اخلاص کے معني

260

اخلاص کے معني

اخلاص سے مراد يہ ہے کہ انسان اپنے کام کو خدا کے لئے اور اپني ذمہ داري و تکاليف کي انجام دہي کي خاطر انجام دے ۔ جس کا نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ انسان نفساني خواہشات ، مال و دولت کے حصول ، شہرت و عزت ، لالچ و حرص وغيرہ کے لئے کوئي کام نہيں کرتا ۔ اخلاص ايک ايسي صفت ہے کہ اگر اس کي بنياد پر اقدام کيا جائے تو يہ تلوار کي طرح اپنے سامنے آنے والے ہر مانع کو دور کرتي جاتي ہے ۔
امام خميني کے اندر يہ صفت کمال کي حد تک تھي ۔ آپ اکثر فرماتے تھے کہ اگر ميرا کوئي عزيز ترين فرد بھي عدل و انصاف کے خلاف کوئي قدم اٹھائے گا تو ميں اس سے بھي چشم پوشي نہيں کروں گا اور ايسا کيا بھي ۔ حساس موقعوں پر وظيفہ کي انجام دہي کے ذريعہ دوسرے لوگوں کو بھي احساس دلايا ۔ خلوت ميں ، جلوت ميں ، چھوٹا کام ہو يا بڑا ، آپ نے ہميشہ اخلاص کو اپني ذاتي زندگي ميں اپنايا ۔ اور يہي وہ درس تھا جس کي بنا پر آپ کے شاگرد ، آپ کے چاہنے والے جوق در جوق سرحد پر دشمن سے جنگ کرنے دوڑے چلے جاتے تھے ۔ يہي وہ درس تھا جس کي بنياد پر ايران ميں معجز نما اسلامي انقلاب نمودار ہوا ۔
ايک بزرگ اہل عرفان و سلوک اپنے ايک مکتوب ميں تحرير فرماتے ہيں : اگر فرض کريں (بہ فرض محال )کہ رسول اکرم اپنے تمام امور کو ايک معين ہدف کے تحت انجام ديتے تھے اور آپ کا ہدف يہي ہوتا تھا کہ اپنے ان امور کو انجام کے مراحل تک پہنچا ديں اور پہنچا بھي ديا کرتے تھے مگر کسي اور شخص کي طرف سے يعني کسي اور کے نام سے ۔ کيا اس صورت ميں کہا جا سکتا ہے کہ رسول اکرم اپنے اس فعل سے راضي نہيں ہوتے تھے ؟ کيا يہ فرماتے تھے کہ يہ فعل چونکہ دوسرے کي طرف سے انجام دے رہا ہوں لہذا انجام نہيں دوں گا ؟ يا نہيں ، بلکہ آپ کا ہدف اپنے امور کي انجام دہي تھي اور بس ۔

قطع نظر اس سے کہ وہ فعل کس کے نام سے يا کس کي طرف سے انجام ديا جا رہا ہے ۔ حقيقت يہي ہے کہ لکھنے والا صحيح ہے کيونکہ ايک مخلص شخص کي نگاہ ميں کسي فعل کي انجام دہي اہم ہوتي ہے۔ اس کا ذہن ’’ من و تو ‘‘ سے ماورائ ہوتا ہے ۔ وہ اس بات سے بے پرواہ ہوتا ہے کہ اس فعل کا سہرا کس کے سر بندھے گا ۔ ايسا شخص با اخلاص ہوتا ہے اور خدا پر کامل يقين رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ خدا وند متعال يقينا اس کے فعل کا صلہ اس کو دے کر رہے گا کيونکہ خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے: ? ان جندنا لھم الغالبون ? خدا کے اس لشکر ميں اکثر و بيشتر ميدان جنگ ميں شہيد ہو جاتے ہيں اور ظاہري اعتبار سے ختم ہو جاتے ہيں ليکن خدا وند عالم فرماتا ہے ’’ ان جندنا لھم الغالبون ‘‘ يعني يہ لوگ مرنے کے بعد بھي غالب ہيں ۔
اخلاص: اہم ترين اسلحہ
اسلام ميں اصلاح دنیا کے لئے اصل و اصيل ، خود نفس انسان کي اصلاح کو بتايا گيا ہے ۔ ہر مسئلے کي شروعات يہيں سے ہوتي ہے ۔ قرآن کريم اپنے قوي اور محکم بازوں سے اوراق تاريخ پلٹنے والي قوم سے فرماتا ہے: ’’ قوا انفسکم ‘‘ ( سورہ تحريم ٦ ) ’’ عليکم انفسکم ‘‘ ( سورہ مائدہ ١٠٥ ) يعني اپنا تزکيہ نفس کرو ،اپنے نفس کي اصلاح کرو ۔ ’’ قد افلح من زکاھا ‘‘ ( سورہ شمس ٩ ) اگر صدر اسلام ميں اسلامي معاشرہ انساني نفوس کے تزکيہ سے شروع نہ ہوا ہوتا اور اس ميں مناسب حد تک با اخلاص اور متقي افراد پيدا نہ ہو گئے ہوتے تو اسلام قطعاً اپني بنياديں مستحکم نہيں کر سکتا تھا ۔ يہي مخلص اور متقي اور سچے مسلمان تھے جن کي بنياد پر اسلام دوسرے شرکائے مذاہب اور ممالک پر فاتح ہو کر تاريخ عالم ميں اپنا نام ثبت کر سکا ہے ۔
ہمارا اسلامي انقلاب بھي اس اخلاص ، تقوي اور اپنے ذاتي اور مادي مفادات سے اوپر اٹھ کر الہي اہداف کي انجام دہي جيسے وظيفے اور ذمہ داري کے احساس کي وجہ سے ہي رونما ہوا تھا ۔ ايران عراق جنگ کے دوران ہمارا يہي اسلحہ ہمارے لئے کار گر ثابت ہوا تھا ۔ ہمارے شہيد ، ہمارے جنگي مجروحين اور ان کے شہادت کے عميق جذبے نے ہي آج ہميں اتني بلندياں اور مراتب عطا کئے ہيں ۔ ساري دنيا ميں آج ہماري عزت اور شرف انھيں خدا دوست شہدائ اور مجروحين کي بنياد پر ہے اور بس ۔

اسلامي انقلاب کي بقائ اور دوام کا سر چشمہ صرف اور صرف اخلاص ہے
ہمارے اندر ہمارے سب سے بڑے دشمن نے بسيرا کر ليا ہے اور وہ دشمن نفس امارہ ، شہوات نفساني ، ہوي و ہوس اور خود پرستي ہے ۔ جس لمحے بھي ، خواہ وقتي طور پر ، ہم نے اس زہريلے سانپ اور خطر ناک دشمن کو قابو ميں کر ليا اسي لمحے ہم کامياب اور مجاہد في سبيل ا? ہو جائيں گے اور جب کبھي بھي ہمارا يہ دشمن ہماري عقل اور معنوي و روحاني قوتوں پر حاوي ہو گيا ہم مغلوب اور شکست خوردہ ہو کر رہ جائيں گے ۔
ہميں ہدايت بشر اور نجات انسان کي خاطر خلق کيا گيا ہے۔ لہذا ہمارا فريضہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے نفوس کي اصلاح اور تزکيہ کريں ۔ خدا وند عالم نے بے حد و بے حساب معنوي اور روحاني طاقتوں اور صلاحتيوں کو ہمارے اندر وديعت کيا ہے ۔ ہماري ذمہ داري ہے کہ ان قوتوں کو خود پرستي ، خود خواہي ، ہوي و ہوس نفساني جيسي صفات رذيلہ سے نجات ديں ۔
اخلاص اورایثار ہي اسلامي انقلاب کے موجد ہيں
اسلامي انقلاب اس انقلاب کا نام ہے جس نے ساري دنيا کو ہلا کر رکھ ديا تھا ۔ مشرق سے لے کر مغرب تک ہر زبان پر ايک ہي انقلاب تھا ، اسلامي انقلاب ۔ يہ سب کس نے کيا ؟ يہ انقلاب کون لے کر آيا ؟ کيا کوئي ايراني کہہ سکتا ہے کہ ہاں ! ميں يہ انقلاب لايا ہوں ۔ يقينا کوئي يہ دعوي نہيں کر سکتا ۔ يہ انقلاب صرف اور صرف الہي انقلاب ہے اور اس کا لانے والا اور موجد بھي خدا وند عالم ہے ۔ يہي وجہ ہے کہ کوئي بھي فرد اس انقلاب کو اپني طرف منسوب نہيں کرتا ہے حتي امام خميني۲ بھي اپني تمام تر عظمتوں اور بے نظير قربانيوں کے با وجود اس انقلاب کو اپني طرف منسوب نہيں کرتے تھے ۔ ہميشہ يہي کہاکہ يہ انقلاب ايراني عوام کي مخلصانہ اور مجاہدانہ کوششوں کا نتيجہ ہے ۔ اگر تجزيہ کريں تو نتيجہ يہي نکلتا ہے کہ امام خميني ۲ صحيح فرماتے تھے ۔ حقيقتاً امام خمیني۲ عوام کے لئے صرف ايک الہي ذريعہ اور وسيلہ تھے ورنہ اسلامي انقلاب کا اصل محرک خدا وند متعال ہے کيونکہ ايراني عوام نے مخلصانہ اور في سبيل ا? اسلامي انقلاب کے لئے اقدام کئے تھے لہذا مرضي خدا اور عنايت خدا بھي ان کے ساتھ تھي ۔ يہ عوام کا خلوص ہي تھا جس کي بنا پر خدا وند عالم نے اس اسلامي انقلاب کي تائيد کي ہے ۔
ارادہ اور ايمان ہر طرح کے اسلحہ اور طاقت پر غالب ہوتے ہيں
لبنان کے مومن مسلمانوں نے يہ ثابت کر ديا ہے کہ انسان کا ارادہ اور ايمان دنيا کے ہر مادي اسلحے اور طاقت پر غالب ہے ۔ يہي وہ مومن جوان تھے جنھوں نے بيروت کي سرحدوں تک آجانے والي اسرائيلي فوجوں کو کھديڑ کر اپني حدود سے باہر کر ديا تھا ۔
يہي وہ لبناني عوام تھے جنھوں نے امريکہ اور فرانس کي ان فوجوں کو ذليل و خوار کر کے لبنان سے باہر کر ديا تھا جو اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ لبنان ميں داخل ہو گئي تھيں ۔ لبناني عوام نے يہ کام اسلحوں اور مادي قوتوں اور طاقتوں کے بل بوتے پر نہيں کيا تھا کہ يہ لوگ مادي اسلحے کے لحاظ سے توبالکل تہي دست تھے ۔ بلکہ صرف اور صرف ايماني طاقت کے دم پر انجام ديا تھا ۔ يہ ايک ايسي قوت و طاقت ہے جو ايک مختصر سي اور مظلوم قوم ( وہ قوم جو ايک طويل عرصے سے اسرائيل اور اس کي ہمنوا سفاک طاقتوں کي تختہ مشق بني ہوئي ہے ) کو اتنا قوي اور مستحکم کر ديتي ہے کہ امريکہ ، فرانس اور اسرائيل شرمندہ اور ذليل ہو کر رہ جاتے ہيں ۔
آج بھي يہي ايمان اور اخلاص ، لبنان کے مومن جوانوں ميں ٹھاٹھيں مار رہا ہے ۔ يہ واقعي قابل تعريف اور ستائش ہے کيونکہ يہي وہ قوت ہے جس کے بل پر لبنان ، امريکہ اور يورپ کو يہ باور کرانے سے روکتا رہے گا کہ امريکہ اور اس کي حليف جماعتيں لبنان ميں اس کے آئندہ پر حاوي ہو سکتي ہيں ۔
اخلاص اور قرب خدا : امام خميني ۲ کي کاميابي کا راز
امام خميني ۲ کي کاميابي کا راز اخلاص اور قرب الہي تھا ۔ آپ اپني اس کوشش ميں بحسن ِخوبي کامياب ہو گئے تھے کہ ’’ اياک نستعين ‘‘ کو اپنے ميں مجسم کر ليں اور لا متناہي اور لا محدود الہي قدرت سے متصل ہو جائيں ۔
اگر ننھا سا قطرہ اپنے محدود اور چھوٹے سے وجود کے ساتھ ٹھاٹھيں مارتے ہوئے وسيع و عريض سمندر ميں غرق ہو جائے تو کوئي طاقت اسے ختم نہيں کر سکتي ۔ اگر ہر شخص امام خميني ۲ کي روش پر عمل پيرا ہو جائے تو امام خميني ۲ کي طرح ہو جائے گا ۔ البتہ يہ کوئي آسان کام نہيں ہے ۔ امام خميني ۲ نے اس مشکل اور نادر روزگار کو انجام ديا اور زندہ جاويد ہو گئے ۔ ہم ہر چند اس بلندي تک نہيں پہنچ سکتے ليکن بہر حال ہميں اپني توانائي بھر کوشش کرني چاہيے تاکہ اپني ذمہ داري اور وظيفے کي انجام دہي کسي نہ کسي حد تک ادا کر سکيں ۔
ہميں چاہيے کہ حضرت علي ٴ سے اخلاص کا درس حاصل کریں
امام خميني ۲ نے اس دور ميں جو عظيم کارنامہ انجام ديا وہ يہ تھا کہ ساري دنيا کو اسلام کے مقابل خاضع و خاشع بنا ديا اور دشمنان اسلام کو پيچھے ہٹنے پر مجبور کر ديا تھا ۔ نہج البلاغہ ميں حضرت علي ٴ فرماتے ہيں : و لقد کنا مع رسول ا?………..( نہج البلاغہ خطبہ ٥٦ )۔ہم خالصانہ اور مخلصانہ ميدان جنگ ميں ثابت قدم رہتے تھے ۔ ہمارے اعزائ قتل ہوتے رہتے تھے اور يہ سب ہمارے ايمان ميں اضافے کا سبب بنتا رہتا تھا ۔ خدا نے جب ہمارے اس خلوص اور صداقت کو ديکھا تو ہميں فاتح اور ہمارے دشمن کو مغلوب کر ديا ۔ اگر خدا نے ہماري مدد نہ کي ہوتي تو ہم موجودہ حالات تک نہ پہنچ پاتے ۔ ’’ ما قام للدين عمود و لا اخضر للايمان عود ‘‘ دين کا ايک بھي ستون قائم نہ رہ پاتا اور ايمان کي ايک بھي شاخ سرسبز نہ رہ پاتي ۔
يہ سب اس زمانے کے مسلمانوں کے خلوص اور صداقت کي ہي دين ہے کہ آج اسلام اس اعلي مقام تک رسائي حاصل کر سکا ہے اور ساري دنيا ميں اپنے جھنڈے گاڑ چکا ہے ۔ يہ اس زمانے کے با اخلاص مسلمانوں کا ہي کرشمہ ہے کہ موجودہ اسلامي معاشرہ وجود ميں آيا اور آج تک وہي اسلامي تمدن اور اسلامي تحريک ہم تک پہنچي ہے ۔ آج جہاں کہيں بھي مسلمان موجود ہيں ان کو حضرت علي ٴ کي حيات طيبہ سے اس عظيم درس کو حاصل کرنا چاہيے ۔

 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.