امت ِ اسلاميہ کے باہمي تعلقات
امت ِ اسلاميہ کے باہمي تعلقات
اندروني اور بيروني تعلقات
اسلامي معاشرہ اور وہ سماج جو امت ِاسلامي کے طورپر تشکيل دياگيا ہے‘اور جسے احکامِ الٰہي اور الٰہي افکار کي بنياد پر خدا کي معين کردہ مقتدرقوت (authority) کے توسط سے قانون سازي اور ان قوانين کے اجرا ونفاذ کے ذريعے چلايا جاتا ہے ‘اگر يہ امت ِ اسلامي اُس قرني معني ميں ولايت کي حامل ہونا چاہے اور اپنے لئے اس کابندوبست کرنا چاہے جس کا ذکر ہم نے اس سے پہلے والي تقرير ميں کياہے ‘ تو اس پر لازم ہے کہ وہ دو پہلو ؤں کا خيال رکھے۔ايک پہلو اسلامي معاشرے کے اندر وني روابط ہيں‘اور دوسرا پہلواس کے بيروني روابط۔ يعني عالمِ اسلام اور اسلامي معاشرے کے دوسرے معاشروں اور دوسري اقوام سے روابط و تعلقات۔
اندروني تعلقات اور روابط کے حوالے سے ( عرض ہے کہ)امت ِ اسلاميہ اُس وقت قرني معني کے اعتبار سے ولايت کي حامل ہوگي جب اُس کي صفيں پس ميں پيوست‘ متصل اور جڑي ہوئي ہوںاور اُس کے مختلف ارکان اورگروہوںکے درميان مکمل اتحاد واتفاق پايا جاتا ہو ‘ پوري امت ِ اسلاميہ ميں کوئي تفرقہ اور اختلاف موجود نہ ہو‘اور اس کے اندر مختلف صف بندياں نہ پائي جاتي ہوں۔
اگر امت ِ اسلاميہ کے اندر دو دھڑے ايک دوسرے کے خلاف برسرِ پيکار ہوں‘ تو قرني حکم يہ ہے کہ بقيہ مسلمانوں کو ان دو دشمنوں اور باہم بر سرِ جنگ گروہوں کے درميان صلح و شتي کے قيام کي حتيٰ الامکان کوشش کرني چاہئے ۔
اگر وہ ديکھيں کہ ان دو متحارب گروہوں ميں سے ايک صلح و شتي پرمادہ ہے ‘ ليکن دوسرا اس پر تيار نہيں ‘ يا اُن ميں سے ايک کي بات ناحق ہے‘ جبکہ دوسرا حق بجانب ہے ‘ اور جس گروہ کي بات ناحق ہے وہ حق بات تسليم کرنے پر تيار نہيں ‘ تو اس موقع پر تمام عالمِ اسلام کو چاہئے کہ وہ اس ظالم گروہ کے خلاف يکجا ہوجائے ‘اُس سے جنگ کرے‘ يہاں تک کہ وہ گھٹنے ٹيک دے ۔
سورہ حجرات کي نويں يت ميں خداوند ِعالم کاارشاد ہے :
وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَہُمَا(اگر مسلمانوں کے دو گروہ پس ميںجھگڑپڑيں ‘ تو تم ان کے درميان صلاح کراؤ)
فَاِنْ بَغَتْ اِحْداٰاہُمَا عَلَي الْاُخْرٰي فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ ( اگر ان دو گروہوں ميں سے ايک گروہ نے دوسرے پر ظلم کياہو ‘ يعني جارحيت اور ظلم روا رکھاہو‘ بدمعاشي کرناچاہي ہو‘ زور زبردستي کرنا چاہتاہو ‘ تو اسکے خلاف جنگ کرو)
حَتّٰي تَفِيْئَ اِلٰي اَمْرِ اِ(يہاں تک کہ وہ فرمانِ خداکي طرف پلٹنے پر مجبور ہوجائے)حکمِ خدا قبول کرنے پر مجبور ہوجائے۔
خداوند عالم کا يہ حکم اسلامي معاشرے کے اندراتحاد واتفاق کي حفاظت کے لئے ہے ۔
بيروني روابط کے حوالے سے(عرض ہے کہ) امت ِاسلاميہ کو غير مسلم دنيا اور اپني امت سے باہر کے لوگوں کے ساتھ اپنے روابط اور تعلقات کواس طرح ترتيب دينا چاہئے کہ امت ِ اسلاميہ ذرّہ برابر اُن کے زير ِ کنٹرول اور اُن کے افکار کے زيرِاثر نہ ہواور اُن کي سياست کي معمولي سي بھي تاثير قبول کرکے اپني خود مختاري سے دستبردار نہ ہو ۔
مسلمانوں کا ايک قوم کي حيثيت سے اُن کے ساتھ ايک کيمپ ميں شامل ہونااور اُن سے پيوست ہوجانا قطعاً ممنوع ہے ۔
ايک معروف داستان ہے جس کا ذکرقابلِ اعتبار شيعہ کتب ميں يا ہے‘ اور جو امام جعفر صادق يا امام محمدباقر صلوات ا عليہما کے زمانے سے تعلق رکھتي ہے۔اُس زمانے ميں عالمِ اسلام کا سکّہ (coin) روم ميں ڈھلتا تھا۔ اس سلسلے ميںروم نے کوئي دھمکي دي جس سے مسلمانوں کے لئے ايک مشکل کھڑي ہوگئي ۔ اس موقع پر امام ٴنے خليفہ وقت کي رہنمائي کي ۔عجيب بات ہے۔ ہماري نظر سے فقط ايک ‘ دو انتہائي استثنائي مواقع ہي ايسے گزرے ہيںجن ميں ائمہ ہديٰ نے حکام کے ساتھ کچھخوش روئي کا مظاہرہ کيا ہو۔اُن ميں سے ايک يہ مقام ہے کہ جہاں امام ٴنے حکام کي رہنمائي کي اور فرمايا کہ اس طرح سے(اپنا) سکّہ ڈھالو ۔کيونکہ وہ لوگ چاندي کے سکّے کي ڈھلائي کا طريقہ نہيں جانتے تھے۔
لہٰذا بيروني روابط کے ميدان ميں ‘ غير اسلامي گروہوں‘ بالخصوص اسلام دشمنوں کي ذرّہ برابرتاثير قبول کرنا بھي ممنوع ہے ۔اسلامي معاشرے اور امت ِاسلاميہ کو يہ حق نہيںپہنچتا کہ وہ غير مسلم دنيا سے اس پر بالا دستي کے سواکسي اورصورت سے روابط برقرار کريں ۔يعني اگر ايسا ہو کہ امت ِاسلاميہ اور ايک غير اسلامي حکومت کے درميان ايک ايسا تعلق قائم کيا جائے جس ميں امت ِ ِاسلاميہ استحصال کا شکار ہو‘ جيسے تمباکو والے واقعے ميں ہوا تھا ‘جسے پ سب نے سن اور پڑھ رکھا ہے‘ تو عالمِ اسلام کو ايسے کسي تعلق کے قيام کا حق حاصل نہيں ہے ۔اسي طرح ہندوستان کے سلاطين اور مغل حکمرانوں نے بيروني ممالک کو اس بات کي اجازت دي کہ وہ وہاں ئيں اوراپني کمپنياں قائم کريں۔ يہ ناجائزاور عالمِ اسلام کي ولايت کے برخلاف عمل ہے ۔انہيں يہ بات جانني چاہئے تھي‘ اور سب کو جاننا چاہئے کہ جب ايسٹ انڈياجيسي کمپنياں اُن کي سرزمين ميں داخل ہوں گي ‘ تو وہ وہاں کے رہنے والوں پر کيا کيا بلائيں نازل کريں گي اور اس عظيم براعظم کي رگ وپے ميں استعمار کوکس قدرنفوذ بخشيں گي ۔عالمِ اسلام اور امت ِ اسلاميہ کو کسي صورت اس قسم کے روابط اور تعلقات کے قيام کي اجازت نہيں دي گئي۔
يہ بات پيشِ نظر رہے ‘کہ جب ہم غير مسلم حکومتوں اور غير مسلم اقوام کے ساتھ تعلقات نہ رکھنے کي بات کرتے ہيں‘ تو اسکے معني يہ نہيں ہيں کہ عالمِ اسلام اور امت ِ اسلاميہ سياسي طور پردنيا سے الگ تھلک ہو جائے ۔يہ سياسي گوشہ نشيني کا مسئلہ نہيں ہے ۔ کہيں پ يہ خيال نہ کريں کہ عالمِ اسلام کو نہ کسي سے تجارتي تعلقات رکھنے چاہئيں ‘ نہ سياسي روابط اور نہ سفارتي تعلقات ‘ نہ اُسے کہيں اپنے سفير بھيجنے چاہئيں‘ نہ کسي کے سفير قبول کرنے چاہئيں۔ نہيں‘ايسا نہيں ہے ۔اُسے دوسروں کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھنے چاہئيں‘ ليکن اُن کے ساتھ ولايت نہيں رکھني چاہئے‘اُن کے ساتھ وابستہ نہيں ہونا چاہئے‘اُن کے ساتھ کوئي ايسا تعلق نہيں رکھنا چاہئے جس کي وجہ سے وہ جب چاہيں عالمِ اسلام کو اپنے زير اثر لے سکيں۔
پس قرني ولايت کے دومظہرہيں۔اس کاايک مظہريہ ہے کہ اسلامي معاشرے کے اندر تمام عناصر ايک مقصد‘ ايک سمت اور ايک راہ پر گامزن ہوں ‘ اور دوسرا يہ ہے کہ امت ِ اسلاميہ اسلامي معاشرے سے باہر تمام اسلام مخالف عناصر اور گروہوں سے اپنا رشتہ توڑ لے ۔
اس مقام پر ايک انتہائي باريک نکتہ موجود ہے ‘ جو بتا تا ہے کہ لفظ ولايت کے قرني مفہوم کي رو سے ولايت کامفہوم وہي ہے جس کے شيعہ قائل ہيں ۔
يہ جو شيعيت ميں امام کے ساتھ تعلق کو اس قدر اہميت دي جاتي ہے ‘ يہ جو ہم امام کے فرمان کو معاشرتي زندگي کے تمام شعبوں ميں نافذ سمجھتے ہيں ‘ يہ کس مقصد کے لئے ہے اور اسکي بنياد کيا ہے ؟
يہاں قرنِ کريم ہم سے کہتا ہے کہ اگر ايک معاشرہ اورايک امت اس مفہوم ميں قرني ولايت کي حامل ہو نا چاہتي ہو‘ يعني اگر چاہتي ہو کہ اسکي تمام اندروني طاقتيں ‘ ايک سمت ‘ ايک مقصد کي جانب اور ايک راہ پر گامزن ہوں ‘اگريہ چاہتي ہو کہ اسکي تمام داخلي قوتيںاس سے باہر موجوداسلام مخالف طاقتوں کے خلاف صف را ہوں ‘ تو اسے اسلامي معاشرے ميں طاقت کے ايک مرکزي نقطے کي ضرورت ہے‘ايک ايسے محور کي ضرورت ہے جس سے اسکي تمام داخلي قوتيںمنسلک ہوں ‘سب اسي سے ہدايت حاصل کرتي ہوں ‘سب اسي کي بات سنتي ہوں‘اسي کي بات مانتي ہوں‘اور وہ امت کي تمام مصلحتوں اور اسکے نقصان ميں جانے والے تمام امور سے واقف ہو‘ تاکہ وہ ايک طاقتور ‘ دور انديش اور با بصيرت سپہ سالار کي طرح محاذِ جنگ پر ہر ايک کو اسکے مخصوص کام پر متعين کرے۔
ضروري ہے کہ اسلامي معاشرے ميں ايک رہبر ‘ ايک سپہ سالار اور ايک مرکز ي قدرت موجود ہو‘ جو يہ بات جانتي ہو کہ تم سے کيا بن پڑے گا‘مجھ سے کيا ہوسکے گا‘ دوسرے انسان کيا کر سکيں گے‘ تاکہ وہ ہر ايک کو اسکي قابليت کے مطابق کام سپرد کرے۔مثلاً بطورِ تشبيہ عرض ہے کہ کيا پ نے قالين بافي کا کارخانہ ديکھاہے ؟ کچھ لوگ ايک جگہ بيٹھ کر قالين بُنتے ہيں ‘ ہر ايک شخص کام کرتا ہے ‘ وہاں بيٹھا ہوا ہر بچہ اور ہر بڑا دھاگے سے بنائي کا کام کرتا ہے۔ اگر ان کا يہ کام ايک دوسرے سے ہم ہنگ نہ ہو‘ اگر ان کے اوپر ايک بالادست اتھارٹي نہ ہو ‘جوانہيں قالين کا ڈيزائن بتائے‘اسکے بارے ميں مخصوص ہدايات جاري کرے‘تاکہ انہيں پتا چل سکے کہ انہوں نے کونسے دھاگے سے کام لينا ہے‘اُسے کيسے پرونا اور کس انداز سے لے کر چلنا ہے۔اگر کوئي ايسي مرکزي اتھارٹي نہ ہو‘ تو پتا ہے يہ قالين کيسا بن کر تيار ہوگا؟پ ديکھيں گے کہ اس کا داياں حصہ مشرقي انداز کا ہے اور باياں حصہ مغربي طرز کا ‘قاليچے کا ايک طرف کردي انداز کا ہے اور دوسرا طرف ترکماني انداز کا‘اس طرح ايک بے ترتيب نقش و نگارکي حامل اور ايک ناگوار قسم کي چيز بن کر تيار ہوگي ۔يہ جو پ قاليچوں ميںايک خاص انداز ‘توازن اور ترتيب ديکھتے ہيں ‘اسکي وجہ يہ ہے کہ ايک تو اسکي تياري کے بارے ميں واضح ہدايات موجود ہوتي ہيں اور دوسرے ايک شخص مسلسل ان ہدايات کي جانب متوجہ کررہا ہوتا ہے۔
ولي (امام ) کي خصوصيات
کوئي معاشرہ اگريہ چاہے کہ اُسکي تمام طاقتيں ايک نکتے پر مرکوز ہوں‘اُسکي کوئي توانائي ضائع نہ جائے اور اُسکي تمام قوتيں يکجا ہو جائيں (اپنے مخالف گروہوں ‘ صفوں اور قوتوں کے مقابل ايک بند مٹھي کي صورت کام کريں ) توايسے معاشرے کو ايک مرکز ي قوت کي ضرورت ہے ‘ اس کا ايک دل اور ايک قلب ہونا چاہئے۔
البتہ اس مرکز اور اس قلب ميں کچھ خصوصيات ہوني چاہئيں۔اسے انتہائي دانا ہونا چاہئے ‘ قوتِ فيصلہ کا مالک ہونا چاہئے ‘ايک اندازِ فکر کا حامل ہونا چاہئے ‘اسے راہِ خدا ميں کسي چيز سے خوفزدہ نہيں ہونا چاہئے ‘ اور بوقت ِ ضرورت اپنے پ کو بھي فدا کر دينے پر تيارہونا چاہئے ۔
ہم ايسي ہستي کو کيا نام ديتے ہيں ؟
ہم اسے امام کہتے ہيں۔
امام‘ يعني وہ حاکم اور رہنما ‘ جو پروردگارِ عالم کي طرف سے اس معاشرے کے لئے معين کيا گيا ہو ۔اسي طرح جيسے خدا وند ِ متعال نے حضرت ابراہيم ٴکے بارے ميں فرمايا :اِنِّيْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔ (١)يعني ميں نے پ کو لوگوںکے لئے امام مقرر کيا ہے ۔
ليکن يہ جو ہم کہتے ہيں کہ امام کا تعين خدا کي طرف سے ہونا چاہئے ‘ اس کي دوصورتيںہيں : ياتو خدا امام کو نام اور نشان کے ساتھ معين کرتا ہے ۔ جيسے پيغمبر اسلام ۰نے امير المومنين حضرت علي ٴ‘ امام حسن ٴ‘ امام حسين ٴاور بقيہ ائمہٴ کو معين کيا ہے ۔ يا پھر خدا ئے متعال ‘ امام کو نا م کے ساتھ معين نہيں کرتا ‘بلکہ صرف نشان کے ذريعے معين کرتا ہے ‘ جيسے امام ٴکا يہ فرمانا کہ:
’’ فَاَمّا مَنْ کٰانَ مِنَ الْفُقَھٰائِ صٰائِناً لِنَفْسِہِ حٰافِظاً لِدِيِنِہِ مُخٰالِفاً عَليٰ ھُوٰ اہُ مُطِيعاً لاَ مْرِمَوْلاٰہُ فَلِلْعَوامِ اَنْ يُقَلِّدُوہُ۔‘‘(٢)
اس روايت ميں امام ٴنے بغير نام لئے ايک رہبر و رہنما کي خصوصيات اور علامات کا تعين کيا ہے ۔جو کوئي ان علامات پرپورااترتا ہو ‘ وہ رہبر و رہنما ہو گا۔
ہم پ کي خدمت ميںلفظ ’’امام‘‘ کے معني بيان کرنا چاہتے ہيں۔امام‘ يعني پيشوا ‘ يعني حاکم‘ يعني حکمراں ‘ يعني وہ ہستي جو جس طرف جائے لوگوں کو اسکے پيچھے پيچھے چلناچاہئے‘ جسے خدا کي طرف سے ہوناچاہئے ‘جسے عادل ہوناچاہئے‘منصف ہوناچاہئے‘ديندارہوناچاہئے‘عزم و
ارادے کا مالک ہونا چاہئے اور اسي طرح کي اور باتيں جو امام کے حوالے سے ہيں ‘ جن کي تفصيل
١۔سورہ بقرہ٢۔يت١٢٤
٢۔ علمائے دين ميں سے جو کوئي اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو ‘ اپنے د ين کي حفاظت کرتا ہو ‘ جس نے اپني نفساني خواہشات کو کچلا ہوا ہو اور خدا کے احکام (خواہ وہ انفرادي احکام ہوں خواہ اجتماعي )کا مطيع ہو‘ تولوگوں کو چاہئے کہ اس کي تقليد (پيروي) کر يں ۔ (وسائل الشيعہ ۔ج ١٨ ۔ص ٩٥)
ميں جانے کا في الحال موقع نہيںہے۔
پس ولايت کے قرني اصول کي رو سے ‘ امام کا وجود لازم ہے ۔اور اگر يہ عظيم الشان پيکر ‘ جس کا نام امت ِ اسلامي ہے ‘زندہ ‘ کامياب و کامران اور ہميشہ مضبوط و مستحکم رہنا چاہتا ہے ‘ تو اُس کا اِس متحرک اورپُر ہيجان قلب اور ہميشہ مستحکم اور قدرت مند مرکز سے ربط ضروري ہے ۔
پس ولايت کے دوسرے مظہر کے معني ہيں امت ِ اسلاميہ کے ہر فرد کا ‘ہر حال ميں اس قلب ِ امت سے محکم اورمضبوط رابطہ ۔يہ رابطہ فکري بھي ہونا چاہئے اور عملي بھي۔ امام کو نمونہ عمل قرار دينا ‘ افکار و نظريات ميں اسکي پيروي کرنا اور افعال ‘ رفتار ‘ سرگرميوں اور اقدامات ميں ٹھيک ٹھيک اس کے نقشِ قدم پر چلنا ولايت ہے ۔
لہٰذا علي ابن ابي طالب ٴکي ولايت رکھنے کے معني يہ ہيں کہ پ اپنے افکار اور اپنے افعال ميں علي ٴکے پيرو ہوں ‘پ کے اور علي ٴ کے درميان ايک مضبوط‘ مستحکم اور اٹوٹ بندھن قائم ہو۔ پ علي ٴسے جدا نہ ہوں۔ يہ ہيں ولايت کے معني۔يہي وہ مقام ہے جہاں ہم اس حديث کے معني سمجھ سکتے ہيں کہ :
’’وِلاٰيَۃُ عَليِّ ابْنِ اَبيطالبٍ حِصْني فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِي اَمِنَ مِنْ عَذابي۔‘‘
’’علي ابن ابي طالب کي ولايت ميرا قلعہ اور حصار ہے ‘ جو کوئي اس حصار ميں داخل ہوگا ‘ وہ خداکے عذاب سے محفوظ رہے گا ۔‘‘
يہ ايک انتہائي خوبصورت حديث ہے۔ يعني اگر مسلمان اور قرنِ کريم کے پيروکار افراد فکري اور نظرياتي لحاظ سے ‘ عمل‘ جدوجہداور سرگرميوں کے اعتبار سے علي ٴ کے ساتھ وابستہ ہوں ‘ تو خدا کے عذاب سے امان ميں رہيںگے ۔
ايک ايسا شخص جو قرنِ کريم کو ناقابلِ فہم سمجھتا ہو‘ وہ کيسے يہ دعويٰ کر سکتا ہے کہ ميں علي ابن ابي طالب ٴکي ولايت رکھتا ہوں ‘اور فکري لحاظ سے علي ٴکے ساتھ تعلق رکھتا ہوں ؟جبکہ علي ابن ابي طالب ٴنہج البلاغہ کے ايک خطبے ميں فرماتے ہيں :
’’وَاعْلَمُوا اَنَّ ھٰذَا الْقُرْنَ ھُوَالنّٰا صفحُ الَّذِي لاٰ يَغُشُّ‘ وَالْھادِي الَّذِي لاٰ يُضِلُّ ‘وَالْمُحَدِّثُ الَّذِي لاٰ يَکْذِبُ‘ وَمٰاجَالَسَ ھٰذَا الْقُرنَ اَحَد اِلّا قٰامَ عَنْہُ بِزِيٰادَۃٍ اَوْنُقْصٰانٍ‘ زِيٰادَۃٍ في ھُديً وَنُقْصٰانٍ مِنْ عَميً۔‘‘
’’ اور جان لو کہ يہ قرن ايسا ناصح ہے جو فريب نہيں ديتا ‘ايسا رہنما ہے جو گمراہ نہيں کرتا اورايسا کلام کرنے والا ہے جو جھوٹ نہيں بولتا۔ جو بھي اس قرن کے ساتھ بيٹھا ‘وہ اس کے پاس سے ہدايت ميں اضافہ اور گمراہي ميں کمي کرکے اٹھا ۔‘‘
(نہج البلاغہ ‘خطبہ ١٧٤)
علي ٴ‘ قرن مجيد کا اس طرح تعارف کراتے ہيں اور لوگوں کو اسکي جانب مائل کرتے ہيں ۔
جو شخص يہ کہتا ہے کہ قرن کو سمجھنا ممکن نہيں‘ کيا وہ علي ابن ابي طالب ٴ کي ولايت رکھتا ہے؟
ہر گز نہيں ۔
علي ٴراہِ خداميں اپنا پورا وجود فدا کرنے پر تيار ہيں۔ يہ ہے علي ٴکا کردار۔ جبکہ يہ شخص راہِ خدا ميںاپنا ايک پيسہ‘اپني جان‘اپنا معاشرتي مقام ‘اپني راحت ورام‘ اپني قيادت وسرداري قربان کرنے کو تيار نہيں۔ کيا ايسا شخص علي ٴ کي ولايت رکھتا ہے ؟!
علي ٴ کي ولايت ايسا شخص رکھتا ہے‘ جس کا فکري اورنظرياتي لحاظ سے بھي اور عملي اعتبار سے بھي علي ٴکے ساتھ اٹوٹ بندھن قائم ہو۔
اگر پ درست طور پر غوروفکر کريں ‘ تو ولايت کے جو معني ہم نے بيان کئے ہيں ‘وہ ولايت کے کئے جاسکنے والے دقيق ترين اور ظريف ترين معني ہيں۔
اب ذرا غورفرمائيے گا ‘ہم قرنِ کريم کي سورہ مائدہ سے کچھ يات پ کي خدمت ميں پيش کرتے ہيں۔ان يات ميں ولايت کے ايجابي پہلو ‘ يعني داخلي تعلق کے قيام کا ذکربھي ہوا ہے‘اور ولايت کے سلبي پہلو ‘ يعني خارجي تعلقات کے توڑنے کو بھي بيان کيا گيا ہے ۔ساتھ ہي ان يات ميں ولايت کا وہ دوسرا پہلو ‘ يعني ولي کے ساتھ اتصال وارتباط بھي بيان کيا گيا ہے ۔ولي ‘يعني وہ قطب ‘ يعني وہ قلب ‘ يعني وہ حاکم اور امام ۔
’’ يٰاَيُّھَا الَّذِيْنَ ٰامَنُوْا لااَا تَتَّخِذُوا الْيَہُودَ وَ النَّصٰرٰي اَوْلِيَآئَ۔‘‘
’’ اے صاحبانِ ايمان! يہود و نصاريٰ کو ( يہود يوں اور عيسائيوں کو) اپنا اوليائ نہ بناؤ ۔‘‘
اَوْلِيَآئ‘ ولي کي جمع ہے ۔ولي ولايت سے ماخوذ ہے ۔ولايت يعني پيوستگي ‘ ولي يعني پيوستہ اور جڑا ہوا ۔يہود و نصاريٰ کو اپنے سے نہ جوڑو ‘ ان سے منسلک نہ ہو‘ انہيں اپنے لئے اختيار نہ کرو
بَعْضُہُمْ اَوْلِيَآئُ بَعْض ( اِن ميں سے بعض ‘ بعض دوسروں کے اوليا اور ان سے جڑے ہوئے ہيں )
يہ نہ سمجھو کہ وہ عليحدہ عليحدہ بلاکوں سے تعلق رکھتے ہيں۔ قرن کي زبان ميںوہ تمہارے دين کي مخالفت ميںيکجا ہيں۔بَعْضُہُمْ اَوْلِيَآئُ بَعْض (يہ سب پس ميں ملے ہوئے ہيں )
وَ مَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہ مِنْہُمْ (تم ميں سے جو کوئي ان سے توليٰ کرے گا ‘توبے شک وہ ان ہي ميں سے ہوجائے گا )
توليٰ (تفعل کے باب سے )‘يعني ولايت کو قبول کرنا ۔جو کوئي ان کي ولايت کے دائرے ميں قدم رکھے گااور اپنے پ کو ان سے منسلک کرے گا ‘وہ اُن ہي ميں سے ہوگا۔
اِنَّ اَ لااَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ(بے شک خدا ظالم لوگوں کي ہدايت نہيں کرے گا )
الف: بيروني تعلقات
فَتَرَي الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَض يُّسَارِعُوْنَ فِيْہِمْ (تم ان لوگوں کو ديکھتے ہو جن کے دلوں ميں بيماري ہے ‘ وہ دوڑ دوڑ کردشمنانِ دين کے کيمپ کي جانب جاتے ہيں) وہ اس بات پراکتفا نہيں کرتے کہ معمول کے مطابق چل کران کي طرف جائيں ‘ بلکہ دوڑ کر ان کي طرف جاتے ہيں ۔ان کے قريب جانے پر بھي اکتفا نہيں کرتے ‘بلکہ ان کي صفوں ميں پوري طرح شامل ہو جاتے ہيں ۔اور اگرپ اُن سے پوچھيں کہ دشمنانِ دين سےئ اور جن کے متعلق تم جانتے ہو کہ وہ دين کے مخالف ہيں ‘اُن سے کيوں اس قدرملے بيٹھے ہو‘ اور کيوں تم اُن کي مخالفت کرنے کي بجائے اُن سے دوستي کا اظہار کررہے ہو ‘ تو وہ پ کے جواب ميں عذر تراشي کرتے ہوئے کہتے ہيں کہ :نَخْشٰي اَنْ تُصِيْبَنَا دَآئِرَۃ( ہميں ڈر ہے کہ ہمارے لئے کوئي مشکل اور دردِ سر کھڑا نہ ہوجائے )
کيسے سنے ہوئے سے الفاظ لگتے ہيں ۔
خدا ان کے جواب ميں فرماتا ہے : فَعَسَي اُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہ (اميد ہے کہ خدا مومنين کے گروہ کو فتح نصيب کرے گا ‘ يا ان کے مفاد ميں اپني طرف سے کوئي حادثہ وجود ميں لے ئے گا )اور جب يہ کام ہو جائے گا تو :فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَسَرُّوْا فِيْ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِيْنَ(اُس وقت اُن کے ساتھ مل جانے والے يہ بدبخت لوگ ‘پشيمان ہوں گے ) شرمندہ ہوں گے ‘ کہيں گے ديکھا ہم نے کيسي غلطي کي تھي ؟ اگر ہميں معلوم ہوتا کہ مومنين کو اس طرح کاميابي اور قوت نصيب ہوگي ‘ تو ہم دشمنِ دين اور دشمنِ خدا کے ساتھ نہ ملتے‘اپنے پ کو بے عزت نہ کرتے ۔
جب انہوں نے دشمنانِ خدا کے ساتھ ساز باز کے ذريعے اپنے پ کو رسواکرلياتو :وَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ ٰامَنُوْا اَھٰوُلااَآئِِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاِ جَہْدَ اَيْمَانِہِمْ اِنَّہُمْ لَمَعَکُمْ(صاحبانِ ايمان کہيں گے کہ کيا يہي مومنين تھے ‘ يہ خوش ظاہر اور وجيہ چہرے جنہوں نے بڑي بڑي قسميں کھائي تھيں‘ کہ ہم تمہارے ساتھ ہيں) ياجب ہم کو ئي بات کہتے ہيں ‘تو وہ کہتے ہيں ہم تمہارے ہم خيال ہيں ‘ ہميں تم سے کوئي اختلاف نہيں‘ہم بھي وہي بات کہتے ہيں جو تم کہتے ہو۔ يہ لوگ باتيں تو اس قسم کي کرتے ہيں ليکن بعد ميں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل بيمار ہيں ‘ اِن کا ظاہر تو اچھا نظر تا ہے ليکن اِن کا دل ميلا ‘سياہ اور نفاق سے لودہ ہے ۔اس دن مومنين کہتے ہيں کہ عجيب ہے ‘ يہ لوگ کيسي کيسي قسميں کھاتے تھے ‘ کيايہ وہي لوگ ہيں! اَھٰوُلااَآئِِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاِ جَہْدَ اَيْمَانِہِمْ(کيا يہ وہي لوگ ہيں جنہوںنے خداکي سخت اور شديد قسميں کھائي تھيں ) اِنَّہُمْ لَمَعَکُمْ۔قسميں کھاياکرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہيں‘ تمہارے ہم خيال اور ہم فکر ہيں ۔
حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَ( ان کے اعمال برباد ہوگئے اور يہ لوگ سخت خسارہ اٹھانے والوں ميں سے ہيں )
يہ يات(١) يہاں تک بيروني تعلقات کے بارے ميں تھيں ۔
ب:اندروني تعلقات
انہي يات کے تسلسل ميں‘اندروني تعلقات کے بارے ميں غوروفکر کيجئے: يٰاَيُّھَا الَّذِيْنَ ٰامَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِيْنِہ (اے اہلِ ايمان! اگرتم ميں سے کوئي اپنے دين سے پلٹ جائے )خدا کے دين کي نشرو اشاعت کي وہ ذمے داري جوتم نے خدا پر ايمان کے ساتھ قبول کي ہے ‘ اگرتم اس سے سبک دوش ہونا چاہو اور اسے منزلِ مقصود تک پہنچانے سے کتر اؤ تو يہ نہ سمجھنا کہ يہ بوجھ منزلِ مقصود تک نہيں پہنچ سکے گا ‘يہ تمہاري غلط فہمي ہو گي‘ يہ افتخار ايک دوسري قوم کو نصيب ہوجائے گا۔
مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِيْنِہ فَسَوْفاَا يَاْتِي اُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّہُمْ وَ يُحِبُّوْنَہ( تم ميں جو کوئي اپنے دين سے پلٹ گيااور مرتد ہوگيا ‘ تو خدا وند ِعالم ايسے لوگوں کو پيدا کرے گا ‘ جن سے خود خداکومحبت ہوگي اور وہ بھي خداسے محبت کرتے ہوں گے )
کيا ہم خدا سے محبت کرنے والے لوگوں ميں سے ہيں ؟
بسا اوقات ہم اپني زبان سے ايسے کلمات ادا کرتے ہيں ‘ جن سے خدا کے ساتھ محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ کياہمارے يہ الفاظ اس بات کي دليل ہيں کہ ہم خدا سے محبت کرتے ہيں ؟
اس بارے ميں قرنِ کريم ميں ايک نکتہ بيان کيا گيا ہے۔ اللہ تعاليٰ فرماتا ہے : قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ( اے پيغمبر کہہ ديجئے کہ اگرتم لوگ خدا سے محبت کرتے ہو ‘ تو ميري اتباع کرو ‘تاکہ خدا بھي تم سے محبت کرے ۔سورہ لِ عمران ٣۔ يت ٣١)
١۔سورہ مائدہ٥۔يت٥١تا٥٣
پس :يُّحِبُّہُمْ وَ يُحِبُّوْنَہ ۔يعني وہ لوگ احکامِ الٰہي کے سو فيصدتابع ہوں گے اور خدا بھي
ان سے محبت کرتا ہوگا اوريہ ايک دو طرفہ خاصيت ہے ۔
اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُْمِنِيْن‘ اِن لوگوں ميں پائي جانے والي صفات ميں سے ايک اور صفت يہ ہے کہ يہ مومنين کے لئے منکسر اورخاکسارہيں۔ يہ خاکساري مومنين کے ساتھ اُن کے انتہائي گہرے بندھن اور تعلق کي علامت ہے ۔ ان لوگوں ميں عام مسلمانوں کے سامنے کسي قسم کي نخوت‘ غروراور خوامخواہ کي خود پسندي نہيں پائي جاتي ۔يہ جب لوگوں کے سامنے تے ہيں ‘ توانہي کا حصہ بن جاتے ہيں ‘ لوگوں کے شانہ بشانہ ہوتے ہيں‘ انہي کے ہمراہ اور ہم سفر ہوتے ہيں ‘ لوگوں کے لئے ہوتے ہيں ‘ اپنے پ کو لوگوں سے عليحدہ نہيں کرتے ‘ايسا نہيں ہوتا کہ لوگوں سے فاصلے پر رہتے ہوں اور کبھي کبھار ان سے اظہارِ ہمدردي کرتے ہوں:اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُْمِنِيْنَ (مومنين کے سامنے خاکساراور منکسر) اَعِزَّۃٍ عَلَي الْکٰفِرِيْنََ (کفار ‘ دشمنانِ دين اورمخالفينِ قرن کے مقابل ‘ سراٹھا کے کھڑے ہوتے ہيں ) يعني اُن سے متاثر اور مرعوب نہيں ہوتے ‘ اُن کے سامنے سر اٹھا کے رکھتے ہيں اورانہوں نے اپنے گرد فکرِ اسلامي کاايک ايسا حصار اور دائرہ کھينچا ہو اہوتا ہے کہ کسي صورت کفارسے متاثر نہيںہوتے ۔
يُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اِ۔ان کي ايک اور خاصيت يہ ہے کہ يہ لوگ انتہائي بہادري اوردلاوري کے ساتھ راہِ خدا ميں جہاد کرتے ہيں۔جيسا کہ يت ميں ہے :وَ لااَا يَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لااَآئِمٍ ( کسي ملامت کرنے والے کي ملامت سے خوفزدہ نہيں ہوتے ) ذٰلِکَ فَضْلُ اِ يُْتِيْہِ مَنْ يَّشَآئُ وَ اُ وَاسِع عَلِيْم ( يہ خدا کا وہ لطف ‘ فضل اور تفضل ہے ‘ جو وہ جسے چاہتا ہے عطاکرتا ہے ‘ اور وہ صاحب ِ وسعت اور عليم ودانا ہے۔سورہ مائدہ٥۔يت٥٤)
بعد والي يت اس قلب ‘اس امام اوراس پيشواسے اسلامي معاشرے کے مختلف حصوں کے تعلق کے بارے ميں ہے ۔
خوب غور کيجئے ‘ تاکہ پ کو معلوم ہو کہ وہ مسائل جن کے بارے ميں اکثر يہ تصورپايا جاتا ہے کہ وہ قرني مسائل نہيں ہيں‘ اُن کے بارے ميں قرن کس طرح صراحت اور بلاغت کے ساتھ گفتگو کررہا ہے ۔
(قرنِ کريم نے ) بيروني روابط کے بارے ميں گفتگو کي ‘ اندروني روابط کے بارے ميں بات کي ‘ اب اندروني روابط کے مرکز ي نکتے ‘ يعني امام اورپيشوا کے بارے ميں گفتگو کرتا ہے ‘ قائد اور رہبرکے متعلق بات کرتا ہے :’’اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ ۔‘‘ولي اور قائمِ امر ‘ وہ ہستي جسے اسلامي معاشرے اور امت ِ اسلاميہ کي تمام سرگرميوں کامحور ومرکز ہونا چاہئے ‘اور ان کے بارے ميںاسي سے ہدايات ليني چاہئيں ‘ وہ خدا ہے ‘ ليکن خدا مجسم ہو کر تو لوگوں کے درميان نہيں سکتا اورانہيں بنفسِ نفيس امر و نہي تو نہيں کر سکتا۔ پس پھريہ محور ومرکز کون ہے ؟’’ وَ رَسُوْلُہ۔‘‘ واضح ہے کہ رسول اور خدا کے درميان کسي قسم کي رقابت اور تنازع نہيں ۔ پيغمبر‘ خدا کا نمائندہ ہے ۔
ليکن جيسا کہ قرنِ کريم نے کہا ہے : اِنَّکَ مَيِّت وَّ اِنَّہُمْ مَّيِّتُوْنَ۔(١)رسول بھي ہميشہ باقي نہيں رہے گا ۔
پس رسول کے بعديہ ذمے داري کس کي ہوگي اسے بھي واضح ہونا چاہئے ۔لہٰذا خدا وند ِ عالم اُن ہستيوںکا تعارف کراتا ہے:
وَالَّذِيْنَٰامَنُوا (اوروہ لوگ جو ايمان لائے )
ليکن کيا کسي کا بھي صرف صاحب ِايمان ہوناکافي ہوگا ؟ ظاہر ہے جواب نفي ميں ہے۔اُس ميں دوسري صفات بھي پائي جاني چاہئيں :
الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ(وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہيں )
وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ(اورجو رکوع کي حالت ميں زکات ديتے ہيں )
حضرت علي ٴاسوہ مکتب
مذکورہ بالا علامات اور نشانيوں کا مجموعہ ‘ يعني امير المومنين علي ابن ابي طالب ٴولي کے طور پر
١۔پيغمبر پ کو بھي مرنا ہے اور اِن سب نے بھي مرجاناہے۔سورہ زمر٣٩۔يت٣٠
معين ہوتے ہيں۔اور يہ اس صورت ميں ہے جب اس يت ميںاستعما ل ہونے والے ’’واو‘‘ کوواوِ حاليہ ليں ۔ليکن اگر با لفرض اس ميں شبہ کريںاور کہيں کہ يت کا مقصود وہ تمام مومنين ہيںجو ان خصوصيات کے حامل ہوں‘توہم سوال کرتے ہيں کہ اس مکتب کے لئے کس ہستي کوعلامت (symbol)‘اسوہ اورنمونہ قرار ديا جا سکتا ہے ؟ ہميں اسلامي معاشرے ميں علي ابن ابي طالب ٴ ٴٴکے سواکوئي ايسي ہستي نہيں ملتي ۔ليکن اگر ہم يہ فرض کرليں کہ اس يت ميں حضرت علي ٴ مدِ نظر نہيں تب بھي اُس وقت کے اسلامي سماج ميں ايسے مضبوط اور محکم ايماني گروہ کا مظہر علي ابن ابي طالب ٴ ٴکے سوا کوئي اور نہيں تھا۔
اس مقام پر يہ ياددہاني ضروري ہے کہ اگر ہم تشيع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ولايت کي گفتگو کريں ‘توہمارے پيشِ نظر مسئلے کا مثبت پہلو ہے ‘ اُس کا منفي پہلو نہيں ۔ اور جيسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے‘ ہم ضروري سمجھتے ہيں کہ شيعہ اپنے پ کو پہچانيں ‘اپني فکر کو پہچانيں ‘اپنے عقيدے کو زيادہ سے زيادہ راسخ کريں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہم اس بات کے بھي معتقدہيں کہ شيعوں کو چاہئے کہ ج برادرانِ اہلِ سنت کے ساتھ محاذ رائي ترک کرديں۔ کيونکہ مسلمانوںکے سامنے اُن کا بيروني دشمن موجود ہے۔
ہم اپني اس گفتگو ميں تشيع کا اثبات کرنا چاہتے ہيں ليکن ہمارا مقصوددوسروں کي نفي کرنا نہيں ہے‘ہم خوامخواہ عقيدے اور سليقے کے اختلاف کو ہوا دينانہيںچاہتے ۔ليکن پ کے لئے يہ بات سمجھنا ضروري ہے کہ پ تشيع کو کس طرح سمجھتے ہيں۔جس تشيع کا ذکر ہم کر رہے ہيں وہ اسلام سے جدا کوئي اور چيز نہيںہے ۔اسلام تشيع سے جدا کوئي چيز نہيں۔تشيع اسلام اور قرن کے بارے ميں جس نکتہ نظر کاحامل ہے ‘ وہ ايک درست‘ منطقي‘ عادلانہ اور عاقلانہ نکتہ نظر ہے ۔
پس اس جانب متوجہ رہئے کہ ہم اصولِ اسلامي بيان کر رہے ہيں اور خود ہمارے پيشِ نظر جو گفتگو ہے وہ اسلام کے ئيڈيالوجيکل اصول کے بارے ميںہے ۔ہم نہيں سمجھتے کہ پ اس کے برخلاف کوئي رائے رکھتے ہيں۔
لہٰذا ہمارے پيشِ نظر مثبت مسائل اورمسئلے کا مثبت پہلو ہے ۔ہم اسلام کو اس طرح بيان کر رہے ہيں جيسا کہ مکتب ِتشيع ميں سمجھتے اور جانتے ہيں اور دوسرے گروہ ‘ جو ممکن ہے ‘ اس سے مختلف سمجھتے ہوں ‘ اوراس سے مختلف جانتے ہوں ‘اُن سے ہميں کوئي سروکار نہيں ہے اور اس بارے ميں ہم اُن سے بحث بھي نہيں کرتے ‘ نہ ہمارا اُن سے کوئي جھگڑا ہے‘ہم باہم بھائي بھائي بھي ہيں اور دوستي کا ہاتھ بھي بڑھاتے ہيں ۔ کيوں؟ اس لئے کہ ہمارے سامنے ايک دشمن موجود ہے‘ کيونکہ دشمن ہمارے سروں پر پہنچ چکا ہے ۔اس حالت ميں ہميں ايک دوسرے کي پگڑي اچھالنے کا حق نہيں ہے ۔يہ بھي ہمارا مسلک ہے جسے ہم بيان کرنا چاہتے تھے ۔
تشيع اور شيعيت کے بارے ميں گفتگو ‘ شيعيت کي صداقت اور اسکے کھرے ہونے کي بنا پر ہے ‘اس لئے ہے کہ ہم تشيع کے معتقد ہيں اور اسلام کو تشيع کے نکتہ نظر سے ديکھتے ہيں‘اس لئے نہيںہے کہ ہم شيعہ اورسني کے درميان اختلاف ايجاد کرنا چاہتے ہيں‘ہر گز ہمارا مقصد يہ نہيں ہے‘ہم اس اختلاف انگيزي کو حرام سمجھتے ہيں ۔
٭
’’اِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِيْنَ ٰامَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ يُْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رَاکِعُوْنَ۔‘‘(١)
اب ہميں ديکھنا چاہئے کہ اگر ہم ولايت کوملحوظ رکھيں‘ تو کيا ہوگا؟کيا اس کا ہمارے اوپر کوئي اثر بھي ہوگا؟
ہم نے ولايت کے تين پہلوؤں کو بيان کيا ہے‘جواندروني ربط وتعلق کي حفاظت‘ متضاد بيروني مراکز سے رشتوں اور وابستگيوں کو توڑ دينااور جسد ِ اسلامي اور امت ِ اسلامي کے قلب‘ يعني امام و رہبر کے ساتھ دائمي اور گہرے تعلق کي حفاظت ہيں۔
اب اگر ہم نے ان تين پہلوؤں کوملحوظ رکھا‘ تو کيا ہوگا ؟ قرنِ مجيد ‘ بعد والي يت ميں
١۔ يہ وہي يت ہے جس کے ہر جز کي تشريح کي گئي ہے اور يہاںاسے ايک مرتبہ پھر بيان کيا گيا ہے ‘ اور اسکے معني يہ ہيں کہ : تمہارا ولي امر خدا ہے‘ اس کا رسول ہے اور وہ مومنين ہيں جو نماز قائم کرتے ہيں اور رکوع کي حالت ميں زکات ديتے ہيں ۔(سورہ مائدہ ٥۔يت ٥٥)
جواب ديتا ہے کہ :
’’وَ مَنْ يَّتَوَلَّ اَ وَ رَسُوْلَہ وَ الَّذِيْنَ ٰامَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔‘‘(١)
جو لوگ خدا ‘ اسکے رسول اور اہلِ ايمان کي ولايت قبول کريں گے‘ اِس بندھن کا لحاظ رکھيں گے اور اسکي حفاظت کريںگے‘ وہي کامياب اور غالب ہوں گے ‘ اور سب سے زيادہ کامياب يہي لوگ ہيں اور يہ تمام دوسرے گروہوں پر غلبہ پائيں گے۔
١۔سورہ مائدہ٥ ۔يت ٥٦