ولايت کا بنيادي مفہوم
ہماري گفتگو ولايت کے موضوع پر ہے ۔ہم ولايت کے موضوع کوجس طرح قرنِ مجيد سے اخذکرتے ہيں‘اس طرح اِسے بہت ہي کم بيان کيا جاتا ہے ۔البتہ ايک شيعہ کي سماعتيں ولايت کے لفظ سے خوب اچھي طرح مانوس ہيں۔ہماري دعاؤں‘خداوندِعالم سے ہماري مناجاتوں‘ ہماري روايات اور ہمارے يہاں رائج اور عمومي افکار ميں ولايت کا موضوع انتہائي تقدس اور احترام کے ساتھ موجودہے ۔ہم ايک شيعہ کے طورپراپنے پ کو ہميشہ حاملِ ولايت سمجھتے ہيںاور دعا کرتے ہيں کہ خدا ہميں ولايت پرقائم رکھے اور ہماري موت ولايت پر رہتے ہوئے واقع ہو۔
ہم ولايت کے بنيادي مفہوم کے بارے ميں گفتگو کرنا چاہتے ہيں ۔اس گفتگو ميں ہم يقيناً علي ابن ابي طالب ٴکي ولايت پر بھي پہنچيں گے ‘ليکن في الحال ہماري گفتگو اس سے پہلے کے مراحل کے بارے ميں ہے ۔
ہم چاہتے ہيں کہ ولايت کامفہوم قرنِ مجيد کي يات ِکريمہ سے اخذکريں ۔تاکہ پ ديکھيں کہ ولايت کا اصول کس قدروسيع اور دل کش اصول ہے‘اورکس طرح اگر ايک قوم ‘ ايک گروہ ‘ ايک عقيدے کے پيروکار افراد ولايت کے حامل نہ ہوں ‘توافراتفري اور انتشار کاشکار ہوجائيں گے ۔
اس گفتگو کي روشني ميں يہ بات بھي پ کے سامنے جائے گي اور اسے پ اچھي طرح سمجھ ليں گے کہ کيوں ولايت نہ رکھنے والے شخص کي نماز ‘ نماز نہيں ہوتي‘روزہ ‘ روزہ نہيںہوتااور عبادات ‘ عبادات نہيں ہوتيں۔
اس گفتگو سے يہ بات بھي بخوبي سمجھ ميں سکتي ہے کہ ايک ايسا معاشرہ اور ايک ايسي قوم ‘جو ولايت نہيں رکھتي‘ اگر وہ اپني تمام عمر نماز‘ روزے ميں گزاردے اور اپنے تمام اموال کو صدقہ کر دے‘ تب بھي لطف ِ خدا کے لائق نہيںہوتي ۔
خلاصہ يہ کہ اس بحث کي روشني ميں ولايت کے بارے ميں موجوداحاديث کے معني سمجھے جاسکتے ہيں ‘ ان ہي ميں سے يہ معروف حديث بھي ہے ‘ جس کے بعض جملات اور کلمات کو ہم بارہا دُھرايا کرتے ہيں :
’’لَوْاَنَّ رَجُلاً قٰامَ لَيْلَہُ وَصٰامَ نَہٰارَہُ وَتَصَدَّقَ بِجَمِيِع مٰالِہِ وَحَجَّ جَميعَ دَھْرِہِ وَلَمْ يَعْرِفْ وِلاٰيَۃَ وَلِّيِ ا فَيُواليہِ وَيَکُونُ جميعُ اَعْمٰالِہِ بِدَلاٰلَتِہِ اِلَيْہِ‘ مٰاکٰانَ لَہُ عَلَي اِ عَزَّوجلَّ حَقُ في ثَوٰابِہِ۔‘‘(١)
اگر کوئي انسان رات بھر قيام کي حالت ميں گزارے ‘ صرف ماہِ رمضان ہي ميں نہيں بلکہ پوري عمرسارے سال روزے رکھے ‘ اپنا تمام مال واسباب راہِ خدا ميں صدقہ کردے اور پوري زندگي ہر سال حج پرحج کئے جائے‘ ليکن وہ خدا کے ولي کي ولايت سے شنا نہ ہو‘ تاکہ اس شناسائي کے بعد اسکي پيروي کرے اوراسکے نتيجے ميں اسکے تمام اعمال خدا کے اس ولي کي رہنمائي کے تحت انجام پائيں‘تو ايسے شخص نے جو کچھ انجام ديا ہے ‘ وہ فضول ‘ بے ثمر اور ناکارہ ہے ۔
اگر پ اس گفتگو پر خوب اچھي طرح غور کريں ‘ اور ياتِ قرني سے جو نتائج اخذ کئے جائيں ان پر خوب توجہ ديں ‘ تو يہ بات جان ليں گے کہ ولايت نبوت کا تسلسل ہے ‘ نبوت سے جداکوئي چيز نہيں‘بلکہ دراصل نبوت کا تتمہ ‘ضميمہ اور اختتاميہ ہے۔
١۔اصولِ کافي ۔باب دعائم الاسلام ۔حديث پنجم
اب ہم ديکھيں گے کہ اگر ولايت نہ ہو ‘ تو نبوت بھي ناقص رہ جائے گي۔ لہٰذا ضروري محسوس ہوتا ہے کہ ہم نبوت کے بارے ميںايک مختصر سي گفتگو کريں‘ اسکے کليات بيان کريں ‘تاکہ ضمني گفتگوکرتے ہوئے بتدريج ولايت کے موضوع ميں داخل ہوں۔البتہ يہ بات بتادينا بھي ضروري ہے کہ اس موضوع پر گفتگوکرناانتہائي دشوارکام ہے‘ اور اسے تفصيل کے ساتھ بيان کرنا اس سے بھي زيادہ کٹھن‘ کيونکہ ولايت کے موضوع پر عام افراد کے اذہان ميںاس قدر کمزور ‘کھوکھلے اور غير منطقي مسائل جگہ بنا چکے ہيں‘ کہ جب پ قرن اور حديث کے متن سے مطابقت رکھنے والي درست بات بيان کريںگے‘ تو ان دو ميں سے کوئي ايک صورت پيش ئے گي ۔يا تو يہ کہ جوباتيں پ بيان کريں گے وہ لوگوں کے اذہان ميں موجودباتوں سے گڈ مڈ ہوجائيںگي ‘اور يا يہ کہ جو کچھ ولايت کے عنوان سے بيان کيا جائے گا‘لوگ اس سے بيگانگي محسوس کريں گے ۔لہٰذا يہ بحث انتہائي مشکل اور دشوارہے ۔ليکن ہم خدا کے فضل سے توفيق طلب کرتے ہيں ‘ اور کوشش کرتے ہيں کہ اس گفتگو کو چند دنوں ميںمکمل کرديںانشائ اللہ ۔
٭
رسول اللہ صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کي مد کا مقصد کيا تھا؟
پيغمبر۰ انسانوں کو کمال تک پہنچانے کے لئے ئے ہيں ‘ لوگوں کو اخلاقِ الٰہي سے مزين کرنے کے لئے ئے ہيں ‘ مکارمِ اخلاق کو کامل کرنے اور اتمام تک پہنچانے کے لئے ئے ہيں‘ اور احاديث کے مضمون کے مطابق :اِنِّي بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکٰارِمَ الْاَخْلاٰقِ۔پيغمبر انسان ساز ي کے لئے ئے ہيں ‘انسان نامي اس خمير کوسنوارنے اور اسے راستہ وپيراستہ کرنے کے لئے ئے ہيں ۔
اب ديکھنا يہ چاہئے کہ پيغمبر۰انسان سازي کے لئے کون سے راستے اختيار کرتے ہيں؟ کن ذرائع سے استفادہ کرتے ہيں؟ اور کس طريقے سے انسان بناتے ہيں؟
کيا کوئي مدرسہ قائم کرتے ہيں ؟
کياکوئي فلسفي مکتب بناتے ہيں ؟
صومعہ اور عبادت خانہ تعمير کرتے ہيں ؟
پيغمبر۰انسان بنانے کے لئے انسان سازي کا کارخانہ قائم کرتے ہيں ۔پيغمبر۰ اس بات کو ترجيح ديتے ہيں کہ چاہے انہيںدس سال ‘ بيس سال تاخير سے کاميابي نصيب ہو ‘ ليکن جو چيز وہ تيار کريں وہ ايک انسان ‘ دو انسان‘ بيس انسان نہ ہوں‘ بلکہ اُن کي خواہش ہوتي ہے کہ انسان سازي کا ايساکارخانہ قائم کريںجوخودکار(automatic) انداز ميں پيغمبر کي پسند کے انسانِ کامل تيار کرے۔
پس پيغمبر۰ انسان بنانے کے لئے ‘انسان سازي کے کارخانے سے کام ليتے ہيںاوريہ کارخانہ اسلامي معاشرہ اوراسلامي نظام ہے ۔يہ وہ بنيادي نقطہ ہے جو ہماري گفتگوميں توجہ کا مرکز رہے گا ۔
سب يہي کہتے ہيں کہ پيغمبر۰ انسان بنانا چاہتے ہيں ‘ تمام ہي لوگوں کا يہ کہناہے کہ پيغمبر تعليم و تربيت کے لئے ئے ہيںاور سب يہ بات سمجھتے ہيں‘(ليکن) جس بات کو توجہ کے ساتھ سمجھنا ضروري ہے ‘ وہ يہ ہے کہ پيغمبر ايک ايک انسان کا ہاتھ پکڑ کر اسے تنہائي ميں لے جاکر اسکے کان ميں خداکي محبت کے نغمے نہيں گنگناتے تھے ۔ انبيا ٴ نے ايسے علمي اور فلسفي مدارس (بھي)قائم نہيں کئے جن ميں چند شاگرد وں کي تربيت کي ہواور اُنہيں لوگوں کي ہدايت ورہنمائي کے لئے گوشہ و کنارِ عالم ميں روانہ کياہو۔پيغمبر کا کام ان امور سے زيادہ محکم ‘ مضبوط اور گہرا ہے ‘ (وہ) ايک ايسا کارخانہ قائم کرتے ہيں ‘ جو صرف انسان پيدا کرتاہے ‘ اور وہ کارخانہ ’’ اسلامي معاشرہ ‘‘ہے ۔
اسلامي معاشرہ کيا ہے ؟اور اس کي کياماہيت ہے ؟
البتہ يہ ايک عليحدہ بحث ہے ‘جو ہماري اس گفتگو کا حصہ نہيں۔ ليکن اس مفہوم کي کچھ وضاحت کے لئے ہم اس پر مختصراً روشني ڈالناضروري سمجھتے ہيں۔
اسلامي معاشرہ ‘ يعني وہ معاشرہ اورسماج جس کي حکمراني کا سب سے بلند مقام خداکے پاس ہو۔اس معاشرے کے قوانين ‘الٰہي قوانين ہوں‘اس معاشرے ميں حدودِالٰہي جاري ہوں ‘اس معاشرے ميں عہدہ اور منصب الٰہي تعليمات کي روشني ميں تفويض کيا جاتا ہو اور انہي تعليمات اور اصولوں کي روشني ميں عہدے اور منصب سے معزول کياجاتا ہو۔
جس طرح بعض معاشرہ شناسوں ميں معمول اور مروج ہے‘اسي طرح اگر ہم معاشرے کي تصوير کشي ايک مثلث(triangle)کي صورت ميں کريں ‘ تو(اسلامي معاشرے کي)مثلث کي چوٹي top) (پر خدا ہوتاہے ‘ اورتمام انسان اسکے نيچے ہوتے ہيں ۔اس معاشرے کے ادارے ديني بنياد پر قائم ہوتے ہيں‘صلح اور جنگ کے قانون احکامِ الٰہي کي بنياد پربنائے جاتے ہيں ‘اجتماعي روابط ‘ اقتصاد ‘ حکومت ‘ حقوق ‘ تمام چيزوں کا تعين خد اکا دين کرتا ہے ‘ دين الٰہي کي روشني ميں ان کا نفاذ ہوتا ہے‘ اور ان تمام قوانين کي پشت پر خدا کا دين ہوتا ہے ۔
اسے کہتے ہيں اسلامي معاشرہ ۔
اسي طرح جيسے پيغمبر اسلام صلي ا عليہ ولہ وسلم نے مدينہ تشريف وري کے بعد وہاں ايک معاشرہ تشکيل ديا ۔اس معاشرے پر خدا کي حکمراني تھي‘اور عملاً حکومت کا کنٹرول خدا کے نمائندے رسول ا ۰کے ہاتھوں ميں تھا ۔پ ہي قوانين و احکام وضع کرتے اور اُن کا اجرا کيا کرتے تھے۔ معاشرے کي ہدايت و رہبري اور اس کا نظم ونسق نحضرت ۰کے ذمے تھا۔
ايک ايسے معاشرے ميں جس کا سب کچھ خدا کے ہاتھ ميں ہے ‘ نمازِ جماعت‘ نماز کے بعد خطبہ اور ميدانِ جنگ ميں پڑھے جانے والے ترانے ‘سب ايک ہي رنگ لئے ہوتے ہيں۔ اسي مسجد ميں جہاںرسول اللہ ۰نماز ِجماعت قائم کياکرتے تھے‘ لوگوں سے خطاب کے لئے منبر پر جاياکرتے تھے ‘درس ديتے اور تزکيہ و تعليم کا کام انجام دياکرتے تھے ‘ وہيںجہادکا پرچم لايا جاتا تھا‘ پيغمبر۰ اسے باندھتے اور اسامہ بن زيد ‘ يا کسي دوسرے مومن سپہ سالار کے سپرد کرتے اور فرماتے کہ جاؤ : اِنْطَلِقُوا عَلَي اسْمِ اللّٰہ(اللہ کا نام لے کر گے بڑھو)اور اس موقع پر دشمن پر کاميابي کے حصول کے لئے ضروري ہدايات دياکرتے تھے۔ اسي مسجد ميں رسول اللہ ۰ خدا کاحکم جاري فرماتے تھے ‘ اسي مسجد ميں پيغمبر کي عدالت سجتي ‘ اسي مسجد سے پيغمبر۰ معاشرے کا نظم و نسق اور اقتصاد چلاتے ‘ اسي مسجد ميں زکات جمع ہوتي اوريہيں سے تقسيم کي جاتي ‘ اسي ميں درس ہوتا ‘ نماز ہوتي‘دعا ہوتي اور جنگي ترانے ہوتے ‘مالي اور اقتصادي مسائل حل ہوتے ‘ مختصر يہ کہ خانہ خدا ميںدنيا اور خرت کے امور ايک ساتھ پيغمبر کي رہنمائي ميں انجام پاتے۔ يہ ہے اسلامي معاشرہ ۔
انبيا ٴايسے ہي معاشرے کے قيام کے لئے تے ہيں‘اس معاشرے ميںرہنے والا ہر فرد انسان بن جاتا ہے۔ اگر انسانِ کامل نہ بھي بن سکے(تب بھي)مجبور ہوتا ہے کہ انسانوں کا سا طرزِ عمل اختيار کرے۔ جوکوئي اچھا بننا چاہے ‘وہ پيغمبر۰ کے قائم کردہ معاشرے ميںاچھا بن سکتا ہے۔ جبکہ غير الٰہي معاشروں ميں ايساممکن نہيں ہے ۔
غير اسلامي اور غيرالٰہي معاشروں ميں انسان اچھا بننا چاہتے ہيں‘ليکن نہيںبن سکتے۔ ديندار بننا چاہتے ہيں ‘ليکن نہيں بن سکتے۔ چاہتے ہيںکہ نہ سود ديں اور نہ سودليں‘ليکن پ ديکھتے ہيں کہ ايسا نہيں کر سکتے۔
ايسے معاشرے ميں عورت چاہتي ہے کہ اسلام اُس سے جس پاکدامني کا تقاضا کرتا ہے ‘وہ اُس کي حفاظت کرے ‘ليکن ماحول اُسے ايسانہيں کرنے ديتا۔اس معاشرے ميں پائے جانے والے عوامل اوراسباب انسان کو خدا کي ياد سے دور کرتے ہيں ۔ تصاوير‘سنيماگھر‘زادانہ ميل جول اور گفتگو‘يہ سب باتيں انسان کو خدا سے دور کرتي ہيں اور انسان کے دل کو ذکر ِ خدا سے بيگانہ کرتي ہيں۔ ليکن اسلامي معاشرے ميں معاملہ اسکے برعکس ہوتاہے ۔
اسلامي معاشرے ميں بازار ‘مسجد‘ حکومتي ادارے ‘دوست ‘رشتے دار‘ گھرانے کاسربراہ‘ گھر کا جوان ‘سب کے سب انسان کو خدا کي ياد دلاتے ہيں‘خدا کي طرف کھينچتے ہيں ‘ خدا کے ساتھ ہم ہنگ کرتے ہيں ‘خداکے ساتھ اس کاربط و تعلق ايجاد کرتے ہيں ‘ اُسے خدا کا بندہ بناتے اور غيرخدا کي بندگي سے دور کرتے ہيں ۔
اگر پيغمبر۰ کے زمانے کا اسلامي معاشرہ پچاس سال قائم رہتا‘اور انہي کي قيادت برسرِ کار ہوتي‘يا پيغمبر۰ کے بعد علي ابن ابي طالب ٴ ‘ وہي رہبر ورہنما جنہيں پيغمبر۰ نے معين فرمايا تھا‘ پيغمبر کے جانشين بنتے ‘تو يقين جانئے پچاس سال بعداس معاشرے ميں کوئي منافق نہ رہتا ‘تمام افرادِ معاشرہ حقيقي مومن بن جاتے ۔ اگر حکومت ِ نبوي کے فوراً بعد حکومت ِ علوي قائم ہوجاتي‘ تو يہ انسان ساز معاشرہ لازمي طور پر تمام دھوکے بازوں کو پاک دل بناديتا‘ تمام منافق دلوں کو بھي مومن کر ديتا ‘ وہ تمام افراد جن کي روح ايمان سے شنا نہ تھي ‘وہ بھي خدا اور ايمان شنا ہوجاتے۔ اسلامي معاشرہ ان خصوصيات کاحامل ہوا کرتا ہے ۔
انبيا ٴ ايساہي معاشرہ قائم کرنے کے لئے تے ہيں ۔جب يہ معاشرہ بن جاتا ہے ‘ تو جس طرح کارخانے سے بڑي مقدار ميں پيداوار نکلتي ہے‘ اسي طرح انسان سازي کے اس کارخانے سے لوگ گروہ در گروہ مسلمان بن کر نکلتے ہيں ۔ ظاہري مسلمان بھي اور قلبي‘واقعي اورباطني مسلمان اورمومن بھي ۔پس پيغمبر۰ اس کام کے لئے تے ہيں ۔
ہم نے عرض کيا تھا کہ ہم ولايت کي گفتگو کو اسکي جڑ سے شروع کريں گے۔
ابتداميںجب پيغمبراسلامي فکر لے کر تے ہيں اور اُن کي دعوت شروع ہوتي ہے ‘ تو کيا وہ تن تنہا معاشرے کا نظم و نسق چلاسکتے ہيں ؟ کيا معاشرے کو اداروں کي ضرورت نہيں ہوتي؟ کيا اِن اداروں کو چلانے کے لئے کچھ لوگ درکار نہيں ہوتے ؟ کيا اس معاشرے کے دفاع اور تحفظ اور اسکے دشمنوں کي سرکوبي کے لئے ايک فوج کي ضرورت نہيںہوتي؟کيا ايسے لوگوں کي ضرورت نہيں ہوتي جو پيغمبر کا ساتھ ديں اور اُن کي دعوت کو عام کريں ؟ يقينا ايسے لوگوں کي ضرورت ہوتي ہے ‘ اور يہ تمام کا م معمول کے مطابق اسباب و وسائل کے ذريعے انجام پاتے ہيں۔انبيا ٴاپني زيادہ تر سرگرميوں ميں عام اور معمول کے مطابق اسباب و وسائل ہي سے کام ليتے تھے ۔
پيغمبراس لئے تے ہيںتاکہ اپنا مطلوب معاشرہ تعمير کريں ‘ ايسامعاشرہ جو انسان سازي کا کارخانہ ہو۔ اس کام کے لئے ايک متحد اور يکسو گروہ کي ضرورت ہے ‘ جو دل کي گہرائيوں سے اس مکتب پر ايمان اور عقيدہ رکھتا ہو اور ثابت قدمي اور جوش وخروش کے ساتھ اس مقصد کي جانب گامزن ہو۔پيغمبر‘ ابتدائے کار ہي ميں ايسے گروہ کي موجودگي ضروري سمجھتے ہيں۔ لہٰذا پيغمبر کا پہلا کام اس متحد اور باہم متفق گروہ کي فراہمي اور تياري ہے۔لہٰذا وہ ياتِ قرني پر عمل کرتے ہوئے مواعظِ حسنہ کے ذريعے ايک ايسا گروہ وجود ميںلاتے ہيں :اُدْعُ اِلٰي سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ۔ (١)
١۔ لوگوں کو حکمت اور اچھي نصيحت کے ذريعے اپنے پروردگار کي طرف دعوت ديں۔(سورہ نحل ١٦۔يت ١٢٥)
پيغمبر مواعظ ِحسنہ‘ياتِ قرني اوراپنے کلام کي تاثير کے ذريعے لوگوں کے دل خدا کے دين کي جانب جذب کرتے ہيںاور پہلے مرحلے ميں اُنہيں اپنے گرد جمع کرتے ہيں ۔ پيغمبر کے گرد جمع ہوجانے والے ان لوگوںکے ذريعے ايک گروہ وجود ميں تا ہے۔ پس سب سے پہلے پيغمبراپني دعوت پيش کرکے ايک گروہ اور ايک صف وجود ميں لاتے ہيں۔ کفر کے محاذ کے با لمقابل ايک محاذايجاد کرتے ہيں۔
يہ محاذ کن لوگوں سے مل کر بنتا ہے ؟
صاحب ِايمان‘صاحب ِعقيدہ ‘مضبوط دل اور ثابت قدم مسلمانوں کے ملنے سے بنتا ہے‘ اُن لوگوں کے اکھٹا ہونے سے تشکيل پاتا ہے جنہيںلاٰ تَاْخُذُ ھُمْ فِي اِ لَوْمَۃُ لاٰئِمٍ(کسي ملامت کرنے والے کي ملامت راہِ خدا سے نہيں ہٹا سکتي ۔نہج البلاغہ۔ خطبہ١٩٠)
يہ وہ اوّلين مسلمان ہيں جو جاہلي معاشرے ميں ايک محاذ تشکيل ديتے ہيں۔ يعني يہ مکہ کے جاہلي معاشرے ميں رہنے والے صدرِاسلام کے مسلمان ہيں۔ اب اگر اسلام اور مسلمين کے نام سے وجود ميں نے والے اس کمزور اور لاغرمحاذکو اس جاہلي اور مزاحمتوں اور مشکلات سے بھرے معاشرے ميں باقي رکھنا چاہيں‘ اگريہ چاہيں کہ يہ گروہ ‘ يہ صف اور يہ محاذ ختم نہ ہوجائے ‘ تحليل نہ ہوجائے‘تو لازم ہے کہ مسلمانوں کا يہ گروہ سيسہ پلائي ديوار کي مانند ايک دوسرے کے ساتھ پيوست رہے‘ ان مسلمانوں کو اس طرح ايک دوسرے سے متصل اور منسلک کيا جائے کہ کوئي چيز اُنہيںايک دوسرے سے جدا نہ کرسکے ۔ج کي زبان ميں اور ج کي ادبيات ميں ‘ ايک انتہائي شديد جماعتي نظم (party discipline)ان مسلمانوں کے درميان قائم کيا جائے ۔انہيں ايک دوسرے کے ساتھ زيادہ سے زيادہ پيوست کيا جائے ۔ انہيں مضبوطي سے ايک دوسرے کے ساتھ باندھا جائے اور دوسرے محاذوں ‘دوسري تحريکوںاور مخالف عوامل سے انہيںزيادہ سے زيادہ دور رکھا جائے ۔
کيوں‘
اس لئے کہ يہ اقليت ميں ہيں ۔
ايک ايسا گروہ جو اقليت ميں ہے‘ ممکن ہے اسکي فکر اکثريت کي فکر سے متاثر ہوجائے ‘اِن کا عمل‘ اِن کي حيثيت ‘ اِن کي شخصيت ‘ ممکن ہے ان کي مخالف بقيہ اکثريت کي حيشيتوں ‘ شخصيتوں اور اعمال ميں گم يا نابود اور حل ہو کر ختم ہوجائے ۔
لہٰذا اُنہيں تحليل ہونے سے بچانے کے لئے‘انہيں نابودي سے محفوظ رکھنے کے لئے ‘انہيں ايک گروہ کي صورت ميں باقي رکھنے کے لئے‘ انہيں زيادہ سے زيادہ ايک دوسرے کے ساتھ متصل کيا جاتا ہے‘اور انہيں ہر ممکن طريقے سے دوسرے محاذوں ‘دوسري صفوں سے جدا کيا جاتا ہے‘ تاکہ مستقبل ميں ان کے مضبوط ہاتھوں سے اسلامي معاشرے کي تعمير ہو‘ يہ اس کانظم و نسق سنبھاليں اوراسے گے بڑھائيں ‘پيغمبر کے مددگاربنيں ‘ اُن کوہ پيماؤںکے گروہ کي مانند جو ايک دشوار گزار پہاڑي راستہ عبور کررہا ہوتا ہے‘دس افرادلاٹھياں(sticks) ہاتھ ميں لئے برف کے درميان ايک تنگ اورپرُ خطر راستہ طے کررہے ہوتے ہيں‘ اورپہاڑ کي چوٹي پر پہنچنے کے لئے پيچ وخم کھاتي واديوں سے گزرتے ہيں۔ ان لوگوںسے کہا جاتا ہے کہ ايک دوسرے سے متصل ہوجائيں ‘ اپنے پ کو ايک دوسرے کے ساتھ باندھ ليں‘ عليحدہ عليحدہ اور انفرادي طور پر گے نہ بڑھيں ۔کيونکہ اگر وہ اکيلے رہ جائيںگے ‘تو ان کے لڑکھڑانے کا خطرہ ہے ‘ انہيں مضبوطي کے ساتھ ايک دوسرے سے منسلک کرديتے ہيں‘ اور ايک دوسرے سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ ان سے کہتے ہيں کہ وہ اپنے ساتھ بہت زيادہ وزن نہ ليں ‘ اِدھر ُادھر نہ ديکھيں‘ بلکہ صرف اپنے راستے پر نظر رکھيں‘ اور حواس فقط اپنے کام کي طرف متوجہ رکھيں ۔يہ لوگ ايک دوسرے کي کمر اور ہاتھوں کو مضبوطي سے ايک ساتھ باندھ ليتے ہيں‘ تاکہ اگر ان ميں سے کوئي گرنے لگے ‘ تو بقيہ لوگ اسے بچا سکيں ۔
کوہ پيماؤں کا اس طرح ايک دوسرے کے ساتھ سختي سے جڑا ہوا ہونا‘ صدرِ اسلام کے مسلمانوں کے ايک دوسرے کے ساتھ شديد متصل اور پيوست ہونے کي عکاسي کرتا ہے ۔
کيا قرن و حديث نے اس اتصال اور پيوستگي کو کوئي نام دياہے ؟
اسلام کے ابتدائي دور سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کي يہ پيوستگي‘ جو انہيں پس ميں اس طرح جوڑتي ہے جس کا توڑنا ممکن نہيں‘جو معاشرے ميں موجوددوسري صفوں سے يکسر جدا ہوتے ہيں ‘سختي کے ساتھ ايک دوسرے کے ہاتھ ميں ہاتھ ديئے اور ايک دوسرے سے بندھے ہوئے ہوتے ہيں ‘ کيا قرن اور حديث ميں انہيں کوئي نام دياگياہے ؟
جي ہاں‘ اس باہم پيوستگي اور اتصال کا نام ولايت ہے ۔
پس قرن کي اوّلي اصطلاح ميں ‘ولايت يعني باہم پيوستگي اور ايک صف کي صورت ميں يکجہت ہونا‘ ايک فکررکھنے والے ‘ايک مقصد کي جستجو ميں سرگرداں اورايک ہي راہ پر گامزن لوگوں کے ايک گروہ کاسختي کے ساتھ پس ميںمتصل ہونا ۔يہ لوگ ايک ہي منزل کي جانب گامزن ہوتے ہيں اور ايک ہي فکر اور ايک ہي عقيدے کو ماننے والے ہوتے ہيں۔
اس صف سے تعلق رکھنے والے افراد کو ايک دوسرے کے ساتھ زيادہ سے زيادہ متصل ہونا چاہئے ۔انہيں چاہئے کہ دوسري صف بنديوں‘ دوسرے مراکز اور دوسرے عناصرسے اپنے پ کو جدا اور عليحدہ رکھيں ۔
کيوں؟
اس لئے ‘تاکہ ان کا خاتمہ نہ ہو جائے‘وہ دوسروںميں تحليل نہ ہوجائيں۔
اس چيز کوقرنِ کريم ميں ولايت کہتے ہيں۔
پيغمبر اسلام حضرت محمد صلي اللہ عليہ ولہ وسلم مسلمانوں کے اوّلين گروہ کو اس طرح پيوستہ اور متصل کرتے ہيں‘انہيں ايک دوسرے سے جوڑتے ہيں‘ انہيں ايک دوسرے کابھائي بناتے ہيں‘ انہيں ايک جسمِ واحد کي صورت ميں ڈھالتے ہيں ‘ ان کے ذريعے امت ِاسلامي تشکيل ديتے ہيںاور اسلامي معاشرہ وجود ميں لاتے ہيں ۔
انشائ اپ گے چل کر يات ِ قرني ميںديکھيں گے کہ پيغمبر۰ صدرِ اسلام کے مسلمانوں کے اس اتحاد اور يکجہتي کے ذريعے دشمنوں‘معاندوںاورمخالفوں کاراستہ روکتے ہيں‘ اپنے تيار کردہ اس گروہ کو معاشرے ميں موجود دوسرے گروہوں سے جدا کرتے ہيں۔ انہيں يہوديوں‘عيسائيوں اور مشرکين کے گروہ کے ساتھ مل جانے سے روکتے ہيں۔اور ان کي صفوں کو باہم منسلک اور متصل رکھنے کي بھرپور کوشش کرتے ہيں ۔اسلئے کہ اگر يہ مسلمان اس حالت ميں نہ ہوں‘ اگران کے درميان ولايت نہ پائي جائے‘ اگريہ سو فيصد ايک دوسرے سے پيوست نہ ہوں اور ان کے درميان اختلاف وجود ميں جائے ‘ تويہ اپنے کاندھوں پر پڑنے والي امانت کے اس بوجھ کواٹھانے سے قاصر رہيں گے اور اس بارِ گراں کو منزلِ مقصود تک نہيں پہنچا سکيں گے ۔
بعد ميں بھي جب اسلامي معاشرہ ايک عظيم اُمت ميں تبديل ہوجاتا ہے ‘ تب بھي ولايت کي ضرورت رہتي ہے ۔
ايک امت کے لئے کس طرح کي ولايت ضروري ہے ‘ اور کس لئے يہ لازم ہے ‘ اسکي وضاحت ہم بعد ميںکريں گے ۔ليکن اگرہم يہيں ٹھہر کر کچھ غور کريں ‘ تو وہ ولايت جس کا ذکر شيعہ کرتے ہيں اس کا کچھ مفہوم ہم پر واضح ہو جائے گا ۔
ظلمت سے بھري ايک دنيا ميں‘ ايک جاہل سماج ميں‘ايک چھوٹے سے گروہ کو اپني بقا کے لئے باہم مربوط اور متصل رہنے کي ضرورت ہے ۔ اگر وہ گروہ باہم پيوست اور جڑا ہوانہ ہو‘ تو اس کا باقي رہنا اور اپني زندگي جاري رکھنا محال ہے۔ ہم نے مثال کے طور پر مکہ کے جاہل معاشرے ميں اسلام کے ابتدائي دور کے مسلمانوںکے گروہ ‘يا پہلے پہل مدينہ ميں نے والے مسلمانوں کے گروہ کا ذکر کيا۔ اسکي دوسري مثال اسلامي تاريخ کے غاز ميں شيعہ مخالف اور اسلام مخالف خلافتوں کے زمانے ميں شيعوںکاچھوٹاسا گروہ ہے ۔
کيا شيعہ ساني کے ساتھ باقي رہ سکتے تھے ؟
کيا پروپيگنڈے کے حربے ‘ پابندياں ‘ قيد خانے ‘ اذيتيں اور قتل و غارت اس بات کي اجازت ديتے تھے کہ يہ گروہ باقي رہ سکے ؟
اور وہ بھي شيعوں کي مانند ايک فکري گروہ‘ جو اپنے زمانے کي حکومتوں کا بھرپور مخالف اور اُن کے لئے دردِ سرتھا ۔
ليکن اسکے باوجود يہ گروہ کيسے باقي رہ گيا ؟
اس لئے باقي رہ گيا کہ ولايت نے شيعوں کے درميان ايک حيرت انگيز پيوستگي اورشيرازہ بندي پيدا کر دي تھي ‘تا کہ اس ولايت کے زيرِ سايہ شيعي تحريک وہاںپائي جانے والي دوسري طرح طرح کي تحريکوں کے درميان محفوظ رہ سکے ۔
پ ايک بہت بڑے دريا کا تصور کريں ‘ جس ميں کئي اطراف سے مختلف پاني داخل ہو رہے ہيں۔ يہ پاني تيز رفتاري کے ساتھ حرکت ميں ہيں اور دريا کي سطح متلاطم ہے‘ اس پر گرداب وجود ميں رہے ہيں‘پاني پس ميں پيچ وخم کھارہے ہيں ‘ ايک دوسرے سے مختلف طرح طرح کے پاني اس دريا ميں ايک دوسرے ميں گڈ مڈ ہو رہے ہيں اور ايک دوسرے کو تحليل کر رہے ہيں ‘ايک دوسرے سے ٹکرا رہے ہيںاوردريا گے بڑھ رہا ہے۔
اِن لودہ اورگدلے پانيوں کے درميان ميٹھے ‘صاف‘ لطيف اورشفاف پاني کا ايک دھارا بھي رواں دواں ہے ‘جواس بہاؤميںايک عجيب انداز سے گے بڑھ رہا ہے ۔يہ پاني محفوظ اور سلامت ہے ‘اورحيرت انگيز بات يہ ہے کہ کسي صورت اس کا رنگ خراب نہيں ہوتا ‘يہ کسي صورت دوسرے پانيوں کي تلخي اور کھاراپن اختيار نہيں کرتا‘اپنے اُسي ميٹھے ذائقے ‘اُسي شفاف رنگت اوراُسي خالص پن کو محفوظ رکھتے ہوئے گے بڑھتا رہتاہے ۔
پ اُموي اور عباسي دور کے عالمِ اسلام کو اس دريا سے تشبيہ ديں جس ميں طرح طرح کي فکري ‘ سياسي اور عملي تحريکيں ايک دوسرے کے دوش بدوش چل رہي تھيں۔پ اوّل سے خر تک نگاہ ڈال ليجئے‘پ تشيع کي تحريک کو ديکھيں گے کہ وہ اس عجيب طوفان کے درميان پاني کي ايک باريک لکير کي مانندايک ناچيز اور معمولي شئے نظر ئے گي ‘ليکن اِس طرح کہ اُس نے اپنے پ کو محفوظ رکھا ہوا ہے‘کسي صورت لودہ نہيں ہوئي ہے‘کسي صورت اُس کا ذائقہ خراب نہيں ہوا ہے ‘ ہر گز وہ اپني شفافيت سے محروم نہيں ہوئي ہے ‘ ہر گزاُس نے دوسرے پانيوں کے رنگ ‘بو اور ذائقے کو اختيار نہيں کيا ہے‘وہ باقي رہي اورمسلسل گے بڑھي ہے۔
ليکن وہ کيا چيز ہے جس نے اسکي حفاظت کي ہے ؟
وہ کيا شئے ہے جواس شيعي تحريک کي بقا کا سبب بني ہے ؟
وہ اس ولي کا وجودہے جو لوگوں اور اپنے پيروکاروں کو ولايت کي تلقين کرتا ہے‘ انہيں ايک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے ‘ انہيں ايک دوسرے کے لئے مہربان کرتا ہے ‘ اُن کے درميان ولايت کي ترويج کرتا ہے اور اس صف ميں موجودافراد کے اتحاد و اتفاق اوريکجہتي کي حفاظت کرتا ہے ۔
شيعي ولايت کا ايک پہلو يہ ہے‘ جس پر بہت زيادہ زور ديا گيا ہے۔ اسکے اور بھي پہلو ہيں‘ ہم اُن کا بھي جائزہ ليں گے ۔
پس ولايت ‘ يعني باہم پيوستگي‘ايک دوسرے سے جڑے ہوئے ہونا۔
قرنِ مجيد مومنين کو ايک دوسرے کا ولي قرار ديتا ہے‘اور سچے صاحبانِ ايمان کو ايک دوسرے سے متصل اور باہم پيوست سمجھتا ہے ۔ہماري روايات ميں شيعہ کو مومن کہا جاتا ہے۔ اس تصور کي رو سے ‘ايمان سے مراد‘ ولايت پر مبني خاص شيعي طرزِ تفکر کا حامل ہونا ہے ۔يعني اسلام کو شيعي نکتہ نظر سے اپنانا اورجس منطق سے شيعہ اسے ثابت کرتے ہيں‘اُس منطق سے اس کا اثبات کرنا۔
ہم ديکھتے ہيں کہ ائمہ عليہم السلام کے زمانے ميں اس قسم کے شيعوں کو ايک دوسرے کے ساتھ مربوط‘متصل اورباہم پيوست کيا گيا‘انہيںايک دوسرے کا بھائي بنايا گيا‘تاکہ وہ تاريخ ميں شيعي تحريک کو محفوظ رکھيں۔اگر ايسا نہ کيا گيا ہوتا ‘تو شيعہ ختم ہوجاتے‘ ان کے افکارنابود ہوجاتے۔ جيسا کہ بعض دوسرے فرقوں کے ساتھ ايسا ہوا ہے ‘ کہ انہوں نے اپنا رنگ کھو ديا ہے ‘ ختم اور نا بود ہو گئے ہيں۔
خدا کے ولي کي ولايت
بہر صورت يہ ولايت کے پہلوؤں ميں سے ايک پہلو ہے ۔انشائ ا ہم ولايت کے ايک اور پہلو سے متعلق عرض کريں گے ‘جو شايدايک اور اعتبار سے اس سے زيادہ اہميت کا حامل ہے۔ اوريہ ولي ا کي ولايت کا پہلوہے ۔
ہم شيعہ افراد کي باہمي ولايت کے متعلق جان چکے ہيں۔ ولي خدا کي ولايت سے کيا مراد ہے ؟ علي ابن ابي طالب ٴ کي ولايت کے کيا معني ہيں ؟ امام جعفرصادقٴ کي ولايت کا کيا مطلب ہے؟ يہ جو ج ہم لوگوںکے لئے ائمہ ٴکي ولايت رکھناضروري ہے‘ اس سے کيا مراد ہے ؟
بعض لوگ سمجھتے ہيں کہ ائمہ ٴ کي ولايت کے معني يہ ہيں کہ ہم اُن سے فقط محبت کريں؟
يہ لوگ کس قدر غلط فہمي کا شکار ہيں‘ صرف محبت کرنا ولايت نہيں ہے ۔
کيا پورے عالمِ اسلام ميںکوئي ايک فردبھي ايسا ملے گا جو ائمہ معصومين ٴاور خاندانِ پيغمبر۰ سے محبت نہ کرتا ہو؟
پس کيا يہ سب لوگ ولايت رکھتے ہيں؟
کيا کوئي ہے جوائمہ اہلِ بيت ٴکا دشمن ہو؟
وہ تمام لوگ جنہوں نے ابتدائے اسلام ميں اُن کے خلاف جنگ کي‘ کيا وہ سب کے سب اُن کے دشمن تھے؟
نہيں‘ ان ميں سے بہت سے لوگ ائمہ ٴ سے محبت کرتے تھے‘ ليکن دنيا وي مفادات کي خاطر اُن کے خلاف جنگ پر تيار ہوئے ‘باوجود يہ کہ وہ جانتے تھے کہ يہ ہستياں کن مراتب اور کن مقامات کي مالک ہيں۔
جب (عباسي خليفہ)منصور کو امام جعفر صادق عليہ السلام کي رحلت کي خبر دي گئي‘ تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔کيا پ کے خيال ميں وہ دکھاوا کر رہاتھا؟ کيا وہ اپنے نوکروں کے سامنے دکھاوے کارونا رو رہا تھا؟ کيا وہ ربيع حاجب کے سامنے دکھاوا کر نا چاہتا تھا؟يہ دکھاوا نہيں تھا‘ واقعاً اس کا دل دُکھا تھا‘ واقعاً اسے امام جعفرصادق عليہ السلام کي موت کاافسوس تھا۔
ليکن امام ٴکوکس نے ماراتھا؟
خود منصور کے حکم سے امام جعفرصادقٴ کو زہر ديا گياتھا۔
ليکن جب اُسے بتايا گيا کہ کام ہو گيا ہے‘ تو اُس کا دل ہل کے رہ گيا۔
پس (کيا) منصور بھي ولايت رکھتا تھا؟
اسي قسم کي غلط فہمي کا شکار وہ لوگ ہيںجويہ کہتے ہيں کہ مامون عباسي شيعہ تھا۔
پتا ہے شيعہ کے کيا معني ہيں؟
کيا ايسا شخص شيعہ کہلائے گاجو يہ جانتا ہو کہ امام رضا عليہ السلام حق بجانب ہيں؟
کيا اس کا فقط اتنا جاننا اسے شيعہ قرار دے دے گا؟
اگر ايسا ہو‘ تو پھر مامون عباسي ‘ ہارون رشيد ‘ منصور ‘معاويہ اور يزيد ‘يہ سب کے سب لوگ‘ دوسروں سے بڑھ کر شيعہ تھے ۔
وہ لوگ جو جنگوں ميںامير المومنين حضرت علي عليہ السلام کے خلاف لڑے ‘کيا اُنہيں امام ٴ سے محبت نہ تھي ؟
کيوں نہيں ‘ اُن ميں سے اکثر حضرت علي عليہ السلام سے محبت کرتے تھے۔
پس پھر کياوہ شيعہ ہوئے ؟
پس کيا وہ ولايت رکھتے تھے ؟
نہيں‘ ولايت ان باتوں سے ہٹ کر ہے ۔ولايت ان چيزوں سے بالاتر ہے۔
جب ہم ولايت ِعلي ابن ابي طالب ٴاور ولايت ِائمہٴ کو سمجھ ليں ‘ اوريہ جان ليں کہ ولايت کيا ہے؟‘ تو پھر ہميں چاہئے کہ ہم اپني طرف پلٹيں ‘ اور ديکھيں کہ کياواقعاً ہم ولايت رکھتے ہيں ؟
اُس موقع پر اگر ديکھيں کہ ہم ولايت نہيں رکھتے‘ تو پھر ہميں ولايت ِ ائمہ ٴ کے حصول کے لئے خدا سے دعا کرني چاہئے اوراس سلسلے ميں کوشش کرني چاہئے ۔
کچھ لوگ اپنے دل ميں ائمہ اطہار ٴ کي محبت اور عقيدت رکھنے کي وجہ سے يہ سمجھتے ہيں کہ اُن ميں ولايت ِ اہلِ بيت ٴپائي جاتي ہے ۔
نہيں‘ يہ ولايت نہيںہے۔ ولايت اس سے بالاتر ہے ۔
البتہ ہم گے چل کراس بات کي وضاحت کريں گے کہ ولايت ِائمہ ہديٰ عليہم السلام سے کيا مراد ہے۔ کس طرح ہم ائمہٴ کو اپنا ولي قرار دے سکتے ہيں‘ اور اُن کي ولايت کے حامل بن سکتے ہيں۔اس وضاحت کے بعد ہم سمجھ پائيں گے کہ ائمہ ٴ کي ولايت کے سلسلے ميں ہمارا دعويٰ کس قدر لاعلمي پر مبني اور خلافِ حقيقت ہے ۔
عيد ِغدير کے ايام ميں لوگ يہ دعا پڑھتے ہيں :
’’اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذي جَعَلَنٰا مِنَ الْمُتَمَسِّکِينَ بِوِلاٰيَۃِ عِليّ بْنِ اَبيطٰالبٍ عليہ السَّلام۔‘‘
ہم اکثر اپنے دوستوں سے کہتے ہيں کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذي جَعَلَنٰا نہ کہئے۔ممکن ہے ہمارا يہ کہنا جھوٹ ہو‘ بلکہ يہ کہئے کہ: اَلّٰلھُمَّ ا جْعَلْنٰا مِنَ الْمُتَمَسِّکِينَ بِوِلاٰيَۃِ عِليّ بْنِ اَبيطٰالبٍ عليہ السَّلام۔(بارِ الٰہا ! ہميں ولايت سے وابستہ لوگوں ميں سے قرار دے )
کيونکہ ہميں ديکھنا چاہئے کہ ہم ولايت سے وابستہ ہيں بھي يا نہيں ؟
انشائ ا ہمارے سامنے يہ نکتہ واضح ہوجائے گا کہ يہ بھي ولايت کے پہلوؤں ميں سے ايک پہلو ہے ۔
ہماري ج کي گفتگوکا خلاصہ يہ ہے کہ : امت ِ اسلاميہ کي ولايت اور خدا اورراہِ خدا کے لئے کوشاں گروہ کي ولايت کے معني يہ ہيں کہ اس گروہ ميں موجود افراد کے درميان زيادہ سے زيادہ قربت اوراتصال وجود ميں ئے‘ اُن کے دل زيادہ سے زيادہ ايک دوسرے سے جڑے ہوئے اور نزديک ہوں ‘اوريہ لوگ اپنے مخالف مراکز سے ‘ ايسے لوگوں سے جن کي سوچ اُن کے خلاف ہو‘ اورجو اُن کے برخلاف عمل کرتے ہوں ‘ حتيٰ الامکان دور ہوں۔
يہ ہيں ولايت کے معني ۔
سورہ ممتحنہ کي ابتدائي يات ميںيہ حقيقت بيان کي گئي ہے ۔ لہٰذا ہمارے خيال ميں اس موضوع کي مناسبت سے اس سورے کا نام سورہ ولايت رکھا جاسکتا ہے ۔
’’بِسْمِ اِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔يٰاَيُّھَا الَّذِيْنَ ٰامَنُوْا لااَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّي وَ عَدُوَّکُمْ اَوْلِيَآئَ۔‘‘(١)
بعض ترجموں ميں ہے کہ ميرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بنانا ۔يہ اس کے مکمل معني نہيں ہيں ۔فقط دوستي اور محبت کا مسئلہ نہيں ہے‘بلکہ مسئلہ اس سے بالا ترہے ۔
اپنا ولي نہ بناؤ ‘ يعني اُنہيںاپنے گروہ کا حصہ نہ سمجھو‘اپنے پ کو اُن کي صف ميں کھڑا نہ
١۔سورہ ممتحنہ٦٠۔يت١
کرو۔ يعني اپنے پ کو اور اُنہيںايک ہي صف ميں تصور نہ کرو ۔ايک ايسا شخص جو خدا کا اور تمہارا دشمن ہے اُسے اپنے پہلو ميں جگہ نہ دو‘بلکہ اسے اپنا مد ِ مقابل اور اپنا دشمن اور حريف سمجھو:
تُلْقُوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ(انہيں اپني صفوں ميں شامل نہ سمجھوکہ اُنہيں دوستي کے پيغام بھيجنے لگو)
وَ قَدْ کَفَرُوْا بِمَاجَآئَکُمْ مِّنَ الْحَقِّ(جبکہ تم اس بات سے واقف ہو کہ انہوں نے اس حق و حقيقت سے انکار کيا ہے جسے پروردگار نے تمہارے لئے نازل کيا ہے )
يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَ اِيَّاکُمْ(يہ لوگ پيغمبرکو اورتمہيں تمہارے وطن سے باہر نکال رہے ہيں)
اَنْ تُْمِنُوْا بِاِ رَبِّکُمْ (صرف اس جرم ميں کہ تم اپنے پروردگار ا پر ايمان رکھتے ہو )
اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ وَ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِيْ( اگر تم ہماري راہ ميں جہاد اور ہماري خوشنودي کے حصول کے لئے نکلے ہو ‘تو ميرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ )
اگر واقعاً تم سچ کہتے ہو ‘ اور ميري راہ ميں جہاد اور کوشش کرتے ہو ‘ تو تمہيں حق نہيںپہنچتا کہ ميرے اور اپنے دشمنوں کو اپني صفوں ميں جگہ دو ‘ اور اُنہيں اپنا مدد گاراور ساتھي بناؤ ۔
البتہ بعد کي يات واضح کرتي ہيں کہ خدا کي مراد کون سے کفار ہيں ‘ اوران يات ميںکفار کو گروہوں ميں تقسيم کيا گيا ہے ۔
تُسِرُّوْنَ اِلَيْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ ( تم اِ ن کے ساتھ خفيہ اور پوشيدہ طورپر محبت کرتے ہو)
وَاَنَااَعْلَمُ بِمَ اَخْفَيْتُمْ وَمَ اَعْلَنْتُمْ(اور جو کچھ تم خفيہ اور علانيہ کرتے ہوميںاُس سب سے باخبر ہوں )
وَ مَنْ يَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِيْلِ ( اور تم ميں سے جو کوئي دشمنانِ خدا کي طرف دوستي اور تعاون کا ہاتھ بڑھائے گا اور اپنے پ کو ان کي صف ميں سمجھے اورظاہر کرے گا‘ وہ راہِ اعتدال سے بھٹک گيا ہے )
اس بات کا ذکر کر دينا ضروري محسوس ہوتا ہے کہ ان يات کي شانِ نزول ’’حاطب بن ابي بلتعہ‘‘ کے بارے ميں ہے۔ حاطب بن ابي بلتعہ ايک کمزور ايمان مسلمان تھا ‘ جب پيغمبر اسلام ۰ نے کفار ِ قريش کے خلاف جنگ کا ارادہ کيا ‘تو حاطب نے سوچا کہ ممکن ہے پيغمبرکو اس جنگ ميں شکست ہوجائے اور اس کے اعزہ و اقربا جو وہاںکفارميںرہ رہے ہيں‘ اُنہيں کوئي نقصان پہنچ جائے۔ جبکہ وہ خود پيغمبر۰ کے سپاہيوں ميں شامل ہے ۔اس نے ايک چالاکي کرني چاہي ۔اس نے سوچا کہ اب جبکہ ميں پيغمبر۰ کے ساتھ ہوں ‘اُن کي رکاب ميں جہاد کر رہا ہوں ‘ اور راہِ خداکے مجاہدين کا ثواب کمارہا ہوں ‘ توکيوں نہ احتياطاً کفار کے نام بھي ايک خط لکھ دوں‘اور اُن سے اپني محبت اور وفاداري کا اظہار کروں ۔کيا مضائقہ ہے؟جب ميرا ميدانِ جنگ ميں اُن سے سامنا ہوگا‘ تو اس خط پر عمل نہيں کروں گا ۔ليکن کيا حرج ہے کہ ميں ايک خط لکھ کر کفار کے دل ميں اپنے لئے نرم گوشہ پيدا کرلوںاور ان کي ہمدردي حاصل کرلوں ؟خدا بھي خوش ہوجائے اور ميرے کسي مفاد پر بھي ضرب نہ لگے ۔
کہتے ہيںايک بڑے دمي اور علاقے کے چوہدري کے درميان جھگڑا ہوگيا۔ ديکھنے والوں ميں سے کسي نے ايک شخص سے پوچھا :اِن ميں سے کون حق بجانب ہے ؟ اُس نے کہا:دونوں ہي حق بجانب ہيں‘دونوں ہي سے بنا کے رکھني چاہئے !
لہٰذاحاطب نے قريش کے سرداروں کے نام ايک خط لکھا اور اس پر اپنے دستخط بھي کرديئے۔تاکہ ان کے علم ميں جائے کہ حاطب اُن کا خير خواہ ‘دوست اور مہر بان ہے ۔پھراُس نے اس خط کو ايک عورت کے توسط سے مکہ بھيج ديا ۔پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ ولہ وسلم کووحي کے ذريعے اس قصے کا علم ہوگيا ۔نحضرت ۰نے امير المومنين حضرت علي عليہ السلام اور ايک يادو دوسرے افراد کو روانہ کيااور انہوں نے راستے ميں اس عورت کو ڈھونڈنکالا۔ ان لوگوں نے اسے ڈرا دھمکا کر اس سے يہ کاغذ برمد کر ليا ۔
پيغمبراسلام ۰ نے حاطب سے پوچھا : تم نے ايساکيوں کيا ؟ کيوں تم دشمن کے سامنے جنگي اور فوجي راز افشاکررہے تھے ؟ اس نے کہا: اے ا کے رسول۰ !وہاں ميرے کچھ دوست اور ساتھي ہيں ‘ عزيز رشتے دار ہيں ‘ مجھے خوف ہوا کہ کہيں انہيں کوئي مشکل نہ اٹھاني پڑے ۔لہٰذا ميں نے يہ خط لکھ کر مشرکين کے دل ميں اپنے لئے نرم گوشہ پيدا کرنا چاہا تھا ۔
جواب ميںيت کہتي ہے : غلط فہمي کا شکار نہ رہو ‘ ان کے دل تمہارے لئے نرم نہيں ہوں گے ۔جو لوگ فکري لحاظ سے تمہارے مخالف ہيں ۔وہ لوگ جن کے لئے تمہارا دين ‘ تمہارا ايمان ضرر رساں ہے ‘ اُنہوں نے تمہارے دين اور تمہارے ايمان کو نابودکرنے پر کمر باندھي ہوئي ہے۔ وہ کسي صورت تمہارے لئے مہر بان اور تمہارے دوست نہيں ہوں گے ۔
بعد والي يت اس نکتے کو بيان کرتے ہوئے کہتي ہے :
اِنْ يَّثْقَفُوْکُمْ يَکُوْنُوْا لَکُمْ اَعْدَآئً(يہ اگر تم پر قابوپاليں‘ تو تمہارے دشمن ثابت ہوں گے)
اے ’’حاطب بن ابي بلتعہ ‘‘ يہ نہ سمجھنا کہ اگر تم نے ان کي مدد کي‘ تو کل وہ تمہارا کچھ لحا ظ کريں گے۔ايسا نہيں ہے ۔بلکہ اگر تم نے ان کي مدد کي ‘ تو يہ اور زيادہ تم پر مسلط ہوجائيں گے ‘ تم پرمزيد ظلم و ستم کے پہاڑ توڑيں گے ۔
وَّ يَبْسُطُوْآ اِلَيْکُمْ اَيْدِيَہُمْ وَ اَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْئِ (اور اپنے ہاتھ اور زبان کو تمہارے خلاف استعمال کريں گے )
تمہيں اور زيادہ دبائيں گے‘تمہاري تذليل کريں گے‘تمہيں بے حيثيت اور بے عزت کريں گے‘تمہيں ايک انسان نہيں سمجھيں گے۔
يہ نہ سمجھنا کہ تمہاري يہ مدد تمہارے کسي کام ئے گي۔
وَ وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ(يہ چاہيں گے کہ تم بھي کافر ہوجاؤ)
اگرکل يہ تم پر مسلط ہوگئے‘ تو تمہيں ذرّہ برابر ايمانِ قلبي تک رکھنے کي اجازت نہيں ديں گے۔(يہ تو چاہتے ہيں کہ تم کافر ہو جاؤ) يہ نہ سمجھنا کہ يہ تمہيں مسلمان رہنے اور اسلامي فرائض پر عمل کرنے کے لئے زاد چھوڑ ديں گے ۔
بعد والي يت ’’حاطب بن ابي بلتعہ ‘‘ کے عزيز واقارب اور تاريخ کے تمام حاطب بن ابي بلتعوں ‘‘ کے عزيزواقارب کے بارے ميں ہے ۔ايک دو ٹوک جملے ميںکہتي ہے کہ تم اپنے بچوں کے لئے ‘اپنے عزيزواقارب کے لئے اوراپنے رشتے داروں کي سائش کے لئے خدا کے دشمن کے ساتھ ساز باز پرتيا رہو ‘ اور خدا کے ناچيز بندوں کي محبت حاصل کرنے کے لئے اور اپنے اور اپنے اعزہ کے مفادات کے حصول کے لئے حکمِ خدا کو نظر انداز کر رہے ہو اور خدا کے دشمن سے دوستي کر رہے ہو۔
خر يہ اعزہ واقربا اور اولاد تمہارے کتنے کام ئيں گے ؟
يہ جوان جس کے روزگار کے لئے تم کفارِ قريش کے ساتھ ساز باز پر مادہ ہو‘ تمہارے کتنے کام ئے گا؟
کياوہ تمہيں عذاب ِخدا سے نجات دلاسکے گا ؟
يہ بے خبر ’’حاطب‘‘ اپنے اعزہ ‘احباب اور رشتے داروں کو نقصان سے بچانے کے لئے کفاراوردشمنانِ پيغمبر ۰سے ساز باز کررہا تھا۔
خريہ اعزہ اور اولاد ‘انسان کے کتنے کام سکتے ہيں ‘ کہ انسان ان کي خاطر پروردگار ِعالم کے عذاب اور اسکے غضب کو دعوت دے ؟
لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَ لااَآ اَوْلااَادُکُمْ(تمہارے رشتے دار ‘ اعزہ اور اولاد تمہيں کوئي فائدہ نہيںپہنچاتے )
يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ يَفْصِلُ بَيْنَکُمْ (روزِ قيامت تمہارے اور ان کے درميان جدائي ڈال دے گا )
يا اسے اس طرح پڑھيں اوراسکے يہ معني کريں کہ:
لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَ لااَآ اَوْلااَادُکُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ(روز ِقيامت تمہارے رشتے دار اور اولاد تمہيں کوئي فائدہ نہيں پہنچائيں گے )
يَفْصِلُ بَيْنَکُمْ(خدا روزِ قيامت تمہارے اور اُن کے درميان جدائي ڈال دے گا )
جيسے کہ خدا وند ِ عالم سورہ عبس ميں فرماتا ہے :
’’يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِيْہِ وَ اُمِّہ وَ اَبِيْہِ وَ صَاحِبَتِہ وَ بَنِيْہِ۔‘‘
’’جس دن انسان اپنے بھائي ‘اپنے والدين ‘اپني مہربان زوجہ اور اپني نور چشم اولاد سے گريز کرے گا۔‘‘( سورہ عبس ٨٠۔يت ٣٤ تا ٣٦)
وہي بچے ‘جن کي خاطر ج تم اس قدر فکر مند ہو‘جان لو کہ روزِ قيامت تم اُن سے دور بھاگوگے ‘اور وہ تم سے دور بھاگيں گے ‘اور يہ دونوںہي دوسرے انسانوں سے دور بھاگيں گے‘ہرانسان دوسرے انسان سے دور بھاگے گا۔ان کے پاس ايک دوسرے کي مدد اور ايک دوسرے کي احوال پرسي کا يارا نہ ہوگا:
’’لِکُلِّ امْرِيٍ مِّنْہُمْ يَوْمَئِذٍ شَاْن يُّغْنِيْہِ۔‘‘
’’اس دن ہر ايک کو اپني ايسي پڑي ہوگي کہ کوئي کسي کے کام نہ ئے گا۔‘‘
( سورہ عبس٨٠ ۔يت ٣٧)
وہ لوگ جو اپني ل اولاد کے رام و سائش کي خاطر دنيا اور خرت کي کاميابي اور فلاح سے منھ موڑ لينے ‘ اور بد بختياں ‘ شقاوتيں اورعداوتيں مول لينے پر تيار ہيں ‘ اُنہيں قرنِ مجيد کي اس منطق سے گاہ ہونا چاہئے ‘شايد وہ ہوش ميں جائيں۔
سورہ ممتحنہ ميں بھي خداوند ِ عالم فرماتا ہے:
’’لَنْ تَنْفَعَکُمْ اَرْحَامُکُمْ وَ لااَآ اَوْلااَادُکُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِا يَفْصِلُ بَيْنَکُمْ وَ اُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْر۔‘‘
’’اے مومنين !يہ بات جان لو کہ روزِ قيامت تمہارے رشتے دار اورتمہاري اولاد تمہارے کسي کام نہ ئے گي‘اور روزِ قيامت تمہارے درميان مکمل جدائي ڈال دے گا ‘ اورتم جوکچھ کرتے ہو خدا اس سے خوب با خبر ہے۔‘‘
’’قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃ حَسَنَۃ فِيْ اِبْرَاہِيْمَ وَ الَّذِيْنَ مَعَہ۔‘‘(١)
يہ حصہ ان يات کا ٹيپ کا بند ہے ‘ اس ميں مومنين سے کہا گياہے کہ:اے مومنين! تمہارے لئے ابراہيم ٴ اور ان کے پيروکاروں ميں بہترين نمونہ عمل ہے ۔
ديکھو کہ ابراہيم ٴ اور اُن کے ساتھيوں اور پيروکاروں نے کيا کيا ؟
تم بھي وہي کرو ۔
اُ نہوں نے کيا کيا تھا؟
اُنہوں نے اپنے زمانے کي گمراہ قوم اور اپنے زمانے کے طاغوت اور جھوٹے معبود سے کہا تھاکہ ہم تم سے اور تمہارے خدا ؤں سے بيزار ہيں ‘ ہم تمہارے منکر ہيں اور تم سے منھ موڑتے ہيں‘ ہمارے اور تمہارے درميان ہميشہ بغض ‘دشمني ‘ کينہ اور عداوت برقرارر ہے گي:
’’ حَتّٰي تُْمِنُوْا بِاِ وَحْدَہ۔‘‘
ہمارے اور تمہارے درميان دوستي اورصلح و شتي کا صرف ايک راستہ ہے ‘اور وہ يہ ہے کہ ؤ اور ہماراعقيدہ قبول کرلو۔
يہاں واضح الفاظ ميںکہا گيا ہے کہ اے مومنين تم بھي ابراہيم ٴکي مانند عمل کرو ۔
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃ حَسَنَۃ فِيْ اِبْرَاہِيْمَ وَ الَّذِيْنَ مَعَہ(بے شک تمہارے لئے ابراہيم اور اُن کے ساتھيوں ميں بہترين نمونہ عمل ہے)
اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَئٰوُا مِنْکُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اِ(جب انہوں نے اپني قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ہر اُس چيز سے بيزار ہيں جس کي تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو )
کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَ الْبَغْضَآئُ اَبَدًا(ہم نے تم سے کفر کيا ہے اور ہمارے اورتمہارے درميان بغض اور عداوت ظاہر ہوچکي ہے )
حَتّٰي تُْمِنُوْا بِاِ وَحْدَہ(جب تک تم خدا ئے واحد پر ايمان نہ لے ؤ)
اِلَّا قَوْلَ اِبْرَاہِيْمَ لِاَبِيْہِ۔(١)
صرف ايک استثنائي معاملہ ايساہے جس ميں حضرت ابراہيم ٴ نے کفار سے مکمل طور سے رابطہ منقطع نہيںکيا‘ اور وہ معاملہ يہ ہے کہ جب انہوں نے اپنے چچا (٢)سے کہا: لااَاَاسْتَغْفِرَنَّ
١۔سورہ ممتحنہ ٦٠۔يت١تا ٤
٢۔ يہاں’’ اَب‘‘کے معني باپ نہيں ‘ بلکہ چچا ہيں ‘اور يہاں’’اَب‘‘ سے مراد حضرت ابراہيم ٴکے چچا ‘ يااُن کي والدہ کے شوہر ہيں۔بہرحال اُس شخص سے خطاب ہے جس کا نام ذرتھا ۔
لَکَ( ميں تمہارے لئے استغفار کروں گا)
وَ مَآ اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اِ مِنْ شَيْئٍ( اورتمہارے دفاع کے لئے خدا ئے متعال کي جانب سے ميرے پاس کوئي اختيار نہيں ہے )
يعني انہوں نے اپنے والد سے کہا: يہ خيال نہ کيجئے گا کہ ميں کيونکہ اپنے پ کو خدا کا بندہ سمجھتا ہوں ‘لہٰذاپ ميرے والد ہونے کے ناطے ‘ ميرے توسط سے بہشت ميں داخل ہوجائيںگے۔ نہيں‘ ايسا نہيں ہے‘ميں پ کو جنت ميں نہيں لے جاسکتا ۔ميں پ کے لئے درگاہِ الٰہي ميں فقط دعا اور استغفار کر سکتا ہوں ‘ تاکہ خدا پ کے گناہوں کو بخش دے اور پ مومن ہوجائيں ۔
’’ رَبَّنَا عَلَيْکَ تَوَکَّلْنَا وَ اِلَيْکَ اَنَبْنَا وَ اِلَيْکَ الْمَصِيْرُ۔ رَبَّنَا لااَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَ اغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْم۔‘‘(١)
يہ حضرت ابراہيم ٴکي دعائيں ہيں۔
اسکے بعد قرنِ مجيد کہتا ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْہِمْ اُسْوَۃ حَسَنَۃ ( تم مومنين کے لئے ابراہيم اور اُن کے ساتھيوں ميں بہترين نمونہ عمل موجود ہے )لِّمَنْ کَانَ يَرْجُوا اَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِر(اُن لوگوں کے لئے جو خدا اور روزِ قيامت کي اميد رکھتے ہيں )وَ مَن يَتَوَلَّ فَاِنَّ اَ ہُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ(اورجو کوئي روگرداني کرے‘اور اسکے حکم سے منھ پھير ے اوربے توجہي کا مظاہرہ کرے‘ تو خدائے متعال بے نيازاورقابلِ حمدوثنا ہے اور اسکے دامنِ کبر يائي پر کوئي حرف نہيں ئے گا)
اگر تم دشمنوں سے ساز باز کروگے ‘ تو تمہارے شرف و انسانيت کا دامن داغدار ہوجائے گا اور خدا کو کوئي نقصان نہيں پہنچے گا ۔
١۔سورہ ممتحنہ٦٠۔يت٤‘٥
تمہيں ابراہيم ٴکے اس جملے کو ذہن نشين رکھنا چاہئے۔ ابراہيم ٴاور اُن کے ساتھيوں نے اپنے زمانے کے کفار اور گمراہ لوگوں سے کہا تھا کہ:
اِنَّابُرَئٰوُا مِنْکُمْ۔( ہم تم سے بيزار ہيں )
امام سجاد ٴ اور اُن کے اصحاب صلوات ا عليہم اپنے زمانے کے گمراہ لوگوں سے اسي طرح گفتگو کياکرتے تھے ۔بحار الانوار ميں ايک حديث ہے‘جو کہتي ہے :چوتھے امام(امام زين العابدين ٴ)کے ايک ساتھي ’’يحييٰ ابن ام طويل ‘‘ مسجد ِنبوي ميں تے اور لوگوں کي طرف رخ کرکے کھڑے ہوجاتے۔اُنہي لوگوں کے سامنے جو بظاہر خاندنِ پيغمبر ٴکے محب تھے ‘اُنہي لوگوں کے روبرو جن کے درميان امام حسن ٴاور امام حسين ٴ نے بيس برس تک زندگي بسر کي تھي ‘ اُنہي لوگوں کے مقابل جو نہ اُموي تھے اور نہ بني اميہ سے وابستہ افرادتھے ۔
پھريہ کيسے لوگ تھے ؟
بزدل لوگ تھے‘ جنہوںنے بني اميہ کي بنائي ہوئي خوف اور گھٹن کي فضا سے ڈر کر واقعہ عاشورا اور کربلا ميں لِ محمد ٴ کا ساتھ چھوڑ ديا تھا‘ ليکن اپنے دلوں ميںاہلِ بيت ٴسے محبت اورعقيدت رکھتے تھے۔
يحييٰ ابن ام طويل ‘اس قسم کے لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے اور اس قرني کلام کو دُھراياکرتے:
کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَ الْبَغْضَآئُ(ہم نے تم سے منھ پھيرليا ہے اور ہمارے اورتمہارے درميان بغض اور عداوت ظاہر ہوچکي ہے)
يعني وہي بات کہتے تھے جو حضرت ابراہيم ٴاپنے زمانے کے کفار ‘ مشرکين‘ گمراہ اور منحرف لوگوں سے کہا کرتے تھے ۔
ديکھئے ولايت وہي ولايت ہے ۔حضرت ابراہيم ٴبھي ولايت رکھتے تھے ‘ امام سجاد ٴ کے شيعہ بھي اپنے زمانے ميں ولايت رکھتے تھے۔ہميںايک دوسرے سے مل کر اور دشمنوں سے جدا رہنا چاہئے۔ اگر امام سجاد ٴکے شيعوں ميں سے کوئي شيعہ ان کے زمانے ميں خوف کي وجہ سے يا لالچ کي وجہ سے دشمن کي صف ميں شامل ہوا ‘تو وہ امام سجاد ٴکي ولايت سے خارج ہوگيا۔اب وہ امام سجاد ٴکے گروہ ميں شامل نہيںہے ۔لہٰذا امام سجاد ٴکا قريبي شاگرد اس شخص سے کہتا ہے :
’’کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَ الْبَغْضَآئُ۔‘‘
’’ہم نے تم سے منھ پھيرليا ہے اور ہمارے اورتمہارے درميان بغض اور عداوت ظاہر ہوچکي ہے۔‘‘
يحييٰ ابن ام طويل کا شمار امام سجاد ٴکے بلند پايہ اور انتہائي بہترين اصحاب ميں ہوتا تھا ۔اس بلند پايہ مسلمان کا انجام يہ ہوا کہ حجاج بن يوسف نے انہيں گرفتار کر ليا‘ اُن کا داياںہاتھ کاٹ ديا ‘ اُن کا باياں ہاتھ کاٹ ڈالا ۔اُن کے بائيں پير کو قطع کر ديا ‘ اُن کے دائيں پير کو جدا کر ڈالا۔ ليکن اسکے باوجود انہوں نے اپني زبان سے گفتگو کا سلسلہ جاري رکھا ۔ اُن کي زبان بھي کٹوادي گئي‘يہاں تک کہ وہ دنيا سے رحلت فرما گئے۔ اس حال ميں بھي انہوں نے شيعوں کي تنظيم کي‘ امام سجاد ٴکے بعد شيعيت کے محل کي تعمير کي اور اُسے مضبوط اور مستحکم کيا ۔