انسان کا اختلاف

199

گزشتہ مباحث کی جمع بندی، سرمایہ داری نظام پر تنقید ، انسان کی خود پسندی ،مارکسزم کے افراطی نظریہ پر تنقید ،سوشلزم کے غلط تجربے ، اسلام کا کردار ،خود پسندی پر گرفت حاصل کرنے کے لئے صحیح ہدایات ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین و الصلوة والسلام علی رسول اللہ وآلہ الائمة المعصومین۔ قال العظیم فی کتابہ اعوذبا للہ من الشیطان الرجیم ،قل اللھم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشائ۔(١)
گزشتہ مباحث کی جمع بندی ۔
سرمایہ داراور محروم طبقہ کے درمیان پیدا ہونے والی جنگ کے سلسلہ میں ہم عدالت اجتماعی کے حوالے سے عرض کر چکے ہیں کہ سب سے پہلے ہم نے فکری ،اعتقادی اور اسلامی جہان بینیکے عنوان سے اس مسئلہ کو دیکھا اس کے بعد ہم نے اسلام کے اجرائی خطوط اور پالیسیاں بیان کی تھیں اور امکانات وغیرہ کی صحیح تقسیم اور توازن کو انسان کی زندگی کے لیئے ضروری قرار دیا تھا ۔
ہم یہ بھی عرض کر چکے ہیںکہ اصل مالک خدا کی ذات ہے اور اس کی تمام نعمتیں اور قدرت کا خزانہ سب انسان کے اختیار میں ہیں اور سب انسان اس سے استفادہ کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔
البتہ ہم یہ بتا چکے ہیں کہ ہماری ملکیت خدا کی ملکیت کے طول میں ہے،عرض میں نہیں ہے ،یعنی خدا کے مقابلے میں ہم کسی چیز کے مالک نہیں ہیں بلکہ اس کے فیض اور رحمت سے ہم کسی چیز کے مالک بنتے ہیں۔
ہماری ملکیت قراردادی ہے حقیقی نہیں ہے ،اور اس قدر محدود ہے کہ خدا جب چاہے ہم سے لے سکتا ہے یعنی ہماری ملکیت مطلق نہیں ہے البتہ انسان کو ان چیزوں پر تصرف کرنے کا حق حاصل ہے کیونکہ وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے اسلامی اور شرعی حکومت خدا کی نمائندہ ہے ان تمام چیزوں پر انہیں ولایت الہی حاصل ہے اور معاشرے میں حکومت تمام لوگوں کی نمائندہ ہے وہ تمام تصرفات کرنے کا حق رکھتی ہے۔
ہم نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ انسان اپنے کام اور محنت مزدوری کا مالک ہے جو بھی ان سے مزدوری کروائے گا وہ اسے اجرت دینے کاذمہ دار ہے کسی کے شرعی کام کو پیسے اور عوض دئیے بغیر حاصل کرنا درست نہیں ہے اور یہی استثمار کہلاتا ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ انہیں مناسب اجرت نہ دی جائے یا ان لوگوں کے اموال پر قبضہ کر لیا جائے ، اسلام اور شریعت اسلامی اسے درست نہیں سمجھتے ان تمام فکری اور اصولی مباحث کو عادلانہ تقسیم کے عنوان سے بیان کیا جا چکا ہے۔
انسان کا اختلاف
جہاں بینی اور اسلامی اعتقادات کے متعلق چند مباحث کو بیان کرنا ضروری ہے۔ تاکہ ہم اسلام کے نظریات اور پالیسیوں کو جان سکیں۔ ہم ان میں سے چند ضروری معلومات کو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں۔
اب ہم قرآنی آیات کی نگاہ میں انسانوں کے اختلاف کو بیان کر رہے ہیں البتہ گزشتہ مباحث میں ہم انسانوں کے اختلاف کے مسئلہ کوایک حد تک بیان کر چکے ہیں کہ ہم اس جہان بینی کو نہیں بھول سکتے اس حقیقت کو مدنظر رکھے بغیر ہم صحیح فیصلہ تک نہیں پہنچ سکتے۔
وہ حقیقت یہ ہے کہ سب لوگ مساوی اور ایک جیسے نہیں ہیں اس کی اساس فلسفہ خلقت انسانی ہے انسان کو اس کائنات میں ہر وقت متحرک رہنا چاہیے۔
اگر خدا چاہتا تو اس انسان کے بدلے فرشتوں یا ان سے بڑھ کر کوئی اور مخلوق پیدا کر دیتا لیکن اس سے اس کائنات میں تحرک پیدا نہ ہوتا کیونکہ جب انہیں اختیار ہی حاصل نہ ہوتا تو وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہ کرسکتے لیکن خدا نے انسان کو ایک خود مختار مخلوق بنا کر اس زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے کیونکہ تکلیف آزمائش اورود سازی اگر اختیاری ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان مختلف طبع کے ہوںہوں۔
بہرحال انسان میں ایک حد تک اختلاف ہونا اور ایک دوسرے سے جدا جدا ہونا ضروری ہے ان کا جدا جدا ہونا اور ایک جیسا نہ ہونا قدرت کی نشانیوں میں سے ہے جیساکہ خداوندعالم ارشاد فرما رہا ہے ۔
و من آیاتہ خلق السموات و الارض و اختلاف السنتکم و الوانکم۔(۲)
خدا کی ان عجیب و غریب نشانیوں میں سے ہے زمین و آسمان کی خلقت ،اور تمہاری زبان ورنگ میں اختلاف ۔
خداوندعالم انسانوں کے اس تفاوت کو اپنی نشانیوں میں سے شمار کرتا ہے اور حقیقت میں یہ خدا کی فوق العادہ تعجب انگیز آیات ہیں ،کروڑوںانسان جو کرہ ارض پر زندگی بسر کر رہےہیں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تا قیام قیامت موجود رہیں گے ان میں دو ایسے انسان آپ نہیں دکھا سکتے جو صددرصد ایک دوسرے کے مماثل ہوں حالانکہ ان گنت انسان اس دنیا میں موجود ہیں۔ یہی خدا کی بہت بڑی نشانی اور اعجاز خلقت ہے ۔
اختلاف کی چند مثالیں
اگر آپ اس سے زیادہ باریکی میں چلے جائیں تو آپ ایسے دو شخص نہیں دکھا سکتے جن کی انگلیوں کے نشان ایک جیسے ہوں یعنی ہماری انگلیوں پر جو خطوط ہیں وہ کسی اور شخص کی انگلیوں پر نہیں ہیں۔ بہرحال یہ ایک ایسی فنی اور دقیق خطاطی ہے جو تمام انسانوں کے ہاتھوں کی انگلیوں میں مختلف ہے اگر انسان کے خون کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں بھی آپ کو واضح فرق نظر آئے گا۔
آج کل دنیا کی عدالتیں اور پولیس کے محکمے مختلف پچیدہ آلات کے ساتھ بال اور انگلیوں کے نشانات حتی کہ بالوں کے پانی سے مجرم کی شناخت کر لیتے ہیں اور یہ ایک بہترین سند کی حیثیت رکھتی ہے ۔(۳)اسی طرح دو مختلف انسانوں کے منہ سے بھی مختلف آوازیں سنائی دیں گی۔ ہم اس ترقی یافتہ دور کے تیار کردہ آلات کے ساتھ ان آوازوں میں اختلاف کو آسانی کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں اسی طرح ان کے افکار بھی مختلف ہیں اور ان کے جسم بھی بہت ہی دقیق اور پیچیدہ ہیں ۔
بہر حال انسانوں میں کئی قسم کے تفاوت موجود ہیں یہ فرق اس کے اعضاء ،طرز تفکر،استعداد ، صلاحیت اور خصوصیت کے عنوان سے واضح طور پر دکھائی دیتا ہے یہ اختلاف ایسی حقیقت ہے جو تا قیام قیامت انسانوں میں موجود رہے گا جب تک انسان اور یہ دنیا باقی ہے یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔
اسی طرح جب تک دوسری موجودات ۔مثلاًدرخت، دریا کی مچھلیاں ، حشرات الارض،چرند پرند اور کائنات کی ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف ہے یہ سب کار خانہ قدرت کا ایسامال ہیں جو ظرافت کیساتھ تیار ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہے اوراوپر بیان کی جانے والی آیت کے مطا بق اللہ کی نشانیاں ہیں ۔
قدرت الہی کا جلوہ
مجھے دنیا کے مشہور عجائب گھر کے دیکھنے کا موقع ملا وہاں ایک بہت بڑے تالاب میں مختلف قسم کی مچھلیاں تیر رہی تھیں خدا گواہ ہے میں نے یہ منظر دیکھا تو قرآن مجید کی یہ آیت میرے ذہن میں گھومنے لگی میں بہت بیتاب ہو گیا ،میرے آنسو نکل آئے اسے کتنے دلکش انداز میںخدا نے بنایا ہے اور وہ اپنے ارادہ اور اختیار کے ساتھ مختلف قسم کی مخلوق کو وجودبخشتا ہے اور ہر مخلوق ایک خاص اسرار کی حامل ہے۔
انسان جب اس کائنات کی لامحدودیت ،بے شمار مخلوق اور نا قابل احصٰی باقی موجودات کے متعلق غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہو تا ہے کہ ان سب کا نقطہ آغاز ایک ہی ذات ہے اسی نے انہیں اس کائنات میں بھیجا ہے تو اس وقت انسان بے اختیار سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور اس پر واضح ہو جاتا ہے کہ اس ذات کے مقابل کوئی ذات نہیں ہے وہ بر ملا تعظیم ، اظہار عبودیت اور توحید شناسی کا اظہار کرتا ہے ۔البتہ میں یہاں توحید کے متعلق بحث نہیں کر رہاہوںکہ میں اس کی تفصیل بیان کروں ۔
قدرتی ذرائع سے مختلف استفادہ
انسان مختلف ہیں اور جب انسان میدان عمل میں قدرت کے ذخائر سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو اس وقت اختلاف در اختلاف اور تفاوت در تفاوت پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ قدرت کے ذرائع بھی مختلف ہیں مثلًا گیلان میں رہنے والا شخص اور ورامین میں رہنے والا دونوں کسی صورت میں بھی قدرت کے ذرایع سے ایک جیسا استفادہ نہیں کر سکتے ۔
ایک شخص سونے کی کان میں کام کرتا ہے جبکہ دوسرا تانبے کی کان مین، اسی طرح ایک نمک کی کان میں کام کرتا ہے اور دوسرا سرخ مٹی سے استفادہ کرتا ہے ان لوگوں کا استفادہ مساوی نہیں ہو سکتا ۔
اب اگر آپ حادثات ، بیماریوں ،جنگ ،لڑائی جھگڑے اور اس قسم کی دوسری چیزوں کا اضافہ کریںتو انسان کے تفاوت اور اختلاف میں بھی اضافہ ہو تا چلا جائے گا۔
ہم نے ایک اصول بیان کیا تھا کہ ہرشخص اپنے کام کا ما لک ہے اسی مسئلہ پر دقت کرنا ضروری ہے ہم نے جس تفاوت کو انسان کے لئے ضروری قراردیا ہے اسے کنٹرول کرنا بھی ضروری ہے اس کے متعلق میں بحث کرونگا کہ جتنے حقوق خدا کی نمائندہ حکومت کے سپرد ہیں وہ انہیں بروئے کار لا کر ان مسائل کو اعتدال کی حد تک لا سکتی ہے البتہ پہلے ہم کنٹرول کے متعلق بحث کرتے ہیں ۔
اسلام اور کنٹرول
اسلام میں دوقسم کے کنٹرول ہیں ایک قدرت کے ذرائع سے استفادہ کرنے کے حوالہ سے ہے اور دوسرا مختلف استعداد کو کنٹرول کرنے کے متعلق ہے۔
ہماری وزارت تعلیم استعداد کو کنٹرول کرنے اور انہیں صحیح سمت میں چلانے کی ذمہ دارہے جوممالک اپنے اعصاب کو قابو میں رکھ کرایک منظم طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں، وہ طالب علمی کے زمانہ سے ہی بچوں پر مکمل نگاہ رکھتے ہیں۔
تحصیل علوم کے دوران ہی ان کی تربیت ان کی استعداد کو مد نظر رکھ کر کرتے ہیں تاکہ وہ بڑے ہو کر اپنی استعداد سے صحیح استفادہ کر سکیں۔
صحیح اقتصادی کنٹرول
اگر ہم صحیح خطوط اور نفسیاتی طور پر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیں تو ہمیں اس پر نظر رکھنا ہو گی اور انہیں ان کے ذوق کے مطابق شعبہ جات کا چنائو کرنا ہو گا ۔مثلاً پیسے سے محبت کرنے والے کو ڈاکٹر نہیں بننا چاہیے بلکہ اسے تجارت کا پیشہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ ایساشخص اگر ڈاکٹر بن جائے تو اس کی خواہش ہوگی کہ ہر روز دو سو نسخے لکھے اور ہر وقت اس کی آنکھیں دروازے پر ہی لگی رہیں گی۔ وہ ہمیشہ مریضوں کی تلاش میں ہو گا تاکہ پیسے کمائے جا سکیں اس کی خواہش ہو گی کہ اس مریض کو جلدصحت مندنہ ہونے دیا جائے ۔
جو شخص نرم طبعیت اور حلیم ہو وہ ڈاکٹر بنے تاکہ مریض اس سے متاثر ہو اور جب تک مریض کو تندرست نہ کر دے اسے چین نہ آئے۔
البتہ ان لوگوں کو تجارتی کاموں میں بھی نہ آنے دیا جائے کیونکہ ایسے لوگ اقتصادی تباہی کے موجب بن سکتے ہیں اور صحیح و سالم اقتصاد کی شکل بدل کر رکھ دیں گے اور ملک تباہی کے دہانے پہنچ جائے گا ۔
لہذا استعداد کو صحیح اور درست سمت میں لانے کے لئے ان پر کنٹرول ضروری ہے اس وقت اقتصادی کنٹرول انتخاب کے مطابق ہو گا اسی طرح قدرتی ذخائر سے استفادہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے کچھ قواعد ہوں تاکہ ہم ان ذخائر سے منظم طور پر زیادہ سے زیادہ استفاد ہ کر سکیں یہ ایک اصولی بحث ہے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ہم اس سے بہتر استفادہ کر سکیں ۔
خود پسندی انسانی فطرت ہے
یہ ہماری جہان بینی کی بحث کا ایک حصہ ہے بلکہ یہ اعتقادی بحث ہے کہ زندہ موجودات فطری طور پر خود پسند ہیں اپنی ذات سے محبت رکھتے ہیں البتہ ہم صرف انسان کے متعلق بحث کرنا چاہتے ہیں جب کہ باقی موجودات بھی انسان کی طرح ہی خود پسند ہیں۔
انسان سب سے زیادہ اور سب سے پہلے اپنی ذات سے عشق کرتا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نفسیاتی نقطہ نظر سے ہم سب پر واضح ہے انسان کی طرح حیوانی روح کے مالک سب جانور بھی اسی طرح ہیں یہ بات تجربہ کی روشنی میں واضح اور عیاں ہو چکی ہے ۔
لہذا انسان کی خود پسندی ، منفعت کی طرف رجحان ،ضرر رساں چیزوں سے دوری وغیرہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ ہم اقتصاد کی بحث کرتے ہوئے انہیں نظر انداز کر دیں اور بہرحال خود پسندی اسلامی نقطہ نظر سے بھی قابل مذمت نہیں ہے۔
خدا نے اسے انسان کے لئے ضروری قرار دیا ہے لیکن اس حد تک جتنی اسلام اس کی اجازت دیتا ہے کیونکہ قرآن مجید نے یہ کہیں نہیں کہا کہ انسان اپنی ذات سے محبت نہ کرے اور نہ ہی خدا کی طرف سے کسی نے یہ بات کی ہے ۔
اسی طرح کوئی واعظ یا ماہر نفسیات بھی یہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ انسان اپنی ذات سے دشمنی رکھے کیونکہ خود پسندی ،حب ذات اور نفس سے عشق کو خدا نے ہی انسانی وجود میں رکھا ہے بلکہ یہ تاریخ اور اقتصاد کو متحرک رکھنے والی قوت ہے تاکہ انسان اپنی ارتقائی منازل کو طے کر سکے ۔
انسان کی طلب
مندرجہ بالا بحث کے ضمن میں ایک اہم بحث یہ ہے کہ انسان کی طلب اور خواہش کبھی ختم نہیں ہو تی یعنی انسان میں ایسی حس موجود ہے جو اسے سیر نہیں ہونے دیتی بلکہ اس کی طلب میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ہمیشہ اسے مال ودولت کو بڑھانے کی خواہش ستاتی رہتی ہے البتہ کھانے کی طلب ایک جسمی پہلو ہے یہ جلدی ختم ہو جاتی ہے۔
اس کے وجود میں بعض چیزوں کی طلب لا محدود حد تک ہوتی ہے انسان خدا سے ایسی ایسی چیزوں کی خواہش رکھتا ہے جس سے اس کی خود پسندی ،نہ سیر ہونے والی حس اور حرص کا پتہ چلتا ہے جتنی عمر ڈھلتی ہے اتنا ہی حریص ہوتا چلا جاتا ہے۔(۴)لیکن انسان کے ساتھ خلق ہونے والی طلب کا کنٹرول کرنا ضروری ہے ۔
مار کس ازم اورسرمایہ داری نظام
مارکس ازم اورسرمایہ داری نظام دو مختلف مکتب ہیں انہوں نے ملکیت اور قدرتی ذخائر کے حصول کے حوالہ سے دو الگ الگ راہیں بیان کی ہیں دونوں میںافراط وتفریط موجود ہے یہ لوگ عملاً اپنے اس منصوبہ کو کامیابی کے ساتھ لا گو نہیں کر سکتے۔
سرمایہ داری نظام کی بنیاد مکمل آزادی ہے۔ انسان اپنی مرضی سے جتناان طبعی ذخائر سے استفادہ کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ ان کے ہاں حکومتی مالکیت کا کوئی وجودنہیں ہے صرف افراد کی مالکیت ہے یہی مارکس ازم اورسرمایہ داری نظام میں فرق ہے یعنی سرمایہ داری نظام میں افراد مالک ہوتے ہیں حکومت مالک نہیں ہوتی۔
مارکس ازم کے نزدیک معاملہ اسکے بر عکس ہے ان کے نزدیک صرف حکومت مالک ہے افراد مالک نہیں بن سکتے یہ لوگ انسان کو کسی چیز کا مالک ہونے
سے محروم رکھتے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی جب کہ ان کے مقابلے میںسرمایہ داری نظام والے چاہتے ہیں کہ مالکیت کو حکومت سے چھین کر عوام کو دے دیں۔
دونوں نظاموں کی شکست
اس افراط وتفریط کی وجہ سے دونوں مکاتب کو شکست کا سامنا کرنا پڑ ا آج دنیا میں نہ تو آپ کو کوئی کیمونیسٹ ملک ملے گاجہاں شخصی ملکیت کسی کے پاس نہ ہو اور نہ کوئی سرمایہ دار انہ نظام کا قائل ملک ملے گا مثلًاجنوبی افریقہ ،کینیڈا اور امریکہ جہاں حکومت کسی چیز کی مالک نہ ہو بلکہ کیمونیسٹوں کے ہاں شخصی ملکیت دیکھی جاسکتی ہے اور سرما یہ داروں کے ہاں حکومتی ملکیت کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
بہر حال یہ دونوں مکاتب سمجھ چکے ہیں کہ یہ ایک غیر حقیقی فکر ہے اسی وجہ سے سوشلزم اورسرمایہ داری نظام کی حدود ختم ہو گئی ہیں سوشلزم ایک افراطی ملک ہے یہ کامیوج ممالک کی طرح ہے جس میں ہر چیز کے لئے کوپن سسٹم ہے حتی انہیں پیسہ بھی کوپن کے ذریعے ملتا ہے۔ جب ان کو اپنے نظام میں کامیابی نصیب ہوئی تو انہوں نے بینکوں سے رقم نکال کر باہر سڑکوں پر پھینک دی تاکہ سب پیسہ تباہ اور ختم ہوجائے اسی طرح فرانس بھی سوشلزم کا دعویدارہے اس کے پاس امریکہ اور کینیڈا سے کوئی چیز بھی کم نہیں ہے ۔
بہر حال کامیوج اور فرانس دونوں سوشلسٹ ملک ہیں جب کہ اتریش جیسے ملک میںسرمایہ داری نظام ہے اس ملک کے ٦٥ فیصد اموال پر حکومت کی ملکیت ہے اور صرف ٣٥فیصد پرائیوٹ ہے البتہ بعض مملک میں پرائیوٹ سیکٹر پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔
سوشلزم کے منفی تجربات
جب روس میں انقلاب آیاتو یہ لوگ ملک میں سوشلزم نظام جاری کرنے کی سعی کرنے لگے یہاں تک کہ گھروں میں بھی اشتراکی نظام کی بحثیںہونے لگیں لیکن جب انہیں رسوائی ہوئی تو یہ لوگ اپنے موقف سے ہٹ گئے ۔مارکس اور مارکس ازم کے متعلق کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۵)تو معلوم ہو جائے گاکہ یہ چاہتے ہیں کوئی چیز بھی کسی کی نجی ملکیت میں نہ اس میں اس کی تعلیمات، اس کی پیدائش سے لے کر اس صدی کی چھٹی دہائی تک کے حالات بیان کئے گے ہیں اس کتاب کے مصنف جناب انڈر پیٹر پیرس کی اقتصادی یونیورسٹی کے استاد رہے ہیں۔
آسکے لیکن جب انہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی تو آہستہ آہستہ اپنے اس غلط نظام سے دور ہوتے گئے یہاں تک کہ اواخر میں کسان کو کچھ مقدار زمین دینے پر مجبور ہو گئے اس وقت تک ٤یا ٦ فیصد روسی زمینیں نجی شعبہ کے پاس ہیں۔
یہ لوگ ٥٠٠ یا ١٠٠٠ میٹر تک اپنے گھرکے اطراف میں ان زمینوں کے مالک ہیں میں نے ایک مضمون میں عجیب بات کو پڑھا کہ روس کے ٢٥فیصد زرعی محصولات ان ٤ فیصد آپ اسٹر بورک کے قانون اور اقتصادی یونیورسٹی کے رئیس (ھیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ بھی ہیں )۔اس بحث کے متعلق مئولف نے ابتدا میں انگلس کے قول کو مد نظر رکھتے ہوئے خاندان کے اشتراک کے متعلق لکھا ہے اور اسے عورت کی رہائی کی پہلی شرط قراردیا ہے اور اس نے لکھا ہے کہ اس طرح صنف نازک بھی مردوں کے ہم پلہ ہوجائیں گی۔
اسے وہ معاشرہ کے تقاضوں کے مطابق بیان کرتا ہے اس کے نظرے کے مطابق گھریلو اور خصوصی اقتصاد اجتماعی اقتصاد میں بدل جائے گا اور اس سے بچوں کی تربیت ،پرورش اور حفاظت ایک عمومی کام کی شکل اختیار کر لے گی۔
شرعی بچے ہوں یا زناکاری کا نتیجہ ہوں معاشرہ سب کو ایک نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کی حفاظت کرے گا۔مارکس و مارکیسم ص١٠٢ ۔اس کے بعد ١٩٥١ ء میں اس کے فرانسیسوی دوست لینن کے سامنے اپنے ان جدید نظریات کو پیش کیا کہ عورت اپنے عشق اور چاہت میں آزاد ہے اور ہر چیز میں اس کی مرضی شامل ہے تو لینن نے اسے مصلحت کے خلاف گردانا کیونکہ موجودہ اجتماعی اور معاشرتی حالت میں یہ چاہت نا مناسب چاہت ہے ۔مارکس اور مارکیسم ،ص١٠٣ ۔
خاندان کی تبدیلی کے حوالہ سے لینن نے اپنا جدید نظریہ اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ طریقہ کار چھوٹے اور بڑے اجتماعی خاندان کے لئے دشوار ہے اور مشکل ہے۔اس کے لئے انتہائی دشوار نظم ونسق کی ضرورت ہے جو کہ حقیقت میں مننظم نہیں ہے بلکہ بے نظمی اور بربریت ہے بہر حال اس راستہ کا آغاز ہو چکا ہے اور اس راہ پرہم نے نئے نئے قدم جمائے ہیں۔ وہی ماخذزمینوں سے حاصل ہوتے ہیں اور انہیں بہترین زرعی محصول شمار کیا جاتا ہے اس سے واضح ہو جائے گا کہ ان کے لئے نجی شعبے کس قدر مئوثر ہیں ۔
روسی سوشلسٹ امریکی سرمایہ داروں کے محتاج
سوشلسٹ تمام اموال کو حکومت کے سپرد کرنے کی وجہ سے آج اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہیں گزشتہ دنوں یہ خبر عام تھی کہ روس نے کئی ملین ڈالر کی گندم ارجنٹائین سے منگوائی ہے۔
مجھے علم نہیں اتنی رقم والی بات درست ہے یا نہیں لیکن ایسا ملک جو اس دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کا مالک ہو جس کے ملک میں آب و ہوا بھی مناسب اور وافر ہو وہ کبھی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے امریکہ کی منت کر رہاہو اور کبھی کسی اور ملک کی خوشا مد کرتا نظر آئے۔
اسے امریکہ وغیرہ اس لئے گندم نہیں دیتے تا کہ یہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے یہ سب مسائل لوگوں کے نجی ملکیتوں پر قبضہ کر لینے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔دوسری طر ف سر مایہ داری نظام نے نجی شعبہ کو انتہائی حد تک اجازت دی تو اہل ثروت بھیڑیے بن جائیں گے اور کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے لہذا اس نظام کو ایک حد تک کنٹرول کرنے کی ضرورت محسوس کرنے لگے۔ لہذا انہوں نے کنٹرول کرنے کی ٹھان لی جیسا کہ امریکہ میں محدود کرنے کیلئے ایک قانون نافذ کر دیا گیا ہے(۶)۔
اور بہت زیادہ ٹیکس لگا دیے گئے ہیں(۷)۔انہیں آج کل آپ لوگ ملاحظہ فرمارہے ہیں اسے کبھی یہ لوگ سوشلسٹ کا نام دیتے ہیں جیسے فرانس اور سوتر میں کبھی اس کا نام کیپٹل ازم رکھ لیتے ہیں ۔
مختلف مالکیتیں اور اسلام
اسلام کے کنٹرول کرنے کا نظام اس طرح نہیں ہے خوش قسمتی سے
اسلام ١٤٠٠ سال پہلے اپنی پالیسیاں واضح کر چکا ہے جو ان دونوں نظاموں سے جدا ہیں تاکہ یہ دنیا
١۔ملکی۔
٢۔بین الاقوامی ۔
پہلی صورت میں بنیادی ہدف قیمتوں کا اثبات اور توازن تھا تاکہ ملک مہنگائی کی وجہ سے تباہی کے دہانے تک نہ پہنچ جائے ۔
دوسری صورت یہ کہ مختلف ممالک کی کمپنیوں میں اتحاد پیدا کیا جائے تاکہ پوری بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنا تسلط قائم کیا جاسکے بین الاقوامی کارتل حقیقت میں چند ملکوں کی کمپنیوں کا نام ہے یہ سب کمپنیاں ایک دوسرے میں منضم ہو کر ایک ادارہ بن گئی ہیں۔
اس ادارے کا ہدف پیداواری نظام میں توازن پیدا کرنا ہے اور اسے بہتر انداز میں منظم کرناہے سرمایہ داری لوگوں نے مارکس ازم کے خطرے اور مزدوروں کے خوف سے کچھ نئے قوانین وضع کیے ہیں حقیقت میں یہ تراست کے مقابل ہیں یہ سلسلہ امریکہ اور اس جیسے دوسرے ممالک نے اس لئے شروع کیا ہے تاکہ چھوٹے سرمایہ داروں کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں ۔
والے آج یہ نہ کہہ سکیں کہ اسلام سرمایہ داری نظام اور سوشلزم کا امتزاج اور مجموعہ ہے ایسا نہیں ہے۔
ہم ١٤٠٠ سو سال پہلے اپنی شناخت کروا چکے ہیں۔ اسلام تو اس وقت ان مسائل کو بیان کررہاتھا، جب نہ تو کسی گاڑی کا مسئلہ تھا اور نہ بڑی تجارت تھی اور نہ ایٹم کامسئلہ تھا اور نہ اقتصادی مسئلہ تھا۔ اس وقت مال ودولت کی جمع آوری کا خطرہ بھی نہ تھا، بڑے بڑے حکومتی منصوبوں کا وجود تک نہ تھا۔ آج کل کے مسائل نہ تھے۔ اسلام کے آغاز سے ہی حکومت کی حاکمیت اور مالکیت کے ساتھ ساتھ شخصی اور عمومی مالکیت بھی تھی۔ اسلام گویا تین قسم کی مالکیت کا تصور کرتا ہے۔
الف: کچھ چیزوں پر سب کا حق ہے جیسے مفتوح عنوة زمینیں(۸)اوقاف اور اس قسم کی دوسری چیزیں اس میں شامل ہیں۔
اس کی ملکیت پر تمام مسلمانوں کابرابر حق ہے البتہ اس کی شرط یہ ہے کہ جنگ کرنے والوں نے معصوم علیہ السلام کی اجازت سے جنگ کاآغاز کیا ہو او راگر کوئی گروہ معصوم علیہ السلام کی اجازت کے بغیر ایسے اموال حاصل کر لے توان پرصرف معصوم علیہ السلام کوتصرف کاحق ہوگا
ب: بعض چیزیں صرف حکومت کے اختیار میں ہیں جیسے انفال یعنی، دریا، سمندر ، معادن پہاڑ اور جنگل وغیرہ
ج: بعض چیزیں صرف شخصی ملکیت ہیں ان سے شرعی قواعد کے تحت استفاد ہ کرنا ہو گا۔
اسلام ان تین اقسام کی مالکیت کے ساتھ ساتھ ایک مافوق مرکزی نقطہ کا حامل بھی ہے تا کہ تینوں صحیح انداز میں چلیں اور سرکشی نہ کر سکیں اور وہ مرکزی نقطہ شرعی حکومت ہے یہ نجی شعبے میں خرابیاں پیدا نہیں ہونے دیتی۔
اسی طرح حکومتی حصے میں بھی سرکشی کو برداشت نہیں کرتی اور عمومی حصے اور ملکیت کو بھی ضائع ہونے سے بچاتی ہے البتہ اسلامی کنٹرول فقط اس حد تک محدود نہیں ہے۔
خود پسندی اور اسلام
انسانی روح خود پسند ہے اس کی خواہشات ہیں اس کی طلب زیادہ ہے اسلام ان سب کو مدنطر رکھ کر صحیح راہ کا انتخاب کرتا ہے اور حقیقی زندگی کا نظارہ دیکھتا ہے ایک طرف مادی زندگی کا پتہ دیتا ہے تو دوسری طرف اخروی زندگی کا بہشت اور جہنم کو اسی طرح پیش کرتا ہے کہ انسان خود پسندی کو چھوڑ کر خودسازی کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔
یہ خودسازی اس مرحلے تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ انسان جو صرف اور صرف اپنی ذات کا عاشق تھا آج وہی انسان جان ہتھیلی پر رکھ کر دوسروں کی خاطر شہادت کا رتبہ پانے کے لیئے بے چین ہے اور جان سے پہلے مال قربان کر دیتا ہے آپ میرے اس دعوی کو ایران میں بغور دیکھ سکتے ہیں۔
وہ نوجوان جو اپنے اندر ہزاروں ارمان لئے ہوئے تھا اورخصوصاً اس آزادی کی بہار اور اسلامی حکومت کی روشنی میں اپنے لئے بہت کچھ پسند کرسکتا تھا اسے کم از کم اس جمہوری اسلامی کے لئے کچھ نہ کچھ کام ضرور کرنا چاہیے تھا تاکہ اسلام کے درخشاں مستقبل کا نظارہ کیا جاسکے جب ہم ان خوبصورت نوجوانوں کو دیکھتے ہیںکہ یہ لوگ دذفول کے بیابانوں اور جنگلوںمیںخوب صورت انداز میں اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔
دوسری طرف ان کی نوجوان بیویاں اپنے یادگارتحفوں اور زیورات کو جنگ زدگان کی امداد کے لیئے ہدیہ دے دیتی ہیں تاکہ جنگی اخراجات پورے ہو سکیں۔
اسی بنیاد اور اساس کو مدنظر رکھ کر اسلام اس راستہ کی جڑیں مضبوط کررہا ہے اسلام خود پسندی کو قبول کرتا ہے لیکن مارکسزم کی طرح انسان کے ساتھ غیر حقیقی اور نامناسب رویہ اختیار نہیں کرتا ۔
اسلام اسے یہ سبق نہیں دیتا کہ وہ کسی مشین کے پرزے کی طرح ہے جسے جب چا ہیں تبدیل کر دیں یا ایک دھات کی طرح ہے جسے جس قالب میں ڈھالنا چاہیں وہ ڈھل جائیں ایسا نہیں ہے بلکہ اسلام نے تو انہیں مکمل اختیار دے رکھا ہے یہ اپنے ارادے اور مرضی کے مطابق جتنا کام کرنا چاہیں کریں ان کا یہ کام فلاح و بہبود کا موجب بنتا ہے۔
اسی طرح اسلام سرمایہ داری نظام کی مانند سرگرداں بھی نہیں ہے کہ انسان کی خود پسندی انتہا ء تک پہنچ جائے اور ہم اس کی خود پسندی کو کنٹرول نہ کریں اوراسکی باگیں کھلی چھوڑ دیں وہ جیسا کرنا چاہے کرتا پھرے، نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ ایک انسان اپنے کتے اور بلی کے لئے فرانس سے بکرے کا خالص گوشت منگوائے اور دوسری طرف ماں بھوک کی وجہ سے بچے کو دودھ نہ دے سکے غربت اور افلاس نے اس کا دودھ خشک کر دیا ہو۔
جیسا کہ مشہور شعر ہے ۔
خرچ یک روز بچت مطبخ تو
صرف یک سال زندگانی ما است
تیرے ایک وقت کھانے کا خرچ ہمارے سال بھر کے مصارف کے برابر ہے۔
بہر حال معاشرے کے لئے ایسی حالت پیش نہیں آنا چاہیے اسلام دونوں جہتوں کو مد نظر رکھے ہوئے ہے اسلام میں حکومتی عمومی اور شخصی مالکیت آغاز سے ہی موجود ہے اور آج بھی یہ تمام موجود ہیں ہمیں اسی بنیاد اور اساس پر چلنا ہو گا نہ شرق نہ غرب والا نعرہ جو ہم بلند کرتے ہیں اقتصادی امور میں بھی اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا ۔
جہان بینی اور آئیڈیالوجی میں فرق
اس خطبہ میں جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلامی جہان بینیاور آئیڈیالوجی سے پیدا ہونے والے دو اصولوں کو بیان کرنا چاہتاہوں۔ آئیڈیالوجی اور انسانوں میں بہت فرق ہے اور یہ ایک دوسرے سے جدا جدا ہیںاسلام اس تفاوت کو ختم کرنے کی فکر میں نہیں ہے البتہ اسے کنٹرول ضرور کرنا چاہتا ہے۔
یہ جو انسان کے اندر خود پسندی اور نفع کی طلب موجود ہے اس کا کنٹرول اس عنوان سے ہے کہ حکومت بہتر نظام وضع کرے اور روحانی تعلیمات سے اسے سمجھا جا سکتا ہے اور عملی جامہ پہنانے میں روحانی تعلیمات بہترین ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں ۔
حوالہ جات
(١) آل عمران :٢٦
(۲)روم :٢٢
(۳)انیسویں صدی کے اوخر میں انگشت نگاری کا طریقہ کار کشف ہوااس کے بعد برطانوی سکالر نے ایک لیبارٹری تیار کی اور اس شعبے میں ترقی ہوتی گئی ، اب ایک صدی گزرنے کے بعد اس میں بہت زیادہ پیش رفت ہوئی ۔اسی طرح ایک ایرانی سکالر نےR.Hخون کے ٹیسٹ سے بالوں کے ذریعہ مجرم کی شناخت کا طریقہ نکال لیا۔
(۴)جیسا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ۔
یھرم ابن آدم و یشب منہ اثنان الحرص علی المال ،والحرص علی العمر ۔
ابن آدم دو چیزوں کی خواہش و طلب میںمگن ہے ایک تو وہ مال کا حریص ہے اور دوسرا زندگی کے بڑھانے کی تگ ودو میں مگن ہے ۔جیسا کہ انس بن مالک رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت ۖنے ارشاد فرمایا۔
یھلک (او قال یھرم )ابن آدم و یبقی منہ اثنان والامل ۔
ابن آدم دو چیزوں کی خواہش میں ہلاک ہو گیا یا دو چیزوں کی خواہش میں سرگرداں ہے ایک حرص ہے اور دوسری خواہشات۔ خصال صدوق ١٠٥ اور ١٠٦
(۵)مارکس اور مارکس ازم اس کے مولف انڈر پیٹر ہیں( piettre ،andre ) اور اس کتاب کا فارسی ترجمہ شجاع الدین ضئیان نے کیا ہے اور اسے انتشارات دانشگاہ تہران نے ١٣٥٢ شمسی کے آذر ماہ میں شائع کیا۔ اس کتاب کی پہلی طباعت پر ڈاکٹر حمیدعنایت نے مقدمہ لکھا ہے اس میں کہا ہے کہ یہ تہران یونیورسٹی سے شائع ہونے والی کتابوں میں پہلی کتاب ہے جو کارل مارکس کی شخصیت کے متعلق لکھی گئی ہے۔

(۶)کارتل ایک اقتصادی مجموعہ ہے تاکہ اس سے خرید فروخت میں توازن پیدا ہوسکے اور اس کا مقصد باز ار پر قائم تسلط کو ختم کرنا تھا یہ کام دو طر ح کا تھا
(۷)یہ ان تدابیر میںسے ہے جیسے بعض سرمایہ دار ممالک زیادہ قیمت پر ٹیکس وصول کرتے ہیں یہ سسٹم بین الاقومی طور پر رائج ہے البتہ تراست سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں کو شامل نہیں ہوتا کیونکہ یہ لوگ اس سسٹم پر حاکم ہونے کے ساتھ ساتھ حصہ دار بھی ہیں ۔
(۸)ایسی زمینیں جنہیں مسلمان جنگ کے ذریعے فتح کریں انہیں اصطلاح میں مفتوح عنوة زمین کہا جاتا ہے۔ یہ زمین خواہ جنگ کی صورت میں ملے یا جنگ سے پہلے ہی وہ لوگ مسلمانوں کے سپرد کریں ان زمینوں پر حقوق کے سلسلے میں مرسلہ عباس الوراق ہے اس روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے آپ نے فرمایا۔
تہذیب ج ٤، ص ١٣٥ ،وسائل ج ٦ ص ٣٦٩۔
مفتوح عنوة زمین کی تفصیل اور دیگر احکام کے لیئے رجوع کریں مسالک الافہام ج ٢، ص ٢٢٥ ،مفتاح الکرامة ج ٤، ص ٢٣٩ جواہر ج ٢١ ص ١٦٧۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.