ہمارے آئمہ اور سياسي جدوجہد حصہ دوم
پہلا مرحلہ ٦١ ئ سے ١٣٥ ھ يعني منصور دوانيقي کي خلافت کے آغاز تک پھيلا ہوا ہے۔ اس مرحلہ ميں سياسي جدوجہد ايک نقطہ سے شروع ہوتي ہے اور رفتہ رفتہ اس ميں ايک کيفيت پيدا ہوتي جاتي ہے، گہرائي حاصل کرتي ، وسعت پيدا کرتي ہے اور ١٣٥ ھ تک اوج پر پہنچ جاتي ہے۔ ١٣٥ھ جو سفاح کي موت اور منصور دوانيقي کي خلافت کا سال ہے صورتحال بدلتي ہے اور ايسي مشکلات سامنے آتي ہيں جو بڑي حد تک اس جدوجہد کي پيش رفت تحريک کے دوران ہم نے ايسي چيزوں کا مشاہدہ کيا ہے۔
دوسرا مرحلہ ١٣٥ھ سے ٢٠٢ ھ يا ٢٠٣ تک کا ہے جو امام رضا عليہ السلام کي شہادت کا سال ہے۔ يہ مرحلہ پہلے مرحلہ کي بہ نسبت جدوجہد کے اعتبار سے ايک درجہ بالاتر، عميق تر اور وسيع تر نظر آتا ہے۔ اگرچہ اس مرحلہ کا آغاز سخت مشکلات کے ہمراہ ہوا تھا پھر بھي تحريک نے رفتہ رفتہ اوج حاصل کرليا، پھيلي اور قدم قدم کاميابيوں سے قريب تر ہونے لگي۔ يہاں تک کہ امام علي رضا عليہ السلام کي شہادت کے بعد اس جدوجہد ميں پھر توقف پيدا ہوگيا۔
٢٠٤ ھ ميں مامون رشيد کے بغداد چلے جانے کے بعد اسلامي جدوجہد کا ايک نيا دور شروع ہوتا ہے (تيسرا مرحلہ)۔ در اصل مامون کي خلافت کے ابتدائي دن آئمہ عليہم السلام کي زندگي کے نہايت دشوار اور آزمائش و ابتلا کے دن ہيں، اگرچہ اس دور ميں تشيع ہميشہ سے زيادہ پھيلا۔ ميري نظر ميں اس عصر ميں آئمہ عليہم السلام کو ہر دور سے زيادہ مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا اور يہ وہي زمانہ ہے جب ميرے خيال ميں آئمہ کي جدوجہد ايک طويل مدتي ہدف کے لئے تھي۔ يعني اب آئمہ کو غيبت صغريٰ سے قبل الہي حکومت کے قيام کي اميد نہيں رہي تھي۔ ان کي کوششيں مستقبل بعيد کے لئے زمين ہموار کرنے کي طرف منتقل ہوچکي تھيں۔ اور يہ سلسلہ ٢٠٤ ھ سے يوں ہي جاري رہتا ہے يہاں تک کہ ٢٦٠ ھ ميں امام حسن عسکري ٴ کي شہادت اور غيبتِ صغريٰ کي ابتدائ ہوجاتي ہے۔
يہ تينوں ادوار کچھ امتيازي خصوصيات کے حامل ہيں
پہلا دور
يہ پہلا دور امام زين العابدين ٴ ، امام محمد باقر ٴ اور امام جعفر صادق ٴ کي زندگي کے ايک حصے پر مشتمل ہے۔ اس دور کا آغاز بے پناہ دشواريوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کربلا کے حادثے نے دنيائے تشيع بلکہ پورے عالم اسلام کو ہلا کر رکھ ديا تھا۔ قتل و قيد و ظلم و ستم کوئي نئي بات نہ تھي ليکن خاندان نبوت کي شہادت اور پھر مخدرات عصمت و طہارت کي اسيري، ان کي شہر بہ شہر تشہير ، فرزند زہرا ٴ کے کٹے سر کا نيزے پر بلند کيا جانا (جبکہ ابھي وہ لوگ بھي موجود تھے جنہوں نے ان لب ہائے مبارک پر پيغمبر اسلام ۰ کو بوسے ليتے خود اپني آنکھوں سے ديکھا تھا)وہ چيزيں تھيں کہ جنہيں ديکھ کر پورا عالم اسلام مبہوت و متحير تھا۔ کسي کے تصور ميں بھي نہ تھا کہ حالات يہ رخ اختيار کرليں گے۔ اگر جناب زينب سلام اللہ عليہا سے منسوب يہ شعر درست ہوکہ
’’ ماتو ھمت يا شقيق فوادي کان ھذا مقدر مکتوبا‘‘
تو دراصل يہ اسي ناقابل تصور درد و کرب کا اظہار ہے اور يہي احساسات تمام لوگوں کے تھے۔ يکايک ذہنوں ميں يہ احساس پيدا ہوا کہ موجودہ سياست ايک دوسري قسم کي سياست ہے۔ يہ ظلم و زيادتي اب تک ہونے والي زيادتيوں سے کہيں زيادہ تھي۔ ناقابل تصور چيزيں تصور کي جانے لگيں اور وقع پذير ہونے لگيں۔ چنانچہ تمام دنيائے اسلام پر ايک عجيب قسم کي دہشت اور رعب کا عالم طاري تھا۔ صرف کوفہ ميں توابين اور پھر مختار سے فضائ کچھ مختلف تھي۔
مکہ مکرمہ ميں بھي جہاں کچھ دنوں بعد عبداللہ بن زبير نے آواز اٹھائي ايسي کيفيت طاري تھي کہ تاريخ اسلام ميں اس کي مثال ملنا مشکل ہے۔
عراق ميں بھي اگرچہ ٦٤ ھ ٦٥ ہجري ميں (کيونکہ بظاہر توابين کو ٦٥ ھ ميں شہيد کيا گيا)توابين کي کوششوں سے وہاں کي مردہ اور بوجھل فضا ميں ايک تازہ لہر پيدا ہوئي ليکن توابين کي شہادت نے اس خوف و وحشت ميں اور اضافہ کرديا اور پھر جب اموي کارخانہ سياست کے دشمن يعني مختار اور معصب ابن زبير آپس ميں لڑ پڑے اور عبداللہ ابن زبير کو مکہ ميں رہنے کے باوجود بھي اہل بيت ٴ کے طرفدار جناب مختار کا وجود کوفہ ميں برداشت نہ ہوا اور معصب ابن زبير کے ہاتھوں مختار قتل کردئيے گئے تو ايک مرتبہ پھر اس خوف و وحشت ميں مزيد اضافہ ہوا اور اميديں ، مايوسي ميں بدلنے لگيں اور آخرکار عبدالملک بن مروان کو تخت خلافت پر تسلط حاصل ہوا۔
اس کے بعد تھوڑے ہي عرصہ ميں پوري دنيائے اسلام پر بني اميہ کي گرفت مضبوط ہوگئي اور اکيس سال تک پورے قدرت و اقتدار کے ساتھ وہ مسلمانوں پر حاکم رہے۔
واقعہ حرہ
اس مقام پر خاص طور سے واقعہ حرہ کي طرف اشارہ کردينا ضروري معلوم ہوتا ہے۔ ٦٤ھ ميں جبکہ مدينہ رسول ۰ پر مسلم بن عقبہ نے چڑھائي کي جو مزيد رعب و وحشت پيد اکرنے کا سبب ہوئي اور جس نے اہل بيت ٴ کو مکمل طور پر غربت و مظلوميت ميں مبتلا کرديا۔ اس حادثہ کي مختصر روئيداد يہ ہے کہ ٦٢ ھ ميں يزيد نے شامي سرداروں ميں سے ايک ناتجربہ کار جوان کو مدينہ ميں مقرر کيا جس نے اہل مدينہ کے خيالات يزيد کي طرف سے صاف کرنے کے لئے چند افراد کو اس بات کي دعوت دي کہ وہ شام جا کر يزيد سے ملاقات کريں۔ چنانچہ کچھ لوگ اس پر آمادہ ہوگئے اور انہوں نے شام جاکر يزيد سے ملاقات بھي کي۔ اگرچہ يزيد نے ان کو بہت زيادہ انعامات (پچاس ہزار سے ايک لاکھ درہم تک)سے نوازا ليکن يہ لوگ جو خود صحابي رسول تھے يا اولاد صحابہ ميں سے تھے يزيدي دربار کا قريب سے مشاہدہ کرنے کے بعد اور زيادہ متنفر اور غصہ ہوگئے اور جب مدينہ واپس ہوئے تو عبداللہ ابن حنظلہ غسيل الملائکہ نے اپني حکومت کا اعلان کرکے يزيد کے خلاف بغاوت اور مرکزي حکومت سے عليحدگي کا اعلان کرديا۔ يزيد نے ان کي سرکوبي کے لئے مسلم ابن عقبہ کو روانہ کيا اور مدينہ رسول ۰ ميں ايسا عظيم الميہ برپا ہوا جس نے تاريخ ميں خون کے آنسو رلا دينے والے، سسکيوں اور آہوں سے معمور باب کا اضافہ کرديا۔يہ واقعہ بھي لوگوں ميں شديد رعب و وحشت ايجاد کرنے کا سبب بنا۔
فکري انحطاط
اس خوف و ہراس کے ساتھ ہي ساتھ ايک دوسرا عامل بھي موجود تھا،اور وہ تھا پوري دنيائے اسلام پر چھايا ہوا فکري انحطاط ، جو گزشتہ بيس برسوں ميں ديني تعليمات سے بے اعتنائي کا نتيجہ تھا۔ گويا ٤٠ ھ کے بعد تقريباً بيس سال کے عرصہ ميں دين و ايمان کي تعليمات ، آيات الہي کي تفسير اور پيغمبر اسلام ۰ کے حق و آگہي سے بھرپور بيانات اس حد تک محدود ہو کر رہ گئے تھے کہ عوام الناس اعتقاد و ايمان کے لحاظ سے بالکل فرومايہ، کھوکھلے اور ديواليہ ہو چکے تھے۔
جب ايک انسان اس دور کي عوامي زندگي کا ذرا باريک بيني کے ساتھ جائزہ ليتا ہے اور مختلف تاريخوں اور روايات ميں ان کے حالات کھنگالنے کي کوشش کرتا ہے تو اس پر يہ حقيقت کھل کر سامنے آجاتي ہے۔ اس کا يہ مطلب نہيں کہ اسلامي معاشرے ميں علمائ و قارئين اور محدثين و مقدسين بالکل ناپيد ہوچکے تھے (ان کے بارے ميں گفتگو بعد ميں آئے گي)ايسا نہ تھا، پھر بھي عوامي زندگي بلاشبہ بے ديني اور اعتقادي ضعف اور اضمحلال کا شکار تھي۔ حالات اتنے بگڑ چکے تھے کہ خود دربار خلافت سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نبوت کے بارے ميں بھي شکوک و شبہات اور ابہامات پيدا کرنے لگے تھے۔ چنانچہ کتابوں ميں مذکور ہے کہ خالد بن عبداللہ قسري جس کو بني اميہ کي پستي اور رذالت کا بدترين نمونہ کہا جاسکتا ہے بڑي ہي ديدہ دليري کے ساتھ کہتا ہے : ’’ کان يفضل الخلافۃ عليٰ النبوۃ ‘‘ يعني ’’ (معاذ اللہ )خلافت نبوت سے بالاتر ہے۔‘‘ اور اس کے لئے دليل کے طور پر کہتا تھا کہ : ’’ ايھما افضل ؟ خليفۃ الرجل في اھلہ اور رسولہ اليٰ اصحابہ ۔ ‘‘ (اگر تم ايک شخص کو اپنے گھرانے ميں اپنا جانشين مقرر کرتے ہو تو وہ شخص تم سے زيادہ قريب ہوگا يا وہ شخص جس کو کسي کے پاس پيغام رساني کا ذريعہ بنايا جائے۔)
ظاہر ہے جس کو تم اپنے گھرانے ميں منتخب کرکے اپنا جانشين مقرر کرتے ہو وہي تم سے زيادہ قريب ہوتا ہے۔ لہذا خليفہ اللہ (يہ لوگ خلفائ رسول کے بجائے خليفہ اللہ کہنے لگے تھے)رسول اللہ سے بالاتر ہے۔
يہ تو خالد بن عبدا للہ قسري کي بات تھي يقيناً اس طرح کي باتيں دوسرے افراد بھي کرتے رہے ہوں گے۔
جب ميں نے ديکھا کہ عبدالملک بن مروان کے زمانے سے خلفائ کے لئے خليفہ اللہ کي تعبير اس کثرت سے استعمال کي جانے لگي کہ عوام يہ بھي بھول گئے کہ خليفہ ، خليفہ پيغمبر بھي ہوتا ہے۔ يہ سلسلہ بني عباس کے دور ميں بھي جاري رہا چنانچہ بشار ابن برد نے جب يعقوب بن ابن داو د اور منصور کي ہجو ميں اشعار کہے تو اس ميں بھي يہي تعبير استعمال کي :
’’ ضاعت خلافتکم يا قوم فالتسموا خليفہ اللہ بين الزق والعود۔‘‘
’’ اے قوم تمہاري خلافت ختم ہوگئي اب خليفہ الہي کو زق اور عود کے درميان تلاش کرو۔‘‘
سوچنے کا مقام ہے جب ايک شاعر خليفہ کے لئے ہجو کہتا ہے تو بھي خليفہ اللہ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ا س زمانہ کے تمام نامور شعرائ حرير، فرزدق، نصيب اور سينکڑوں دوسرے مشہور شعرائ جب خليفہ کي مدح سرائي کرتے ہيں تو اس کو خليفہ اللہ سے مخاطب کرتے ہيں۔
يہ اس زمانے کے لوگوں کے اعتقاد کا صرف ايک نمونہ ہے۔ دين کي بنيادي باتوں کے سلسلہ ميں بھي اس حد تک ايمان کمزور ہوچکا تھا۔
لوگوں کے اخلاق و عادات کي حالت تو اس سے بھي زيادہ خراب تھي۔ابو الفرج کي کتاب اغاني کا مطالعہ کرتے وقت ايک نکتہ يہ ميرے ہاتھ آيا کہ تقريباً اسي اور نوے ہجري سے ٥٠ ، ٦٠ سال بعد تک جتنے بڑے بڑے گانے بجانے والے عياش اور عشرت طلب افراد تھے وہ يا تو مدينہ سے تعلق رکھتے تھے يا مکہ سے۔ چنانچہ جب شام ميں خليفہ کا دل اکتا جاتا تھا۔ محفل رقص و سرور گرم کرنے کے خواہش مچلنے لگتي تھي اور بہترين قسم کے گانے بجانے والوں کو سننے کا دل چاہتا تھا تو اس کے لئے مکہ يا مدينہ سے کسي کو لايا جاتا تھا، جو اس وقت کے مشہور و معروف گانے بجانے والے مغنيوں اور طبلہ نوازوں کے مرکز تھے۔ بدترين فحاشي اور ہرزہ سرائي کرنے والے شعرائ مکہ اور مدينہ ميں موجود تھے۔
مرکز وحي و الہام اور منبع ايمان و اسلام مرکز فحشائ و فساد ميں تبديل ہوچکا تھا۔ ہميں مکہ مدينہ کے بارے ميں ان تلخ حقائق کو بھي جاننا چاہئيے۔ افسوس ہے کہ آئمہ کے متعلق کتب و آثار ميں ان تلخ حقيقتوں کے بيان سے چشم پوشي کي گئي ہے۔
مکہ ميں عمر ابن ابي ربيعہ نامي ايک شاعر تھا جس کا شمار بدترين عرياں و فحش نگاروں ميں ہوتا تھا۔ البتہ شک نہيں کہ فن و شاعري ميں اس کو پوري قدرت و کمال حاصل تھا۔ اس کي داستان اور اس قسم کے دوسرے شعرائ کا کردار اس زمانے کي غم انگيز تاريخ کا ايک سياہ باب ہے اور خود مقامات طواف و رمي خمرات نيز ديگر مشاہد مقدسہ ان لوگوں کي بيہودہ گوئي اور فسق فجور کے شاہد ہيں۔ ‘‘ مغني‘‘ ميںموجود درج ذيل اشعار اسي دور کے حالات کي عکاسي کرتے ہيں:
بدالي منھا معصم حين جمرت وکف خضيب زينت ببنان فو اللہ ماادري وان کنت داريا بسبع رمين الجمرام بثمان
’’ جب اس نے رمي جمرہ کيا تو ميرے سامنے اس کي کلائي اور مہندي لگے ہاتھ ظاہر ہوئے جن کي انگليوں کے پوروں کي زينت کي گئي تھي۔ بخدا انہيں ديکھ کر ميں بھول گيا کہ ميں نے سات کنکر مارے ہيں يا آٹھ جبکہ اس سے پہلے مجھے ياد تھا۔‘‘
ايک راوي کے الفاظ ہيں کہ جس وقت عمر ابن ابي ربيعہ مرا ہے تو پورے مدينہ ميں صف ماتم بچھ گئي۔ مدينہ کي گليوں اور کوچوں سے لوگوں کے رونے اور فرياد کرنے کي آوازيں بلند تھيں۔ جس طرف سے گزرئيے نوجوانوں کي ٹولياں حلقہ بنائے عمر ابن ابي ربيعہ کي موت پر رنج و غم ميں بيٹھي نظر آتي تھيں۔ ميں نے ايک کنيز کو ديکھا کہ کسي کام سے چلي جارہي ہے اور اس حالت ميں بھي اس کي آنکھوں سے اشک جاري ہيں۔ گريہ و زاري کرتي ہوئي ہو ؟ کنيز نے جواب ديا : عمر ابن ابي ربيعہ جيسے شخص سے محروم ہوجانے پر۔ کسي نے جواب ديا: غم نہ کرو مکہ ميں ايک دوسرا شاعر حارث ابن خالد مخزومي موجود ہے اور وہ بھي عمر ابن ابي ربيعہ کي طرح شعر کہتا ہے۔ يہ کہہ کر اس نے حارث کا ايک شعر سنايا جس کو سن کر کنيز نے اپني آنکھوں کو خشک کرتے ہوئے کہا : الحمد للہ الذي لم يخل حرمہ (خدا کا شکر کہ اس نے اپنا حرم خالي نہيں چھوڑا!!!)
يہ تھي اہل مدينہ کي اخلاقي حالت۔ اس حالت کي بے شمار داستانيں اور اہليان مکہ و مدينہ کي شب نشيني کے واقعات کتابوں ميں موجود ہيں۔ اور يہ پستي صرف کسي ايک طبقہ کے افراد تک محدود نہيں تھي بلکہ ہر طبقہ کا يہي عالم تھا۔ ايک گدائي کرنے والا فاقہ زدہ بد بخت شاعر اور جو کر شعب جو طماع (لالچي)کے نام سے مشہور تھا ا س سے لے کر کوچہ و بازار سب ہي ايک تھالي کے چٹے بٹے تھے۔ حتيٰ کے بعض بني ہاشم جن کا ميں يہاں نام لينا نہيں چاہتا ان کي بھي يہي حالت تھي۔ قريش کي مشہور و معروف شخصيتوں کي اولاديں کيا مرد اور کيا عورتيں عياشوں، فاسقوں اور فاجروں کي صف ميں شامل تھيں۔ اسي شخص حارث بن خالد کي گورنري کے زمانہ ميں ايک دن عائشہ بن طلحہ طواف ميں مصروف تھي۔ يہ شخص اس عورت سے خاص تعلق خاطر رکھتا تھا۔ جب اذان کا وقت ہوا تو عائشہ نے حارث کے پاس پيغام بھجوايا کہ کہہ دو کہ جب تک ميرا طواف ختم نہ ہوجائے اذان نہ دي جائے۔ حارث نے حکم دے ديا کہ عصر کي اذان نہ دي جائے۔ لوگوں نے اعتراض کيا کہ تم ايک شخص کے طواف کي خاطر اتنے سارے لوگوں کي نماز ميں تاخير کرنا چاہتے ہو ؟ اس پر حارث نے جواب ديا : بخدا اگر کل صبح تک بھي اس کا طواف طول کھينچتا تو ميں يہي کہتا کہ اذان نہ دي جائے۔
سياسي بد عنوانياں
اس فکري اور اخلاقي انحطاط کے ساتھ ہي ساتھ ايک اور عامل يہ بھي تھا کہ يہ دور سياسي بدعنوانيوں سے بھي دوچار تھا۔ زيادہ تر بڑي بڑي شخصيتيں ايسي مادي خواہشات کي اسير تھيں جو حکام ہي کے ذريعہ پوري ہوسکتي تھيں۔ ايک زمانے ميں امام سجاد ٴ کي شاگردي ميں رہنے والے محمد بن شہاب زہري جيسي بزرگ شخصيت نے بھي خود کو اس پستي ميں گراديا تھا کہ امام ٴ کو وہ مشہور و معروف خط لکھنا پڑا جو صرف ايک خط ہي نہيں بلکہ اس حقيقت کي بھي نقاب کشائي کرتا ہے کہ اس نے کس قسم کے لوگوں سے ربط و ضبط پيد اکررکھا تھا۔ اور اس دور ميں محمد بن شہاب جيسے افراد کي کمي نہيں تھي۔
علامہ مجلسي رضوان اللہ عليہ نے جو بات ابن ابي الحديد سے نقل کي ہے اس کو پڑھ کر انساني ذہن کو سخت جھٹکا لگتا ہے ۔ بحارالانوار ميں پہلے تو علامہ مجلسي نے جناب جابر ۱ کي زباني امام سجاد ٴ کا ايک قول نقل کيا ہے کہ امام ٴ فرماتے ہيں:
’’ ما ندري کيف نصنع بالناس ، ان حدثنا ھم بما سمعنا من رسول اللہ ضحکواوان سکتنا لم يسمعنا‘‘
’’ اور ہماري سمجھ ميں نہيں آتا کہ لوگوں کے ساتھ کيا کريں۔ اگر ہم انہيں رسول اللہ ۰ سے سني ہوئي باتيں سناتے ہيں تو وہ ان کا مذاق اڑاتے ہيں اور اگر خاموش رہيں تو سنتے نہيں۔‘‘
اس کے بعد علامہ ايک ماجرا نقل کرتے ہيں کہ امام سجاد ٴ لوگوں کے درميان حديث نقل کرتے ہيں ۔ مجمع کے درميان سے ايک شخص اٹھ کر مذاق اڑاتا ہے اور حديث قبول کرنے سے انکار کرديتا ہے۔ واقعہ نقل کرنے کے بعد علامہ مجلسي زہري اور سعيد ابن مسيب کے بارے ميں لکھتے ہيں کہ يہ لوگ منحرفين ميں سے تھے۔ (اگرچہ ميں ذاتي طور پر سعيد ابن مسيب کے سلسلہ ميں يہ بات قبول کرنے کو تيار نہيں ہوں کيوں کہ دوسري دليلوں سے ان کا اما عليہ السلام کے حواريوں ميںسے ہونا ثابت ہے۔ البتہ زہري اور دوسرے بہت سے لوگوں کے سلسلہ ميں يہ بات صحيح ہے)اس کے بعد خود علامہ مجلسي لکھتے ہيں کہ : ابن ابي الحديد نے ايسي بہت سي شخصيتوں اور اس دور کے سربر آوردہ حضرات کے نام ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ يہ سب اہل بيت ٴ سے منحرف تھے اور پھر آپ حضرت سجاد ٴ سے روايت کرتے ہيں کہ حضرت ٴ نے فرمايا:
’’ ما بمکۃ المدينۃ عشرون رجلا يحبوننا‘‘
’’ پورے مکہ اور مدينہ ميں ہميں چاہنے والے بيس آدمي بھي نہيں ہيں‘‘
يہ تھے وہ بدترين حالات جن ميں امام زين العابدين عليہ السلام زندگي بسر کررہے تھے اور يہي وہ دور ہے جب آپ ٴ اپنے عظيم مشن کے لئے جدوجہد کا آغاز کرتے ہيں اور اسي زمانہ کي طرف امام جعفر صادق عليہ السلام ان لفظوں ميں اشارہ فرماتے ہيں: ارتد الناس بعد الحسين الا ثلاثہ ‘‘ امام حسين ٴ کے بعد تين افراد کے علاوہ سب ہي مرتد ہو گئے تھے ۔ اور ان تين آدميوں کے نام ليتے ہيں، ابو خالد الکاہلي، يحييٰ ابن ام الطويل اور جبير بن مطعم ابن جبير ‘‘ ( البتہ علامہ شوستري کا خيال ہے کہ جبير بن مطعم درست نہيں اس کے بجائے حکيم ابن جبير مطعم ہونا چاہئيے اور بعض تاريخوں ميں محمد بن جبير مطعم ہے ۔ بحار الانوار کي ايک روايت ميں چار افراد کا ذکر ہے اور بعض روايتوں ميں پانچ اشخاص کے نام لئے گئے ہيں۔ اور يہ سب روايات ايک دوسرے کے ساتھ قابل جمع ہيں)اتنے سخت ماحول اور ايسي سنگلاخ وادي ميں رہتے ہوئے امام ٴ اپنے ہدف کي تکميل کے لئے جدوجہد ميں مشغول ہوتے ہيں۔
اب سيد سجاد کا طريقہ کار کيا ہوتا؟
اپنے مقصد تک رسائي کے لئے امام ٴ نے اپنے دوش پر تين ذمہ دارياں محسوس کيں۔
١) پہلي ذمہ داري تو يہ تھي کہ امام ٴ لوگوں کو معارف اسلامي کي تعليم ديں: اگر ہم اسلامي حکومت وجود ميں لانا چاہيں تو يہ اس وقت تک ممکن ہي نہيں ہے جب تک کہ عوام کے اندر ديني تعليمات سے آشنائي پيدا نہ ہوجائے۔ بغير اس کے اس طرح کي حکومت کي اميد ہي فضول ہے۔ لہذا سب سے پہلا کام يہي ہے کہ لوگوں کو ديني تعليمات سے مزين کيا جائے۔
٢) دوسري ذمہ داري يہ تھي کہ خاص طور سے مسئلہ امامت جو ايک اجنبي اور متروک مسئلہ ہوگيا ہے۔ يا اس کو غلط معني پہنا کر پيش کيا جانے لگا ہے اس کي حقيقت کي وضاحت کر کے لوگوں کے ذہنوں کي صفائي کي جائے، يعني انہيں بتايا جائے کہ امامت کا کيا مفہوم ہے؟
کون امام ہوسکتا ہے ؟ امام ہونے کے لئے کيا شرائط ہيں؟ کيونکہ بہر حال معاشرے ميں ايک قائد موجود تھا اور وہ (اس وقت)عبدالملک ابن مروان تھا جس کو لوگ اپنا امام تصور کرتے تھے۔ اسلامي معاشرے کي قيادت اس کے ہاتھ ميں تھي۔
بعد ميں ہم امام کي بحث ميں عرض کريں گے کہ امامت کا وہ تصور ہر چند آخري صديوں سے ہمارے پاس موجود ہے وہ اس تصور سے قطعي مختلف ہے جو صدر اسلام ميں رائج تھا۔ دراصل اس زمانہ ميں آئمہ عليہم السلام کے موافقين و مخالفين سب اس کا وہي مفہوم ليتے تھے جو آج جمہوري اسلامي ايران ميں سمجھا جارہا ہے۔ امام امت ، رہبر ملت يعني حاکم دين و دنيا۔ ادہر آخري دو تين صديوں سے ہمارا تصور امام کے سلسلہ ميں کچھ اور ہي ہو چکا تھا۔ہم سمجھ بيٹھے تھے کہ معاشرے ميں ايک تو ايسا شخص ہوتا ہے جو عوام سے ٹيکس وصول کرتا ہے ، انہيں محاذ جنگ پر بھيجتا ہے، ان کو صلح کي دعوت ديتا ہے، ان کے مسائل کا ذمہ دار و نگراں ہوتا ہے، حکومتي ادارے بناتا ہے گويا حکومت کي تشکيل ، اس کا نظم و فسق سب کچھ اس کے ہاتھ ميں ہے اور اس کو حاکم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ايک دوسرا شخص ہوتا ہے جس کا کام يہ ہے کہ لوگوں کا دين درست کرے، ان کے عقيدے کو سدھارے ، لوگوں کي نماز اور قرآت ٹھيک کرے اور اسي طرح کے دوسرے امور (اپني ہمت و صلاحيت کے مطابق)انجام ديتا رہے اور اس کا نام عالم رکھ ديا گيا۔
امام کو بھي اپنے زمانہ ميں تقريباً وہي حيثيت حاصل تھي جو بعد کي صديوں ميں عالم کي رہي ہے۔ خليفہ اپنے کام انجام ديتا ہے، وہ بھي لوگوں کے دين اور اخلاق درست کرتا ہے۔ ادھر چند آخري صديوں سے امام کے بارے ميں ہمارا يہي تصور رہا ہے۔ جبکہ صدر اسلام ميں امام دنيا کا حاکم سمجھا جاتا تھا۔ خلفائے بني اميہ اسي منصب کے مدعي تھے۔ بني عباس بھي ايسا ہي دعويٰ کرتے تھے۔ شراب کے نشہ ميں چور دنيا بھر کے لہو و لعب ميں ڈوبے ہونے کے باوجود اسي قسم کي امامت کے دعويدار بنے بيٹھے تھے۔ وہ خود کو امام سمجھتے تھے۔ اگر موقع ملا تو ان شائ اللہ اس بارے ميں بھي گفتگو کريں گے۔
بہر حال اس وقت تو صرف اتنا عرض کرنا مقصود ہے کہ اسلامي معاشرے ميں امام موجود تھا، ان کا امام عبدالمالک تھا۔ اور امام سجاد ٴ کے لئے ضروري تھا کہ لوگوں کو امامت کے صحيح معني، جہت و مقصد اور شرائط سے واقف کيا جائے۔ آپ ٴ کي ذمہ داري عوام کے سامنے ان چيزوں کي نشان دہي کرنا تھي جو امامت کے لئے ناگزير ہيں، وہ چيزيں جن کے بغير کسي شخص کا امام ہونا ممکن نہيں تھا۔ امام عليہ السلام کو ان تمام باتوں کي تشريح و توضيح کرني تھي۔
٣) تيسري اور آخري منزل يہ تھي کہ امام ٴ لوگوں کو بتائيں کہ ميں امام ہوں: يعني وہ شخص جسے اس مقام پر ہونا چاہئيے ، ميں ہوں۔
امام زين العابدين عليہ السلام کے سامنے يہ تين امور تھے جنہيں آپ ٴ کو انجام دينا تھا ۔
امام ٴ کي زيادہ تر جدوجہد پہلے مسئلے پر مرکوز رہي۔ کيونکہ جيسا کہ ہم نے عرض کيا ابھي آپ ٴ کے دور ميں نوبت يہاں تک نہ پہنچي تھي کہ لوگ امام ٴ سے ’’ ميں امام ہوں ‘‘ سننے کے متحمل ہوتے۔ پہلے امام ٴ کو لوگوں کے دين کي اصلاح کرني تھي ، انہيں اسلامي اخلاق سے آراستہ کرنا تھا ، لوگوں کو فسق و فساد کے گڑھوں سے باہر نکالنا تھا، معاشرے ميں روحانيت و معنويت (جو دين کا لب و لباب اور اصل روح ہے) دوبارہ زندہ کرناتھا۔ يہي وجہ ہے کہ ہم ديکھتے ہيں امام ٴ کي اکثر زندگي اور کلام زہد پر مبني ہے، تمام کا تمام زہد کي تعليم ہے۔ حتيٰ اپنے ايک سياسي مقصد سے متعلق گفتگو کا آغاز بھي ان الفاظ ميں فرماتے ہيں:
’’ ان علامۃ الزادھين في الدنيا الراغبين عنھا في الآخرۃ ۔‘‘
’’ ان لوگوں کي نشاني جنہوں نے دنيا سے بے رغبتي اور آخرت سے رغبت کي ۔‘‘
يا اپنے ايک مختصر پيغام ميں دنيا اور بڑے بڑوں کا دل اپني طرف کھينچ لينے والي اس کي چکا چوند پر ان الفاظ ميں تبصرہ فرماتے ہيں:
’’ ہے کوئي آزاد منش مرد جو پيٹ سے الٹي ہوئي اس غذا (دنيا )کو اسکے اہل کے لئے چھوڑ دے۔ تمہارے وجود کي جنت کے سوا کوئي قيمت نہيں، اسے اس کے سوا کسي قيمت پر نہ بيچنا ۔‘‘
امام ٴ کے کلمات کا بيشتر حصہ زہد پر مشتمل ہے، اس ميں سے زيادہ تر معارف پر مبني ہے البتہ آپ ٴ نے معارف کو دعا کے لباس ميں پيش کيا ہے، کيونکہ جيسا کہ ہم عرض کرچکے ہيں کہ اس وقت کا گھٹن زدہ ماحول اور نا مساعد حالات اس بات کي اجازت نہيں ديتے تھے کہ امام سجاد ٴ عوام الناس سے کھل کر صاف الفاظ ميں گفتگو کرسکيں۔ نہ صر ف يہ کہ حکومت کے ايجنٹ اس سلسلہ ميں رکاوٹ تھے بلکہ عوام بھي اس کے لئے تيار نہ تھے۔ دراصل وہ معاشرہ ايک نالائق ، تباہ شدہ اور ناکارہ معاشرہ تھا جس کي نئے سرے سے تعمير و اصلاح کي ضرورت تھي۔
امام ٴ کي زندگي کے ٣٤، ٣٥ سال (٦١ ھ سے ٩٥ ھ تک)اسي کوشش ميں صرف ہوئے۔ البتہ دھيرے دھيرے حالات سدھر رہے تھے۔ لہذا امام جعفر صاد ق عليہ السلام نے اپني اسي حديث ميں جہاں يہ فرمايا تھا کہ : ’’ ارتد الناس بعد الحسين۔۔۔ ‘‘ وہيں آگے بڑھ کر آپ ٴ يہ فرماتے ہيں : ثم ان الناس لحقوا و کثروا ‘‘ (يعني پھر لوگ ( اہل بيت ٴ سے)ملحق ہوتے گئے اور ان کي تعداد بڑھتي گئي) اور ہم ديکھتے ہيں کہ يہي حقيقت ہے۔
چنانچہ جب امام محمد باقر عليہ السلام کا زمانہ آتا ہے (جس کي تفصيل ہم بعد ميں عرض کريں گے) تو حالات بدل چکے ہوتے ہيں اور يہ سيد سجاد ٴ کي ٣٥ سال کي زحمتوں کا نتيجہ تھا۔
با صلاحيت افراد کي تياري پر توجہ
امام سجاد ٴ کے کلمات ميں باصلاحيت افراد کي تربيت اور اعوان و انصار کي فراہمي پر بھي خاص توجہ نظر آتي ہے۔ تحف العقول ميں امام ٴ کے طويل کلام کے چند فقرات نقل ہوئے ہيں۔ مجھے افسوس ہے کہ ميں اس طرح کے نمونے دوسري کتابوں ميں تلاش کرنے کے لئے وقت نہ نکال سکا۔ ويسے ميرا گمان يہي ہے کہ ( اس طرح کے دوسرے طويل کلام) ملنا مشکل ہے اور ہوئے بھي تو زيادہ نہ ہوں گا۔ البتہ چھوٹے چھوٹے فقرے کافي مل جائيں گے۔
ايسي طويل اور مفصل حديثيں جو تحف العقول ميں امام سجاد ٴ سے نقل کي گئي ہيں اور جن کي تعداد دو تين تک پہنچتي ہے ميرے خيال ميں کہيں اور مل نہيں سکيں گي۔ ان احاديث کا لب ولہجہ اور انداز خطابت خود اس کام کي نشاندہي کرتا ہے جو امام زين العابدين عليہ السلام انجام دے رہے تھے۔ ان تين ميں سے ايک حديث يہ ظاہر کرتي ہے کہ اس کے مخاطب عوام ہيں چنانچہ اس کا آغاز ’’ ايھا الناس ‘‘ (اے لوگو)سے ہو اہے اور اس ميں لوگوں کو معارف اسلامي کي ياد دہاني کرائي گئي ہے۔ اس مفصل حديث ميں حضرت ٴ فرماتے ہيں کہ جب انسان کو قبر کے حوالے کرديا جاتا ہے تو اس سے اس کے رب کے بارے ميں سوال ہوتاہے، اس کے پيغمبر کے بارے ميں سوال ہوتا ہے، اس کے دين کے بارے ميں سوال ہوتا ہے، اس کے امام کے بارے ميں سوال ہوتاہے۔امام عليہ السلام کا يہ ہلکا پھلکا طرز تخاطب دراصل اپنے حلقہ تبليغ ميں آنے والے عوام کے لئے ہے۔ ليکن ايک دوسري حديث اس سے بالکل مختلف الفاظ ميں شروع ہوتي ہے جو بتاتي ہے کہ وہ خواص سے مربوط ہے۔ فرماتے ہيں:
’’ کفانا اللہ واياکم کيد الظالمين و بغي الحاسدين و بطش الجبارين لا يفتنکم الطواغيت‘‘
’’ ظالموں کے دھوکے، حاسدوں کي جفا اور جباروں کے دبدبے سے ہميں اور تمہيں خدا بچانے والا ہے، ديکھو طواغيت تمہيں دھوکہ نہ دے جائيں۔‘‘
يقينا يہ لب و لہجہ عام لوگوں سے مربوط نہيں ہوسکتا ہے ، اس کے مخاطب کچھ مخصوص افراد ہيں۔
ايک تيسري قسم کا کلام بھي ہے جس کے مطالب کے بعض حصوں سے معلوم ہوتا ہے کہ يہ مخصوص ترين اور انتہائي چنيدہ اشخاص سے متعلق ہے۔ ايسا لگتا ہے کہ اس کے مخاطب وہي افراد ہيں جو امام ٴ کے اسرار و رموز اور آپ ٴ کي بامقصد جدوجہد سے واقفيت رکھتے تھے اور جن کا شمار سيد سجاد ٴ کے محرمان راز ميں ہوتا تھا۔ يہاں اپنے ان ہي مخصوص دوستوں سے خطاب کرتے ہوئے امام عليہ السلام کہتے ہيں:
’’ ان علامۃ الزاھدين في الدنيا الراغبين في الآخرۃ ترکھم کل خليط و خليل و رفضھم کل صاحب لا يريد ما يريدون۔‘‘
’’ دنيا سے بے رغبتي اور آخرت ميں رغبت رکھنے والوں کي علامت يہ ہے کہ وہ ہر ايسے شريک اور دوست کو ترک کرديتے ہيں اور ہر اس ساتھ چلنے والے کو چھوڑ ديتے ہيں جو وہ نہيں چاہتا جو يہ چاہتے ہيں۔‘‘
ان تمام کلمات کي روشني ميں يہ نتيجہ نکالا جاسکتا ہے کہ امام ٴ اس طويل مدت ميں يا تو ادوار کے اختلاف کے لحاظ سے يا جن افراد سے آپ ٴ مخاطب ہوتے تھے ان کي صلاحيتوں کے اعتبار سے تعليمات کے دو تين مرحلے يا انداز اپناتے تھے ، کبھي اس انداز سے گفتگو کرتے تھے کبھي اس انداز سے، کبھي حکومت کي مشينري اور وقت کے ظاغوتوں کے بارے ميں اظہار خيال فرماتے تھے اور کبھي دين اسلام کے کلي و بنيادي مسائل بيان کرنے پر اکتفا کرتے تھے۔
يہ امام سجاد ٴ کي زندگي کا ايک مختصر سا خاکہ ہے۔ حضرت ٴ اپني عمر کے آخري ٣٥ برسوں ميں ايسے تاريک و ظلمت زدہ ماحول کے مارے ہوئے افراد کو ايک طرف تو آہستہ آہستہ حيواني شہوات کے چنگل سے نجات دلاتے ہيں دوسري طرف ظلم و جبر کے تسلط اور دربار سے وابستہ علمائے سوئ کي کمندوں سے انہيں آزادي عطا کرتے ہيں۔ چنانچہ مجموعي طور پر صالح اور مخلص مومنين کي ايک ايسي جماعت آمادہ و تيار کرتے ہيں جو مستقبل کي ذمہ داريوں کو اپنے دوش پر سنبھال سکے۔ البتہ امام سجاد ٴ کي زندگي کي جزئيات سے بحث کے لئے عليحدہ سے کئي گھنٹے درکار ہيں اور ميں گھنٹوں اس موضوع پر گفتگو کر بھي چکا ہوں اور اس وقت اس سے زيادہ بحث کي گنجائش نظر نہيں آتي۔