ایمان کے آثار و فوائد

208

ایمان کے آثار و فوائد
 
 

 

اگرچہ ہماری اب تک کی ہونے والی بات سے مذہبی ایمان کے آثار کسی حد تک واضح ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی ہم نے اس معنوی دنیا اور زندگی کے اس قیمتی ترین سرمایہ کے بابرکت آثار سے آشنائی کے لئے ایک الگ موضوع بحث قرار دیا ہے۔
ایک روسی مفکر "ٹالسٹائے" کہتے ہیں:
"ایمان وہ چیز ہے جس کے ساتھ لوگ زندگی بسر کرتے ہیں۔"
حکیم ناصر خسرو علوی بیٹے سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
زدنیا روی زدین کروم ایراک
مرا بی دین جھان چہ بود و زندان
مرا پور از دین ملکی است در دل
کہ آن ہرگز نخواہد گشت ویران
" میں نے دنیا سے دین کی طرف رخ اس لئے کیا ہے کہ بغیر دین کے دنیا میرے لئے ایک زندان کے سوا کیا ہے اے بیٹے میرے دل پر دین کی حکومت ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔"
مذہبی ایمان بہت سارے بابرکت اور نیک آثار کا حامل ہے۔
یہ سرودوشادمانی اجتماعی روابط کی اصلاح اوران پر یشانیوں کے خاتمہ کا باعث بنتی ہے جو اس کائنات کی بودو باش کا لازمہ ہیں۔ مذہبی ایمان کے آثار تین عناوین کے تحت درج ذیل ہیں:
(الف) سرور و انبساط

سرور خوشی اور مسرت پیدا کرنے کے حوالے سے مذہبی ایمان کا سب سے پہلا اثر یہ ہے کہ ایمان کائنات خلقت اور ہستی کے بارے میں انسان کو خوش بین بنا دیتا ہے۔ مذہبی ایمان کائنات کے بارے میں انسان کو ایک خاص نقطہ نظر عطا کرتا ہے۔
اس طرح سے خلقت کو بامقصد قرار دیتا ہے اور یہ مقصد اس کے نزدیک خیر سعادت اور کمال کی طرف بڑھتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نظام ہستی کو بحیثیت مجموعی اور اس پر حاکم قوانین کے بارے میں انسان کو خوش بین بنا دیتا ہے اس نظام ہستی میں موجود ایک باایمان شخص کی حالت ایک ایسے فرد کی سی ہوتی ہے جو ایک ایسے ملک میں رہتا ہے جس کے قوانین اداروں اور نظام کو وہ صحیح اور عادلانہ سمجھتا ہے۔ ملکی حکام کے حسن نیت پر بھی ایمان رکھتا ہے اپنی اور دوسروں کی ترقی و پیش رفت کے لئے راہیں ہموار سمجھتا ہے اور اسے یقین ہے کہ اس کی اور اس جیسے مکلف اور ذمہ دار افراد کی پسماندگی کا باعث اگر کوئی چیز ہو سکتی ہے تو وہ ان کی اپنی سستی اور ناتجربہ کاری ہی ہے۔

ایسے شخص کی نظر میں پسماندگی کا باعث وہ خود ہے اس میں ملک کے نظام اور اداروں کا کوئی قصور نہیں۔ جو بھی کمی ہو گی اس کا سبب وہ خود ہوگا اور اس جیسے دوسرے وہ تمام لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں۔ یہ غور و فکر اسے غیرت دلاتا ہے اور اسے خوش بینی اور اچھی امیدوں کے ساتھ حرکت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

لیکن ایک تہی ایمان آدمی کی نظام ہستی میں مثال یوں ہے جیسے کوئی فرد کسی ایک ایسے ملک میں رہتا ہو جس کے نظام یا قانون قاعدے ضابطے اور اداروں وغیرہ سب کو وہ غلط اور ظالم سمجھتا ہے۔ لیکن ان سب کو قبول کرنے پربھی مجبور ہے۔ ایسے فرد کے باطن ہمیشہ ناپسندیدگی کی ایک گرہ کی سی کیفیت بھی رہتی ہے۔ وہ کبھی اپنی اصلاح کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ خیال کرتا ہے کہ جہاں زمین و آسمان سب ناہموار ہیں سب عالم ہستی ظلم و جور اور بے انصافیوں کا مجسمہ وہاں مجھ جیسے ایک ذرے کی اصلاح کا کیا فائدہ ہو گا؟

ایسا فرد دنیا سے کبھی لذت نہیں پاتا اس کے لئے دنیا ہمیشہ ایک ہولناک زندان کی مانند ہوتی ہے اسی پر قران کریم نے کہا ہے کہ

ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا (سورہ طہ آیت ۱۲۴)

"جو کوئی میری یاد میرے ذکر سے رو گردانی کرے گا تو اس کی زندگی بہت تنگی اور دباؤ میں بسر ہو گئی۔"

یقینا ایمان ہی ہمارے اندر ہماری جانوں میں زندگی کو وسعتیں عطا کرتا ہے اور ہمیں روحانی امور کے دباؤ سے بچاتا ہے۔

خوشی و مسرت کے حوالے سے مذہبی ایمان کا دوسرا اثر روشن دلی ہے انسان جونہی دنیا کو مذہبی ایمان کے تحت حق و حقیقت کے نور سے روشن و منور دیکھتا ہے۔ تو یہی روشن بینی اس کے روح کو بھی منور کر دیتی ہے۔ روشن بینی ایک ایسا چراغ بن جاتی ہے جو اس کی ذات کے اندر جل رہا ہوتا ہے۔

ایمان سے خالی آدمی کی حالت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ دنیا اس کی نظروں میں ہیچ و پوچ بے معنی اور تاریک ہوتی ہے۔ اسی لئے دنیا میں جسے اس نے تاریک و اندھیر فرض کیا ہوا ہے اس کا دل بھی تاریک رہتا ہے۔

خوشی و مسرت ہی کے حوالے سے مذہبی ایمان کا تیسرا اثر اچھے نتیجے اور اچھی جدوجہد کے بارے میں پرامید ہونا ہے۔

مادی فکر کے اعتبار سے یہ جہان لوگوں کے بارے میں غیر جانبدار اور لاتعلق ہے۔ لوگ خواہ حق پر ہوں یا باطل پر عدل و انصاف کا دامن تھامیں یا ظلم و ستم کو پیشہ بنائیں صحیح راستے پر ہوں یا غلط راہوں پر چل نکلیں۔ ان کا نتیجہ صرف ایک ہی چیز پر منحصر ہے اور وہ ہے مقدار کوشش اور بس۔ لیکن باایمان شخص کی نظر و فکر میں یہ کہ اس جہاں میں دونوں گروہوں کی کوشش و جدوجہد کے حوالے سے کائنات کا ردعمل ایک جیسا نہیں ہوتا بلکہ نظام خلقت ان لوگوں کا حامی ہے جو حق و حقیقت عدالت و خیرخواہی اور صحیح و درست راستوں پر محنت و کوشش کرتے ہیں۔

ان تنصرو اللّٰہ ینصرکم

"اگر آپ خدا کی مدد کریں (حق کے راستے میں قدم بڑھائیں) تو خدا بھی آپ کی مدد کرے گا۔"( سورہ محمد آیت ۷)

ان اللّٰہ لا یضیع اجر المحسنین

"بے شک خدا نیک لوگوں کا اجر و صلہ کبھی ضائع نہیں کرتا۔"( سورہ توبہ ۱۲۰)

خوشی و مسرت ہی کے اعتبار سے مذہبی ایمان کا چوتھا اثر "سکون قلب" ہے۔ انسان فطرتاً اپنی سعادت کا خواہاں ہے۔ سعادت کے حصول کے تصور ہی سے شہرت و خوشی میں غرق ہو جاتا ہے۔ ہولناک تاریک اور محرومیوں سے مستقبل کی سوچ ہی سے اس کے تن بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ انتہائی پریشان و مضطرب ہو جاتا ہے۔ دو چیزیں انسان کی سعادت کا باعث ہوتی ہیں:

۱۔ جدوجہد ۲۔ موافق حالات پر اطمینان

طالب علم کی کامیابی دو چیزوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ پہلی اس کی اپنی کوشش اور جدوجہد۔ دوسری چیز مدرسے کا اچھا مدد کرنے والا ماحول اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرنا شوق و رغبت دلانا۔ اگر کوئی محنتی اور لائق طالب علم اپنی پڑھائی کے ماحول سے مطمئن نہ ہو اور سال کے آخر میں نمبر دینے والے استاد پر اعتماد نہ رکھتا ہو اور غیر عادلانہ روش سے پریشان ہو تو سارا سال خوف و اضطراب میں مبتلا رہے گا۔

انسان اپنی ذمہ داری سے تو آگاہ ہوتا ہے۔ اس طرف سے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ اضطراب شک و شبہ سے پیدا ہوتا ہے۔ انسان اپنے آپ سے مربوط کسی چیز میں متذبذب و متردد نہیں ہوتا۔ جو چیز انسان کو شک و شبہ میں ڈالتی ہے اور انسان جس چیز سے متعلق اپنی ذمہ داری سے بے خبر ہوتا ہے وہ کائنات ہے۔

کیا اچھے کاموں کا کوئی فائدہ ہوتا ہے؟ کیا صداقت اور امانت بے کار چیزیں ہیں؟ کیا تمام تر محنت اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد نتیجہ محرومی ہی ہے؟ یہی مقام ہے جہاں اضطراب و پریشانی اپنی ہولناک ترین صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

مذہبی ایمان تصویر کے دونوں رخ "انسان اور جہان" کو سامنے رکھتے ہوئے اعتماد اور اطمینان بخشتا ہے۔ دنیا کے سلوک سے متعلق انسان کی فکر و پریشانی ختم کرتا ہے اس کے بدلے انسان کو سکون قلب عطا کرتا ہے۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ مذہبی آثار میں سے ایک سکون قلب ہے۔

مذہبی ایمان کا ایک اور مسرت بخش پہلو معنوی اور روحانی لذت کا حاصل ہے۔ انسان دو طرح کی لذت سے آشنا ہے۔ بعض لذتیں وہ ہیں جن میں انسان کی کوئی حس کسی خارجی چیز سے ایک خاص رابطہ قائم کرتی ہے۔ جیسے آنکھ دیکھنے سے کان سننے سے منہ چکھنے سے اور ہاتھ چھونے سے لذت حاصل کرتے ہیں۔ ایک طرح کی لذتیں بھی ہیں جو انسان کے وجدان و روح سے متعلق ہیں اور کسی ایک خاص عضو سے مربوط نہیں ہوتیں۔ جیسے انسان نیکی اور خدمت کرنے سے لذت حاصل کرتا ہے۔ محبوب اور محترم ہو کر سرور پاتا ہے یا پھر اپنی اولاد کی کامیابی و کامرانی سے خوش ہوتا ہے ایسی لذتیں کسی خاص عضو سے متعلق نہیں ہوتیں اور نہ ہی براہ راست کسی ایک خارجی عامل کے زیراثر ہوتی ہیں۔

معنوی لذات مادی لذتوں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور اور دیرپا بھی ہوتی ہیں۔ حق پرست عرفاء کو عبادت و بندگی خدا سے حاصل ہونے والی لذت ایک ایسی ہی لذت ہے۔ وہ عارف و عابد لوگ جن کی عبادت خضوع و خشوع اور حضور و استغراق سے مالا مال ہو وہ عبادت سے عظیم ترین لذتیں حاصل کرتے ہیں جسے دینی اصطلاح میں "طعم ایمان" اور "حلاوت ایمان" سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایمان کی حلاوت و شیرینی ہر حلاوت سے بڑھ کر ہے۔ لذت معنونی اس وقت دوچند ہو جاتی ہے جب علم احسان خدمت کامیابی و کامرانی جیسے امور دینی احساس کے ساتھ پھوٹیں۔ خدا کے لئے انجام پائیں اور عبادت کے زمرے میں آئیں۔

(ب) اجتماعی روابط کی اصلاح میں ایمان کا کردار

انسان بعض دوسرے جانداروں کی طرح اجتماعی طبیعت پر پیدا کیا گیا ہے۔ فرد اکیلا اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا۔ زندگی ایک کمپنی یا سوسائٹی کی صورت میں ہونی چاہئے جس میں حقوق و فرائض کے اعتبار سے ہر ایک حصہ دار ہو افراد میں ایک طرح کی تقسیم کار ہو۔ شہد کی مکھیوں میں ذمہ داریوں اور کام کی تقسیم ان کی سرشت اور فطرت کے حکم پر ہوتی ہے ان میں کام سے انکار یا نافرمانی کی طاقت نہیں ہوتی۔ ان کے برعکس انسان ایک آزاد اور خود مختار جاندار ہے اپنے کام کو ذمہ داری اور مسئولیت کے عنوان سے انجام دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اگرچہ دوسرے جانداروں کی ضروریات اجتماعی ہیں لیکن یہ اپنے جبلی و طبیعی امور کی انجام دہی پر مجبور ہیں۔ انسان کی ضرورتیں بھی اجتماعی ہیں۔ بغیر اس کے کہ ویسے جبلی تقاضے اس پر حکم فرما ہوں۔ انسان کی جبلی و فطری اجتماعی خواہشات اس کے اندر ایک "تقاضے" کی صورت میں ہوتی ہیں جنہیں تعلیم اور تربیت کے سائے میں پروان چڑھنا چاہئے۔

صحیح و سالم اجتماعی زندگی وہی ہے کہ افراد ایک دوسرے کے لئے قوانین حدود اور حقوق کا احترام کریں۔ عدل و انصاف کو ایک مقدس امر جانیں ایک دوسرے سے مہر و محبت سے پیش آئیں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کریں جسے خود نہیں چاہتے اسے دوسروں کے لئے بھی نہ چاہیں ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور اطمینان رکھیں دوسروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر ان کے لئے روحانی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔ ہر شخص اپنے کو معاشرے کا ذمہ دار اور معقول فرد سمجھے۔ کھلے بندوں جس تقویٰ و پاکدامنی کا مظاہرہ کرتا ہے اپنی انتہائی خلوت میں بھی اسی تقویٰ و پاکدامنی کو تھامے رکھے۔ سب لوگ بغیر کسی لالچ کے ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کریں۔ ظلم و ستم کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں ظالم اور فاسد لوگوں کو من مانی نہ کرنے دیں اخلاقی قدروں کا احترام کریں ہمیشہ ایک جسم کے اعضاء کی مانند متحد و متفق رہیں۔

یہ مذہبی ایمان ہی ہے جو ہر چیز سے بڑھ کر حقوق کا احترام کرتا ہے عدالت کو مقدس سمجھتا ہے دلوں میں الفت و مہربانی ڈالتا ہے۔ ایک دوسرے کے دل میں اعتماد پیدا کرتا ہے انسان کے قلب و روح پر تقویٰ و پرہیزگاری کی حکومت قائم کر دیتا ہے۔ اخلاقی قدروں کو معتبر اور قابل قدر بناتا ہے ظلم و زیادتی کے مقابلے کے لئے شجاعت بخشتا ہے۔ تمام افراد کو ایک جسم کی مانند قرار دے کر متحد رکھتا ہے۔

حوادث سے انسانی تاریخ میں آسمانی ستاروں کی مانند انسان کی جو انسانی تجلیاں دکھائی دیتی ہیں یہ درحقیقت مذہبی احساسات کی کوکھ سے ہی جنم لئے ہوئے ہیں۔

(ج) پریشانیوں میں کمی

جہاں انسانی زندگی میں خوشی مسرت سرور و شادمانی کامیابی و کامرانی جابجا دکھائی دیتی ہے وہاں یہ زندگی مصیبت رنج ناکامی تلخی شکست اور محرومی کو بھی بہرحال اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ ان میں سے بہت سی مصیبتوں اور مشکلوں کو روکا جا سکتا ہے یا دور کیا جا سکتا ہے اگرچہ اس کے لئے بہت کوشش کرنا پڑے گی۔ یہ بات واضح ہے کہ عالم طبیعت کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنا اور تلخی کو شیرینی میں بدلنا انسان کی ذمہ داری ہے لیکن دنیا کے بعض واقعات اور حوادث ایسے ہیں جنہیں انسان روک سکتا ہے نہ انہیں دور کرنے کی طاقت رکھتا ہے مثلاً بڑھاپا۔ انسان چاہے نہ چاہے اسے بڑھاپے کی طرف بڑھنا پڑتا ہے اور اس کی زندگی کا چراغ آہستہ آہستہ بجھتا چلا جاتا ہے۔ بڑھاپے کی ناتوانی کمزوری اور اس کے دیگر لوازمات زندگی کے چہرے کو مرجھا دیتے ہیں اس کے علاوہ موت اور نابودی کا خیال زندگی کو خیرباد کہنے کی فکر اپنے جانے اور دنیا دوسرے کے حوالے کرنے کی پریشانی انسان کو تڑپائے رکھتی ہے۔

مذہبی ایمان انسان میں استقامت پیدا کرتا ہے۔ تلخیوں کو میٹھا و شیریں بناتا ہے۔ باایمان شخص جانتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کا باقاعدہ ایک حساب کتاب ہے اگر مشکلات اور مصیبتوں میں اس کا ردعمل درکار اصولوں کے مطابق ہو تو اس کا نقصان ممکن ہے ناقابل تلافی ہو لیکن خدا تعالیٰ کسی اور طریقے سے اس کا ازالہ کر دیتا ہے۔ بڑھاپا اختتام نہیں ہے بلکہ باایمان آدمی تو ہمیشہ فرصت کے لمحات کو عبادت اور ذکر خدا سے محبت کر کے گزارتا ہے۔ اس نظریے سے بڑھاپا اس قدر محبوب و مطلوب بن جاتا ہے کہ خدا پرستوں کو جوانی سے زیادہ بڑھاپے کی زندگی میں مزہ آتا ہے۔ تہی از ایمان آدمی کی نظر میں موت کا جو چہرہ مہرہ ہوتا ہے وہ باایمان آدمی کی نظروں میں بدل جاتا ہے۔ ایسے شخص کی نظروں میں اب موت فنا و نابودی نہیں ہوتی بلکہ یہ فانی دنیا سے پائیدار اور باقی رہنے والی دنیا کی طرف منتقلی کا نام بن جاتی ہے۔ یہ ایک چھوٹے جہاں سے بڑے جہاں کی طرف روانگی ہوتی ہے عمل اور بیج بونے کے میدان سے نتیجہ اور پھل حاصل کرنے کے میدان میں جانا ہوتا ہے اس طرح باایمان آدمی نیک کاموں جنہیں دینی اصطلاح میں "اعمال صالح" کہا جاتا ہے میں حصہ لے کر موت کے خیال سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کو دور کر لیتا ہے۔ ماہر نفسیات کے نزدیک یہ بات قطعی اور مسلم ہے کہ اکثر نفسیاتی بیماریاں جو زندگی کی تلخیوں اور روحانی پریشانیوں سے پیدا ہوتی ہیں غیر مذہبی لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ مذہبی لوگوں کا ایمان جتنا زیادہ مضبوط اور محکم ہوتا ہے اتنا زیادہ وہ ان بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں ایمان کی کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے عوارض میں سے ایک نفسیاتی اور اعصابی بیماریوں کی افزائش بھی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.