مساوات کا عملی درس

323

    آج دنیاکاسب سے بڑ امسئلہ قوم وملت کے رہبروں اور قائدوں کاصحیح معیار پر پورانہ اترنا ہے ۔ دنیا کے سیاست مدار عوام کو اپنا طرفداربنانے کے لئے خوشنما اوردل پذیرنعروں کا سہارا لیتے ہیں اوربیچارے سادہ لوح انسان فریبی اورڈھونگی رہنماؤں کے ڈھکوسلوں پربھروسہ کر کے ان کے لئے حکومت کے وسائل فراہم کر دیتے ہیں ۔مگرایک دن ان کی حقیقت کھل جاتی ہے اور ان کی محبوبیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے اورغریب وبیکس کفِ افسوس مل کر رہ جاتا ہے ۔ لیکن کیا اس کے بعدوہ اپنے پامال شدہ حقوق کو وصول کرپاتے ہیں ؟کیاوہ بعدکے ادوارکے لئے مناسب اورلایق رہنماکا انتخاب کرپاتے ہیں ؟نہیں !بالکل نہیں !کیوں ؟ اس لئے کہ خودان کے انتخاب میں کمی ہوتی ہے ۔سیاسی بصیرت کی کمی اور خواہشات نفسانی کی پیروی انہیں نا اہل اورنالایق افرادکومنتخب کرنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔
ہاں !یہ لوگ اسی وقت ایک لائق رہنما کا انتخاب کرسکیں گے جب ان میں خوداپنے لئے انسانی اور سیاسی ہمدردی محسوس ہو۔اوروہ اپنے حق کی پوری معرفت حاصل کرنے کے بعد ہی پیدا ہو گی ۔اس لئے انتخاب کے مرحلے میں قدم رکھنے سے پہلے ہرشخص کواپناجائزہ لیناچاہئے کہ وہ اپنے حق کو کسقدر پہچانتا ہے ؟چونکہ بشراپنی تمام ضروریات سے آگاہ بھی نہیں ہے ۔اس لئے خالق نے اس کائنات میں ان کی ضروریات کی فراہمی کواپنے ذمہ لیا۔اور ان کے احتیاجات کوپورا کرنے کے لئے انواع واقسام کی چھوٹی بڑ ی اشیاء کو وجودعطافرمایا اس کائنات میں تمام انسانوں کی ضرورت بھرہرقسم کی اشیاء موجودہیں ۔ بس ان کی تقسیم میں نا انصافی اور دوسروں کی حق تلفی سے بعض افرادبعض چیزوں سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ خداوند عالم نے اس نا انصافی کاسد باب کرنے کے لئے اپنی طرف سے رہنماؤں کوانتخاب کیا اور بندوں پر فقط ان کی اطاعت لازم قراردی اگربندے ان کے فرامین پر عمل پیرا رہیں تو کبھی کسی مشکل میں گرفتار نہ ہوں ۔ لہٰذا انتخاب کا دروازہ تو بند ہو گیا۔توکیا اس زمانے میں ہمیں کسی کو منتخب نہیں کرناچاہئے ؟ہاں ہونا تویہی چاہئے تھا مگرزمانے کی بد نصیبی ہے کہ اس نے اپنے خالق کی ذمہ داریوں کواپنے ہاتھ میں لے لیا اور الٰہی حکومت کے نام پراپنے ہی معیاروں پرچنے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں نظام حکومت دیدیا ورنہ جہاں تک خالق کی قدرت سے بنائی ہوئی کائنات کاوجودہے اس کے ہرگوشے میں الٰہی نمائندہ کی سلطنت قائم ہوتی اب چونکہ ایسا نہیں ہوا تو کیا ہماری ذمہ داری ختم ہوگئی؟نہیں !بلکہ ہمارافریضہ ہے کہ ہمیں ان کی جگہ پر انہی کے جیسے افراد کولاناچاہئے اگرسارے صفات ان جیسے نہ بھی ہوں تو کم سے کم بہت ضروری صفات توان میں ہونے ہی چاہئیں جیسے صداقت، انصاف، مساوات، انسانی ہمدردی وغیرہ ان صفات کے ساتھ ایک سماج اورمعاشرہ خوشحالی کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے ۔دنیا میں وہی نمائندے محبت کاخراج وصول کرتے ہیں جوعوام کواپناشفاف کرداراوراپنی سچائی کایقین دلادیتے ہیں ۔
ہمارے سامنے انسانیت کے ایسے عظیم رہبروں کی سیرت موجودہے جنہوں نے اپنے عمل سے قیامت تک آنے والے انسانوں کومعیاری اورخوشحال زندگی گزارنے کاسلیقہ عطا کر دیا ان میں سب کے سید وسردار، سرکاراحمد مختارحضرت محمدمصطفے ٰ ﷺکی سیرت ہر بشر کے لئے سر مشق اوراسوۂ حسنہ کاحکم رکھتی ہے ۔ہم ان کی زندگی سے مساوات کے چند عملی نمونے پیش کرتے ہیں :
۱) مدینہ میں اسلامی حکومت کی نیوپڑ گئی اورپورے طورپرآپ کا حکم نافذہو گیاتواب آپ کوکسی کی فکر نہ ہونی چاہئے تھی مگرآپ کامعمول تھاکہ مسجدکے باہری چبوترے پرزندگی بسر کرنے والے بے سہارالوگوں کے ساتھ روزنمازصبح کے بعد تھوڑ ی دیرکے لئے ان کی احوال پرسی کی خاطربیٹھتے اور ان کواپنی ہمدردی کایقین فراہم کرتے ایک روز ایک غریب مسلمان نے حضرت سے اپناپہلوبچاناچاہاتوآپ نے پوچھا اے بھائی!تم ایساکیوں کر رہے ہو؟اس نے عرض کی حضور میرے کپڑ وں پرگرد پڑ ی ہوئی ہے میرے دل نے گوارہ نہ کیاکہ آپ کے لباس کو گردآلود کروں ۔یہ سنکر آپ کی آنکھوں میں آنسوں آ گئے اورآپ نے اس کے احساس ناداری کودورکرنے کے لئے اس کے زانوں پر ہاتھ رکھا اورشفقت سے اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے فرمایا:’’بھائی شرم نہ کر فقیر فقیر کے پاس بیٹھا کرتا ہے ۔‘‘
۲)جنگ احزاب میں خندق کھودی جا رہی تھی۔ مسلمانوں پرفاقوں کاوقت تھا۔پیٹ پرپتھر باندھ کر بھوک کوفاقوں سے بہلایاجا رہا تھا۔ان مشقتوں میں کائنات کاحاکم بھی برابرکا شریک تھا۔آپ کی اکلوتی بیٹی سے آپ کی بھوک دیکھی نہ گئی نہ جانے کس طرح ایک روٹی پکا کر لائی اوراپنے چہیتے باباکودے گئی حضور نے اس روٹی کے بہت سے ٹکڑ ے فرمائے اوران کو اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیا اورخود نے بھی ان کے برابرکاحصہ تناول فرمایا۔
۳)جنگ بدرمیں مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتارہونے والوں میں آپ کے چچاحضرت عباس بن عبدالمطلب بھی تھے ۔مسلمانوں نے اوروں کی طرح ان کی مشکیں بھی خوب کس کر باندھ دی تھیں ۔اورانھیں حضرت کے مکان کے قریب رکھا گیا تھا۔رات کوجب عباس کے کراہنے کی آوازآئی توآپ کی نیند اڑ گئی آپ نے اس آواز کاسبب دریافت کیاتو پتہ چلا کہ رسّی کی سخت بندش کی وجہ سے کراہ رہے ہیں ۔آپ نے فوراًکچھ لوگوں کوبلایا اورحکم دیاکہ سب کی رسیاں ڈھیلی کر دو ۔
۴)جناب ابوذرغفاری کابیان ہے کہ ایک شام کوجومیں حضورکی خدمت اقدس میں حاضر ہواتوآپ کو سخت بے چین پایا میں نے سبب پوچھاتوفرمایا’’اے ابوذر!بحق مسلمین میرے پاس تین درہم تقسیم کرنے سے رہ گئے ہیں میں اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ اگر رات میں مجھے موت آ گئی تو مسلمانوں کایہ حق ادا ہونے سے رہ جائے گا۔
ابوذر کہتے ہیں کہ صبح کوجب پھر حاضر ہواتوآپ کوہشاش بشاش پایا میں نے سبب پوچھاتوفرمایا:
’’اے ابوذر!خداکاشکرہے جو چیز میرے پاس امانت تھی وہ رات اپنے مستحق تک پہنچ گئی ۔
۵)مکہ کی زندگی کس قدردشوارتھی جہاں اغیارکے ساتھ اپنے بھی طرح طرح کی ایذائیں پہنچا رہے تھے کبھی طعنوں کے زخم توکبھی پتھروں کی بارش کبھی غلاظت افگنی توکبھی راہ میں کانٹے یہاں تک کہ اقتصادی ومعاشرتی بائیکاٹ تک کیا گیاجس کے نتیجہ میں عزیزترین افراد کی بھوک پیاس اورفاقہ کشی دیکھنی پڑ ی اوراپنی شریک حیات کو چھوٹی سی بچی کے ہمراہ مصائب میں گرفتار دیکھا ایک جاہ طلب اورقدرت کے خواستگار کے لئے انتقامی کاروائی کامناسب موقع ہاتھ آنے کی دیرتھی اپنے اگلے پچھلے حساب چکتا کرالیتامگر رحمۃ للعالمین نے ہر مناسب موقع پراپنی رحمدلی کامثالی کردارپیش فرمایاچاہے جنگ کے میدان سے گرفتار شدہ سپاہی ہوں یامکہ میں اپنے گھر کے دروازے بند کر لینے والے کفار۔فتح مکہ کے دن آقائے دوجہان نے عام منادی کرادی تھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی سب کوامان ہے سب کے ساتھ برابری اور مساوات کاعمل اختیار کیاجائے گا۔
یہی وہ کردار ہے جودلوں پرحکمرانی کراتا ہے ، اسی مساواتی کردار کی وجہ سے کالے گورے غریب امیرآپس میں سکون واطمنان کی زندگی بسرکرتے ہیں اورتقویٰ وپارسائی کے سوا کسی چیزکواہمیت نہیں دیتے جہاں بلال جیساحبشی غلام اپنے اندرکسی قسم کی کمی کا احساس نہیں کرتا۔ جہاں ثروتمندایک نادارکے آگے اکڑ تانہیں بلکہ اس سے جھینپتا نظرآتا ہے ۔
آج دنیامیں اگر خوشحالی چاہئے تو ایسی سیرت پر عمل کرنے والے رہنماؤں کوانتخاب کیاجائے تاکہ دنیاومکرفریب سے دورایک سچی خوشحال زندگی سے آشنا ہو سکے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.