اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں
بیسویں صدی کی اسلامی تحریکیں
اصلاح
اصلاح کا مطلب ہے ”نظم و باقاعدگی پیدا کرنا“ اور اس کا الٹ فساد ہے۔ اصلاح اور فساد کا ایک متضاد جوڑا بناتی ہیں جن کا ذکر قرآن اور دیگر الہامی کتابوں میں اکثر آیا ہے۔ متضاد زوج جو کہ اعتقادی اور اجتماعی اصطلاحوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کو اگر آمنے سامنے رکھا جائے تو مطالب کے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے‘ مثلاً ہم یہ متضاد زوج سنتے ہیں‘ توحید و شرک‘ ایمان و کفر‘ ہدایت و ضلالت‘ عدل و ظلم‘ خیر و شر‘ اطاعت و معصیت‘ شکر و کفران‘ اتحاد و اختلاف‘ غیبت اور شہادت‘ علمیت و بے علمی‘ تقویٰ و فسق‘ تکبر و انکسار وغیرہ۔
کچھ متضاد اصطلاحیں ایک دوسرے کے معنی کی وضاحت کر کے مثبت اور منفی پہلو کا اظہار کرتی ہیں‘ اصلاح اور فساد اسی قسم کی اصطلاحیں ہیں‘ قرآن میں اصلاح کا بعض دفعہ دو افراد کے رابطہ میں (اصلاح ذات‘ البین) استعمال ہوا ہے بعض دفعہ خاندانی ماحول کے متعلق اور بعض دفعہ وسیع تر معاشرتی ماحول کے متعلق جو کہ اس وقت میرے پیش نظر ہے اور اس کا قرآن کی کئی سورتوں میں ذکر ہے(سورئہ بقر ۱۱‘ ۲۲۰‘ سورئہ اعراف ۵۶‘ ۱۷۰‘ ہود ۸۸‘ ۱۱ اور قصص ۱۹)۔ اس کے بعد جب میں اس مضمون میں لفظ اصلاح استعمال کروں گا تو میرا مقصد معاشرے کی سطح پر اصلاح ہو گا یعنی اصلاح معاشرہ ہو گا۔
قرآن نے پیغمبروں کو مصلح قرار دیا ہے جیسے کہ حضرت شعیب۱(ع)نے فرمایا:
ان ارید الا الاصلاح ما استطعت وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت و الیہ انیب
”میں اپنی استطاعت کے آخری امکان تک صرف اصلاح کرنا چاہتا ہوں‘ میری کامیابی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ میں صرف اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“
اس کے برعکس قرآن منافق مصلحتوں کی سختی سے سرزنش کرتا ہے‘ قرآن میں وارد ہے کہ
و اذا قلیللھم لا تفسدوا فی الارض قالوا انما نحن مصلحون الا انھم ھم المفسدون و لکن لا یشعرون
”اگر ان کو بتایا جائے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ‘ تو وہ کہتے ہیں کہ وہ تو صرف اصلاح کر رہے ہیں‘ ہرگز ایسا نہیں! وہ تو زمین پر فساد پھیلا رہے ہیں اور خود اس کو محسوس نہیں کرتے۔“
بلاشک اصلاح اسلام کی روح ہے‘ ہر مسلمان بحأثیت مسلمان اصلاح کا طالب ہے اور وہ لاشعوری طور پر اصلاح کا طرفدار ہے‘ قرآن میں اصلاح کی چاہت پیغمبری کا جزو ہے اور اس کی اہمیت ”امربالمعروف و نہی عن المنکر“ جیسی ہے جو کہ اسلام کی اجتماعی تعلیمات کا ایک رکن ہے۔ ہر امربالمعروف و نہی عن المنکر اجتماعی اطلاح کے زمرے میں نہیں آتا‘ لیکن اجتماعی اصلاح ان تمام امور پر محیط ہے جو کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے زمرے میں آتے ہیں‘ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہر وہ مسلمان جو کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بارے میں محتاط ہوتا ہے‘ وہ اجتماعی اصلاح کے بارے بھی کافی حساس ہوتا ہے۔
یہ امر قابل صد ستائش اور باعث مسرت ہے کہ دور جدید میں اجتماعی اصلاح کے بارے لوگوں میں احساس پیدا ہو رہا ہے‘ لیکن اس رجحان میں کچھ افراط و بے اعتدالی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تمام خدمات جو اجتماعی اصلاح کے علاوہ پیش کی گئی‘ ان کی اہمیت کو گھٹا دیا گیا‘ ہر خدمت کو اجتماعی اصلاح کے زمرے میں پرکھا جاتا ہے اور انسان کی اہمیت کا اندازہ ان امور سے لگایا جاتا ہے جو کہ وہ اجتماعی اصلاح کے لئے سرانجام دیتا ہے‘ یہ انداز فکر صحیح نہیں ہے‘ اجتماعی اصلاح یقینا سوسائٹی کی ایک خدمت ہے‘ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر خدمت اجتماعی اصلاح ہو‘ تپ دق اور سرطان کے علاج کی ایجاد خدمت تو ہے لیکن اصلاح نہیں ہے۔ وہ ڈاکٹر جو صبح سے لے کر شام تک بیماروں کا علاج کرتا ہے اس نے اجتماعی خدمت تو کی ہے لیکن اجتماعی اصلاح نہیں کی‘ کیونکہ اجتماعی اصلاح کے سلسلے میں معاشرہ کو ایک مخصوص سمت کی طرف موڑنا ایک ڈاکٹر کے بس میں نہیں ہے‘ لیکن ان کی اس خدمت کو کہ وہ اجتماعی اصلاح کے زمرے میں نہیں آتی‘ کوئی اہمیت نہ دینا بھی قطعاً صحیح نہیں ہے۔ شیخ مرتضیٰ انصاری اور صدرالمتالحین کی خدمات عظیم تر ہیں‘ لیکن ان کے کام کو اصلاح اور ان کو مصلح کا درجہ نہیں دیا گیا‘ مثلاً تفسیر مجمع البیان جو کہ نو سال پہلے لکھی گئی اور اس سے ہزاروں انسانوں نے استفادہ کیا‘ بے شک ایک کدمت ہے‘ لیکن اصلاح اجتماع کے زمرے میں نہیں آتی‘ یہ ایک ایسی خدمت ہے جو کہ ایک عالم نے عالم تنہائی میں سرانجام دی۔ کئی ایسے مواقع ہیں کہ کچھ اشخاص نے اپنی ذاتی نیک اور مثالی زندگیوں میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں‘ لیکن انہوں نے معاشرے کی اصلاحی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا‘ لہٰذا نیک لوگ ایک مصلح کی طرح سوسائٹی کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں‘ کیونکہ وہ مصلح نہ کہلوانے کے باوجود خدمت کرتے ہیں۔
مندرجہ ذیل جملے میں نے نہج البلاغہ سے ماخوذ کئے ہیں‘ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی حیثیت اجتماعی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر ایک مصلح کی صورت میں پہنچوائی ہے۔
حضرت علی(ع)
”اے خدایا! تو خوب جانتا ہے کہ ہم نے کیا کیا! میرا مقصد طاقت کا اظہار اور ذاتی مفاد کا حصول نہیں تھا بلکہ تمہارے ان امور کا احیاء تھا جو آپ کی طرف لے جانی والی شاہراہ کے سنگ میل ہیں‘ اس سے تمہارے شہروں میں دیرپا اور نمایاں اصلاح کرنا مقصود تھا تاکہ رسوا اور کچلی ہوئی انسانیت کو تحفظ مل سکے اور تمہارے ان احکامات کو جن کی پرورش نہیں کی گئی شدت کے ساتھ نافذ کرنا تھا۔“
امام حسین علیہ السلام نے بھی دور معاویہ میں دورانِ حج ایک بڑے اجتماع میں جو اہم صحابہ پر مشتمل تھا‘ اپنے والد کے درجہ بالا دیئے ہوئے کلمات دہرائے اور اپنا کردار بحیثیت مصلح آشکارا کیا۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کے نام وصیت نامہ میں ایک مصلح کی حیثیت سے اپنے اصلاحی کاموں کی تشریح کی‘ ان میں فرمایا:
انی لم اخرج اشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی ارید ان امر بالمعروف و انہی عن المنکر و آسیر بسیرة جدی و ابی
”میرا انقلاب ذاتی مفاد کے لئے فساد و ظلم کرنا نہیں‘ بلکہ میں نے جد امجد۱کی امت کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے‘ میرا ارادہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پہچان کرانا اور میرا مقصد اپنے والد اور دادا کی سیرت پر چلنا ہے۔“
اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں
آئمہ ہدیٰ۱(ع)کی زندگیاں تعلیمات‘ رہبری اور اجتماعی اصلاح کی غمازی کرتی ہیں‘ ان کے علاوہ ہم اسلامی تاریخ میں اور بھی کئی اصلاحی تحریکیں دیکھتے ہیں‘ لیکن چونکہ ان تحریکوں کا مفصل مطالعہ نہیں کیا گیا‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ ایک جمود کا شکار رہی ہے اور اصلاحی تحریکیں ناپید ہیں۔
ہزاروں سال پہلے مسلمانوں کے اذہان میں ایک خیال ابھرا (پہلے سنیوں میں‘ پھر شیعوں میں) کہ ہر صدی کے شروع میں ایک ”مجدد“ کا دین کے احیاء کے لئے ظہور ہوتا رہا ہے۔ سنیوں نے اس روایت کو ابوہریرہ سے نقل کیا کہ ہر صدی کے آخر میں ایک ایسا شخص آتا ہے جو خدا کے دین کی تجدید کراتا ہے‘ اگرچہ اس روایت کی پختگی اور تاریخی ثبوت کا تعین نہیں ہو سکتا‘ لیکن مسلمان عمومی طور پر اس بات کے متعلق یقین کے ساتھ توقعات رکھتے ہیں اور ہر صدی میں ایک یا ایک سے زیادہ مصلح رونما ہوتے رہے ہیں۔ عملی طور پر یہ صرف اور صرف اصلاحی تحریکیں رہی ہیں… اس لئے اصلاح‘ مصلح‘ اصلاحی تحریکیں اور حال ہی میں استعمال ہونے والا لفظ ”مذہبی خیالات کی تجدید“ وہ الفاظ ہیں جن سے مسلمانوں کے کان مانوس ہیں۔
اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکوں کا بغور مطالعہ اور ان کا عملی تجزیہ ان کے لئے مفید اور قوی ثابت ہو سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایسے باصلاحیت افراد یہ کام کر گزریں گے اور اپنے مطالعہ اور علمی تحقیق کے نتائج خواہش مند افراد کے سامنے پیش کریں گے۔
یہ ظاہر ہے کہ وہ تمام تحریکیں جن کا مقصد اصلاح ہو‘ ایک ہی طرح کی نہیں رہی ہیں‘ بعض ایسی تھیں کہ ان کا بنیادی مقصد اصلاح تھا اور اس طرح وہ قدرتی طور پر اصلاح تھیں‘ کچھ ایسی تھیں جنہوں نے اصلاح لانے کی آڑ میں فساد برپا کیا اور کچھ ایسی بھی تھیں جو کہ شروع میں اصلاحی پہلو لے کر ابھریں لیکن بعد میں اپنے راستے سے بھٹک گئیں۔
عثمانیوں اور عباسیوں کے ادوار میں علویوں کا ابھرنا بھی اصلاح کا قیام تھا۔ اس کے برعکس بابک خرم دین اور اس قسم کی دیگر تحریکیں اتنی بے ہودہ اور غلاظت اور کثافت اور آلودگی میں ڈوبی ہوئی تھیں کہ اسلام کو ان کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا‘ ان کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں عباسیوں کی ظالمانہ حکومت کے خلاف نفرت اور غصہ کم ہو گیا‘ ان تحریکوں کا مقصد شاید عباسیوں کی حکومت کو دوام دینا تھا۔ حقیقت میں ان تحریکوں نے عباسیوں کو مواقع فراہم کئے۔ شعوبیہ کی تحریک کا آغاز بھی اصلاحی تھا‘ کیونکہ یہ مہم امویوں کی تفریق کی پالیسی کے خلاف تھی اور ان کا نعرہ تھا:
یا یھا الناس انا خلقنا کم من ذکر و انتی و جعلنا کم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم
چونکہ شعوبیہ تفریق کی پالیسی کے خلاف تھے‘ لہٰذا ان کو ”اہل التسومیہ“ سے پکارا گیا اور ان کا نعرہ قرآن کی مندرجہ بالا آیت تھا‘ لہٰذا شعوبیہ کہلائے جانے لگے‘ لیکن بدقسمتی سے وہ خود اس بات کا شکار ہو گئے جس کے خلاف انہوں نے علم انقلاب بلند کیا تھا‘ یعنی وہ نسل اور قوم کی تفریق میں مبتلا ہو گئے‘ ان کے اس عمل نے عباسیوں کو ایک اور موقع فراہم کیا‘ شاید عباسیوں نے ایک گھناؤنی سازش کی اور ایرانیوں کو اسلامی عدل کے راستے سے ہٹا کر ایرانی نسل پرستی کے چکر میں ڈال دیا۔ تاریخ میں شعوبیہ کے انتہائی گروپ نے جس شدت کے ساتھ عباسیوں کی حمایت کی ہے وہ اس مفروضے کو تقویت دیتا ہے۔
اسلامی تحریکیں کچھ صرف فکری تھیں‘ کچھ اجتماعی اور بعض فکری اور اجتماعی دونوں پہلو لئے ہوئے تھیں‘ غزالی کی تحریک صرف ایک فکری تحریک تھی اس کے خیال میں اسلامی علوم اور اسلامی خیالات آسیب زدہ تھے۔ اس لئے اس نے ”احیاء علوم دین“ پر کام کیا‘ علویوں اور سربداروں کی تحریکیں حکومت وقت کے خلاف اجتماعی تحریکیں تھیں‘ اخوان الصفا کی تحریک فکری اور اجتماعی دونوں حیثیتوں میں تھی۔
اوپر دی گئی تحریکوں میں چند ترقی پسند تھیں اور کچھ دوسری‘ مثلاً اشعری چوتھی صدی میں اور اخباریگری (شیعوں میں) دسویں صدی میں اور وہابی تحریک بارہویں صدی میں صرف رجعت پسند تحریکیں تھیں۔
ان تمام تحریکوں کے جو عملی یا فکری ہیں یا ترقی پسند اور رجعت پسند ہیں بغور مطالعہ اور وسیع تحقیق کی ضرورت ہے‘ ان کا مطالعہ اس وجہ سے اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ حال ہی میں کچھ موقع پرستوں نے موجودہ خلا سے فائدہ اٹھایا اور انہوں نے اسلامی تاریخ میں تحریکوں کا تجزیہ ذہن میں پہلے سے طے شدہ ”مقصد“ اور ”قیاس“ کے تحت کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنی عالمانہ رائے ناسمجھ لوگوں کے سامنے پیش کر سکیں۔
اس وقت ہم ایک مختصر جائزہ میں ان اسلامی تحریکوں کا تذکرہ کریں گے‘ جو پچھلے ایک سو سال سے چل رہی ہیں کیونکہ یہ دور ہماری موجودہ زندگی کے قریب تر ہے‘ ہماری کوشش یہ معلوم کرنا ہو گا کہ ان تحریکوں نے کیا اثرات مرتب کئے ہیں۔
تیرہویں صدی ہجری کے دوسرے نصف میں اور انیسویں صدی عیسوی میں ایران‘ مصر‘ شام‘ لبنان‘ شمالی افریقہ‘ ترکی‘ افغانستان اور ہندوستان میں اسلاسمی تحریکیں چلائی گئی ہیں‘ وہ لوگ جنہوں نے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا اور اصلاح کرنے کے لئے خیالات اور نظریات پیش کئے ان ملکوں میں نمودار ہوتے رہے ہیں‘ یہ تحریکیں صدیوں کے جمود کے بعد شروع ہوئیں‘ یہ کسی حد تک مغرب کی سیاسی‘ اقتصادی اور تہذیبی نو آبادیاتی پالیسیوں کے خلاف تھیں اور اسلامی دنیا میں احیاء اور بعثت ثانیہ شمار کی گئی ہیں۔
سید جمال الدین
پچھلے ایک سو سال کی تحریک کے سلسلے کی بنیادی حیثیت جمال الدین اسد آبادی بہ عرف عام ”افغانی“ کی ہے‘ یہ وہی شخصیت تھی جس نے اسلامی حکومت کو ضرورت اصلاح اور تشکیل نو کے لئے جگایا اور مسلمانوں میں معاشرتی برائیوں کو آشکارا کیا اور ان کو اصلاح کا راستہ دکھا کر ان برائیوں کی اصلاح کا راستہ دکھایا۔ اگرچہ سید کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے لیکن ان کے فلسفہ اصلاح کے بارے میں بہت کم بتایا گیا ہے یا شاید میں نے اس کے فلسفے کے بارے میں سنا اور جانا نہیں ہے‘ تاہم یہ معلوم کرنے سے کافی فائدہ ہو گا کہ سید نے اسلامی معاشرہ کی کن برائیوں کی تشخیص کی ہے اور ان کا کیا علاج تجویز کیا‘ نیز اپنے فلسفہ اصلاح کے مقاصد کے حصول کی خاطر کون سے راستے اختیار کئے۔
جس تحریک کی انہوں نے ابتداء کی وہ اپنی وسعت کے لحاظ سے فکری اور اجتماعی تھی جہاں وہ مسلمانوں کے خیالات میں تجدید چاہتے ہیں وہاں وہ نظام زندگی میں بھی احیاء چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک شہر‘ ایک ملک حتیٰ کہ ایک براعظم تک محدود نہیں رکھا۔ ہر ملک میں تھوڑا تھوڑا وقت گزار کر انہوں نے ایشیاء‘ یورپ اور افریقہ کے طول و عرض میں سفر کیا‘ جس ملک میں بھی وہ گئے وہاں پر لوگوں کے مختلف طبقات کے ساتھ اپنی روحانی وابستگی کافی حد تک استوار کی‘ حتیٰ کہ کچھ ممالک کے فوجی یونٹوں میں دخل اندازی کی تاکہ افواج میں اثر و رسوخ پیدا کیا جائے۔
سید نے بہت سے اسلامی ملکوں کا دورہ کر کے قریبی مشاہدہ کیا جس سے انہیں ان ملکوں کے بارے زیادہ آگاہی ہوئی‘ اس سے ان کو موقع ملا کہ ان ملکوں کی پیچیدگیوں کو سمجھے اور وہاں کی قابل عزت شخصیتوں کا گہرا مطالعہ کیا‘ تمام دنیا کا دورہ اور خصوصاً یورپ میں ان کا زیادہ وقت گزارنا اس سلسلے میں کارآمد ثابت ہوا کہ ترقی یافتہ ممالک میں کیا ہو رہا ہے اور یورپ کی تہذیب کو سمجھنے اور یورپی لیڈروں کے ارادوں کو بھانپنے میں ممد و معاون ثابت ہوا۔ اپنی کوشش اور مشن کے دوران میں سید نے اپنے زمانے اور دنیا کو سمجھا اور اسلامی ممالک کا مناسب اور صحیح علاج بھی دریافت کیا جس کے لئے انہوں نے اپنا مشن شروع کیا تھا۔ سید کے نزدیک اندرونی استبداد اور بیرونی استعمار دو اہم اور توجہ طلب برائیاں تھیں جن سے اسلامی معاشرہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے‘ انہوں نے ان کے خاتمہ کے لئے کوششیں کیں اور بالآخر اپنے مشن کی خاطر جان دے دی‘ وہ یہ ضروری اور ناگزیر سمجھتے تھے کہ ان دو تباہ کن اسباب کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں میں سیاسی بیداری ہو اور وہ سیاست میں بھرپور حصہ لیں۔
اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی اور دنیا میں پروقار مقام حاصل کرنے کے لئے کہ مسلمان بجا طور پر اس کے اہل ہیں‘ سید اس کو ناگزیر سمجھتے تھے کہ وہ اصلی اسلام کی طرف پلٹیں‘ حقیقت میں وہ مسلمانوں کے نیم مردہ بدن میں نئی روح پھونکنا چاہتے تھے۔ تجدید کی پہلی شرط یہ ہے کہ بدعنوانی کو ختم کر کے تنظیم نو کی جائے اور پھر مسلمانوں میں اتحاد پیدا کیا جائے‘ انہوں نے محسوس کیا کہ استعماریت آشکارا اور پوشیدہ دونوں طریقوں سے مذہبی اور غیر مذہبی نفاق و انتشار کا بیج بو رہی ہے‘ انہوں نے ان چھپے ہوئے عزائم کو واضح کیا۔
اقتباس از بیسویں صدی کی اسلامی تحریکیں