مسئلہ وصیت پر دوبارہ نظر

218

مسئلہ وصیت پر دوبارہ نظر
 
 

 

 
 
 

چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حکومت پر حضرت علی علیہ السلام اور آپ (ص) کے بعد آپ کی نسل کے معصوم اماموں کے حق پر دلالت کرنے والی نصوص و روایات کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں لینے والوں پر زبردست اعتراضات وارد ہوتے ہیں اس لئے مکتب خلفاء کے پروردہ علماء ان روایات و نصوص کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے کی اہم نصوص میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے وصی کے بارے میں علمائے اہل کتاب کی جستجو اور اس سلسلے میں ان کے اقوال ہیں۔ مثال کے طور پر ان دو راہبوں کا واقعہ جن سے صفین کے راستے میں حضرت علی(ص) کی ملاقات ہوئی تھی۔ مکتب اہل بیتکے تربیت یافتہ علماء نے ان روایات کو اپنی کتابوں میں محفوظ کر لیا ہے۔ ایک اور مثال حضرت ابو بکر  کے دور میں دو یہودیوں کی آمد اور وصی رسول(ص) کے بارے میں ان دونوں کا سوال ہے۔ لوگوں نے ان دونوں کو حضرت ابوبکرکی نشاندہی کی، لیکن جب حضرت ابوبکرکی طرف سے وہ اپنے سوالات کا جواب نہ پا سکے تو لوگوں نے انہیں حضرت علی(ع) کے پاس بھیجا۔ اما م(ع) نے ان کے سوالات کا شافی جواب عنایت فرمایا۔ تب ان دونوں نے کہا:

 
 

 

آپ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی ہیں۔
پھر وہ دونوں مسلمان ہو گئے۔
 
 
 

          اس کے علاوہ حضرت عمرکے عہد میں بھی چند اہل کتاب آئے۔ حضرت علی  اور حضرت عمرکے ساتھ ان کا قصہ تقریباً وہی ہے جو سابقہ واقعے میں ابوبکرکے دور میں پیش آیا۔ اس سے قبل ہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات کے بارے میں حضرت عمرسے کعب الاحبار کے سوالات اور ان کا اسے حضرت علی ابن ابی طالب(ع) کے پاس بھیجنے کا واقعہ بھی پڑھ چکے ہیں۔ اہل کتاب کی طرف سے اس قسم کے مراجعات اور قبول اسلام کاسلسلہ آخری زمانوں تک جاری رہا۔ چنانچہ ابن کثیر اپنی تاریخ میں توراة کی یہ بشارت نقل کرتے ہیں کہ اللہ نے ابراہیم  کو اسماعیل  کی بشارت دی اور وہ خوشخبری بھی دی کہ وہ اسمعیٰل  کی نسل کو بڑھائے گا اور ان کی ذریت سے بارہ عظیم انسان پیدا کرے گا۔ اس کے بعد وہ ابن تیمیہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی بشارت جابر  ابن سمرہ کی روایت میں دی گئی ہے اور جب تک یہ لوگ دنیا میں نہ آجائیں قیامت برپا نہیں ہو گی۔ اس کے بعدابن کثیر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 
 

 

یہودیت چھوڑ کر مسلمان ہونے والے بہت سے لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ ان (بارہ افراد) سے مراد وہی ہیں جن کی طرف رافضیوں کا فرقہ دعوت دیتا ہے چنانچہ انہوں نے اس کی متابعت کر لی۔ ۱
 
 
 

چھپائی جانے والی نصوص و روایات کی مقدار

 
 

 

 
 
 

ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں خوارج ۲ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کو نقل کیا ہے جو سترہ صفحات پر مشتمل ہیں۔ دوسری طرف سے جنگ جمل اور صفین وغیرہ کے بارے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث جن میں حضرت علی(ع) کی فضیلت کا تذکرہ ہوا ہے کی نہایت قلیل مقدار کتابوں میں رہ گئی ہیں۔ جب ہم ان دونوں کا موازنہ کرتے ہیں تو اس بات کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ لوگوں کی نظروں سے اس قدر احادیث کو مخفی رکھنے کے باعث کس قدر عظیم خسارہ ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو کہ ان لوگوں نے صرف انہی احادیث کو باقی رکھا ہے جو خوارج کے بارے میں ہیں۔ وہی خوارج جو حضرت علی(ع) کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ احادیث کے درمیان اس امتیازی سلوک کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علی(ع) کے بعد بھی حکمرانوں کے خلاف خوارج کی بغاوتیں جاری رہیں۔ بنابرایں ان سے مربوط احادیث کی تبلیغ و ترویج میں حکمران طبقے کا فائدہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مکتب خلفاء کے علماء نے احادیث کی تمام کتب میں ان احادیث کو نقل کیا ہے اور آج تک کتابوں میں صحیح و سالم موجود ہیں۔

 
 

 

 
 
 

حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو احادیث مکتب خلفاء کی پالیسیوں سے متصادم تھیں اور انہوں نے ان کو چھپانے کی کوشش کی۔ ان میں حضرت علی(ع) کے حق میں مروی وہ احادیث بھی ہیں جن میں آپ کو رسول(ص) کا وصی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ(ع) کے بارے میں صحابہکے اشعار اور نثری مواد کے بارے میں بھی وہی روش اپنائی گئی۔

 
 

 

۱۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ مکتب خلفاء کے کچھ علماء گاہے کلام کا وہ حصہ حذف کرتے ہیں جس میں وصیت کا ذکر ہو اور اس حذف کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتے جیسا کہ نعمان  بن عجلان انصاری کے قصیدے کے ساتھ ہوا۔
 
 
 

۲۔ بعض حضرات روایت کے ایک حصے کو حذف کر کے کلام کو مبہم چھوڑ دیتے ہیں

 
 

 

 
 
 

جیسا کہ طبری اور ابن کثیر نے اپنی تاریخوں میں حدیث رسول(ص) کے الفاظ وصیی و خلیفتی کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔

 
 

 

۳۔ ان میں سے کچھ علماء روایت سے وصیت کے لفظ کو غائب کر دیتے ہیں اور روایت میں تحریف کرتے ہیں جیسا کہ ابن کثیر نے امام حسین  کے خطبے کے ساتھ یہی روش اپنائی ہے۔
۴۔ ان میں سے کچھ حضرات پوری روایت جس میں وصیت کا ذکر ہو حذف کر دیتے ہیں لیکن اس حذف کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ طبری، ابن اثیر اور ابن کثیر نے محمدبن ابوبکر کے خط کے ساتھ یہ برتاؤ کیا ہے۔
 
 
 

۵۔ بعض حضرات ذکر وصیت پر مشتمل پوری روایت کو چھپا لیتے ہیں اور اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتے جیسا کہ ابن ہشام نے دعوت ذوالعشیرہ میں حضرت علی(ع) کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول وصیی و خلیفتی فیکم کے ساتھ یہی کیا ہے۔

 
 

 

 
 
 

۶۔ مکتب خلفاء کے بعض علماء وصیت کے معنی کو بدل دیتے ہیں جیسا کہ طبرانی نے حدیث رسول(ص) کے ساتھ اور ابن ابی الحدید نے حضرت علی(ع) کے کلام کے ساتھ یہی ستم کیا ہے۔

 
 

 

 
 
 

۷۔ کچھ مولفین ایسے ہیں جو غلطی سے اس قسم کی روایت کا ذکر اپنی کسی کتاب میں کرتے ہیں لیکن اپنی دوسری کتاب میں اس کو حذف کرتے ہیں اور اس میں رد و بدل کرتے ہیں جیسا کہ طبری نے اپنی تاریخ اور تفسیر میں یہی کیا ہے۔

 
 

 

 
 
 

۸۔بعض مولفین اپنی کتب کے پہلے ایڈیشن میں اس کا ذکر کرتے ہیں لیکن اسی کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں اس کا تذکرہ نہیں کرتے جیسا کہ محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب ”حیات محمد(ص)“ میں یہی کارنامہ انجام دیا ہے۔

 
 

 

 
 
 

حکومت پرآل رسول(ص) کےحق کو بیان کرنے والیباقی ماندہ احادیث رسول(ص)

 
 

 

 
 
 

ہم چاہتے تھے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احادیث کا تذکرہ کریں۔ اس سلسلے میں ہمارے لئے ضروری تھا کہ گزشتہ مباحث کو بطور تمہید پیش کریں تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ ان ہستیوں کے بارے میں احادیث کو کتمان و حق پوشی کے مختلف اقسام کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کا ذکر ہم کر چکے ہیں کیونکہ یہ روایات صدیوں پر محیط خلفاء کی سیاست سے متصادم تھیں اسی لئے مکتب خلفاء کی کتابوں میں ان کی تعداد نہایت کم رہ گئی ہے۔ ان روایات کو بعض علماء نے بے توجہی اور غفلت میں اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔ خدا نے ہمیں ان روایات کو پانے کی توفیق عنایت فرمائی۔ یہاں ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی مددکے سہارے گزشتہ احادیث کے علاوہ ان روایات کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔

 
 

 

 
 
 

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وزیر

 
 

 

 
 
 

          الف۔ قرآن میں اس کا تذکرہ اور حدیث رسول(ص)میں اس کی وضاحت

 
 

 

 
 
 

انشا اللہ آگے چل کر بیان ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:

 
 

 

 
 
 

اما ترضی ان تکون منی بمنزلة ھارون من موسیٰ الاانہ لا نبی بعدی۔

 
 

 

 
 
 

کیا آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ کی نسبت مجھ سے وہی ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی؟ البتہ اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔

 
 

 

 
 
 

ادھر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ  کے ساتھ حضرت ہارونکی نسبت کا تذکرہ ان دونوں کے واقعے میں کیا ہے اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ اسلام کی یہ دعا نقل فرماتا ہے:

 
 

 

وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْراً مِّنْ اَھْلِیْ۔لا ھَارُوْنَ اَخِی۔ اشْدُدْ بِہٓ اَزْرِیْ۔ ۳
 
 
 

اور میرے کنبے میں سے میرا ایک وزیر بنا دے۔ میرے بھائی ہارون کو۔ اس سے میرا پشت پناہ بنا دے۔

 
 

 

پھر اللہ تعالیٰ جناب موسیٰکی دعا کی قبولیت کے بارے میں فرماتا ہے:
 وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَہٓ اَخَاہُ ھٰرُوْنَ وَزِیْرًا ۴
 
 
 

اور بتحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت فرمائی اور ان کے بھائی ہارون کو مددگار بنا کر ان کے ساتھ کر دیا۔

 
 

 

 
 
 

          ب۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) کو کب وزیر بنا یا؟

 
 

 

جب آپ نے حضرت عبدالمطلبکی اولاد کو دعوت دی اور ان سے فرمایا:
تم میں سے کون اس امر میں میری پشت پناہی کرے گا؟الخ
 
 
 

اور صرف حضرت علی(ع) نے اثبات میں جواب دیا تو اس دن آپ(ص) نے حضرت علی(ع) کو اپنا وزیر بنا لیا۔

 
 

 

 
 
 

اسماء بنت عمیس کہتی ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے سنا :

 
 

 

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًامِّنْ اَھْلِیْ
خدایا میرے گھرانے سے کسی کو میرا وزیر بنا۔
آپ(ص) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور عرض کیا:
خدایا میں اپنے بھائی موسیٰ کی طرح دعا کرتا ہوں۔ اے اللہ ! میرے گھر سے میرے بھائی علی(ع) کو میرا وزیر بنا۔ اس کے ذریعے میری پشت پناہی فرما۔ ۵
 
 
 

تفسیر سیوطی میں قرآن کی آیت ” وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْراً مِّنْ اَھْلِیْْ“ کی تفسیر میں مذکور ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب سے دعاکی اورعرض کیا:

 
 

 

اللھم اشدد ازری باخی علی۔
 
 
 

خدایا میرے بھائی علی(ع) کے ذریعے میری پشت مضبوط فرما۔

 
 

 

پس اللہ نے رسول(ص) کی یہ دعا قبول فرمائی۔
 
 
 

حضرت ابن عمرنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ(ص) حضرت علی ع سے فرمایا :

 
 

 

 
 
 

تم میرے بھائی اور میرے وزیر ہو۔ تم میرے قرضے کو ادا کرو گے اور میرے وعدے کو پورا کرو گےتا آخر۔۶

 
 

 

 
 
 

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) سے انت منی بمنزلة ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی فرما کر آپ کے لئے وہ تمام چیزیں ثابت فرمائی ہیں جو ہارون کے لیے موسیٰ کی طرف سے ثابت تھیں، سوائے نبوت کے۔ جناب ہارون کو حضرت موسیعلیہما السلام کی طرف سے جو چیزیں حاصل تھیں ان میں سب سے اہم موسیٰ کا وزیر ہونا تھا۔ اس حدیث کے ماخذ کا بعد میں ذکر ہو گا۔

 
 

 

 
 
 

نہج البلاغہ میں مذکور ہے کہ آپ نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:

 
 

 

لکنک وزیر
بلکہ آپ وزیر ہیں۔ ۷
 
 
 

اشعث کے نام حضرت علی(ع) کے خط کا اس نے منظوم جواب دیا تھا۔ اس منظوم جواب کے ایک شعر میں کہا گیا ہے :

 
 

 

وزیر النبی وذوصہرة
یعنی وہ نبی (ص) کے وزیر اور داماد ہیں۔
 
 
 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ

 
 

 

 
 
 

غزوات کے دوران مدینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن لوگوں کو اپنا نائب بنایا تھا ان کے ذکر کے دوارن ہم نے صحیح بخاری (باب غزوہ تبوک) سے نقل کیا تھا کہ جب آپ تبوک کے لئے روانہ ہوئے اور حضرت علی(ع) کو (مدینہ میں) اپنا جانشین بنایا تو انہوں نے عرض کیا:

 
 

 

 
 
 

کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے درمیان چھوڑے جا رہے ہیں؟

 
 

 

آپ نے فرمایا:
 
 
 

کیا آپ کو یہ منظور نہیں کہ آپکی نسبت مجھ سے وہی ہو جو ہارون  کوموسیٰ سے تھی؟اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا

 
 

 

 
 
 

اللہ نے اس بارے میں ہارون کے واقعے کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا ہے:

 
 

 

وَقَال َمُوْسٰی لِاَ خِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَاَصْلِحْ ۸
 
 
 

موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون  سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا۔

 
 

 

 
 
 

مسند احمد کی دو روایتوں میں سے ایک میں دعوت ذوالعشیرہ میں علی(ع) کے حق میں رسول(ص) کا قول وخلیفتی نقل ہوا ہے۔۹

 
 

 

 
 
 

وصی، وزیر اور خلیفہ کے ذکر پرمشتمل یہ وہ احادیث تھیں جنہیں ہم عجلت میں لکھی جانے والی اس کتب میں نقل کر سکے۔ ذیل میں ہم ایسی روایات کا تذکرہ کریں گے جو حذف اور کتمان کے باوجود مکتب خلفاء کی کتابوں میں باقی رہ گئی ہیں۔

 
 

 

 
 
 

رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مسلمانوں کا ولی امر

 
 

 

آپ(ص) نے متعدد موقعوں پر صریحاً فرمایا ہے :
حضرت علی(ع) مسلمانوں کے ولی امر ہیں۔
ان میں سے بعض کا تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔
 
 
 

          اولاً شکایت کا واقعہ: مسند احمد، خصائص نسائی، مستدرک حاکم اور دیگر کتب میں ایک روایت منقول ہے جسے ہم مسند احمد کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں۔ حضرت بریدہسے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کی طرف دو دستے بھیجے ایک کو حضرت علی(ع) ابن ابی طالب علیہ السلام کی قیادت میں اور دوسرے کو خالد بن ولید کی قیادت میں اور فرمایا:

 
 

 

 
 
 

جب تم لوگ ایک ساتھ ہو جاؤ تو پھر قیادت حضرت علی(ع) کی ہو گی اور اگر الگ ہو جاؤ تو تم دونوں میں سے ہر ایک اپنی فوج کا سربراہ ہو گا۔

 
 

 

 
 
 

راوی کہتا ہے: پھر یمن کے بنی زید سے ہمارا سامنا ہوا اور ہم نے ان سے جنگ کی۔ یوں مسلمانوں کو مشرکین پر فتح حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ہم نے لڑنے والوں کو قتل کر دیا اور بال بچوں کو اسیر بنا لیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اسیروں میں سے اپنے لئے ایک عورت کو پسند کر لیا۔ حضرت بریدہکہتے ہیں: خالدنے میرے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام ایک خط بھیجا جس میں اس واقعے کی اطلاع دی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں وہ خط پیش کیا۔ جب خط آپ(ص)کو پڑھ کر سنایا گیا تو اس وقت میں نے آپ(ص) کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے۔ میں نے عرض کیا:

 
 

 

 
 
 

یا رسول اللہ(ص) میں (آپ کے غضب سے ) پناہ مانگتا ہوں۔ آپ(ص) نے مجھے ایک شخص کے ساتھ بھیجا اور اس کی اطاعت کا حکم دیا۔ میں نے وہی کیا جس کے لئے مجھے بھیجا گیا تھا۔

 
 

 

آپ(ص) نے فرمایا:
لا تقع فی علی فانہ منی وانا منہ وھو ولیکم بعدی وانہ منی وانا منہ وھو ولیکم بعدی۔ ۱۰
 
 
 

علی(ع) کی برائی مت کرو کیونکہ وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمہارا سرپرست ہے۔

 
 

 

ایک اور روایت میں ہے: پس میں نے عرض کیا:
 
 
 

یا رسول اللہ(ص) آپ کو اپنی مصاحبت کا واسطہ آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ مجھ سے دوبارہ اسلام کی بیعت لیں۔

 
 

 

راوی کہتا ہے:
پھرمیں نے آپ(ص) سے جدا ہونے سے پہلے اسلام پر آپ کی (دوبارہ) بیعت کی۔ ۱۱
 
 
 

صحیح ترمذی، مسند احمد، مسند طیالسی اور دیگر کتب میں ایک روایت منقول ہے جو ترمذی کے الفاظ میں یہ ہے: حضرت عمران  بن حصین سے روایت ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چار اصحاب نے اس جنگ میں عہد کرلیا کہ جب آپ سے ملاقات ہو تو علی ابن ابی طالب(ع) کی شکایت کریں گے۔ جب وہ آپ کی خدمت میں آئے تو ان میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کہا:

 
 

 

 
 
 

یا رسول اللہ(ص)! آپ علی(ع) کی حالت نہیں دیکھتے؟ اس نے فلاں فلاں کام کیا ہے۔

 
 

 

 
 
 

یہ سن کر آپ نے اس سے منہ پھیر لیا۔ اس کے بعددوسرے، تیسرے اور چوتھے نے بھی پہلے شخص کی بات دہرائی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر بار شکایت کرنے والے سے منہ پھیر لیا۔ راوی کہتا ہے: اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حالت میں آئے کہ آپ ص کے چہرے سے غصہ ظاہر تھا اور فرمایا؛

 
 

 

تم لوگ علی(ع) سے کیا چاہتے ہو؟ کیا چاہتے ہو علی(ع) سے؟ بیشک علی(ع) مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ بیشک وہ مجھ سے۔ وہ میرے بعد مومنوں کا سرپرست ہے۔ ۱۲
          دوسری شکایت: اسد الغابہ، مجمع الزوائد اور دیگر کتب میں ایک روایت منقول ہے جسے ہم اسد الغابہ کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں۔ وہببن حمزہ سے مروی ہے:
 
 
 

میں نے مدینہ سے مکہ حضرت علی(ع) کے ساتھ سفر کیا اور میں نے ان سے ایسے امر کا مشاہدہ کیا جو مجھے پسند نہ آیا۔ میں نے کہا:

 
 

 

 
 
 

اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس پہنچا تو ضرور ان کی شکایت کروں گا۔

 
 

 

 
 
 

جب میں واپس پہنچا تو میں نے آپ سے ملاقات کی اور عرض کیا:

 
 

 

میں نے علی(ع) سے فلاں فلاں چیزوں کا مشاہدہ کیاہے۔
تو فرمایا:
لاتقل ھذا فھو اولیٰ الناس بکم بعدی۔
یہ نہ کہو کیونکہ وہ میرے بعد تم لوگوں کے معاملے میں سب سے زیادہ بااختیار ہے۔ ۱۳
 
 
 

          شکایت کا زمانہ: مورخین اور سیرت نگاروں نے یمن کی طرف حضرت علی(ع) کے دو بار سفر کا ذکر کیا ہے۔ ہماری نظر میں آپ نے تین بار سفر کیا جس کا بیان انشااللہ اجتہاد کے بحث میں آئے گا۔ دونوں صورتوں میں آخری بار سفر ہجرت کے دسویں سال ہوا جب امام(ع) حجت الوداع میں یوم ترویہ سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملے۔ اگر مختلف موقعوں پر حضرت علی(ع) کے سفر کے دوران مذکورہ شکایت رسول اللہ(ص) کے حضور دوبارہ پیش ہوئی ہو تو پھر پہلی شکایت مدینہ میں دسویں ہجری سے قبل ہوئی ہے۔ اور دوسری شکایت مکہ میں حضرت علی(ع) کے ساتھیوں کے خدمت رسول(ص) میں پہنچنے کے بعد یوم ترویہ سے پہلے ہوئی ہے کیونکہ وہ ایام حج سے پہلے مکہ پہنچے تھے۔ اسی بنا پر بعض علماء کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے کہا ہے کہ غدیر کا واقعہ اسی شکایت کے ازالے کے لئے تھا۔ کیونکہ غدیر کا واقعہ حج کے بعد جحفہ میں مسلمانوں کے جم غفیر کے سامنے ہوا تھا اور یہاں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخاطب فقط شکایت کنندگان تھے۔ یہ واقعہ شکایت کنندگان کی طرف سے شکایت کے فوری بعد اسی محفل میں ہوا۔ رہی دوسری شکایت تو حدیث صریحاً دلالت کرتی ہے کہ یہ شکایت ان دونوں کی مدینہ واپسی کے بعد کی گئی۔

 
 

 

 
 
 

بعض اور روایات جن کے وقت کا ذکر نہیں ہوا

 
 

 

 
 
 

ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) سے کہا:

 
 

 

آپ میرے بعد ہر مومن کے سرپرست ہیں۔ ۱۴
 
 
 

اور علی(ع) سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا؛

 
 

 

آپ میرے بعد مومنین کے ولی (سرپرست) ہیں۔ ۱۵
حوالہ جات
 
 
 

۱ البدایہ اولنہایہ ج۲ صفحہ ۲۵۰       

 
 

 

۲ جن کے ساتھ حضرت علی(ع) نے نہروان کی جنگ لڑی تھی۔
 
 
 

۳ سورة طہ آیت ۲۹۔۳۰                  

 
 

 

 
 
 

۴ سورہ الفرقان آیت ۳۵                  

 
 

 

۵ الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۱۶۳
۶ مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۲۱، کنز العمال ج۶ صفحہ ۱۵۵۔                  
۷ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۹۰
۸ سورہ اعراف آیت ۱۴۲
۹ مسند احمد بن حنبل ج ۱ ص ۱۱۱
۱۰ مسند احمد ج۵ صفحہ ۳۵۶، خصائص امام نسائی صفحہ ۲۴ معمولی اختلاف الفاظ کے ساتھ دیکھئے، مستدرک ھاکم ج۳ صفحہ ۱۱۰، مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۲۷، کنز العمال ج۱۲ صفحہ ۲۰۷ کنوز الحقائق مناوی صفحہ ۱۸۶۔
۱۱ مسند احمد ج۵ صفحہ ۳۵۰، ۳۵۸، ۳۶۱، مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۲۸۔
۱۲ سنن ترمذی ج۱۳ صفحہ ۱۶۵، باب مناقب علی بن ابی طالب، مسند احمد ج۴ صفحہ ۴۳۷، مسند ابی داؤد طیالسی ج۳ صفحہ ۱۱۱ حدیث ۸۲۹، مستدرک حاکم ج۳ صفحہ ۱۱۰، خصائص نسائی صفحہ ۱۶، ۱۹، حلیة الاولیاء ج۶ صفحہ ۲۹۴، الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۱۷۱، کنز العمال ج۱۲ صفحہ ۲۰۷
۱۳ اسد الغابہ ج۵ صفحہ ۹۴ مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۰۹
۱۴ مسند ابی داؤد طیالسی ج۱۱ صفحہ ۳۶۰ حدیث ۲۷۵۲، الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۲۰۳
۱۵ تاریخ بغداد خطیب بغدادی ج۴ صفحہ ۲۳۹، کنز العمال ج۱۵ صفحہ ۱۱۴، ج۱۲ صفحہ ۲۲۱۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.