امام زمانه کي سيرت پيش کرنے ميں افراط و تفريط
قيام امام زمانه کے آغاز ميں جو جنگيں اور قتل و غارت هوگي وهاں کچھ لوگ افراط و تفريط کرتے هوۓ منحرف نظريات پيش کرتے هيں:
حضرت کي محبت اور مهرباني سے معمور شخصيت:
بعض لوگ حضرت کي شخصيت سے هر قسم کي جنگ و جهاد ک ومٹا ديتے هيں يه که اس دور ميں معجزازنه انداز سے سب کام هوجاﺋيں گے اور حضرت اسقدر مهربان هيں که کسي ظالم کو اس کے عمل کي سزا بھي نه ديں گے ايسا منحرف خيال خود اهلبيت کے زمانه کے لوگوں ميں بھي موجود تھا:معمر بن خالد روایت کرتے ہیں که امام رضا علیہ السلام سے حضرت قاﺋم کے حوالے سے گفتگو هوئ تو آپۜ نے فرمايا:
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لو قد خرج قاﺋمنا لم يکن الا العلق و العرق والنوم علي السروج(غيبت نعماني باب ۱۵ ص۲۸۵)
گويا تم اس زمانه والوں سے سهل پسند هو جب قاﺋم قيام کريں گے تو (سواريوں )زينوں پر (مسلسل کوشش اور جنگ کي تھکاوٹ سے) خون ٬پيسه بهانے اور نيند کو ترک کے علاوه کوئ کام نه هوگا-
اس منحرف نظريه کے نتاﺋج :
۱)ظهور کے اسباب فراهم کرنے کےليے ٬تياري اور کوشش نه کرنا
۲)جھوٹي اميد که جس کي بنا پر بهت سے لوگ شرعي ذمه دارياں ادا کرنے ميں سست هوجاتے هيں-
ايسے منحرف نظريات کے اسباب:
۱)تمام امور کو معجزه سے حل کرنے کي سوچ
۲)حضرت کي بے پناه حکيمانه محبت و مهرباني کے بارے دقيق فهم و فکر نه هوگا
۳) دين(آيات اور سيرت اهلبيت) پر جامع نگاه کا نه هوگا-
علاج:
دين ميں علم وبصيرت رکھنا ٬آيات و روايات اور سيره اهلبيت کا تجزيه کرنا اور بالخصوص مندرجه ذيل مطالب کو درک کرنا:
۱)غيبي امداد سے کيا مراد هے اور قيام کے دوران اس کي وضعيت کيا هے ؟
۲)حکمت اور محبت ميں رابطه کا تجزيہ کرنا که حکيم کي محبت ومهرباني اس کي حکمت سے پيدا هوتي هے اور حکمت کا تقاصا نهيں هے که ايسے ظالم لوگ جنهوں نےظلم وجنايات کے علاوه کوئ کام نهيں کيا ٬نه ان پر وعظ و نصيحت کا اثر هوتا هے اور نه وه صراط مستقيم پر چلتے هيں ان پر رحم کيا جاۓ۔ ۔ ۔
حضرت کا قهر
کچھ لوگ آپ کي شخصيت کو غيض و غضب سے معمور بنا کر پيش کرتے هيں که جو سواۓ قتل اور خون بهانے کے اور کچھ نهيں کريں گے يه بات بھي قرآني آيات اور پيغمبروں اور اوصيا کي رسالت و وظاﺋف سے مطابقت نهيں رکھتي اس نظريه کے نتاﺋج :
۱: لوگوں کے دلوں ميں امام کي نسبت نفرت اور اضطراب ڈالنا
۲: حضرت سے ڈر اور خوفزده رهنا اور امام کو مهربان باپ کي حيثيت سے قبول نه کرنا
۳: يه خوف کے شايد امام همارے اعمال صالحه قبول نه کريں مايوس هوجانا چونکه اکثر لوگ قتل هوجاﺋيں گے شايد وه بھي ان ميں سے هو اسکے اعمال بھي قبول نه هوں –
خلاصه يه که امام کي نسبت هميشه خوف ٬مايوسي ٬اور نفرت باعث بنے گي که انسان کبھي حضرت اور انکي سيرت اور ادهداف کے بارے ميں فکر وتامل نهيں کرے گا-
ايسے منحرف نظريات کے اسباب :
۱: بصيرت کا نه هونا اور دين کي طرف جامع نگاه رکھنا
۲: روايات کي سند اور متن پر تحقيق اور تجزيه نه کرنا
علاج
۱- روايات کے تجزيه سے معلوم هوتا هے که بهت سارے ايسے مطالب ٫٫خون کي نهريں ٬آدھي سے زياده دنيا کا قتل ۔ ۔ ۔ وغيره ٬٬ ثابت نهيں هيں ايسي روايات جو ان مطالب کو نقل کرتي هيں سند اور متن کے حوالے سے قابل اعتراض هيں-
۲- محققين کے ذريعے تشريح کريں :
۱ : جنگ صرف ان لوگوں سے هے که جو جنگ کے علاوه کوئ زبان نهيں سمجھتے نه عام لوگ بلکه عام لوگ تو دل و جان سے حضرت کي طرف بڑھيں گے-
ب) حضرت لوگوں کے ساتھ انتهائ مهرباني سے پيش آﺋيں گے بلکه ساري دنيا سے زياده آپ مهربان هونگے جيسا که روايت ميں هے ٫٫جواد المال ٬رحيم بالمساکين ٬شديد علي العمال(بشارۃ المصطفي ص۲۰۷) يعني آپ مال کے حوالے سے سخاوت کرنے والے هونگے ٬مسکينوں سے مهربان اور لوگوں کے امور کے ذمه دار افراد سے سختي کرنے والے هونگے-
ايک روايت ميں امام رضا علیہ السلام امام معصوم کي صفات يوں بيان فرماتے هيں:
يکون اعلم الناس و احکم الناس و اتقي الناس و احلم الناس و اشجع الناس و اسخي الناس ۔ ۔ ۔ و يکون اولي بالناس منھم بانفسھم و اشفق عليھم من آباﺋھم و امھاتھم و ۔ ۔ ۔ ۔(من لا يحضر الفقيه ج۴ ص۴۱۸)
يعني امام سب لوگوں سے بڑھ کر عالم اور سب سے بڑھ کر صاحب حکمت سب سے بڑھ کر پرهيز گار ٬سب سے بڑھ کر حليم ٬سب سے بڑھ کر شجاع ٬سب سےبڑھ کر سخي ۔ ۔ ۔ وه لوگوں سے انکي جانوں سے بڑھ کر اولويت رکھنے والا اور لوگوں سے انکے والدين سے زياده درد دل رکھنے والا هے اور ۔ ۔ ۔ ۔
۳- آخر ميں يهي کها جاسکتا هے که روايات کے مطابق ايک عالم کي ذمه داري يه هے که وه خوف و اميد کے درميان ميانه روي برقرار کرے تاکه نه خود افراط و تفريط کا شکار هو اور نه اپنے مخاطبين کو افراط و تفريط کے گھڑے ميں ڈالے-