میں کہ امام علی ”وصی“کے لقب سے معروف تھے ابو الاسود دوئلیکا یہ شعر پیش کیاہے جس میں حضرت حمزہاورحضرت عباسکے ناموں کے بعد لفظ ”وصی“استعمال ہوا ہے جب کہ ان کے ناموں کے ساتھ ”ال“استعمال نہیں ہوا۔
احب محمداً حباً شدیداً
وعباساً وحمزة والوصیا
مجھے محمد(ص)سے شدید محبت ہے۔اسی طرح عباس، حمزہ اور وصی سے بھی۔
اس کے علاوہ مبرد نے اپنے قول کی تائید میں حمیری کایہ شعر بھی نقل کیاہے:
انی ادین بما دان الوصی بہ
یوم النخیلة من قتال المحلینا
بتحقیق میں اس دین کا معتقد ہوں جس پر اعتماد رکھتے ہوئے نخیلہ کے دن وصی نے مخالفین سے جنگ کی تھی۔
نیز حمیری کا یہ قول بھی پیش کیاہے:
و الله من علیھم بمحمد
ثم انبروا لوصیہ وولیہ
وھداھم وکسا الجنوب واطعما
بالمنکرات فجر عوہ العلقما
اور اللہ تعالیٰ نے ان پر محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے احسان کیا اور ان کی ہدایت کی اور انہیں کھانے پینے کی نعمات سے نوازا پھر وہ ان کے وصی اور ولی کے ساتھ برے طریقے سے پیش آئے اور انہوں نے اسے زہر پلایا۔9
ان حوالوں کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلاکہ امام علی(ع) کا وصی رسول(ص) ہونا معروف تھا یہاں تک کہ وصی کا لفظ آپ(ع)کا لقب بن گیا جس طرح آپ اپنی کنیت”ابوتراب“کے ذریعے بھی مشہورتھے۔
حوالہ جات
1الاخبار الموفقیات صفحہ ۵۷۴ طبع بغداد ۱۹۷۲ء
2الاخبار الموفیقات صفحہ ۵۷۵، شرح ابن ابی الحدید ج۲ صفحہ ۲۶۲ طبع مصر۔
3 تاریخ طبری ج۱ صفحہ ۳۰۶۴، تاریخ کامل ج۳ صفحہ ۱۵۶
4 الاخبار الموفقیات صفحہ ۵۹۲، شرح ابن ابی الحدید ج۶ صفحہ۳۱
5 شرح ابن ابی الحدید ج۱ صفحہ ۴۷، فتوح ابن اعثم ج۶ صفحہ ۲۷۷ طبع حیدر آباد دکن ۱۲۸۸ھ
6 فتوح ابن اعثم ج۲ صفحہ ۳۰۷، ۳۲۱
7 وقعة الصفین صفحہ ۲۰، ۲۴
8 شرح ابن ابی الحدید ج۲ صفحہ ۲۲، المحاس و المساوی بیہقی ج۱ صفحہ۱۰۵۔
9 الکامل فی اللغة للمبرد ج۲ صفحہ ۱۵۲،۱۷۵