ائمہ اہل بیت (ع)کی امامت
ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت احادیث رسول(ص) کی روشنی میں
پیغمبر اسلام(ص) کے بعد امت مسلمہ کے درمیان اہل بیت کی امامت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمودات زیادہ ہیں۔ ان میں سے کچھ آئمہ اہل بیتکے بارے میں ہیں اور کچھ بعض اماموں کے ساتھ مختص ہیں۔ تمام آئمہ کے ذکر پر مشتمل احادیث میں سے ایک حدیث ثقلین ہے۔
حدیث ثقلین
الف۔ حجة الوداع کے موقع پر
حضرت جابر نے کہا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو حج کے دوران عرفہ کے دن دیکھا۔ آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے سنا آپ فرما رہے تھے:
یا ایھا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا کتاب الله و عترتی اہل بیتی۔
اے لوگو! بلاشبہ میں تم میں وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ چیز اللہ کی کتاب اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت ہیں۔
ترمذی کہتے ہیں اس بارے میں ابوسعیدخدری، زیدبن ارقم اور حذیفہبن اسید کی روایات بھی منقول ہیں۔ ۱
ب۔ غدیر خم میں
صحیح مسلم، مسند احمد، سنن درامی، بیہقی اور دیگر کتب میں ایک روایت مرقوم ہے جسے ہم صحیح مسلم کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں۔ حضرت زید بن ارقم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان خم نامی مقام پر جہاں پانی تھا خطبہ دیا پھر فرمایا:
الا یا ایھا الناس فانما انا بشر یوشک ان یاتی رسول ربی فاجیب وانی تارک فیکم ثقلین اولھما کتاب لله فیہ الہدی والنور فخذوا بکتاب الله واستمسکوا بہ ۲واھل بیتی
اے لوگو آگاہ رہو کہ میں تو بس ایک انسان ہوں۔ قریب ہے کہ میرے رب کا فرستادہ آجائے اور میں (داعی اجل کو) لبیک کہوں۔ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ پہلی چیز تو اللہ کی کتاب ہے جو ہدایت نور پر مشتمل ہے۔ پس اللہ کی کتاب (کا دامن) پکڑو اور اسے مضبوطی سے تھام لو اور (دوسری چیز) میرے اہل بیت ہیں
سنن ترمذی کے الفاظ یہ ہیں:
انی تارک فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا بعدی احدھما اعظم من الاخر کتاب الله حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اہل بیتی ولن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظروا کیف تخلفوننی فیھما۔ ۳
میں تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں جس سے جب تک تمسک رکھو گے گمراہ نہ ہو گے۔ ان میں سے ایک چیز دوسری سے بڑی ہے۔ ایک تو اللہ کی کتاب ہے جو آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی (اللہ کی ) رسی ہے اور (دوسری ) میری عترت یعنی میرے اہل بیتمیں۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے جب تک حوض پر میرے ہاں حاضر نہ ہوں۔ اب سوچ لو کہ میرے بعدان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرو گے۔
مستدرک الصحیحین میں ہے
کانی قد دعیت فاجبت انی تارک فیکم الثقلین احدھما اکبر من الاخر کتاب الله و عترتی فانظروا کیف تخلفوننی فیھما فانھما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض۔ ۴
گویا میں داعی اجل کو لبیک کہنے والا ہوں۔ میں تمہارے ہاں دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ وہ ہیں کتاب خدا اور میرا گھرانہ۔ پس سوچ لو کہ میرے بعد ان دونوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرو گے۔ بیشک یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے جب تک حوض پر میری خدمت میں حاضر نہ ہو جائیں۔
ایک دوسری روایت میں ہے:
ایھا الناس انی تارک فیکم امر ین لن تضلوا ان اتبعتموھما وھما کتاب الله و اھل بیتی عترتی۔
لوگو میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں اگر ان دونوں کا اتباع کرو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے۔ یہ دونوں کتاب اللہ اور میرے اہل بیت یعنی میری عترت سے عبارت ہے۔
امام حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے اور بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق ہے۔ یہی حدیث اس سے مختلف الفاظ میں مسند احمد، حلیہ الاولیاء اور دیگر کتب میں حضرت زیدبن ثابت سے مروی ہے۔ ۵
گزشتہ حدیث میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سال یہ خبر دی کہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کا فرستادہ آجائے اور آپ(ص) داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے جوار پروردگار میں چلے جائیں۔ نیز آپ (ص) نے فرمایا :
میں تمہارے پاس ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں جس سے تمسک کی صورت میں میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہو گے۔ ان میں سے ایک چیز دوسری سے زیادہ عظیم ہے۔ ایک اللہ کی کتاب ہے جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی اللہ کی رسی ہے اور دوسری چیز میری عترت یعنی میرے اہل بیت ہیں۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر میرے ہاں حاضر ہو جائیں۔ پس دیکھو کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرو گے؟
یہ بات حضور(ص) نے ایک دفعہ عرفات میں اور دوسری بار غدیر خم میں فرمائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت کے مرجع و رہبر کی تعیین کیلئے حضور(ص) کا یہ صریح فرمان آپ(ص) کی عترت کے تمام اماموں کو شامل ہے۔ اس کے علاوہ درج ذیل روایات بھی سارے آئمہ اہل بیت علیہم السلام کو شامل ہیں۔
اماموں کی تعداد احادیث رسول(ص) کی روشنی میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ(ص) کے بعد آنے والے اماموں کی تعداد بارہ ہو گی۔ جیسا کہ صحیح اورمسانید کے درج ذیل مولفین نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔
الف۔ مسلم نے جابربن سمرہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:
لا یزال الدین قائماً حتی تقوم الساعة او یکون علیکم اثنا عشر خلیفة کلھم من قریش۔
دین اس وقت تک باقی رہے گا جب تک قیامت نہ آجائے یا تمہارے لئے بارہ جانشین نہ آجائیں جو سب کے سب قریشی ہوں گے۔
ایک اور روایت میں مذکور ہے:
لا یزال امر الناس ماضیاً
لوگوں کا قافلہ زندگی چلتا رہے گا الخ۔
ان دونوں حدیثوں میں مذکور ہے:
الی اثنی عشر خلیفةبارہ خلیفوں تک
سنن ابوداؤد میں مروی ہے:
حتی یکون علیکم اثنا عشر خلیفة
جب تک تمہارے لئے بارہ خلیفے نہ آجائیں۔
ایک اور حدیث میں ہے:
الی اثنا عشر (بارہ تک) ۶
بخاری کی روایت کے مطابق راوی کہتا ہے:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے سنا:
بارہ امیر ہوں گے۔ اس کے بعد ایک لفظ فرمایا جو مجھے سنائی نہیں دیا۔ پس میرے باپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:وہ سب قریشی ہیں۔
ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں:
پھر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ فرمایا جو میری سمجھ میں نہیں آیا۔ پس میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ رسول(ص) نے کیا فرمایا؟ انہوں نے جواب دیا:آپ نے فرمایا وہ سب قریش سے ہیں۔
ایک روایت ہے:
لاتضرھم عداوة من عاداھم
دشمنوں کی عداوت ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔
ب۔ مروی ہے کہ اس امت کا معاملہ سدھر ا رہے گا اور یہ دشمنوں پر غالب رہے گی یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء گزر جائیں۔ یہ سب قریش سے ہوں گے۔ اس کے بعد گڑبڑ اور افراتفری کا دور ہو گا۔
ج۔ ایک روایت میں مذکور ہے
یکون لھذہ الامة اثنا عشر قیما لا یضرھم من خذلھم کلھم من قریش۔
اس امت کے بارہ سرپرست ہوں گے۔ انہیں چھوڑ دینے والے انہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ وہ سب قریش سے ہوں گے۔
د۔ لا یزال امر الناس ماضیاً ماولیھم اثناعشر رجلاً
لوگوں کا کاروبار حیات چلتا رہے گا جب تک بارہ افراد ان کی سرپرستی کرتے رہیں۔
ہ۔ انس سے منقول ہے:
یہ دین قائم و دائم رہے گا قریش کے بارہ افراد تک۔ جب یہ لوگ دنیا سے چلے جائیں گے تو دنیا اس میں موجود لوگوں کے ساتھ درہم برہم ہو کر رہ جائے گی۔
و۔ ایک اور روایت میں منقول ہے:
لایزال امر ھذہ الامة ظاھرا حتی یقوم اثنی عشر کلھم من قریش۔
اس امت کا بول بالا رہے گا یہاں تک کہ بارہ ہستیاں اس کی نگہبانی کریں جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔
ز۔ احمد، حاکم اور دوسرے مورخین نے ایک روایت نقل کی ہے جو احمد کے الفاظ میں یوں ہے۔ مروی ہے کہ مسروقنے کہا:
ہم ایک شب (عبداللہابن مسعود) کے پاس اکٹھے تھے اور وہ ہمیں قرآن پڑھا رہے تھے۔ ایک شخص نے پوچھا: اے ابو عبدالرحمان! کیا لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں پوچھا کہ اس امت کے کتنے خلفاء ہوں گے؟
عبداللہ نے کہا: جب سے میں عراق آیا ہوں تجھ سے پہلے کسی نے مجھ سے یہ سوال نہیں کیا۔ ہم نے حضور(ص) سے پوچھا تو فرمایا: وہ بنی اسرائیل کے نقیبوں کی تعداد کے برابر یعنی بارہ ہوں گے۔ ۷
ح۔ ایک روایت میں ابن مسعودسے مروی ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا؛
یکون بعدی من الخلفاء عدة اصحاب موسی۔
یعنی میرے بعد خلفاء کی تعداد اصحاب موسیٰ کے برابر ہو گی۔
ابن کثیر نے کہا ہے: اسی طرح کی روایت عبداللہ بن عمر، حذیفہاور ابن عباسسے منقول ہے۔ ۸ شاید ابن عباس کی روایت سے ابن کثیر کی مراد وہی روایت ہو جسے حاکم حسکانی نے ابن عباساور دوسروں سے نقل کی ہے۔
مذکورہ بالا احادیث نے صریحاً بتا دیا ہے کہ خلفاء کی تعداد بارہ ہے اور وہ سب قریشی ہیں۔ ادھر حضرت علی (ع) نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ قریش سے کیا مراد ہے۔ آپفرماتے ہیں:
ان الائمة من قریش غرسوا فی ھذا البطن من ھاشم لا تصلح علی سواھم ولا یصلح الولاة غیرھم۔
بلا شبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کھیتی سے ابھریں گے۔ نہ امامت ان کے سوا کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے سوا کوئی اس کا اہل ہو سکتا ہے۔
نیز حضرت علی(ع) نے ہی فرمایا:
ہاں زمین ایسے فرد سے خالی نہیں رہتی جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے۔ خواہ وہ لوگوں کی نظروں میں ظاہر اور مشہور ہو یا خائف و پنہاں تاکہ اللہ تعالیٰ کے دلائل اور روشن نشانیاں مٹنے نہ پائیں۔ ۹
ابن کثیر کہتے ہیں:
اہل کتاب کے ہاں موجود توراة میں یہ مطلب موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل کی بشارت دی اور یہ بشارت بھی دی کہ وہ ان کی نسل کو خوب پھیلائیں گے۔ خدا ان کی ذریت سے بارہ عظیم انسان پیدا کرے گا۔
ابن کثیر نے یہ بھی کہا ہے:
ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ حضرت جابربن سمرہ کی حدیث میں جن لوگوں کی بشارت دی گئی ہے وہ یہی لوگ ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ یہ ہستیاں امت کے درمیان پراگندہ ہوں گی اور جب تک یہ لوگ نہ آئیں گے قیامت برپا نہیں ہو گی۔
پھر کہتے ہیں:
بہت سے یہودی جو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اس غلط نظرئیے کا شکار ہو گئے کہ یہ ہستیاں وہی ہیں جن کی ترویج رافضی فرقہ کرتا ہے یوں وہ ان کے پیروکار ہو گئے۔ ۱۰
مذکورہ بالا بشارت کا تذکرہ توراة کی کتاب التکوین ۱۱ میں مذکور ہے۔
مذکورہ بالا احادیث کا ماحصل
گزشتہ احادیث کا خلاصہ اور ماحصل یہ ہے کہ اس امت کے اماموں کی تعداد بارہ ہے اور بارہویں امام کے بعد اس دنیا کا خاتمہ ہو گا کیونکہ پہلی حدیث میں آیا ہے:
لا یزال ھذا الدین قائماً حتی تقوم الساعة او یکون علیکم اثنا عشر خلیفة۔
یہ دین قائم رہے گا تا آنکہ قیامت آ جائے یا بارہ خلیفے آجائیں۔
یہ حدیث دین کی عمر کو معین کرتی ہے اور قیام قیامت کو اس کی آخری حد قرار دیتی ہے نیز اس امت کے اماموں کی تعداد بھی بارہ معین کرتی ہے۔
پانچویں حدیث کے مطابق بارہ قریشی ہستیوں تک یہ دین قائم رہے گا اور ان کی وفات کے ساتھ زمین اور اس کے مکین زیر و زبر ہو جائیں گے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک یہ بارہ ہستیاں ہیں، دین باقی رہے گا اور ان کے بعد زمین زیر و زبر ہو جائے گی۔
آٹھویں حدیث نے ائمہ کی تعداد کو بارہ معین کیا اور کہا:
یکون بعدی من الخلفاء عدة اصحاب موسی۔
میرے بعد خلفاء کی تعداد اصحاب موسی جتنی ہو گی۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول کریم علیہ الصلوة و التسلیم کے بعد انہی بارہ ہستیوں کے علاوہ کوئی اور خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ ان احادیث کے الفاظ سے (جو واضح طور پر آئمہ کی تعداد کو بارہ ہستیوں میں محدود کرتی ہیں اور صریحاً کہتی ہیں کہ ان کے بعد ہرج و مرج ہو گا، زمین زیر و زبر ہو گی اور قیامت برپا ہو گی) بعض دیگر احادیث کے الفاظ کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے جو مذکورہ بالا احادیث کی طرح واضح اور صریح نہیں ہیں۔
بنابریں ان بارہ اماموں میں سے ایک کی عمر کا عام انسانوں کی عمروں کے مقابلے میں غیر معمولی طور پر طویل ہونا ضروری ہے۔ جیسا کہ اس وقت بارہویں امام اور وصی رسول(ص) کی عمر اس حقیقت کی شاہد ہے۔
مذکورہ احادیث کیتفسیر میں مکتب خلفاء کی پریشانی
مکتب خلفاء کے علماء مذکورہ احادیث میں ذکر شدہ بارہ کی تعداد کی وضاحت کے معاملے میں پریشانی اور شش و پنج کا شکار ہوئے ہیں۔ اس مسئلے میں ان کے اقوال متضاد ہیں۔
چنانچہ ابن عربی سنن ترمذی کی شرح میں کہتے ہیں:
ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بارہ خلفاء کو شمار کرنا چاہا تو یہ نظر آئے: ابوبکر، عمر، عثمان، علی، حسن، معاویہ، یزید، معاویہ بن یزید، مروان، عبدالملک بن مروان، ولید، سلیمان، عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالمک، مروان بن محمد بن مروان، سفاح
ان کے بعد ابن عربی اپنے دور کے ستائیس عباسی خلفاء کو گنواتے ہیں اور کہتے ہیں:
اگر ہم ان تمام میں سے بارہ کا عدد پورا کرنے کی کوشش کریں تو ظاہری طور پر سلیمان پر ختم ہو جاتا ہے اور اگر ہم معنوی نقطہ نظر سے گننا شروع کریں تو ان سب میں ہمارے پاس پانچ رہ جاتے ہیں اور وہ ہیں خلفاء اربعہ اور عمربن عبدالعزیز۔ یوں حدیث کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ۱۲
قاضی عیاض اس اعتراض کے جواب میں کہ بارہ سے زیادہ لوگوں نے امارت سنبھالی ہے، کہتے ہیں:
یہ اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ فقط بارہ افراد خلافت سنبھالیں گے اور بارہ نے خلافت سنبھالی بھی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ ۱۳
ادھر سیوطی نے یہ جواب نقل کیا ہے:
مقصود یہ ہے کہ قیامت تک اسلام کے پورے دور میں حق کے مطابق عمل کرنے والے بارہ خلفاء ہوں گے اگرچہ وہ پے در پے نہ آئیں۔
فتح الباری میں مرقوم ہے:
ان میں سے خلفاء اربعہ گزر چکے ہیں اور قیامت سے پہلے اس تعداد کا مکمل ہونا ضروری ہے۔
ابن جوزی کہتے ہیں:
بنابرایں ثم یکون الھرج ”اس کے بعد افراتفری ہو گی“۔ سے مراد خروج دجال وغیرہ کے بعد رونما ہونے والے فتنے ہیں جو گویا قیامت برپا ہونے کا اعلان ہیں۔ ۱۴
سیوطی کہتے ہیں:
بارہ میں سے چار خلفاء، حسن ، معاویہ، ابن زبیر اور عمربن عبدالعزیز جو مجموعی طور پر آٹھ بنتے ہیں آچکے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے ساتھ مہدی عباسی بھی ملحق ہو کیونکہ اس کی مثال عباسیوں میں اس طرح ہے جس طرح امیوں میں عمر بن عبدالعزیز کی۔ نیز شاید طاہر عباسی بھی اپنی عدالت کے باعث ان سے ملحق ہو۔ اس حساب سے دو امام بن جاتے ہیں جو ابھی نہیں آئے۔ ان میں سے ایک مہدی ہیں، کیونکہ وہ اہل بیت میں سے ہیں۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ ان بارہ ہستیوں سے مراد وہ ہیں جو اسلام کی شان وشوکت اور خلافت کی بالادستی کے دور میں آئیں اور جن کے دور میں اسلام کو طاقت ملے اور سارے مسلمان ان پر اتفاق کریں۔ ۱۵
ابن کثیر اپنی تاریخ میں بیہقی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
ان صفات کی حامل مذکورہ تعداد ولید بن یزید بن عبدالملک تک
پوری ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد افراتفری اور زبردست فتنہ و فساد کا دور آیا اور پھر عباسیوں کی حکومت بنی۔ کچھ لوگ حدیث میں مذکور تعداد کو اس صورت میں بڑھا دیتے ہیں بشرطیکہ مذکورہ صفت کو حذف کر لیا جائے یا مذکورہ افراتفری کے بعد آنے والوں کو بھی شمار کیا جائے۔ ۱۶
یہ حضرات کہتے ہیں کہ جن خلفاء پر سب کا اتفاق ہو وہ ان سے پہلے تو خلفائے ثلاثہ ہیں اور پھر علی(ع)۔ جب جنگ صفین میں حکمین کا واقعہ پیش آیا تو اس دن سے معاویہ بھی خلفاء کی صف میں شامل ہو گیا اور پھر امام حسنکے ساتھ صلح کے بعد معاویہ پر اتفاق ہوگیا پھر اس کے بیٹے یزید پر اتفاق ہو گیا لیکن امام حسین کی حکومت کا معاملہ نہ سدھر سکا اور وہ اس سے قبل قتل ہو گئے۔ معاویہ کے بعد اختلاف کا شکار ہو گئے یہاں تک کہ عبدالملک بن مروان پر عبداللہ بن زبیر کے قتل کے بعد اتفاق ہو گیا۔ عبدالملک کے بعد اس کے چار بیٹوں ولید، سلیمان، یزید اور ہشام پر بھی یکے بعد دیگرے اتفاق ہو گیا۔ البتہ سلیمان او یزید کے درمیان عمربن عبدالعزیز آئے۔ بارہواں خلیفہ ولید بن یزد بن عبدالملک ہے جس پر ہشام کے بعد لوگوں نے اتفاق کر لیا۔ ولیدنے چار سال حکومت کی۔ ۱۷
بنا برین ان بارہ افراد کی خلافت صحیح اور درست تھی کیونکہ مسلمانوں نے اس پر اتفاق کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بشارت دی تھی کہ لوگ آپ کے جانشین بن کر اسلام کو لوگوں تک پہنچائیں گے۔
ابن حجر اس نقطہ نظر کے بارے میں کہتے ہیں:
یہ سب سے زیادہ قابل قبول صورت ہے۔
ابن کثیر کا بیان ہے: بیہقی نے جو نظریہ پیش کیا ہے اور بعض لوگوں نے اس کی موافقت کر لی ہے او ر کہا ہے کہ (بارہ سے) مراد ولید بن یزید بن عبدالملک (وہی فاسق ولید جس کی مذمت میں ہم پہلے گفتگو کر چکے ہیں) تک یکے بعد دیگرے آنے والے خلفاء ہیں وہ قابل اعتراض ہے کیونکہ ولید بن یزید بن عبدالملک تک آنے والے خلفاء ہر صورت میں بارہ ہی بنتے ہیں۔ اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ پہلے چار خلفاء یعنی ابوبکر،عمر،عثمان، علی کی خلافت مسلم ہے ان کے بعد حسن بن علی کی خلافت کا بھی یہی حال ہے کیونکہ وہ علی کی وصیت سے خلیفہ بنے اوراہل عراق نے ان کی بیعت کی (یہاں تک کہ ان کے او ر معاویہ کے درمیان صلح ہو گئی)۔
معاویہ کے بعد اس کے بیٹے یزید اور اس کے بعد یزید کے بیٹے معاویہ پھر مروان بن حکم اور اس کے بعد عبدالملک بن مروان پھر اس کے بیٹے ولید پھر سلیمان بن عبدالملک پھر عمربن عبدالعزیز، پھر یزید بن عبدالملک اور پھر ہشام بن عبدالملک خلیفہ بنے۔ یہ کل پندرہ ہوئے۔ ان کے بعد ولید بن یزید بن عبدالملک کا دور آیا۔ اگر ہم عبدالملک سے پہلے عبداللہ بن زبیر کو بھی شامل کر لیں تو اس کی تعداد سولہ بنتی ہے۔ بہرحال عمر بن عبدالعزیز سے قبل ان کی تعداد بارہ ہو جاتی ہے۔ اس حساب سے ان بارہ افراد میں یزید بن معاویہ شامل ہوتا ہے اور عمربن عبدالعزیز شامل نہیں ہوتے حالانکہ عمربن عبدالعزیز کی خوبیوں کے سب ہی معترف ہیں اور سبھی ان کی تعریف کرتے ہیں۔ چنانچہ لوگ انہیں خلفاء راشیدین میں شمار کرتے ہیں۔ تمام لوگوں کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ وہ عادل تھے اور ان کا دور حکومت عدل و انصاف کا سب سے سنہری دور تھا۔ یہاں تک کہ رافضی لوگ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔ اگر بیہقی یہ کہے: میرے نزدیک صرف وہی خلیفہ معتبر ہے جس پر امت کا اجماع قائم ہوا ہو تو پھر اس قول کی رو سے یہ بات لازم آئے گی کہ علی (ع) ابن ابی طالب اور ان کے بیٹے کو شمار نہ کیا جائے کیونکہ ان دونوں پر سارے مسلمانوں نے اتفاق نہیں کیا تھا۔ چنانچہ شامیوں میں سے کسی نے ان کی بیعت نہیں کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ معاویہ، اس کے بیٹے یزید پھر اس کے بیٹے معاویہ کو بھی شمار کرتے ہیں لیکن مروان اور ابن زبیر کو شمار نہیں کرتے کیونکہ امت نے ان دونوں پر اتفاق نہیں کیا تھا۔ اس قول کی رو سے ہمیں یہ کہنا ہو گا کہ ان کی مراد خلفائے ثلاثہ پھر معاویہ پھر یزید پھر عبدالملک پھر ولید پھر عمر ابن عبدالعزیز پھر یزید اور ہشام ہیں جو دس بنتے ہیں۔ ان کے بعد ولید بن یزید بن عبدالملک فاسق کو شمار کرنا ہو گا۔ لیکن اس قول کی رو سے علی(ع) اور ان کے بیٹے حسنکو خارج کرنا پڑے گا حالانکہ یہ بات اہل سنت کے اماموں کی صریحی بیانات کی نفی کرتی ہے اور شیعوں کے نظرئیے کی بھی۔ ۱۸
ابن جوزی نے کشف المشکل میں درج ذیل دو جواب نقل کئے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حدیث میں اپنے اور اپنے اصحاب کے دور کے بعد آنے والے خلفاء کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور چونکہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کے بعد والی امارتوں کا بھی ذکر کیاہے۔ گویا آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اشارہ بنی امیہ کے خلفاء کی تعداد کی طرف تھا اور آپ(ص) کا یہ فرمانا: لا یزال الدین الخ۔دین اس وقت تک باقی رہے گا۔ سے مراد یہ ہے کہ بارہ خلفاء تک امارت باقی رہے گی اس کے بعد پہلے سے زیادہ سخت صورت اختیار کر جائے گی۔ بنی امیہ کا پہلا خلیفہ یزید بن معاویہ ہے اور آخری مروان الحمار۔ ان کی تعداد تیرہ بنتی ہے۔ عثمان، معاویہ اور ابن زبیر کا شمار ان میں نہیں ہو گا کیونکہ وہ اصحاب رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ اگر ہم مروان بن حکم کو اس کے صحابی ہونے کے بارے میں اختلاف کی بناپر یا لوگوں کی طرف سے عبداللہ بن زبیر کی حمایت کے باوجود اس سے زبردستی حکومت چھیننے کی بنا پر خلفاء کی صف سے نکال لیں تو پھر تعداد پوری ہوجاتی ہے۔ نبی امیہ کے ہاتھوں سے خلافت نکلتے وقت عظیم فتنوں نے سر اٹھایا اور زبردست جنگیں ہوئیں یہاں تک کہ عباسیوں کی حکومت قائم ہو گئی پھر سابقہ حالات میں واضح تبدیلی آگئی۔ ۱۹
ابن حجر نے فتح الباری میں اس استدلال کورد کیا ہے۔ ابن جوزی نے امام مہدی کے بارے میں ابو الحسین بن منادی کی تالیف سے دوسری صورت کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے:
ممکن ہے کہ مہدی آخرالزمان کے بعد ایسا ہو کیونکہ میں نے دانیال کی تحریر میں دیکھا ہے کہ جب امام مہدی کی وفات ہو گی تو بڑے نواسے کی اولاد سے پانچ افراد حکومت کریں گے اور پھر چھوٹے نواسے کی اولاد سے پانچ حکومت کریں گے پھر ان کا آخری فرد بڑے نواسے کی ذریت میں سے کسی کو خلافت کی وصیت کرے گا جس کے بعد اس کا بیٹا حکومت کرے گا۔ یوں بارہ حکمرانوں کی تعداد پوری ہو جائے گی۔ ان میں سے ہر ایک امام مہدی ہو گا۔
پھر کہتے ہیں:
ایک روایت ہے کہ پھر اس کے بعد بارہ افراد حکومت کریں گے! چھ حسن کی اولاد سے اور پانچ حسین کی ذریت سے اور ایک شخص ان کے علاوہ بھی حکومت کرے گا پھر وہ مر جائے گا اور زمانہ بگڑ جائے گا۔
ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں اس آخری روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
یہ روایت نہایت ضعیف ہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ۲۰
کچھ لوگوں نے کہا ہے:
گمان غالب یہی ہے کہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے(اس حدیث میں) اپنے بعد رونما ہونے والے حیرت انگیز فتنوں کی خبر دی ہے اور بتایا ہے کہ ان فتنوں کے نتیجے میں لوگ بیک وقت بارہ مختلف حکمرانوں کی قیادت میں بٹ کر رہ جائیں گے۔ اگر حضور(ص) کی مراد کچھ اور ہوتی تو فرماتے کہ بارہ امراء آئیں گے اور وہ ایسا ایسا کریں گے۔ لیکن چونکہ آپ (ص) نے ان کے بارے میں ایسا نہیں فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب ایک ہی دور میں آئیں گے۔۲۱
یہ حضرات کہتے ہیں:
پانچویں صدی ہجری میں ایسا ہی ہوا کیونکہ صرف اندلس میں چھ افراد ایسے تھے جن میں سے ہر ایک کو خلیفہ کہا جاتا تھا۔ان کے ساتھ ہی مصر کے حکمران اور بغداد کی عباسی حکومت کو بھی خلافت کا دعوی تھا۔ ان کے علاوہ دنیا کے مختلف حصوں میں علوی حضرات اور خوارج بھی خلافت کے دعویدار تھے۔ ۲۲
ابن حجر کا بیان ہے:
یہ اس شخص کی بات ہے جسے بخاری کی ایک روایت کے سوا کسی حدیث کی سند سے کوئی سروکار نہ رہا ہو اسی طرح
پھر کہا ہے:
ان لوگوں کا ایک ہی عصر میں موجود ہونا بذات خود افتراق کا باعث ہے۔ بنابریں حدیث سے مراد یہ صورت نہیں ہو سکتی۔۲۳
گزشتہ احادیث اور اس طرح کی دیگر احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد امت کے سربراہ کی واضح طور پر نشاندہی فرمائی ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ یہ ہستیاں آپ کی
عترت اور اہل بیت ہیں اور ان کی تعداد بارہ ہے۔
خلاصہ یہ کہ مکتب خلفاء کے علماء مذکورہ حدیث کی تفسیر میں ایک رائے پر متفق نہیں ہو سکے۔ معلوم نہیں ان میں سے کسی نے یہ کیوں نہیں کہا کہ مکتب اہل بیت اس حدیث کے مصادیق سے آگاہ ہے اور اہل بیت رسول(ص) سے بارہ اماموں کی صورت میں مذکورہ تعداد پوری کرنے کے لئے ان کے پاس حل موجود ہے اور یہ تعداد ان کے علاوہ دوسروں کے ذریعے پوری نہیں ہوتی جیسا کہ ہم اوپر ملاحظہ کر چکے۔لہذا یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ نبی کریم علیہٰ الصلوة والتسلیم کے بعد حدیث ائمہ اثنا عشر کے حقیقی مصداق یہی بارہ ائمہ اہل بیت ہی ہیں۔
حوالہ جات
۱ سنن ترمذی باب مناقب اھل بیت النبی، کنز العمال ج۱ صفحہ ۴۸
۲ صحیح مسلم باب فضائل علی بن ابی طالب، مسند احمد ج۴ صفحہ ۳۶۶، سنن درامی ج۲ صفحہ ۴۳۱، السنن الکبریٰ بیہقی ج۲ صفحہ ۱۸، مشکل الآثار طحاوی ج۴ صفحہ ۳۶۸
۳ سنن ترمذی ج۱۳ صفحہ ۲۰۱، اسد الغابہ ج۲ صفحہ ۱۲۔
۴ مستدرک مع تلخیص ذہبی ج۳ صفحہ ۱۰۹، مسند احمد ج۳ صفحہ ۱۷، طبقات ابن سعد ج۲ صفحہ ۲، کنز العمال ج۱ صفحہ ۴۷،۴۸
۵ مستدرک الصحیحین ج۳ صفحہ ۱۰۹، ۱۴۸، مسند احمد ج۴ صفحہ ۳۶، ۳۷۱، ج۵ صفحہ ۱۸۱، تاریخ بغداد ج۸ صفحہ ۴۴۲، حلیة الاولیاء ج۱ صفحہ ۳۵۵، ج۹ صفحہ ۶۴، اسد الغابہ ج۳ صفحہ ۱۴۷، مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۶۳۔
۶ صحیح مسلم ج۶ صفحہ ۳،۴ باب الناس تبع لقریش، صحیح بخاری کتاب الاحکام ج۴ صفحہ ۱۶۵، سنن ترمذی باب ماجاء فی الخلفاً ج۶ صفحہ ۶۶، سنن ابی داؤد ج۴ کتاب المہدی صفحہ ۱۰۶ ھدیث ۴۲۷۹، مسند الطیالسی حدیث ۷۶۷، ۱۲۷۸، مسند احمد ج۵ صفحہ ۸۶، کنز العمال ج۱۳ صفحہ ۲۶، فتح الباری ج۱۶ صفحہ ۳۳۸، مستدرک ج۳ صفحہ ۲۱۷، البدایہ والنہایہ ج۶ صفحہ ۲۴۹، تاریخ الخلفا صفحہ ۱۰، الصواعق المحرقہ صفحہ ۲۸
۷ صحیح مسلم مع شرح نووی ج۱۲ صفحہ ۲۰۲، کنز العمال ج۱۳ صفحہ ۱۳ صفحہ ۲۷، الصواعق المحرقہ صفحہ ۱۸، تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۰، مسند احمد ج۱ صفحہ ۳۹۸، مستدرک ج۴ صفحہ ۱۰۵، فتح الباری ج۱۶ صفحہ ۳۳۹
۸ البدایہ والنہایہ ج۶ صفحہ ۲۴۸، کنز العمال ج۱۳ صفحہ ۲۷، شواھد التنزیل حسکانی ج۱ صفحہ ۴۵۵ حدیث ۶۲۶۔
۹ نہج البلاغہ خطبہ ۱۴۲، ینابیع المودة صفحہ ۵۲۳، احیاء العلوم غزالی ج۱ صفحہ ۵۴، حلیة الاولیاء ج۱ صفحہ ۸۰
۱۰ البدایہ والنہایہ ج۶ صفحہ ۲۴۹،۲۵۰۔
۱۱ الاصحاح ۱۷ آیت ۱۸ تا ۲۰
۱۲ شرح سنن ترمذی لابن عربی ج۹ صفحہ ۶۸
۱۳ شرح نووی علیٰ مسلم ج۱۲ صفحہ۲۰۱،۲۰۲، فتح الباری ج۱۶ صفحہ ۳۳۹۔
۱۴ تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۲، فتح الباری ج۱۶ صفحہ ۳۴۱
۱۵ الصواعق المحرقہ صفحہ ۱۹، تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۲، نووی شرح مسلم ج۱۲ صفحہ ۲۰۲،
۱۶ البدایہ والنہایہ ج۶ صفحہ ۲۴۹۔
۱۷ تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۱، الصواعق المحرقہ صفحہ ۱۹، فتح الباری ج۱۶ صفحہ ۳۴۱
۱۸ البدایہ والنہایہ ج۶ صفحہ ۲۴۹،۲۵۰
۱۹ فتح الباری ج۱۶ صفحہ ۳۴۰ نقل از ابن جوزی از کتاب ”کشف المشکل“ تالیف ابن حوزی
۲۰ فتح الباری ج۱۶ صفحہ ۳۴۱، الصواعق المحرقہ صفحہ ۱۹
۲۱ فتح الباری ج۱۶ ص۲۳۸
۲۲ شرح النووی ج ۱۲ ص ۲۰۲۔ فتح الباری ج ۱۶ ص ۳۳۹
۲۳حوالہ سابق ص ۳۳۸۔ ۳۳۹