امامت علی (ع) کی تصریح غدیر کے دن

162

امامت علی (ع) کی تصریح غدیر کے دن
حضرت علی(ع) کی امامت کو بیان کرنے والی صریح احادیث میں سے ایک حدیث غدیر ہے جیسا کہ امام حاکم سے یوں مروی ہے: حضرت ابن عباس  اور حضرت جابرسے منقول ہے کہ ان دونوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ حضرت علی (ع) کو لوگوں کے سامنے کھڑا کریں اور ان کو ولایت سے آگاہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوف محسوس کیا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ آپ نے اپنے ابن عم کی طرفداری کی ہے اور اس معاملے میں آپ(ص) کے اوپر تہمت نہ لگائیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضور(ص) پر یہ آیت اتاری:
یٰٓا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَصلے وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہج وَالله ُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۔ ۱
اے رسول(ص)! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا۔
آپ(ص) نے غدیر خم کے دن حضرت علی(ع) کی ولایت کا اعلان کیا۔ ۲
امام حاکم نے زیاد بن منذر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے: میں ابو جعفر محمد بن علی علیہ اسلام کے پاس موجود تھا اور آپ لوگوں کو حدیث سنا رہے تھے۔ اتنے میں بصرہ کا ایک شخص جسے عثمان اعشی کہتے تھے (وہ حسن بصری سے روایت کرتا تھا) کھڑا ہو گیا اور اس نے آپ سے پوچھا:
اے فرزند رسول (ص) خدا مجھے آپ پر قربان کرے۔ حسن (بصری) ہم سے کہا کرتے تھے : یہ آیت یٰٓا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط
ایک شخص کی وجہ سے اتری ہے، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ وہ شخص کون تھا۔
فرمایا: اگر وہ اس کے بارے میں بتانا چاہتے تو بتا دیتے لیکن وہ ڈرتے تھے۔ بلاشک و شبہ جبریل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترے۔
آگے چل کر فرمایا:
پھر جبریل نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی امت کو ان کے ولی ”علی “ سے آگاہ کریں جس طرح آپ نے ان کو نماز، زکات، روزے اور حج سے آگاہ کیا تھا تاکہ ان پر ان تمام چیزوں کے بارے میں حجت تمام ہو جائے۔
تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اے میرے رب میری قوم کو جاہلیت (کفر)سے خارج ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ان میں باہمی مقابلے اور فخر و غرور کا جذبہ موجود ہے۔ ان میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جسے اس کے دوست نے نہ جکڑ رکھا ہو۔
مجھے خوف محسوس ہوتا ہے (یعنی ان کی طرف سے تکذیب کا)۔
پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: یٰٓا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہط وَالله ُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۔
اے رسول(ص)! جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا۔
جب اللہ تعالیٰ نے آپ(ص) کو حفاظت کی ضمانت دی اور متنبہ کیا تو پھر آپ نے حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑا۔۳
حاکم حسکانی روایت کرتے ہیں کہ ابن عباسواقعہ معراج کے بارے میں کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا:
میں نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے لئے ایک وزیر بنایا۔ آپ اللہ کے رسول(ص) اور علی (ع) آپ(ص) کا وزیر ہیں۔
          ابن عباس  کہتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اترے تو لوگوں کو ان باتوں میں سے کسی چیز کے بارے میں بتانا آپ(ص) کو مناسب معلوم نہ ہوا کیونکہ لوگ جاہلیت (کفر) سے نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ راوی کہتا ہے: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چشم پوشی کرتے رہے یہاں تک کہ جب (ذی الحجہ کی) اٹھارویں تاریخ آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ(ص) پر یہ آیت اتاری: یٰٓا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط
پھر ابن عباس  کہتے ہیں:
آپ نے فرمایا: لوگو! اللہ نے مجھے ایک پیغام کے ساتھ تمہاری طرف بھیجا ہے اور میں اس مسئلے سے رنجیدہ خاطر ہوا تھا اس خوف سے کہ تم لوگ مجھ پر تہمت لگاؤ گے اور مجھے جھٹلاؤ گے یہاں تک کہ میرے رب نے اس مسئلے میں مجھے وحی کے ذریعے متنبہ کیا ہے اور میری سرزنش کی۴
حسکانی اور ابن عساکر ابوہریرہسے نقل کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے وحی کی:
یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک فی علی ابن ابی طالب وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ۔
یہاں ابو ہریرہ کی مراد یہ ہے کہ مقصد علی(ع) کے بارے میں نازل شدہ حکم کی تبلیغ تھا۔۵
حسکانی یوں نقل کرتے ہیں: عبداللہ  بن ابی اوفی سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ کہتے ہوئے سنا:
یٰٓا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط
ُ          اس کے بعد آپ(ص) نے حضرت علی(ع) اس کے دونوں ہاتھ بلند کئے یہاں تک کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ اس کے بعد فرمایا:
الا من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ
حضرت ابو سعید خدریروایت کرتے ہیں کہ یہ آیت علی ابن ابی طالب(ع) کی شان میں نازل ہوئی:
یٰٓا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط ۶
          حضرت ابن مسعود  سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں (اس آیت کو) یوں پڑھا کرتے تھے:
یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک ان علیاً مولی المومنین وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ
اے رسول(ص)، اللہ کی طرف سے نازل شدہ اس حکم کو پہنچاؤ کہ علی(ع) مومنین کے مولیٰ ہیں۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو تم نے رسالت پہنچائی ہی نہیں۷
حضرت ابن مسعودکی مراد یہ ہے کہ وہ عہد رسول(ص) میں قرآن کی تفسیر اس طرح کرتے تھے۔ یہ آیت غدیر خم میں اتری۔ ذیل میں واقعے کی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔
واقعہ غدیر خم
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجةالوداع سے لوٹے تو ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ کو آپ(ص) پر یہ آیت اتری:
یٰٓا اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط
تب رسول خدا جحفہ میں غدیر خم کے مقام پر اترے۔ ۸ یہیں سے مدینہ، مصر اورشام کے راستے الگ ہوتے تھے۔ آپ(ص) وہاں ٹھہر گئے یہاں تک کہ بعد والے وہاں آپ(ص) کے پاس پہنچ گئے اور آگے جانے والے لوٹائے گئے۔ آپ(ص) نے اصحاب کو اس کشادہ وادی میں پھیلے ہوئے ببول کے درختوں کے نیچے اترنے سے منع کیا۔ پھر آپ(ص) نے آدمی بھیج کر ان کے نیچے پڑے ہوئے کانٹوں کو جمع کیا۔ اس کے بعد نماز جامعہ کے لئے اترے اور ندائے عام دی گئی۔ پھر ان کا رخ کیا اور ببول کے ایک درخت پر کپڑا ڈال کر آفتاب کے آگے سایہ کر دیا۔ اس کے بعد حضور(ص) نے ایک کشادہ تالاب نما جگہ میں ظہر کی نماز ادا کی اور پھر کھڑئے ہو کر خطبہ دیا۔ آپ(ص) نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد تذکر دیا اور وعظ و نصیحت فرمائی اور کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد فرمایا:
قریب ہے کہ مجھے (اللہ کے ہاں سے) بلاوا آجائے اور میں لبیک کہوں بہ تحقیق میں ذمہ دار ہوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ہو۔ بتاؤ کیا کہتے ہو؟
وہ بولے :ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ(ص) نے تبلیغ رسالت کی ہے اور (لوگوں کو) سمجھایا ہے۔ پس اللہ آپ(ص) کو جزائے خیر دے۔
فرمایا:
کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(ص) اس کا بندہ اور رسول(ص) ہے نیز یہ کہ جنت برحق ہے اور جہنم برحق ہے۔
سب نے کہا: جی ہاں ہم ان باتوں کی شہادت دیتے ہیں۔
فرمایا: اے لوگو! میں پہلے جانے والا ہوں اور تم حوض پر میرے پاس پہنچو گے۔ بے شک اس حوض کا عرض بصرہ سے صنعاء جتنا ہے۔ اس میں چاندی کے پیالوں کی تعداد آسمان کے ستاروں کے برابر ہو گی۔ وہاں میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا۔ پس خوب سوچ لو کہ میرے بعد ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرو گے؟
پس ایک شخص نے آواز دی: اے اللہ کے رسول(ص) ثقلین سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: اللہ کی کتاب جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تم لوگوں کے ہاتھوں میں۔ پس اس سے متمسک رہو اس صورت میں نہ گمراہ ہو گے اور نہ بدل جاؤ گے۔ اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت ہیں۔ بے شک مجھے خدائے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر میرے پاس حاضر نہ ہوں۔ میں نے ان دونوں کے بارے میں اپنے رب سے اس بات کی دعا کی تھی۔ پس ان دونوں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ نیز ان دونوں کے معاملے میں کوتاہی بھی نہ کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور ان دونوں کو سکھانے کی کوشش نہ کرو کیونکہ وہ تم لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ ۹
اس کے بعد فرمایا:
کیا تمہیں علم نہیں ہے کہ میں مومنین پر خود ان سے زیادہ اختیار رکھتا ہوں؟
لوگوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول(ص)۔
فرمایا: کیا تم نہیں جانتے اور شہادت نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کی جان پر اس سے زیادہ اختیار کھتا ہوں؟
بولے: ہاں اے اللہ کے رسول(ص)۔
اس کے بعد آپ(ص) نے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ہاتھ دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اونچا کیا یہاں تک کہ لوگوں نے ان دونوں کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی۔ اس کے بعد فرمایا:
لوگو! اللہ میرا مولیٰ ہے میں تمہارا مولیٰ ہوں۔ پس جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا یہ علی(ع) مولیٰ ہے۔ اے اللہ تو اس شخص کو دوست رکھ جو اس کو دوست رکھے اور دشمنی کر اس سے جو اس سے دشمنی کرے۔ جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر اور جو اس سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ۔ ۱۰
اس کے بعد فرمایا:
خدایا گواہ رہ۔
پھر قبل اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی(ع) جدا ہوتے، یہ آیت اتری:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم ْوَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔ ۱۱
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔
اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا:
اللہ اکبر کہ دین کامل ہو گیا، نعمت پوری ہو گئی نیز پروردگار میری رسالت اور علی(ع) کی ولایت سے راضی ہو گیا۔ ۱۲
          تاریخ یعقوبی (باب مانزل من القرآن بالمدینة) میں مرقوم ہے: آپ(ص) پر سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت :اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ الخ
ہے اور یہ ایک صحیح اور مسلم حدیث ہے۔ اس آیت کا نزول غدیر خم میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب صلوات اللہ علیہ کی ولایت کے بارے میں اعلان کے موقع پر ہوا۔
اس کے بعد عمرابن خطاب آپ(ع) سے ملے اور بولے:
ھنیئاً لک یا ابن ابی طالب، اصبحت و امسیت مولی کل مومن و مومنة
اے فرزند ابوطالب آپ کو مبارک ہو کہ آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے۔ ۱۳
ایک اور روایت کی رہ سے حضرت عمرنے حضرت علی(ع) سے کہا:
بخ بخ لک یا بن ابی طالب
اے فرزند ابوطالبآپ کو مبارک ہو مبارک ہو۔
ایک اور روایت کی رو سے حضرت عمرنے کہا:
اے فرزند ابو طالبااپ کو مبارک ہو کہ آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولا ہو گئے۔ ۱۴
حضرت علی(ع) کی تاجپوشی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک عمامہ تھا جسے ”سحاب“ کہا جاتا تھا۔ آپ نے وہ عمامہ حضرت علیعلیہ السلام کو پہنایا، اس کا رنگ سیاہ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے خاص دنوں میں پہنا کرتے تھے مثلاً فتح مکہ کے دن۔ غدیر کے دن حضرت علی(ع) کی تاجپوشی کی کیفیت کے بارے
میں کہا گیا ہے: عبدالاعلی بن عدی بہرانی سے مروی ہے کہ اس نے کہا:
رسول اللہ (ص) نے غدیر کے دن علی(ع) کو بلایا پھر انہیں عمامہ پہنایا اور عمامے کا سرا پشت کی طرف لٹکا دیا۔ ۱۵
نیز مروی ہے کہ علی علیہ اسلام نے فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن مجھے ایک سیاہ عمامہ پہنایا جس کا کنارا میرے پہلو کی طرف لٹک رہا تھا۔ ۱۶
مسند طیالسی اور سنن بیہقی میں مرقوم ہے کہ آپ(ع) نے کہا: غدیر خم کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ایک عمامہ پہنایا اور اس کا کنارا میری پشت کی طرف لٹکایا۔ پھر فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے بدر و حنین میں میری مدد ایسے فرشتوں کے ذریعے کی جو اس طرح سے عمامہ زیب تن کئے ہوئے تھے۔
اس کے بعد فرمایا:
عمامہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان ایک حد فاصل ہے۱۷
          حضرت علی علیہ السلام سے ہی منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ(ع) کو اپنے ہاتھوں سے عمامہ پہنایا اور عمامے کے کنارے آپ(ص) کی پشت کی جانب اور آگے کی جانب لٹکا دئیے۔ اس کے بعد نبی نے آپسے فرمایا: پیچھے مڑ جاوٴ۔پس آپ مڑ گئے۔ پھر فرمایا:
سامنے رخ کرو۔ پس آپ سامنے ہو گئے۔ اس کے بعد آپ نے اصحاب کا رخ کیا اور آپ نے فرمایا:
فرشتوں کے تاج اس طرح کے ہوتے ہیں۔
حضرت ابن عباس  سے مروی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) کو سحاب پہنایا تو ان سے فرمایا:
اے علی(ع)! عمامے عرب کے تاج ہیں۔ ۱۸
مروی ہے کہ عبداللہ  ابن بشر نے کہا: غدیر خم کے دن نبی پاک(ص) علی(ع) کو بلا لائے پھر آپ نے انہیں عمامہ پہنایا اور عمامے کا کنارہ دونوں کندھوں کے درمیان لٹکایا۔ اس کے بعد فرمایا:
میرے رب نے جنگ حنین کے دن اس قسم کے عمامہ پوش فرشتوں کے ذریعے میری مدد کی جو عماموں کے کنارے لٹکائے ہوئے تھے۔ یہ (عمامہ) مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان ایک دیوار ہے۔ ۱۹
 
حوالہ جات
۱ سورة المائدہ آیت ۶۷         
۲ شواھد التنزیل حسکلانی ج۱ صفحہ ۱۹۲ حدیث ۲۴۹ طبع بیروت ۱۳۹۳ئھ
۳شواھد التنزیل ج۱ صفحہ ۱۹۱
۴شواھد التنزیل ج۱ صفحہ ۱۹۲، ۱۹۳        
۵ شواھد التنزیل ج۱ صفحہ ۱۸۷، تاریخ دمشق ۴۳ صفحہ ۳۵۲۔
۶ شواھد التنزیل ج۱ صفحہ ۱۹۱، اسباب النزول صفحہ ۱۳۵، درمنثور ج۲ صفحہ ۲۹۸، تفسیر فتح القدیر ج۲ صفحہ ۵۷، غرائب القرآن نیشاپوری ج۶ صفحہ ۱۹۴۔
۷ در منثور ج۳ صفحہ ۲۹۸            
۸ مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۶۳،۱۶۵، البدایہ والنہایہ ج۵ صفحہ ۲۰۹، ۲۱۳
۹ مجمع الزوائد ج۹ صفحة ۱۶۲،۱۶۳، مستدرک حاکم ج۳ صفحہ ۱۰۹،۱۱۰، البدایہ والنہایہ ج۵ صفحہ ۲۰۹
۱۰ مسند احمد ج۱ صفحہ ۱۱۸، ۱۱۹، ج۴ صفحہ ۲۸۱، سنن ابن ماجہ ج۱ صفحہ ۴۳ حدیث ۱۱۶، البدایہ والنہایہ ج۵ صفحہ ۲۰۹، ۲۱۲، شواھد التنزیل ج۱ صفحہ ۱۹۰
۱۱ سورہ مائدہ آیت ۳
۱۲ حضرت ابو سعید خدریسے روایت ہے شواھد التنزیل ج۱ صفحہ ۱۵۷، ۱۵۸، حدیث ۲۱۱، ۲۱۲ حضرت ابو ہریرہ سے بھی روایت ہے شواھد التنزیل صفحہ ۱۵۸ حدیث ۲۱۳، البدایہ والنہایہ ج۵ صفحہ ۲۱۴
۱۳ تاریخ یعقوبی ج۲ صفحہ ۴۳، مسند احمد ج۴ صفحہ ۲۸۱، البدایہ والنہایہ ج۵ صفحہ ۲۱۰
۱۴ شواھد التنزیل ج۱ صفحہ ۱۵۷ مسند احمد ج۴ صفحہ ۲۸۱، سنن ابن ماجہ باب فضائل علی، الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۱۲۹، البدایہ والنہایہ ج۵ صفحہ ۲۱۰
۱۵ زاد المعاد بھامش مواھب اللدنیہ زرقانی ج۱ صفحہ ۱۲۱، صحیح مسلم کتاب الحج حدیث ۴۵۱، ۴۵۲۔ سنن ابی داؤد ج۴ صفحہ ۵۴ باب فی العمائم، شرح الزرقانی ج۵ صفحہ ۱۰، الریاض النضرة ج۲ صفحہ ۲۸۹، اسد الغابہ ج۳ صفحہ ۱۱۴
۱۶ الاصابہ ج۲ صفحہ ۲۷۴ در حالات عبد اللہ بن بشر۔
۱۷ کنز العمال ج۲۰ صفحہ ۴۵، مسند ابی داؤد طیالسی ج۱ صفحہ ۲۳، السنن الکبریٰ بیہقی ج۱۰ صفحہ ۱۴
۱۸ کنز العمال ج۲۰ صفحہ ۴۵۔
۱۹ الاصابہ ج۲ صفحہ ۲۷۴ ترجمہ عبداللہ بن بشر نمبر ۴۵۶۶

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.