عزاداري کي ماہيت

184

عزاداري کي ماہيت

محرم سے مربوط مسائل ميں دو نوعيت کي باتيں ہيں، پہلي، عاشورائ کي تحريک کے بارے ميں گفتگو ہے، اگرچہ بزرگوں نے امام حسين ٴ کے قيام کے فلسلفے کے بارے ميں بہت کچھ لکھا ہے، لکھا بھي ہے اور اس مفہوم پر بہت قيمتي گفتگو بھي فرمائي ہے ليکن اس تابناک و درخشاں حقيقت کے بيان کے لئے ايک عمر درکار ہے۔
عاشورائ کے مسئلے اور قيامِ حسيني پر جتنا ہي زيادہ غورو فکر کريں ،اس کے باوجود يہ مسئلہ مختلف پہلوو ں ميں غور و فکر ، سوچ بچار اور گفتگو کي کشش اور گنجائش رکھتا ہے۔ جتنا بھي اس عظيم قيام کے بارے ميں سوچيں، ممکن ہے(ہر مرتبہ) تازہ حقائق سے دوچار ہوں۔ يہ وہ پہلا مفہوم ہے جس کے بارے ميں اگرچہ پورے سال گفتگو کي جاتي ہے اور کي بھي جاني چاہئيے ليکن محرم کو ايک خصوصيت حاصل ہے اور ايّام محرم ميں اس مفہوم پر زيادہ سے زيادہ گفتگو کي جاني چاہئيے۔ جس طرح کرتے ہيں اور ان شائ اللہ آئندہ بھي کريں گے۔
محرم کي مناسبت سے گفتگو کے لئے دوسرا مفہوم، جس کے بارے ميں کم ہي گفتگو ہوتي ہے اور ہم چاہتے ہيں کہ آج رات اس کے بارے ميں کچھ گفتگو کريں وہ حسين ابن علي ٴ کي عزاداري اور عاشورائ کا ذکر زندہ رکھنے کي برکات ہيں۔
مسلمہ طور پر دوسرے مسلمان بردران سے، شيعوں کے نماياں امتيازات ميں سے ايک يہ ہے کہ ان کے يہاں واقعہ عاشورا موجود ہے۔
وہ دن کہ جب سے حسين ابن علي ٴ کي مصيبت کے ذکر کا آغاز ہوا، اہل بيت ٴ پر اعتقاد رکھنے والوں اور ان کے محبین کے قلب و ذہن ميں فيض و معنويات کا ايک چشمہ جاري ہوا، جو آج تک اسي طرح مسلسل رواں دواں ہے اور ان شائ اللہ آئندہ بھي جاري و ساري رہے گا، اس کا سبب بھي واقعہ کربلا کي ياد مناتے رہنا ہے۔
عاشورائ کي ياد محض ايک واقعہ کا تذکرہ نہيں بلکہ ايک ايسے حادثے کا بيان ہے جس کے بے شمار پہلو ہيں۔ اس واقعے کي ياد درحقيقت خود ايک ايسا مفہوم ہے جو کثير برکات پر منتہي ہوسکتا ہے۔ لہذا آپ ملاحظہ فرماتے ہيں کہ آئمہ ٴ کے زمانے ميں امام حسين ٴ پررونے اور رلانے کا مسئلہ ايک خاص مقام رکھتا تھا۔ايسا نہ ہو، کسي ذہن ميں خيال آئے کہ فکر و منطق اور استدلال کي موجودگي ميں رونے اور قديم ابحاث کي کيا گنجائش ہے؟
نہيں جناب ! يہ غلط فہمي ہے ان ميں سے ہرچيز کا اپنا ايک مقام ہے، ان ميں سے ہر ايک کا انساني شخصيت کي تعمير ميں ايک حصہ ہے، جذبات و احساسات کا اپنا مقام ہے اور صرف منطق و استدلال کافي نہيں۔ آپ اگر جائزہ ليں تو ديکھيں گے کہ انبيائ کي تحريکوں ميں، اُس وقت جب کہ انبيائ ٴ مبعوث ہوتے تھے تو پہلے مرحلے پر ان کے گرد جمع ہونے والے لوگوں کے اکھٹا ہونے کا اصل محرک منطق و استدلال نہ تھا۔
آپ کو پيغمبر اسلام ۰ کي تاريخ ميں، جو ايک مدون اور واضح تاريخ ہے، نہيں ملے گا کہ مثلاً آنحضرت نے کفار قريش کے ايک با اہليت اور صاحب استعداد گروہ کو بٹھايا ہو اور ان پر استدلال کيا ہو اور مثلاً کہا ہو کہ اس دليل سے خدا کا وجود ثابت ہے يا اس دليل سے خدا واحد ہے ،يا اس عقلي دليل سے، بت باطل ہيں۔ پيغمبر اسلام ۰ کے استدلال بعد کے دور سے مربوط ہيں۔ عقلي دلائل اُس زمانے سے مربوط ہيں جب آپ ۰ کي تحريک آگے بڑھي ، ابتدائ ميں آپ ۰ کي تحريک جذبات و احساسات پر مبني تھي۔
پہلے مرحلے ميں پيغمبر ۰ نے نا گہاں آواز بلند کي کہ ان بتوں کي جانب نظر اٹھاو ، ديکھو کہ يہ ناتواں ہيں، اسي مرحلے ميں آپ ۰ نے ارشاد فرمايا کہ ديکھو خدا واحد ہے۔ ’’ قولوا لاالہ الا اللہ تفلحوا ‘‘ کس دليل سے ’’ لاالہ الا اللہ ‘‘ موجب فلاح ہے ؟ يہاں کون سا عقلي اور فلسفي استدلال پايا جاتا ہے؟ ليکن ہماري بحث اس بات ميں ہے کہ جب نبي اپني دعوت شروع کرنا چاہتا ہے تو فلسفي استدلال پيش نہيں کرتا، سچے احساس و جذبات کو سامنے لاتا ہے۔
البتہ وہ سچا احساس غير منطقي اور غلط نہيں ہوتا، اپنے اندر خود ايک استدلال رکھتا ہے۔ ابتدائ ميں يہ احساس معاشرہ ميں جاري ظلم و ستم ، طبقاتي اختلافات نيز اس دباو کي جانب متوجہ کرتا ہے جو جنسِ بشر و شياطينِ انس ميں سے خدا بن بيٹھنے والے لوگ لوگوں پر روا رکھتے ہيں۔ پھر جب تحريک معقول اور معمول کي روش پر چل پڑتي ہے تو منطقي کي باري آتي ہے ۔ ايسے لوگ جو عقلي طور پر پختہ اور فکري نمو کے حامل ہوتے ہيں عام استدلال سے واقف ہوجاتے ہيں، بعض انہي ابتدائي درجات ميں رہ جاتے ہيں، البتہ يہ نہيں کہہ سکتے کہ وہ لوگ جو استدلال کے اعتبار سے بلند درجے پر ہوتے ہيں وہ معنوي درجات کے لحاظ سے بھي لازماً بالاتر درجات پر ہوں، کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ وہ لوگ جن کي عقلي سطح نيچے ہوتي ہے مبدائ غيبي اور پيغمبر ۰ کے ساتھ ان کا جوش وجذبات اور ارتباط و علاقہ زيادہ اور ان کي محبت زيادہ پرجوش ہوتي ہے اور يہي لوگ بالاترين درجات حاصل کرليتے ہيں۔
اصل بات يہ ہے کہ جذبات کا اپنا مقام اور اہميت ہے، نہ ہي جذبات ،استدلال کي جگہ لے سکتے ہيںاور نہ استدلال جذبات کي،عاشورا ئ کا حادثہ اپني ذات و طبيعت ميں خود ٹھاٹھيں مارتے ہوئے سچے جذبات کا ايک سمندر ہے۔بلند مرتبہ ، پاکيزہ ، منور اور بے عيب ملکوتي شخصيت رکھنے والا ايک انسان، ايک اعليٰ ہدف کے لئے قيام کرتا ہے، ظلم و جور اور جنگ و عدوان سے معاشرے کي نجات کے لئے، جس کي صحت پر تمام منصفينِ عالم متفق ہيں۔
ايھا الناس ! ان رسول اللہ قال : من رآي سلطانا جائرا ‘‘
’’ اے لوگو ! رسول اللہ ۰ نے فرمايا : جو کوئي کسي ظالم بادشاہ کو ديکھے ۔‘‘
گفتگو يہ ہے کہ امام حسين ٴ اپني تحريک کا فلسفہ و مقصد ظلم سے مقابلہ قرار ديتے ہيں۔
’’ يعمل في عباد اللہ بالجور والطغيان ‘‘ يا ’’ بالاثم والعدوان ‘ ‘ لوگوں پر ظلم و ستم کرتا ہے۔‘‘
بحث اس موضوع پر ہے۔
ايک ايسا انسان، مقدس ترين راہ ميں ، جس کو تمام انصاف پسند قبول کرتے ہيں ،دشوار ترين جنگ کو برداشت کرتا ہے، دشوار ترين جنگ، عالم تنہائي ميں لڑي جانے والي جنگ ہے۔،دوستوں کے نعروں اور عام لوگوں کي تحسين و آفرين کي صداو ں کے درميان موت کا سامنا کرنا چنداں مشکل نہيںليکن جب حق و باطل کي صف آرائي ہو اور پيغمبر ۰ اور امير المومنين ٴ (علي ٴ) کي مانند کوئي حق کے محاذ کے راس و رئيس کے طور پر کھڑا ہو اور کہے کہ ’’ کون ہے جو ميدان ميں جائے؟ تو سب ہي لپکتے ہيں، پيغمبر ۰ ميدان ميں جانے والوں کے لئے دعا کرتے ہيں،ان کے سر پر ہاتھ پھيرتے ہيں، چند قدم ان کے ساتھ چلتے ہيں، مسلمان ان کے لئے دعا مانگتے ہيں۔ اس کے بعد وہ ميدان کي طرف جاتے ہيں، جہاد کرتے ہيں اور شہادت پاتے ہيں۔
يہ قتل ہونے اور جہاد کرنے کي ايک قسم ہے ،جہاد کي ايک اور قسم وہ جہاد ہے جب انسان ميدان نبرد کي جانب قدم بڑھاتا ہے تو پورا معاشرہ يا تو اس سے منکر ہے يا غافل ، يا تو اس سے لا تعلق ہے يا اس کا مخالف، دل سے اسے قابل تحسين سمجھنے والے کم لوگ ہوں اور وہ بھي اس کي زباني تحسين کي جرآت نہ رکھتے ہوں۔ يعني عاشورائ کے حادثے ميں عبداللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن جعفر جيسے لوگ کہ جو خود خاندان بني ہاشم کا حصہ تھے، اس شجرہ طيبہ کا جز تھے، جرآت نہيں کرتے کہ آئيں اور آکے مکہ يا مدينہ ميں صدا بلند کريں اور امام حسين ٴ کے نام کا نعرہ لگائيں۔
يہ ہے غريبانہ جنگ، جنگوں ميں دشوار ترين يہ جنگ ہے۔ سب اس انسان کے دشمن ہيں، سب اس سے روگرداں حتيٰ اس کے دوست بھي اس سے چشم پوشي کئے ہوئے ہيں۔ يہاں تک کہ جب امام حسينٴ ايک شخص سے مدد کي درخواست کرتے ہيں تو وہ خود مدد کرنے کے بجائے اپنے گھوڑے کي پيش کش کرتا ہے کہ آئيے ميرے اس گھوڑے سے استفادہ کيجئے۔
آيا اس سے زيادہ کوئي غربت ہوسکتي ہے اور اس سے زيادہ کوئي غريبانہ جنگ ہوسکتي ہے؟
اس جنگ کے دوران ان کي نگاہوں کے سامنے ان کے عزيز ترين فرزند قربان ہوئے ہيں، ان کے بچے ، بھتيجے ، بھائي ، چچا زاد بھائي اور بني ہاشم کے پھول ان کے سامنے زمين پر بکھر رہے ہيں، حد تو يہ ہے کہ ان کا چھ مہينے کا بچہ بھي ذبح ہوجاتا ہے، ان سب کے علاوہ يہ بھي جانتے ہيں کہ جوں ہي ان کي روح جسم مطہر سے جدا ہوگي ان کے بے آسرا ہوجانے والے اہل و عيال پر يورش ہوگي۔ يہ بھوکے بھيڑئيے جوان بيٹيوں کو گھير ليں گے، ان کو خوفزدہ کريں گے، ان کے اموال کو غارت کريں گے، انہيں اسير بنائيں گے، ان کي اہانت کريں گے۔
امير المومنين ٴکي عظيم بيٹي زينب کبريٰ جو دنيائے اسلام کي ممتاز خواتين ميں سے ہيں، ان کے سامنے جسارت کريں گے۔ ابا عبداللہ الحسين ٴ يہ سب کچھ جانتے تھے۔ ملاحظہ کيا۔ يہ جنگ ، يہ مقابلہ کس قدر سخت ہے۔
اس قدر عظيم المرتبت انسان، پاک ، مطہر اور منور ہستي ،وہ انسان جس کے ديدار کے لئے آسماني فرشتے ايک دوسرے پر سبقت لے جانے کي کوشش کرتے ہيں تاکہ حسين ابن علي ٴ کا ديدار کريں اور متبرک ہوجائيں، انبيائ و اوليائ جن کے مقام کے حصول کي آرزو کرتے ہيں وہ ايسے شديد اور ابتلائ و آزمائشوں سے پر، مقابلے کے بعد جام شہادت نوش کرتاہے۔
کون ايسا انسان ہے جس کے جذبات و احساسات اس حادثے پر مجروح نہ ہوں، اور کون انسان ہے جو اس حادثے کے بارے ميں جانتا ہو، اِسے سمجھتا ہو اور پھر اس سے دلبستہ نہ ہو؟ يہ وہ پرجوش چشمہ ہے جو روز عاشور جاري ہوا، اُسي وقت جب( ايک نقل کے مطابق) زينب کبريٰ ’’ تل زينبيہ ‘‘ پر تشريف لے گئيں اور پيغمبر اکرم ۰ کو خطاب کرکے فرمايا،
’’ يا رسول اللہ صلي عليک ملائکہ السمائ ھذا حسينک مرمل بالدمائ مقطع الاعضائ مسلوب العمامہ والردائ‘‘
’’ يا رسول اللہ آپ پر آسمان کے فرشتے درود بھيجتے ہيں، اور يہ آپ ۰ کا حسينٴ ہے جو خون ميں ڈوبا ہوا ہے، جس کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہے اور جس کا عمامہ اور ردا چھن چکي ہے۔‘‘
زينب نے باآوازِ بلند امام حسين ٴ کا نوحہ پڑھنا اور ماجرے کو بيان کرنا شروع کيا ،وہ ماجرا جسے (ان کے دشمن)چھپانا چاہتے تھے ،وہ انہوں نے با آواز بلند نشر کرديا، کربلا ميں بيان کيا، کوفہ ميں بيان کيا ، شام ميں بيان کيا، مدينہ ميں بيان کيا اور يوں اس چشمے نے جوش مارنا شروع کرديا۔ يہاں تک کہ آج بھي جوش مار رہا ہے ، يہ واقع عاشورائ ہے۔
ايک وقت ممکن ہے کسي کے پاس کوئي نعمت نہ ہو، لہذا اس سے اس نعمت کے بارے ميں سوال نہيں کيا جائے گا۔ ليکن اگر کسي کو نعمت ميسر ہو تو پھر اس سے سوال ہوگا۔ ايک عظيم ترين نعمت حسين ابن عليٴ کي ياد ہے ،يہي مجالس عزائ کي نعمت ہے، محرم اور عاشورائ کي نعمت ہے جو ہم شيعوں کو ميسر ہے۔ افسوس کہ ہمارے غير شيعہ مسلمان بھائيوں کو يہ نعمت ميسر نہيں، وہ اس نعمت عظيم کو حاصل کرسکتے ہيں، البتہ کہيں کہيں ان ميں سے بعض لوگ امام حسين ٴ کي عزاداري مناتے ہيں۔ ليکن (عام طور پر)عزاداري ان کے يہاں رائج نہيں، جبکہ ہمارے (شيعوںکے) درميان رائج ہے۔
ان مجلسوں اور اس ياد سے کيا فائدہ اٹھانا چاہئيے؟ اس نعمت کے شکر کا طريقہ کيا ہے؟ يہ وہ بات ہے جسے ميں آپ کے سامنے سوال کي صورت ميں پيش کرنا چاہتا ہوں اور آپ اس کا جواب ديجئے؟
يہ نعمت اپني تمام تر عظمت کے ساتھ دلوں کو اسلامي ايمان کے پرُ جوش سرچشمے سے متصل کر ديتي ہے،اس نعمت نے وہ کام کيا ہے کہ تاريخ ميں ظالم حکمران عاشورائ اور امام حسينٴ کي مر قدِاطہر سے خوفزدہ رہے ہيں، يہ خوف بني اُميّہ کے خلفائ کے دور سے شروع ہوا اور آج تک جاري ہے اور آپ نے اس کا ايک نمونہ خود ہمارے انقلاب ميں ديکھا ہے۔ جب محرم آتا تھا تو فاسق ، فاسد اور کافر و رجعت پسند پہلوي نظام کے کار ندے خود کو بے دست و پا اور عاجز و ناتواں پاتے تھے، انہيں معلوم تھا کہ محرم آگيا ہے۔ اس منحوس حکومت کي بچي کچي رپورٹوں ميں صراحتاً ايسي باتيں موجود ہيں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محرم کي آمد پر ہوا س باختہ ہوجاتے تھے۔ اور ہمارے امام بزرگوار (رضوان اللہ عليہ) حکيم، دور انديش ، دنيا شناس اور انسان شناس ہستي خوب جانتي تھي کہ امام حسين ٴ کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے اس حادثے سے کس طرح استفادہ کيا جائے۔ آپ نے محرم کو شمشير پر خون کي فتح کا مہينہ قرار ديااور اسي تجزيہ، منطق اور محرم کي برکت نے خون کو شمشير پر فاتح کيا۔ يہ ايک ايسي مثال ہے جسے آپ نے خود اپني آنکھوں سے ديکھا ہے۔
اس نعمت سے استفادہ کرنا چا ہيے، لوگوں کو بھي اور علمائ کو بھي۔ عوام الناس اس سے اس طرح استفادہ کر سکتے ہيںکہ عزاداري کي مجالس ميں دل سے شرکت کريں اور يہ مجالس برپا کريں، لوگوں کو چا ہيے کہ ہر سطح پر مجالسِ عزائ ميں اضا فہ کريں،ان مجالس ميں خلوص کے ساتھ شريک ہوں اور ان سے استفادہ کے لئے شرکت کريں ،صرف وقت گزاري کے لئے نہيں يا آميانہ صورت ميں محض ثوابِ اُخروي کے لئے نہيں کہ يہ بھي نہيں جانتے کہ يہ اُخروي ثواب کيوں کر حاصل ہوتا ہے۔
مسلّما طور پر ان مجالس ميں حا ضري اُخروي ثواب کي حامل ہے ليکن يہ اُخروي ثواب کس بنا پر ہے؟ کس وجہ سے ہے؟ اس ثواب کي يقينا ايک وجہ ہے اور اگر يہ وجہ مفقود ہو تو ثواب بھي نہ ہوگا، بعض لوگ اس وجہ اور سبب کي جانب متوجہ نہيں ہوتے۔
لوگوں کو ان مجالس ميں شرکت کرني چا ہيے، ان کي قدروقيمت کو جاننا چاہيے اور ان سے استفادہ کرنا چاہيے، لوگوں کو چاہيے کہ وہ ان مجالس کو حسين ابنِ عليٴ، خاندانِ پيغمبر۰ اور قرآن و اسلام کي روح سے ہر ممکن حد تک مضبو ط روحاني اور قلبي اتصال و ارتباط کا وسيلہ بنائيں۔
ليکن جو بات علمائ سے مربوط ہے وہ دشوار تر ہے، کيونکہ مجالسِ عزائ کي ماہيت يہ ہے کہ کچھ لوگ جمع ہوں اور ايک عالم اس مجلس ميں شريک ہو اور مجلسِ عزائ برپا کرے تاکہ دوسرے لوگ اس سے استفادہ کر يں۔
آپ لوگ کس طرح مجلسِ عزائ برپا کرتے ہيں؟
ميرا يہ سوال ان تمام لوگوں سے ہے جو اس مسئلہ کے بارے ميں احسا سِ ذمّہ داري رکھتے ہيں،ميري نظر ميں مجلس ميں تين چيزوں کو ہونا چاہيے۔
پہلي چيز يہ کہ مجالس محبت اہل بيت ٴ ميں اضافہ کريں، کيونکہ جذباتي تعلق ايک قيمتي تعلق ہے۔ لہذا آپ کو وہ کام کرنا چاہئيے جس کے ذريعہ ان مجالس ميں شرکت کرنے والوں کي حسين ابن علي ٴ خاندان رسول ۰ اور معرفت الہي کے چشموں سے محبت و تعلق ميں روز بروز اضافہ ہو۔
اگر خدانخواستہ آپ ان مجالس ميں ايسے حالات پيد اکرديں کہ اس مجلس کے سامعين اور شريک فرد ،جذبات و احساسات کے لحاظ سے اہل بيت ٴ سے نزديک نہ ہو اور خدانخواستہ دور ہوجائے اور بيزاري کا احساس کرے تو ايسي صورت حال ميں مجلس عزائ نہ صرف اپنا ايک بڑا فائدہ کھو بيٹھے گي بلکہ ايک لحاظ سے مضر بھي ہوگي۔
اب اس حيثيت سے کہ آپ مجلس کے باني اور خطيب ہيں، جائزہ ليجئے کہ کيا کام کيا جائے کہ ان مجالس ميں شرکت سے حسين ابن علي ٴ اور اہل بيت پيغمبر ۰ کے بارے ميں لوگوں کے جذبات ميں روز بروز اضافہ ہو۔
دوسرا نکتہ يہ ہے کہ ان مجالس ميں لوگوں کے لئے واقعہ عاشورا کے بارے ميں ايک واضح اور روشن تر معرفت وجود ميں آئے ،ايسا نہ ہو کہ ہم مجلسِ حسين ابن علي ٴ ميں آئيں، ايک تقرير کريں، مبنر پر جائيں يہاں تک کہ اگر اس مجلس ميں غور و فکر کرنے والا کوئي شخص موجود ہو (آج انقلاب اسلامي کي برکات سے ہمارے معاشرے ميں بکثرت ايسے افراد موجود ہيں) اور وہ سوچے کہ ميں کيوں يہاں آيا ہوں، مسئلہ کيا تھا ؟ امام حسين ٴ پر گريہ و زاري کرنا کيوں ضروري ہے ؟ امام حسين ٴ آخر کربلا کيوں آئے اور عاشورائ کا واقعہ کيوں پيش آيا؟
(ہماري مجلس کو ) ايسا ہونا چاہئيے کہ اگر کسي کے ذہن ميں يہ سوال پيدا ہوں تو آپ اس کے سوال کا جواب ديں، پس آپ جو تقرير کرتے ہيں، جو اشعار پڑھتے ہيں اور جو مفاہيم بيان کرتے ہيں اگر ان ميں ان معنوں کي جانب کوئي نکتہ نہ ہو حتيٰ ان کي جانب اشارہ تک نہ ہو تو ہم نے جن تين ارکان کا تذکرہ کيا ان ميں سے ايک رکن کم يا ناقص ہے اور ممکن ہے اس مجلس سے ضروري فائدہ حاصل نہ ہو اور ممکن ہے خدا نخواستہ بعض مقامات پر نقصان بھي پہنچے۔
تيسري چيز جو ان مجالس ميں ضروري ہے وہ يہ ہے کہ يہ لوگوں کي ديني معرفت اور مذہبي ايمان ميں اضافے کا موجب ہوں، آپ کو چاہئيے کہ دين ميں سے کوئي ايک ايسي چيز اس مجلس ميں بيان کيجئے جو ايمان و معرفت ميں اضافے کا سبب ہو، ايک صحيح نصيحت، ايک حديث، تاريخ کا کوئي سبق آموز موضوع، ايک آيتِ قرآن کي تفسير يا کسي عالم اور عظيم اسلامي مفکر کا کوئي نکتہ ان چيزوں ميں سے ہيں، جنہيں بيان کيا جاسکتا ہے۔ ايسا نہ ہو کہ ہم منبر پر جائيں، کچھ لفاظي کريں اور اگر کوئي بات بيان کريں بھي تو ايسي بے سر و پا جو نہ صرف يہ کہ سننے والوں کے ايمان ميں اضافہ نہ کرے بلکہ لوگوں کا ايمان کمزور کردے۔
ميں آپ کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بدقسمتي سے کبھي کبھي ايسے مواقع ديکھنے ميں آتے ہيں، کہ کسي مجلس کا خطيب ايسا مفہوم نقل کرتا ہے جو استدلال کے لحاظ سے بھي اور عقلي و نقلي مدرک کے اعتبار سے بھي بے سرو پا ہوتا ہے اور ايک بابصيرت اور منطق و استدلال رکھنے والے سامع کے ذہن پر بھي مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔بعض لوگوں نے کتابوں ميں کچھ ايسي باتيں لکھي ہيں جن کے جھوٹا ہونے کي کوئي دليل ہمارے پاس موجود نہيں۔ ممکن ہيں صحيح ہوں اور ممکن ہے غلط۔ ان کے جھوٹا ہونے پر کوئي دليل نہيں، ليکن جب آپ اس کو بيان کريں اور آپ کا سامع جو ممکن ہے ايک جوان ہو، ايک طالب علم ہو، ايک جانباز ہو، يا ايک انقلابي ہو (کہ بحمدا للہ انقلاب نے ذہنوں کو کھول ديا ہے) اس چيز کو آپ سے سنے اور ممکن ہے اس کي وجہ سے دين کے بارے ميں اس کے دل ميں کوئي شک و شبہ ايجاد ہو اور اس کے ذہن ميں ايک گرہ پڑجائے۔ لہذا کوئي ايسي بات نہيں کہني چاہئيے، حتيٰ اگر اس مفہوم کي سند بھي درست ہو ليکن کيونکہ يہ بات انحراف و گمراہي کا موجب ہے اس لئے اسے نہيں کہنا چاہئيے ،چہ جائيکہ ان ميں سے اکثر چيزيں درست سند بھي نہيں رکھتيں۔
ايک شخص کسي سے کوئي بات سنتا ہے، ايک نے نقل کيا ہے کہ ميں فلاں جگہ پر تھا ، فلاں سفر ميں فلاں واقعہ رونما ہوا خطيب نے کسي سند کے ساتھ يا بغير کسي سند کے يہ بات بيان کي اور سامع نے بھي اس پر يقين کرليا اور پھر اتفاق سے اس نے اسے کسي کتاب ميں بھي نقل کرديا،
ہم کيوں ايسي بات کہيں جو ايک بڑے مجمع اور ذي فہم اور باشعور شخص کے لئے قابل قبول نہ ہو؟ کيا انسان پر ہر وہ چيز بيان کردينا لازم ہے جو کہيں تحرير ہو؟آج يہ ہمارے معاشرے کا ايک تمدني بحران ہے۔
ہم انقلاب سے پہلے کہتے تھے کہ پڑھے لکھے جوان، ليکن آج پڑھے لکھے لوگ محض جوانوں تک محدود نہيں بلکہ جوانوں کے علاوہ بھي زن و مرد، لڑکے لڑکيوں کے اذہان روشن ہوچکے ہيں،وہ مسائل کو نگاہ بصيرت سے ديکھتے ہيں، سمجھنا چاہتے ہيں، ان لوگوں کو شبہات کا سامنا ہوتا ہے، يہ ہمارے زمانے کا تمدني بحران ہے، نہ صرف ہمارے دشمن بلکہ ہماري اور آپ کي فکر کے منکرين بھي شبہات پيدا کرتے ہيں،کيا يہ کہا جاسکتا ہے جو کوئي ہماري فکر کو قبول نہيں کرتا ،گونگا ہوجائے، زبان نہ کھولے اور کوئي شبہہ پيدا نہ کرے؟ (جب کہ دوسرے) شبہات پيدا کرتے ہيں، باتيں بناتے ہيں، مفاہيم پھيلاتے ہيں، شک و ترديد ايجاد کرتے ہيں، لہذا آپ ايسي چيز بولئیے جو شبہات کو دور کرے، ايسي بات نہ کيجئے جو شبہات ميں اضافہ کرے۔
بعض لوگ اِس اہم ذمہ داري پر توجہ کئے بغير بالائے منبر ايسي گفتگو کرتے ہيں، جو نہ صرف يہ کہ سامع کے ذہن ميں موجود کسي گرہ کو نہيں کھولتي بلکہ اس کے ذہن ميں مزيد گرہيں ڈال ديتي ہے، فرض کيجئے اگر ہم بالائے منبر ايک بات کہيں، جس سے دس، پانچ يا صرف ايک ہي جوان دين کے کسي مسئلے ميں شک و شبہ کا شکار ہوجائے، وہ چلا جائے اور ہم اسے پہچانتے نہ ہو، تو کس طرح اس کا ازالہ کريں گے؟ کيا کسي صورت اس کي تلافي ممکن ہے؟ کيا خدا ہميں معاف کردے گا؟ مشکل مسئلہ ہے۔
پس خطاب کو تين محوروں پر مشتمل ہونا چاہئيے، پہلا يہ کہ حسين ابن علي ٴ اور اہل بيت پيغمبر ۰ سے جذباتي لگاو ميں اضافہ کرے اور احساس و جذبات کے بندھن کو مضبوط کرے۔ دوسرے يہ کہ عاشورائ کے بارے ميں سامع کو ايک واضح اور روشن نظريہ دے اور تيسرے يہ کہ معارف ديني کے بارے ميں معرفت بھي پيدا کرے اور ايمان بھي ايجاد کرے۔
ہم يہ نہيں کہتے کہ ہر خطاب ميں لازماً يہ تمام چيزيں موجود ہوں، آپ اگر ايک معتبر کتاب سے ايک صحيح حديث نقل کرکے حديث ميں اس قدر گل کارياں کرتے ہيں کہ اس کے اصل معني ہي ختم ہوجاتے ہيں۔ اگر آپ اسي ايک حديث کے صحيح معني کريں تو ممکن ہے جو ہم چاہتے ہيں اس کا ايک بڑا حصہ اس ميں موجود ہو، اگر آپ ايک معتبر تفسيرسے ايک آيہ قرآن کو غور و فکر ، مطالعہ اور تجزيہ کے بعد بيان کريں تو مقصود حاصل ہوجائیگا،اور مصائب کے ذکر کے لئے مرحوم محدث قمي کي نفس المہموم کھول کر پڑھ ديجئے، آپ ديکھيں گے اس سے سامع پر گريہ طاري جائے گا، جذبات ميں ہيجان بپا ہو گا۔
کياضروري ہے کہ ہم اپنے خيال ميں مجلس جمانے کے لئے ايسے کام کريں جن سے مجلس عزائ اپنے اصل فلسفے ہي سے جدا ہوجائے؟ ميں حقيقتاً اس بات سے وحشت زدہ ہوں کہ کہيں ہم خدانخواستہ اس زمانے ميں جو کہ اسلام کے ظہور و نمو اور اسلام اور فکر اہل بيت ٴ کي تجلي کا دور ہے اپنے فريضے کو انجام نہ دے سکيں۔
ايک چيز ہے، جو لوگوں کو خدا اور دين سے نزديک کرتي ہے، يہ سنتي عزاداري ہے جو لوگوں کو دين کے قريب لاتي ہے۔ امام (خميني۲) نے فرمايا ہے کہ ’’ سنتي عزاداري بپا کيجئے۔‘‘ مجالس ميں بيٹھنا ، مصائب پڑھنا ، گريہ کرنا ، سر و سينہ پيٹنا، عزاداري کے جلوس، ماتمي انجمنيں ، يہ تمام وہ چيزيں ہيں جو اہل بيت ٴکے لئے جذبات کو ابھارتي ہيں، جو ايک بہت اچھي چيز ہے۔
اس کے برخلاف ايک اور چيز ہے جو لوگوں کو دين سے منحرف کرديتي ہے، انتہائي افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ گزشتہ تين چار برسوں ميں ايسے کاموں کا آغاز ہوا ہے جنہيں ميرے خيال ميں بعض (پوشيدہ) ہاتھ ہمارے معاشرے ميں ترويج دے رہے ہيں، جنہيں جو کوئي ديکھتا ہے اس کے ذہن ميں سوال ابھرتا ہے،قديم زمانہ ميں عوام الناس کے ايک طبقے کا معمول تھا کہ عزاداري کے ايام ميں اپنے جسم کو قفل لگاتے تھے، بزرگ علمائ نے اس کي مخالفت کي اور يہ رسم ختم ہوگئي، اب پھر اسے دوبارہ شروع کيا گيا ہے اور ميں نے سنا ہے کہ مختلف مقامات پر بعض لوگ قفل لگاتے ہيں، يہ کيا کام جسے بعض لوگ انجام ديتے ہيں؟ قمہ زني بھي اسي طرح ہے، قمہ زني بھي غلط کاموں ميں سے ہے،مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگ کہيں گے کہ حقيقت يہ ہے کہ فلاں صاحب کو قمہ کا نام نہيں لينا چاہئيے تھا، آپ کو کيا ، چھوڑئيے، انہيں لگانے ديجئے۔
نہيں جناب! ايسا نہيں ہوسکتا، جس طرح گزشتہ چار پانچ برسوں اور جنگ (ايران عراق جنگ کي جانب اشارہ ہے) کے بعد قمہ زني کي ترويج کي جارہي ہے، اگر ايسا امام ۲ (خميني) کي حيات مبارکہ ميں ہوتا تو قطعي طور پر وہ اس کي مخالف ميں کھڑے ہوجاتے (حاضرين کا نعرہ تکبير) ۔ يہ ايک غلط عمل ہے کہ بعض لوگ قمہ ہاتھ ميں لے کر اپنے سر پر ماريں اور خون بہائيں، يہ کيا عمل ہے؟ کس طرح اس کام کو عزاداري ميں سے کہا جاسکتا ہے؟ قمہ سر پر مارنا عزاداري ہے؟
اگر آپ ديکھيں تو جن لوگوں کو مصيبت پيش آتي ہے وہ اپنا سر و سينہ پيٹتے ہيں،يہ ہے عزاداري ، آپ نے کہاں ديکھا ہے کہ ايک شخص اپنے محبوب ترين عزيز کے غم ميں اپني تلوار اپنے سر پر مارتا ہو اور اپنے سر سے خون بہاتا ہو، کس اعتبار سے يہ کام عزاداري ہے؟ يہ جعلي کام ہے، يہ وہ چيزيں ہيں جو دين کا حصہ نہيں ہے، بے شک خدا ان کاموں سے راضي نہيں ہے۔
علمائ سلف(گزشتہ) کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ يہ باتيں نہيں کہہ سکتے تھے، ليکن آج اسلام کي حاکميت اور اسلام کي تجلي کا زمانہ ہے، ہميں ايسے کام نہيں کرنے چاہئيں کہ اعليٰ اسلامي اقدار کا حامل ہمارا معاشرہ ، يعني محبان اہل بيت ٴ کا معاشرہ ، وہ معاشرہ جس کے لئے ولي عصرٴ (ارواحنا فداہ) حسين ابن علي ٴ اور امير المومنين ٴ کے اسمائے مبارک باعث افتخار ہيں ،مسلمانان عالم اور غير مسلموں کي نظر ميں ايک خرافات پرست اور بے منطق گروہ کے طور پر پہچانا جائے۔
ميں نے جس قدر سوچا ، غور و فکر کيا، اس نتيجے پر پہنچا کہ کسي طور ممکن نہيں کہ اس قطعي بات اور بدعت سے اپنے عزيز عوام کو آگاہ نہ کروں،يہ عمل انجام نہ ديجئے ميں قطعاً اس سے راضي نہيں، اگر کوئي قمہ زني کا مظاہرہ کرے تو ميں دلي طور پر اس سے ناراض ہوں، يہ جو ميں نے (مظاہرے والي بات) عرض کيا اس لئے ہے کہ کسي زمانے ميں کسي مقام پر چند لوگ جمع ہوتے تھے اور يہ کام کرتے تھے ، ايسا ايک گوشے ميں ہوتا تھا، کوئي انہيں نہيں ديکھتا تھا،ا س طرح مظاہرہ نہيں ہوتا تھا، لہذا کسي کو ان سے کوئي غرض بھي نہ تھي، اب يہ بات خواہ اچھي تھي يا بري ليکن ايک محدود دائرے ميں انجام پاتي تھي، ليکن جب يہ طے کيا جائے کہ چند ہزار لوگ اچانک تہران، قم، آذربائيجان کے کسي شہر يا خراسان کي کسي شاہراہ پر قمہ ہاتھوں ميں لئے ظاہر ہوں گے اور انہيں اپنے سر پر ماريں گے تو يہ بات قطعاً غلط ہے ،امام حسين ٴ اس کام سے راضي نہيں۔ مجھے نہيں معلوم اس کام کا آغاز کہاں سے ہوا اور کون سي ذہنيت اسے ہمارے اسلامي اور انقلابي معاشرے ميں لارہي ہے۔
حال ہي ميں زيارت کے حوالے سے ايک عجيب و غريب اور نا مانوس بدعت ايجاد کي گئي ہے، آپ ملاحظہ فرمائيے کہ پيغمبر ۰ اور آئمہ ہديٰ ٴکي قبور مطہر کي سب زيارت کرتے ہيں، پيغمبر اسلام ۰ اور امام حسين ٴ کے مزارات کي ہمارے آئمہ ٴ امام جعفر صادق ٴ، امام موسيٰ ابن جعفر ٴ اور بقيہ آئمہ ٴ زيارت کرتے تھے۔ ايران و عراق ميں آئمہ اہل بيت ٴ کي قبور مطہر کي ہمارے علمائ و فقہا زيارت کيا کرتے تھے ،کيا آپ نے کبھي سنا کہ علمائ يا آئمہ ٴ ميں سے کوئي جب زيارت کے لئے آتا ہے تو مزار کے صحن کے دروازے سے سينے کے بل چلتے ہوئے حرم ميں داخل ہوتا ہو؟
اگر يہ کوئي مستحسن ، مستحب ، اچھا م قابل قبول عمل ہوتا تو ہمارے بزرگ اسے انجام ديتے، ليکن انہوں نے ايسا نہيں کيا حتيٰ منقول ہے کہ عالم بزرگ ، قوي اور روشن فکر مجتہد آيت اللہ العظميٰ آقاي بروجردي (رضوان اللہ تعاليٰ عليہ )چوکھٹ کا بوسہ لينے سے بھي منع فرماتے تھے ، جب کہ شايد يہ ايک مستحب عمل ہو، شايد چوکھٹ کو چومنے کے بارے ميں روايات ميں بھي آيا ہے اور دعاو ں کي کتب ميں بھي ہے اور ميرے ذہن ميں بھي ہے کہ اس بارے ميں روايات موجود ہيں، گو يہ ايک مستحب عمل ہے ،اس کے باوجود کہا کرتے تھے کہ يہ کام نہ کيجئے کہ کہيں دوسرے خيال کريں کہ ہم آئمہ ٴ کي قبور مطہر کو سجدہ کرتے ہيں اور کہيں (اس بنيادپر ) دشمن شيعوں کے خلاف شک و شبہ ايجاد نہ کريں۔
اب بعض لوگ جوں ہي امام علي بن موسيٰ الرضا ٴ کے صحن مطہر ميں داخل ہوتے ہيں اپنے آپ کو گرا ليتے ہيں اور دو سو ميٹر کا فاصلہ سينے کے بل طے کرتے ہيں۔ کيا يہ عمل درست ہے؟ نہيں يہ غلط کام ہے ، دين اور زيارت کي اہانت ہے۔
کون ان چيزوں کو لوگوں کے درميان رائج کررہا ہے؟ کہيں ايسا تو نہيں کہ يہ دشمن کي کارستاني ہو؟ آپ کو يہ باتيں لوگوں کو بتانا چاہئيں اور ذہنوں کو روشن کرنا چاہئيے۔ دين اور اسلام، منطق پر مبني ہے اور اسلام کا منطقي ترين جز وہ تفسير ہے جو شيعہ، اسلام کے بارے ميں رکھتے ہيں۔ شيعہ متکلمين ميں سے ہر ايک اپنے زمانے ميں خورشيدِ تابناک کي مانند چمکتا تھا۔ کوئي يہ نہيں کہہ سکتا تھا کہ آپ کي منطق کمزور ہے، خواہ وہ آئمہٴ کا زمانہ ہو، جس ميں ’’ مومنِ طاق ‘‘ اور ’’ ہشام بن حکم ‘‘ (جيسے اصحاب آئمہٴ تھے) اور خواہ آئمہ ٴ کے بعد نبي نوبخت اور شيخ مفيد جيسے افراد ہوں اور خواہ ان کے بعد کے زمانے ميں مرحوم علامہ حلّي اور دوسرے لوگ ہوں۔ يہ سب کے سب اہل منطق و استدلال تھے۔ ہم اہل منطق و استدلال ہيں، آپ ديکھئے کہ شيعوں سے مربوط ابحاث ميں کتنے قوي استدلال پر مبني کتب تحرير کي گئي ہيں،ہمارے زمانے ميں مرحوم عبد الحسين شرف الدين کي کتابيں اور علامہ اميني کي الغدير سر تا پا استدلال اور سيسہ پلائي ہوئي ديوار کي مانند مستحکم ہيں۔
شيعيت يہ ہے، وہ نہيں جو نہ صرف استدلال نہيں رکھتيں بلکہ ’’ اشبہ شئي بالخرافہ ‘‘ (يعني خرافات سے زيادہ مشابہ) ہيں۔ ايسي چيزيں کيوں ہمارے معاشرے ميں داخل کي جارہي ہيں؟ يہ دين اور معارف ديني کے لئے وہ عظيم خطرہ ہے جس کي جانب عقيدے کي سرحدوں کے محافظوں کو متوجہ رہنا چاہئيے۔
ميں نے عرض کيا کہ ايک گروہ تک جب يہ باتيں پہنچيں گي تو وہ دل سوزي کے ساتھ کہے گا کہ اچھا ہوتا اگر فلاں ابھي يہ باتيں نہ کرتا۔
نہيں جناب ! مجھ پر لازم ہے کہ يہ باتيں کہوں، ميري ذمہ داري دوسروں سے زيادہ ہے۔ البتہ دوسرے حضرات کو بھي يہ باتيں کہني چاہئيں۔ آپ کو بھي کہني چاہئيں،امام خميني ۲ جہاں کہيں ايک بھي انحرافي نکتہ ديکھتے تو کمال قدرت کے ساتھ اور بے پرواہ ہو کر اس کے مقابل ڈٹ جاتے تھے، اگر يہ چيزيں ان بزرگوار کے زمانے ميں بھي ہوتيں يا اس سطح پر رائج ہوتيں تو بے شک وہ بھي يہي باتيں کرتے۔
ايک اور گروہ، جسے يہ چيزيں پسند ہيں اسے ان باتوں سے تکليف پہنچے گي کہ فلاں نے ہماري پسنديدہ چيزوں کے بارے ميں ايسي باتيں کيوں کيں؟ اور اس لہجہ ميں ان کا ذکر کيوں کيا، ان لوگوں ميں سے بھي اکثر مومنِ صادق اور بے غرض لوگ ہيں ليکن غلط فہمي ميں مبتلا ہيں۔
يہ ايک عظيم ذمہ داري ہے جو ہر علاقے اور ہر حصے ميں بسنے والے آپ علمائ و مبلغين پر عائد ہوتي ہے، امام حسين ٴ کي مجلس عزائ ايسي مجلس ہے جسے معرفت اور ان تين چيزوں کا مظہر ہونا چاہئيے جنہيں ميں نے عرض کيا۔
اميد ہے کہ خدا وند متعال آپ کو قدرت ، شجاعت ، جستجو اور سنجيدگي کے ساتھ ا نھيں بيان کرنے ميں کاميابي عطا فرمائے ،جو پروردگار عالم کي رضايت کا سبب ہيں۔
والسلام عليکم ورحمۃ اللہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.