تفریق کے اسباب تاریخ کے آئینہ میں

205

 تفریق کے اسباب تاریخ کے آئینہ میں

سیاست اور دین میں تفریق کا نظریہ آج تک لوگوں کے درمیان موضوعِ بحث بنا ھوا ھے ” اس فکر کی بنیاد کلیسا سے تعلق رکھتی ھے ,یہ بحث روم سے شروع ھوکر (ع)مختلف ادوار میں (ع)ان ملکوں تک پہنچی جو استعمار کے زیرِ تسلط تھے ۔۔۔ “

سیاست اور دین کے درمیان اس تفریق کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ھے :

چوتھی صدی عیسوی

سیاست کو دین سے علیحدہ کرنے کا نظریہ چوتھی صدی عیسوی میں اگسٹن (AUGUSTINE) کے زمانے سے شروع ھوا تھا ,حالانکہ اس کی بنیادیں اس سے بھی گھری بتائی جاتی ھیں ,آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے تھران میں منعقدہ جشن میلاد النبی (ص) کے موقع پر ائمہ جمعہ وجماعات کی بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا تھا کہ :

” دین اور سیاست کے درمیان علیحدگی کا نظریہ بہت پُرانا ھے

” طرح جمھوری در اسلام “ (فارسی) , صفحہ ۲۴, تالیف سید ابوالقاسم حسینی , ناشر مؤلف , مطبوعہ ایران ۔

,تاریخ گواہ ھے کہ فرعون و نمرود جیسے سلاطین وقت نے اس نظریہ کی بنیاد رکھی تھی جنھوں نے انسان کی وسیع زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ,پھلا مختصر سا حصہ مذھب کے لئے مخصوص کیا گیا تھا , جو محض انسان کے قلبی عقائد ھی تک محدود تھا اور جس کا تعلق مذہبی طبقے سے ھوا کرتا تھا اور انسانی زندگی کا دوسرا حصہ سماجی سیاست ,اقتصادی جنگ اور دوسری چیزوں پر مشتمل تھا اور اس کا تعلق طاغوتی حکمرانوں سے ھوا کرتا تھا۔۔۔“

مگر چوں کہ اگسٹن نے اس نظریہ پر زور دیتے ھوئے تفصیل سے اس کے بارے میں بحث و گفتگو کی تھی اس لئے سیاست سے دین کی جدائی کے نظریہ کو اگسٹن سے منسوب کیا جاتا ھے ۔۔۔ “ [1]

مگر بعض دانشوروں کا خیال ھے کہ یہ نظریہ چوتھی صدی عیسوی کے بعد وجود میں آیا تھا , سید ابوالقاسم حسینی لکھتے ھیں کہ :

” مذھب سے سیاست کی جدائی کے بارے میں بحث و گفتگو چوتھی صدی عیسوی کے بعد سے شروع ھوئی اور ھر جگہ پھیل گئی ,بعض لوگوں نے اسے قبول کرلیا اور بعض نے رد کردیا “

سولھویں صدی

مذکورہ صدی میں سیاست سے دین کی جدائی کا نظریہ خوب پھولا پھلا اور حکومت کے لئے اس بات کے امکانات پیدا ھوگئے تھے کہ وہ مکمل طور پر مذہبی مسائل سے الگ تھلگ ھوجائے ,ابتداء میں فرانس کے دانشور ”جان بوڈن“(JEAN BODIN) نے ایک فرضیہ بنام حاکمیت وضع کیا اور اس فکر کی بنیاد ڈالی کہ سیاسی افکار و نظریات کو مذہبی عقائد سے جدا ھونا چاہئے ۔۔۔ (ع)یعنی(ع)فلسفی اساس پر ھو مذہبی ا سا س پر نھیں “

سترھویں صدی

اس صدی میں برطانوی فلسفی ” ٹامس ھابس“ نے اس نظریہ کی حمایت کی اور اس کا دل سے معتقد ھوگیا کہ : ”روحانی طاقت کو دنیوی طاقت سے جدا ھونا چاہئے “

اسی طرح ”جان لاک “ بھی روحانی اور دنیوی طاقتوں کے درمیان جدائی کا قائل تھا ,وہ کہتا ھے :

” دونوں طاقتوں میں سے ھر ایک کو اپنی حدود میں فعالیت و ترقی کرنا چاہئے ,کہ پھلی طاقت امورد نیوی سے عھدہ برآ ھوتی ھے تو دوسری ,لوگوں کی روحوں کو نجات دلاتی ھے “

دور حاضر

” طرح جمھوری در اسلام “ (فارسی) صفحہ ۲۴, تالیف سید ابوالقاسم حسینی , ناشر مؤلف ,مطبوعہ تھران ۔

” تاریخ فلسفہ ٴ سیاسی“ ,جلد ۱ , صفحہ ۲۸۲, تالیف ڈاکٹر بھاء الدین پازارگاد ,ناشر کتاب فروشی زوار تھران۔

موجودہ دور میں ڈیمو کریسی کا فلسفہ شدت سے اس نظریہ کی تائید اور حمایت کرتا ھے اور اس کو قانون اساسی کا جزو سمجھتا ھے ,یہ جدید ڈیمو کریسی حکومت کے فرائض کو امور دینی سے جدا کرتی ھے ۔

فلاسفہ نے اپنے ان نظریات کو عام کرنے کی انتھک کوششیں کیں مگر سترھویں صدی تک بھی مکمل طور پر ان کو کامیابی نصیب نہ ھو سکی اور اکثر لوگ سیاست و دین کی وحدت کے عقیدہ پر ھی قائم رھے , اس کی وجہ روم کے باشندوں کا وہ عقیدہ تھا جو وھاں کے شہنشاھوں نے ان کو ذہن نشین کرادیا تھا ,جیمز برائس کہتا ھے کہ :

” سترھویں صدی میں روم کی مقدس شہنشاھی کے خاتمے کے بعد بھی وحدت ِ سیاست و مذھب کا عقیدہ عروج پر تھا ۔۔۔ سترھویں صدی میں ایک یورپی مفکر کے لئے یہ سوچنا کہ : حکومت کو مکمل طور پر مذہبی امور سے علیحدہ ھونا چاہئے ,اشکال سے خالی نہ تھا ,اس لئے کہ لوگوں کے ذہنوں میں وحدتِ سیاست و مذھب کا عقیدہ اور اس کے فروعات اور شہنشاھوں کی سیرت , نہ مٹنے والے نقش کی مانند تھے اور مذھب و سیاست کی جدائی کا عقیدہ رکھنے والوں کو بنیاد پرستی کے مسلک میں شمار کیا جاتا تھا “

مگر دور حاضر میں ایسا نھیں ھے ,بلکہ سیاست سے جدائی کا عقیدہ اپنے عروج پر ھے اور دنیا

تاریخ فلسفہ ٴ سیاسی , جلد ۱ , صفحہ ۲۸۲ , تالیف ڈاکٹر بھاء الدین پازارگاد, ناشر کتاب فروشی زوار تھران ۔

بھر کے ذرائع ابلاغ اسی نظریہ کی تشھیر کر رھے ھیں ,اب یہ ذرائع ابلاغ ان لوگوں کو بنیاد پرست عناصر میں شمار کرتے ھیں جو سیاست کو دین سے علیحدہ نھیں سمجھتے ۔

یہ قضیہ بر عکس کیوں ھوا ؟! یھی اھل یورپ جو سیاست کو دین سے علیحدہ رکھنے کے عقیدے پر لوگوں کو ”بنیاد پرست“ عناصر میں شمار کرتے تھے ,آج دین و سیاست کے درمیان تلازم کا عقیدہ رکھنے والوں کو ” بنیاد پرست “ایسے القابات سے کیوں یاد کررھے ھیں ؟! اس کے چند اسباب ھیں ,جن کو ھم اختصار کے ساتھ پیش کر رھے ھیں :

کلیسا

سیاست و دین کے درمیان جدائی کا عقیدہ کلیسا کی بے راہ روی کا نتیجہ ھے ,کلیسا نے دین کے نام پر لوگوں کے جذبات کو بری طرح مجروح کیا اور ھر اس جرم کا ارتکاب کیا جو نہ صرف مذھب بلکہ انسانیت کے دامن پر دھبہ ھے ,ایسے حالات میں لوگوں کا دین اور دینی پیشواؤں سے بد ظن ھوجانا ناگزیر تھا ۔

اس کے علاوہ لوگوں کا دین کو منفور شئ سمجھنا بھی کلیسا کی معاشرے کے ضروری مسائل اور مادّی و معنوی ضرورتوں سے چشم پوشی اور بے توجھی تھی ,سید ابوالقاسم حسینی لکھتے ھیں کہ :

” سیاست کی (ع)دین و (ع)مذھب سے جدائی عیسائیت اور کلیسا کی تعلیم کے سبب وجود میں آئی ,جس کے نزدیک خدا کی عبادت و ستائش بے جان تکلفات اور بے روح رسومات سے زیادہ کچھ نھیں تھی ,اور جس نے معاشرے کے اھم مسائل اور ان کی مادّی و معنوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی طرف کبھی توجہ نہ کی جس کے نتیجہ میں سیاست و دین ایک دوسرے سے جدا ھوگئے “

فرانس کا مشھور ومعروف شاعر اور صاحبِ قلم ” وکٹر ھیوگو“(VICTOR HUGO)اھل کلیسا اور محکمہ ٴ تفتیش عقائد پر نکتہ چینی کرتے ھوئے کہتا ھے کہ :

” انسانیت کی تاریخ ترقی میں کلیسا کا کوئی کردار نھیں ھے ,اس کو تاریخ کے صفحات سے محو کر دینا چاہئے ,کلیسا نے اتنی سی بات پر کہ ”ستارے اپنی جگہ سے نھیں گرتے “ پارنیلی (PARNILI)کو اتنے تازیانے مارے کہ وہ زخموں سے چور ھوگیا تھا ,کمپلانڈ (CAMPLAND)کو صرف اس عقیدے کی بناء پر ستائیس مرتبہ جیل بھیجا گیا اور شکنجوں میں کسا گیا کہ :” اس دنیا کے علاوہ اور بھی دنیائیں ھیں “ , اور ھاروے (HARWAY) کو اس لئے شکنجے میں کسا کہ وہ یہ کہتا تھا کہ : ” انسان کی رگوں میں خون متحرک ھے جامد نھیں , کیوں کہ جامد خون زندہ رگوں میں نھیں رہ سکتا ,اور گیلیلیو (GALILEO)کو توریت و انجیل کے بر خلاف ,حرکتِ

زمین کے عقیدے پر جیل بھیج دیا تھا ۔۔۔ “ [2]

یہ سارے جرائم ” محکمہ ٴ تفتیش عقائد“ کے ایماٴ پر ھوتے تھے ,یہ محکمہ جس کو چاہتا تھا اپنے ظلم و تشدد کا نشانہ بناتا تھا ۔

محکمہ تفتیش عقائد(INQUISITION)

یہ محکمہ یورپ میں اس وقت قائم کیا گیا تھا جب پادریوں کے بقول : عیسائیوں میں بدعتوں کا دور دورہ ھوگیا تھا اور ایسی ترقیاں جو پوپ کو قبول نہ تھیں وہ پوپ اور کیتھولکوں کے لئے باعث تشویش ھوگئیں , جس کو روکنے کے لئے یورپ نے تیرھویں صدی عیسوی میں یہ محکمہ قائم کیا ۔

جن دو صدیوں کے درمیان عیسائی ,غیر قانونی فرقے کے طور پر زندگی گزار رھے تھے ,اس اصل پر تکیہ کرتے ھوئے کہ ” مذہبی عقیدہ اک ایسا امر ھے جو رضا کارانہ ھونا چائے ,زور زبردستی کے ساتھ نھیں “ مذہبی رواداری کے دعویدار تھے ,لیکن جیسے ھی اس فرقے نے قانونی حیثیت اختیار کی اور حکومتی طاقت کو اپنا پشت پناہ پایا تو اس نظریہ کو ترک کرکے لوگوں کے عقائد کو کامل اور متحد الشکل بنانے کی فکر میں لگ گئے ۔۔۔ اس سیاسی اقدام میں کسی حد تک اس فرقے کے پشت پناہ شہنشاہ بھی شریک تھے ,کیوں کہ عیسائیوں کے آپسی مذہبی اختلافات اور شدید دشمنی حکومت کے اتحاد و سا لمیت کے لئے خطر ناک تھی , لیکن اس سیاست کی اساس اس عقیدہ پر استوار تھی کہ راہ نجات کا تعلق صرف مسیحی کلیسا ھی سے ھے ۔

اسی طرح عیسائیوں کا بنیاد پرستی پر مبنی یہ اعتقاد کہ ” جو شخص عیسائیت کا پیرو کار نھیں ھے ھمیشہ کے لئے ملعون ھے اور خدا وند عالم ھر فلسفی خطاء پر بدترین مجرم جیسی سزا دے گا “ کلیسا کے مخالفین کے لئے شکنجہ کا باعث بنا ۔

اس کے علاوہ عیسائیوں نے یھودیوں کے فرسودہ , غیرانسانی اور دھشت گردی سے لبریز عقائد کو اپنی کتاب انجیل میں بھرتی کرلیا تھا ,جس سے یہ کتاب کس قدر لوگوں کے اخلاق کو فاسد کرنے کا سبب بنی اور دنیا کو کتنا نقصان پہنچایا ,قابل بیان نھیں ھے ,یہ کتاب دھشت گردی اور شکنجہ کا نظریہ رکھنے والوں کے لئے ایٹمی رئیکٹرکے مانند تھی ۔۔۔ درحقیقت عیسائی مذھب نے ان فرسودہ و ناپسندیدہ کتابوں کے نچوڑ کو اپنی کتابوں میں بھرتی کرکے ترقی ٴ بشر کی راہ میں عظیم رکاوٹ کھڑی کردی ۔۔۔ (ع)چنانچہ ھر وہ ترقی جو اس کتاب کے خلاف ھوتی ,عیسائیوں کی نظر میں کفر تھی (ع)

نٹانٹین کبیر اور اس کے جانشینوں کے زمانے میں متعدد فرمان ,ملحدوعیسائی فرقوں کے خلاف صادر ھوئے ۔۔۔ چوتھی صدی عیسوی میں پریسیلیان (PRISCILLIAN)کو خدا کی معرفت نہ رکھنے کے جرم میں پھانسی پر چڑھا یا گیا ,جس سے بے دینوں کو سزائے موت دینے کی ابتداء ھوگئی تھی ۔۔۔بارھویں صدی عیسوی کے آخر تک کلیسا نے اپنے مخالفین کا قلع قمع کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔۔۔ (ع)کلیسا(ع)اپنے مخالفین کو شکنجہ کرنے میں دنیوی و غیر مذہبی منافع کو ھر چیز سے زیادہ مد نظر رکھتی تھی۔۔۔ بارھویں صدی عیسوی ھی کے آخر میں اینوسینٹ (INNOCENTIII)پاپ ھوا ,اس کے عھد میں یورپی مغربی کلیسا جلالت و عظمت کے انتھائی درجہ کو پہنچ گئی تھی ۔۔۔ کلیسا نے اپنے عمومی قوانین میں اک اور اساسی قانون کا اضافہ کیا کہ : ” ھر بادشاہ ,اپنے خطّے سے کفر و الحادکا خاتمہ کرنے کے بعد ھی تاج کا مستحق ھوگا اور اس کو اسی شرط کے ساتھ باقی بھی رکھ سکتا ھے ۔۔۔ کفرو الحاد کو ریشہ کن کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اس کو مخفی ترین پناہ گاھوں میں بھی جستجو کرکے کشف کیا جائے ۔۔۔ لہٰذا اک ایسا ادارہ جو بے دینوں کی کھوج کرکے ان کا پتہ لگا ئے , ۱۲۳۳ ء میں پاپ ” گرگوار “نھم کے ذریعہ تشکیل پایا جو ” تفتیش عقائد “ کے نام سے مشھور ھے , اور اینوسینٹ چھارم نے اپنے فرمان کے ذریعہ اس ادارہ کو اپنے سماج کا جزو لا ینفک بنادیا .[3]

(ع) کلیسا کی علم دشمنی

دانشوروں کے نزدیک ,کلیسا اور روشن فکروں کے درمیان تصادم کی علت , ان کی نئ نئ علمی اختراعات و ایجادات تھیں ,چوں کہ پادریوں نے علم نجوم سے متعلق ” ارسطو ‘ ‘ اور ” بطلیموس“ کے نظریات کو اپنی مذہبی کتابوں میں شامل کر لیا تھا ,اور نئ نئ اختراعات ,ان نظریات کے خلاف تھیں ,لہٰذا کلیسا علمی اختراعات کا سد باب کرنے کی ھر ممکن کوشش کرتی تھی ,چاھے اس سلسلہ میں اسے نت نئے مظالم ھی سے سھاراکیوں نہ لینا پڑے,چنانچہ مشھور و معروف ستارہ شناس ” کپرنیک“ لھستانی ,پھلا شخص تھا جس نے قدیم افکار کو بے بنیاد قرار دیا ,لیکن کلیسا اور محکمہ ٴ تفتیش عقائد کے ڈر سے اپنے ان خیالات کو آشکار نہ کر سکااور اپنے انکشافات و تجربات کو فقط اپنے ھوشیار اور ذھین شاگردوں کے درمیان ھی رکھا ۔۔۔ (ع)اور (ع)اس موضوع پر لاتینی زبان میں ایک کتاب بھی تحریر کی ۔

” کپرنیک“ کے ایک شاگرد ” جردا توبرونو“ نے اپنی تقریروں میں ۔۔۔صراحت کے ساتھ اپنے استاد کے نظریات کو بیان کیا ,لیکن اس کو کلیسا نے اپنے قھرو غضب کا نشانہ بناکر گرفتار کیا اور محکمہ ٴ ” تفتیش عقائد “ نے کافر قرار دے کر ۔۔۔ اٹلی کے ایک چوک پر زندہ جلا دیا

کفر کے فتوے

یورپ میں کلیسا کی جانب سے دانشوروں اور روشن فکروں کو ان کی اختراعات و ایجادات کے جرم میں کا فر قرار دینا ایک عام بات تھی , یھاں تک ” کہ اگر کبھی مردہ لوگوں پر بھی کفرو الحاد کا الزام لگادیا جاتا تھا تو مخصوص طریقے سے ان کی ہڈیوں کے صندوق پر مقدمہ چلایا جاتا تھا ۔۔۔ کلیسائی کفر کے فتوؤں سے بادشاہ تک بھی محفوظ نہ تھے ۔۔۔ جرمنی اور فرانس کے دس سے زیادہ بادشاہ اور سیاسی ” طرح جمھوری در اسلام “ (فارسی) صفحہ ۲۶, تالیف سید ابو القاسم حسینی , ناشر مؤلف , مطبوعہ ایران۔

لیڈروں پر پوپ نے کفر کا فتویٰ صادر کیا اور حاکموں کو معزول کیا , کچھ کو تائب ھونا پڑا ,مثلاً جرمنی کے ہنری چھارم کو ۱۰۷۵ء میں پوپ کے حکم سے بے اعتنائی برتنے پر ” گریگورہفتم“ (GREGORYvII) کی طرف سے کافر قرار دیا گیا ,اور اس کو حکومت سے معزول کر دیا گیا , مجبوراً ہنری توبہ کرنے والوں کالباس پہن کر پوپ کی خدمت میں معذرت کے لئے حاضر ھوا ,پوپ نے تین دن تک اس کو ملنے کی اجازت نہ دی ,تین دن بعد اس کی توبہ قبول کی گئی ۔

اسی طرح لوئی ہفتم کو ” پوپ اینوسینٹ دوم“ کی طرف سے ۱۱۴۰ ء میں کافر قرار دیا گیا , ۱۲۰۵ ء میں برطانیہ کے بادشاہ ” جان “ اور ” پوپ اینوسینٹ دوم“ کے درمیان اختلاف پیدا ھوگیا , بادشاہ نے پادریوں پر حملہ کیا اور پوپ نے اس کے خلاف کفر کا فتوی دے دیا

ایسے بہت سے غیر انسانی سلوک کی بناء پر دانشوراور روشن فکر افراد دین سے نفرت کرنے لگے تھے ,لہٰذا یہ روشن فکر اس بات پر کمر بستہ ھوگئے کہ کلیسا سے انتقام لیا جائے چنانچہ دیکھتے ھی دیکھتے ان لوگوں کی منظم و مستحکم جماعت وجود میں آگئی اور کلیسا کے مقابلہ میں ڈٹ گئی ,(ع)یہ لوگ کلیسا سے اتنے بدظن ھو گئے تھے کہ (ع)اگر کسی چیز کا کلیسا سے ذرہ برابر بھی تعلق ھوتا تھا تو وہ بھی ان کی نظروں میں بے وقار اور قابل مذمت تھی ,ان کے حملوں سے فکر و عقیدہ ,علم و ثقافت , اخلاق و آداب بھی محفوظ نہ تھے ,یہ لوگ پھلے عیسائیت اور پھر مطلق طور پر دین سے بیزار ھوگئے اور اس طرح دانشوروں اور پادریوں کے درمیان کشمکش میں اضافہ ھوتا رھا ,اس بارے میں شھیدآ یت اللہ باقر الصدر(رہ) تحریر فرماتے ھیں کہ :

باقر الصدر(رہ) تحریر فرماتے ھیں کہ :

” مذھب سے بغاوت و بیزاری کا راز یہ تھا کہ کلیسا نے دین کے نام پر اس قدر فسادات برپا کئے تھے اور اسے اپنے اغراض و خواھشات کی تکمیل کا یوں ذریعہ بنالیا تھا کہ ھر شخص دین سے بیزار ھونے لگا تھا ۔۔۔ “ [4]

روشن فکروں کے ذہن میں دین کا نام آتے ھی , علم و تحقیق کی راہ میں بہنے والے خونِ ناحق کی یاد تازہ ھوجاتی تھی ,لہٰذا یہ لوگ دین سے بیزار اور علماء سے ھمیشہ کے لئے متنفر ھوگئے اور یہ نفرت میراث کے طور پر نسلاً بعد نسلٍ منتقل ھوتی رھی

دانشوروں اور کلیسا کے درمیان ایک مدت دراز تک یہ جنگ جاری رہنے کے بعد صلح کی نوبت آئی مگر اس شرط کے ساتھ کہ سیاست داں کلیسا کے ,اور پادری ملک کے سیاسی امورمیں , مداخلت نھیں کریں گے ,اس طرح باقاعدہ طور پر سیاست و دین کے درمیان تفریق کے نظریہ کی تصدیق کر دی گئی

دانشوروں نے اگر عجلت سے کام نہ لیا ھوتا تو شاید اس قدر دین سے بیزار نہ ھوتے ,بلکہ کلیسا اور اس کے جرائم سے ھی نفرت کی جاتی ,مگر انھوں نے پادری اور دین کے درمیان کوئی فرق نھیں کیا

” آج کا انسان اور اجتماعی مشکلات “ (اُردو) صفحہ ۲۸ , شھید آیت اللہ باقر الصدر (رہ) , ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی , ناشر سازمان تبلیغات اسلامی , شعبہ ٴ اُردو ,تھران , ۱۹۸۳ ء

” آئندہ در قلمرو اسلام “ (فارسی) صفحہ ۹۴ , تالیف سید قطب , ترجمہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای , مطبوعہ مشھد ۔

” طرح جمھوری در اسلام “ جلد ۱, صفحہ ۲۸ ۔

,جب کہ دین اور دین کے بے عمل ذمہ دار میں ” زمین آسمان کافرق ھے “ , اگر کلیسا نے اپنے حق کا بے جا استعمال اور جرائم کا ارتکاب کر کے غلطی کی تو دانشوروں کا سیاست کو دین سے علیحدہ کر دینا بھی قابل مذمت ھے ,دانشوروں کو سیاست اور دین کے نااھل ذمہ دارروں کے درمیان ,تفریق کے نظریہ کو فروغ دینا چاہئے تھا ۔

الحمد للہ ! اسلام کا دستو رالعمل مسخ شدہ عیسائت کے بالکل برعکس ھے , اسلام نے کبھی بھی لوگوں کے ضروری مسائل اور ان کی مادی و معنوی ضروریات سے چشم پوشی نھیں کی ھے ,بلکہ علمی ترقی کو سراھا ھے , شھید آیت اللہ باقر الصدر (رہ) فرماتے ھیں کہ :

” ۔۔۔ (ع)دین اسلام نے (ع)اپنی فکر کو صرف ایک ذہنی تصور نھیں بنایا بلکہ اپنے نظام کو ایک ایسی فکر کے سانچے میں ڈھال دیا جس میں حیات و کائنات ,سیاست و اجتماع , اقتصادو اخلاق سارے مسائل سمٹ آئیں “

اور مصطفیٰ زمانی لکھتے ھیں کہ :

” آئین کلیسا نے علم کی سرنوشت میں دخالت کے ساتھ ساتھ

بادشاھوں کو منصوب و معزول کرنے کا اختیار بھی اپنے ھاتھ میں لے رکھا تھا ,جبکہ اسلام نہ صرف علم کا مخالف نھیں ھے

بلکہ علم و تمدن کا مروج بھی ھے “ [5]

” راہ و بیراہہ “ صفحہ ۶۳ , تالیف مصطفیٰ زمانی , ناشر انتشارات پیام اسلام قم,مطبوعہ مھر پریس ایران ۔

میر سید جعفر غضبان لکھتے ھیں کہ :

” دین اسلام ایسا دین نھیں ھے کہ جس میں صرف روحانیت و معنویت ھی ھو , بلکہ دوسرے ادیان کے درمیان دین اسلام کی خصوصیت و امتیاز یہ ھے کہ اسلام ,مسلمانوں کے امر معاش و معاد کا ضامن ھے ۔۔۔ “

علامہ اقبال کے بقول :

” ۔۔۔ اسلام اوّلِ روز سے معاشرتی ,دنیاوی اور مُلکی دین تھا ۔۔۔ “ [6]

ان تمام حقیقتوں کے باوجود مسلمانوں نے سیاست کو ناپسندیدہ چیز کیوں سمجھا ؟ ظاھر ھے اس سلسلہ میں مسلمانوں پر اغیار کے پرو پیگنڈے اور اپنوں کی بد اعمالیوں نے بھر پور اثر کیا ھے ,ورنہ دین اسلام الٰھی و سیاسی دین ھے جو لوگوں کی تمام مادّی و معنوی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ضامن ھے ,جس کو رسول (ص) اللہ کی حیات طیبہ میں عملی طور پر دیکھا جاسکتا ھے ۔

اگرچہ اسلامی معاشرہ ھمیشہ سے الٰھی سیاستمدار کا نیاز مند رھا ھے اور رھے گا ,تا کہ دین وسیاست کے درمیا ن رابطہ قائم رہ سکے اور لوگوں کی اصلاح ھوتی رھے ,مگر بعض ایسے سیاستمدار برسرِ اقتدار آگئے تھے جو دین و سیاست میں ارتباط نہ رکھ سکے , ” (ع)کیوں کہ (ع)اسلام کا وہ سیاسی نظام جو وفات حضرت رسول (ص) سے شروع ھوکر بنی امیہ کے آخری بادشاہ کے مرنے پر ختم ھوتا ھےوہ اس اسلامی سیاسی الٰھی نظام سے قطعاًالگ ھے جس کو خدا وند عالم نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ (ص) پر اس لئے نازل کیا تھا تاکہ وہ ھر زمانے کے مسلمانوں کی قیادت کر سکے “

اسی لئے جب بنی امیہ نے امّت اسلامی کا اقتدار اپنے ھاتھ میں لیا ,اس وقت سے سیاست اوردین کے درمیان عملی تفریق ھوگئی اور اس مسئلہ نے ایک نظریہ کی شکل اختیار کر لی ,امام خمینی (رہ) فرماتے ھیں کہ :

” سیاست سے روحانیت کی جدائی کا مسئلہ کوئی نئ چیز نھیں ھے بلکہ یہ مسئلہ (ع)مسلمانوں کے درمیان (ع)بنی امیہ کے زمانے میں ایجاد ھوا اور بنی عباس کے زمانے میں عروج کو پہنچا ۔۔۔ “

بنی امیہ

بنی امیہ کے ظلم و بربریت پر مبنی سیاسی فلسفہ کو بیان کرنے سے پھلے بنی امیہ کی بنی ھاشم سے عداوت کی بنیاد اور اسباب کا ذکر کر دینا ضروری ھے ۔

بد شگونی

کہتے ھیں کہ ھاشم ۔۔۔ عبدالشمس کے ساتھ اس طرح جُڑواں پیدا ھوئے تھے کہ ھاشم کے پیر کا پنجہ عبد الشمس کی پیشانی سے چسپاں تھا ,جسے تلوار کے ذریعہ علیحدہ کیا گیا ,اور بہت خون بھا , جس کی تعبیر نجومیوں نے باھمی خونریز جنگ سے کی جو بالکل صحیح ثابت ھوئی اور دونوں خاندانوں کے درمیان ھمیشہ جنگ رھی ۔۔۔ “ [7]

حسد

قحط سالی کے دوران , اھل مکہ کا ھاشم کے علاوہ کوئی پرسان ِ حال نہ تھا ,آپ , لوگوں کو پیٹ بھر کھانا کھلاتے تھے اسی لئے آپ کو ابو البطحاء (ع)مکہ کا باپ(ع)اور سید البطحا ء (ع)سردار مکہ (ع)کھا جاتا تھا جناب ھاشم ,مسافروں اور درماندہ لوگوں کو منزل تک پہنچاتے ۔۔۔ اور خوف زدہ لوگوں کو پناہ دیتے تھے ۔

جناب ھاشم کے ان حوصلہ مندانہ افعال کو دیکھ کر ” اُمیہ “ بن عبد الشمس کو خوف لاحق ھوا او ر وہ ھاشم سے حسد کرنے لگا ,اُس نے (ع)ایڑی چوٹی کا زور لگا کر (ع)ھاشم کی روش کو اپنایا مگر اس میں ناکام رھا جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ قریش نے طعن و طنز کے تیر چلانا شروع کر دئے ,امیہ نے ھاشم کو مفاخرت کی دعوت دی مگر ھاشم نے ٹال دیا , آخر میں اس پر دونوں تیار ھوگئے کہ جو ھار جائے وہ پچاس (ع)یا سو (ع)اونٹ کی (ع)حج میں (ع)قربانی کرے اور دس سال کے لئے مکہ سے جلا وطن ھوجائے ,دونوں نے رضا مندی سے (ع)عسفان نامی کاہن کو(ع)حکم بنایا ,حکم نے فیصلہ سنادیا کہ ھاشم ,امیہ بن عبدالشمس سے افضل ھیں ۔

پھر کیا تھا سارے اونٹ ذبح کئے گئے اور امیہ مکہ چھوڑ کر شام چلا گیا ,دو خاندانوں میں عداوت کا پھلا بیج بویا گیا ۔۔۔ “ [8]

طمع ولالچ

یھیں سے شام میں بنی امیہ کی تخم ریزی ھوگئی تھی ۔[9]

امیہ کے بعد اس کا بیٹا ” حرب“ اس دشمنی کا وارث بنا اور اس نے حضرت عبد المطلب بن ھاشم سے اس کا اظھار اس طرح کیا کہ آپ کے ھمسایہ اور تحت حمایت ثروت مند یھودی کو اتنا ستایا کہ وہ مر گیا اور حرب نے اس کا مال ہڑپ کر لیا۔

عبد المطلب نے حرب کی اس بزدلانہ حرکت پر برھمی کے ساتھ اعتراض کیا ,یہ بات ان دو خاندانوں (ع)ھاشمی اور اموی(ع)کے درمیان اختلاف و ناراضگی کا باعث بنی ۔[10]

یہ دشمنی ابھی اپنی جگہ باقی تھی کہ سید ِ بنی ھاشم و قریش اور سرورِ اسلام ۔۔۔ حضرت محمد مصطفیٰ نے اعلانِ نبوت کردیا اور قریش کو ایک خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور غیر خدا کی پرستش سے منع کیا (ع)جس سے قریش کو اپنا اقتدار خطرے میں نظر آنے لگا(ع)لہٰذا رسول اسلام (ص) کی شدت سے مخالفت کی اور تمام متعصب و خطرناک افراد ,رسول خدا (ص) کی دشمنی پر منظم طور پر آمادہ ھوگئے (ع)جن کے نام یہ ھیں (ع) :

ابو احیحہ سعد بن عاص بن امیہ

یہ شخص شقی و منافق تھا اور رسول اسلام (ص) کو بہت اذیتیں پہچائیں ,ہجرت کے پھلے سال کفرو الحاد کی حالت میں مرا ۔

عقبہ بن ابی معیط آبان بن عمرو بن امیہ

رسول خدا (ص) کا سخت دشمن تھا ۔۔۔ ” عطار “ نے شعبی سے نقل کیا ھے کہ رسول خدا (ص) نے ابی معیط سے کھا کہ خدا کی قسم تجھے ضرور قتل کروں گا ,حاضرین میں سے بعض نے کھا :

ائے محمد(ص) ! قریش سے فقط ابو معیط کو قتل کرو گے ,رسول اسلام (ص) نے فرمایا : ھاں ! یہ وہ شخص ھے کہ سجدہ کی حالت میں میری گردن پر اس زور سے پیر رکھ کر کھڑا ھوا تھا کہ جب میں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو ایسا معلوم ھو اکہ آنکھوں کے ڈھیلے باھر آگئے ھیں ۔۔۔

حکم بن ابو العاص بن امیہ

اس نے رسول خدا (ص) کو بہت ستایا , ناسزا کھا اور رنجیدہ کیا ۔

عتبہ بن عبدالشمس بن امیہ

شیبہ بن ربیعہ بن عبد الشمس

معاویہ بن مغیرہ بن ابو العاص بن امیہ

ام جمیل بنت حرب بن امیہ

ابو سفیان پسر صخر بن حرب بن امیہ

معاویہ بن ابی سفیان و۔۔۔

یہ تمام لوگ ,بنی ھاشم خصوصاً رسول اللہ (ص) اور آپ (ع) کی پاک اولاد کے سخت ترین دشمن تھے ۔ [11]

اس دشمنی میں ابوسفیان مرکزی حیثیت رکھتا تھا ,چنانچہ احمد بن عبدالعزیز نے روایت کی ھے کہ جب عثمان خلیفہ ھوگئے تو ایک روز ابو سفیان نے عثمان سے کھا کہ :

” کان ھذا الامر فی تیم , واَ نی لیتم ہذاالامر ؟ ثم صارا الی عدی فابعد وابعد ,ثم رجعت الی

” شرح نہج البلاغہ “ (عربی) ابن ابی الحدید ,متوفی ۶۵۶ ھ , جلد ۱, صفحہ ۳۰۷, تحقیق شیخ حسن تمیم قاضی ٴ بیروت ,

ناشر دارمکتبة الحیاة , بیروت لبنان , ۱۹۶۳ ء ۔

منازلھا ,واستقرّ الامرقرارہ , فتلقفوھا تلقف الکرة “

” یہ حکومت (ع)بنی(ع)تیم میں گئی ,لیکن بنی تیم اس کے کس طرح اھل ھو سکتے ھیں ؟(ع)کیوں کہ وہ اس لائق نھیں (ع),پھر (ع)بنی(ع)عدی میں چلی گئی ,پھر (ع)ھم سے (ع)دور بہت دور ھوگئی ,پھر اپنی منزل کی طرف پلٹی ھے اور اپنے مستقر (ع)بنی امیہ(ع)پر واپس آگئی ھے ,لہٰذا اب اس کو گیند کی طرح اپنے ھی میں رکھو اور ایک دوسرے کو پاس دیتے رھو “

ایک دوسرے روز ابو سفیان نے عثمان سے اس طرح کھا کہ :

” بابی انت ! انفق ولا تکن کابی حجر , وتداولوھا یا بنی امیہ تداول الولدان الکرة ,واللّٰہ مامن جنّة ولا نار “

” میرے ماں باپ تم پر فدا ھوجائیں ,خوب خرچ کرو ۔۔۔ ابو حجر کی طرح (ع)بخیل (ع)نہ ھوجانا , ائے بنی امیہ ! اس حکومت کو اپنے

” شرح نہج البلاغہ “ (عربی) ابن ابی الحدید ,تحقیق شیخ حسن تمیم قاضی ٴ بیروت ,جلد ۱ , صفحہ ۳۰۷ ,ناشر دارمکتبة

الحیاة ,بیروت , لبنان , ۱۹۶۳ ء ۔

” شرح نہج البلاغہ “ (عربی) ابن ابی الحدید ,تحقیق شیخ حسن تمیم قاضی ٴ بیروت ,جلد ۱ , صفحہ ۳۰۷ ,ناشر دارمکتبة

الحیاة ,بیروت , لبنان , ۱۹۶۳ ء ۔

ھاتھوں میں اسی گھماتے پھراتے رھو جس طرح بچے گیند کو گھماتے پھراتے رہتے ھیں ,خدا کی قسم نہ کوئی جنت ھے اور نہ دوزخ“

اتفاق سے وھاں زبیر بھی موجود تھے ,(ع)اس لئے (ع)عثمان نے ابو سفیان سے کھا کہ :

دور ھوجا !

ابو سفیان نے کھا کہ:

” ائے بیٹا کیا یھاں کوئی اور بھی ھے ؟“

زبیر نے کھا کہ :

” ھاں ! خدا کی قسم تیری گفتگو کو چھپاؤں گا نھیں “

معاویہ کو بھی عداوتِ رسول و آل رسول (ص) ,اپنے باپ ابو سفیان سے ورثہ میں ملی تھی اور یہ دشمنی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ متواتر (ع)۴۰ (ع)چالیس جمعوں میں معاویہ نے رسول اسلام (ص) پر درود و سلام نہ بھیجا ,جب کسی نے اس بارے میں پوچھا تو معاویہ نے جواب دیا کہ :

” اس سے کچھ لوگوں (ع)اھل بیت (ع) (ع)کو فائدہ پہنچتا ھے ,جو مجھے مانع ھے “ [12]

مؤرخین کا بیان ھے کہ جب معاویہ نے موذن سے (ع)اذان میں (ع)” اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ“ سنا تو رسول اللہ (ص) سے مخاطب ھوکر کھا کہ :

” ائے عبداللہ کے فرزند (ع)محمد (ص) (ع)آپ بڑی ھمت والے تھے ,آپ (ص) نے اپنی ذات کے لئے کسی قِسم کی عزّت و احترام پر قناعت نھیں کی ,یھاں تک کہ اپنے نام کو رب العالمین کے نام سے مقرون کرلیا(ع)نعوذ باللہ(ع) “ [13]

اسی طرح جھاں کھیں عظمتِ رسول اللہ (ص) کا ذکر ھوتا ,معاویہ کو اس سے بہت تکلیف پہنچتی تھی ,مطرف بن مغیرہ بن شعبہ کا بیان ھے کہ میں اپنے والد مغیرہ کے ھمراہ دمشق میں معاویہ کے یھاں مھمان تھا ,اکثر میرے والد معاویہ کے پاس سے جب قیام گاہ پر واپس آتے تو معاویہ کی عقل و خرد کی بہت زیادہ تعریف کرتے ۔

ایک روز جب میرے والد ,معاویہ کے پاس سے واپس آئے تو بہت مغموم تھے اور رات کا کھانا بھی نھیں کھایا , میں یہ کیفیت دیکھ کر سمجھ گیا کہ کوئی تلخ حادثہ رونما ھوا ھے ,میں نے اپنے والد سے اس کا سبب دریافت کیا تو انھوں نے کھا کہ :

” بیٹا ! میں اس وقت ,لوگوں میں اخبث ترین شخص کے پاس سے آرھا ھوں“

میں نے کھا خیر تو ھے

مغیرہ نے کھا ,آج رات میں نے معاویہ سے تخلیہ میں کھا کہ :

” ائے امیر المومنین ! اب تم اپنی مراد کو پہنچ کر حکومت پر قابض ھوگئے ھو , کتنا اچھا ھو اگر تم اپنی عمر کے آخری حصہ میں لوگوں کے ساتھ نیکی سے پیش آؤ اور عدالت کو اختیار کرو اور بنی ھاشم سے بُرا سلوک نہ کرو ,کیوں کہ یہ تمھارے قریبی ھیں ,اور اب بنی ھاشم سے تمھیں کوئی خطرہ بھی تو نھیں ۔

معاویہ نے کھا کہ :

” افسوس افسوس! ! ابو بکر نے خلافت سنبھالی اور عدل کو اپنایا , ان کے مرنے کے بعد ان کا ذکر بھی مٹ گیا ,فقط نام ھی باقی ھے ۔

اس کے بعد عمر نے دس سال خلافت کی اور زحمتیں برداشت کیں ,عمر کے مرنے کے بعد ان کا ذکر بھی مٹ گیا اور صرف نام باقی رہ گیا ھے ۔

اس کے بعد ھمارے بھائی عثمان ” کہ جن کا شرافت میں کوئی ھم پلّہ نھیں تھا “ نے حکومت کی اور کوششیں کیں ,لیکن اس کے علاوہ کچھ بھی نھیں کہ مرگئے اور دفن ھوگئے ۔

لیکن ھر روز (ع)عالم اسلام میں (ع)اُس مرد ھاشمی (ع)پیغمبر اسلا م (ص) (ع)کا نام پانچ مرتبہ بلند آواز سے پکارا جاتا ھے اور کھا جاتا ھے : اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ“ ۔[14]

اب اس حالت میں (ع)کہ ان تینوں کا ذکر مٹ گیا اور محمد کا ذکر باقی ھے (ع)کونسا راستہ ھے سوائے اس کے کہ محمد کا نام بھی مٹ جائے ,اور خدا کی قسم میں محمد کے نام کو ضرور مٹاؤں گا “ [15]

معاویہ کی یہ کفر آمیز گفتگو جب راویان حدیث کے ذریعہ عباسی خلیفہ” مامون رشید“تک پہنچی تو اس نے ایک حکم نامے کے ذریعہ پوری اسلامی حکومت میں اعلان کرادیا کہ لوگ منبروں سے معاویہ پر لعنت کریں

مامون کے علاوہ ” معتضد باللہ “ نے بھی ۲۸۴ ھ میں اک ایسا ھی فرمان جاری کیا ,جس میں بنی امیہ بالخصوص معاویہ پر (ع)ان کی اسلام دشمنی کی وجہ سے (ع)لعنت کرنے کا حکم تھا ,اس حکم نامے میں معتضد باللہ نے بنی امیہ پر لعنت کرنے کی مختلف مدلل وجھیں بھی بیان کیں تھیں :

” ۔۔۔ ابو سفیان بن حرب اور اس کی اولاد کا تعلق بنی امیہ سے

ھے ,جو کتاب خدا اور قول رسول (ص) کے مطابق ملعون ھیں :

خدا وند عالم فرماتا ھے : ”والشجرة الملعونة فی القرآن۔۔۔“ [16] قرآن میں قابل لعنت شجرہ ۔۔۔اور اس پر سب متفق ھیں کہ قرآن میں شجرہ ٴ ملعونہ سے مراد بنی امیہ ھیں ۔

رسول اسلام (ص) فرماتے ھیں : اذا رایتم معاویة علیٰ منبری فاقتلوہ “ اگر معاویہ کو میرے منبر پر بیٹھے ھوئے دیکھو تو قتل کر ڈالنا“

ز (ع)عباسی خلیفہ معتضد کی نظر میں (ع)جوچیز معاویہ کو سب سے

زیادہ لعنت کا مستحق قراردیتی ھے وہ : بافضل ,دین دار اور پاکیزہ صحابہ و تابعین جیسے ” عمرو بن حمق “ ” حجر بن عدی“ (ع)حضرمی(ع)وغیرہ کا بے دریغ قتل ھے ,کیوں کہ خدا وند عالم فرماتا ھے : ومن یقتل مومناً متعمداً فجزاؤہ جہنم خالداً فیھا و غضب اللّٰہ علیہ و لعنہ و حدّ لہ عذاباًعظیماً “ [17] اور جو بھی کسی

مومن کو قصداً قتل کردے گا اس کی جزا جہنم ھے , اسی میں ھمیشہ رہنا ھے اور اس پر خدا کا غضب بھی ھے اور خدا لعنت بھی کرتا ھے اور اس نے اس کے لئے عذاب عظیم بھی مھیا کر رکھا ھے “

ز ” زیاد بن سمیہ “ کو حکم خدا اور رسول (ص) کی مخالفت کرتے ھوئے

معاویہ نے ابو سفیان سے منسوب کر کے اپنا بھائی بنایا ۔

خدا وند عالم فرماتا ھے : ” اُدعوھم لابائھم ھو اقسط عند اللّٰہ فان لم تعلموا آباء ھم فاخوانکم فی الدین و موالیکم ۔۔۔ “ [18] ان بچوں کو ان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یھی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ھے اور اگر ان کے باپ کو نھیں جانتے ھو تو یہ دین میں تمھارے بھائی اور دوست ھیں ۔۔۔ “

اور رسول اللہ (ص) فرماتے ھیں : الولد للفراش وللعاھر الحجر “یعنی فرزند اپنے باپ کا ھے اور زنا کا ر کے لئے سنگسار ھے ۔

معاویہ نے لوگوں سے زبردستی اپنے متبکر ,شرابی ,بولھوس

,کتوں ,بندروں سے کھیلنے والے ,کبوتر باز بیٹے یزید کے لئے بیعت لی ,جب کہ معاویہ ,یزیدکی ان صفات سے آگاہ تھا ,یزید کے مندرجہ ذیل کارنامے اس کے فسق و فجور کو ظاھر کرتے ھیں :

(الف) واقعہ حرہ : مدینہ پر چڑھائی کر کے صحابہ و تابعین کی خاصی تعداد کو قتل کیا ,مسجد نبوی کی بے حرمتی کی ,و۔۔۔

(ب) یزید کے وہ اشعار جن میں مسلمانوں اور نواسہ ٴ رسول (ص) کے قتل عام پر فخریہ اپنے کافر بزرگوں کو مبارکباد دیتا ھے اور آرزو کرتا ھے کہ وہ بھی یزید کی کافرانہ حرکتوں کو مشاھدہ کرتے

( ج) واقعہ ٴ کربلا : علی (ع) و فاطمہ (ص) بنت محمد کے بیٹے (ع)حضرت امام (ع)حسین (ع) کو رسول (ص) سے خاص قرابت اور دین میں فضل و منزلت اور رسول (ص) اللہ کی اس گواھی کے باوجود کہ ” حسن (ع) اور حسین (ع) جوانان جنت کے سردار ھیں “ (ع)تین دن کا بھوکا پیاسا (ع)ذبح کر ڈالا , یزید نے ایسا کرکے ,اللہ سے مقابلہ کیا , دین سے کفر کیا , اور رسول (ص) اللہ سے عداوت کا اظھار کیا اور عترتِ رسول (ص) سے جنگ کی اور ان کی حرمت کو پامال کیا ۔

” معتضد“ یہ تمام دلیلیں پیش کرنے کے بعد مسلمانوں کو اس طرح حکم دیتا ھے کہ :

” واعلموا ایھا الناس ۔۔۔ والعنوا من لعنہ اللّٰہ ورسولہ ۔۔۔“ائے لوگو ! آگاہ ھو جاؤ ۔۔۔ اور اس شخص (ع)معاویہ (ع)پر لعنت کرو, جس پر اللہ اور اس کے رسول (ص)نے لعنت کی ھے ۔۔۔ “

اس کے بعد ” معتضد “ خود بھی اس طرح لعنت کرتا ھے :

” اللّھمّ العن ابا سفیان بن حرب , معاویة ابنہ ویزید بن معاویة ,و مروان بن الحکم وولدہ “پروردگار! ابوسفیان بن حرب ,اس کے بیٹے معاویہ اور یزید بن معاویہ اورمروان بن حکم اور ان کی اولاد پر لعنت کر ۔

اور پھر ان کی بُری صفتوں کو بیان کرتے ھوئے اس طرح کہتا ھے کہ:

” اللّھمّ العن ائمة الکفر ,وقادة الضلالة واعداء الدین ,ومجاھدی الرسول ومغیّری الاحکام ,ومبدّلی الکتاب و سفّاکی الدم الحرام “ [19]

” پروردگار! ائمہ کفر ,گمراھی کے پیشوا اور دین کے دشمن ,رسول (ص) سے لڑنے والے , شریعت کو بدلنے والے ,قرآن میں ھیرا پھیری کرنے والے اور محترم خون کو بھانے والے (ع)بنی امیہ (ع)پر لعنت کر“

معاویہ کی ایسی صفات رذیلہ کو صحابی ٴ رسول (ص) جناب عمار یاسر نے صفین کے موقع پر اپنی سپاہ سے خطاب کرتے ھوئے بیان فرمایا تھا :

” ۔۔۔ ائے اھل عراق ! کیا تم ان دشمنوں کو دیکھنا چاہتے ھو جنھوں نے خدا اور اس کے رسول (ص) کے خلاف جنگ کی اور دشمنوں کو مدد پہنچائی ,خدا وند عالم کو چوں کہ اپنا دین عزیز تھا اس لئے اس نے (ع)بدر و احدد میں (ع)کامیابی عطا کی اور بالآخر دشمن نے خوف کی وجہ سے اپنا سر اسلام کے سامنے خم کردیا , پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد اس دشمن کی مسلمانوں کے خلاف دشمنی و عداوت آشکار ھوگئی مسلمانو! تم دشمن کے لشکر سے جنگ کرو کیوں کہ ان کے سردار (ع)معاویہ , عمرو عاص ,مروان و۔۔۔ (ع)ان لوگوں میں سے ھیں جو نورِ الٰھی کو خاموش کرنے کا ارادہ کئے ھوئے ھیں “[20]

(ع) بنی امیہ کا سیاسی فلسفہ

بنی امیہ کا سیاسی فلسفہ ظلم و تشدد پر مبنی تھا , یہ لوگ اپنے حریف پر سخت سے سخت تشدد کرتے تھے ,اس فلسفے کے بانی معاویہ ابن ابی سفیان ھیں ,جو قدرت و حکومت تک پہنچنے کے لئے ھر غیر اخلاقی و

ظالمانہ اقدام کو جائز سمجھتے تھے, سنّی مؤرخ مفتی شوکت علی فھمی اس بارے میں لکھتے ھیں کہ :

” ۔۔۔ مذھب کے نام پر عوام کے جذبات بھڑکانے میں ان (ع)معاویہ(ع)کو کمال حاصل تھا ,وہ حکومت کی خاطر ھر عیاری اور مکّاری کو اختیار کرلینا کوئی گناہ نھیں سمجھتے تھے ۔۔۔ “

ایک اور سنّی دانشور ”استاد عباس عقاد “لکھتے ھیں کہ :

” معاویہ ,حیلہ گر تھے اور اس سے ھمیشہ فائدہ اٹھاتے تھے اور بار بار اس کو اپنے دشمنوں کے ساتھ انجام دیتے تھے ,اس کے اجراء میں ماھر ھو گئے تھے وہ دو آدمیوں میں شک ڈلواکر تفرقہ

پیدا کرنے اور اپنے دشمنوں کو دو گروھوں کے درمیان تقسیم کردینے میں ماھر ھو گئے تھے ۔۔۔ انتھا یہ ھے کہ اپنے خاندان والوں اور قرابت داروں میں بھی یھی کام کرتے تھے ,ان کو یہ بات برداشت ھی نہ تھی کہ دو آدمی ھم خیال و ھم عقیدہ متحد ھوسکیں ۔۔۔ “

” مکمل تاریخ اسلام “ ,صفحہ ۴۰۸ , مؤلف مفتی شوکت علی فھمی ,شائع کردہ دین دنیا پبلشنگ کمپنی جامع مسجد دھلی ۔

” معاویہ ابن ابی سفیان فی المیزان“ صفحہ ۵۹(ع)۶۰ , تالیف استاد عباس عقاد ,ناشر دارلکتب العربی ,بیروت ,لبنان, دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۶ ء ۔

معاویہ نے حکومت پہنچنے کی خاطر اک ایسا ھی غیر اخلاقی اقدام کرتے ھوئے اپنے معتمدین خاص ”یزید بن اسد “ ”بُسر بن ارطاة “ ” عمرو بن سفیان “ ”مخارق بن حارث زبیدی“ ” حمزہ بن مالک“ ” حابس بن سعد طائی “ ” شرجیل بن سمط “ کو بلایا اور انھیں حکم دیا کہ مجھ سے آکر فرضی ملاقاتیں کرو اور (ع)بھرے دربار میں (ع)مجھ سے باری باری یہ (ع)جھوٹی (ع)خبر بیان کرو کہ ” عثمان کو علی (ع) نے قتل کیا ھے ۔۔۔“ [21]

جنگ نھروان کے بعد جب حضرت علی (ع) کا لشکر جنگ کا ارادہ ترک کرکے اِدھر اُدھر منتشر ھوکر(ع)روز مرہ کی زندگی میں مشغول ھوگیا(ع)اور معاویہ کو اس کی خبر ھوئی تو بہت خوشحال ھوئے اور حضرت علی (ع) کی حکومت کو متزلزل کرنے کی ٹھان لی ,اس سلسلہ میں جب اس کے ساتھیوں خصوصاً ولید نے یہ تجویز پیش کی کہ اب کوفہ پر کردیا جائے تو ان(ع)معاویہ(ع)نے نفی میں سر ھلایا اور کھا کہ :

” عراقیوں کو شکست دینے کے لئے غارت گرفوجی دستے عراق کے مختلف علاقوں میں غارت گری کے لئے بھیجے جائیں, کیوں کہ یھی ایسا طریقہ ھے جس کے ذریعہ ھمارے حامی و طرفدار ,طاقت ور ھوتے چلے جائیں گے اور عراق کا محاذ شکست و خوف میں مبتلا رھے گا ۔۔۔ “ [22]

اس فیصلے کے بعد معاویہ نے ” نعمان بن بشیر“ ” سفیان بن عوف“ ” عبداللہ بن سعدہ “ ”ضحاک بن قیس“ اور بُسر بن ارطاة“ (ع)جو کہ نھایت ظالم اور سفاک تھے (ع)ایسے فرمانداروں کی زیرِقیادت سپاہ کے دستے تریب دے کر عراق کے مختلف علاقوں میں بھیج دیئے تاکہ اس حکم نامے کو جاری کر سکیں ,جو مسلمانوں کی تباھی و بربادی اور خوف و دھشت پر مشتمل تھا , معاویہ نے ضحاک بن قیس کو دیئے گئے فرمان میں لکھا تھا:

” کوفہ کے قرب وجوار میں جو تیرا دل چاھے انجام دے ,اگر تجھے کوئی ایسا شخص نظر آئے جو علی (ع) کا پیرو کار ھو اسے لوٹ کر قتل کردینا ۔۔ ۔ “

چنانچہ ضحاک نے ایسا ھی کیا :

” شیعوں کے مال و اسباب کو لوٹ لیا اور جھاں جسے پایا وھیں قتل کردیا ,یھاں تک کہ منزل ” ثعلبیہ“ پہنچا ,یھاں حاجیوں کے قافلہ کو لوٹا اور غارت کیا ,پھر ” قطقطانہ“ کے مقام پر صحابی ٴ

رسول (ص) ,عبداللہ ابن مسعود کے بھائی ” عمرو بن عمیس“ کو ان کے ساتھیوں سمیت قتل کرڈالا “ [23]

بُسر بن ارطاة کو معاویہ نے یمن کے لئے روانہ کیا اور حکم دیا کہ :

” جو بھی علی (ع) کے اطاعت گزار اور پیروکار ھوں ,سب کو قتل کر ڈالنا “

بسر بن ارطاة نے معاویپہ کے اس حکم پر عمل کرتے ھوئے یمن میں بری طرح لوگوں کا قتل عام کیا ,یھاں تک کہ عبیداللہ بن عباس کے دو کمسن بچوں کو ان کی ماں کے سامنے ذبح کرڈالا “

معاویہ نے بسر کو حجاز اور مدینہ بھی اسی پیغام کے ساتھ بھیجا ,چنانچہ بسر نے مدینہ پہنچ کر لوگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے تقریر کی جس میں انھیں ڈرا دھمکاکر اس طرح دشنام دیا :

” تمھارے منھ کالے ,خدا نے قرآن میں ٹھیک ھی مثال دی

ھے البتہ اس مثال کا مصداق تم لوگ ھو ۔۔۔ “ [24]

پھر بسر نے :

” انصار کو گالیاں دیں اور لوگوں کو مخاطب کر کے چلایا :ائے یھودیوں ,ائے غلام زادو,ائے بنی زریق,ائے بنی نجار , ائے بنی سالم وبنی عبدالاشھل ! آگاہ ھوجاؤ ,تمھارے خدا کی قسم ,تمھیں ایسا سرکوب کروں گا کہ خاندان عثمان کے سینوں میں جو آگ لگی ھے وہ ٹھنڈی ھوجائے گی اور ان کے سوختہ ” شرح نہج البلاغہ“ ابن ابی الحدید معتزلی شافعی , جلد ۱, صفحہ ۳۴۰ , ناشر داراحیاٴ التراث العربی ,بیروت ,لبنان ۔

” وضرب اللّٰہ مثلاً قریة کانت اٰمنة مطمئنة یاتیھا رزقھا رغداً من کل مکان فکفرت بانعم اللّٰہ فاذاقھا اللّٰہ لباس الجوع والخوف بما کانوا یصنعون“اور اللہ نے اس قریہ کی بھی مثال بیان کی ھے جو محفوظ اور مطمئن تھا اور اس کارزق ھر طرف سے باقاعدہ آرھا تھا لیکن اس قریہ کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا تو خدا نے انھیں بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھا دیا صرف ان کے اعمال کی بنا پر کہ جو وہ انجام دے رھے تھے (سورہ ٴ نحل , آیت ۱۱۲ ۔

الغارات صفحہ ۳۱۵ , تالیف ابو اسحٰق ابراھیم متوفی ۲۸۳ھ , ترجمہ علامہ محمد باقر کمرہ ای ,ناشر فرہنگ اسلام ,ایران ۔

دلوں کو شفا(ع)راحت(ع)ملے گی“

اس کے بعدبسر نے تحقیق کرنا شروع کی کہ کس کس نے علی (ع) کی خدمت کی تھی اور ان کی دوستی کا شرف حاصل کیا تھا ,اور کس نے معاویہ کی بیعت کرنے میں سستی کی تھی ,بسر نے ان سب کے گھروں کو آگ لگاکر ویران کر دیا اور تمام مال واسباب لوٹ لیا ۔۔۔ “

مسعودی لکھتا ھے کہ :

” ۔۔۔ بسر بن ارطاة قتل بالمدینة ۔۔۔ خلقاً کثیراً من خزاعة و غیرھم و کذالک بالجرف قتل بھا خلقاً کثیراً من رجال ھمدان و قتل بصنعاء خلقاً کثیراً من الابناء ۔۔۔ “ [25]

”بسر بن ارطاة نے مدینہ میں ۔۔۔ قبیلہ ٴ ”خزاعہ“ اور غیر غزاعہ سے بے شمار لوگوں کو قتل کیا اور اسی طرح ” جرف“ کے مقام پر اھل جرف اور اھل ھمدان کو تہہ تیغ کیا اور یمن میں بہت سے لوگوں کو قتل کیا جن میں بچے بھی شامل تھے ۔۔۔“

جب بسر ,مسلمانوں کو تباہ و برباد کرچکا تومعاویہ سے اس طرح مخاطب ھوا کہ :

” احمد اللّٰہ یا امیر المومنین انی سرت فی ہٰذا الجیش اقتل عدوک ذاہباً جائیاً لم ینکب رجل منھم نکبة “

” ائے امیر المومنین ! میں اللہ کی حمد کرتا ھوں کہ میں نے اِس لشکر کی قیادت کرتے ھوئے تمھارے دشمنوں (ع)شیعان علی (ع)(ع)کو (ع)نابود کرنے کی مھم پر(ع)جاتے ھوئے اور (ع)اس سے واپس(ع)آتے ھوئے ,بے تحاشا قتل کیا ھے ,جب کہ ھمارے لشکر سے

کسی بھی شخص کو کوئی گزند نھیں پہنچی ھے “

معاویہ نے جواب دیا کہ :

” اللّٰہ قد فعل ذٰلک ,لا انت “ [26]

” (ع)ائے بسر(ع)یہ مظالم تو نے نھیں ,بلکہ اللہ نے انجام دیئے ھیں “

اسی طرح جب امام علی (ع) نے مالک اشتر (رہ) کو مصر کا گورنر بنا کر بھیجا اور معاویہ کو اس کی خبر ھوئی معاویہ نے اپنے مظالم اور دھشت گردی پر پردہ ڈالنے کے لئے ھی یہ عقیدہ وضع کیا تھا ,کہ خیرو شر اللہ کی طرف سے ھے بندہ مختار نھیں ھے ,اور یھیں سے اس عقیدے کی ابتدا ٴ ھوتی ھے ,یہ عقیدہ قرآنی تعلیمات کے سو فی صد خلاف ھے ,کیوں کہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ھے کہ : فمن یعمل مثقال ذرةٍ خیراً یرہ, ومن یعمل مثقال ذرّةٍ شرّاً یرہ, جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ھے وہ اسے دیکھ لے گا ,اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ھے تو وہ اسے دیکھ لے گا (سورہ ٴ زلزال ,آیت ۷,۸) اس کے علاوہ ملاحظہ ھو سورہ ٴ انفطار , آیت ۱۰(ع)۱۵ ۔

تو معاویہ نے اپنی ناجائز حکومت کو بچانے کی خاطر مالک اشتر (رہ) کو ” عریش“ کے مقام پر ایک کسان کے ذریعہ زھر دلوا کر شھید کرادیا ,اس کسان کو معاویہ نے اس طرح لالچ دیا تھا :

” ۔۔۔ اترک خراجک عشرین سنة ,واحتل للاشتر بالسّم فی طعامہ ۔۔۔ “ [27]

” ۔۔۔ میں تیرا بیس سال کا خراج معاف کردوں گا ,تو مالک اشتر کے کھانے میں زھر ڈال کر ان کا کام تما م کردے ۔۔۔ “

اسی فلسفہ کی اساس پر معاویہ نے اپنے فرزند یزید کو وصیت کی کہ :

” ان رابک منھم ریب او انتقض علیک منھم احد فعلیک باعور بنی مرة مسلم بن عقبة“ ”اگر اھل مدینہ کی بے چینی ,شورش یا بغاوت کا تجھے احساس (ع)یاشک(ع)ھوجائے تو ” بنی مرہ “ کے شریر(ع)کانے(ع)”مسلم بن عقبہ“ کو (ع)ان کی سرکوبی کے لئے(ع)بھیج دینا “[28]

چنانچہ یزید نے معاویہ کی وصیت پر عمل کرتے ھوئے مسلم بن عقبہ کو طلب کیا اور اس سے کھا کہ :
مسلم بن عقبہ نے صحت یاب ھونے تک اس مھم پر جانے سے پرھیز کیا کہ اسی دوران ایک روز یزید ,مسلم بن عقبہ کے پاس آیا اور احوال پرسی کے بعد اس طرح کہنے لگا کہ :قد کنت وجہتک لہذا البعث وکان امیر المومنین معاویہ قد اوصانی بک “اس مھم پر میں تجھے اس لئے بھیج رھاتھا کیوں کہ مجھ سے ۔۔۔ معاویہ نے ایسا کرنے کی وصیت کی تھی ۔ (الامامة والسیاسة ,جلد ۲, صفحہ ۷ , مطبوعہ مصر ۱۹۰۸ ء )

” سر الی ہذہ المدینة بہذہ الجیوش وان شئت اعفیتک فانی اراک مدنفاً منھوکاً ۔۔۔ “ [29]

” اس لشکر کے ساتھ مدینہ کے لئے حرکت کر اور اگر نہ جانا چاھے تو میں تجھے معاف کئے دیتا ھوں ,کیوں کہ میں تجھے سخت مریض اور لاغر دیکھ رھا ھوں ۔۔۔ “
      چنانچہ مسلم بن عقبہ مدینہ میں داخل ھوا اور وہ انسانیت سوز اعمال انجام دئیے جس سے آسمان کو بھی زلزلہ آجائے ,مروان لشکر کی راہنمائی کر رھا تھا اور مسلم بن عقبہ کا لشکر اس کے احکام کو نافذ کرکے بے رحمی سے مسلمانوں کا قتل عام ,مسلم عورتوں کی آبرو ریزی اور ان کے اموال کو غارت  کر رھا تھا ,معاویہ ابن ابی سفیان کی وصیت پر عمل درآمد کا مختصر نتیجہ یہ ھوا کہ مدینہ میں :
 اصحاب نبی (ص) سے ۸۰ افراد قتل ھوئے  ۔
 اھل بدر کا مکمل طور پر خاتمہ ھوگیا  ۔
 قریش اور انصار کے ۷۰۰ افراد کا قتل ھوا  ۔[30]
 عوام الناس (ع)عرب و غیر عرب(ع)سے دس ہزار افراد قتل کئے گئے  ۔ 
 اور تین دن تک عورتوں کی آبروریزی کی گئی,  جس سے چار ہزار4000)   ناجائزبچے پیدا ھوئے ۔ [31]
اس کے علاوہ امام حسن (ع) سے صلح کرنے کے بعد بدعھدی کرتے ھوئے(ع)معاویہ نے(ع)اپنے گورنروں کو لکھا کہ :
” انظروا الی من قامت علیہ البینة ,انہ یحب علیاً
 واھل بیتہ فامحوہ من الدیوان واسقطوا عطائہ و رزقہ “   
” اگر ثابت ھوجائے کہ کوئی شخص علی (ع) اور ان کے اھل بیت (ع) کا دوست ھے تو اس کا نام رجسٹر سے کاٹ دو اور اس کا وظیفہ اور روزی روٹی بند کردو اور اسے تمام شھری سھولتوں سے محروم کردو 
ایک دوسرے حکم نامہ میں اس طرح لکھا کہ :
”من اتھمتموہ بموالاة ھولاء القوم فنکلوا بہ و  ھدموا دارہ “   [32]
” جو لوگ (ع)حضرت(ع)علی (ع) اور ان کے خاندان سے دوستی میں متھم پائے جائیں ,ان کو مثلہ کردو (ع)ھاتھ پیر,ناک کان کاٹ دو(ع)اور ان کے گھروں کو منھدم کر ڈالو “
      چنانچہ ایسا ھی کیا گیا اور شیعیانِ علی (ع) کے لئے سر چھپانے کی جگہ نہ رھی ,فرزند رسول (ص) امام محمد باقر (ع) فرماتے ھیں کہ :
” فقتلت شیعتنا بکل بلدة و قطعت الایدی والارجل علی الظنة وکان من یذکر                  بحبنا والانقطاع الینا سجن او نھب مالہ او ھدمت دارہ  “[33]
 ” ھمارے شیعہ ھر شھر میں قتل کئے گئے ,شیعہ ھونے کے شبہ میں   بنی امیہ لوگوں کے ھاتھ پیر کاٹ ڈالتے تھے کوئی بھی شخص اگر محبت  اھل بیت (ع) میں مشھور ھوتا تو اس کو قید میں ڈال دیا جاتا یا
اس کے گھر کو ویران کردیا جاتا تھا “
معاویہ اور دیگر اموی سلاطین کی ایسی ھی سیاسی بد عنوانیوں پر تبصرہ کرتے ھوئے عیسائی مؤرخ  جرجی زیدان لکھتا ھے کہ:
” خلفائے راشدین کے زمانے میں حکومتِ اسلام ,حکومتِ مذہبی تھی اور امویوں کے زمانے میں فقط حکومتِ سیاسی ھوگئی تھی اور عدل و انصاف اور پرھیز گاری کے بجائے شمشیر و تعصب نے جگہ لے لی تھی  “ [34]
بنی امیہ کی اِن سیاس بدعنوانیوں کا نتیجہ ,سنّی مؤرخ مفتی شوکت علی فھمی نے ا س طرح بیان کیا ھے :
” شاھان بنی امیہ نے اگرچہ طاقت اور عیارانہ سیاست کے بَل پر حضرت علی (ع) اور حضرت امام حسن (ع) کے بعد خلافت ِ اسلامیہ پر قبضہ جمالیا تھا ,لیکن پھر بھی مملکتِ اسلامیہ کا ایک بہت بڑا طبقہ شاھانِ بنی امیہ کا سخت مخالف تھا اور انھیں غاصب اور ڈاکو تصورکرتا تھا ۔۔۔  “   [35]
________________________________________
[1] جشن عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر تھران میں ائمہ جمعہ و جماعات کی بین الاقوامی کانفرنس (ع)سے متعلق(ع)ایک مختصر رپورٹ (اُردو) صفحہ ۲۲,  ناشر اتحادیہ انجمن ھای اسلامی دانشجویان ایرانی ہند,سال طباعت جنوری  ۱۹۸۳ء۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ھو ” تاریخ فلسفہ ٴ سیاسی “(فارسی) ,جلد ۱, صفحہ ۲۷۶,  تالیف و ترجمہ ڈاکٹر بھائالدین پازارگاد , ناشر کتاب فروشی زوار ,تھران  ۔
[2]  ” طرح جمھوری در اسلام “ (فارسی) صفحہ ۲۴,  تالیف  سید ابو القاسم حسینی ,  ناشر مؤلف , مطبوعہ تھران  ۔
” تاریخ آزاد فکری “ (فارسی) صفحہ ۱۴۷ , تالیف پروفیسر آلبرٹ بایر, پروفیسر پیرس یونیورسٹی , ترجمہ ڈاکٹر
  نصراللہ معمائی , ناشر سازمان نشر فرہنگ انسانی , ایران  ۔
[3] تفصیل کے ملاحظہ ھو ” تاریخ آزادی فکر “ (فارسی) صفحہ ۳۱(ع)۳۶ , تالیف  J.B. BURY  , ترجمہ حمید نیر نوری , ناشر کتاب خانہ ٴ دانش ,  تھران  ۱۹۵۱ ء  ۔
[4]   ” مغربی تمدن کی ایک جھلک “ صفحہ ۳۱(ع)۳۲ , تالیف علامہ مجتبیٰ موسوی لاری ,ترجمہ مولانا روشن علی ,مطبوعہ ہند۔
 ’ ’آئندہ در قلمرو اسلام ‘ ‘صفحہ ۹۳, تالیف سید قطب , ترجمہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای ,مطبوعہ مشھد ,۱۹۶۵ ء  
[5]  ” آج کا انسان اور اجتماعی مشکلات “ صفحہ ۶۶ ۔
[6]      ” بنی ھاشم و بنی امیہ “ (فارسی) صفحہ ۱۴, تالیف مقریزی , ترجمہ و شرح میر سید جعفر غضبان , مطبوعہ ایران ۔
    ” احیای فکر دینی در اسلام “ (فارسی) صفحہ ۱۷۸ , علامہ اقبال , ترجمہ احمد آرام , ناشر کتاب پایا ,ایران ۔
[7]   ” عدالت صحابہ کا نظریہ “  صفحہ ۱۳۷ , تالیف ڈاکٹر احمد حسین یعقوب , ترجمہ مولانا روشن علی , ناشر انصاریان , قم ۔
  ” حکومت از دید گاہ امام خمینی (رہ) “ (فارسی) صفحہ ۲۰ , مرتبہ ادارہ ٴ کل فرہنگ و ارشاد اسلامی تھران ۔
 ” النزاع والتخاصم“ صفحہ ۳۸ , تالیف تقی الدین مقریزی ,تحقیق حسین مونس ,ناشر دارالمعارف ,قاھرہ , مصر  ۔
[8]    ” فراز ھای از تاریخ پیامبر اسلام “ صفحہ ۲۸(ع)۲۹, تالیف استاد جعفر سبحانی ,ناشر دفتر نشر فرہنگ اسلامی , ایران  ۔
[9]   ” النزاع و التخاصم “ (عربی ) , تالیف مقریزی , صفحہ ۱۸(ع)۲۱ ناشر مکتبة الاھرام , مصر  ۔
[10]     ” النزاع و التخاصم “ (عربی) صفحہ ۲۲ , تالیف مقریزی ,  ناشر  مکتبة الاھرام , مصر  ۔
[11]    ” بنی ھاشم و بنی امیہ “ (فارسی) صفحہ ۵۹(ع)۷۱ , تالیف مقریزی , ترجمہ میر جعفر غضبان , مطبوعہ ایران  ۔
[12]     ” شرح نہج البلاغہ “ (عربی) ابن ابی الحدید,تحقیق شیخ حسن تمیم قاضی ٴ بیروت ,جلد ۱,صفحہ ۳۰۷ ,ناشر دارمکتبة ا لحیاة ,بیروت
      ” حیاة الامام حسن (ع) “ (عربی) , جلد ۲, صفحہ ۱۵۵, تالیف باقر شریف قرشی , ناشر مطبعة الآداب النجف الاشرف ,  تیسرا   ایڈیشن  ۱۹۷۳ ء    ۔
[13]     ” شرح نہج البلاغہ “ (عربی) ابن ابی الحدید , تحقیق محمد ابو الفضل ابراھیم, جلد ۱۰, صفحہ ۱۰۱ ,ناشر دار احیاء التراث العربی ,بیروت ,لبنان, دوسرا ایڈیشن  ۱۹۷۶ ء  ۔   و حیاة الامام حسن (ع) ,جلد ۲ , صفحہ ۱۵۵  ۔
[14]    ” مروج الذھب “ , جلد ۳ , صفحہ ۴۵۴ , مؤلف مسعودی متوفی ۳۴۶ ھ , ناشر دارالہجرة ,قم , دوسرا ایڈیشن ,  ۱۹۸۴ ء
[15] ” مروج الذھب ,جلد ۳, صفحہ ۴۵۴  ۔
[16]       سورہ ٴ  اسراٴ ,  آیت  ۶۰   ۔    
[17]  سورہ ٴ  نسا ء  ,  آیت  ۹۳  ۔      
[18] سورہ ٴ احزاب  ,  آیت  ۵  ۔
[19]    ” تاریخ طبری “  جلد ۱۰, صفحہ۵۷(ع)۶۲, تحقیق محمد ابوالفضل ابراھیم , ناشر دارالمعارف قاھرہ , مصر , تیسرا ایڈیشن
[20]   ”الکامل فی التاریخ “ ابن اثیر متوفی ۶۳۰ھ,جلد ۳ , صفحہ ۱۵۰ , ناشر دارالکتب العربی ,بیروت ,لبنان ,دوسرا ایڈیشن ۱۹۶۷ ء ,اس کے علاوہ الفاظ کے فرق کے ساتھ (ع)بجائے اھل عراق ,اھل شام لکھا ھے (ع)ملا حظہ ھو شرح ابن ابی الحدید ,جلد ۴ , صفحہ ۳۰ , تحقیق محمد ابو الفضل ابراھیم ,مطبوعہ داراحیا اٴ التراث العربی ,بیروت ,دوسرا ایڈیشن  ۱۹۶۵ ء 
[21]    ” شرح نہج البلاغہ “ تالیف ابن ابی الحدید معتزلی شافعی , جلد ۲ , صفحہ ۷۱ , ناشر داراحیاٴ التراث العربی ,بیروت , لبنان ,دوسرا ایڈیشن  ۱۹۶۵  ء  ۔
[22] ” شرح نہج البلاغہ“ ابن ابی الحدید معتزلی شافعی , جلد۲ , صفحہ ۸ , ناشر داراحیاٴ التراث العربی , بیروت , لبنان ,   دوسرا ایڈیشن   ۱۹۶۵ ء   ۔
[23]   ” شرح نہج البلاغہ“ ,ابن ابی الحدید معتزلی شافعی , جلد ۲ , صفحہ ۱۱۶(ع)۱۱۷ , ناشر داراحیاٴ التراث العربی , بیروت ,لبنان
[24]   ” الغارات“ صفحہ ۳۱۵۔        ” الغارات “ صفحہ ۳۴۵  ۔
[25]    ” مروج الذھب “ جلد ۳, صفحہ ۲۱(ع)۲۲, مؤلف مسعودی ,ناشردارالہجرة قم ,دوسرا ایڈیشن  ۱۹۸۴ ء  ۔
[26]    ”شرح نہج البلاغہ“ ابن ابی الحدید ,جلد ۲, صفحہ ۱۷, ناشر دار احیاٴ التراث العربی ,بیروت ,لبنان۔
[27]   ” مروج الذھب “ جلد ۲ , صفحہ ۴۰۹(ع)۴۱۰, تالیف مسعودی ,ناشر دارالہجرة , قم دوسرا ایڈیشن  ۱۹۸۴ ء   ۔
[28]   ” الامامة والسیاسة “  ,تالیف ابن قتیبہ دینوری متوفی ۲۷۰ھ ,جلد ۱ ,صفحہ ۱۷۲ , مطبوعہ مصر  ,  ۱۹۰۸ ء  ۔
[29]    ” الامامة و السیاسة“جلد ۱, صفحہ ۱۷۲, تالیف ابن قتیبہ دینوری , متوفی  ۲۷۰ ھ , مطبوعہ مصر  ۱۹۰۸ء
[30]     ” بحار الانوار“ جلد ۳۸ , صفحہ ۱۹۳ , ناشر موسسة الوفا ء , بیروت , لبنان  و  ” الطرائف “ جلد ۱ , صفحہ ۱۶۶ , تالیف   سید علی بن طاؤس حلی , ناشر مطبعة الخیام , قم  ۱۴۰۰ ھ  ۔
[31]    ” الامامة والسیاسة “ جلد ۱, صفحہ ۱۷۸, تالیف ابن قتیبہ دینوری  متوفی۲۷۰ھ ,مطبوعہ مصر , ۱۹۰۸ ء 
[32]   ” شرح نہج البلاغہ “ ابن ابی الحدید ,جلد ۱۱, صفحہ ۴۵, تحقیق محمد ابوالفضل ابراھیم ,ناشر دار احیاٴ التراث العربی , بیروت ,لبنان  ۔  
[33]   ” شرح نہج البلاغہ “ ابن ابی الحدید ,جلد ۱۱, صفحہ ۴۳ ۔
[34]   ” تاریخ تمدن اسلام “ (فارسی) جلد۴ , صفحہ ۴۴ , تالیف جرجی زیدان ,ترجمہ علی جواھر کلام ,ناشر مؤسسہ ٴ مطبوعاتی امیر کبیر ,تھران , دوسرا ایڈیشن  ۱۹۵۶ ء  ۔
  ” تاریخ تمدن اسلام “ (فارسی) جلد۴ , صفحہ ۴۴ , تالیف جرجی زیدان ,ترجمہ علی جواھر کلام ,ناشر مؤسسہ ٴ مطبوعاتی امیر کبیر ,تھران , دوسرا ایڈیشن  ۱۹۵۶ ء  ۔
[35]  ”مکمل تاریخ اسلام “ (اُردو) صفحہ ۴۹۴ ,مؤلف مفتی شوکت علی فھمی ,مطبوعہ دھلی  ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.