علم و ایمان کا باہمی رابطہ

207

علم و ایمان کا باہمی رابطہ

ہم انسان کی انسانیت اور حیوانیت کے باہم رابطہ کو جان چکے ہیں یا دوسرے الفاظ میں انسان کی ثقافتی تمدنی اور معنوی زندگی کے ساتھ اس کی مادی زندگی کے رابطے کو بیان کر چکے ہیں۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی انسانیت اصالت و استقلال رکھتی ہے یہ فقط اس کی حیوانی زندگی کا پر تو نہیں ہے۔ نیز یہ بھی واضح ہوا کہ علم وایمان انسان کی انسانیت کے بنیادی ارکان میں سے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دو ارکان یا انسانیت کے ان دورخوں کا آپس میں کیا رابطہ ہے یا آئندہ کیا رابطہ ہو سکتا ہے؟

یہ بات قابل افسوس ہے کہ عیسائیوں کے ہاں عہد عتیق ( تورات) کے بعض تحریفی حصوں کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ایک فکر راسخ ہو چکی ہے جو علم و ایمان دونوں کو مہنگی پڑی ہے اور وہ فکر یہ ہے کہ علم و ایمان باہم متضاد ہیں۔ اس فکر کی اصل بنیاد وہی سوچ ہے۔ جو "عہد عتیق" کے "سفر پیدائش" میں ملتی ہے۔ سفر پیدائش باب دوم آیت ۱۶ میں آدم بہشت اور شجرہ ممنوعہ کے بارے میں یوں ملتا ہے۔

خدا نے آدم کو حکم فرمایا "باغ کے تمام درختوں سے بلا روک ٹوک کھاؤ لیکن معرفت نیک و بد کے درخت سے ہر گز نہ کھانا جس دن تم نے اس سے کھایا یقینا موت کے منہ میں چلے جاؤ گے۔"
باب سوم آیت نمبر ایک سے لے کر آٹھ میں ارشاد ہے:

"خدا کے بنائے ہوئے صحرائی جانوروں میں سب سے زیادہ ہوشیار سانپ تھا اس نے خاتون (حوا) سے کہا: کیا خدا نے واقعاً کہا ہے کہ باغ کے تمام درختوں سے نہ کھانا؟ خاتون نے سانپ سے کہاکہ باغ میں موجود درختوں کے پھل تو ہم کھاتے ہیں لیکن باغ کے درمیان میں موجود جو درخت ہے اس کے بارے میں خدا نے کہا ہے کہ اس کا پھل نہ کھانا اور نہ ہی اسے چھونا مبادا ! موت کے منہ میں جا پڑو۔ سانپ نے خاتون سے کہا تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا کو پتہ ہے کہ جس دن تم نے اس درخت سے کچھ کھالیا تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی طرح نیک و بد سے آگاہ ہو جاؤ گے۔ اب جب خاتون نے دیکھا کہ اس درخت سے کھانا بہتر ہے تو اس کی نظروں میں یہ بھلا دکھائی دینے لگا اسے دل پذیر و علم افزا سمجھ کر اس کا پھل کھا لیا اور اپنے شوہر کو بھی دیا تو اس نے بھی کھالیا اب ان دونوں کی آنکھیں کھل گئیں تو وہ سمجھ گئے کہ وہ عریاں ہیں لہذا انجیر کے پتے جوڑ کر دونوں نے اپنی شرم گاہ ڈھانپی۔"
اسی باب کی آیت ۲۳ ملاحظہ فرمائیں:

"خدا وند نے کہا ! اب تو انسان بھی ہم جیسا ہو گیا ہے کیوں کہ عارف نیک و بد ہو گیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مزید دست درازی کرے اور درخت حیات سے بھی کھالے اور پھرتا ابد زندہ رہے۔"

انسان خدا عرفان اورگناہ کی جو شناخت یہاں کی گئی ہے اس سے تو یوں لگتا ہے کہ خدا (دین) کا حکم یہ ہے کہ انسان نیک و بد کی پہچان حاصل نہ کرے آگاہی و معرفت کے قریب نہ پھٹکے۔ آگاہی کو شجرہ ممنوعہ قرار دیا گیا ہے انسان گناہ کا ارتکاب اور خدا کے حکم سے روگردانی کر کے (شریعت اور پیامبروں کی تعلیمات سے منہ موڑ کر ) معرفت و آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔ اسی بناء پر اسے بہشت سے نکال باہر کیا گیا ہے۔ اس نظریے کے مطابق تمام وسوسوں کا سرچشمہ آگاہی ہے لہذا وسوسے کرنے والا شیطان در حقیقت عقل ہی ہے۔

ہم مسلمانوں نے قرآن سے یہ سیکھا ہے کہ خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اسماء (حقائق) بتا دئیے اور پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ شیطان اس لئے راندہ درگاہ ہوا کہ اس نے حقائق سے آگاہ خلیفة اللہ کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اسی طرح سنت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ شجرہ ممنوعہ حرص و طمع جیسی تھیں یعنی ایسی جو آدم کی حیوانیت سے متعلق تھیں یہ چیزیں اس کی انسانیت سے مربوط نہ تھیں۔ وسوسے ڈالنے والا شیطان ہمیشہ عقل کے خلاف اور حیوانی ہوائے نفس کے مطابق وسوسے ڈالتا ہے۔ انسانی وجود میں مظہر شیطان عقل نہیں نفس امارہ ہے۔ بنا برایں قرآن و سنت کی ان تعلیمات کے پیش نظر "سفر پیدائش کے مطالب ہمارے لئے انتہائی تعجب خیز ہیں۔

اسی فکر نے یورپی تمدن کی تاریخ کو گذشتہ پندرہ صدیوں میں ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ایک دور کو ایمان سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسرے دور کو علم کا زمانہ کہتے ہیں۔ اس فکر نے علم و ایمان کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے ۔ جبکہ اسلامی تمدن کی تاریخ ان ادوار میں تقسیم ہوتی ہے ایک عروج کا زمانہ جو علم و ایمان کا زمانہ ہے۔ دوسرا زوال کا زمانہ کہ جس میں علم و ایمان دونوں انحطاط و پستی کا شکار ہیں۔ ہم مسلمانوں کو ان کی اس غلط فکر سے دور رہنا چاہئے جس کی وجہ سے علم ایمان اور انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہمیں آنکھیں بند کر کے خوا ہ مخواہ علم وایمان کو باہم متضاد نہیں سمجھنا چاہئے۔

اب ہم ایک تحقیقی انداز سے مسئلہ کو پیش کرتے ہیں اور اس پر یہ عالمانہ بحث کرتے ہیں کہ آیا انسانیت کی یہ دو بنیادیں واقعاً دو جدازمانوں سے تعلق رکھتی ہیں؟ کیا انسان مجبور ہے کہ ہمیشہ آدھا انسان رہے اور ہر دور میں صرف آدھی انسانیت رکھتا ہو؟کیا انسان مجبور ہے کہ ہمیشہ ان دو بد بختوں میں سے کسی ایک کا شکار رہے؟ ایک جہل و نادانی سے پیدا ہونے والی بدبختیاں اور دوسری ایمان کے فقدان سے پیدا ہونے والی بدبختیاں۔

یہ بات بعد میں واضح ہو گی کہ ہر ایمان کی بنیاد بہر حال کائنات کے بارے میں ایک خاص فکر و نظر پر قائم ہوتی ہے اور بلا شبہ کائنات کے بارے میں ایسے متعدد افکار و عقائد علمی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں اور جو بہرحال مسترد کر دئیے جانے کے قابل ہیں البتہ ہمارا موضوع بحث یہ نہیں بلکہ ہماری بحث اس بارے میں ہے کہ آیا کائنات و ہستی کے بارے میں کوئی ایسی فکر یا نظریہ موجود ہے جو سائنس و فلسفہ اور منطق کی کسوٹی پر بھی پورا اترتا ہو اور سعادت بخش ایمان کے لئے ایک مضبوط بنیاد بھی بن سکے؟

اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ ایسی فکر یا تصور کائنات میں موجود ہے تو پھر انسان مجبور نہیں کہ دو بد بختیوں میں سے کوئی ایک ضرور اس کے نصیب میں ہو۔

علم وایمان کے باہمی رابطہ پر دو پہلوؤں سے بات ہو سکتی ہے۔ پہلا یہ کہ آیا کوئی ایسا نظریہ ہے جو علم و منطق کی کسوٹی پر پورا اترنے کے ساتھ ساتھ ایمان و عقیدہ کی پیدائش کا باعث بھی ہو علم و فلسفہ کے عطا کردہ افکار ایمان عقیدے امید اور خوش بینی کے خلاف ہیں۔ اس مسئلہ پر ہم تصور کائنات کے عنوان سے بعدمیں بحث کریں گے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک طرف علم کے انسان پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے اور دوسری طرف ایمان کی تاثیر بھی دیکھی جائے۔ کیا علم انسان کو جس چیز کی دعوت دیتا ہے ایمان اس کے برخلاف پکارتا ہے؟ کیا علم ہماری تربیت جس انداز سے کرنا چاہتا ہے ایمان اس کے برعکس ہماری تربیت کا متمنی ہے؟ کیا علم ہمیں جس طرف کھینچتا ہے ایمان اس کے متضاد کہیں اور گھسیٹتا ہے؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ علم اور ایمان ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث بنتے ہیں؟ ہمارے آدھے حصے کی تعمیرعلم کرتا ہے اور باقی آدھے حصے کو علم کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے ایمان پروان چڑھاتا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ علم ہمیں کیا دیتا ہے اور ایمان کیا بخشتا ہے؟ علم روشنی اور توانائی عطا کرتا ہے۔ ایمان عشق امید اور دل گرمی کا باعث بنتا ہے۔ علم آلات بناتا ہے اور ایمان مقصد علم سرعت دیتا ہے اور ایمان جہت علم کر سکنا ہے اور ایمان اچھا چاہنا علم بتاتا ہے کہ کیا ہے اور ایمان ہدایت کرتا ہے کہ کیا کرناچاہئے ؟ علم بیرونی انقلاب ہے اور ایمان اندرونی انقلاب ہے۔ علم جہان کو جہان آدمیت بناتا ہے اور ایمان روح کو روح آدمیت بناتا ہے۔ علم انسانی وجود کو افقی سطح تک ترقی دیتا ہے اور ایمان انسان کو عمودی سطح پر اوپر لے جاتا ہے علم طبیعت ساز ہے اور ایمان انسان ساز علم بھی انسان کو طاقت عطا کرتا ہے اور ایمان بھی لیکن علم کی طاقت منفصل ہوتی ہے اور ایمان کی طاقت متصل ہوتی ہے۔ علم جمال ہے اور ایمان بھی جمال لیکن علم حسن عقل اور ایمان جمال روح علم حسن فکر ہے اور ایمان جمال احساس علم بھی انسان کو اطمینان عطا کرتا ہے اور ایمان بھی۔ علم اطمینان خارجی عطا کرتا ہے اور ایمان سکون داخلی۔ علم بیماری سیلاب زلزلہ اور طوفان کے مقابل پناہ گاہ ہے اور ایمان اضطراب پریشانی تنہائی احساس محرومی اور بے وقتی کے مقابل پناہ گاہ ہے۔ علم دنیا کو انسان کے لئے ساز گار کرتا ہے اور ایمان انسان کو انسان کے لئے ساز گار کرتا ہے۔

انسان کے لئے علم و ایمان کی اکٹھی ضرورت ہے یہ بات مذہبی و غیر مذہبی مفکرین کی انتہائی توجہ کا مرکز رہی ہے علامہ اقبال کہتے ہیں:

آج بشریت کو تین چیزوں کی احتیاج ہے کائنات کی روحانی تعبیر کی جائے فرد کو روحانی آزادی حاصل ہو ایسے بنیادی اور بااثر جہانی اصول جو انسانی معاشرے کے تکامل کی روحانی توجیہ کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید یورپ نے ان شعبوں میں مثالی فکری ادارے قائم کیے ہیں۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ صرف عقل کے ذریعے حاصل ہونے والی حقیقت میں ایک زندہ عقیدے کی سی حرارت نہیں ہو سکتی کیوں کہ یہ فقط شخصی الہام کا نتیجہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ عقل محض نے نوع بشر پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا۔ جبکہ دین ہمیشہ افراد کی ترقی اور معاشروں کے تغیر وتبدل کا سبب رہا ہے۔

یورپ کی مثالیت پسندی ایک زندہ عامل کی صورت میں اس کی حیات میں ہر گز داخل نہیں ہو سکی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خودی سرگرداں ہے۔

یقین کریں کہ آج کا یورپ انسانی اخلاق کی پیش رفت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جبکہ مسلمان وحی پر مبنی ایسیے افکار اور نظریات سے مالا مال ہیں جو زندگی کی بہت گہرائیوں سے حاصل ہوتے ہیں ۔ ان کے ظاہر کو باطنی رنگ عطا کرتے ہیں۔ مسلمان شخص کے لئے زندگی کا روحانی پہلو چونکہ ایک اعتقادی مسئلہ ہے لہذا اس اعتقاد کے دفاع میں وہ خوشی سے جان کی بازی لگا دیتا ہے۔("احیاء فکر دینی دراسلام "، ترجمہ احمد اسلام ص۲۰۳)

ویل ڈیورانٹ مشہور کتاب "تاریخ تمدن" کا مصنف اگرچہ غیر مذہبی شخص تھا اس کے باوجود کہتا ہے قدیم دنیا اور آج کی جدید مشینی دنیا میں فرق صرف وسائل کی بناء پر ہے۔ مقاصد کے اعتبار سے ان میں اختلاف نہیں… اب اس مسئلہ پر آپ کیا کہیں گے اگر ہماری تمام تر ترقی و پیش رفت صرف وسائل اور روش کی اصلاح تک محدود ہو اور اہداف و مقاصد کی بہترین نہ ہو۔( ندات فلسفہ ص ۲۹۲)
مزید کہتا ہے کہ

"دولت تھکا دیتی ہے عقل و حکمت ایک سرد اور دھیمی ہی روشنی

ہے لیکن عشق ناقابل بیان حد تک دلجوئی کرتے ہوئے دلوں کو گرماتاہے۔"(ندات فلسفہ ص ۱۳۵)

آج پیشتر اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ سینتھسزم (Synthesism)محض علم پسندی اور خالص سائنسی تربیت ایک مکمل انسان بنانے سے قاصر ہے۔ نری علمی تربیت آدھا انسان بناتی ہے مکمل انسان نہیں بناتی۔ اس تربیت کے نتیجہ میں انسان خام مال ہوتا ہے اس کی تکمیل نہیں ہوتی۔ ایسی تربیت سے انسان توانا قوی بنتا ہے لیکن بافضیلت نہیں ہوتا۔ انسان کے ایک پہلو کی تعمیر ہوتی ہے اور باقی تمام پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں۔ آج سب یہ بات سمجھتے ہیں کہ علم محض کا دور ختم ہو چکا ہے اور اب معاشرے میں عقیدے کا فقدان خطرناک صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ بعض لوگ اس فقدان کو فلسفہ محض سے پورا کرنا چاہتے ہیں جبکہ بعض دوسرے افراد ادبیات آرٹ اور علوم انسانی کی مدد سے عقیدے کا خلا پر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک (ایران) میں بھی انسان دوستی کی ثقافت کی باتیں اور خصوصاً مولانا روم سعدی اور حافظ جیسے شعراء کے عرفانی کلام کی تجاویز بھی اسی عقیدتی و معنوی خلا کو پر کرنے کی کوششیں ہیں جبکہ یہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ ان ادبیات کی روح اور کشش مذہب ہی کی وجہ سے ہے۔ ان ادبیات کی انسان دوستی والی روح در حقیقت وہی اسلامی مذہبی روح ہے۔ وگرنہ آج کی نئی ادبیات اپنی تمام تر انسان دوستی کے اظہار کے باوجود کیونکر سرد اور بے جان ہیں؟ ان میں کیوں کشش دکھائی نہیں دیتی؟ ہماری عرفانی ادبیات کا انسانی پہلو انسان و کائنات کے بارے میں ایک خاص طرز فکر کی پیداوار ہے جو در حقیقت اسلامی فکر ہی ہے۔ اگر ان ادبی شہ پاروں سے اسلامی روح نکال دی جائے تو باقی مردہ جسم اور کوڑا کرکٹ کے علاوہ کچھ نہ بچے گا۔

اس خلا کو محسوس کرنے والوں میں سے ایک ویل ڈیورنٹ بھی ہے اس نے ادب فلسفہ اور آرٹ کے ذریعے اس خلا کو پر کرنے کی تجویز دی ہے۔ وہ کہتا ہے:

ہمارے سکولوں میں اور یونیورسٹیوں کو اسپنسر(انیسویں صدی کا مشہور برطانوی فلسفی) کے نظریہ تربیت سے بہت زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے ہیں اسپنسر نے تربیت کی تعریف یوں کی ہے کہ انسان کو اس کے ماحول سے ہم آہنگ کیا جائے۔ یہ تعریف بے جان اور میکانیاتی ہے۔ اس نے میکانیات کی برتری کے فلسفے سے جنم لیا ہے۔ ہر تخلیقی زمین اور روح اس سے متنفر ہے۔ اس نظریہ تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے تعلیمی ادارے نظری اور میکانیات علوم سے معمور ہیں اور ادب تاریخ فلسفہ اور آرٹ جیسے مضامین سے خالی ہیں۔ ایسے مضامین ان کے نزدیک بے فائدہ ہے۔ تربیت کا حاصل آلات و اوزار کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ایسی تربیت انسان کو حسن و جمال سے بیگانہ بنا دیتی ہے۔ اسے حکمت سے الگ تھلگ کر دیتی ہے۔ اگر اسپنسر کوئی کتاب نہ لکھتا تو یہ دنیا کے لئے اچھا ہوتا ۔(ندات فلسفہ ص۲۰۶)

یہ بات انتہائی تعجب انگیز ہے کہ ویل ڈیورنٹ اعتراف تو کرتا ہے کہ موجودہ بحران اعتقادی بحران ہے۔ یہ خلا عقائد اہداف اور مقاصد کا خلا ہے۔ ایک ایسا خلا جو بے ہودہ پستیوں کا شکار ہے علاوہ ازیں ویل ڈیورنٹ اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ یہ خلا انسانی اہداف اور مقاصد کے بارے میں کوئی خاص سوچ اور ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ان تمام اعترافات کے باوجو اس کاخیال یہ ہے کہ ہر طرح کی معنویت سے اس کی چارہ جوئی ہو سکتی ہے خواہ وہ معنویت قوت تخیل تک ہی محدود کیوں نہ ہو۔ اس کے خیال میں آرٹ شعر موسیقی اور تاریخ جیسے شعبے اس خلا کو پُر کرنے کی صلاحیت و قدرت رکھتے ہیں جو انسان کی عقیدہ پرستی اور کمال مطلوب تک پہنچنے کی فطری خواہش سے پیدا ہوتی ہے۔
علم و ایمان کی جانشینی

ہم یہ جان چکے ہیں کہ علم و ایمان فقط متضاد نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کاباعث بنتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ لے سکتے ہیں۔

جب ہم یہ جان چکے ہیں کہ علم کا کیا کردار ہے اور ایمان کیا کردار ادا کرتا ہے تو ایسے سوال اور جواب کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہ بات واضح ہے کہ علم ایمان کا جانشین نہیں ہو سکتا۔ ممکن نہیں کہ علم توانائی اورروشنی کے ساتھ ساتھ عشق و امید بھی عطا کرے اورعلم ہماری خواہشات کی سطح بلند کرے اور علاوہ اس کے کہ اہداف و مقاصد کے حصول میں مدد دے۔ وہ خواہشات عقائد اور مقاصد ہم سے لے طبیعت جبلت کے تحت جن کا محور ایک شخص کی ذات اور خود غرضی ہوتی ہے اور ان کے بدلے ہمیں ایسے عقائد و اہداف عطا کرے جن کا محدود روحانی و معنوی عشق و محبت ہو علم کوئی ایسا آلہ نہیں جو ہماری ماہیت اور جوہر کو بدل سکے اسی طرح ایمان بھی علم کا جانشین نہیں ہو سکتا۔ ایمان ہمیں جہان طبیعت کی پہچان بھی نہیں کروا سکتا۔ اس پر حاکم قوانین پر اکتفا نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ ہمیں ہماری پہچان بھی نہیں کروا سکتا۔

تاریخی تجربات اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ علم و ایمان کی جدائی سے انسانی معاشرے نے ناقابل تلافی نقصانات اٹھائے ہیں۔ ایمان کی شناخت علم ہی کے سائے میں ہونی چاہئے۔ ایمان علم کی روشنی میں خرافات سے دور رہتا ہے۔

اگر علم ایمان سے دور ہو جائے تو پھر ایمان جمود اور اندھے تعصب کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنے ہی گرد بڑی تیزی سے گھومتا رہتا ہے اور پھر کسی منزل تک پہنچانے کے قابل نہیں رہتا۔ جہاں علم و معرفت نہ ہو وہاں نادان مومنوں کا ایمان چالاک و عیار منافقوں کے ہاتھوں کھلونا بن جاتا ہے۔ اس کی مثال صدر اسلام میں خوارج کی شکل میں دکھائی دیتی ہے اور بعد کے ادوار میں بھی مختلف صورتوں میں جابجا مل جاتی ہے۔ ایمان سے خالی علم کسی پاگل کے ہاتھ میں تلوار کی مانند ہے اور ایسا علم نصف شب چور کے ہاتھ میں چراغ کی مانند ہے تاکہ وہ آسانی سے اچھے سے اچھا مال لے جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے تہی از ایمان عالم اور کل ایمان سے خالی جاہل انسان کے رویے اور کردار میں طبیعت و ماہیت کے اعتبار سے ذرہ بھر فرق نہیں ہے۔ کل کے فرعون چنگیز اور آتیلا اور آج کے چرچل جانسن نکسن اور سٹالن جیسے لوگوں میں کیا فرق ہے؟

یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا علم نور اور طاقت نہیں ہے؟ علم کا نور اور طاقت ہونا فقط بیرونی دنیا سے متعلق نہیں ہے بلکہ علم ہمارے اندر کی دنیا بھی ہمیں دکھاتا ہے اور اسے ہم پر واضح کرتا ہے بنا برایں ہمیں اپنے اندر کی دنیا تبدیل کرنے کی طاقت بھی عطا کرتا ہے لہذا علم دنیا کی بھی تعمیر کر سکتا ہے اور ایمان کا کام (انسان سازی) بھی کرتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ سب باتیں درست ہیں لیکن یہاں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ علم کی قدرت و توانائی ایک اوزار کی سی طاقت و توانائی ہے یعنی اس کا انحصار انسان کے ارادے اورحکم پر ہے۔ انسان کسی بھی میدان میں کوئی کام کرنا چاہے تو علم کے آلہ کی مدد سے بہتر انجام دے سکتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مقاصد کے حصول میں علم انسان کا بہترین مددگار ہے۔

البتہ بحث یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ انسان آلات کے استعمال سے پہلے مقصد پیش نظر رکھتا ہے کیوں کہ آلات ہمیشہ مقصد کے حصول کے لئے خدمت پر مامور ہوتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ یہ مقاصد کہاں سے پیدا ہوئے ہیں؟

چونکہ انسان طبیعی لحاظ سے حیوان ہے اور اکتسابی اعتبار سے انسان یعنی انسانی صلاحیتوں کو ایمان ہی کے سائے میں تدریجاً پروان چڑھنا چاہئے۔ انسان اپنی طبیعت کے زیر اثر مادی ذاتی حیوانی اور طبیعی مقاصد کی طرف خود بخود آگے بڑھتا ہے۔ آلات کو اسی راہ میں استعمال کرتا ہے۔ لہذا ایک ایسی قوت کی ضرورت ہے جو انسان کا مقصد و آلہ نہ ہو بلکہ انسان کو ایک آلہ کی طرح اپنی طرف حرکت دے۔ ایسی قوت چاہئے جو انسان کے اندر ایک دھماکہ کرے اور اس کی پوشیدہ صلاحتیوں کو بروئے کار لائے۔ ایک ایسی طاقت کی ضرورت ہے جو ضمیر میں انقلاب برپا کردے اور نئے نئے افق عطا کرے۔ یہ ایسے کام ہیں جو علم اور سائنس کے بس میں ہیں اور نہ ہی انسان و طبیعت پر حاکم قوانین کے کشف کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ البتہ انسانی روح میں بعض قدروں کے مقدس و گراں بہا ہونے سے یہ بات بن سکتی ہے اور ان قدروں کا تقدس انسان کے اعلیٰ میلانات و رجحانات سے پیدا ہوتا ہے اور خود یہ رجحانات بھی انسان و کائنات کے بارے میں ایک خاص طرز تفکر کی پیدائش ہوتے ہیں ان میلانات کو کسی لیبارٹری یا قیاس و استدلال سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس خاص طرز فکر کے بارے میں آئندہ ہم وضاحت کریں گے یہ علم کی دسترس میں نہیں ہے۔قدیم اور جدید تاریخ بتاتی ہے کہ علم و ایمان کی جدائی نے کیا گل کھلائے ہیں۔ جہاں ایمان تھا اور علم نہ تھا وہاں انسان دوستانہ کوششیں ایسے امور پر صرف ہوئیں جن کا نتیجہ کچھ زیادہ ہے اور گاہے اچھا نہ نکلا یہ کوشش تعصب جمود اور کبھی نقصان دہ لڑائیوں کا باعث بنیں۔ انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس طرح جہاں فقط علم اور ایمان نہ تھا جیسا کہ آج کل کے بعض معاشروں میں نظر آتا ہے ایسے میں تمام علمی طاقت صرف خود غرضی خود پرستی دھوکہ دہی دھونس عیاری و استحصال جیسے امو ر پر خرچ ہوئی۔

گذشتہ دو تین صدیوں کو سائنس پرستی اور ایمان سے فرار کا دور کہا جا سکتا ہے۔ اس میں بہت سے دانشوروں کی یہ رائے بنی کہ انسان کی تمام تر مشکلات کا حل سائنس میں پوشیدہ ہے۔ لیکن تجربہ نے اس کے خلاف ثابت کیا اور آج دنیا میں کوئی دانشور ایسا نہیں جو انسان کے لئے ایمان کی کسی نہ کسی صورت کی ضرورت کا قائل نہ ہو اگرچہ یہ ایمان غیر مذہبی ہی کیوں نہ ہو۔ بہر حال ماورائے سائنس کسی اور چیز کی ضرورت پر اب سب متفق ہیں۔
برٹرینڈرسل مادی رجحانات کے باوجود معترف ہے کہ

"ایسا کام جس میں صرف آمدن پیش نظر ہو اس کا نتیجہ زیادہ ثمر آور نہیں ہوتا۔ ایسے نتیجہ کے لئے کام اختیار کرنا چاہئے جس میں کسی ہدف مقصد اور فرد پر ایمان بھی مضمر ہو۔"( زنا شوئی وا خلاق )

آج مادہ پرست بھی اپنے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ فلسفی اعتبار سے ہم مادہ پرست ہیں اور اخلاقی حوالے سے آئیڈیلسٹ (مثالی بے معنی) ہیں۔ یعنی فکری و نظری پہلو سے مادی ہیں اور عملی پہلو سے معنوی ہیں۔( جارج پویسٹر اصول معلوماتی فلسفہ)

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان نظری و فکری اعتبار سے مادی ہو اور عملاً معنوی (مثالی و آئیڈیلسٹ)۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ہے جسے مادہ پرست ہی حل کر سکتے ہیں۔

جارج سارئن دنیا کا مشہور و معروف دانشور اور مقبول ترین کتاب "تاریخ سائنس" کا مصنف ہے۔ انسان کو انسان بنانے اور انسانیت کی بنیادوں پر بشری تعلقات استوار کرنے میں علم کی نارسائی اور انسان کے لئے ایمان کی اشد و فوری ضرورت کو یوں بیان کرتا ہے:

"علم نے بعض میدانوں میں عجیب و غریب اورعظیم ترقی کی ہے لیکن قومی و بین الاقوامی سیاست اور انسانی روابط جیسے میدان ابھی تک اسے منہ چڑا رہے ہیں۔"

جارج سارئن انسان کے لئے مذہبی و دینی ایمان کی ضرورت کا اعتراف کرتا ہے انسان کے لئے " آرٹ مذہب اور سائنس" کی مثلث کے ضروری ہونے پر گویا ہے کہ

"آرٹ حسن کو آشکار کرتا ہے اور یہی زندگی کی خوشی کا سبب بنتا ہے۔ دین محبت کا پیغمبر اور زندگی کی موسیقی ہے۔ سائنسی کا سروکار حق سچ اور عقل کے ساتھ ہے جو نوع بشر کی ہوشمندی کا باعث ہے ہمیں ان تینوں کی ضرورت ہے۔ آرٹ بھی ضروری ہے دین بھی چاہئے اور سائنس کی ضرورت لازمی ہے زندگی کے لئے مطلق صورت میں سائنس کی ضرورت لازمی ہے لیکن تنہا سائنس کسی صورت بھی کافی نہیں ۔"( شش بال ص ۳۰۵)
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.