ہمارے آئمہ اور سياسي جدوجہد
ہمارے آئمہ اور سياسي جدوجہد
خدا کا شکر کہ اس عظيم اجتماع ميں ايک ديرينہ آرزو پوري ہورہي ہے۔ آئمہ عليہم السلام کي مظلوميت ان بزرگان اسلام کي زندگيوں تک محدود نہيں رہي ، بلکہ آج سينکڑوں سال گزر جانے کے باوجود ان حضرات کي سيرت کا ايک اہم ترين بلکہ اصلي ترين رخ لوگوں کي عدم توجہي کا شکار ہے جس نے آئمہ کي مظلوميت کو جاري و ساري رکھا ہوا ہے۔ يقيناً گزشتہ صديوں ميںآئمہ کے بارے ميں بڑي ہي بے مثال اور قيمتي کتابيں اور مقالے لکھے گئے ہيں کيونکہ ان کے ذريعہ ان پاک اور بزرگ ہستيوں کي زندگيوں سے متعلق تمام روايات مختلف مجموعوں کي شکل ميں آئندہ آنے والي نسلوں کے لئے جمع کي جاسکي ہيں۔ ليکن آئمہ کي سياسي جدوجہد کے نقوش ، جوان بزرگوں کي تقريباً دو سو پچاس سال کي ظاہري زندگي کے اہم ترين اور ممتاز ترين پہلو ہيں، ان بے شمار احاديث و روايات کے انبار اور آئمہ کي حيات کے علمي و معنوي پہلوو ں کو اجاگر کرنے والي سوانح حيات ميں تقريباً کم سے ہو کر رہ گئے ہيں۔
آئمہ کي زندگي ميں سياسي جدوجہد کا عنصر
آئمہ عليہم السلام کي زندگي کو ہميں درس حيات اور اسوہ عمل کے طور پر ديکھنا چاہئيے ، يہ مناسب نہيں کہ ہم صرف ايک شاندار قابل فخر يادگار کے عنوان سے اس کا مطالعہ کريں۔ يہ چيز اسي وقت ممکن ہے جب ان عظيم ہستيوں کي سياسي روش اور ان کے طريقہ کار پر بھي توجہ ديں۔
جہاں تک ميرا اپنا تعلق ہے مجھے آئمہ عليہم السلام کي زندگي کے اس رُخ نے خاص طور پر متاثر کيا ہے اور ميں اس حقيقت کے اظہار ميں کوئي مضائقہ نہيں سمجھتا کہ ميرے ذہن ميں يہ خيال ١٩٧١ کے سخت ترين امتحان و آلام کے ايام ميں پيدا ہوا۔ اگرچہ اس سے قبل بھي اعلائے کلمہ توحيد اور استقرار حکومت الہي کے سلسلہ ميں آئمہ کا مجاہدانہ کردار اور ان کي قربانياں و فداکارياں ميرے پيش نظر تھيں۔ پھر بھي وہ نکتہ جو اس دور ميں ناگہاني طور پر ميرے ذہن ميں روشن ہوا وہ يہ تھا کہيں ان بزرگواروں کي زندگي (اس ظاہري تفاوت کے باوجود جس کو ديکھ کر بعض لوگوں نے ان کے کردار ميں تضاد کا گمان کيا ہے)دراصل مجموعي طور پر ايک مسلسل طولاني تحريک ہے جو ١١ھ سے شروع ہو کر دو سو پچاس سال تک مسلسل جاري رہي اور ٢٦٠ ھ ميں جو غيبت صغريٰ کے شروع ہونے کا سال ہے ختم ہوئي۔ يہ تمام ہستياں ايک ہي زنجير کي کڑياں ہيں، ايک ہي شخصيت ہيں اور اس ميں کوئي شک نہيں کيا جاسکتا کہ ان سب کا راستہ اور مقصد ايک ہي ہے۔ پس امام حسن مجتبيٰ ٴامام حسين ٴ سيد الشہدائ اور امام سجاد زين العابدين ٴ کي زندگيوں کا عليحدہ عليحدہ جائزہ لينے اور پھر لا محالہ اس خطرناک غلط فہمي کا شکار ہوجانے کے بجائے کہ ان تينوں آئمہ کي زندگيوں کا بظاہر باہمي فرق ان ميں ٹکراو اور تضاد کي نشاندہي کرتا ہے ہميں چاہئيے کہ ان سب کي زندگيوں کو ملا کر ايک ايسے انسان کي زندگي فرض کريں جس نے دو سو پچاس سال کي عمر پائي ہو اور جو ١١ ھ سے لے کر ٢٦٠ ھ تک ايک ہي منزل کي سمت مسلسل طور پر گامزن رہا ہو۔ اس طرح اس عظيم اور معصوم زندگي کا ايک ايک عمل قابل فہم اور لائق توجيہہ ہوجائے گا۔
ہر وہ انسان جو عقل و حکمت سے مالا مال ہوگا، چاہے وہ معصوم نہ بھي ہو، جب وہ اتني طويل مدت طے کرے گا تو حتمي طور پر وقت اور حالات کے تحت مناسب حکمت عملي اختيار کرے گا۔ ممکن ہے وہ کبھي تيز رفتاري کو ضروري سمجھے اور شايد کبھي سست رفتاري ميں مصلحت جانے، حتيٰ ممکن ہے کبھي وہ کسي حکيمانہ تقاضے کے تحت پسپائي بھي اختيار کرے۔ ظاہر ہے وہ لوگ جو اس کے علم و حکمت اور ہدف و مقصد کے بارے ميں علم رکھتے ہيں اس کي عقب نشيني کو بھي پيش قدمي شمار کريں گے۔ اس نکتہ نظر سے اميرالمومنين علي ابن ابي طالب ٴ کي زندگي امام حسن مجتبيٰ ٴ کي زندگي کے ساتھ اور ان کي زندگي سيد الشہدائ امام حسين ٴ کي زندگي کے ساتھ اور آپ ٴ کي زندگي ديگر آٹھ آئمہ کي زندگيوں کے ساتھ ٢٦٠ ھ تک ايک مسلسل تحريک کہي جاسکتي ہے۔
يہ وہ خيال تھا جس کي طرف ميں اس سال متوجہ ہوا اور پھر اسي نکتہ کے ہمراہ ميں نے ان عظيم ہستيوں کي زندگيوں کا مطالعہ شروع کيا اور جيسے جيسے ميں آگے بڑھتا رہا ميري اس فکر کو تائيد حاصل ہوتي گئي۔
البتہ اس موضوع پر تفصيلي گفتگو ايک نشست ميں ممکن نہيں ہے ليکن اس حقيقت کے پيش نظر کہ پيغمبر اسلام ۰ کي ذريت طاہرہ يعني آئمہ معصومين کي پوري زندگي ايک خاص سياسي موقف کے ہمراہ رہي ہے، بنابر ايں يہ اس قابل ہے کہ اس (سياسي موقف )کو جداگانہ طور پر مستقل عنوان کي حيثيت سے زير بحث لا يا جائے۔لہذا ميں يہاں اس سلسلہ ميں مختصر طور پر کچھ عرض کرنے کي کوشش کروں گا۔
ميں گزشتہ سال اپنے پيغام ميں آئمہ طاہرين ٴ کي زندگي ميں گرم جدوجہد کي طرف اشارہ کرچکا ہوں، آج ذرا تفصيل سے اس کا جائزہ لينا چاہتا ہوں۔پہلي چيز يہ عرض کرنا ہے کہ سياسي جدوجہد يا گرم سياسي جدوجہد جسے ہم آئمہ کي جانب منسوب کررہے ہيں اس سے ہماري مراد کيا ہے؟
مراد ي يہ ہے کہ آئمہ ٴ کي مجاہدانہ کوششيں محض ايسي علمي ، اعتقادي اور کلامي نہ تھيں جس طرح کي کلامي تحريکوں کي مثاليں اس دور کي تاريخ اسلام ميں ملتي ہيں جيسے معتزلہ و اشاعرہ وغيرہ کي تحريکيں۔ آئمہ کي علمي نشستيں، درسي حلقے ، بيان حديث و نقل معارف اسلامي اور احکام فقہي کي تشريح و توضيح وغيرہ فقط اس لئے نہ تھے کہ علم فقہ يا علم کلام سے متعلق اپنے مکتب فکر کي حقانيت ثابت کردي جائے بلکہ آئمہ کے مقاصد اس سے کہيں بلند تھے۔
اسي طرح يہ اس قسم کا مصلحانہ قيام بھي نہ تھا جيسا کہ جناب زيد شہيد اور ان کے بعد ان کے ورثا يا بني الحسن ٴ کے دوران نظر آتا ہے۔ حضرات آئمہ ٴ نے اس قسم کا کوئي مبارزہ نہيں کيا۔ البتہ اسي مقام پر يہ اشارہ کرديناضروري ہے (اگر ممکن ہوا تو بعد ميں تفصيل پيش کروں گا) کہ آئمہ معصومين ٴ نے قيام کرنے والے ان تمام لوگوں کي بطور مطلق مخالفت بھي نہيں کي، اگرچہ بعض کي مخالفت بھي کي ہے۔ البتہ اس مخالفت کا سبب ان کا مصلحانہ قيام کرنا نہيں تھا بلکہ کچھ اور دوسري وجوہات تھيں۔ بعض کي بھرپور تائيد بھي کي ہے بلکہ بعض ميں پشت پناہي اور مدد کے ذريعہ شرکت بھي کي ہے۔ اس سلسلہ ميں امام جعفر صادق ٴ کي يہ حديث قابل توجہ ہے، آپ ٴ فرماتے ہيں:
’’ لوددت ان الخارجي يخرج من آل محمد و علي نفقہ عيالہ۔‘‘
’’ مجھے يہ پسند ہے کہ آلِ محمد ۰ و علي ٴ ميں سے کوئي خروج کرنے والا قيام کرے اور ميں اس کے اہل و عيال کے اخراجات کا کفيل بنوں۔‘‘
اس (کفالت و ذمہ داري) ميں مالي امداد، آبرو کي حفاظت ، مخفي جائے تحفظ مہيا کرنا يا اسي طرح کي دوسري مدد بھي شامل ہے۔ ليکن جہاں تک ميري نظر جاتي ہے، آئمہ نے بہ نفس نفيس خود امام وقت کي حيثيت سے مصلحانہ قيام ميں کبھي شرکت نہيں کي۔
چنانچہ آئمہ عليہم السلام کي گرم سياسي جدوجہد سے مراد نہ تو وہ مذکورہ پہلي علمي مبارزہ کي صورت ہے اور نہ ہي يہ دوسري نوعيت کا مصلحانہ قيام بلکہ اس سے مراد ايک سياسي ہدف اور مقصد کے تحت جدوجہد ہے۔
وہ سياسي ہدف اور مقصد کيا ہے؟
وہ سياسي مقصد ’’ حکومت اسلامي کي تشکيل ‘‘ ہے جس کو ہم اپني زبان ميں حکومت علوي سے تعبير کرسکتے ہيں۔
پيغمبر اسلام ۰ کي وفات کے بعد سے ٢٦٠ ھ تک ہم ديکھتے ہيں کہ مسلسل طور پر آئمہ کي يہي کوشش رہي ہے کہ اسلامي معاشرے ميں ايک ايسي الہي حکومت قائم کريں اور آپ حضرات کا يہي بنيادي مدعا تھا۔ البتہ ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ وہ خود اپنے ہي دور ميں (يعني ہر امام اپنے اپنے دور ميں) اسلامي حکومت قائم کردينا چاہتا تھا۔ ممکن ہے يہ جدوجہد مستقبل قريب، مستقبل بعد حتيٰ کہ بعض حالات ميں آئندہ انتہائي نزديکي زمانے ميں حکومتِ اسلامي کے قيام سے متعلق رہي ہو۔ مثلاً امام حسن مجتبيٰ کے دور ميں کي جانے والي کوششيں آئندہ کم سے کم مدت ميں اسلامي حکومت کے قيام کي طرف اشارہ کرتي ہيں۔ چنانچہ جب مسيب ابن نجبہ اور اسي قبيل کے دوسرے افراد نے امام ٴ سے سوال کيا کہ آپ ٴ نے کيوں خاموشي اختيار کي ہوئي ہے؟تو ان کے جواب ميں امام ٴ نے جو جملہ ارشاد فرمايا وہ اسي طرف اشارہ ہے ، امام فرماتے ہيں:
’’ ما ندري لعلہ فتنۃ لکم و متاع الي حين۔‘‘
’’ نہيں معلوم شايد يہ تمہارا امتحان ہو اور ايک وقت تک کا سامان۔‘‘
ميري نظر ميں جناب سيد سجاد ٴ کے دور ميں يہ کوششيں، مستقبل قريب کے لئے تھيں جس کے لئے ثبوت و شواہد موجود ہيں جو آئندہ پيش کئے جائيں گے۔ امام محمد باقر ٴ کے دور ميں اس بات کا بہت زيادہ احتمال ہے کہ نزديک ترين مستقبل ميں اسلامي حکومت کے قيام کي کوشش کي گئي۔ البتہ امام ہشتم (امام علي رضا ٴ)کي شہادت کے بعد کي جانے والي کوششوں کے سلسلہ ميں اس بات کا گمان ہے کہ يہ کوششيں مستقبل بعيد کے لئے رہي ہوں۔
مختصر يہ کہ حکومت کب قائم ہو، اس اعتبار سے ہر امام ٴ کي جدوجہد کا طريقہ کار مختلف ہوسکتا ہے ليکن يہ طے ہے کہ اسلامي حکومت کے قيام کے لئے کوششيں ہميشہ جاري رہي ہيں۔
آئمہ عليہم السلام کي تمام سرگرمياں (سوائے ان روحي و معنوي امور کے جو ايک بندہ اپنے خدا سے قربت اور عرفاني مراحل کي تکميل کے سلسلہ ميں انجام ديتا ہے)يعني درس و تدريس ، حديث و علم کلام کي موشگافياں ، مخالفين سے علمي و سياسي مناظرے ، مختلف گروہوں کي حمايت يا مخالفت وغيرہ ، سب کچھ اسي مقصد کے لئے تھيں کہ ايک اسلامي حکومت قائم کي جاسکے۔
يہ ہمارا دعويٰ ہے ، البتہ اس موضوع پر لوگوں کے درميان اختلاف نظر رہا ہے اور رہے گا اور ہميں بھي اس پر اصرار نہيں ہے کہ ہر شخص ہماري فکر اور نظريہ کو آنکھ بند کرکے قبول کرے۔ بلکہ ہم صرف اتنا چاہتے ہيں کہ اس پہلو پر پوري توجہ اور دقت کي جائے اور آئمہ کي زندگي پر اس زاويہ سے تجديد نظر کي جائے۔
ادھر چند برسوں ميں ميري تحقيق و جستجو اس محور پر رہي ہے کہ چاہے مجموعي طور پر تمام آئمہ عليہم السلام کے بارے ميں اور خواہ انفرادي پر عليحدہ عليحدہ ان حضرات کے سلسلہ ہيں اس موضوع کو قابل قبول دلائل سے ثابت کي جائے البتہ اس سلسلہ ميں بعض دليليں کلي نوعيت کي ہيں، مثال کے طور پر:
ہميں معلوم ہے کہ امامت سلسلہ نبوت کي ہي ايک تکميلي کڑي ہے اور نبي ۰ کا ازاول امام ہونا ثابت ہے جيسا کہ امام جعفر صادق ٴ کے اس قول سے بھي ظاہر ہے : ’’ ان رسول اللہ کان ھو الامام ‘‘ (اور رسول اللہ ۰ ہي امام تھے)نيز رسول صلعم نے حق و عدالت پر مبني ايک الہي نظام قائم کرنے کے لئے ہي قيام فرمايا تھا اور ايک عرصہ تک اپني انتھک جدوجہد کے بعد اس طرح کا نظام قائم کرنے ميں کامياب ہوگئے تھے ، جس کي آپ ٴ تا حيات حفاظت بھي کرتے رہے۔ لہذا امام جو نبي ۰ کا جانشين ہے ايک ايسے نظام سے ہرگز غفلت نہيں برت سکتا۔
اس سلسلے کے بعض دلائل خود آئمہ ٴ کے کلمات سے ماخوذ ہيں، يا ان حضرات ٴ کے طرز حيات سے اخذ کئے جاسکتے ہيں جو اس نکتہ کي جانب توجہ اور اس نکتہ پر زير کي کے ساتھ غور و فکر سے سمجھے جاسکتے ہيں ، اور در حقيقت ايک خاص زمانہ کے حالات و شرائط اس دور ميں آئمہ کے موقف اور مقام کو سمجھنے ميں مددگار ہوسکتے ہيں جيسے کہ اس زمانہ (شاہ کے دور) ميں ہمارے لئے يہ کيفيت حاصل تھي۔ مثلاً ايک انسان تاريک قيد خانے ميں پہنچ کر ہي ’’ السلام علي المعذب في قعر السجون و ظلم المطامير ذي الساق المرضوض بحلق القيود ‘‘ (سلام ہو ان پر جو گہرے زندانوں ميں رکھے گئے اور قيد خانوں ميں ظلم کا شکار رہے اور تاريک زندانوں ميں ان کے پائے مبارک زنجير کے حلقہ ميں مجروح رہے۔ اقتباس از زيارت امام موسيٰ کاظم ٴ)جيسے جملے کا مفہوم اور علت و وجہ صحيح طور پر سمجھ سکتا ہے۔ بہر حال اسي پہلو پر کم کس قدر بحث کا ارادہ رکھتے ہيں اور اپنے افکار و خيالات اس عظيم الشان اجتماع کے رو برو پيش کرنا چاہتے ہيں۔
جو حضرات دوسري صدي ہجري کي سياسي تاريخ پر بھرپور نظر رکھتے ہيں اور جنہوں نے ١٠٠ ھ سے کچھ قبل سے لے کر ١٣٢ ھ (جس ميں بني عباس کي حکومت کا آغاز ہوا)تک بني عباس کي سرگرميوں کا مطالعہ کيا ہے وہ آئمہ عليہم السلام کي بھرپور سياسي جدوجہد کو کسي حد تک اس وقت کي بني عباس کي سياسي زندگي سے تشبيہہ دے سکتے ہيں (ليکن جس نے بني عباس کي زندگي، ان کي سياسي جدوجہد اور ان کي دعوتوں کا قاعدہ سے مطالعہ نہيں کيا ہے اس کے لئے يہ تشبيہہ ہرگز قابل فہم و رسا نہيں ہوسکتي)انہي کي طرح کے حالات آئمہ ٴ کي زندگي ميں بھي نظر آتے ہيں البتہ اس جوہري فرق کے ساتھ جو آئمہ ٴ کے مقصد اور بني عباس کے مقصد، آئمہ ٴ کي روش اور بني عباس کي روش، آئمہ کے کردار اور بني عباس کے کردار کے درميان پايا جاتا ہے۔ البتہ شکل اور طريقہ کار کے اعتبار سے دونوں ايک دوسرے سے بہت نزديک نظر آتے ہيں اور يہي وجہ ہے کہ بعض مواقع پر ہميں يہ دونوں راہيں ايک دوسرے ميں مخلوط نظر آتي ہيں۔ خود بني عباس آل علي ٴ کے ساتھ اپنے طريقہ کار ، تبليغات و نعرہ دعوت کي يکسانيت و قربت کي وجہ سے عراق و حجاز سے دور علاقوں ميں ايسا ظاہر کرتے تھے کہ گويا وہ آل علي ٴ کي راہ پر ہي کاربند ہيں۔ حتيٰ مسودہ نے جب خراسان و رے ميں بني عباس کي تحريک کي داغ بيل ڈالتے ہوئے سياہ لباس زيب تن کئے تو اس کے بارے ميں کہا کہ:
’’ ھذا السواد ، حدا دآل محمد و شہدائ کربلا و زيد و يحيي۔‘‘
’’ يہ سياہ لباس شہدائے کربلا اور زيد يحييٰ کے سوگ کي علامت ہے ۔‘‘
اور بعض لوگ (حتيٰ ان کے کچھ سرکردہ لوگ)بھي يہي سمجھتے ہيں کہ وہ آل علي ٴ کے لئے کام کررہے ہيں۔
کچھ ايسي ہي صورت حال آئمہ عليہم السلام کي حيات طيبہ ميں بھي نظر آتي ہے البتہ جيسا کہ ہم عرض کرچکے ہيں ، تين بنيادي عناصر مقصد، روش اور کردار کے فرق کے ساتھ۔
آئمہ کي سياسي تحريک کي کلي تصوير
يہاں ضروري معلوم ہوتا ہے کہ پہلے آئمہ کے سياسي جہاد اور جدوجہد کي کلي تصوير کشي کردي جائے۔ پھر اس کے بعد ان عظيم ہستيوں کي زندگي سے ان کي سياسي جدوجہد کے چند روشن نمونے بھي پيش کئے جائيں گے۔
اس کلي تصوير کے سلسلہ ميں ہم في الحال پہلے تين آئمہ يعني اميرالمومنين ٴ ، حسن مجتبيٰ ٴ اور سيد الشہدائ کي زندگيوں کو زير بحث لانا نہيں چاہتے کيونکہ ان کے بارے ميں اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ تقريباً کسي کو بھي اس بارے ميں شبہہ نہيں کہ ان حضرات کي تحريک ميں سياسي پہلو موجود تھا۔ چنانچہ ہم اپني بحث جناب سيد سجاد عليہ السلام سے شروع کرتے ہيں۔ميري نظر ميں امام زين العابدين عليہ السلام کے دور يعني ٦١ ھ سے لے کر امام حسن عسکري ٴ کي شہادت يعني ٢٦٠ ھ تک دو سو سال کا عرصہ تين سياسي مرحلوں پر مشتمل ہے۔
پہلا مرحلہ ٦١ ئ سے ١٣٥ ھ يعني منصور دوانيقي کي خلافت کے آغاز تک پھيلا ہوا ہے۔ اس مرحلہ ميں سياسي جدوجہد ايک نقطہ سے شروع ہوتي ہے اور رفتہ رفتہ اس ميں ايک کيفيت پيدا ہوتي جاتي ہے، گہرائي حاصل کرتي ، وسعت پيدا کرتي ہے اور ١٣٥ ھ تک اوج پر پہنچ جاتي ہے۔ ١٣٥ھ جو سفاح کي موت اور منصور دوانيقي کي خلافت کا سال ہے صورتحال بدلتي ہے اور ايسي مشکلات سامنے آتي ہيں جو بڑي حد تک اس جدوجہد کي پيش رفت تحريک کے دوران ہم نے ايسي چيزوں کا مشاہدہ کيا ہے۔
دوسرا مرحلہ ١٣٥ھ سے ٢٠٢ ھ يا ٢٠٣ تک کا ہے جو امام رضا عليہ السلام کي شہادت کا سال ہے۔ يہ مرحلہ پہلے مرحلہ کي بہ نسبت جدوجہد کے اعتبار سے ايک درجہ بالاتر، عميق تر اور وسيع تر نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس مرحلہ کا آغاز سخت مشکلات کے ہمراہ ہوا تھا پھر بھي تحريک نے رفتہ رفتہ اوج حاصل کرليا، پھيلي اور قدم قدم کاميابيوں سے قريب تر ہونے لگي۔ يہاں تک کہ امام علي رضا عليہ السلام کي شہادت کے بعد اس جدوجہد ميں پھر توقف پيدا ہوگيا۔
٢٠٤ ھ ميں مامون رشيد کے بغداد چلے جانے کے بعد اسلامي جدوجہد کا ايک نيا دور شروع ہوتا ہے (تيسرا مرحلہ)۔ در اصل مامون کي خلافت کے ابتدائي دن آئمہ عليہم السلام کي زندگي کے نہايت دشوار اور آزمائش و ابتلا کے دن ہيں، اگرچہ اس دور ميں تشيع ہميشہ سے زيادہ پھيلا۔ ميري نظر ميں اس عصر ميں آئمہ عليہم السلام کو ہر دور سے زيادہ مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا اور يہ وہي زمانہ ہے جب ميرے خيال ميں آئمہ کي جدوجہد ايک طويل مدتي ہدف کے لئے تھي۔ يعني اب آئمہ کو غيبت صغريٰ سے قبل الہي حکومت کے قيام کي اميد نہيں رہي تھي۔ ان کي کوششيں مستقبل بعيد کے لئے زمين ہموار کرنے کي طرف منتقل ہوچکي تھيں۔ اور يہ سلسلہ ٢٠٤ ھ سے يوں ہي جاري رہتا ہے يہاں تک کہ ٢٦٠ ھ ميں امام حسن عسکري ٴ کي شہادت اور غيبتِ صغريٰ کي ابتدائ ہوجاتي ہے۔
يہ تينوں ادوار کچھ امتيازي خصوصيات کے حامل ہيں